آج ایک ماہ پچیس دن ہوچکے ہیں۔
ایلاف نے انگلیوں پہ حساب کیا اور کلینڈر کو دیکھ کے واپس رکھ دیا تھا۔
واپس مڑ کے وہ کرسی کھینچ کے اذلان شاہ کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
” میں اب کچھ دن نہیں آ پاؤں گی۔”ایلاف نے اینٹی فنگس لوشن کی بوتل کھولتے ہوئے کہا۔
“آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ ایلاف بی بی تھک گئی ہوں گی مگر افسوس اس بار آپ غلط ہیں۔” ایلاف نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھماتے ہوئے بات جاری رکھی۔
یہ جانتے ہوئے بھی بھلا وہ اسے جب سن نہیں سکتا تو سوچے گا کیسے
مگر ایلاف کو تو ایسا نہیں لگتا تھا۔
اس لئے وہ اس سے نارملی انداز میں باتیں کرتی تھی۔ اسے تو یہی لگتا تھا کہ وہ اس سے روٹھ کے آنکھیں موند کے لیٹا ہے۔
اور ایلاف اسے منانے کی ہر سبیل کر رہی تھی۔
ہر دعا
ہر عمل
کبھی تو وہ بات سنے گا
کبھی تو بولے گا
کبھی تو محسوس کرے گا
کبھی تو سنے گا
ایلاف کو یقین تھا
“ہم کچھ دنوں کیلئے جاگیر جا رہے ہیں،کچھ کام ہے۔اب آپ کی ذمہ داری صرف نام کی حد تک تو نہیں لی نا۔ذمہ داری تو نبھانے کا نام ہے نا،آپ فکر نہ کریں داد شاہ ہے یہاں۔ہم واپسی پہ اماں سائیں کو بھی لے کے آئیں گے۔” ایلاف اسے تسلی دیتے ہوئے نرمی سے اس کے ہاتھوں اور بازؤں پہ مساج کر رہی تھی۔
یہ ہاتھ!ایلاف نے اس کے مضبوط ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
جن کی اب رگیں ابھر چکی تھیں اور زخموں پہ کھرنڈ آ چکی تھی۔
یہ وہ ہاتھ تھے!
جو ہمیشہ اسے سہارا دینے کیلئے آگے بڑھتے تھے۔
یہ وہ بازو تھے جن کے حصار میں ایلاف کو کوئی ڈر نہیں محسوس ہوتا تھا۔
ان ہاتھوں نے بہت بار ایلاف کے آنسو پونچھے تھے۔
تو
اب ایلاف کی بھی تو کچھ ذمہ داری تھی نا۔
“اللہ آپ کو اپنے حبیب پاک کے صدقے میں صحت دے۔اذلان خدا آپ پہ مہربان رہے۔اس کی رحمتیں آپ پہ سایہ فگن ہوں۔” ایلاف کی آنکھوں میں نمی سی آگئی تھی۔ اور لہجہ بھیگا بھیگا تھا
اور وہ بھی تو ہے نا!
دعا جب ایڑیاں رگڑنے پہ آجائے تو قبولیت کے زمزم کو جاری ہونا ہی پڑتا ہے۔
“خدا کی امان میں،پیر سائیں!” ایلاف اٹھتے ہوئے بولی تھی۔
اور دوسری طرف
کسی کی آنکھوں سے گرم گرم سیال بہا تھا جو ایلاف کی نظروں سے چھپا رہ گیا تھا کیونکہ خدا کو کسی کو پردہ مقصود تھا۔
یہ صفت تو ہم انسانوں کی ہوتی ہے جو ہم ہر کسی کے رازوں کی کھوج میں رہتے ہیں مگر اللہ تو بہت مہربان ہے۔
اور یقینا!
وہ بہترین پردہ رکھنے والا ہے۔
______________________________
” داد شاہ!ہم اب کچھ دن نہیں آئیں گے۔سجاول خان کو خبر کرو،ہم جاگیر آرہے ہیں جو مسئلے مسائل ہیں،دیکھتے ہیں ان کاحل۔ ” ایلاف اسے بتانے کے ساتھ حکم بھی دے رہی تھی۔
داد شاہ نے سر ہلا دیا تھا۔
ایلاف نے محسوس کیا،وہ کچھ الجھا سا تھا۔
“کیا بات ہے داد شاہ؟کوئی پریشانی ہے تمہیں۔” ایلاف نے پوچھ ہی لیا تھا۔
” وہ۔۔۔بی بی سائیں نے ایک حکم دیا تھا۔مجھے نہیں پتہ اس کا بیک گراؤنڈ کیا ہےمگر وہ کام ہونے والا ہےبس ایک اشارے کی دیر ہے۔ ”
” کیسا کام؟کام کی نوعیت بتاؤ۔” ایلاف نے سوچتے ہوئے پوچھا
” میں آپ کو دکھا سکتا ہوں۔اس لڑکے کو آپ جانتی ہیں۔اس پہ نظر رکھنے اور ڈھونڈنے کا کہا تھا سائیں نے۔” داد شاہ نے اس کے آگے موبائل کی اسکرین کرتے ہوئے کہا۔
” یہ!” ایلاف نے کچھ حیرانگی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
“پیر اذلان کو سلمان کی کھوج کیوں تھی۔ ” ایلاف نے سوچا۔
” کیا انہیں میری بات پہ یقین آگیا تھا۔” ایلاف کے سینے میں کچھ اٹکا۔۔۔۔ڈھیلا پڑا تھا۔
” کیا حکم دیا تھا؟مطلب کیا مقصد تھا اس آدمی پہ نظر رکھنے کا۔” ایلاف نے ڈھکے چھپے لفظوں میں پوچھا۔
” وہ تو معلوم نہیں۔ہمیں صرف نگرانی کا حکم دیا تھا،انہوں نے کہا تھا وہ خود دیکھیں گے اس آدمی کو۔” داد شاہ نے کہا۔
ایلاف کو لگا اس کے سینہ پہ رکھی بھاری سل آج سرک گئی ہو۔ بھلا اذلان جیسا غیرت مند مرد کیسے بتا سکتا تھا کہ جاؤ اور جا کے میری بیوی پہ تہمت باندھنے والوں کو ڈھونڈو۔
اذلان شاہ اتنا کم ظرف تو نہ تھا،اسے پردہ رکھنے کا فن آتا تھا۔
اور!
جو دوسروں کا پردہ رکھتے ہیں۔ اوپر والا لازمی ان کی بھی پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ ہمارے اعمال کا اجر وہی دیتا ہے۔
” کچھ دن اور نگرانی جاری رکھو اس کی ہم جاگیر سے لوٹ آئیں تو دیکھیں گے اسے۔” ایلاف نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا تھا۔
______________________________
” آپ نے کیا سوچا پھر احمد؟” تانیہ نے احمد سے پوچھا۔
“مجھے تمہاری بات ٹھیک لگی ہے تانیہ مگر ہمارا ساتھ کون دے گا اور اکبر بھائی ان سے بھی تو پوچھنا ہے،آخر کو گدی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہےاور اپنی اولاد پہ کون اتنی ذمہ داری ڈالتا ہے۔” احمد شاہ نے اس سے پوچھا تھا۔
“اکبر بھائی کبھی مجھے منع ہی نہیں کریں گے،آخر کو ہمارے خاندان کی بقا کا سوال ہے۔کیسے ایک پرائی عورت کے ہاتھ میں سب جانے دیں چپ چاپ پھر آپ بھی تو ہیں نا پیر خرم شاہ کی نگرانی کرنے کیلئے،نام اس کا ہوگا مگر کنٹرول تو آپ کا ہی ہوگا۔” تانیہ اسے خواب دکھاتے ہوئے بولی تھی۔
سارا پلان تو وہ پہلے ہی بنا چکی تھی اکبر شاہ کے ساتھ مل کے احمد شاہ تو بس ایک مہرہ تھا ان کی ایک چال کا۔
” ہم بات کریں گے اماں سائیں سے۔ “احمد شاہ نے کچھ سوچ لیا تھا
” اماں سائیں میرے خیال سے اب گدی کا فیصلہ ہوجانا چاہئے۔” صبح احمد شاہ شاہ بی بی سے مخاطب تھا۔
” کیسی بات کر رہے ہو احمد شاہ؟” شاہ بی بی کو غصہ تو بہت آیا تھا مگر ضبط کر گئی تھیں۔
” کیا اماں سائیں؟بیٹے کے آگے آپ خاندان کی بقا خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ڈیڑھ ماہ ہو چلا ہے انہیں ہوش نہیں آیا،ساری زندگی ہوش نہ آیا تو کیا یہ خاندان یوں ہی رہے گا۔کونسی روایت چلانی چاہ رہیں آپ؟” احمد شاہ پوری طرح پمپ تھا۔
” پیر خرم شاہ کو اب گدی سنبھال لینی چاہئے۔”
” شرم نہیں آرہی ہے آپ کو،دل نہیں کانپا۔باپ جیسے بھائی کیلئے ایسا کہتے ہوئے۔” شاہ بی بی ہول ہی گئی تھیں۔
خون اتنا سفید ہونے لگا تھا اب پیروں کا۔
” آتی ہے شرم بہت آتی ہے مگر اس خاندان کو بھی دیکھنا ہے۔ساری ذمہ داری میرے شوہر کے سر ہے باقی اسپتال اور کمشنری میں گم ہیں۔” یہ تانیہ شاہ تھی
” پیر خرم شاہ اہل نہیں ہے۔” شاہ بی بی کو غصہ آگیا تھا۔
” تو جو اہل ہے وہ سات سمندر پار چھپا رکھا ہے۔ان چھٹیوں میں آپ نے دیکھا وہ آیا ہی نہیں۔سب سے کاٹ کے رکھا ہے بھائی نے اسےاور آپ کس وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔جب وہ پرائی عورت سب پہ قبضہ کرلے گی۔” احمد شاہ برہمی سے بولا۔
اسکا اشارہ سفیان شاہ کی طرف تھا۔
“وہ دس برس کا پچہ ہے،اوپر سے نہ اسے ہماری خبر ہے اور نہ ہمیں اس کی،اور نہ ہی اسے ہمارے رسم و رواج کا پتہ ہے نا،وہ ہماری زبان جانتا ہے۔” تانیہ نے پھر لقمہ دیا تھا۔
” بس ہم اب خاندان میں بات کر دیں گے،بڑوں سے!” احمد شاہ اٹھ کے باہر نکل گیا تھا۔
تانیہ آسودگی سے مسکرا دی تھی۔
ماں اور بیٹا مقابل آگئے تھے۔شاہ بی بی لب بھینچ کے چپ تھیں۔انھیں ایلاف سے بات کرنی تھی۔
_____________________________
ایلاف جاگیر پہنچ چکی تھی۔اس وقت وہ وہاں کے لوگوں کے بیچ تھی۔
سجاول خان اسے ساری بریفنگ دے چکا تھا۔ایلاف نے پہلے اذلان شاہ کی صحتیابی کیلئے دعا کراوائی تھی۔
وہ کوئی سیاسی لیڈر نہ تھی جو اتنے مجمعے کے سامنے تقریر کرتی۔اس نے مختصر مگر دل کو لگنے والی باتیں کی تھیں۔
” آپ لوگ یہ نہ سمجھیں اگر پیر سائیں بیمار ہیں،نہیں آسکتے تو آپ کا دکھ کوئی نہیں بانٹے گا۔آپ کے مسئلے کوئی نہیں حل کرے گا۔آپ کے درد پہ کوئی دوا نہیں لگائے گا۔ہم ہیں ان کے فرائض نبھانے والے۔اوپر والے کی مہربانی سے کبھی یہ فرض قضا نہیں کریں گے۔ہم صرف نگران ہیں مگر آپ کے نگہبان ہیں،آپ بس ہمارے پیر سائیں کیلئے دعا کریں۔آپ کا درد ہم بانٹیں گے۔” ایلاف مضبوط لہجے میں بولی تھی۔
ڈیرے پہ مردوں اور عورتوں کا رش تھا۔
سب پیر اذلان شاہ کی بیوی کو دیکھنے کو بیتاب تھے جو ان کے مسائل سننے شہر میں اپنے دس کام چھوڑ کے آئی تھی۔
اپنے بیمار شوہر کو چھوڑ آئی تھی۔
کس کیلئے ان کیلئے نا!
سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے جو گرے شال لپیٹے،سفید اسکارف کا نقاب کئے ان کے درمیان بیٹھی تھی۔
اس کی آنکھیں سرد تھیں
کسی آئس برگ کی طرح
مگر اس کے لہجے میں
ان کیلئے پروا ہی پروا تھی
ایلاف ان کی طرف متوجہ تھی۔ عورتیں اس سے آ کے مل رہی تھیں۔
پیر اذلان ان کے دلوں میں بستہ تھا۔
ان کی وہ فکر کرتا تھا،ان کا وسیلہ تھا۔
اور!
اب اس کی بیوی بھی سب کو اسی کی طرح لگی تھی۔ایلاف کیلئے ان کے دل میں بہت جگہ بن چکی تھی۔
ایلاف کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ان لوگوں کی حمایت اسے بہت کام آنے والی تھی۔
______________________________
“آپ آج ڈیرے پہ کیا کرنے گئی تھیں؟” احمد شاہ برہم تھا ایلاف پہ۔
“ہم حصہ ہیں اس خاندان کا۔یہ لوگ ہمارے ہیں اور ان کے مسئلے حل کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ سب ہم شاہ بی بی کی حمایت سے کر رہے ہیں۔آپ دوبارہ ہم سے سوال کرتے ہوئے محتاط رہئیے گا۔” ایلاف سرد مہری سے بولی تھی۔
“ہمارے خاندان کی عورتیں اس طرح ڈیروں پہ جا کے محفل نہیں لگاتیں اور آپ نے یہ عمل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ آپ ہمارے خاندان کی نہیں ہیں۔” احمد شاہ دوبدو بولا تھا۔
اس پرائی عورت کی یہ مجال!
“آپ کی سوچ پہ رائے دینا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے۔ہم پیر اذلان شاہ کی بیوی ہیں۔ان کے لوگ ہمارے لوگ ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں یہ سب ہماری ذمہ داری ہے۔پرائی آپ کی سوچ ہے احمد شاہ۔” ایلاف ناگواری سے بولی تھی۔
تمہارے منہ میں احمد شاہ،تانیہ شاہ کی زبان بول رہی ہے۔
“لوگوں کے مسئلوں کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے مزید آپ کو ویسے بھی پیر خرم شاہ کو گدی پہ جلد ہی بٹھا دیا جائے گا تو آپ کا یہ ناٹک ہی ختم۔آپ اپنے بیمار شوہر تک ہی رہیں ویسے بھی گدی کا دعوے دار اور کوئی نہیں۔” احمد شاہ نے کہا تھا۔
“آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ گدی کا دعوے دار کوئی نہیں ہے۔ہم اتنی آسانی سے اس طرح آپ کی سسرال کی سوغات نہیں بننے دے سکتے یہ گدی۔” ایلاف نے اسے وارننگ دی تھی۔
” اوہ تو آپ بیٹھیں گی اس گدی پہ ہمت بھی نہ کیجئے گا۔پیر خرم شاہ کے سامنے آپ کی نہیں چلنے والی۔” احمد شاہ طنزیہ بولا۔
” ہم ہر حد سے گزریں گے اس گدی کیلئے احمد شاہ یہ بس یاد رکھئے گا۔” ایلاف اٹھ چکی تھی۔
وہ شاہ بی بی کے کمرے میں چلی گئی تھی۔
“کیا کر رہی ہو ایلاف؟اس گدی پہ سے ہمارا راج غروب ہونے والا ہے۔کیسی محافظ ہو تم اور ایسے کرتے ہیں نگہبانی۔ ” شاہ بی بی نے اس سے پوچھا تھا۔
” ہم نے آپ کو وعدہ دیا ہے اماں سائیں اور ہم خائن نہیں۔آپ فکر نہ کریں،یہ گدی آپ کے گھر کے مردوں کے نام تھی،ہے اور رہے گی۔” ایلاف نے انہیں تسلی دی تھی۔
” کیا کروگی؟تمہارے پاس کیا الہ دین کا چراغ ہے کیا۔” شاہ بی بی کو وہ بہت پراسرار لگی تھی۔
” ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے اماں سائیں۔جن کے پاس یقین کی روشنی اور اللّه پہ ایمان کا نور ہے،انہیں اور کسی چراغ کی ضرورت نہیں ہے۔” ایلاف نے انہیں جیسے کوئی بھید دیا تھا۔
شاہ بی بی اسے دیکھ کے رہ گئی تھیں۔ اس لڑکی کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔
کچھ نہیں معلوم تھا کسی کو!
” داد شاہ جو کام ہم نے کہا تھااسے جلد از جلد تکمیل پہ پہنچاؤ۔ہم دو دن میں جب شہر لوٹیں گے تو کام ہوجانا چاہئے۔انتظامیہ سے کہو ان کے پاس وقت نہیں ہے۔” ایلاف نے حکم دیا تھا۔
اسے شہہ مات کی تیاری کرنی تھی۔
______________________________
” تم ٹھیک تھیں۔ تانیہ اس پرائی عورت کی ہمت دیکھو۔ وہ اب گدی پہ بیٹھنے کے خواب دیکھنے لگی ہے۔” احمد شاہ نے ایلاف سے ہوئی ساری گفتگو اسے بتا دی تھی۔
” آپ فکر نہ کریں اس کی صرف اذلان پہ چلتی ہے۔” تانیہ شاہ بہت مطمئن تھی
سفیان شاہ کی طرف سے اسے ایک پھانس سی تھی وہ بھی نکل چکی تھی۔آج ہی تو اسے اکبر شاہ نے بتایا تھا کہ اذلان شاہ کچھ عرصہ پہلے سفیان کو سوئیزرلینڈ سے امریکہ کی اسٹیٹ بھیج چکا تھا۔
اور اسے کچھ خبر نہیں تھی یہاں کی
نہ باپ کی تانیہ کو اب کھل کے کھیلنا تھا۔
______________________________
” ہم آگئے پیر سائیں! آپ نے ہمیں مس تو کیا ہوگا؟ہم نے بھی آپ کو بہت یاد کیا۔انفیکٹ آپ کو بہت داد دی تھی۔آپ واقعی میں بہت کام کرتے ہیں۔یونہی تو آپ کے پاؤں میں چکر نہیں رہتا تھا۔”ایلاف نے اس پہ کچھ پڑھ کے حسب عادت پھونکنے کے بعد کہا تھا۔
نرم سا احساس تھا!
اس نے یونہی اذلان کی سرد پیش کو چھوا تھا۔
سیاہ بالوں پہ انگلیاں چلاتے ہوئے وہ اس سے مخاطب تھی۔
“لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں یہ حق کس نے دیا آپ کی اتنی حمایت کا،آپ کو تو پتا ہے نا یہ حق تو مجھے خدا اور اس کے رسول نے دیا ہے۔دنیا کی کوئی طاقت مجھے نہیں روک سکتی۔”ایلاف اس سے ہمکلام تھی
” تانیہ شاہ تم بھی نہیں۔”
ایلاف گھر لوٹی تو امیراں کچھ بے چین سی تھی۔کچھ کہنے کو اس کا منہ بار بار کھل اوربند ہورہا تھا۔ایلاف اس کی بے چینی کی وجہ سے پوری طرح واقف تھی۔
کھانا کھانے کے بعد وہ نماز پڑھ کے جب فارغ ہوئی تو اس نے امیراں سے پوچھا تھا۔
” پیر سفیان شاہ کہاں ہے؟”
” آپ کو پتہ ہے جی ان کا؟” امیراں کا منہ کھل گیا تھا۔
“پتہ ہے اور تم سارے میں اشتہار نہیں لگاؤ گی۔امیراں کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنی چاہئے،سمجھ رہی ہو نا۔”ایلاف نے اپنی سبز سرد آنکھیں اس پہ گاڑتے ہوئے کہا تھا۔
” جو آپ کا حکم!” امیراں کو انجانا سا خوف محسوس ہوا تھا۔
اس بے ضرر لڑکی سے!
” آپ سے ایک گزارش کی تھی۔کیا بنا اس کا؟” ایلاف فون پہ مخاطب تھی۔
” جلد ہوجائے گا۔یہ تو اور اچھا ہے۔یقینا مجھے لگتا ہے زیادہ وقت نہیں لگے گا اب تو آپ بھی کچھ جلدی کریں۔” ایلاف نے اپنا خیال ظاہر کیا تھا۔
“چلیں کل پتہ چل جائے گا،آرڈر مل جائے گا آپ کو۔دینا ہی ہوگا ،آخر حکومت نے اگلا الیکشن بھی کرانا ہے۔” ایلاف نے الوداعی کلمات ادا کر کے فون رکھ دیا تھا۔
اس کا رخ اب سفیان کے کمرے کی طرف تھا۔
______________________________
ایلاف نے دستک دے کے دروازہ کھول دیا تھا۔اس کمرے وہ آج پہلی بار آئی تھی۔کمرے میں ہر قسم کی آسائش تھی۔
سفیان اس وقت بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائےسپر مین مووی دیکھنے میں مصروف تھا۔وہ شکلا عالیہ شاہ کی کاپی تھا اب یہ تو اس سے بات کر کے پتہ چلنا تھا کہ وہ زبان پہ کس پہ تھا۔
سفیان نے اسے دیکھ کے والیم آف کیا تھا اور دھیمی آواز میں سلام کیا تھا۔
” اذلان شاہ کی اولاد میں کرٹسی نہ ہو ایسا ہو نہیں سکتا۔۔۔” ایلاف نے اس کے انداز پہ سوچا تھا۔
” ہم ہیں ایلاف،تمہیں ہم نے بلایا ہے۔” ایلاف بیڈ پہ اس کے برابر بیٹھتے ہوئے بولی۔
” مگر کیوں؟ پاپا نے تو اس بار چھٹیوں میں ہمیں آنے سے ہی منع کر دیا تھا اور آپ نے ہمیں بیچ سال میں سے بلا لیا کیوں۔ ” سفیان نارمل تھا اس کا لہجہ بالکل عام تھا۔
“آپ کا سفر اچھے سے گزرا۔کھانا ٹھیک سے کھایا تھا نا۔” ایلاف نے اس سے کچھ اور ہی پوچھا تھا۔
” جی سب ٹھیک تھا۔” سفیان نے کہا۔
“سپر مین!لگتا ہے کافی پسند ہے آپ کو۔” ایلاف نے اسکرین دیکھ کے کہا تھا۔
” جی!میں اس کی ہر مووی دیکھتا ہوں۔” سفیان کا لہجہ بالکل اہل زبان کی طرح تھا۔
اذلان کی طرح!
ایلاف نے لینگویج سینٹر جوائن نہ کیا ہوتا تو اسے کافی مسئلہ ہوتا مگر اب وہ اس سے نارمل اندازمیں انگلش میں ہی بول رہی تھی۔
” اور بچوں کی طرح آپ بھی اسے آئیڈیلائز کرتے ہیں۔آپ کو پتہ ہے سپر مین کس طرح بنتے ہیں؟” ایلاف نے اس سے پوچھا تھا۔
” جی!بہت سی پاور ہوتی ہیں اس وجہ سے وہ سپر مین ہے۔” سفیان نے اپنے بچکانہ انداز میں کہا تھا۔
” یہ پاور کہاں سے آتی ہیں سفی؟” ایلاف نے ایک اور سوال کیا تھا۔
” پتہ نہیں!مجھے پتہ ہوتا تو میرے پاس بھی ہوتی نا پاور۔” سفیان شانے اچکاتے ہوئے بولا۔
” میں موویز نہیں دیکھتی نہ میں نے آج تک سپر مین مووی دیکھی ہے لیکن مجھے معلوم ہے پاور کیسے ملتی ہے۔” ایلاف سفیان کے اندر تجسس جگا رہی تھی۔
” آپ کو کیسے پتہ ہے؟مجھے بھی بتائیں۔” وہ بچہ تھا اشتیاق سے پوچھ رہا تھا۔
“ہمارے دکھ!ہمارے دکھوں میں اتنا دم ہوتا ہے کہ وہ ہمیں طاقت دے سکیں مگر پتہ ہے سفی ہمیں یہ طاقت کب ملتی ہے؟جب ہم پازیٹو ہوں۔سوچ کا فرق بہت میٹر کرتا ہے۔ہم مثبت ہوں تو ہمارے دکھ ان پہ پاؤں جما کے ہم ہمالیہ سے بھی بلند ہوجاتے ہیں۔یقین کی پرواز ضروری ہے اور منفی ہوں تو یہی دکھ ہمیں سمندر کی گہرائی میں ڈبو دیتے ہیں۔ہم اس بےیقینی کی نمکین برف میں ہی مر جاتے ہیں۔” ایلاف نے ہولے سے اس کے سر کے بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
سفیان نے حیرت سے اس کا یہ عمل دیکھا تھا۔اس کے ساتھ اتنا اپنا پن کسی نے دکھایا ہی نہ تھا۔
“مگر مجھے ابھی کوئی دکھ نہیں ہے۔ڈیڈ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہونے دیتے۔” سفیان کچھ حیرانی سے بتارہا تھا۔
” دکھ تو سکھ سے مشروط ہیں۔میں ایک جنرل بات کر رہی ہوں۔کبھی بھی آسکتے ہیں۔” ایلاف نے کہا۔
” ایسا ہے تومیں بھی بہت بہادر بنوں گا۔آپ کو کس نے بتایا تھا ویسے یہ؟” سفیان اب اتنا بھی بچہ نہیں تھا۔
” وقت نےآپ کے پاپا اور دادو نے۔” ایلاف نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا۔
آج کتنے دن بعد وہ مسکرائی تھی۔
” ڈیڈ کہاں ہیں؟” سفیان نے پوچھا۔
“چلو سفیان آج تمہارا امتحان لیتے ہیں،یوں سمجھو!ایک ٹاسک ہے،تمہارے دعوے پہ۔تین آپشن ہوں گے تمہارے پاس۔یا تو ہمارے گلے لگ کے رو لینا،یا کمرہ بند کر کے آنسوبہانا اور مایوس ہوجانا یا پھر خدا کے سامنے تنہائی میں سجدے میں جا کے آنسو بہا کے مانگنا اور بہترین آپشن تم جانتے ہو۔” ایلاف پہلا پتہ پھینک چکی تھی۔
” کیسا ٹاسک ہے؟” سفی حیران ہوا تھا۔
گیمز اور ٹاسک اسے پسند تھے۔ہر ٹاسک وہ جیت جاتا تھا اسکول میں،ایلاف کو خبر تھی وہ بچہ تھا اور ایلاف نے اس اسی طرح ڈیل کر کے بڑا کرناتھا ایک مقصد کیلئے۔
“وہ تمہیں دیکھنا ہوگا۔چلو گے ہمارے ساتھ،ہمت نہیں ہارنا۔اگر ہار گئے تو سپر مین کبھی نہیں بن سکتے۔یہ تمہارا پہلا چیلنج ہے۔” ایلاف نے جیسے خبردار کیا تھا۔
“اوکے!” سفیان اٹھتے ہوئے بولا۔
” ہم تمہیں بلواتے ہیں تھوڑی دیر میں۔”ایلاف اٹھ کے دروازہ کھولنے لگی۔
” سنیں!”
” کیا ہوا کوئی اور بات ہے؟” ایلاف سمجھی شاید اس نے کچھ اور پوچھنا ہے۔
” وہ ۔۔۔میں اردو بول سکتا ہوں بلکہ مجھے اپنی مادری زبان بھی آتی ہے اور باقی بھی جرمن،فرنچ۔” سفیان کچھ شرمندگی سے بولتے ہوئے اپنا پہلا راز کھول رہا تھا۔
ایلاف تپ سی گئی۔یہ باپ:بیٹا!ٹھیکا لے رکھا ہے دنیا بھر کی زبانوں کا،اذلان شاہ پانچ زبانیں روانی سے بولتا تھا تو بیٹا کونسا کم تھا۔
” اٹس اوکے!” ایلاف اب کیا کہتی۔
_____________________________
اسپتال کی بلڈنگ دیکھ کے سفیان کچھ چونکا تھا۔سوالیہ نظروں سے ایلاف کو دیکھا تھا مگر نقاب میں ہونے کی وجہ سے اسے کوئی احساس نہ ملا تھااور اسپتال کے اندر آکے سفیان کے ہوش اڑ گئے تھے۔
اس کے ڈیڈ پیارے ڈیڈ یوں ہوں گے۔
ضبط کے چکر میں اس کی آنکھیں لال ہوگئی تھیں۔ ابھی ایلاف کے سامنے جو دعوی کیا تھا۔
دھڑلے سے!
” ڈیڈ!” اذلان کا سرد ہاتھ چومتے ہوئے وہ پھر بھی سسک اٹھا تھا۔
” میں آتا ہوں۔” کہہ کے سفیان باہر بھاگ گیا۔
ایلاف جانتی تھی وہ اس کا ایک آپشن چھوڑ چکا ہےاور باقی دو پہ عمل کرے گا۔
ایلاف چاہتی تو اسے صبح لے آتی مگر اسے سب اب جلدی کرنا تھا اور پھر اسے اذلان شاہ کو کچھ بتانا بھی تھا۔
” آپ کو کیا پہلے سے پتہ تھا کہ آپ ہمارا رزلٹ نہیں دیکھیں گے۔اس لئے ہم سے دوبارہ پیپر لیا تھا۔” ایلاف کو یاد آیا تھا بہت کچھ!
وہ اذلان کا پڑھانا،رعب جھاڑ کے سمری بنوانا۔
برستی بارش میں اپنے وجود کا حصار دینا۔
” ہم پاس ہوگئے ہیں اذلان سائیں۔وعدے کے مطابق اے_ون گریڈ ہے۔آپ سے کیا وعدہ پورا کیا ہے ہم نے۔” ایلاف نے گھر آ کے رزلٹ چیک کیا تھا۔
اس کے بعد وہ اذلان کو آج کے اخبار میں چھپنے والا آرٹیکل سنانے لگی تھی۔سفیان کے پیچھے داد شاہ گیا تھا۔
ایلاف نے آرٹیکل ختم کر کے گھڑی پہ نظر ڈالی تھی۔کافی وقت ہوچکا تھا،
وہ خود اٹھ کے باہر آگئی تھی۔
پرے ہال میں وہ پیر سفیان شاہ تھا۔سر پہ رومال باندھے،جائے نماز پہ بیٹھا ہوا۔
اس کے ہاتھ میں قرآن پاک تھا۔آنسو قطار کی صورت میں اس کے گالوں پہ بہہ رہے تھے اور وہ بار بار ایک ہی آیت کی گردان کر رہا تھا۔
” پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔”(القرآن)
سفیان کی آواز نے ایلاف کے قدم جکڑ لئے تھے۔ ایلاف سن سی ہوگئی تھی۔
کس نے سکھایا اسے یہ سب؟
وہ تو انگریزوں کی نگرانی،سوئس قوم میں پلنے والا بچہ تھا۔
اس کی رہنمائی کس نے کی؟
اسے کس نے کہا کہ مشکل میں خدا سے ہی رجوع کرتے ہیں۔ ایلاف کو تو لگا تھا اسے کلمہ بھی نہ آتا ہوگا اور یہاں وہ قرآن پاک مکمل تجوید سے پڑھ رہا تھا۔
سچ ہے خون اپنا اثر دکھاتا ہے۔
چاہے ملک کوئی بھی ہو
ماحول کوئی بھی ہو
سفیان کی آنکھیں بند تھیں۔
اور
اب وہ دعا مانگ رہا تھا۔
ایلاف اس کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی
” کس نے سکھایا تمہیں یہ سب؟” ایلاف نے اس کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کئے تھے۔
اسے خود نہیں معلوم تھا کہ اس بچے کیلئے اس کے دل میں اتنی وسعت کہاں سے آئی تھی۔
کہنے کو وہ اس کی سوتن کا بیٹا تھا،اس کا سوتیلا بیٹا تھا۔
“شہلا آنٹی نے وہی ہیں ہماری نینی۔ان کے پاس رہتا ہوں میں وہاں،ان کی نگرانی میں۔” سفیان نے بتایا۔
” یہ سب کیسے ہوا مجھے جاننا ہے؟”سفیان پوچھ رہا تھا
” یہ حادثہ قتل کی سازش بھی ہوسکتی ہے۔ ” ایلاف نے کہا
فرانزک رپورٹ اسے مل چکی تھی اور گاڑی ایک دن پہلے ہی جاگیر سے آئی تھی۔
” کون ؟کس نے؟” سفیان نے پوچھا۔
” تم جاگیر کے بارے میں کیا جانتے ہو؟انہی میں سے ہیں گدی کے دشمن۔”ایلاف آہستہ سے اسے آگاہی دے رہی تھی۔
” گدی کے دشمن! مگر گدی پہ تو ہمیں بیٹھنا ہے،ہمارا حق ہے۔” سفیان کی بات پہ ایلاف نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا
تو اذلان شاہ نے اسے بے خبر نہیں رکھا تھا۔
“تم جانتے ہو،تو پھر ہمارا ساتھ دو اپنے ڈیڈ کی گدی بچانے میں۔وعدہ کرو باپ کی بیماری تمہاری کمزوری نہیں،طاقت بنے گی۔” ایلاف نے اس سے وعدہ چاہا تھا۔
” ہم وعدہ کرتے ہیں ہم آپ کی مدد کریں گے۔” سفیان نے یقین دیا۔
ایلاف نے اسکے سر پہ بےاختیار ہی ہاتھ رکھا۔
” ہم آپ کو امی کہہ لیں کیا؟” سفیان کے لہجے میں اتنی حسرت تھی کہ ایلاف کا دل مٹھی میں آگیا تھا۔
” کیوں نہیں!سوتیلی سہی پر آپ کی ماں ہوں۔” ایلاف نے اسے کہا تھا۔
” ماں تو ماں ہوتی ہے۔” سفیان اس کے گلے لگ گیا تھا
اور
یوں ایلاف کو ایک پلا پلایا بیٹا،بازو مل گیا تھا۔
______________________________
شاہ پور جاگیر میں آج کا سورج بہت کچھ اپنے جلو میں لے کے طلوع ہوا تھا۔ اندھیرا چھٹتے ہی لوگ اپنے گھروں سے نکلنے لگے تھے۔آج پیروں کی گدی کا فیصلہ ہونا تھا۔
پنچائیت لگ چکی تھی،ایلاف جاگیر پہنچ چکی تھی۔تانیہ کے انداز ہی نرالے تھے۔اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ خود گدی پہ بیٹھ رہی ہو۔
اکبر شاہ مہر بہ لب تھا بالکل خاموش تانیہ نے اسے کتنی بار پکارا تھا مگر وہ متوجہ نہ تھے۔
” ابھی تو گدی ملی نہیں بیٹے کو اور نخرہ پہلے سے آسمانوں پہ ہے۔” تانیہ نے جل کے سوچا تھا۔
پنچائیت میں گھر کے بڑے سب جمع تھے،بنین شاہ بھی بیٹے کو اٹھائی موجود تھی۔
” ایلاف بی بی آپ اذلان شاہ کی زوجہ ہیں۔آپ نے گدی کیلئے دعوی کر رکھا ہے۔ ” پنچائیت کے ایک بزرگ بولے
” جی ہم نے ہی دعوی کیا ہے۔” ایلاف نے آج بطور خاص اذلان کی دی ہوئی چادر پہنی تھی۔
اس میں اذلان کی خوشبو تھی،اس کا مان بھر لمس تھا۔
تحفظ کا احساس تھا۔
” یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے ہاں عورتیں گدی پہ نہیں بیٹھتیں پھر بھی آپ نے یہ کیا۔آپ تو اس خاندان کی ہیں بھی نہیں تو پھر کیوں آپ پیر خرم شاہ کا حق مار رہی ہیں۔”
” آپ سے کس نے کہا کہ یہ دعوی ہم نے اپنے لئے کیا ہے۔ہم حق مار نہیں بچا رہے ہیں۔” ایلاف کا لہجہ بہت سرد مہر تھا۔
” مطلب!” سب الجھ گئے تھے۔
اور اسی پل ایک بلیک پراڈو آ کے رکی تھی اور کمال شاہ کے ہمراہ کوئی اور بھی اترا تھا۔
جسے دیکھ کے تانیہ شاہ کو اور پورے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
______________________________
” یہ کون ہے؟” ایک اونچے شملے والے کے منہ سے نکلا تھا۔
” ہم پیر سفیان شاہ ہیں۔اس گدی کے وارث،گدی کا فیصلہ ہو اور ہم نا ہوں تو یہ تو نہیں ہوسکتا بزرگو۔” سفیان شاہ کمال اطمینان سے بولا تھا۔
ایلاف کی تربیت بول رہی تھی۔
“بالکل یہی گدی کا حقیقی وارث ہے۔”شاہ بی بی حیرت کے سمندر سے نکل کے بولی تھیں۔
سب ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے تھے
فیصلہ صاف تھا۔ایلاف نے اپنا وعدہ پورا کیا تھا۔وہ خائن نہیں تھی اس نے ثابت کیا تھا۔شاہ بی بی کی پرکھ کو آج ثبوت مل چکا تھا۔
ایلاف کا قد ان کی نظروں میں کچھ اور اونچا ہوا تھا۔
” پر یہ ابھی بچہ ہے،پیر خرم شاہ اس کے مقابلے میں سمجھدار ہے۔” احمد شاہ نے جب کوئی اور بس نہ چلا تو کہا تھا۔
” ہاں نا!کیوں اکبر بھائی؟”تانیہ نے اکبر شاہ کو مخاطب کیا تھا۔
” تانیہ!میرے خیال سے سفیان کا حق زیادہ ہے۔” اکبر شاہ کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
ایلاف کی بات ان کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
” ہمیں آپ کی حمایت چاہئے پیر اکبر شاہ۔نہیں تو آپ کی اولاد کے کارنامے سن کے ویسے ہی اسے نکال دیا جائے گا۔گدی بھی نہیں ملے گی اور عزت بھی جائے گی۔” ایلاف نے خرم شاہ کی ساری ایکٹیویٹیز کی رپورٹ جمع کر رکھی تھی۔
اپنا حساب وہ بعد میں کرتی پہلے تو اسے یہ معاملہ نپٹانا تھا۔خرم نے اس کے ساتھ جو کیا وہ تو اس نے کسی کو بھنک بھی نہیں لگنے دی تھی۔ہاں دوسرے کارنامے بتا دئیے تھے اور تانیہ شاہ کی آنکھیں جو پہلے سفیان کو دیکھ کے پھیلی تھیں۔اب بھائی کی بات سن کے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ماسٹر مائینڈ خود ہار مان گیا تھا۔اس کی اولاد نے اس کا سر جھکا دیا تھا۔وہ واقعی اہل نہ تھا۔
” واقعی یہ بچہ ہے اس لئے اس کی سر پرستی اور نگرانی کمال شاہ کریں گے۔” ایلاف نے ایک اور بم پھوڑا۔
“وہ مہینوں گھر نہیں آتے تو اس کی تربیت۔۔۔۔” احمد شاہ نے بات آدھی چھوڑی۔
” ہمارا ٹرانسفر ہوچکا ہے۔قریب رہیں گے تو اپنے لوگوں کے مسائل اچھے سے حل کریں گے۔” کمال شاہ نے لب کشائی کی تھی۔
لوگوں نے بھرپور نعرہ لگایا تھا اس بات پہ!
” تو ٹھیک ہے!سفیان شاہ آج سے گدی نشین ہے۔” فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔
تانیہ پہ جیسے لیٹر پیٹرول ڈل گیا تھا۔
” تب تک!جب تک ہمارے بابا ٹھیک نہیں ہوجاتے۔” سفیان نے واضح کیا تھا۔
پیر سفیان شاہ کے سر پہ دستار رکھ دی گئی تھی۔
” یہ تم نے کیا کیا؟” تانیہ کی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔
” اسے شہہ مات کہتے ہیں۔ڈئیر دیورانی!” ایلاف کے انداز میں وہی برف کا سرد سا تاثر تھا۔
اس نے ہر داؤ یوں کھیلا تھا کہ تانیہ کے سارے اعتراض کے راستے دم توڑ گئے تھے۔
کمال شاہ نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ظاہر ہے سفیان بچہ تھا اسے نگرانی کی ضرورت تھی اور احمد شاہ تو خود دعوے دار تھا لہذا اس نے کمال شاہ سے رجوع کیا تھا۔
.اس دن وہ کمال شاہ سے ٹرانسفر کا ہی پوچھ رہی تھی۔ وہ آج سر خرو ہوئی تھی۔
خدا نے اس پہ کرم کیا تھا۔اسے خائن نہیں بننے دیا تھا۔وہ وعدہ کر کے پورا کرنے والوں میں سے تھی۔
______________________________