اٹھارہ سالہ میری گڈون مایوسی کا شکار تھیں۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ نیند کوسوں دور تھی۔ یہ 1816 تھا۔ وہ سوئیٹرزلینڈ میں اپنی بہن سے ملنے آئی تھیں۔ آگ کے گرد دوستوں کی محفل میں وہ سب اکٹھے ہوئے تھے۔ طے یہ پایا تھا کہ وہ بھوتوں کی کوئی کہانی لکھیں گے اور سنائیں گے۔
اگلی رات تک سب نے اپنی کہانی لکھ لی تھی۔ لیکن میری نہ لکھ سکیں۔ دن گزرتے رہے۔ ان کے ذہن میں کچھ آ ہی نہیں رہا تھا۔ انہیں ایسا لگنے لگا کہ وہ دوسروں سے کمتر ہیں۔ ان کو مایوسی نے آن لیا۔
سب روز اپنی گپ شپ کرتے رہتے۔ میری کو اپنے پر غصہ تھا کہ وہ اپنی کہانی کیوں نہیں لکھ پائی تھیں۔
اور پھر اس رات میری نے ہار مان لی اور ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر کہانی کا خاکہ بننے لگا۔ وہ کہتی ہیں، “میں نے اپنی بند آنکھوں سے ذہنی تصاویر دیکھیں۔ میرا تصور مجھ پر حاوی ہو گیا اور میری راہنمائی کرنے لگا”۔
میری گڈون کا نام اپنی شادی کے بعد میری شیلے ہو گیا اور اس رات کی ذہنی تصاویر کی بنیاد پر انہوں نے Frankestein کے عنوان سے شہرہ آفاق کتاب لکھی جو انگریزی میں کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر تخلیق اپنی زندگی چیلنج کے طور پر شروع کرتی ہے۔ ویسے ہی جیسے ہر جواب اپنا آغاز سوال کے طور پر کرتا ہے۔ کسی کینوس پر تصویر بنانا، کسی مسئلے کو حل کرنا، کوئی آلہ ایجاد کرنا، کوئی بزنس پلان بنانا یا پھر فزکس میں کوئی نکتہ ثابت کرنا۔۔۔ ان سب میں بہت کچھ مشترک ہے۔
سب سے بڑا یہ کہ اگر ہم اس شدید بے آرامی اور مایوسی کو برداشت کر سکیں، جیسے میری شیلے نے کیا تھا تو ہماری لچکدار ذہن کے اندر سے کوئی آئیڈیا اچانک کوند سکتا ہے۔
اور ایسی سوچ جو نئی خیالات کا باعث بنتی ہے۔ یہ تجزیاتی سوچ کی طرح سیدھی لکیر پر نہیں چلتی۔ کئی بار بڑے، کئی بار غیراہم، کئی بار ہجوم میں، کئی بار تنہائی میں ۔۔ لگتا ہے کہ ہمارے ذہن میں آئیڈیا اچانک ہی وارد ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ عدم سے وجود میں نہیں آتے۔ یہ غیرشعوری ذہن کی کارستانی ہے۔
میری کے لئے فرینکسٹائن کا یہ خیال وارد ہونا کوئی پرسرار شے یا جادو تھا۔ آخر یہ کیسے ہوا کہ کئی دنوں کی ناکام کوشش کی بات یہ اس وقت آیا جب وہ کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک وہ ٹیکنالوجی نہیں آئی تھی جس سے نیوروسائنس کی ترقی ممکن ہو سکے، اس بات کو سمجھنا انتہائی مشکل تھا کہ آوراہ خیالی یا خیالی پلاؤ پکاتے وقت ہمیں وہ جواب بھی مل سکتے ہیں جو شعوری محنت سے نہ مل پائیں۔ لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ ذہنی آرام کے وقت غیرشعوری حصہ مکمل طور پر متحرک ہوتا ہے۔ فرینکسٹائن کی تخلیق سے دو صدیوں بعد ہم اس کی نگرانی کر سکتے ہیں اور پیمائش کر سکتے ہیں۔ ہم اب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ جادو لگنے والی پرسرار شے تو ہو گی لیکن یہ ممالیہ دماغ کی خاصیت ہے۔ اسے سوچ کا ڈیفالٹ طریقہ کہا جاتا ہے اور یہ ہماری لچکدار سوچ کا ایک اہم پراسس ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...