اقسام کلام
۔۔۔ شیخ الرئیس لکھتا ہے کہ شعر کبھی فقط حیرت و تعجب پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں ، کبھی اغراض و معاملات کے لیے کہتے ہیں۔۔۔ شعراے غزل گو کی شاعری پہلی قسم کی ہے کہ موسیقی و مصوری کی طرح اس کی غایت بھی محض حظِ نفس و تغذیۂ روح کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ لیکن دوسری قسم البتہ اہتمام و اعتنا کے قابل ہے۔ ہر ادیب و اہلِ قلم اس کا محتاج ہے اور پھر حظِ نفس و تعجیب سے بھی خالی نہیں۔نثار و معاملہ نگار کو ایسے مضامین کی بہت حاجت ہے جو اغراض سے تعلق رکھیں۔ غزل گویوں کو مضمون نگاری کی مشق نہ ہونے سے اچھی طرح نثر لکھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا۔ کسی مطلب کو نثر میں دل نشیں نہیں کر سکتے۔ بلکہ ابنِ خلدون نے تو یہ دعویٰ کیا کہ شاعر سے نثر نہیں لکھی جاتی اور نثّار سے شعر نہیں کہا جاتا۔ میرے خیال میں اس کی لم یہی ہے کہ ابنِ خلدون کے زمانے میں عرب کی شاعری بھی اغراق و تصنع و تکلف سے بھر گئی تھی ، اغراض پر شعر کہنا بہت کم ہو گیا تھا۔ اس فن کو اہلِ نثر نے اختیار کر لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔ شعر میں اغراق و تکلف کرنا اور اغراض و مطالب سے خالی رکھنا یہاں تک پھیلا کہ اب عموماً ہم لوگوں کا یہ مذاق ہو گیا ہے کہ جو شعر کہ اغراض و مطالب کے لیے کہے جاتے ہیں ان کو شعر نہیں سمجھتے بلکہ جانتے ہیں شاعر نے رام کہانی ناندھی یا دکھڑا رویا۔ شعرا کے بر خلاف اہلِ نثر نے معاملہ نگاری میں غضب کا پھیکا پن اختیا رکیا۔ انھوں نے تکلف میں اس قدر افراط کی کہ معانی کو رو بیٹھے۔ انھوں نے اسقدر تفریط کی کہ تمام محاسنِ کلام سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہمارے یہاں کلام کی تقسیم اس طرح مشہور ہے کہ:
(الف ) جس کلام میں وزن و قافیہ دونوں ہوں وہ نظم ہے۔
(ب ) جس میں دونوں نہ ہوں وہ نثرِ عاری ہے۔ اس نثر کی بڑی خوبی بیان کی بے ساختگی ہے ، لیکن اس میں بھی مجاز و کنایہ و تشبیہ و استعارہ و تحویلِ خبر بہ انشا و صنایعِ معنویہ و لفظیہ سے بہت کچھ حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ فقرہ:
(۱) میں نے اسے بہت ڈھونڈھا مگر نہ ملا۔۔۔ (اس )فقرے میں خبر ہے اور سب لفظوں سے حقیقتِ معنی مقصود ہے۔
(۲) میں نے کیسا کیسا ڈھونڈھا مگر وہ کب ملتا ہے۔۔۔اسی خبر کو انشاکی صورت میں ظاہر کیا ہے۔
(۳) میں نے بہت خاک چھانی مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔۔۔(اس )فقرے میں خبر ہے مگر الفاظ میں مجاز ہے۔
(۴) میں نے کیسی کیسی خاک چھانی مگر وہ کب ہاتھ آتا ہے۔۔۔(اس )فقرے میں انشا و مجاز دونوں جمع ہیں۔
(۵) میں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے تھکا مگر وہ تو عنقا ہے۔۔۔ (اس )میں مجاز کی جگہ تشبیہ ہے اور ڈھونڈھنے میں مبالغہ ہے۔
(ج ) اور سب سے بڑھ کر فقروں کا متشابہ ہونا لطف دیتا ہے۔ مثلاً جملۂ فعلیہ کا عطف فعلیہ پر ، اور اسمیہ کا اسمیہ پر۔ اور جیسی ایک فقرے میں فعل کی اور اس کے متعلقات کی ترتیب ہو ویسی ہی دوسرے فقرے میں ہو۔ جس کلام میں وزن نہ ہو اور قافیہ ہو، یعنی فقرہ ، دوسرے فقرے کا ، سجع ہو اس کا نام نثرِ مسجّع رکھا ہے۔ یہ نثر فقط زبانِ عربی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اردو فارسی کی زبان اس کی متحمل نہیں ، اس سبب سے کہ اردو فارسی میں جملہ فعل پر تمام ہوتا ہے اور فعل کا سجع بہت کم ہاتھ آتا ہے۔ اسی وجہ سے عام آفت یہ پیدا ہوئی ہے کہ بہ تصنع و تکلف دو دو فقرے ایک ہی معنی کے اکثر لوگ لکھا کرتے ہیں اور اس تکرارِ مُخِل و اطنابِ مُمِل سے سجع کا لطف بھی جاتا رہتا ہے۔ مثلاً یہ مضمون: میں نے سب حال سنا ، نہایت خوشی حاصل ہوئی۔اسے سجع کرنے کے لیے خواہ مخواہ اس طرح لکھنا پڑتا ہے : میں نے سب حال سنا ، دامنِ شوق میں گلہاے مضامیں کو چنا۔ نہایت خوشی حاصل ہوئی ، فکر و تشویش زائل ہوئی۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ فعل کا سجع مل بھی گیا تو اس میں وہ لطف کہاں جو اسم کے سجع میں ہوتا ہے اور وجدانِ صحیح اس بات کا شاہد ہے کہ افعال و روابط میں سجع کا وہ لطف نہیں جو اسم میں ہے۔ غرض کہ اردو فارسی میں عربی کی طرح نثرِِمسجع لکھنا غیر کا منہ چڑھا کو اپنی صورت بگاڑنا ہے۔ ہاں ، اردو فارسی سجع اگر اچھا معلوم ہوتا ہے تومتعلقاتِ جملہ میں ، جیسے : فضلِ خدا سے اور آپ کی دعا سے خیریت ہے۔یا کہیں ایسا ہی بے تکلف محاورے میں پورا اتر جائے تو خیر ، جملے کا سجع جملہ ہی سہی، لیکن تمام عبارت میں اس کی پابندی تو عربی میں بھی مشکل سے نبھتی ہے۔ ابنِ عرب شاہ کی ’’تاریخِ تیموری ‘ ‘اور ’ ’فاکہۃ الخلفا ‘‘ دونوں کتابیں آخر زٹل قافیہ ہو کے رہ گئیں۔
(د ) جس کلام میں قافیہ نہ ہو اور وزن ہو اس کا نام ’’ نثرِ مرجّز ‘‘ مشہور ہے۔گو ائمۂ فن نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کا نام بھی رکھ لیا ہے مگر کسی نے اس پر قلم نہیں اٹھایا ہے۔ بے تکی نثر سمجھا کیے۔ سچ یہ ہے کہ میرا بھی خیال یہی رہا کہ جب وزن کے ساتھ قافیہ نہ ہو تو وہ ایسی لَے ہوئی جس میں سُر ندارد۔ مگرمحققؔ نے ’’معیار ‘‘میں ذکر کیا ہے کہ کسی یونانی شاعر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وزن ہے اور قافیہ نہیں۔ اور انگریزی میں بھی اس طرح کی تالیف کا رواج بہت ہے اور بے شک اس کی برجستگی وبے ساختگی کلامِ مقفےٰ سے کہیں بڑھی ہوئی ہے اس قسم کے کلام کو وہ لوگ نظم کے اقسام میں داخل کرتے ہیں۔ اور بات یہی ٹھیک ہے کہ موزوں کلام کو نظم کہنا چاہیے نہ کہ نثر۔