ماسٹر امام دین گائوں کا ہر دلعزیز بندہ تھا۔ اگرچہ کسی نے بھی اسے سکول میں کبھی پڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن پھر بھی اس کے نام کے ساتھ لفظ ماسٹر لگا ہوا تھا۔ بقول امام دین، وہ کسی دور میں سکول میں پڑھایا کرتا تھا۔ تب سے لفظ ’’ماسٹر‘‘ اس کے نام کا مستقل طور پر حصہ بن کر رہ گیا تھا۔
ماسٹر امام دین کی گائوں میں تھوڑی بہت زمین تھی اور اس نے گزر اوقات کے لیے جانور بھی رکھے ہوئے تھے۔ جن میں بھیڑ، بکریاں اور گائے شامل تھی۔ ماسٹر صاحب کا اصل کام باربرداری کا تھا۔ جس کے لیے اس نے ایک گدھا پال رکھا تھا۔ اس نے گدھے کے پیچھے لگانے کے لیے ایک چوبی ریہڑی بھی بنوا رکھی تھی۔ اگر مال تھوڑا ہوتا تو وہ گدھے کی پیٹھ پر لاد کر لے جایا کرتا تھا اور اگر مال زیادہ مقدار میں ہوتا یا زیادہ وزنی ہوتا تو وہ گدھے کے پیچھے ریہڑی جوت لیتا تھا۔
ماسٹر نے جب باربرداری کا کام شروع کیاتو آغاز میں ہی ایک نر اور مادہ گدھے کا جوڑا خریدا تھا۔ مادہ گدھی تو پہلے بچے کی پیدائش کے دوران ہی فوت ہو گئی لیکن بچہ اب جوان تھا اور کام کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔ وہ ماسٹر سے مانوس بھی بہت تھا۔
ماسٹر انتہائی ہنس مکھ انسان تھا۔ گائوں کے لوگوں کو ہنساتے رہنا اس کا مشغلہ تھا۔ وہ صبح سویرے اُٹھتا، جانوروں کے چارے کا بندوبست کرتا، ان کو پانی پلاتا اور کبھی کبھی ان کو نہلاتا بھی تھا۔ اس کام کاج سے فارغ ہو کر وہ گھر آتا اور ناشتہ کرتا۔ ناشتے کے بعد وہ گدھے اور اس کے بچے کو لے کر باربرداری کے لیے نکل جاتا تھا۔
وہ لوگوں کا سامان ساتھ والے گائوں میں لے جاتا اور واپسی میں لوگوں کی ضرورت کی چیزیں اور سودا سلف اٹھا لاتا تھا۔ وہ مہینے میں کم از کم دو چکر شہر کے بھی لگاتا تھا اور وہاں سے لوگوں کی ضرورت کی چیزیں اور سودا سلف لایا کرتا تھا۔
شہر سے واپسی پر لوگوں کیلئے اس کے پاس نہ صرف بہت سارا سامان ہوا کرتا تھا بلکہ انہیں بتانے کے لیے بہت سی خبریں اور چٹ پٹی باتیں بھی ہوا کرتی تھیں جو وہ شہر سے سن کر آتا تھا۔ گائوں میں کئی لوگ ایسے بھی رہائش پذیر تھے جنہوں نے آج تک شہر کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔
جب اس کا بیٹا بڑا ہواتو اس نے باربرداری کا کام سنبھال لیا— ماسٹر نے باربرداری کیلئے جانا بند کر دیا۔ اب زیادہ کام اس کا بیٹا ہی کرتا تھا۔ وہ کبھی کبھار ہی کام پر جاتا تھا۔
ماسٹر اب زیادہ تر گائوں میں ہی رہتا تھا اور اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔ اسے جانوروں سے دلی لگائو تھا— محبت تھی— اس نے اپنے تمام جانوروں کے الگ الگ نام رکھے ہوئے تھے۔ گدھے کا نام اس نے ’’گلو‘‘ رکھا ہوا تھا جبکہ گدھے کے بچے کا نام اس نے ’’گلدان‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ مزے کی بات تھی کہ اس کے تمام جانوروں کو نہ صرف اپنے نام کا پتا تھا بلکہ انہوں نے دل سے یہ نام قبول بھی کر رکھے تھے۔
ماسٹر سارے جانوروں کا بہت خیال رکھا کرتا تھا۔ جانوروں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اسے بہت درد مند اور رحیم دل بھی عطا کر رکھا تھا، البتہ ماسٹر کو گدھے اور اس کے بچے ’’گلدان‘‘ سے اتنا پیار اور انس نہیں تھا۔ اس امتیازی سلوک کو گلدان محسوس کرتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے باپ سے کہا، ’’بابا! یہ ماسٹر بڑا اچھا بندہ ہے۔ سارے جانوروں سے پیار کرتا ہے۔ سب کا برابر خیال رکھتا ہے لیکن صرف ہمیں ہی کیوں گالیاں دیتا رہتا ہے؟‘‘
اس کا باپ ’’گلو‘‘ بولا، ’’پتر! انسان نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن ابھی تک اسے یہ نہیں پتا کہ ہم اس کی زبان اور بات سمجھتے ہیں لیکن وہ ہماری ایک بات بھی نہیں سمجھ سکتا۔ بیٹا! ہم تو عمر گزار چکے ہیں۔ تم جوان ہو۔ اس لیے زیادہ جذباتی ہو کر ایسی باتیں سوچتے رہتے ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ تم ساری چیزیں ازخود سمجھ جائو گے۔‘‘
یہ گائوں بھی روایتی انداز کا تھا۔ یہاں کی زیادہ تر زمین چودھری منظور اور اس کے رشتہ داروں کی تھی۔ گائوں کے زیادہ تر لوگ اس کے مزارع تھے۔ ماسٹر کی البتہ تھوڑی بہت زمین تھی جس سے گھر کا اناج پورا ہو جاتا تھا جبکہ چارہ حاصل کرنے کے لیے وہ بھی چودھری کی زمین کاشت کرتا تھا۔
چودھری منظور ایک طرح سے گائوں کا بادشاہ تھا۔ گائوں کے سارے فیصلے اس کی جنبشِ ابرو سے ہوتے تھے۔ چودھری اور اس کے حواری اگرچہ کوئی کام نہیں کرتے تھے لیکن گائوں میں اچھے گھر بھی ان کے تھے اور ان کی عزت بھی زیادہ تھی— باقی لوگ غلاموں کی سی زندگی گزارتے تھے اور چودھری کی نظرِ کرم کے منتظر رہتے تھے۔
ایک دن گلو نے اپنے بیٹے گلدان سے کہا، ’’بیٹا! تم اکثر مجھ سے سوال کرتے ہو کہ انسان گدھے کو باقی جانوروں کی نسبت حقیر کیوں سمجھتا ہے؟ میرے خیال میں ابھی تم نے آس پاس کے ماحول کو غور سے دیکھا نہیں ہے کیونکہ اگر تمہیں ارد گرد کے ماحول کی سمجھ آ گئی ہوتی تو تمہیں یہ بھی پتہ چل چکا ہوتا کہ ہم کیوں حقیر سمجھے جاتے ہیں؟‘‘
گلدان نے حیرانی سے کہا، ’’نہیں بابا! میں ابھی تک کچھ سمجھ نہیں پایا ہوں۔‘‘
گلو ایک سرد آہ بھر کر بولا، ’’پتر! انسان صرف ہم جانوروں میں ہی تفریق نہیں کرتا بلکہ ان کے اندر بھی گہری تفریق موجود ہے۔‘‘
’’کیسی تفریق بابا؟‘‘ گلدان نے دلچسپی لی۔
گلو کھڑے کھڑے تنگ آ گیا تھا۔ بیٹھتے ہوئے بولا، ’’انسانوں میں بھی تو سارے برابر نہیں ہیں۔ کوئی بڑا ہے اور کوئی چھوٹا۔ کوئی زیادہ مرتبے والا ہے تو کوئی کم تر۔ کسی کی عزت زیادہ ہے تو کسی کی سرے سے عزت ہے ہی نہیں۔ کئی لوگوں کی تو ہم گدھوں سے زیادہ بے توقیری ہوتی ہے اور وہ چپ چاپ اس تذلیل کو سہتے رہتے ہیں۔‘‘
وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ جیسے کسی گہری سوچ میں مستغرق ہو گیا تھا۔ گلدان بڑی بے چینی سے اس کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔ گلو نے چند لقمے گھاس کے لیے ، پھر ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا، ’’کل تم نے دیکھا ہو گا۔ فضلو موچی بڑی اچھی جوتی بنا کر چودھری کے پاس لایا تو چودھری نے اسے کیسے بے عزت کیا؟ یہ کہتے ہوئے اس کے منہ پر جوتی دے ماری کہ چودھریوں کے لیے ایسی جوتی بناتے ہیں؟— حالانکہ وہ بے چارہ چوہدری کے لیے ہر وقت اچھی سے اچھی جوتی بنا کر لاتا رہتا ہے لیکن پھر بھی اس کی عزت ہم گدھوں جیسی ہے۔ ہائے بے چارہ فضلو!—‘‘
گلدان ساری باتیں انہماک سے سن رہا تھا۔ اسے ان باتوں میں بڑی دلچسپی محسوس ہو رہی تھی۔ گلو ایک توقف کے بعد بولا، ’’کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ خادم حجام چودھری کی حجامت بنا رہا تھا کہ اچانک ہی چودھری کو اس کی کسی بات پر غصہ آ گیا۔ اس نے آئو دیکھا نہ تائو، خادم کی اچھی خاصی دھلائی کر کے رکھ دی۔ ایسی دھلائی تو آج تک ہم گدھوں کی بھی نہیں ہوئی ہو گی۔‘‘
گلدان نے اداسی سے کہا، ’’بابا! ہمارے حالات بدل بھی سکتے ہیں؟‘‘
گلو افسردگی سے بولا، ’’پتر! انسان سے بھلائی کی توقع نہ رکھو۔ جو انسان اپنے جیسے انسانوں پر ظلم سے باز نہیں آتا، اس سے ہم کیسے خیر کی توقع کر سکتے ہیں۔‘‘
گلدان کی بڑی بڑی آنکھوں میں حسرت سے دو آنسو بھر آئے۔
ماسٹر صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد آ جاتا تھا۔ آتے ہی وہ آواز لگاتا، ’’چل بے گلو! اوئے گلدان! کام کے لیے تیار ہو جائو۔ بہت عیاشی کر لی تم دونوں نے۔ صرف کھا کر پیٹ نہیں بھرنا، دھندا بھی تو کرنا ہے۔‘‘
ماسٹر کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک بڑی سی چھڑی ہوا کرتی تھی۔ وہ یہ چھڑی دوسرے جانوروں پر تو کم استعمال کرتا تھا لیکن گدھے پر تو ضرورت سے زیادہ استعمال کرتا تھا — ساتھ ساتھ گالیاں بھی دیا کرتا تھا، ’’چل ابے— الو کے پٹھے — حرام خور کہیں کے—‘‘
گائوں کے لوگ شہر اور دوسرے گائوں کو لے جانے والاسامان ایک رات پہلے ہی اس کے گھر پہنچا دیا کرتے تھے۔ وہ صبح سویرے ہی باپ بیٹے میں سے کسی ایک کو ریہڑی میں جوت دیا کرتا تھا جبکہ دوسرے کے اوپر سامان رکھنے کیلئے لانگھی رکھ دیا کرتا تھا۔
گلدان تو جوان اور مضبوط تھا لیکن گلو اب بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس کے لیے کام کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ بہت جلد تھک جاتا تھا۔ ہانپنے لگتا تھا۔ زندگی کی گاڑی کو مجبوراً کھینچ رہا تھا— گلو کو زندگی کے تجربات نے سکھا دیا تھا کہ انسان سے رحم کی توقع رکھنا فضول ہے۔ رحم کی اپیل رائیگاں جاتی ہے۔ اس کا باپ بھی اس کی آنکھوں کے سامنے سم رگڑ رگڑ کر مرا تھا۔ نحیف و نزار ہو چکا تھا اور کام کرنے کے قابل نہیں رہا تھا لیکن پھر بھی اسے ڈنڈے مار مار کر اٹھایا جاتا تھا اور ریہڑی کے آگے لگا دیا جاتا تھا— اسے شاید سکون اس دن ملا تھا جس دن اس کی روح اس کے جسم سے پرواز کر گئی تھی۔
گلو نے اپنی زندگی میں انسان سے زیادہ ظالم کوئی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے انسان کے کئی ظالمانہ روپ دیکھ رکھے تھے— اس نے انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم ہوتے بھی دیکھا تھا — گائوں کے بوڑھے نحیف و نزار لوگ بھی چودھری کے ہاتھوں کام کرنے پر مجبور تھے۔ اسے وہ بوڑھا غلام رسول نہیں بھولتا تھا جو معذوری کے باوجود کام کرنے پر مجبور تھا۔ وہ جب گھاس کاٹتے ہوئے تھک جاتا تھا اور کچھ دیر آرام کرنے لگتا تو چودھری کا کارندہ اسے دو تھپڑ مارتے ہوئے کہا کرتا تھا، ’’چل! حرام خور کہیں کا!— کام کر، کام— مفت کی روٹیاں توڑتا رہتا ہے ہر وقت—‘‘
گلو کبھی کبھی اس بات پر مسکرا بھی دیتا تھا، ’’چلو! کچھ انسان بھی تو ایسے ہیں جن کا مرتبہ ہم سے بھی کم ہے، یا ہمارے جیسا ہے۔‘‘
گلو اور گلدان کی زندگی ایک دائرے میں گھوم رہی تھی۔ صبح سویرے اٹھنا، چارہ زہر مار کرنا اور پھر سامان اُٹھا کر منزل کی طرف روانہ ہو جانا— گلدان تو ابھی جوان اور مضبوط تھا لیکن گلو بوڑھا ہو چکا تھا۔ وہ اکثر اٹھنے میں دیر کر دیا کرتا تھا۔ ماسٹر اُسے آغاز میں ہی دو تین ڈنڈے رسید کر دیتا تھا۔ یہ دو تین ڈنڈے گلو کے ناشتے کا اہم حصہ بن چکے تھے۔
راستے میں بھی جب وہ تھک کر رفتار آہستہ کرتا تو اسے دو چار ڈنڈے پھر بھی پڑ جایا کرتے تھے۔ اُسے مار پڑتے دیکھ کر گلدان کو بڑا غصہ آتا تھا لیکن وہ کیا کر سکتا تھا۔ اس نے کئی بار اپنی بے عزتی پرگلدان کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھے تھے مگر ان آنسوئوں کو یہاں کون دیکھتا تھا۔ کون ان کے دکھ سکھ کی پروا کرتا تھا۔ جب انسان کو اپنے جیسے انسان کے آنسوئوں کی پروا نہیں تھی، تو گدھے کے آنسو کس شمار میں تھے، کس کھاتے میں تھے۔
گلدان جوان تھا۔ وزن بھی زیادہ اُٹھاتا تھا اور چلتا بھی زیادہ رفتار سے تھا لیکن پھر بھی دن میں دو چار ڈنڈے اسے ضرور پڑ جاتے تھے۔ وہ جوان خون تھا۔ اس لیے بے گناہ مار کھانے پر غصے کا اظہار بھی کر دیتا تھا۔ کبھی کبھار ماسٹر کو دولتیاں مارنے کی کوشش بھی کر بیٹھتا تھا۔ کبھی ایک آدھ دولتی ماسٹر کو لگ بھی جاتی تھی۔ اس جرات پر اسے دو چار ڈنڈے مزید پڑ جایا کرتے تھے۔ کبھی وہ اپنے غصے کا اظہار بلند آواز میں چیخ چلا کر بھی کیا کرتا تھا۔
گلو اپنے نادان بیٹے کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ لیکن جوان خون زیادہ اُبل جاتا تھا اور اس کی نصیحتوں کو خاطر میں نہ لا کر اپنا جذباتی ردعمل ظاہر کر دیا کرتا تھا۔ گلو سمجھاتا، ’’پتر! اس طرح دولتیاں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ الٹا زیادہ مار پڑتی ہے۔ انسان آواز اٹھانے پر اپنے جیسے انسانوں کو معاف نہیں کرتا تو ہم گدھوں کی آواز کو کیا اہمیت دے گا؟ یاد نہیں، ہمارا مالک ماسٹر خود کچھ دن پہلے ایسی باتوں پر چودھری سے مار کھا چکا ہے۔‘‘
گلدان پر ایسی باتوں کا اثر کم ہی ہوتا تھا۔ ایک طرف اس کی دولتیاں بڑھتی جا رہی تھیں، دوسری طرف اسے زیادہ ڈنڈے رسید ہونے لگے تھے۔
ماسٹر نے اپنے باڑے میں گائے، بھینس، بکریوں اور بیل کے علاوہ ایک کالے رنگ کا خوبصورت گھوڑا بھی رکھا ہوا تھا۔ بڑے زمینداروں کے علاوہ صرف اسی کے پاس گھوڑا تھا۔
اگرچہ وہ غریب بندہ تھا، اور اس کے لیے گھوڑے کے اخراجات پورے کرنا آسان نہ تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور تھا۔ گھوڑے کی بہت زیادہ خدمت ہوتی تھی۔ ماسٹر کام پر جانے سے پہلے اسے خود نہلاتا تھا — تیل کے ساتھ اس کے پورے جسم کی مالش کیا کرتا تھا۔ اسے دودھ میں بادام ڈال کر پلایا کرتا تھا۔ کبھی کبھار اس کے لیے خاص قسم کا حلوہ بھی بنایا جاتا تھا۔ ماسٹر جب کبھی بیٹے کو کام پر بھیجتا تو خود بڑے فخر سے گھوڑے پر سواری کیا کرتا اور اسے پورے گائوں میں گھمایا کرتا تھا۔
گلدان گھوڑے کی آئو بھگت سے بہت اذیت میں مبتلا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے باپ سے کہا، ’’ابا! یہ گھوڑا کرتا تو کچھ بھی نہیں سوائے کبھی کبھار مالک کو سواری کرانے کے لیکن اس کی آئو بھگت دیکھو۔ کبھی میوے، کبھی حلوہ اور کبھی دودھ— کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا— اور ایک ہمیں دیکھو۔ دن رات کام کرو اور پھر بھی مقدر میں گالیاں، ڈنڈے اور سوکھی سڑی گھاس۔‘‘
گلو ایک نظر اسے دیکھ کر مسکرایا اور بولا، ’’پتر! تم ابھی نئے نئے جوان ہوئے ہو۔ ابھی تمہیں ان انسانوں کا تجربہ نہیں ہے۔ جس طرح انسانوں نے اپنے اندر درجہ بندی کی ہوئی ہے، کوئی چھوٹا، کوئی بڑا، کوئی کم عزت والا— کوئی مقدس تو کوئی ذلیل— اسی طرح جانوروں میں بھی اس نے درجہ بندی کی ہوئی ہے۔ کوئی جانور معزز ہے جیسا کہ یہ گھوڑا— اور کوئی ذلیل تر، جیسے ہم گدھے—‘‘
گلدان لفظ ’’ذلیل‘‘ سن کر بہت افسردہ ہو گیا تھا کیونکہ یہ لفظ اس کا مالک اکثر اس کے لیے استعمال کیا کرتا تھا۔ اس نے افسردگی سے اپنے باپ سے پوچھا، ’’ابا! ہم انسان کی اتنی خدمت کرتے ہیں۔ اس کا سامان ڈھوتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر بھی ہماری عزت کیوں نہیں ہے؟‘‘
گلو اس کے معصومانہ سوال سن کر اکثر مسکراتا تھا۔ وہ بولا، ’’پتر! یہاں عزت صرف طاقت کی ہے۔ جنگل میں شیر اور چیتا طاقت ور ہیں۔ اس لیے ان کی عزت اور قدر زیادہ ہے جبکہ ہم جیسے کمزور جانور گھٹ گھٹ کر زندگی جیتے ہیں— یہاں کام اور محنت کی بالکل عزت نہیں ہے۔ تم انسانوں میں ہی دیکھ لو۔ ۔۔فضلو موچی پورے گائوں والوں کے جوتے بناتا ہے لیکن پھر بھی اس کی کوئی عزت نہیں ہے۔ ہر وقت چودھری کے ہاتھوں بے عزت ہوتا ہے۔ خادم حجام کو ہی دیکھ لو۔ کئی دفعہ چودھری سے مار کھا چکا ہے۔‘‘
آہٹ سن کر وہ ایک لمحے کے لیے رک گیا تھا۔ ماسٹر کا بیٹا آیا اور جلدی سے ان کے سامنے پانی کی بالٹی رکھ کر چلا گیا۔ دونوں باپ بیٹا پانی پینے لگے۔
گلدان ابھی تک بے چین تھا۔ بولا، ’’بابا! بات تو درمیان میں ہی رہ گئی۔‘‘
گلو نے پانی کی بالٹی سے منہ باہر نکالا اور ایک ہنکارا بھر کر بولا، ’’پتر! چودھریوں کے مزارعوں کو ہی دیکھ لو۔ وہ بھی ہم گدھوں کی طرح ہیں۔ سارا دن محنت مشقت کرتے ہیں اور شام کو چودھری کی جھڑکیاں کھاتے ہیں۔ کھانے کیلئے ان کو بچی کچھی روٹی ملتی ہے جبکہ چودھری اور اس کے حواری سارا دن کچھ نہیں کرتے اور آخر میں سب سے اچھی خوراک ان کو ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘
انہیں باتیں کرتے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ رات کافی ڈھل چکی تھی۔ تقریباً تمام جانور سو چکے تھے۔ کہیں کہیں سے کتوں کے بھونکنے یا بلیوں کے آپس میں لڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ گلو کو نیند آ رہی تھی لیکن گلدان کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ وہ بہت بے چین تھا۔ وہ سارے ہی سوالات کے جوابات آج ہی معلوم کر لینا چاہتا تھا۔
وہ بولا، ’’بابا! آپ کی بات مان لیتا ہوں کہ طاقت ور کی عزت ہے لیکن یہ گائے، بھینس اور بیل وغیرہ بھی تو کمزور جانور ہیں۔ ان کی عزت ہم سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
گلو کو اگرچہ نیند آ رہی تھی لیکن وہ اپنے بیٹے کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ بولا، ’’انسان ہر چیز میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ گائے اور بھینس سے دودھ حاصل کرتا ہے جبکہ بیل سے یہ ہل چلانے کا کام لیتا ہے۔ اس لیے ان کا خیال بھی زیادہ رکھتا ہے۔‘‘
’’بابا! کام تو ہم بھی کرتے ہیں۔‘‘
’’کام کام میں فرق ہے۔ بالخصوص انسان کیلئے دونوں کاموں کی حیثیت مختلف ہے۔‘‘
دونوں باپ بیٹا بہت تھک چکے تھے۔ باتیں کرتے کرتے دونوں کو نیند نے آ لیا تھا۔ انہیں سونا تھا کیونکہ آنے والی صبح ہر صبح کی طرح مشقت سے بھری ہوئی تھی۔
محنت مشقت کرنے والوں کو زندگی میں کبھی سکون نہیں ملتا۔ ہر روز ایک مشکل تر صبح ان کی منتظر ہوتی ہے۔
دونوں باپ بیٹا حسبِ معمول صبح ہوتے ہی کام پر نکل جاتے تھے اور سورج غروب ہونے کے بعد واپس آتے تھے۔ لیکن آج خلافِ معمول ماسٹر ان کو بہت جلد ہی واپس لے آیا تھا— وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے تھے۔
آج ماسٹر خوشی سے گنگنا بھی رہا تھا۔ ڈیرے پر خلافِ معمول کچھ زیادہ ہی لوگ جمع تھے۔ ماسٹر اپنی ایک بوڑھی گائے اور بیل کو میدان میں لے آیا۔ لوگوں نے پہلے گائے کو پکڑ کر گرایا اور ذبح کر دیا۔ پھر بیل کو بھی زبردستی پکڑا اور اسے زمین پر گرا کر اس کا گلا سرخ کر دیا۔
گلو نے تو یہ منظر کئی بار دیکھا تھا لیکن گلدان یہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اسے جھرجھری آ گئی۔ گلو نے اداسی سے اپنے بیٹے کو بتایا، ’’میں کہتا تھا نا کہ انسان سے بڑا ظالم دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ یہ بہت سنگدل ہے۔ اب تو تم نے اپنی آنکھوں سے یہ تماشا بھی دیکھ ہی لیا ہے۔ یہ بوڑھی گائے بے چاری اب دودھ دینے کے لائق نہیں رہی تو انسان نے اس کے گلے پر چھری چلا دی۔ اسی طرح یہ بوڑھا بیل بھی اب ہل چلانے کے لائق نہیں رہا تو اس سنگ دل انسان نے اس کے گلے پر تند چھری چلا دی ہے۔ واقعی یہ انسان بڑا خود غرض ہے۔‘‘
گلدان یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے باپ سے پوچھا، ’’بابا! یہ ماسٹر ایک دن ہم پر بھی اسی طرح چھری چلا دے گا؟‘‘
گلو بولا، ’’اسی لیے تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ محنت سے کام کیا کرو۔ جب تک تم کام کرتے رہو گے، انسان کو فائدہ دیتے رہو گے، یہ تمہیں نہیں مارے گا بلکہ تمہیں کھلاتا پلاتا رہے گا۔ ایک دفعہ تم بیکار ہوئے تو یہ تمہارے گلے پر چھری چلا دے گا۔‘‘
آج کی رات گلدان پر بہت بھاری تھی۔ وہ خوف سے ساری رات سو نہیں سکا تھا۔
صبح صبح ماسٹر کا بیٹا دونوں کو گھاس ڈالنے آیا تو بہت غصے میں تھا— اس نےآتے ہی دونوں باپ بیٹوں پر ڈنڈوں کی بارش کر دی۔ وہ غصے میں دونوں کو گالیاں دے رہا تھا —وہ دونوں کو ڈنڈے مار رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے باپ کو بھی گالیاں دے رہا تھا۔
گلدان کو بہت غصہ آیالیکن مارے بے بسی کے سسک کر رہ گیا۔ وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ بندھا ہوا تھا۔ کھلا ہوتا، تب بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا، ’’بابا! ہماری قسمت دیکھو، یہ اپنے باپ کا غصہ ہم پر نکال رہا ہے۔بابا! اس سے تو اچھا تھا کہ ہم جنگل میں ہوتے— سنا ہے کہ سارے جانور پہلے جنگل میں ہی رہا کرتے تھے۔ بعد میں انسان ان کو اپنے پاس لے آیا۔‘‘
گلو نے اثبات میں سر ہلایا۔ جیسے اس کی بات سے متفق ہو۔ بولا، ’’ہاں! ہم بھی پہلے جنگل میں ہی رہتے تھے لیکن وہاں زندگی کون سی آسان تھی؟ وہاں بھی ہر وقت جان کے لالے پڑے رہتے تھے۔ شیر اور چیتے جیسے طاقت ور جانور موقع ملتے ہی ہمیں چیر پھاڑ دیتے تھے۔‘‘
گلدان بولا، ’’جتنے دن جنگل میں رہتے، کم از کم عزت سے اور اپنی مرضی سے تو جیتے نا— یہ ذلت اور غلامی تو ہمارے مقدر میں نہ ہوتی۔مرنا تو ہم نے ایک دن ویسے بھی ہے ۔‘‘
گلو خاموش رہا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی بات سے متفق نہیں تھا۔
زندگی اپنی ڈگر پہ چل رہی تھی۔ دونوں باپ بیٹے کی زندگی کے وہی صبح وہی شام تھے۔ گلو نے تو وقت سے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا تھا لیکن گلدان ابھی تک سرکش تھا۔ ایک رات جب دونوں باپ بیٹے کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی، گلدان نے اپنے باپ سے پوچھا، ’’بابا! اور بھی تو بہت سے ڈیل ڈول والے جانور تھے، پھر اس سامان ڈھونے والے مشکل کام کے لیے ہم بدنصیب ہی کیوں انسان کی نظر میں آگئے اور اس نے ہمیں باربرداری کیلئے مخصوص کر دیا۔‘‘
گلو بولا، ’’بیٹا! یہ لمبی کہانی ہے۔ جو میں نے اپنے پرکھوں سے سنا وہ آج تمہیں بتاتا ہوں۔ اگر ہمارے بزرگ جرات کرتے تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا— اپنے بزرگوں کی بزدلی اور کمزوری کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔‘‘
آج موسم بہت اچھا تھا۔ باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جس کی سرسراہٹ اندھیرے میں خوف ناک محسوس ہو رہی تھی۔ ماضی کو یاد کر کے گلو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے لیکن اندھیرے کی وجہ سے گلدان دیکھ نہ سکا۔ اس نے ہنکارا بھرا اور پھر بولا، ’’باربرداری کے لیے سب سے پہلے انسان کی نظر شیر اور چیتے پر پڑی کیونکہ دونوں بہت طاقت ور تھے۔ انسان کا خیال تھا کہ یہ زیادہ سامان لے جا سکتے ہیں لیکن دونوں اپنی خونخواری اور بہادری کی وجہ سے انسان کے قابو میں نہ آ سکے۔ چند شیر اور چیتے انسان نے پکڑ کر ریڑھی کے آگے لگائے لیکن کچھ ہی دنوں بعد یہ اپنے مالک کو چیر پھاڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انسان ان کو قابو کرنے کی جرات ہی نہیں کر سکا۔‘‘
گلدان نے آہ بھری، ’’کاش! میں بھی شیر ہوتا۔‘‘
گلو بولا، ’’بیٹا! قسمت کا لکھا کون تبدیل کر سکتا ہے‘‘
چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔ دونوں کہیں کھو گئے تھے۔ پھر گلدان نے ہی اس خاموشی کو توڑا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
گلو نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا، ’’انسان بنیادی طور پر کمزور ہے۔ باربرداری جیسا مشکل کام وہ نہیں کر سکتا۔ وہ بے چینی سے کسی جانور کی تلاش میں تھا— ہاتھی کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آتا تھا کہ اتنا ڈیل ڈول والا جانور تو بہت زیادہ وزن اٹھا سکتا ہے۔‘‘
گلدان نے بے چینی سے پوچھا، ’’پھر ہاتھی انسان کے ہاتھ کیوں نہیں آیا؟‘‘
وہ بولا، ’’انسان نے ہاتھی کو پکڑنے کی بہت کوشش کی۔ اس کوشش میں کئی انسان ہاتھی کی سونڈ سے ہلاک ہو گئے— کچھ اس کے پائوں تلے روندے گئے۔ آخر کار تھک ہار کر انسان نے ہاتھی کا پیچھا چھوڑ دیا۔ ‘‘
گلدان نے طنز کیا، ’’پھر ہم بیوقوف اور بے غیرت گدھے انسان کے ہاتھ آگئے۔‘‘
گلو اب اداسی سے نکل چکا تھا۔ اس نے قہقہہ لگایا، ’’نہیں نہیں— ہم گدھوں کی باری تو سب سے آخر میں آئی۔ ہاتھی کے بعد انسان کی نظر لومڑی پر پڑی۔ لومڑی اگرچہ بظاہر دیکھنے میں کمزور تھی لیکن اپنی پھرتی کی وجہ سے انسان کی نظروں میں آگئی — پھر انسان اسے آسانی سے قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
گلدان حیرت سے بولا، ’’اس کا مطلب ہے کہ لومڑی بی بی بھی ہمارے والا کام کرتی رہی ہے؟‘‘
گلو بولا، ’’ہاں ہاں! کچھ عرصہ یہ کام اس نے کیا لیکن پھر اپنی چالاکی کی وجہ سے جلد ہی انسان سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ لیکن دونوں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ گلو ایک لمحہ توقف کے بعد بولا، ’’پھر انسان کتے کو آسانی سے قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کتا اگرچہ بہادر ہے لیکن اتنا عقلمند نہیں ہے۔‘‘
گلدان نے دلچسپی سے پوچھا، ’’پھر کتے کی جان کیسے چھوٹی؟‘‘
کہانی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔
گلو مسکراتے ہوئے بولا، ’’کتا ریہڑی کے آگے تو آسانی سے جُت گیا لیکن اس نے بھونکنے والی عادت نہ چھوڑی— کبھی وہ مالک پر کاٹنے کے لیے حملہ بھی کر دیتا تھا— کبھی کبھار سامنے دکھائی دینے والے کتے پر ریہڑی اور سامان سمیت حملہ کر دیتا تھا جس سے سامان ضائع ہو جاتا تھا یا ریہڑی ٹوٹ پھوٹ جاتی تھی۔انسان نے اسے کبھی مارا پیٹا تو کبھی پیار سے قابو کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ کتا کتا ہی رہا، مال بردار نہ بن سکا۔ تنگ آ کر انسان نے کتے کو آزاد کر دیا۔‘‘
گلدان کی دلچسپی کہانی میں بڑھ گئی تھی۔ اس نے پوچھا، ’’پھر ہم گدھوں کی باری کب آئی؟‘‘
گلو نے قہقہہ لگایا، ’’کتے کےبعد ہمارا ہی نمبر آیا تھا اور انسان کی یہ آخری کوشش کامیاب ہو گئی— شروع میں وہ ہماری جسامت سے خوف زدہ تھا لیکن پھر وہ ہماری بے وقوفی کو بھانپ گیا۔ ہم آسانی سے اس کے قابو میں آ گئے اور اس نے ہمیں ریہڑی کے آگے جوت دیا۔ کچھ گدھوں نے دولتیاں مار کر احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن باقی گدھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ اس نااتفاقی کی وجہ سے ہم اس انجام سے دوچار ہو ئے ہیں۔‘‘
گلدان یہ داستان سن کر نہایت رنجیدہ ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کا ریلا بہہ نکلا۔
باپ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’گلدان! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ہم ہی کم تر نہیں، کچھ اور جانور بھی ہمارے جیسے ہیں۔‘‘
گلدان نے افسردگی سے پوچھا، ’’وہ کون سے جانور ہیں؟‘‘
گلو مسکرا کر بولا، ’’جانور تو رہے ایک طرف، کچھ انسان بھی ہماری طرح واقع ہوئے ہیں۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ یہ فضلو موچی، خادم حجام اور مزارع ہم سے بھی زیادہ محنت، مشقت اور فرمانبرداری کرتے ہیں لیکن پھر بھی شام کو مالک سے لاتیں کھاتے ہیں، گالیاں بھی سنتے ہیں اور کبھی کبھار ان کو زمین پر گھسیٹا بھی جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی ہماری طرح دولتیاں جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب وہ دولتیاں مارنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ ایک طرف کھڑا ہو کر تماشا دیکھتا ہے۔‘‘
صبح قریب تھی۔ مرغ نے ایڑیاں اٹھا کر بانگ دینا شروع کر دی تھی۔ وہ دونوں ہی آنکھیں موند کر سو گئے کیونکہ کچھ ہی دیر بعد مشقت سے معمور نئی صبح ان کی منتظر تھی۔
اگلے دن موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
آج ماسٹر کہیں گیا ہوا تھا۔ اس کا بیٹا ان کے ساتھ تھا۔ راستے میں بارش کی وجہ سے گلدان کا پائوں پھسلا تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سامان سمیت نشیبی جگہ پر جا گرا۔ سامان گر کر بکھر گیا۔
ماسٹر کا بیٹا آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے گلدان پر ڈنڈوں کی بارش کر دی۔
چند ہی منٹوں میں اس کے سارے جسم پر زخموں کے سرخ نشان اور نیل پڑ گئے۔ ماسٹر کا بیٹا ہانپتے ہوئے اسے گالیاں دینے لگا۔
گلدان بھیگی آنکھوں سے کبھی اپنے باپ کو دیکھتا تھا تو کبھی اپنے مالک کو۔ اس کا کوئی قصور نہیں تھا مگر اسے سخت ترین سزا دے دی گئی تھی۔ وہ گرا تھا۔ اس سے ہمدردی کرنے کی بجائے اس پر ظلم کا پہاڑ گرا دیا گیا تھا مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بے بسی کے شدید احساس سے اس کی آنکھیں بہہ نکلیں۔
بقیہ راستہ اس کیلئے عذاب بن گیا۔ گرنے سے چوٹ لگی تھی— ماسٹر کے بیٹے کے ڈنڈے نے پورے جسم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا، اس لیے اب قدم اٹھانا بھی محال ہو رہا تھا۔ اس سے چلا نہیں جا رہا تھا لیکن سفر کاٹنا تھا۔ رفتار کم ہونے پر ماسٹر کا بیٹا پھر اس کی کمر پرزور سے ڈنڈا مارتا تھا۔ وہ رک کر اس کے غیظ و غضب کا نشانہ نہیں بننا چاہتا تھا— وہ بڑی مشکل سے منزل پر پہنچا۔
آج گلدان بہت اداس تھا۔ اس کا پورا جسم دکھ رہا تھا۔ وہ بے چینی سے اپنی جگہیں بدل رہا تھا۔ کبھی بیٹھتا تو کبھی کھڑا ہو جاتا تھا۔
اس نے اپنے باپ سے کہا، ’’بابا! اس ذلت اور بے عزتی کی زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے— یہ روز روز کی ذلتیں اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتیں۔‘‘
گلو بیٹے کی بات سن کر دل تھام کر رہ گیا۔ اس کا ایک ایک لفظ دکھ میں ڈوبا ہوا تھا۔ سچ تھا۔ اس کی کسی بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔
وہ بولا، ’’گلدان پتر! ایسی باتیں نہیں کرتے۔ پہلے تمہاری ماں کا صدمہ ہی میری جان کا دکھ بنا ہوا ہے۔ تم ایسی باتیں کر کے میرا کلیجہ چھلنی نہ کرو۔‘‘
دونوں باپ بیٹا ماضی کو کرید کر، ایک دوسرے کو تسلیاں دلاسے دے کر سو گئے۔
صبح سویرے دونوں کو کام پر لے جانے کے لیے ماسٹر کا بیٹا پہنچ گیا تھا۔ اس نے آتے ہی دونوں کو غلیظ گالیاں دینے کے علاوہ دو دو ڈنڈے بھی جڑ دیے۔ اس کے ساتھ آنے والے اس کے دوست نے اسے ٹوکا، ’’کیوں بے زبانوں کو نہار منہ مار پیٹ رہے ہو؟‘‘
اس کا ہاتھ رک گیا۔ زبان چل پڑی۔ بولا، ’’تمہیں علم نہیں ہے۔ صبح سویرے گدھوں میں سستی پڑی ہوتی ہے۔ ان کی سستی دور کرنے اور ان میں طاقت بھرنے کے لیے گالیاں اور ڈنڈے ضروری ہوتے ہیں۔‘‘
گلدان آج ماسٹر کے بیٹے کی کسی بات پر دھیان نہیں دے رہا تھا۔ لگتا تھا آج وہ کسی اور دنیا میں پہنچ چکا تھا۔
دونوں باپ بیٹا سامان اٹھائے منزل کو رواں دواں تھے۔ ان کے راستے میں ایک گہری ندی آتی تھی جس کے اوپر چھوٹا سا پل بنا ہوا تھا۔
پل پر سے گزرتے ہوئے اس نے اپنے باپ کو نظر بھر کر دیکھا اور مدھم آواز میں الوداع کہا۔ اس سے پہلے کہ گلو کچھ سمجھتا، گلدان نے اچانک سامان سمیت ندی میں چھلانگ لگا دی۔ ’’چھپاک‘‘ کی زور دار آواز فضا میں گونجی۔ پانی کے چند چھینٹے پل پر، گلو اور ماسٹر کے بیٹے پر گرے۔
گلو نے دیکھا کہ گلدان سامان سمیت پانی میں ڈوبا، ابھرا، پھر ڈوبا — بپھری ہوئی ندی میں کچھ آگے جا کر اس نے گردن نکالی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گلدان اور اس کی کمر پر بندھا ہوا سامان ڈوب کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
ماسٹر کا بیٹا پل کے وسط میں کھڑا پہلوئوں پر ہاتھ رکھے لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا جبکہ گلو کے جھولتے ہوئے کانوں میں گلدان کی دکھ بھری آواز گونج رہی تھی، ’’بابا! اس ذلت اور غلامی کی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔‘‘