تم نے اپنی تنہائی کا مسئلہ حل کرنے میںکافی جلدی دکھائی
فرانس میں ہماری بس ڈاکیارڈ سے نکل کر روڈ پر آئی تو وہ سڑک پر بائیں سے دائیں ہوگئی۔ یعنی جب وہ برطانیہ میں تھی تو سڑک کے بائیں طرف چلتی تھی۔ فرانس میں وہ دائیں سمت منتقل ہوگئی۔ جرمنی، سوئٹزرلینڈ ‘ بلجیم اور ہالینڈ میں بھی ٹریفک سڑک کے دائیں جانب چلتی ہے۔ دراصل برطانیہ اور جہاں جہاں برطانیہ کی حکومت رہی ہے ان ممالک میں سڑک کے بائیں طرف ٹریفک چلنے کا قانون ہے۔ جبکہ باقی ساری دنیا میں ٹریفک دائیں جانب چلتی ہے۔ حتیٰ کے عرب ممالک جو پاکستان سے انتہائی قریب واقع ہیں وہاں بھی ٹریفک دائیں طرف ہی چلتی ہے۔
ہمارا ڈرائیو ر تو تھا ہی جرمن۔ تجربہ کار بھی تھا۔ لہذا برطانیہ سے دوسرے یورپی ممالک اور وہاں سے واپس برطانیہ جا کر ٹریفک کی اس تبدیلی پر اسے کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔ وہ ڈرائیور جو ساری زندگی سڑک کے ایک ہی طرف گاڑی چلاتے رہے ہوں انہیں اس طرح کی اچانک تبدیلی سے بہت پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ سڑک پر سیدھا چلنا تو شاید اتنا مشکل نہ ہو۔ لیکن رائونڈ ا بائوٹ، دائیں اور بائیں مڑنا، لائن تبدیل کرنا اور اوور ٹیکنگ وغیرہ میں فوری طور پر نئے ملک کے نئے اصولوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا خاصا مشکل ہو سکتاہے۔ تجربہ کار اور ہوشیار ڈرائیور چند گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد اس تبدیلی سے مانوس ہو جاتے ہیں اور انہیں بہت زیادہ مشکل درپیش نہیں ہوتی۔
ڈاکیارڈ سے نکل کر پیرس کی طرف جاتے ہوئے راستے کے دونوں جانب زرعی فارم‘سرسبز کھیت ‘ پھلوں سے لدے باغات‘ سبزے اور پھولوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ یہ منظر اتنا دلکش اور سہانا نظر آتا ہے کہ آنکھ جھپکنے کو دل نہیں چاہتا۔ یوں تو آسٹریلیا کو بھی قدرت نے بھر پور فیاضی سے نوازا ہے مگر یورپ میں قدرتی حسن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے بارشوں کا تناسب یورپ میں آسٹریلیا سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وجہ سے یہاں سبزہ اور پھل پھول بہت زیادہ ہوتاہے۔
پیرس سے پیشتر ہماری کوچ ایک جگہ پندرہ منٹ کے لئے رکی۔ یہ ایک چھوٹا سا دیہاتی قصبہ تھا ۔ اس سٹاپ پر مسافروں کی سہولت کے لئے سب کچھ موجود تھا۔ دو تین ریسٹورنٹ ‘ ٹوائلٹ ‘ منی ایکس چینج، اے ٹی ایم ،چھوٹا سا خوبصورت باغیچہ، جس میں رنگ برنگی چھتریوں کے نیچے صاف ستھرے بنچ اور میزیں ۔ مسافر حسبِ ضرورت کیفے ‘ ریسٹورنٹ یا ٹوائلٹ وغیرہ میں چلے گئے ۔ ہمارے علاوہ دو اور ٹورسٹ کوچز بھی وہاں کھڑی تھیں۔ ان کے مسافر بھی وہی سب کچھ کر رہے تھے ۔میں سینڈوچ اور کوک کا ڈبہ لے کر ایک بنچ پر جا بیٹھا۔ ہمارے گروپ میںصنفِ نازک میں سے تنہا سفر کرنے والی اکلوتی سیاح جولی بھی اسی چھتری کے نیچے میرے سامنے والے بنچ پر آ بیٹھی۔ جولی کے بارے میںمجھے اتنا ہی علم تھا کہ جولی کا تعلق لندن سے ہے اور وہ اکیلی سفر کر رہی ہے۔ وہ مجھسے دو سیٹیں آگے ایک فیملی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے جب گائیڈ کو اپنا تعارف کروایا تو میں بھی سن رہا تھا۔ جولی پتلی دبلی نازک سی لڑکی تھی۔ اس کی آنکھیں نیلی، زلفیں تراشیدہ اور ہونٹ صبح کی شبنم میں بھیگے گلاب جیسے نازک اور انگور کے رس سے بھرے لگتے تھے۔ میں نے جب اسے ہیلو کہا تو وہ فوراََ اپنا ڈرنک اٹھا کر میرے بنچ پر آگئی۔ سفر کی باتیں کرنے لگی۔ دیکھنے میں جتنی حسین تھی اس کی باتیں بھی اتنی ہی بھولی بھالی سی تھیں ۔لیکن کبھی کبھار وہ انتہائی پختہ کار عورتوں والا رویہ اختیار کر لیتی۔ چند منٹوں میں ہی جولی بے تکلفی سے باتیں کرنے لگی ۔ اسے بھی علم تھا کہ میں آسٹریلیا سے آیا ہوں اور اکیلا ہوں۔ کہنے لگی ’’میں ایک فیملی کے ساتھ بیٹھی ہوں۔ شاید میری وجہ سے انہیں تکلیف ہوتی ہو۔ تم بھی ایک فیملی کے ساتھ ہو۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم دونوں اکھٹے بیٹھ جائیں تاکہ یہ دونوں فیملیاں ہماری وجہ سے کسی ڈسٹربنس کا شکار نہ ہوں‘‘
میں نے کہا’’ یہ تو میری خوش قسمتی ہوگی کہ مجھے اتنا حسینہم نشین مل جائے۔تمھارا ساتھ رہا تو میں یہ سفر ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے بھی تیار ہوں‘‘
جولی مسکرائی’’ فی الحال تو یہ دو ہفتے ہی کافی ہیں۔ کیا پتا اس سے پہلے ہی ہم ایک دوسرے سے اُکتا جائیں‘‘
’’ تمھارے بارے میں نہیں جانتا۔ اپنے بارے میں مجھے یقین ہے کہ تمہارا ساتھ میرے سفر کا حسنبڑھا دے گا‘‘
جولی نے کہا’’ تو پھر یہ طے ہے کہ بس میں جا کر ہم دونوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھیں گے‘‘
میں نے کہا’’ بالکل ‘‘
ہم ایک دوسرے کے متعلق مزید جاننے کے لئے باتیں پوچھتے اور بتاتے رہے۔ اتنی دیر میں بس چلنے کا وقت ہوگیا۔ واپس جا کر ہم ایک سیٹ پر اکھٹے ہوگئے۔ بس چلی تو تھوڑی ہی دیر بعد جولی پر غنودگی طاری ہوگئی۔ چند منٹوں بعد ہی وہ میرے کندھے پر سر رکھے سو رہی تھی۔ اس کی زلفوں سے اٹھنے والی بھینی بھینی مہک اور چہرے کی تپش مجھے بھی مدہوش کرنے لگی۔ صنفِ نازک سے قربت کا یہ نشہ ایشیائی نوجوانوں پر بہت جلدی اثر انداز ہوتا ہے۔ میری جگہ جاوید اور شکیل ہوتے تو ان کے ولایت آنے کے کچھ پیسے تو پورے ہوتے۔ یورپ اور آسٹریلیا کی ٹھنڈی فضائوں کے پروردہ لوگوں پر ان ہلکے پھلکے مناظر کا اثر کچھ زیادہ نہیں ہوتا ۔شاید وہ بچپن سے صنفِ نازک سے اتنے قریب رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے اوپر صنف مخالف کی قربت سے جو نشہ طاری ہونے لگتا ہے ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔شاید خون میںگرمی کا فرق بھی ہو ۔
جولی کو شاید اس کا احساس بھی نہیں ہوگا ۔کیونکہ وہ تو چہرے پر معصومیت سجائے خوابوں کے مزے لے رہی تھی۔ لیکن یہ قربت میرے اندر کی دنیا میں ہلچل مچائے ہوئے تھی۔ دل کے دھڑکنے کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی تھی اور خون کی گردش میں تیزی آگئی تھی ۔شاید خون کا دبائو بڑھنے سے میرے چہرے کی سرخی میں اضافہ بھی ہو چکا تھا۔ اسی وقت ہماری ٹور گائیڈ مولی چلتے چلتے ہمارے پاس آکر رُکی۔ میں ڈرا کہ اس نے میرے دِل کی چوری پکڑ لی ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی’’ تم نے اپنی تنہائی کا مسئلہ حل کرنے میںکافی جلدی دکھائی ہے‘‘
میں نے اپنے آپ کو سنبھالا’’ ہاں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ ویسے میری تنہائی کا تمہیں زیادہ احساس ہونا چاہیئے کیونکہ تم ہماری میزبان ہو‘‘
مولی مسکرائی’’ ایک کی میزبانی سے فارغ ہوگے تو دوسری کی ضرورت پڑے گی نا‘‘
میں نے کہا ’’میرے ساتھ کچھ ایسا نہ ہوجائے جو دو گھروں کے مہمان کے ساتھ ہوتا ہے‘‘
مولی نے کہا ’’ فکر نہ کرو !تم گھر کے اتنا اندر پہنچ چکے ہو کہ اب کسی نہ کسی کو تمہیں خوش آمدید کہنا ہی پڑے گا‘‘
’’ تم حسینائوں کو بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ اسی وجہ سے ڈر رہا ہوں‘‘
’’اپنی کوششیں جاری رکھو نتیجہ بہتر ہی نکلے گا‘‘
مولی یہ کہہ کر مسکراتی ہوئی آگے چل پڑی۔ مولی کے بدن کا لوچ اور اس کی مسکراہٹ اتنی قاتل تھی کہ ڈیوڈ جیسا بڈھا اور عورتوں سے بے زار شخص بھی اس پر نظریں جمائے ہو ئے تھا۔
جولی کافی دیر سوتی رہی۔ میں کبھی جولی کے بے مثال حسن اور کبھی فرانس کے خوبصورت نظاروںاور حد نظر تک پھیلی ہوئی سرسبز و شاداب زمینوں میں کھویا رہا۔ سفر گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔
فرانس کے ان حسین دیہی نظاروں سے آنکھوں کو تراوٹ اور دل کو تازگی ملتی رہی۔ اس دوران ہم دنیا کے حسین ترین شہروں میں سے ایک یعنی پیرس پہنچ گئے ۔ پیرس کی مصروف مگر خوبصورت گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم اپنے ہوٹل کے سامنے جا رُکے۔پیرس میں ہمارے ہوٹل کا نامDeCambellتھا۔خاصا بڑا ہوٹل تھا۔ فائیو نہیں تو فور سٹار ضرور ہو گا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ پیرس جیسے شہر میں ایسا ہوٹل خاصا مہنگا ہوگا۔ تاہم ٹریفالگر جیسی بڑی ٹورسٹ کمپنیوں کی ہر جگہ خصوصی ڈیل ہو تی ہے۔ ایسے ہوٹلوں کاکسی ایک فرد کے لئے ریٹ الگ اور زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن ٹریفالگر جیسی بڑی کمپنیوں کے ساتھ انہیں خصوصی رعایت کرنی پڑتی ہے۔
ہم نے اپنا سامانبس سے اُتروا کر پورٹرز کے حوالے کیا۔ کائونٹر پر جا کر کمرے کی چابی حاصل کی۔میں نے نوٹ کیا کہ تمام ہی سنگل سیاحوں نے الگ کمرہ حاصل کیا تھا۔ کسی دوسرے سیاح کے ساتھ ٹھہرنے سے انہیں کافی رعایت مل سکتی تھی لیکن یہ لوگ کسی کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے ۔ اگر پاکستانی ہوتے تو کمرہ تو ایک طرف، ایک چار پائی پر سونے میں بھی انہیں عار نہ ہوتا ۔شادی بیاہ اور مرگ پر جب زیادہ مہمان اکھٹے ہو جاتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک چارپائی پر بعض اوقات دو اور تین تین ٹیڑھے ترچھے ہو کر سو جاتے ہیں۔ اس وقت کسی کے کان میں دوسرے کا پائوں اور ایک کیچہرے پر دوسرے کی لات رکھی ہوتی ہے۔ لوگ صبر شکر سے رات بسر کر ہی لیتے ہیں۔ خیر مجھے کیا۔مجھے آدھے کرائے پر پورا کمرہ مل گیا تھا۔ اگر میری طرح کا کوئی دوسرا شخص انہیں مل جاتا تو اس وقت میرے کمرے کا شرکت دار بنا ہوتا۔ شکر ہے نہیں ملا۔ پیرس پہنچنے تک مجھے دھڑکا لگا ہوا تھا کہ ٹریفالگر والوں نے میرے کمرے کا حصے دار ڈھونڈھ نہ لیا ہو۔ اب یہ خطرہ ٹل چکا تھا اور بقیہ سفر میں بھی اب یہ اندیشہ نہیں تھا۔
اس وقت شام کے چار بجے تھے۔گرمیوں کی اس سہ پہر سورج ابھی سر پر کھڑا تھا۔ کیونکہ غروبِ آفتاب دس بجے کے قریب تھا۔ اس کے بعد بھی سورج کی روشنی تقریباََ ایک گھنٹے تک باقی رہتی ہے۔ مولی نے سیاحوں سے کہا ’’ آپ لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا کر ایک دو گھنٹے آرام کرلیں ۔اس کے بعد چاہیں تو شاور اور ڈنر وغیرہ سے فارغ ہو جائیں۔ کیونکہ غروبِ آفتاب کا منظر ہم پیرس کے مشہور مقام ایفل ٹاور کے اوپر سے دیکھیں گے۔ اس کے لئے ہم سات بجیروانہ ہو جائیں گے۔ آپ لوگ تیار ہو کر سات بجے سے پہلے نیچے لابی میں آجائیں‘‘
میرے اوپر پہنچنے سے پہلے پورٹر میرا سامان کمرے میں پہنچا چکا تھا ۔شاندار کمرہ تھا۔ کم از کم میرے لندن والے ہوٹل سے بہتر اور کشادہ تھا۔میں آرام دہ بستر پر گر کر سستانے لگا۔ سات بجے سے پہلے تیار ہو کرمیں نیچے لابی میں پہنچ گیا۔ ہمارے گروپ کے تقریباََ سبھی سیاحوں نے ریسٹورنٹ میں جا کر گائیڈ کی ہدایت کے مطاق ڈنر کر لیا تھا۔ لیکن میں اتنے دن یورپ میں گزارنے کے باوجود چمکتی دھوپ میں اور سرِشام ڈنر کا عادی نہ ہو سکا تھا۔ پاکستان کی طرح آسٹریلیا میں بھی ہم ڈنر رات نو بجے کے بعد ہی کرتے ہیں ۔برطانیہ میں قیام کے دوران بھی میں ڈنر رات دیر سے ہی کرتا رہا۔ لہذٰا پیرس میں بھی حسب عادت ِسرشام ڈنر نہ کر سکا۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ ایفل ٹاور کی سیر کے بعد واپس آ کر کھانا کھا وٗںگا ۔ اس وقت میرے خیال و خواب میں بھی نہیں تھا کہ ہر جگہ ہر کام ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنے رہنما کی بات کو در خور اعتنا نہیں سمجھیں گے تو اس کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔
سات بجے شام ہماری کوچ ہمیں لے کر پیرس کی خوبصورت گلیوں میں کہیں سست خرامی اور کہیں سُبک رفتاری سے سوئے منزل روانہ ہو گئی۔ سنہری کرنوں والی روپہلی دھوپ پیرس کی خوبصورت عمارتوں، جاذب نظر کھڑکیوں اور دروازوں اور کھڑکیوں کی کارنسوں پر سجے رنگ برنگے پُھولوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ پیرس کی شام! یہ تین رومانٹک لفظ میں نے بے شمار دفعہ سُنے اور پڑھے تھے۔ سُن اور پڑھ کر پیرس کی شام کا ایک رنگین تصور ذہن کے پردے پر موجود تھا۔ اس شام پیرس کے دل ربُا اور فسوں خیز نظارے جب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تو تصور کی رنگین چادر مزید رنگین ہوتی چلی گئی ۔پیرس میرے تصور سے کہیں بڑھ کر حسین تھا۔ اس کا حسن میرے دل و دماغ پر چھاتا چلا گیا ۔ کسی قلمکار کے الفاظ اور مقرر کی زباں ان نظاروں کو بیان نہیں کر سکتی جو اُس کی آنکھ دیکھتی ہے۔ قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت زمین اور اس کے دلکش قدرتی نظارے انسان کی قدرتِ بیان میں آبھی کیسے سکتے ہیں۔
پیرس کے حُسن میں قدرت کی فیاضی اور انسان کی بھرپور محنت دونوں شامل ہیں۔ قدرت نے اگر اس علاقے کو زرخیز زمین، سرسبز و شاداب کھیت ، دلکش نظارے ، بل کھاتے دریاوٗں اور خوبصورت پہاڑوں سے نوازا ہے تو حضرتِ انسان نے ان دلکشیوں اور خوبصورتیوں کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس میں مصنوعی حُسن کے اضافے سے چار چاند لگا دیئے۔پیرس کی صاف ستھری اور چمکتی ہوئی سڑکوں کے کنارے درختوں اور پودوں کی رنگا رنگ اقسام اور ان کی تزئین و ترتیب انتہائی فنکارانہ اور جاذب نظر ہے۔ ایسے لگتا ہے کسی ماہر جرنیل نے ترتیب سے مقررہ فاصلوں پر فوجی کھڑے کر رکھے ہوں۔ پودوں کی تراش خراش اور پھولوں کی اقسام دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح پیرس کی عمارتیں ، ان کا طرزِ تعمیر اور ان کی تزئین و آرائش بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ فرنچ طرزِ تعمیر اپنی انفرادیت اور خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ خصوصاً فرنچ دروازوں اور کھڑکیوں کا ایک مخصوص ڈیزائن ہے۔ یہ عام سی کھڑکیا ں اور دروازے نہیں ہیں بلکہ کسی فن کا ر کے فن کا نمونہ نظر آتے ہیں۔ گرمیوں کے اس موسم میں کھڑکیوں کے چھجے رنگ برنگے پھولوں سے لدے نظر آرہے تھے۔
ہماری بس پیرس کی سڑکوں اور گلیوں میں جتنا آگے بڑھ رہی تھی اتنا ہی اس کے حُسن کا جادو ہمارے دل و دماغ پر چھاتا جارہا تھا۔ لبِ سڑک واقع ریستورانوں اور کافی شاپوں کے سامنے تزئین و ترتیب سے میز اورکرسیاںسجے ہوئے تھے۔ فرنچ مرد اور عورتیں بہترین لباسوں میں ملبوس ان کرسیوں پر براجمان کافی، کولڈ ڈرنک اور کھانوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ ان کرسیوں پر بیٹھے فرانسیسیوں کی اکثریت تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھی۔ اس کے برعکس آسٹریلیا میں سُوٹ صرف کاروباری اوقات میں پہنا جاتا ہے۔ اگر شام کو باہر جانا ہو تو لوگ گھر جا کر عام لباس جو زیادہ تر پتلون اور ٹی شرٹ پر مشتمل ہوتا ہے پہن کر جاتے ہیں۔ اکثر جوان لڑکے اور لڑکیاں پیر سے جمعرات تک سوٹ پہن کر دفتر جاتے ہیں۔ لیکن جمعے والے دن عام لباس میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ ویک اینڈ نائٹ پر انہیں ریستورانوں اور کلبوں وغیرہ میں جانا ہوتا ہے۔ مرد دفتری اوقات کے بعد ڈھیلی ڈھالی پتلون یاجینز اور ٹی شرٹ جیسے آرام دہ لباس میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ البتہ لڑکیاں اور عورتیں عموماََ ایسے لباس کا انتخاب کرتی ہیں جن سے بدن کے پیچ و خم نمایاں نظر آئیں۔ اگر عورت اکیلی ہو تو پھر تو وہ کیل کانٹے سے لیس ہو کر باہر نکلتی ہے۔ تاکہ کسی نہ کسی کو اپنی زلفِ گرہ گیر کا اسیر کر کے گھر لوٹ سکے۔ اگر ایک وِیک اینڈ پر اُسے اپنے مقصد میں ناکامی ہو تو اگلے ہفتے وہ اس سے بھی زیادہ ہتھیاروں سے لیس ہو کر باہر نکلتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی نہ کوئی اس کے بدن کے پیچ و خم کا اسیر نہیں ہو جاتا۔
میں نے اپنی گائیڈ مولی سے دریافت کیا ’’ یہ ریستورانوں اور کافی شاپس میں جو لوگ براجمان ہیں۔ اُن میں سے کوئی بھی بغیر سوٹ کے نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘
مولی نے بتایا’’ یہ فرانسیسیوں کا رواج ہے ۔ شام کو باہر نکلتے ہیں تو پورے سوٹ بوٹ میں ہوتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی! چاہے تھوڑے سے وقت اور تھوڑے سے فاصلے پر موجود کافی شاپ میں بھی جائیں یہ سوٹ کے بغیر نہیں نکلتے۔ اس لئے یہاںکسی ریستوران اور کافی شاپ میں کوئی شخص سوٹ کے بغیر نظر آئے تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ فرنچ اپنے رسم و رواج، لباس، زبان اور خوراک کے معاملے میں بے لچک بلکہ سنکی واقع ہوئے ہیں۔ یہ تو ہم سیاحوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہاں چند دنوں یا چند گھنٹوں کے لئے بھی آئیں تو انہی کے رسم وراج پر چلیں۔ انہی کی زبان بولیں اور انہی کی طرح خشک اور لمبی فرنچ ڈبل روٹی کھائیں۔ چاہے بعد میں قبض ہوجائے‘‘
مولی کی بات پر سب سیاح مُسکرا دیے۔ بعد میں مولی نے فرانسسیوں کے کئی لطیفے سنائے جو زیادہ تر انگریزوں نے فرانسیسیوں کا مضحکہاڑانے کے لئے تراشے تھے۔
پیرس کی فضائوں میں پھیلی شفق کی سُرخی
اس دن جمعہ یعنی ویک اینڈ نائٹ تھی۔ اس لئے سڑکوں پر رش بے تحاشا تھا۔ فٹ پاتھ پر بھی کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ویسے بھی آسڑیلیا سے باہر نکلیں تو دنیا کے ہر شہر میں لوگوں کی تعداد زیادہ محسو س ہوتی ہے۔ جوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فٹ پاتھوں پر چلے جارہے تھے۔ کئی جگہوں پر یہ ہاتھ ایک دوسرے کی کمر سے لپٹیتھا۔ کہیں بدن سے بدن چپکے تھے۔ کچھ عمر رسیدہ جوڑے کافی شاپوں کے سامنے سجی کرسیوں پر بیٹھے عمرِ رفتہ کو یاد کر رہے تھے۔ آٹھ بجے کے بعد بھی سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔ہم پیرس کی خوبصورت عمارتوں، چمکتی سڑکوں ، کھڑکیوں کی کارنسوں پر لگے رنگ برنگے پھولوں والے پودوں، ریستورانوں اور ہشاش بشاش فرانسیسیوں کو دیکھتے ہوئے دریا ئے سین کے کنارے جا پہنچے۔ یہ خوبصورت اور سانپ کی طرح بل کھاتا دریا پیرس کی حسین گردن پر سجا دلکش ہارنظر آتا ہے اور اس کے حُسن کو مزید جلا بخشتا ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر خوبصورتی اور ترتیب سے بنی ہوئی عمارتیں ، دریا میں تیرتی رنگ برنگی کشیتاں اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے شاندار پُل پیرس کی شان بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ ہم ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ا لگزینڈر برج کراس کر کے پیرس کے ماتھے پر سجے شاندار، باوقار مشہور زمانہ ایفل ٹاور کے پاس جا کر رُکے۔ ایفل ٹاور اتنا بلند ہے کہ پیرس کے ہر علاقے سے نظرآتا ہے۔ اس کے نزدیک جا کر تو اُس کی بلندی، اُس کی ساخت اور اس کا سائز عقلِ انسانی کو دنگ کر کے رکھ دیتا ہے۔
اس بلند و بالامینار اور دریائے سین کے درمیان ایک کھلا میدان ہے۔ جہاں ہر جانب سیاحوں کا جھمگٹا نظر آتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح مرد اور عورتیں اس عظیم الشان اور محیرالعقول عمارت کی ہر زاویے سے فوٹو گرافی کرتے نظر آتے ہیں۔ مقامی فرنچ اور الجزائری کالے ایفل ٹاور اور دوسرے قابلِ دید مقامات کی تصاویر پر مشتمل کارڈز فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ تقریباً ہر سیاح کو یہ کارڈز خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمیں مولی نے بتایا کہ ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ ٹورسٹوں کو لوٹنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔ ایسے ہی ایک کھچڑی بالوںاور سیاہ رنگت والے الجزائری نے مجھے اپنے کارڈز دکھانے کی کوشش کی۔ میں نے ایک کارڈ دیکھنے کے بعد اس کا نرخ دریافت کیا۔ ا س نے جو دام بتائے وہ خاصے زیادہ تھے۔ ویسے بھی ان کارڈز کی مجھے ضرورت نہیں تھی۔ میں نے شکریہ ادا کر کے کارڈ واپس کیا تو اس کا چہرہ غصے سے مزید سیاہ ہو گیا ’’ تم انڈین لوگ کچھ خرید تو سکتے نہیں۔ ایسے ہی وقت ضائع کرتے ہو‘‘
میں نے کہا ’’ تم شاید بھول گئے ہو کہ میں نہیں بلکہ تم میرے پاس کارڈز بیچنے آئے تھے۔میرا وقت تم سے زیادہ قیمتی ہے۔ جائو اور کوئی اور شکار تلاش کرو ‘‘
وہ منہ بنا کر بڑ بڑاتا ہوا چلا گیا۔سیاحوں کی ایک طویل قطار ٹکٹ خریدنے کے لئے کھڑی تھی۔ خوش قسمتی سے ہمیں یہ زحمتنہیں اٹھانا پڑی ۔ کیونکہ ٹریفا لگر کے پیکج میں یہ ٹکٹ بھی شامل تھا ۔ مولی نے یہ ٹکٹ پہلے سے خرید رکھے تھے۔ تا ہم لفٹ میں سوا رہونے کے لئے پھر بھی قطار بنانی پڑی۔ ایفل ٹاور کے کئی فلور ہیں۔ آپ ان میں سے کسی پر بھی جا کر دور تک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک عمودی نظر آنے والا مینار ہی نہیں بلکہ مکمل عمارت ہے۔ جس کے مختلف فلورز پر کمرے، کینٹین، ٹوائلٹ ، بالکونیاں اور لا ئونجز موجود ہیں۔ لفٹ جب اوپر کی جانب چلی تو چلتی ہی چلی گئی۔ زمین دُور اور آسمان نزدیک نظرآنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم آسمان کو چھونے جارہے ہیں۔ میں سب سے اوپر والے فلور پر اُتر کر بالکونی میں پہنچا تو پورا پیرس حدِ نظر تک میرے سامنے تھا۔ دُور دُور تک عمارتیں، سڑکیں، دریا اور گھر میرے دائرہِ نظر میں تھے۔ایک نظارے میں اتنے منظر دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ اس پر مستزاد بالکونی میں دوربینیں بھی ایستادہ تھیں۔ جن میں چند فرینک ڈال کر نظروں کی پہنچ کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا تھا۔
میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے تبدیل کرائی کرنسی میںسے چند سکے لے کر ایک دُوربین میں ڈالے تو یہ مشین میلوں دور مناظر کو کھینچ کر میرے اتنے قریب لے آئی کہ ایسے لگا کہ میں ہاتھ بڑھا کر انہیں چھو سکتا ہوں۔ اس بلند و بالا عمارت سے پیرس کے دُو ر و نزدیک کا نظارہ اور اس کی سحرانگیزی نظروں میں جذب ہونے لگی۔ پیرس کی لمبی،سیدھی اور چمکدار سڑکیں، سُرخ چھتوں والے گھر، پارک ، باغات اور بل کھاتا دریائے سین سب کچھ نظروں کے دائرے میں تھا۔ جدھر دُوربین کا رُخ کرو ۔وہیں نظارے نظروں کو کھینچ لیتے تھے۔ آنکھ جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ حتی ٰکہ دوربین میں ڈالا گیا سکہ وقت ختم ہونے پر بازاری عورت کی طرح دغا دے گیا۔ دُوربین نے اندھا ہو کر آنکھوں کو دُور کے نظاروں سے محروم کر دیا ۔
میں نے دُوربین میں نیا سکہ ڈال کر اس کارُخ دریائے سین کی طرف کیا تو کافی دُور موجود ایک کشتی مجھے بالکل قریب نظر آنے لگی۔ بوٹ میں موجود جوڑا تجدیدِ محبت کی مشق کر رہا تھا۔ اُس ہوش ربا نظارے نے اس ٹھنڈے موسم میں بھی میرے ماتھا عرق آلود کر دیا۔ وہ جوڑا میرے اتنیقریب تھا کہ ان کے چہروں پر جذبات کی تپش بھی محسو س کی جا سکتی تھی۔ مجھے اس بے شرم جوڑے پر غصہ آیا جو میرے سامنے ایسی حرکتیں کر رہا تھا۔ دفعتاً دوربین میں ڈالے گئے سکے کا وقت ختم ہو گیا اور وہ جوڑا بہت دُور کھڑی بوٹ کے دھبے میں تبدیل ہو گیا۔ تب مجھے احساس ہوا کے بے شرم وہ جوڑا نہیں بلکہ میں ہوں جو اُن کی پرائیویسی میں مخل ہو رہا تھا۔ میں نے دُوربین میں دوبارہ سکہ ڈالا اور دوسری طرف کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگا۔
وہیں کھڑے کھڑے ساڑھے دس بج گئے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے سورج سرخ تھال کی شکل میں مغرب کی جانب چھ گھنٹوں کے لئے روپوش ہوگیا۔ وہ اپنے پیچھے پیرس کی فضاوٗں پر دلہن کے ہاتھوں پر سجی مہندی کے رنگ کی شفق بکھیر گیا۔ غروبِ آفتاب کا ایفل ٹاور کی انتہائی بلندی سے دیکھا گیا وہ منظر اب تک میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔ پیرس کی فضائوں پر پھیلی شفق کی سُرخی سے رنگی وہ رنگین شام کسی خشک مزاج شخص کو دل گداز نرمی بخش کر شاعر بنانے کے لئے کافی تھی ۔وہ الگ بات ہے کہ ہر انسان اپنے دل میں مچلنے والے سندر جذبوں کو الفاظ کی مالا پہنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔یہ وصف قدرت نے صرف شاعروں کو ہی دیا ہے۔ جو نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے جذبات کو بھی الفاظ کا جامہ پہنا کرشعروں کی شراب اور غزل کے جام میں ڈھال دیتے ہیں۔
ایفل ٹاور کی بلندی سے غروبِ آفتاب کا منظر تو انتہائی حسین تھا ہی، غروبِ آفتاب کے بعد اس میں مزید چار چاند لگ گئے۔ کیونکہ پیرس کی رنگا رنگ روشنیاں ہر چہار جانب جل اٹھی تھیں۔ اس بلندی سے یہ روشنیاں اتنی دلکش لگ رہی تھیں کہ ان سے نظریں ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ سڑکوں کے کنارے لیمپوں میں ایک دلکش ترتیب تھی۔ سرِشام جلنے والی یہ رنگ برنگی روشنیاں اب ایک دوسرے ہی پیرس کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ میں ٹاور پر موجود کیفے سے خریدی گئی کافی کی چسکیاں لے کر بالکونی میں کھڑا ان نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔اچانک جولی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چونکا دیا ۔ جولی کے حسین چہرے پر شفق کی سرخی کا پر تو نظر آرہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہماری بس جانے کے لئے تیار ہے۔
گیارہ بجے ہم بس میں سوار ہوئے تو دن کی روشنی غروب ِآفتاب کے ایک گھنٹے بعد بھی باقی تھی۔ ایفل ٹاور کے اردگرد سیاحوں کا ہجوم ویسے کا ویسا تھا۔ تصویری کارڈز اور سووینئر زبیچنے والے ویسے ہی مصروف تھے۔ علاوہ ازیں ٹریفالگر سکوائر لندن کی طرح درجنوں تصویری ا سکیچ بنانے والے فنکار ا یزل اور اسٹینڈ ، رنگ اور برش لے کر سیاحوں کی پورٹریٹ بنارہے تھے ۔چند ایک کے پاس رک کر میں نے دیکھا ۔ وہ بہت اچھی تصاویر بنار ہے تھے۔ تاہم بعض فنکاروں کی قسمت میںسڑکوں اور فٹ پاتھوں کی خاک چھاننا لکھا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کئی کے فن پارے مشہور و معروف مصوروں سے کم نہیں تھے۔
ہم دریائے سین کے کنارے کھڑی اپنی کوچ میں جا بیٹھے۔ دریائے سین میں کھڑی کشتیوں پر رنگا رنگ روشنیاں جل اٹھی تھیں۔ جب کشتیاں ہوا کے ساتھ ہچکولے کھاتیں تو روشنیاں دریا پر تیرتی نظر آتیں ۔ واپسی کے سفر میں ہم نپولین بونا پارٹ کے مقبرے کے سامنے سے گزرے ۔پھر ہم نے روشنیوں اور رنگوں میں ڈوبا پیرس کا اوپیرا ہائوس دیکھا ۔نیشنل اسمبلی آف فرانس کے سامنے سے گزرے۔ کنکورڈ کے چوراہے پر پہنچے تو رولر اسکیٹنگ شوز پہنے ہزاروں کی تعداد میںلڑکے اور لڑکیاں ہماری بس کے سامنے آ گئے۔ جس جگہ ہماری بس کھڑی تھی وہاں سے مجھے یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ یہ مخلوق کہاں سے برآمد ہو رہی ہے۔ لیکن وہ بیک وقت سیکڑوں کے حساب سے پوری سڑک پر پھیلے ہوئے تھے۔ وہ تیزی سے پھسلتے ہوئے ایک جانب جارہے تھے۔ ٹریفک چاروں جانب سے رُکی ہوئی تھی۔ ہمار ی بس اور دیگر سیکڑوں گاڑیوں کے ڈرائیور بے چینی سے ان کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن وہ ساون کے مہینے میں زمین سے برآمد ہونے والے پتنگوں کی طرح ا ُ مڈے ہی چلے آرہے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ پورے پیرس بلکہ پورے فرانس کے لوگ اسکیٹنگ شوز پہن کر سڑک پر آ گئے ہیں۔
ہم سب اور ہم سے زیادہ ہمارا ڈرائیور تھکا ہوا تھا۔ وہ بار بار بس آگے کی جانب کھسکاتا اور ریس دیتا کہ شاید یہ مخلوق رُک کر اُسے راستہ دے دے ۔لیکن اُس رات پیرس کے اس حصے میں اسکیٹنگ کرنے والے نوجوانوں کا راج تھا۔ خدا خدا کر کے آدھے گھنٹے میں یہ قافلہ ختم ہواتو ہماری بس آگے بڑی۔ دن بھر کی مسافت اور آدھی رات گزر جانے کے باوجود پیرس کا حُسن اور خصوصاً فرائیڈے نائٹ کی چہل پہل تھکن کا احساس بھلائے ہوئے تھی۔ ہر طرف دن کا سا سماں تھا۔ واپسی کے سفر میں ، میں سڑکوں کے کنارے سٹریٹ لائٹوں کے منفرد فرنچ سٹائل کو دیکھ کر متاثر ہوا۔ سٹریٹ لیمپ صدیوں پرانی لالٹین کی شکل کے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ بہت سی لالٹینیں جلا کر کھمبوں کے ساتھ لٹکا دی گئی ہوں۔ ان لالٹینوں نے ایک عجیب سماں پیدا کر دیا تھا۔ریستورانوں ، کلبوں ، کافی شاپس اور دکانوں پر رش جوں کا توں تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ رات کے بارہ بج گئے ہیں۔ جوان جوڑے بانہوں میں بانہیں ڈالے ہنستے مسکراتے اور محبتوں کی خوشیاں سمیٹتے چلے جا رہے تھے۔
ہمارے گروپ میں شامل بوڑھے سیاح تھکے تھکے لیکن خوش نظرآرہے تھے۔مولی حسبِ معمول چہک چہک کر پیرس کے مختلف علاقوں اور عمارتوں کے بارے میں بتارہی تھی۔ جولی میرے ساتھ بیٹھی کبھی باہر کے منظر دیکھنے لگتی، کبھی باتیں کرنے لگتی اور کبھی خواہ مخواہ ہنسنے لگتی۔ ہنستے ہنستے وہ لوٹ پوٹ جاتی۔ جب اسکیٹنگ کرنے والوں کا قافلہ ہمارے سامنے سے گزر رہاتھا تو وہ میرے کا ندھے پر سر رکھے باقاعدہ خراٹے لے رہی تھی۔ مولی اُسے دیکھ کر میری طرف معنی خیز انداز میں مسکرا رہی تھی۔ جاپانی جوڑا اِرد گرد کے نظاروں سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھا۔ کبھی کبھار جب انہیں ایک دوسرے سے ایک لمحے کی فرصت ملتی تو باہر کی طرف نظر دوڑا تے اور پھر ایک دوسرے میں کھو جاتے تھے۔
میری نظر ڈرائونی شکل والی ڈبل روٹی پر پڑی
ہوٹل پہنچے تو گھڑیاں سوا بارہ بجا رہی تھیں۔ میری آنتیں بھوک سے قُل ھو اللہ بلکہ چاروں قُل پڑھ رہی تھیں میں نے سوچا پہلے ریستوران میں جا کر کھانا کھاوٗں گا پھر کمرے میں جاوٗں گا۔لیکن میرا پروگرام اس وقت دھرے کا دھرا رہ گیا جب دیکھا کہ ریستوران کا دروازہ بند ہو چکاتھا۔دریافت کرنے پر معلوم ہو اکہ رات کے بارہ بجے ہوٹل کا ریستوران بند ہو جاتا ہے۔ شام کے وقتمیں نے ہوٹل سے تھوڑے فاصلے پر میکڈونلڈ ریسٹورنٹ دیکھا تھا ۔وہاں پہنچا تو ریسٹورنٹ کی بند روشنیاں بتا رہی تھیں کہ یہدربھی بند ہے۔ ہمارا ہوٹل جس علاقے میں تھا وہاں زیادہ تر آفس وغیرہ تھے۔ رہائشی علاقہ نہ ہونے کی وجہ سے ریستوران وغیرہ کم تھے۔ وہ بھی اس وقت بند تھے۔ میں گھومتا گھماتا واپس ہوٹل پہنچ گیا ۔ اُن کو اپنی بپتا سنائی۔ لیکن انہیں میری حالتِ زار پر ذرہ رحم نہ آیا۔ تاہم انہوں نے ایک نیا راستہ دکھلایا اور وہ راستہ تھا وہاں سے دس منٹ کی مسافت پر واقع نووٹل ہوٹل کا۔ مجھے بتایا گیا کہ نووٹل کا ریسٹورنٹ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔
مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق ایک بار پھر کمرِ ہمت باندھ، رات کے سناٹے میں کھانے کی تلاش میںنکل پڑا۔ دن کے خوشگوار موسم کے مقابلے میں رات کے اس پہر اچھی خاصی خنکی تھی ۔میرے جسم پر پتلون اور ٹی شرٹ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ رات کے اس پہر خالی پیٹ سردی اور اندھیرے میں پیرس کا سارا حُسن ماند پڑ گیا تھا۔ پیرس مجھے اس پل پرد ے پر انتہائی دلکش نظر آنے والی اس اداکارہ کی طرح لگا جو صبح سو کر اٹھے تو میک اپ کے بغیر چڑیل لگ رہی ہو۔ پردے پر اس کے خیرہ کن حسن کے جلوے دیکھنے والا اس کا شائق ایسے میںاُسے دیکھ لے تو جو حالت اس کی ہو، وہی حالت اس وقت میری تھی۔ میں نووٹل ہوٹل پہنچا تو لابی تقریباً خالی تھی ۔ پوچھتا پوچھتا ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو وہاں ایک بھی گاہک نہیں تھا۔ تا ہم دو بیرے کاوٗنٹر کے پاس بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔مجھے دیکھا تو خوش گپیاں ترک کرکے ان میں سے ایک میرے پاس چلا آیا۔ اُس نے مینو میرے سامنے رکھا اور فرنچ شریف میں کچھ فرمایا۔ جو ظاہر ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ مینو بھی فرنچ میں تھا۔ میں نے اُسے انگریزی میں بتایا کہ مجھے فرنچ نہیں آتی۔ لہذا مجھے انگریزی میں لکھا مینو لا کر دے۔ اس نے سر ہلا کر کہا ’’ نو انگلش‘‘
میں نے اسے سمجھایا ’’ دیکھو! یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی ڈش ہے میں آرڈر نہیں دے سکتا۔ اگر تمہیں انگریزی نہیں آتی تو کسی اور آدمی کو بلا کر لائوجو انگریزی سمجھتا ہو‘‘
اس زبان کے دھنی کا پھر وہی جواب تھا۔ ’’نو انگلش‘‘
میں پہلے ہی بھوکا اور پریشان تھا۔ اس پکے فرنچ نے باقی کی کسرپوری کر دی تھی۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ یہاں سے اٹھ کر کہیں اور جائوں۔ میں نے اُس کے انگریزی بلکہ پنجابی نہ جاننے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی کچھ بھڑاس نکالی ۔جو اگر اسے سمجھ آجاتی تو اپنی سخت اور لمبی بریڈسے میرا سر پھوڑ دیتا۔پھر آنکھیں بند کر کے میں نے مینوپر ایک جگہ انگلی رکھ دی اور اُسے کہا ’’یہ لے آئو‘‘
وہ اپنے مختصر سے نوٹ پیڈ پر کچھ لکھ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے ایک پلیٹ میں وہی لمبی اور سخت سی بریڈ لا کر میرے آگے رکھ دی جس کا ذکرمولی نے کیا تھا۔میں حیران ہو کر کبھی اُسے اور کبھی اس ڈرائونی بریڈ کو دیکھنے لگا ۔اور پھر اس سے پوچھا ’’کیا یہی کل کھانا ہے؟ ‘‘
وہ اشارہ کر کے کہ صبر کرومیں کچھ اور لا رہا ہوںچلا گیا۔ میں اکیلا بیٹھا اس بریڈ کو گھورنے لگا اور سوچنے لگا کہ اسے کھائوں یا اپنے سر پر ماروں۔ اگر کھائوں تو کیسے کھائوں۔ میرے گھورنے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اتنا زیادہ گھورنے پر بھی وہ بریڈ بریڈ ہی رہی۔ چکن بریانی ، پلاوٗ ، قورمے یا پالک گوشت میں تبدیل نہیں ہوئی۔ اس پر میری آنکھوں کی گرمی بلکہ حسرت بے اثر ثابت ہوئی۔ اتنی دیر میں وہ فرنچ ویٹر میرے سامنے ایک ڈش رکھ رہا تھاجس سے بھاپ نکل رہی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ چائنیز نوڈل تھے۔ اس میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میں یہ گوشت والی ڈش نہیں کھا سکتا تھا۔
میں پھر سوچ میں گُم ہو گیا کہ اب کیا کروں۔ میری نظر پھر ڈراوٗنی شکل والی اسی ڈبل روٹی پر پڑی جو فرنچ ناشتے ، لنچ اور ڈنر تینوں کھانوں میں رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ ان کا من بھاتا کھا جا ہے۔ آج نووٹل ہوٹل کے اس محب وطن فرنچ نے گھیر گھار کر مجھے بھی یہ بریڈ کھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن اسے کھائوں کیسے؟ یہ سوکھی بریڈ میرے حلق سے کیسے اترے گی؟ میں نے پھر مینو دیکھا تو مشروبات میں کوکا کولا لکھا نظر آیا جو انگریزی حروفِ تہجی کے استعمال کی وجہ سے آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ میں نے ویٹر کو بُلا کر اس پر انگلی رکھ دی ۔تھوڑی دیر بعد میں اس سخت بریڈ کو توڑ کر کوک کی مدد سے نگلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس طرح اس رات پیرس جیسے مشہور شہرکے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں میںنے شاندار ڈنر اس طرح کیا جس طرح پنجاب کے کسی گائوں میں کوئی کسان دو دن پرانی باجرے کی روٹی اور لسی کی مدد سے کر تا ہو۔ تھوڑی سی بریڈ کھاکر اور کوک کی بوتل پی کر میں نے ایسے ڈکار لیجیسے مرغ مسلم کھا کر اور مینگو لسی پی کر بزنس روڈ کراچی کے کسی ریسٹورنٹ سے نکلا ہوں۔ اتنے شاندار ڈنر کے بعد اب اس کا بل ادا کرنے کی باری تھی۔ بل آیا تو جو تھوڑا بہت کھایا تھا وہ بھی باہر آنے کو آیا۔ پورے پچاسی فرینک ادا کر کے اس دن میں نے اپنی زندگی کا مہنگا ترین ڈنر کیا۔ دانتوں میں خلال پھیرتا ہوا صبح کے دو بجے میں واپس ہوٹل پہنچا۔
اس دن مجھے فرانسیسیوں کا غیر فرنچ زبانوں سے تعصب اور انگریزی سے نفرت بہت بری محسوس ہوئی۔ اپنی زبان اور اپنے کلچر سے لگاوٗ یقیناً برُی بات نہیں ہے۔ لیکن چند دن کے لئے فرانس جانے والے سیاحوں سے جانتے بوجھتے انگریزی نہ بولنا اور فرنچ بولنے پر ہی مُصر رہنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ چند دنوں کے لئے فرانس کی سیر پر جانے والے سیاح فرانسیسی سیکھنے سے تو رہے ۔ ایسے سیاحوں کی سہولت کے لئے فرانسیسیوں کو انگریزی بولنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے بھی اپنی زبان سے محبت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دوسروں کی زبان سے نفرت شروع کردی جائے۔
سوکھے فرنچ بریڈ اور کوک کی بوتل کے 85فرنیک مجھے کئی دن تک کھٹکتے رہے۔ اس سفر میں کئی اور ڈنر اور تفریحی آئٹم بھی ناقابلِ یقین حد تک گراں تھے۔ لیکن ان میں لاعلمی اور زبردستی ہرگز شامل نہیں تھی۔ بلکہ وہ ہم نے بہ رضا و رغبت ادا کئے تھے۔ دراصل ہمارے پیکج کے مطابق ناشتہ تو ہر روز اور ہر ہوٹل میں مفت تھا۔ لیکن لنچ اور ڈنر کسی کسی دن تو پیکج میں شامل تھا اور کسی دن اپنی جیب سے کرنا پڑتا تھا۔ دورانِ سفر کچھ دن ہم گروپ سے الگ ہو کر آزادی سے سیروتفریح کر سکتے تھے۔ اس دن لنچ اور ڈنر بھی اپنے پلے سے کرنا پڑتا تھا۔اس دنبس ، ریل یا ٹیکسی کا کرایہ بھی اپنے ذمہ تھا۔
اصل پیکج کے علاوہ ہماری ٹور گائیڈ نے ہمیں ایک منی پیکج کی آفر کی۔ یہ کمپنی کی نہیں بلکہ اس کی ذاتی آفر تھی۔ اس پُر کشش مگر نہایت گراں پیشکش کو چند ایک کو چھوڑ کر سبھی سیاحوں نے قبول کر لیا۔ اس منی پیکج میں اضافی تفریح آئیٹم تھے۔ پیرس میں ایک شام مشہور و معروف کیبرے ڈانس اور ڈنر تھا۔ سوئٹزرلینڈ کے تفریحی مقام LUCERN سے ملحق خوبصورت پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لئے زنجیر سے کھینچی جانے والی ٹرین اور وہاں سے چیئر لفٹ کے ذریعے شہر واپسی، LUCERNکے ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں لائیو میوزک اور تفریح کے ساتھ ساتھ لذیذ لنچ اور ایمسڑڈم میں سمندر کے بیچ کھڑے جہاز میں واقع مشہور چینی ریستوران میں ڈنراس منی پیکج کا حصہ تھا۔ اس اضافی پیکج کے لئے ہم نے چھ سو آسٹریلین ڈالر سے زائد ادا کئے۔ اس طرح ایک ایک ایونٹ ڈیڑھ سو ڈالر کا پڑتا تھا۔ ڈیڑھ سو ڈالر کے اس دور میں چھ ہزار پاکستانی روپے بنتے تھے۔
میرے گاوٗں کے اُس بزرگ کو جس نے بغیر کسی کام کے یورپ جانے پر مجھے تنبیہی نظروں سے دیکھا تھا میری اس فضول خرچی کا علم ہوتا تو مجھے پاگل سمجھتے۔ آپ کو اپنے دل کی بات بتائوں۔ یہ اتنے ڈھیرسارے روپیچند کھانوں پر صرف کرنا میرے جیب کے لئے بھی بھاری تھے ۔ ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشتکے مصداق اپنے ہمسفروں کا ساتھ دینا پڑ رہا تھا ۔ شاید میرے ہمسفروں نے بھی یہی سوچ کر یہ آفر قبول کی تھی۔ ویسے بھی ایسے مواقع زندگی میں بار بار نہیں آتے۔ اگر تفریحی سفر کے دوران بھی ہر ڈالر اور ہر پونڈ کی جمع تفریق اور ضرب تقسیم شروع کر دی جائے تو تفریح کا مزہ کر کرا ہو کر رہ جائے۔ میرے گروپ کے زیادہ تر سیاحوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس منی پیکج کے لئے ادائیگی کر دی۔ حالانکہ بعد میں سب نے اسے بہت مہنگی تفریح قرار دیا۔ چند ایک کا خیال تھا کہ ہماری گائیڈ نے اس پیکج سے اچھا خاصا کمیشن کمایا ہو گا ۔کیونکہ وہ سالہا سال سے یہی کام کر رہی ہے۔ ہر جگہ اس کی جان پہچان ہے۔جب وہ کسی کیبرے کلب یا ریستوران میں پچاس سے زائد افراد کی بیک وقت بکنگ کراتی ہو گی تو یقینا اپنے لئے معقول کمیشن بچاتی ہو گی۔
بہر حال کسی سیاح نے مولی سے اس سلسلے میں کوئی شکوہ یا استفسار نہیں کیابلکہ خاموشی سے رقم ادا کر دی۔ وہ شک و شبہے اور گلے شکوے کی گرد میں اپنی تفریح کو دھندلانا نہیں چاہتے تھے۔ ویسے بھی ان لوگوں میں ظاہری مروت بہت ہوتی ہے۔ وہ حتی الوسع کسی کی دلآزاری سے گریز کرتے ہیں۔ جاپانی جوڑے کے علاوہ صرف ایک دو سیاح اور تھے جنہوں نے اس پیکج کے لئے ادائیگی نہیں کی ۔ وہ یہ وقت اپنی مرضی اور اپنے بجٹ کے تحت گزارنا چاہتے تھے۔ جہاں تک جاپانی جوڑے کا تعلق تھا انہیں ایک دوسرے کے ہوتے ہوئے کسی اور تفریح کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مینڈا عشق وی توں ،مینڈا یار وی توں
نووٹل سے فائیو ا سٹار ڈنر کرنے کے بعد رات کے، بلکہ صبح کے دو بجے سردی سے کپکپاتا، تھکاوٹ سے بے حال، تھکی ہاری ٹانگوں کو گھسیٹتا میںبمشکل اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا ۔ جاتے ہی بستر پر جا پڑا۔ یہ یقیناً ایک یادگار دن تھا۔ جس میں ایک تاریخی دارالحکومت (لندن) سے دوسرے تاریخی دارالحکومت (پیرس) کا سفر، پیرس کی سیر اور اپنی زندگی کے سب سے مہنگے اور سب سے بے ذائقہ ڈنر کے بعد مجموعی طور پر یہ دن میرے لئے اٹھارہ گھنٹے طویل ثابت ہوا تھا۔ اتنے لمبے اور تھکا دینے والے دن کے بعد نرم اور گرم بستر میسر ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ دنیا کی سب سے اچھی،سب سے پر کشش اورسب سے راحت انگیز شے بستر ہی ہے۔
جسم کو سکون ملا تو وہ دھیرے دھیرے نیند کی میٹھی وادیوں میں ہلکورے لینے لگا۔ لیکن سکون اور نیند شاید اس دن میری قسمت میں نہیں تھے۔ ابھی میں پوری طرح نیند کی آغوش میں نہیں پہنچا تھا کہ فون کی کرخت گھنٹی نے مجھے ان حسین وادیوں سے واپس کھینچ لیا۔ چند گھنٹیوں تک تو نیند سے بوجھل آنکھیں پوری طرح نہ کھل سکیں ۔جب یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا تو مجبوراً سرہانے سے ملحق رکھے میز سے فون اٹھا کر میں نے ہیلو کہا۔ دوسری طرف سے مدہم اور شیرینی میں گُھلی آواز میں’ گڈ اِیوننگ‘ کہا گیا۔ مجھیاس وقت اس شیریں آواز کی شیرینی کم اورنیند کی مٹھاس کھونے کا غم زیادہ تھا۔ اس لئے میں نے جھنجلا کر کہا ’’ یہ ایوننگ نہیں بلکہ صبح ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کون ہیں اور اس وقت فون کرنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘
میرے جھنجھلاہٹ بھرے جواب کے باوجود اس آواز میں کچھ مزید حلاوت شامل ہو گئی ’’ آپ فرانس میں ہمارے مہمان ہیں۔ میں آپ کی میزبانی کرنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے کمرے میں آکر مساج سے آپ کی ساری تھکاوٹ دور کر سکتی ہوں‘‘
میں اب پوری طرح جاگ چکا تھا ۔لیکن اس طرح کچی نیند سے بیدار ہونے پر جھلاہٹ کا شکار تھا ’’ یہ فون کرنے کا کون سا وقت ہے۔ میں سورہا تھا۔ مجھے جگا کر تھکاوٹ دُور کرنے کا کہہ رہی ہو؟ ‘‘
’’ مجھے آپ کے آرام میں خلل ڈالنے کا سخت ا فسوس ہے۔ لیکن چونکہ آپ ابھی پندرہ منٹ پہلے ہی ہوٹل واپس آئے ہیں۔ اس لئے میر خیال تھا کہ آپ ابھی جاگ رہے ہوں گے‘‘
’’ اوہ! تو آپ اسی ہوٹل میں موجود ہیں اور ہوٹل کا عملہ آپ کو میزبانوں کی آمدورفت سے بھی مطلع کرتا ہے۔ ویسے اتنے بڑے ہوٹل میں میزبانوں کو تنگ کرنے کا یہ سلسلہ میری سمجھ سے باہر ہے‘‘
اس نے اسی نرمی ، حلاوت اورجنس زدہ لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ’’ ہم فرانس میں آنے والے مہمانوں کی ہر طرح سے دلجوئی کرتے ہیں۔ (میں نے دل میں سو چا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے نووٹل ہوٹل کے عملے نے بھی میری دلجوئی کا اعلیٰ مظاہر ہ کیا تھا) یہاں میرے علاوہ اور بھی خواتین ہیں۔ آپ نیچے لابی میں آکر اپنی پسند کی خاتون کا انتخاب کر سکتے ہیں یا ہم ایک ایک کر کے آپ کے کمرے میں آ سکتی ہیں۔ آپ جسے چاہیں وہاں روک سکتے ہیں‘‘
’’لیکن میں آپ کا یا اتنی ساری دوسری خواتین کا کیا کروںگا ۔آخر میرے کمرے میں آکر میری کیا خدمت کر سکتی ہیں؟‘‘
’’ہم آپ کو ہر قسم کی سروسز مہیا کر سکتے ہیں ‘‘ وہ جلدی سے بولی
’’کیا آپ مجھے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا گانا سنا سکتی ہیں؟‘‘
’’جی! کیا کہا آپ نے؟‘‘
’’اچھا چھوڑیں ! کیا آپ عارف لوہار کی طرح بھڑکیلا لباس پہن کر چمٹا بجا کر ناچ سکتی ہیں‘‘
وہ مزید حیران ہو کر بولی ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی بات نہیں سمجھ پارہی۔’’
’’میں آپ کی خدمات کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا کہ آپ کس قسم کی خدمات مہیا کر سکتی ہیں‘‘
’’اوہ! میں آپ کو اپنا تعارف کرا نا تو بھول ہی گئی۔ میرا نام میرین ہے۔ میں مساج اور ۔۔۔ کے بہت سے طریقے جانتی ہوں اور ہر طریقے سے آپ کی خدمت کر سکتی ہوں‘‘
اس کے بعد میرین نے ان خدمات اور طریقوں کو گنوانا شروع کیا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے زور سے’’ شٹ اپ ‘‘کہا تو اس کی زبان کو بریک لگ گئے۔ وہ میرے سوالات سے کافی حد تک مجھے اپنے جال میں پھنسا ہوا شکار سمجھ چکی تھی۔ لیکن میں تھکاوٹ کی وجہ سے سوال جواب کا یہ سلسہ بند کرنا چاہتا تھا۔ ’’ مجھے ان لغویات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آئندہ مجھے فون نہیں کرنا۔ صبح میں ہوٹل کی انتظامیہ سے شکایت کروں گا کہ یہاں مہمانوں کو اس طرح فون کر کے تنگ کیا جاتا ہے‘‘
میرے ان تنبیہ آمیز اور سخت الفاظ سے وہ گھبرا گئی۔ اس نے’’ آئی ایم سوری ‘‘کہا اور اچانک فون سے ایک مردانہ آواز آئی’’ سر میں اس ہوٹل کا استقبالیہ کلرک بول رہا ہوں ۔اس خاتون نے آپ کو جو کال کی اور ڈسٹرب کیا اس کے لئے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ یہ ہوٹل کی پالیسی اور معیار کے خلاف ہے۔ یہ میر ی غلطی ہے۔ آپ اکیلے ہیں اور پیرس میں اکیلے آنے والے سیاح اکثر ایسی خدمات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔اس کے پیش نظر میں نے اس خاتون کو آپ سے بات کرنے کی اجازت دی تھی۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ بُرا مان جائیں گے ۔یہ میری نوکری کا سوال ہے ۔پلیز آپ انتظامیہ کو شکایت نہ کریں۔ اس دفعہ مجھے معاف کردیں آیندہ اس ہوٹل میں آپ کو ایسی شکایت نہیں ہو گی ‘‘
میں نے بات کو بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور مناسب تنبیہ کے بعد فون کا سلسلہ منقطع کر کے پھر سے سونے کی تیاری کرنے لگا۔ کہ
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
جاگنا ساری رات مشکل ہے
کلیسائے نوٹرے ڈیم میں رُوحیں منڈلا رہی تھیں
اگلی صبح جب ہماری کوچ ہوٹل سے نکل کر پیرس کی گلیوں سے گزر رہی تھی تو پیرسپچھلی رات کی نسبت خاموش خاموش سا لگا۔ سڑکیں ویران اور فٹ پاتھ انسانوں سے خالی خالی لگ رہے تھے ۔یہ شاید دنیا کے بڑے بڑے شہروں کا وطیرہ ہے کہ وہاں راتیں جاگتی ہیں اور دن اونگھتے ہیں۔ اگر ویک اینڈ کے دن ہیں تو پھر اونگھنے کی بجائے سوتے ہیں۔ ہم سیاحوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ پورا دن سو کر گزار دیں۔ اس لیے چار پانچ گھنٹے کی مختصر سی نیند کے بعد میں اس وقت بس کی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھا اجلے اُجلے پیرس کا نظارہ کر رہا تھا۔ جولی میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی حسبِ معمول چہک رہی تھی۔ اس کا دُھلا دھلایا نرم و نازک چہرہ دلکش مسکراہٹ بکھیر رہا تھا۔ اس کے نیم وا سرخ سرخ ہونٹ کھلتے گلاب کو شرما رہے تھے۔ وہ کبھی ہمارے آگے والی سیٹ پر بیٹھے آسڑیلین جوڑے سے جھک جھک کر سرگوشیاں کرتی اور کبھی پچھلی سیٹ پر بیٹھے انڈین فیملی کے بچوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتی ۔جب اُدھر سے فرصت ملتی تو میرے پہلو میں کہنی سے ٹہوکا دے کر مجھے خیالوں اور خوابوں کی دنیا سے واپس لانے کی کوشش شروع کردیتی۔ جولی کی شرارتیں اور خوش گپیاں سبھی کو بھلی لگ رہی تھیں۔ میں کبھی جولی کی باتوں کا جواب دیتا اور کبھی پیرس کے نیم خوابیدہ حُسن کے سحر میں کھو جاتا۔ دیدہ زیب عمارتیں، بالکونیوں میں پُھولوں سے لدے گملے ، خوبصورت ریستورانوں اور دُھلی دھلائی چمکتی سڑکوں کا نظارہ کرتے ہوئے ہم مشہور و معروف کنکورڈ چوک سے گزرے۔ نپولین کے مقبرے کی عظیم الشان عمارت پر اس کے مفتوحہ ممالک کے پرچموں کا نظارہ کرتے نپولین کی فتوحات کی یادگارمحراب ( Arc de Triomphe)سے گزر کر اس سُرنگ کے اندر سے گزرے جہاں لیڈی ڈیانا کا جان لیوا حادثہ ہوا تھا۔
میرے تصور کے برعکس وہ پیر س شہر کے اندر ایک سڑک کو کراس کرانے کے لئے بنائی گئی چھوٹی سی سُرنگ تھی۔ اس کی لمبائی 100 میٹر سے زیادہ نہ ہو گی۔ جب لیڈی ڈیانا کا حادثہ ہوا تو میرے ذہن میں سڈنی کی ہاربرٹنل (سُرنگ) تھی جو کئی میل لمبی ہے۔ جہاں گاڑیوں کی حدِ رفتار 80کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس کے برعکس پیر س کی یہ سرنگ چھوٹی سی ہے۔وہاں حد رفتار بھی صرف 60 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے ۔ایسی جگہ پر تیز رفتاری حادثے کو دعوت دینے کے متراد ف ہے۔ اسی سڑک پر آگے جا کر ہم نے وہ لازوال شعلہ دیکھا جو کسی گمنام فرانسیسی سپاہی کی یادگار کے طور پر جلایا گیا ہے اور کبھی نہیں بجھتا ۔ دریائے سین کے کنارے کنارے سفر کرتے اور اس کے دامن میں سمائی رنگ برنگی کشتیوں اور لانچوں کا نظارہ کرتے بالآخر ہم کلیسائے نوٹرے ڈیم جا پہنچے۔
کلیسائے نوٹرے ڈیم کے سامنے جا کر ہماری بس رُکی تو ہماری گائیڈ مولی نے ایک دن کے لئے ہم سب سے رخصت طلب کی ۔ اُس نے بتایا کہ آج کے دن ہمارے ساتھ ایک مقامی فرنچ گائیڈ مشال ہو گی۔ مشال وہاں ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ جولی اس کا تعارف کرا کر چلی گئی۔ مشال نے اپنی رننگ کمنڑی فرانسیسی زبان میں شروع کردی۔ سب سیاح حیران بلکہ پریشان نظروں سے اُسے دیکھ رہے تھے۔ سبھی فرنچ سے نا بلد تھے اور رہنما تھی کہ فرنچ پانی کی طرح بہائے جارہی تھی۔مشال نے ہمارے چہروں پر لکھی پریشانی کی تحریر پڑھی تو کھلکھلا کر ہنسی اور رواں انگریزی میں ہمیں فرانس میں خوش آمدید کہا۔ وہ بہت ہنس مکھ، تجربہ کار اور سرعت سے گھل مل جانے والی عورت تھی۔ تھوڑی ہی دیربعد اس نے ہمارے نام بھی یاد کر لئے ۔ ہمیں ناموںسے بلا کر بلکہ ہاتھوں سے چھیڑ کر مخاطب کرتی۔ وہ مسلسل بولتی تھی۔ اُس کی آنکھیں مسکراتی رہتی تھیں اور ہاتھ دوسروں کو چھوتے بلکہ جھنجھوڑتے رہتے تھے۔ اگر کسی کی کوئی بات اُسے پسند آتی تو زبانی نہیں بلکہ اُس کا منہ چوم کر اُسے داد دیتی۔ میں نے غلطی سے اُس کی انگریزی کی تعریف کر دی۔ اُس نے آوٗ دیکھا نہ تا ئو آگے بڑھی مجھے گلے لگایا اور چٹاخ پٹاخ دو تین بوسے میرے گال پر داغ دیئے۔ کچھ بوسوں سے اور کچھ شرم سے میرا چہرہ لال سرخ ہو گیا ۔ وہ میرا چہرہ ہاتھوں میں لے کر دوسروں کو دکھانے لگی۔
صرف میں ہی نہیں تھا جو مشال کے نرم گرم بوسوں کا نشانہ بنا ۔اس دن کی شام ہونے تک ہم میں سے شاید ہی کوئی بچا ہو جس پر مشال نے اپنے بوسوں کی بوچھار نہ کی ہو۔ کچھ سیاحوں کا خیال تھا کہ اس طرح ڈھیروں بوسے اور معانقے سیاحوں میں تقسیم کرنے کے بعد گھر جا کر اپنے شوہر کو دینے کے لئے اس کے پاس کیا بچتا ہو گا ۔دوسرے سوچ رہے تھے کہ جو غیروں پر التفات کی یوں مینہبرساتی ہے وہ کسی اپنے پر کیسی موسلا دھار بارش بن کر برستی ہو گی۔۔ دن کے ایک حصے میں ڈیوڈ نے اس سے یہ سوال کر ہی دیا۔مشال نے بتایا کہ اس کا کوئی شوہر یا بوائے فرینڈ نہیں ہے۔ اس لیے اس کی رات آرام سے گزرتی ہے۔میں نے کہا ’’ تم اکیلے رہ کر آرام محسوس کرتی ہو ۔حالانکہ جوان ہو ۔حسین ہو ۔ایسے میں تو تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہو گی‘‘
مشال پھر آگے بڑھی۔ سابقہ تجربے کے پیشِ نظر میں پیچھے ہٹا۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ باقی سیاح بھی مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگی ’’شوہر یا بوائے فرینڈ نہیںہے تو کیا ہو۔ دوست تو ہیں جو ملتے اور بچھڑتے رہتے ہیں۔ اس میں وقت بھی اچھا کٹ جاتا ہے اور کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔ ویسے میرے آج کے دوست تم ہو۔ تمھارے ہوٹل کے کمرے کا نمبر کیا ہے؟ ‘‘
میں نے گھبرا کر کہا’’میرے کمرے کا کوئی نمبر نہیں ہے۔ میر ا مطلب ہے کہ میں آج ہوٹل میں نہیں ٹھہروں گا‘‘
وہ حسب عادت ہنسی ۔’’کوئی بات نہیں میںخود ہی معلوم کر لوں گی۔‘‘ مجھے وہاں سے بھاگتے ہی بنی۔
کلسیائے نوٹرے ڈیم دنیا کے خوبصورت ترین کلسیاوٗں میں سے ایک ہے اور فرانس کے قدیم اور کلاسیکی فن ِ تعمیر کا ایک خوبصور شاہکارہے۔ یہ چرچ فرانس بلکہ دنیا کی قدیم اور قابلِ ذکر عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ چودھویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا تھا۔ فنِ تعمیر، خوبصورتی اور پائیداری کے لحاظ سے اس چرچ کو اپنی مثال آپ کہا جا سکتا ہے۔ چرچ کے سامنے والے حصے میں عیسائیوں کے سابقہ مذہبی رہنماوٗں کے مجسمے فنِ سنگ تراشی کے دلکش نمونے ہیں۔ دیواروں پر بنی ہوئی اُڑتی تتلیاں گو تھک طرزِ تعمیر کا شاہکار ہیں۔ چرچ کے اندر نیم روشن اور خوابناک سا ماحول ہے۔ اس کی کھڑکیوں سے چھن کر آنے والی رنگا رنگ روشنی عجیب اور دلکش نظارہ پیش کرتی ہے۔ سورج کی روشنی ان کھڑکیوںکے رنگوں کو عمارت کے اندر اس طرح منعکس کرتی ہے کہ آنکھوں کے سامنے رنگوں کی قوس ِ قزح سی بن جاتی ہے۔ ان کھڑکیوں پر مختلف رنگوں کے پُھول اس طرح بنائے گئے کہ انسان انہیں دیکھتا رہ جائے۔ یہ چرچ اتنا بڑا ہے بیک وقت ہزاروں افراد اس میں سما سکتے ہیں۔ ہال میں لکڑی کی منقش کرسیاں صدیوں سے نت نئے انسانوں کو اس چرچ میں آتا جاتا دیکھ رہی ہیں۔ کتنوں کی گناہوں کی کہانیاں سن چکی ہیں ۔ کتنی ہی نسلوں کو شادی کی خوشیوں میں نہاتے اور پھر موت کی اتھاہ وادیوں میںگم ہوتے دیکھ چکی ہیں۔
چرچ کے اندر جا کر سیاح مختلف ٹولیوں کی شکل میں یا اکیلے ہی اِدھر ُادھر بکھر گئے تھے۔ میں اکیلا ہی مسحور سا ہو کر حال کی اس شاندار عمارت اور ماضی میں اس کی حیثیت کے تصوراتی تانوں بانوںمیں گم تھا کہ بازو پر کسی کا دباوٗ محسوس ہوا ۔وہ جولی تھی۔ جو خلافِ معمول سنجیدہ بلکہ گم سم سی دکھائی دی۔ سرگوشی میں بولی ’’ مجھے یہاں خوف سا محسوس ہورہا ہے‘‘
’’ خوف! کیسا خوف؟‘‘
وہ مزید میرے قریب ہوگئی اور سرگوشی میں بولی ’’ لگتا ہے یہاں روحیں منڈلا رہی ہیں‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا’’ اس میں سے باون روحیں تو ہمارے گروپ سے تعلق رکھتی ہیں ’’
’’طارق میں مذاق نہیں کر رہی ۔ ہال میں پُراسرار سی سرگوشیوں کی بازگشت بھی گونج رہی ہے‘‘
میں نے غور سے دیکھا تو جولی کی آنکھوں میں خوف کے سائے تھے۔ اس کا ہاتھ تھاما تو اس میں واضح کپکپاہٹ محسوس ہوئی۔’’ جولی! تم ویسے ہی گھبرا رہی ہو۔ یہ ایک عبادت گاہ ہے اور عبادت گاہوں کا ماحول ایسا ہی ہوتا ہے۔ لگتا ہے تم اتوار کو چرچ نہیں جاتی ہو‘‘
’’ کافی عرصے سے نہیں گئی۔ جب آسڑیلیا میں وا لدین کے ساتھ رہتی تھی تو باقاعدگی سے جاتی تھی۔ کسی بھی چرچ میں یہ احساس نہیں جاگا اور نہ ہی ایسا خوف محسوس ہوا ۔یہ چرچ سے زیادہ قبرستان لگتا ہے‘‘
باتیں کرتے کرتے ہم چرچ کے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ باہر نکلے تو سنہری روپہلی دھوپ ہر سمت بکھری ہوئی تھی۔ ہم یکلخت ہی جیسے قبر کے اندھیرے سے نکل کر چکا چوند روشنی میں آگئے۔ جولی کے چہرے کی رونق بھی واپس آگئی۔ ہمارے گروپ میں سڈنی سے تعلق رکھنے والاایک ادھیڑ عمر جوڑا فرینک اور اس کی بیوی بھی تھے۔ جولی ان سے گھل مل گئی تھی۔ اس کا زیادہ وقت انہی کے ساتھ گزرتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جولی خود کافی کنجوس واقع ہوئی تھی۔ وہ اپنے لئے ڈرنک ، چائے، کافی یا بئیر کی رقم خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی دوسرا اسے آفر کرتا تو بخوشی قبول کر لیتی ۔ بدلے میں اپنی جیب کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتی تھی۔ فرینک اور اس کی بیوی جہاں بھی ڈرنک ، کافی یا بئیروغیرہ لیتے وہ جولی کے لئے بھی خریدتے ۔ ڈرنک ختم ہونے کے بعد اصولاً جولی کو ان کے لئے دوسرا ڈرنک خریدنا چاہئے مگر وہ ایسا نہیں کرتی تھی۔ بلکہ ڈھٹائی سے بیٹھی رہتی۔ مجبوراً فرینک اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ جولی کو بھی دوسرا ڈرنک خرید کر دیتا۔ جولی کی اس عادت کو گروپ کے باقی لوگوں نے بھی محسوس کیا ۔اس لئے وہ جولی کا اپنے ٹیبل پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔جہاں تک میرا تعلق تھا ،جب یہ لوگ بئیر وغیرہ پی رہے ہوتے تھے تو میں کوک کی چسکیاں لیتا رہتا تھا۔ بیئر پینے والے نشے کے لئے گلاس پر گلاس چڑھاتے رہتے تھے۔ ان کا ساتھدینے کے لئے میں اتنا کو ک تو نہیں پی سکتاتھا۔ اس لئے شام کی محفل میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو گلاس کوک کے کافی ہوتے تھے۔ جبکہ بیئر سے شغل کرنے والے اتنی دیر میں چار چار پانچ پانچ گلاس بیئر معدے میں اتار چکے ہوتے تھے۔پیتے جاتے تھے اور واش روم کی طرف بھاگتے رہتے تھے۔ان کی یہ دوڑ رات گئے تک لگی رہتی۔ جولی ایک آدھ گلاس تو خرید لیتی۔ اُ س کے بعد دوسرے اُسے جتنا پلادیں، پیتی رہتی تھی۔ خود اٹھ کر اپنے یا دوسروں کے لئے ڈرنک خریدنے کا تکلف نہیں کرتی تھی۔ اس کی اس عادت کی وجہ سے فرینک اور اس کی بیوی تو اسے برداشت کرلیتے تھے ۔ باقی لوگ اس سے کترانے لگے تھے۔
چرچ سے باہر نکل کر جولی کو فرینک اور اس کی بیوی ایک ریستوران کی طرف بڑھتے نظر آئے۔ جولی نے مجھے ان کی طرف چلنے کے لئے کہا۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔ وہ چاہے تو ان کے ساتھ جا سکتی ہے۔میں کیمرہ لے کر اندر اور باہر سے چرچ کی تصاویر لینے لگا۔دراصل ایسی تاریخی جگہوں کو اپنے انداز میں دیکھنے کے لئے انسان کا اکیلا ہونا ضروری ہے۔ ساتھ کوئی ہو اور باتیں بھی چل رہی ہوں تو بعد میں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کیا دیکھا تھا۔ اس لئے ایسی جگہوں پر جا کر میں اکثر خود کو گروپ سے الگ کر لیتا تھا۔ کافی دیر چرچ کے اندر اور اُس کے سامنے پھیلے وسیع دالان کے مختلف مناظر کو اپنے دل ودماغ اور کیمرے کے سلو لائیڈ پر محفوظ کرنے کے بعد مجھے کافی کی طلب محسوس ہوئی۔ سامنے ہی خوبصورت کافی شاپ موجود تھی ۔اس میں نہایت قرینے اور ترتیب سے کرسیاں اور میزلگے ہوئے تھے۔ ان پر خوبصورت اور منقش کافی کے کپ سجے تھے۔ لوگ چسکیاں لے لے کر اپنی تھکاوٹ دور کررہے تھے ۔
میں نے کاوٗنٹر پر جا کر کافی طلب کی ۔خلافِ توقع میری انگریزی کے جواب میں انگریزی میں ہی پوچھا گیا’’کیا آپ بیٹھ کر پینا چاہتے ہیںیا لے کر جانا چاہتے ہیں‘‘
کھانا یا کافی لے کر جانے ( Takeaway)کی اصطلاح یورپ ، آسٹریلیا اور امریکہ میں عام مستعمل ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کھانا وہیں بیٹھ کر کھانا ہو تو اُ سے ریستوران کے برتنوں میں سرو کیا جاتا ہے۔ اگر کھانا لے کر جانا ہو تو پھر کافی کے استعمال کے بعد ضائع ہونے والے(Disposable (کپ اور کھانے کے لئے بھی ایسے ہی پلاسٹک کے ڈبے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے Takeaway کے کپ میں کافی ڈلوائی تاکہ ادھر ادھر گھومتا بھی رہوں گا اور کافی بھی پیتا رہوں گا۔ کافی لینیکے بعد باہر نکلا تو بے خیالی میں اُسی کافی شاپ کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لینے لگا۔ ایک منٹ بعد ہی وہی کاوٗنٹر پر کافی سرو کرنے والی اور رواں انگریزی بولنے والی فرانسیسی عورت میرے پاس آگئی ۔ کہنے لگی ’’سر! اگر آپ بُرا نہ مانیں تو اس ٹیک اوے کافی کپ کے ساتھ یہاں نہ بیٹھیں‘‘
میں نے حیران ہو کر کہا’’ لیکن کیوں ؟ میں نے یہ کافی بھی یہیں سے لی ہے اور یہ کرسیاں بھی اسی مقصد کے لئے رکھی ہیں۔ میں اِن پر کیوں نہیں بیٹھ سکتا؟‘‘
وہ بولی’’ سر! یہاں پیرس میں ریستورانوں اور کافی شاپس کی میزوں کرسیوں اور برتنوں کا ایک خاص سٹائل ہے۔ اس کے مطابق پلاسٹک کے کافی کپ لے کر بیٹھنے سے ان کا وہ امیج خراب ہوتا ہے۔ اگر آپ یہاں بیٹھنا چاہتے ہیں تو میںآپ کی کافی دوسرے کپ میں ڈال کر لے آتی ہوں ۔پھر آپ شوق سے یہاں بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں‘‘
میں فرانسیسیوں کی نفاست اور سجاوٹ کے اس اہتمام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اگلے چند دن پیرس میں رہتے ہوئے میں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ فرانسیسی ریستورانوں کے اس حسنِ انتظام کو نبھا سکوں۔
فرانس میں گڈ بائی ایسے نہیں کہتے
نوٹرے ڈیم چرچ سے ہم سیدھے فرانس کے سابقہ شاہی خاندان کے محل (Place de la Concorde) پہنچے ۔یہ عظیم الشان اور تاریخی محل صدیوں پرا نا ہونے کے باوجود ابھی تک نہ صرف ثابت و سالم ہے بلکہ پوری شان و شوکت قائم رکھے ہوئے ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اُس کی بہت اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ عمارت کا بیرونی حصہ ویسے بھی بڑے بڑے اور مضبوط پتھروں سے بنا ہوا ہے، جن کا زمانے کے سرد و گرم کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ حیرانی کی بات یہ کہ اندر سے بھی نیا نیا اور اجلا اجلا ہے۔ دوسری خوبی کی بات یہ ہے کہ کمروں کے رنگ اور آرائش و زیبائش ویسے ہی رکھی گئی ہے، جو ان بادشاہوں کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ ہماری گائیڈ مشال ہمیں عمارت کے اندر لے جانے کے بجائے محل کے عقب میں واقع پائیں باغ میں لے گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ آدھے گھنٹے میں ٹکٹ لے کر آئے گی۔ اس دوران ہم اس باغ کی سیر کر سکتے ہیں۔ یہ باغ محل کے عقب میں میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں دیدہ زیب رنگ برنگے پھولوں کے بے شمارتختے ہیں۔
ہم با غ میں داخل ہوئے تو ایسے لگا کہ بہشت کے کسی باغ میں داخل ہو گئے ہوں۔ہر سوپھول ہی پھول، رنگ ہی رنگ اور سبزہ ہی سبزہ چہار جانب پھیلا ہوا تھا۔ پھولوں کے تختے رنگوں اور قسموں میں اس طرح تقسیم تھے کہ کسی مصور کی سات رنگوں سے بنی تصویر نظر آرہے تھے۔ خوشبوئیں مشامِ جان کو معّطر کررہی تھیں۔ اتنی خوشبوئیں، اتنے رنگ، اتنا سبزہ اور اتنی ترتیب و تزئین میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ جدھر نظر اُٹھاوٗ آنکھیں وہیں ڈیرہ ڈال لیتی تھیں۔ آگے بڑھنے اور نظریں جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ میں نے کیمرہ اٹھا کرتصویر بنانا چاہی تو فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کس سمت اور کس پھول کا عکس اتاروں ۔ چہار جانب ایک جیسے دلکش نظارے تھے ۔ویسے بھی کیمرہ غریب اتنے نظاروں کو، اتنے رنگوں کو اور خصوصاً اتنی خوشبووٗں کو اپنے اندر کہاں محفوظ کر سکتا تھا۔ آگے بڑھا تونیلے پانیوں والی ایک لمبی اور خوبصورت جھیل آنکھوں سے دماغ اور پھر دل میں اُتر گئی ۔جھیل میں کنول کے پھول تیر رہے تھے۔ کنارے پر سرو اور دوسرے خوبصورت پودے اور درخت ایسی ترتیب سے لگے تھے ۔ لگتا تھا ایک جیسے قدوقامت کے فوجی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور قطار بنا کر ایستادہ ہوں۔ اُس دن آسمان سے سورج بھی پوری دلکشی کے ساتھ روشن شعاعیں اور نرم حرارت والی روپہلی دھوپ بکھیر رہا تھا۔ اس نرم گرم دھوپ میں قدرت کے یہ حسین نظارے گوشہِ بہشت کا سماں پیش کر رہے تھے۔ میں ان حسین اور رنگین نظاروں میں ایسا کھویا کہ وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا۔ میری گائیڈ مشال ڈھونڈتی ڈھونڈتی مجھ تک آ پہنچی۔ اچانک میریقریب آکر اس نے میرا نام پکارا تو جیسے میں خواب سے جاگ اٹھا۔مشال نے بتایا کہ وہ ٹکٹ لے کر آگئی ہے اور باقی سیاح میرا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ حسبِ عادت مجھے بازو سے پکڑ کر بلکہ بانہوں میں بانہیں ڈال کر واپس اپنے ساتھیوں میں لے گئی۔
باہر سے پرانے اور مٹیالے پتھروں کی وجہ سے انتہائی قدیم اور قدرے بوسیدہ نظر آنے والے اس محل کے اندر داخل ہوئے تو ہمیں ایسے لگا کہ کسی دوسری ہی دنیا میں آگئے ہوں۔ اس عمارت کے درودیوار انتہائی دیدہ زیب دلکش رنگوں اور خوبصورت تصویروں سے سجے ہوئے تھے۔ ایک ایک را ہداری، غلام گردش اور ایک ایک کمرہ اپنی ساخت اور سجاوٹ کے لحاظ سے دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ لوئی نام کے مختلف بادشاہوں کی الگ الگ خوابگاہیں ان کے استعمال شدہ بڑے بڑے آراستہ پلنگوںکے ساتھ جوں کی توں تھیں۔ شاہی پلنگ کا سائز ایک چھوٹے کمرے کے برابر تھا۔ جن کے بیڈ ہیڈز اپنی جگہ فن کے نمونے تھے۔ پلنگ کے چاروں جانب ریشم و کمخواب جیسے انتہائی مہنگے اور خوبصورت کپڑے کے پردے آویزاں تھے۔ ہر بادشاہ کے کمرے میں بہترین مصوروں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی اس بادشاہ اور اس کی ملکہ کی تصاویر آویزاں تھیں۔
یہ پینٹنگز اپنی جگہ فنِ مصوری کے عظیم شہ پارے تھے۔ تصاویر کے ساتھ ہی بادشاہ اور ملکہ کے نام اور ان کی تاریخ بادشاہت درج تھی۔ باقی کی کسر ہمارے گائیڈ مشال پوری کر دیتی تھی۔ وہ ریڈیو کی طرح مسلسل بج رہی تھی۔ ہر بادشاہ کی مختصر تاریخ بتا کر وہ ساتھ یہ ضرور بتاتی تھی کہ یہ بادشاہ روزانہ اپنی ملکہ کو کتنا وقت دیتا تھااور اس کو بچے پیدا کرنے کا کتنا شوق تھا ۔پھر ملکہ کے بارے میں بتاتی کہ یہ ملکہ ہر سال بچہ پیداکرنے کی شوقین تھی اور یہ دوسری ملکہ ہاں کم اور نہ زیادہ کہتی تھی۔ اس لئے اس کے بچے کم تھے۔ مشال نے ہی ہمیں بتایا کہ ان بادشاہوں اور ملکاوٗں کی نجی اور ازدواجی زندگی بھی عوام سے پوشیدہ نہیںہوتی تھی۔ عوام بادشاہ اور ملکہ کے ہر ہر عمل سے باخبر رہتے تھے۔
مشال نے بتایا کہ ملکہ جب بچے کو جنم دیتی تھی تو دائیوں اور ڈاکٹروں کے علاوہ کئی وزیر بھی وہاں موجود رہتے تھے۔ وہ اس بات کے گواہ ہوتے تھے کہ ملکہ سے جنم لینے والا اور مستقبل کا بادشاہ یہی بچہ ہے۔ اس طرح ملکہ بے چاری اس تکلیف دہ وقت میں وزیروں اور ججوں کے سامنے ایک تماشا بن کر رہ جاتی ۔ یہ سچ ہے کہ تاج و تخت جو بظاہر پھولوں کی سیجنظر آتے ہیں اپنے اندر نظر نہ آنے والے کئی کانٹوں کی چبھن بھی رکھتے ہیں جو دُور سے ہمیں نظر نہیں آتے۔
برطانیہ کے ساتھ ساتھ فرانس بھی کئی صدیوں تک دنیا کی ایک بڑی طاقت تھی ۔ صدیوں تک اس طاقت ور ملک کے طاقتور بادشاہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اس محل میں رہائش پذیر رہے۔ دنیا بھرکے حکمران ان بادشاہوں سے ملاقات کرنے اس محل میں آتے تھے۔ اس محل کے اندر ہم نے وہ تاریخی ہال بھی دیکھا جہاں بادشاہوں کے دربار لگا کرتے تھے۔ اسی ہال میں اتحادی ممالک کے سر براہوں نے پہلی جنگ عظیم بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ محل اتنا بڑا ہے کہ اس میں گھنٹوں گھومتے رہیں تو ختم نہیں ہو تا۔ لیکن میں تھک چکا تھا۔ ویسے بھی ہر کمرہ دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود میرے لئے ایک جیسا ہی تھا۔ ہر ایک میں لوئی نام کا کوئی بادشاہ رہتا تھا۔ کسی کی مونچھیں تھیں اور کسی کی داڑھی تھی۔ کسی کے بارہ بچے تھے اور کسی کے صرف دو ۔کوئی فتوحات کا شوقین تھا اور کوئی صرف خواتین کا۔ اتنے بہت سارے بادشاہ جن کے نام بھی ایک جیسے ہوں کو یاد رکھنا مشکل امر ہے۔ ایک جیسی مسجع اور پر تکلف خوابگاہیں اور بہت سی دیدہ زیب پینٹنگز دیکھتے دیکھتے میرا دل بھر سا گیا ۔
میں اپنے گروپ سے الگ ہو کر باہر آگیا۔ اس وقت تک بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ لیکن میں پہلیواش روم جانا چاہتا تھا۔ وہاںپہنچا تومجھے بتایا گیاکہ پہلے دو فرینک جمع کرائیں پھر قطار میں کھڑے ہو جائیں۔ اتنی لمبی قطار تھی جیسے پاکستانی سینمائوں میں ٹکٹ لینے والی کھڑکیوں پر کسی دور میں ہوا کرتی تھی ۔ میں سوچ رہاتھا اندر کہیں مولا جٹ تو نہیں چل رہی۔ باتھ روم جانے والوں سے فیس وصول کرنے والی بڑھیا وہاں بیت الخلاء میں دُہرا کاروبار کر رہی تھی۔ ایک تو ہر شخص سے مخصوص رقم وصول کر کے اسے اندر جانے دیتی تھی۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک ٹیبل پر ٹافیاں، چاکلیٹ، ڈرائی فروٹ اور ایسی ہی کئی چیزیں سجا کر فروخت کر رہی تھی۔ بیت الخلاء میں کھانے پینے کی چیزوں کی خریدو فروخت دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہتھا۔ آگے چل کر میں نے دیکھا کہ یورپ میں عوامی مقامات پر یہ سلسلہ عام ہے۔ فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ او ر بلجیم ہر جگہ میں نے یہی تماشادیکھا۔
یورپ جا کر عوامی بیت الخلاوٗں میں مخصوص رقم کی داخلہ فیس کا سلسلہ بھی مجھے عجیب لگا کیونکہ آسڑیلیا میں یہ رواج بالکل نہیں ہے۔یہاں کہیں بھی ٹوائلٹ استعمال کرنے کے لئے پیسے نہیں دیناپڑتے۔ جبکہ یورپ میں یہ کاروبار ہے۔ اور تو اورمیکڈا نلڈ جیسے ریسٹورنٹ میں ریسٹورنٹ کے گاہکوں سے بھی ٹوائلٹ استعمال کرنے کی پوری فیس وصول کی جاتی ہے۔ گویا یورپ میں کہیں بھی ٹوائلٹ میں جانا ہو تو جیب میں رقم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ !!!
فرانس کے سابقہ شاہی خاندان کے اس تاریخی محل سے ہماری کوچ پیرس کے سٹی سینٹر میں واقع مشہور اوپیرا ہاوٗس کے سامنے جا کر رُکی۔Rue de Faubourg نامی پیرس کی یہ سٹریٹ بڑے بڑے سٹوروں کے لئے مشہور ہے۔ وہاں جا کر سیاح بازار میں بکھر گئے۔ کوئی مختلف سٹوروں میں جا کر فرانس کی مصنوعات کی خریداری کرنے لگا۔ کوئی دکانوں کے سامنے سجے شوکیسوں پر نظر یں گاڑھے ونڈ و شاپنگ کے مزے لینے لگا ۔ کچھ کھانے پینے کی چیزوں کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔ میں بھی انہی میں شامل تھا۔ تین بجنے والے تھے اور ابھی تک میں دوپہر کے کھانے سے محروم تھا۔ پھر وہی مسئلہ کہ کہاں سے لوں اور کیا لوں ۔ دوسرے سیاح صرف اپنی پسند اور استطاعت کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے ان دو امور کے علاوہ حلال کھانے کی تلاش ہوتی تھی۔ جو ایک اجنبی شہر میں جہاں آپ نو وارد ہوں انتہائی مشکل کام ہے۔ اوپر سے زبان کا مسئلہ تھا ۔دکانوںکے سائنبورڈ وں اور کھانے کے مینوز پر فرنچ کے علاوہ کچھ اور نہیں ملتا تھا۔ ان حالات میں میں نے میکڈا نلڈ کی تلا ش شروع کر دی ۔اس کے کھانے دنیا بھر میں ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ میں ان سے بخوبی آگاہ تھا ۔وہاں سے ہمیشہ فش برگر لیتا تھا۔کافی دیر کی تلاش کے بعد میکڈونلڈ ملا تو دیکھا کہ اُس کے اندر بھی لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ یوں لگتا تھا داتا دربار میں لنگر بٹ رہا ہو۔
دراصل آسڑیلیا سے باہر اور خصوصاً یورپ جا کر ہر جگہ رش کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ آسٹریلیا کے سب سے مصروف اور سب سے بڑے شہر سڈنی میں بھی مخصوص مقامات اور مخصوص اوقات کے علاوہ رش نظرنہیں آتا۔ پارک خالی نظر آتے ہیں۔ ٹرینوں میں صبح اور شام کے مصروف اوقات کے علاوہ خال خال مسافر نظر آتے ہیں۔ ریستوران ، ہوٹل اور دیگرعوامی مقامات پر بھی لوگوں کا رش نہیں ہوتا ۔ ویسے بھی سڈنی اتنا پھیلا ہوا ہے کہ شہر کے بعض علاقے تو دیہاتوں سے بھی زیادہ پُرسکون اور خاموش ہیں۔ خصوصاً رات کے اوقات میں پورے علاقے میں کوئی ذی نفس دکھائی نہیں دیتا۔ مکمل سناٹا چھایا رہتا ہے۔ لمبے لمبے وقفے کے بعد سڑک سے کوئی گاڑی گزرتی ہے ۔ پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں پیرس اور لندن جیسے شہر انسانوں کے سمندر ہیں۔ یہاں دن اور رات کا کوئی لمحہ انسانوں کی آمدورفت سے خالی نظر نہیں آتا۔ دن کے مصروف اوقات میں شہر کے مرکزی علاقوں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ لگتا ہے انسانوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو ہر چہار جانب چلا جا رہا ہے۔ یہاں سکون اور خاموشی نا پید ہے۔ یورپ کے ان مشہور و معروف شہروں کی سیر کے بعد میرا یہ خیال ہے کہ یہ شہر سیروسیاحت کے لئے تو بے شک اپنے اندر بے انتہا جاذبیت رکھتے ہیں لیکن رہائش کے لئے آسٹریلیا کے شہروں کا کوئی کوئی جواب نہیں ہے۔یوں بھی آسٹریلیا کے شہریوں کو جو سہولتیں حاصل ہیں وہ دنیا کے کم ممالک میں دستیاب ہیں۔ ان میں علاج معالجہ، تعلیم ، تفریح،آزادی، کھیل کود اور روزمرہ استعمال کی اشیائے خوردنی کی وافر اور ارزاں نرخوں پر دستیابی آسٹریلیا کے شہریوں کو دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے کہیں بہتر انداز میں حاصل ہیں۔ سوشل سیکورٹی کا مربوط انتظام ہے۔ کوئی فرد بھوکا ننگا اور بغیر چھت کے نہیں سوتا۔( وہ الگ بات ہے کہ بہت سوں کو چھت راس نہیں آتی اور وہ نشے میں مدہوش ہو کر اپنی راتیں فٹ پاتھوں پر گزار دیتے ہیں)۔
اقوام متحدہ کے ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق تعلیم ، صحت، آسانیِ رسل و رسائل، صاف آب و ہوا اور دوسری بہت سی سہولیاتِ زندگی کو مدِ نظر رکھ کر رہائش کے لئے دنیا کے جو سب سے اچھے دس شہر ہیں ان میں سڈنی، ملبورن، برسبین اور پرتھ سرِ فہرست ہیں۔ اس لحاظ سے آسٹریلیا کے شہری خوش قسمت ہیں کہ وہ دنیا کے اس پُرسکون اور بہترین خطے کے باسی ہیں۔
کھانا کھا کر نکلا تو مجھے احساس ہوا کہ کھانے کی تلاش میں میں بہت دور نکل آیا تھا۔ ریستوران میں رش کی وجہ سے کافی وقت ضائع ہوا تھا۔ ہماری کوچ ہوٹل واپس جانے والی تھی۔ میں تیز تیز قدموں واپس چل پڑا۔ وہاں پہنچا تو تمام سیاح بس میں موجود تھے اور میرا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ فرنچ گائیڈ مشال بس کے باہر کھڑی بے چینی سے میرا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بولی ’’آگئے شرارتی لڑکے ! میں نے تو سوچا کہ تم کسی فرانسیسی حسینہ کے ساتھ مصروف ہو کر واپسی کا راستہ بھول گئے ہو‘‘
میں نے کہا’’ تمھار ے ہوتے ہوئے کسی اور حسینہ کی کیا ضرورت؟‘‘
مشال کے لئے اتنا کافی تھا ۔آگے بڑھی ۔مجھے گلے لگایااور حسبِ معمول میرے دونوں گالوں کا بوسہ لے لیا ۔ میں گال سہلا کر بس کی طرف بڑھا تو بولی ’’میرا اور آپ لوگوں کا ساتھ یہیں تک تھا۔مجھے گڈ بائی نہیں کہو گے‘‘
مشال کو گڈ بائی کہہ کر میں درازے کی طرف لپکا تو اُس نے آگے بڑھ کر میرا بازو پکڑلیا ‘‘ فرانس میںگُڈ بائی ایسے نہیں کہتے ‘‘
میں نے بو کھلا کر پوچھا’’پھر کیسے کہتے ہیں؟‘‘
تمام سیاح اور ڈرائیور دلچسپی سے اور مُسکرا کر ہماری طرف دیکھ رہے تھے ۔میں پہلے والے بوسوںسے گھبرایا ہوا تھا کہ مشال نے پھر اپنی بانہوں میں گھیر لیا ۔ اس نے میرے گالوں پر دو مزید مہریں ثبت کر دیں۔ بڑی مشکل سے مشال کی بانہوں کے گھیرے سے نکل کر میں بس سوار ہوا ۔مشال کے ساتھ ساتھدوسرے سیاح بھی قہقے لگا رہے تھے۔ میں جھینپ کر اور سمٹ کر اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔ بس فوراً ہی وہاں سے چل دی۔
پیرس میں گوجرخان کے پھول
شام چھ بجے تیار ہو کر میں نیچے ہال میں پہنچا تو زیادہ تر سیاح پہلے سے وہاں موجود تھے۔ تقریباً سبھی مے نوشی میں مصروف تھے۔آج رات ہم پیرس کے ایک مشہور ومعروف کیبرے میں جارہے تھے۔ ہماراڈنر بھی وہیں کیبرے کلب میں تھا۔ اُس شام سیاحوںکا سیاحت سے زیادہ عیاشی کا موڈ تھا۔ پیرس کی رنگین شام کا تصور سب کے چہروں پر خوشی کے عکس بکھیر رہا تھا۔کیبرے جانے سے پہلے سبھی ایک ایک دودو جام لے کر’ تھکاوٹ‘ دور کر رہے تھے۔ میں تازہ پھلوں کا جوس لے کر ایک میز پر پہنچا تو وہاں سڈنی سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی جسٹن اور جوزی کے علاوہ جولی اور جان نامی سیاح موجود تھے۔ جان آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ سے آیا تھا ۔ ویسے تو خوش مزاج اور خوش لباس شخص تھا لیکن اکثر الگ الگ رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ اکیلا بیٹھا جام سے کھیلتا رہتا۔ اگر کوئی اس کی محفل میں شامل ہو جاتا تو پھر اُسے بور نہیں ہونے دیتا تھا۔مجھے اُس کی ہنسی ، قہقہوں اور خوش مزاجی کے پیچھے گہرے دکھ اور عمیق غم کے سائے نظرآئے یا شاید میرا وہم تھا ۔ وہ تھوڑی دیر کسی محفل میں بیٹھ کر اپنی خوش گفتاری کا جادو بکھیر کر الگ ہونے کی کوشش کرنے لگتا تھا۔ مجھے شک سا ہوتا تھا کہ اس کی ہنسی نقلی اور قہقہے مصنوعی ہیں ۔بعد کے دنوں میں میرا یہ شک درست ثابت ہوا۔
جسٹن اور جوزی سڈنی سے تعلق رکھنے والا ایک ادھیڑ عمر جوڑا تھا۔ جوزی بنیادی طور پر نیوزی لینڈ کی ٹونگن نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا رنگ گندمی اور اعضاء مضبوط تھے ۔ جیسے ٹونگن نسل سے تعلق رکھنے والوں کے ہوتے ہیں۔ جسٹن سفید فام آسٹریلین تھا۔ شریف اور کم گو سا آدمی تھا ۔ اس کی نکیل پوری طرح جوزی کے ہاتھوں میں تھی۔ یہ جوڑا جسٹن کو پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں ہمارے ساتھ یورپ کی سیاحت پر نکلا تھا۔ دراصل جسٹن سڈنی کی گودی میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ وہیں کرین سے گرا اور مہینوں تک اسپتال اور گھر کے بستر پر ریڑھ کی ہڈی کا درد برداشت کرتا رہا۔ اڑھائی سال انشورنس کپمنی کے ساتھ مقدمہ بازی کے بعد اُسے ڈیڑھ لاکھ ڈالر معاوضے کے طور پر ملے۔ رقم ہاتھ میں آتے ہی اس غریب جوڑے کے من میں سوئی ہوئی سیاحت کی خواہش ابھر کر سامنے آگئی اور آج وہ پیرس کے اس ہوٹل میں ہمارے سامنے بیٹھے لسی کی طرح جھاگ بھری بیئر کے گلاس ہاتھ میں لئے زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ سچ ہے کہ ہر غم کے بعد خوشی اور ہر خوشی کے بعد غم دن اور رات کی طرح ہماری ز ندگیوں میں آتے رہتے ہیں۔ میرے اس میز پر بیٹھنے کی وجہ یہ تھی کہ جسٹن اور جوزی ہر جگہ دھڑلے سے سگریٹ پیتے تھے۔ جبکہ دوسرے زیادہ تر سیاح اس عادت سے مبرا تھے۔ چونکہ میں خود بھی سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا تھا،(اب بھی ہوں) اس لیے اکثر اپنے جیسوں میں ہی بیٹھتا تھا۔ جہاں تک جولی کا تعلق تھا اس کے لئے مفت کی شراب، مفت کی سگریٹ اور مفت کا کھانا سب کچھ جائز تھا۔ نہ ملے تو وہ نہ تو شراب کی پرواہ کرتی اور نہ سگریٹ کی طلب اُسے ستاتی۔ اس وقت بھی وہ میز پر دھرے جسٹن کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر بیئر کے ساتھ ساتھ سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اڑا رہی تھی۔ ہماری خوش گپیاں جاری تھیں۔ جولی کہنے لگی ’’میرا ہوٹل کے کمرے میں اکیلے رہنے کا یہ پہلا اتفاق ہے۔ رات مجھے دھڑکا سا لگا رہا اور اچھی طرح سے نیند بھی نہیں آئی‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’ میرا کمرہ ساتھ ہی تھا۔ ڈر لگ رہا تھا تو وہاں آجاتیں۔ ویسے بھی وہاں ڈبل بیڈ لگا ہوا ہے‘‘
جولی نے مصنوعی غصے سے گھور کر مجھے دیکھا۔دوسرے بھی مسکرانے لگے۔ میں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ یہ پیشکش آئندہ پورے سفر کے لئے ہے ۔ جہاں تمھارا من گھبرائے، اکیلے میں ڈر ستائے یا کسی کی یاد آئے تو مجھے آواز دے لینا۔ میں دروازہ کھلا رکھوں گا۔ بغیر کھٹکھٹائے چلی آنا ۔‘‘
جسٹن اور جوزی قہقہ لگا کر ہنسنے لگے۔ جان بھی مسکرا کر جولی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جولی مکا تان کر مجھے ڈرانے لگی۔ میں بھی ڈر نے کی اداکاری کرنے لگا۔ انہی باتوں میں ساڑھے سات بج گئے۔
مولی نے چلنے کا اشارہ کیا۔ہم ہنستے مسکراتے پیرس کے اس مقام کی طرف چل پڑے جو صرف بالغوں کے لئے ہے۔ پیرس کے اس کیبرے کلب کی بہت دھوم تھی۔ میرے لئے یہ نیا تجربہ تھا۔ سڈنی جیسے شہر میں سالہا سال رہنے کے باوجود میں کبھی کیبرے کلب تک نہیں گیا تھا۔ اس تفریحی سفر نے کئی ممنوعات کو جائز بنا دیا تھا۔ اس میں آج کی یہ شام بھی شامل تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ دل میں کوئی حسرت باقی رہ جائے۔ ویسے بھی میرے گروپ کے سبھی لوگ ذوق و شوق سے وہاں جارہے تھے ۔ ان میں سے زیادہ تر عمر کے اُس حصے میں تھے کہ اگر پاکستان میں ہوتے تو بزرگ کہلاتے اور ننگے سر گھر سے نہ نکلتے۔ لیکن یہ یورپ کے بزرگ تھے جو جتنے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں اتنے ہی رنگین مزاج اورفحش گو ہوتے جاتے ہیں۔ فحش گوئی کو یہاں نہ صرف بُرا نہیں سمجھا جاتابلکہ ایسا شخص زندہ دل اور دلچسپ تصور کیا جاتا ہے۔
یورپ میں بوڑھے جب تک چلنے پھرنے کے قابل رہتے ہیں ان کا زیادہ وقت مقامی پبوں اور کلبوں میں گزرتا ہے۔ جہاں وہ بیئر پیتے ہیں، گھوڑوں پر شرطیں لگاتے ہیں اور اپنی ہم عمر بوڑھیوں کو چھیٹرتے رہتے ہیں۔ جب یہ چلنے پھرنے سے بالکل ہی معذور ہو جاتے ہیں تو نرسنگ ہوم کے مہمان بن جاتے ہیں۔ ان بوڑھوں کو اگر بزرگ یا بوڑھا کہا جائے تو بُرا مناتے ہیں۔ ویسے بھی انہیں بوڑھا تو کہا جاسکتا ہے بزرگ ہرگز نہیں۔
میرے ایک دوست نے بتایا کہ وہ پاکستان سے نیا نیا آسٹریلیا آیا تھا۔ اُس کے پڑوس میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی ۔ وہ جب بھی ملتی بہت محبت اور شفقت کا مظاہرہ کرتی ۔ میرا دوست جو اپنی ماں سے ہزاروں میل دُور تھا اس بوڑھی عورت کو ماں کی طرح سمجھنے لگا۔ ایک دن جب وہ بوڑھی بن سنور کر کہیں جا رہی تھی تو میرے دوست نے اُس سے پوچھا’’ ماں ! کہاں جا رہی ہو‘‘
بوڑھی نے چہرے پر مُسکراہٹ لا کر والہانہ سر خوشی سے بتایا ’’میں اپنے نئے بوائے فرینڈ سے ملنے جا رہی ہوں ‘‘
میرا دوست جو ابھی اسکلچر سے پوری طرح آشنا نہیں ہوا تھا توبہ توبہ کرنے لگا۔ وہ تو بہ اس لئے نہیں کر رہا تھا کہ بوڑھی گھوڑی لال لگام پہن کر پھر سے جوانی کے کھیل میں مصروف ہو گئی تھی بلکہ وہ اُسے ماں کہہ کر پچھتا رہا تھا۔ اُس نے یہ واقعہ سنایا تو کہنے لگا ’’آئندہ میں یہاں کسی بوڑھے یا بوڑھی سے ایسا رشتہ نہیں قائم کرسکتا۔ یار اُسے اتنی بھی شرم نہیں آئی کہ میں اُسے ماں کہہ رہا ہوں اور وہ کون سا گُل کھلانے جار ہی ہے‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’ تم اتنا زیادہ بُرا کیوں مان گئے۔ تمہیں ایک ساتھ ماں اور باپ کا پیار ملنے والا تھا‘‘
وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا ’’میں ایسے ماں باپ کے بغیر ہی اچھا ہوں‘‘
شام آٹھ بجے ہم کیبرے کلب پہنچے۔ ہمارے علاوہ سیاحوں کے کئی اور گروپ بھی وہاں موجود تھے۔ کلب کی ایک ایک سیٹ بک تھی۔ اتفاق سے مجھے پانڈے اور اُس کی فیملی کے ساتھ سیٹ ملی۔ پانڈے امریکہ سے آیا تھا۔ وہاں اُس کے کئی سیون الیون سٹور تھے۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور تین بچے بھی تھے۔ جنہیں وہ کیبرے میں بھی ساتھ ہی لائے تھے۔ حالانکہ یہ جگہ صرف بالغوں کے لئے تھی ۔ لیکن پانڈے شاید اپنے بچوں کو قبل از وقت جوانی کا سبق سکھانا چاہتا تھا۔ تفصیلی تعارف ہوا۔ جب پانڈے کو میرے پاکستانی ہونے کا علم ہوا تو بہت خوش ہوا اور اُردو میں گفتگو کرنے لگا۔ کئی دن کے بعد اُردو بولنے کا موقع ملا تو بہت اچھا لگا۔ پانڈے کے ساتھ اس کے بیوی اور بچوں کے علاوہ اُس کی سالی بھی تھی۔ نوجوان اور قبول صورت تھی۔ اُسے بھارت چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ پانڈے نے بتایا ’’ہم نے اُسے امریکہ اس لئے بلایا ہے کہ وہاں اس کی شادی کر سکیں۔ ویسے بھی ہمارے بزنس کے لئے فیملی کے جتنے زیادہ لوگ ہو ں اچھا ہے۔ اب میں ‘ میری بیوی اور میری سالی سبھی وہاںکام کرتے ہیں۔ اس کی شادی ہو گئی تو اس کا میاں بھی ہمارا ہاتھ بٹائے گا ‘‘
پانڈے کی بیوی اور سالی بھی خاصی خوش اخلاق ثابت ہوئیں۔ ہم کیبرے ڈانس سے زیادہ باہمی گفتگو میں مشغول رہے۔ ویسے بھی کیبرے ڈانس اور خصوصاً ڈنر انتہائی مایوس کن تھا۔ بے لباس لڑکیاں اسٹیج پر بے ہنگم سا ناچ رہی تھیں۔ ایک بھارتی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر یہ شرمناک مظاہرہ میرے لئے قدرے خفت آمیز تھا ۔لیکن پانڈے ، اس کی بیوی ، اس کی سالی حتیٰ کہ بچے بغیر شرمائے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ اس لئے میں بھی نہ چاہتے ہوئے وہاں بیٹھا رہا۔
کیبرے میں مجھے بالکل مزہ نہیں آیا۔وہاں کی موسیقی بے سُری ، کھانا بے ذائقہ اور مزاحیہ آئٹم گھسے پٹے تھے۔ ایک جو کر نما شخص الٹی سیدھی حرکتیں کرکے ہنسا نے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کچھ یورپین بوڑھے بوڑھیاں مروتاً مسکرا دیتے تھے۔ ورنہ اُس میں ہنسنے والی کوئی بات نہیں تھی ۔کیبرے ڈانسرز کبھی اچھل کود کر اور کبھی بور لطیفے سُنا کر حاضرین کو خوش کرنے کی کوشش کرہی تھیں۔ لیکن مجھے کسی آئٹم میں بھی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ بلکہ خاصی بوریت ہوئی۔ کھانا انتہائی بے ذائقہ بلکہ کھانے کے قابل ہی نہیں تھا۔ اُبلی ہوئی سبزیوں کے بے ذائقہ پتے ، اُبلے ہوئے آلو ، اُبلے ہوئے چاول اور کچھ عجیب سا بے ذائقہ سمندری کھانا تھا۔ میں نے لکھوا یا ہوا تھا کہ سی فوڈ کے علاوہ میرے کھانے میں کسی قسم کا گوشت شامل نہیں ہونا چاہیئے ۔لیکن یہ پتے ہرگز کھانے کے قابل نہیں تھے ۔میں نے صرف ایک دو آلو کھائے اور بس! اس کے بعد سویٹ ڈش آئی۔ اس کی شکل بھی عجیب سی تھی ۔جب چکھا تو میٹھے کے بجائے صابن کا سا ذائقہ محسوس ہُوا۔ میں نے پلیٹ وہیں رکھ دی۔
مجھے زیادہ بھوک نہیں تھی۔ایک دو آلو اور سلاد کے چند پتے کھانے اور کافی پینے کے بعد بھوک کا احساس مٹ گیا۔ تاہم اس کیبرے اور ڈنر کے لئے اچھی خاصی رقم ضائع کرنے کا افسوس ضرور تھا۔ ہمارے برعکس دوسرے سیاح خوش نظر آئے۔ شا ید انہیں یہ سب کچھ پسند آ رہا تھا۔یا شاید میرے ہی دل و دماغ پر آج کچھ قنوطیت طاری تھی۔ بہرحا ل اس شام میرے تاثرات یہی تھے۔
کیبرے کے نام پر قدرتی لباس میں فرانسیسی عورتوں کا بے ہنگم سا ناچ، کچھ فحش عملی لطیفے ، جوکر کی الٹی سیدھی حرکتیں اور صابن کے ذائقے والا کھانا کھا کر باہر نکلے تو اس ایک شام کے لئے ادا کئے گئے سو پونڈ بہت زیادہمحسوس ہوئے۔ کلب کے صدر دروازے کے سامنے ایک شخص پھول بیچ رہا تھا۔ اس نے میری طرف بھی سرخ گلاب کی شاخ بڑھائی اور فرنچ میں کچھ کہا۔ جو ظاہر ہے میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ تاہم اُس کی زبان سمجھے بغیر بھی اُس کی پیشکش سمجھ میں آرہی تھی۔ میں نے انگریزی میں کہا ’’ بھائی ! یہ پھول کسی جوڑے کے ہاتھ بیچنے کے کوشش کرو ۔جو ایک دوسرے کو پیش کر سکیں۔ میں ٹھہرا چھڑا چھانٹ ! میں انہیں لے کر کیا کروں گا‘‘
اسے میری زبان ، میری رنگت یا پھر پاکستان کی بنی ہوئی میری سوئیٹر سے کچھ شک گزرا ۔فرنچ کے بجائے انگریزی میں بولا ’’آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟‘‘
میں بھی اُسے اور اس کے سوال کو سمجھ گیا۔ اس کی توقع کے مطابق بتایا’’ پاکستان سے‘‘
اُس نے خوش ہو کر ہاتھ ملایا اور اُردو میں پوچھا ’’پاکستان کے کس علاقے سے؟‘‘
’’ ویسے تو پاکستان کا ہر علاقہ میرا اپنا ہے۔ لیکن میری پیدائش ضلع راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے قصبے کی ہے‘‘
اب اُس نے پنجابی میں کہا ’’ اوہ جی! کیہڑے قصبے دے ہو تُسی ؟‘‘
گوجر خان‘‘
میرا اتنا ہی کہنا تھا کہ اُس نے پُھول نیچے رکھے۔آئو دیکھا نہ تائو اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں اس افتاد سے تھوڑا سا گھبرا یا ۔لیکن وہ تھا کہ ساری کسریں نکالنے پر تُلا ہوا تھا۔ میری پسلیاں کڑ کڑا کر رہ گئیں۔ کافی دیر کے بعد اُس نے چھوڑا تو میری تقریباً رُکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ ادھر وہ صاحب جو پہلے فرنچ ، پھر انگریزی، پھر اُردو اور اب پنجابی میں مخاطب ہوئے ’’ اوہ جی! کمال ہو گیا !میں بھی گوجر خان کا ہوں ۔آپ کہاں رہتے ہیں‘‘
’’ میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں اور یورپ کی سیر پر نکلا ہوں۔ ویسے آپ ذرا دیر سے ملے۔ اگر تھوڑی دیر پہلے ملاقات ہو جاتی تو آپ سے کسی پاکستانی ریسٹورنٹ کا اتا پتا تو مل جاتا۔ یہاں کا مہنگا اور بے ذائقہ کھانا کھا کر بلکہ دیکھ کر جی خراب ہو گیا ہے‘‘
’’ اچھا جی! ویسے یہ تو پیرس کا مہنگا ترین کلب ہے اور صرف امیر لوگ ہی یہاں کا کھانا اور تفریح افورڈ کر سکتے ہیں۔ میں اتنے عرصے سے پیرس میں رہتا ہوں ۔ آج تک اس کلب کے اندر جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ حالانکہ روز شام کو میں یہیں پھول بیچتا ہوں۔ دیکھیں نا جی ! وہاں گوجر خان میں میرے گھر والے ، عزیز و اقارب اور دوست سب یہی سمجھتے ہیں کہ میں پیرس جیسے شہر میں عیاشی کر رہا ہوں اور دونوں ہاتھوں سے دولت اکٹھی کر رہا ہوں۔ لیکن آپ نے تو دیکھ ہی لیا۔ ہم ایک ایک ڈالر کے لئے کس طرحخوار ہوتے ہیں۔ اس کلب کوتو چھوڑیں ہم باہر کا سستے سیسستا کھانا بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ گھر میں پکاتے اور کھاتے ہیں۔ ہاں! آپ پاکستانی ریسٹورنٹ کی بات کر رہے تھے۔ سڑک کی دوسری جانب دیکھیں۔ وہ سامنے ہی پاکستانی ریسٹورنٹ ہے۔ لیکن جی ! آپ ہمارے ہوتے ہوئے ریسٹورنٹ کا کھانا کیوں کھائیں گے۔ ہمارا بھی کوئی فرض ہے۔ ویسے بھی آپ گوجر خان کے ہیں۔ ہم چار لوگ ایک مکان میں اکھٹے رہتے ہیں۔ چاروں گوجر خان کے ہیں۔ ہم تین تو پاکستان سے اکھٹے آئے تھے۔ ایک یہاں مل گیا۔ چار کونے پورے ہو گئے‘‘
یہ صاحب مسلسل بولنے کے عادی لگتے تھے۔ میں نے نظر اٹھا کر سڑک کے دوسری طرف دیکھا تو ایک ریسٹورنٹ کے سامنے’’ تندوری ریسٹورنٹ‘‘ لکھا نظر آیا ۔مجھے گل فروشسے باتیں کرتے دیکھ کر پانڈے اور ڈاکٹر رمیش بھی ہمارے پاس چلے آئے۔ وہ بھی کلب کے کھانے کا گلہ کر رہے تھے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ وہ سامنے پاکستانی ریسٹورنٹ ہے تو سبھیا فسوس کرنے لگے۔ ڈاکٹر رمیش بولا ’’اگر پہلے یہ ریسٹورنٹ نظر آجاتا تو اس کلب کے بجائے وہاں کھانا کھاتے۔ ویسے جگہ تو ہم نے دیکھ ہی لی ہے کل ڈنر یہی کریں گے‘‘
پانڈے اور اس کی بیوی نے بھی دوسرے دن یہیں ڈنر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ میں نے کہا’’ بے ذائقہ یورپین کھانے کھا کھا کر میری زبان کا ذائقہ بھی خراب ہو چکا ہے۔ میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ آوٗں گا‘‘
پھول بیچنے والے صاحب بولے ’’نہ جی نہ ! آپ تو ہماے مہمان ہیں۔ آپ جتنے دن بھی یہاں رہیں گے، کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے۔ََ بلکہ میں یہ پُھول شول بیچنے بند کرتا ہوں اور آپ کو گھر لئے چلتا ہوں‘‘
پانڈے اور رمیش ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا ’’ آپ کا بہت شکریہ ! آپ اپنا کام کریں۔ ہماری کوچ ہوٹل جانے ہی والی ہے۔ ان کے ساتھ نہ گیا تو بعد میں اکیلے جانا مشکل ہو جائے گا۔ویسے مجھے طارق مرزا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنا نام نہیں بتایا ‘‘
’’میرا نام راجہ ظہور احمد ہے جی! میرا گھر زیادہ دُور نہیں ہے۔ہوٹل جانے کی تو آپ فکر ہی نہ کریں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو وہاں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ رات ہمارے ساتھ ہی رہیں۔ اگر جانا بھی ہوا تو میرے دوست کی گاڑی ہے۔ ہم آپ کو ہوٹل چھوڑ دیں گے‘‘
میں اس کے خلوص سے متاثر ہوا’’ را جہ صاحب آپ کا شکریہ ! آج تو ہمیں جانے دیں۔میں بہت تھکا ہوا ہوں اور آرام کرنا چاہتا ہوں‘‘
’’ تو پھر وعدہ کریں کہ کل ہمیں وقت دیں گے‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔ اگر آپ کا اصرار ہے تو کل ملاقات کر لیتے ہیں ۔لیکن ہم ملیں گے کہاں؟‘‘
’’اوہ جی! آپ ہوٹل کا نام بتا دیں۔ ہم وہاں سے آپ کو پک کر لیں گے‘‘
میں نے راجہ ظہور کو ہوٹل کا نام اور کمرہ نمبر بتا دیا۔ اس نے بڑے تپاک اور محبت سے ہمیں رخصت کیا ۔ میں پاکستانیوں کی روایتی محبت، مہما ن نوازی اور خلوص کی خوشبو سمیٹ کر ہوٹل واپس آگیا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
اگلے دن ہم گروپ کی پابندی سے آزاد تھے۔ صبح آٹھ بجے ناشتہ کر کے میں ہوٹل سے نکل آیا۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے مجھے نزدیکی ٹرین اسٹیشن کے بارے میں سمجھا دیا ۔ چھ سات منٹ کی مسافت کے بعد میں اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہوا تو یوں لگا کہ کسی نئے شہر میں داخل ہو گیا ہوں۔ یہ ایک بڑا، پُر رونق اور خوبصورتسٹیشن تھا۔ اسٹیشن کے اندر ہی بازار کی طرح دکانیں ، بنک اور پوسٹ آفس موجود تھے۔ میں نے بیورو دی چینج سے آسٹریلین کرنسی تبدیل کروائی۔ ٹکٹ خریدا اور پوچھتا پچھاتا لوور جانے والی ٹرین میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد لوور اسٹیشن آگیا۔ یہ اس سے بھی زیادہ عظیم الشان اسٹیشن تھا ۔ لگتا تھا فرانسیسیوں نے ٹرین اسٹیشنوں کو بنانے پر خاصا سرمایہصرف کیا ہے۔ ان میں نہ صرف ساری سہولتیں تھی بلکہ اپنے اندر فنِ تعمیر ، خوبصورت بناوٹ اور سجاوٹ کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک کے پاس اتنا سرمایہ تو ہوتا ہی ہے کہ ضروری ا خراجات کے علاوہ اپنے شہروں کو خوبصورت بنانے پر بھی صرف کر سکیں۔ فرانس نے بھی برطانیہ کی طرح صدیوں تک دنیا کے کتنے ہی ممالک پر جبری تسلط قائم رکھا اور ان ممالک کے وسائل سے دل کھول کر استفادہ کیا ۔ انہوں نے بھی دوسروں کی دولت سے اپنے درو دیوار کو خوب بنایا اور سجایا ہے۔
لوور اسٹیشن سے لوور کا عجائب گھر قریب ہی تھا۔ قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لے کر عجائب گھر میں داخل ہوا تو اندر سیاحوں کا جم غفیر تھا۔ جولائی کے اس مہینے میں یورپ میں دنیا بھر کے لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ پیرس میں جانے والے سیاح ایفل ٹاور اور اس عجائب گھر کو دیکھے بغیر نہیں لوٹتے۔ عجائب گھر جیسی جگہ پر اتنا زیادہ رش میرے لئے باعثِ پریشانی تھا۔ ایک ایک تصویر اور ایک ایک پینٹنگ کے سامنے درجنوں سیاح کھڑے تھے ۔ ایسے میں دلجمعی اور محویت سے ان فن پاروں کو دیکھنا محال تھا ۔لیکن اب تو یہاں آگیا تھا۔ اس لئے سیاحوں کے ریلے میں مختلف پینٹنگز پر مختصر نظریں ڈالتا ہوا میں مشہور ِ زمانہ مونا لیزا کی تصویر کے سامنے جا پہنچا۔ یہ بہت اچھی پینٹنگ ہے ۔ اس کا شہرہ دنیا بھر میں ہے۔لیکن شاید میرا مصوری کا ذوق اتنا عمدہ نہیں ہے ۔ مجھے اس میں وہ خاص بات نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی اتنی شہرت ہے ۔مونا لیزا کی تصویر کے مقابلے میں دوسری کئی پینٹنگز مجھے زیادہ جاذب نظر اور دلکش لگیں۔ کچھ تصاویر میں رنگوں کا ایسا حسین امتزاج تھا کہ دل بے اختیار ان کی جانب کھنچا چلا جاتا تھا ۔ مجھے فنِ مصوری کی باریکیوں کا تو زیادہ علم نہیں ہے لیکن ایک عام ناظر کی حیثیت سے مونا لیزا کی نسبت دوسرے کئی فن پارے زیادہ دلکش لگے۔
سیاحوں کے کئی گروپوں کے ساتھ ان کی گائیڈز بھی تھیں جو رواں کمنٹری جاری رکھے ہوئے تھیں۔ مجھے بے اختیار مشال یاد آئی۔ وہ اگر یہاں ہوتی تو ہاتھ اور کندھا پکڑپکڑ کر بلکہ جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ایک ایک تصویر دیکھنے پر اکساتی اور سمجھاتی۔ لوور کے اس عجائب گھر میں سیکڑوں پینٹنگز اور مجسمے تھے ۔ میںکافی دیر تک گھومتا اور فن پاروں کو اپنے دل و دماغ پر نقش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ عجائب گھر کے اندر خوابناک بلکہ قدرے تاریک سا ماحول تھا۔ دوسرا یہ کہ سیاح بہت زیادہ تھے۔ اس لئے میں زیادہ دیر وہاںنہیں رکا اور باہر نکل آیا۔
باہر روشن اور چمکدار دن تھا۔ میں دوبارہ ٹرین میں بیٹھا اور کنکورڈ کے اسٹیشن پر جا اُترا۔ یہ پیرس کا مرکزی علا قہ ہے۔ کافی دیر تک بازاروں اور دکانوں میںبے مقصد آوارہ گردی کرتا رہا۔ تھک گیا تو ایک کافی شاپ کے سامنے رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ویٹرس مینو لے کر آن پہنچی۔ میں نے مینو آگے سے ہٹاتے ہوئے کہا ’’ون کپ آف کافی پلیز‘‘
وہ فرنچ میں کچھ کہہ کر چلی گئی۔ شکرہے کہ وہ کافی ہی لائی کچھ اور نہیں ۔ ورنہ نووٹل ہوٹل والا معاملہ بھی درپیش آسکتا تھا۔ کافی دیر تک میںپیرس کے اِس پر رونق علاقے کی اس کافی شاپ کی میز پر بیٹھا رنگارنگ نظاروں سے لطف اندوز ہوتارہا۔ مقامی جوڑے ہاتھ میں ہاتھ اور کچھ بانہوں میں بانہیں ڈالے چلے جارہے تھے۔ کچھ فٹ پاتھوں کو ہی خواب گاہ سمجھے ہوئے تھے۔سیکڑوں سیاح گلے میں کیمرے لٹکائے ونڈو شاپنگ کر رہے تھے۔
وہاں سے اٹھا تو ٹیکسی لے کرمیں پگال کے علاقے میں چلا گیا۔ اس تنگ رہائشی علاقے میں فرانس کی قدیم عمارتوں اور روایتی رہن سہن کی جھلک نظر آئی۔ یہ پیرس کا سرخ روشنی والا علاقہ ہے۔ شوقین سیاح اور مقامی فرانسیسی اپنی پسند اور استطاعت کے مطابق اپنی دلبستگی کا ساماں ڈھونڈ رہے تھے۔ ویسے ڈھونڈنے کی تو یہاں ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی حسینہ دام بچھائے نظر آرہی تھی۔ کچھ دروازوں پر کھڑی تھیں اور دِلربا مسکراہٹوں سے گاہکوں کو لبھانے اورپھسلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ کچھ تو فٹ پاتھوں پر ہی برائے نام لباس بلکہ تقریباً تقریباً قدرتی لباس میں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ اُن کی مسکراہٹیں اور ادائیں ہر آنے جانے والے پر شکاری کے جال کی طرح گرتی تھیں۔ کچھ آگے بڑھ کر راستہ بھی روک لیتی تھیں اور گاہکوں کو اندر لے جانے کوشش کرتی تھیں۔ اس علاقے میں آکر اور ان پیشہ ور عورتوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کرانسان حیران رہ جاتا ہے۔ ان میں نوخیز حسینائیں بھی تھیں اور ایسی بھی تھیں جنہیں دیکھ کر وہاں سے بھاگ جانے کو دل چاہتا تھا۔ اُن میں سے ایک اپنے لباس کا بالائی حصہ کھولے کھڑی تھی۔ جو کچھ نمایاں تھا اسے دیکھ کر ڈر لگتا تھا۔ کچھ ادھ کھلی کلیوں کی طرح دِکھتی تھیں۔ لیکن ظاہر ہے اس بازار میں وہ کب کی کلیوں سے پھول بن چکی تھیں۔ یہ سب نظروں کا دھوکا تھا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکا کھلا کھلا
مزے کی بات یہ ہے کہ پورے فرانس میں لوگ انگریزی سے الرجک نظر آئے لیکن یہاں گاہکوں اور خصوصاً سیاحوں کی سہولت کے لئے زیادہ تر طوائفیں انگریزی بول رہی تھیں۔ گویا اس بازار کی عورتیں دوسروں سے بہتر میزبان تھیں۔ مختلف رنگ و روپ کی پیشہ ور عورتوں کی اتنی زیادہ تعداد میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھی۔ لگتا تھا فرانس کی کل آمدنی کا ایک بڑا حصہ انہیں اس مد میں حاصل ہوتا ہو گا۔ اس بازار کو دیکھ کر فرانس کے بارے میں ایک لطیفہ مجھے یاد آگیا۔ میں ایک ٹریول ایجنسی میں بیٹھا ہوا تھا۔ٹریول ایجنٹ سیر کے شوقین ایک صاحب کو بتا رہے تھے ’’ آپ مصر چلے جائیں وہاں آپ کو پرانے کھنڈرات دیکھنے کا موقع ملے گا‘‘
وہ صاحب بولے’’ نہیں! میں فرانس جا کر جدیدعمارتیں دیکھنا پسند کروں گا‘‘
شاید وہ صاحب یہی جدید عمارتیں دیکھنا چاہتے تھے۔
ایک گھنٹے کی ونڈو شاپنگ کے بعد میں بس میں بیٹھا اور ا یفل ٹاور کے پاس جا اُ ترا ۔ دریائے سین کے کنارے میں نے فیری کا ٹکٹ لیا اور اس پر سوار ہو گیا۔ فیری پر بہت خوبصورت اور آرام دہ سیٹیں تھیں۔ یہ فیری دو منزلہ تھی۔ نیچے والا حصہ شیشے کی دیواروں میں محصور تھا اور اس میں ائیر کنڈیشنر آن تھا۔ چھت کھلی تھی اور ا س پر سیٹیں موجود تھیں۔ میں چھت پر جا کر بیٹھا تو دور دور کا نظارہ میری آنکھوں کی دسترس میں تھا۔ ۔دریا کے دونو ں کناروں پر خوبصورت گھر بنے تھے۔ گرمی کے اس موسم میں پھولوں کی ہر طرف بہتات تھی۔ گھروں کے فرنٹ یارڈ میں ، پارکوں میں، بالکونیوں میں لٹکے گملوں میں،حتیٰ کہ فیری کی چھت پر، ہر طرفسبزہ اور خوش رنگ پھول عجب بہار دکھا رہے تھے۔ جیسے جیسے فیر ی شہر کے بیچوں بیچ آگے کی جانب بڑھتی رہی ویسے ویسے خوبصورت نظارے آنکھوں کے راستے دل میں اُترتے چلے جا رہے تھے۔ کچھ پرانی مگر شاندار اور کچھ قابلِ دید جدید عمارتیں سر اٹھا ئے پیرس کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں۔ دریائے سین کا نیلا اور شفاف پانی اور سنہری اور نرم دھوپ جسم و رُوح کو فرحت بخشرہے تھے۔
ایسے ہی نظاروں میں کھو کر وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا ۔گھڑی کی جانب دیکھا تو چھ بج رہے تھے۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ آج شام راجہ ظہور احمد مجھے لینے ہوٹل آرہا ہے۔ فیری سے اتر کر میں نے ٹرین اسٹیشن کا پتا دریافت کیا۔ پوچھتے پچھاتے اسٹیشن تک پہنچ ہی گیا۔ پانچ منٹ میں ٹرین آ گئی جس نے پچیس منٹ میں مجھے میرے ہوٹل کے قریب پہنچا دیا ۔
تازہ دم ہو کر نیچے پہنچا تو ابھی سات بجے تھے۔ راجہ ظہور احمد نے ساڑھے سات بجے آنا تھا۔ میں نے کافی خریدی اور ہال میں آکر بیٹھ گیا۔ اس وقت ہال میں میرے گروپ کا دوسرا کوئی فرد موجودنہیں تھا ۔ لگتا تھا کہ گروپ سے آزاد ہو کر سبھیخوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اسی لئے ابھی تک کوئی بھی نہیں لوٹا تھا۔تھوڑی دیر میں جان آتا دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں بیئر کا گلاس تھا۔ مجھے اکیلا بیٹھا دیکھا تو سیدھا میری میز پر چلا آیا ۔رسمی علیک سلیک کے بعد جان نے پوچھا ’’آج کا دن کیسا رہا ؟ ‘‘
’’بہت اچھا! آزادی اور اپنی مرضی سے گھومنے کا موقع ملا ۔اس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے‘‘
’’ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔کبھی کبھی تو گروپ کی پابندی سے دل اُکتا جاتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ بھی ہے۔ کچھ وقت گروپ کے ساتھ اور کچھ اکیلے گزارنے کا یوں ہی موقع ملتا رہا تو سیر کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔ ویسے تم آج کہاں کہاں گئے تھے؟ ‘‘
میں نے جان کو پورے دن کی تفصیل بتا دی ۔ جان نے لوور کے ذکر میں زیادہ دلچسبی نہیں لی تاہم بازار ِحسن کا تذکرہ سن کر بہت محفوظ ہوا ۔ کہنے لگا ’’میں آج رات وہاں ضرور جائوں گا ۔ دنیا کے بے شمار ملکوں کی بے شمار عورتوں سے میرے تعلقات رہے ہیں۔ اتفاق سے کوئی فرانسیسی حسینہ ان میں شامل نہیں۔ آج رات کے بعد میری ڈائری میں دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کی طرح فرانس کا نام بھی شامل ہو جائے گا۔ نپولین کے مقبرے پر آویزاں جھنڈوں کی طرح میری ڈائری میں بھی ایک ملک کا اضافہ ہو جائے گا‘‘
جان کی عمر اڑتیس سال تھی۔ چہرہ گول اور بھرا بھرا تھا۔ آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک اور جسم پر قیمتی لباس تھا۔ مجموعی طور پر وہ اسمارٹ ، خوش شکل اور خوش مزاج شخص نظر آتا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر اور مسکرا کر کہنے لگا ’’لیکن طارق ! تم پگال کی گلیوں میں گھوم کر واپس آگئے یا وہاں کچھ شاپنگ بھی کی‘‘
’’ میں نے صرف ونڈو شاپنگ کی۔ ویسے بھی مجھے فاتح بننے کا کچھ زیادہ شوق نہیں ہے‘‘
جان ہنسا۔ لیکن اس کی نظر یں کہیں اور ٹکی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ ایک فرانسیسی حسینہ استقبالیہ کا ئونٹر کی جانب اس طرح جارہی تھی کہ اس کے جسم کا اوپری حصہ بلاوٗز سے تقریباََ باہر نکلنے کو تھا۔ نچلے حصے پر منی اسکرٹ برائے نام ستر پوشی کر رہا تھا۔ اس کافر ادا حسینہ کی کمر، ٹانگوں اور سینے کا زیادہ تر حصہ لباس سے عاری ہو کر دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔ اُس کے ہونٹ لپ اسٹک کی سُرخی میں رنگے آنکھیں مستی میں ڈوبی اور چال مورنی جیسی تھی۔جب وہ چلتی تو اونچی ایڑی والے سینڈل کی وجہ سے اس کے کولہے ایک خاص ردم میں رقصاں نظر آتے۔ مجموعی طور پر وہ کوئی ا لٹرا ماڈرن لڑکی تھی جو اپنے بوائے فرینڈ سے پہلی ڈیٹ پر آئی تھی۔ یا پھر پیشہ ورتھی اور شکار کی تلاش میں نکلی تھی۔ میں کبھی جان کی طرف اور کبھی اس لڑکی کی جانب نگاہ ڈالتا۔ جان کی نظریں اس پر ایسے جمی تھیں جیسے آنکھیں جھپکنا بھول گیا ہو۔ لڑکی ہال پر بظاہر طائرانہ سی نظر ڈالتی استقبالیہ کی طرف بڑھتی چلی گئی ۔میں نے جان کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ جیسے ٹرانس سے نکل آیا۔ بے اختیار بولا ’’ونڈر فل !کیا حُسن ہے! کیاجسم ہے! لگتا ہے مجھے فرانس کی سرزمین پر جھنڈا لہرانے کے لئے پگال جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘
’’ احتیاط کرنا !ایسا نہ ہو کہ وہ تمھار ے گال پر فرانس کا جھنڈا بلکہ نقشہ جما کر چلی جائے‘‘ میں نے کہا
’’تم دیکھتے جائو! پیرس کی اس قوسِ قزح کے سارے رنگ کل صبح تمھیں میرے بستر میں بکھرے ملیں گے ‘‘ جان یہ کہ کر کاوٗنٹر کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
وہ سیدھا کاوٗنٹر پر گیا۔کچھدیر تک وہ اس سُرخ بالوں اور سُرخ لبوں والی فرانسیسی حسینہ سے محوِ کلام رہا۔ صرف دو منٹ کے بعد وہ ڈرنک خرید رہا تھا اور تیسرے منٹ میں اس حسینہ کو لے کر واپس میرے ٹیبل پر پہنچ گیا۔ اس دفعہ اُس نے بیئر کے بجائے اپنے لئے اسکاچ اور لڑکی کے لئے شیمپئن خریدی تھی۔ جان نے لڑکی سے میرا تعارف کرا یا تو اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا ۔میں نے اس حسینہ کا نرم و نازک سا ہاتھ تھاما تو اُس نے ہولے سے میرا ہاتھ دبا دیا۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں مستی کی لہریں سی دکھائی دیں۔ مجھے ایسے لگا کہ جان جسے فتح کرنے کی بات کر رہا ہے وہ تو خود گھر سے اسی مقصد کے تحت نکلی ہے۔ ہمارے درمیان چند رسمی سی باتیں ہوئی تھیں کہ راجہ ظہور احمد اپنے دوست کے ساتھ ہال میں داخل ہوا۔
تھوڑی دیر میں جان اور لیزا کووہیں چھوڑ کر میں راجہ ظہور اور اس کے دوست کریم کے ساتھ ہوٹل سے نکل آیا۔ کریم کی فورڈ کار باہر کھڑی تھی۔ میں باتوں میں منہمک تھا۔بے خیالی میں ڈرائیونگسیٹ کا دروازہ کھولنے لگا ۔کریم نے گاڑی کی چابی میری طرف بڑھا کر ڈرائیونگ کرنے کی دعوت دی ۔ میں نے معذرت کی حالانکہ میرا دل چاہ رہا تھاکہ پیرس کی سڑکوں پر ڈرائیو کروں ۔لیکن سڑک کے دائیں جانب گاڑی چلانے کا مجھے بالکل تجربہ نہیں تھا۔ کیونکہ آسٹریلیا میں برطانیہ اور پاکستان کی طرح گاڑی سڑک کے بائیں طرف چلائی جاتی ہے اور اسٹیرنگ دائیں طرف ہوتا ہے۔ جبکہ برطانیہ کے علاوہ بقیہ تقریباً تمام یورپ میں گاڑیوں کے اسٹیرنگ بائیں طرف ہوتے ہیں اور سڑک پر دائیں سمت گاڑی چلائی جاتی ہے۔ گاڑی سیدھی چلانی ہو تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیںلیکن دو راہوں اور چوراہوں پر مڑتے وقت گاڑی کو سڑک کے درست حصے میں رکھنا تجربے کے بغیر مشکل ہے۔ کریم کے اصرار پراور پیرس کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کے شوق میں میں نے یہ چیلنج قبول کر لیااور ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔
ڈرائیونگ سیٹ اور سٹیرنگ بائیں طرف ہونے کی وجہ سے شروع میں مجھے عجیب لگا۔ میں گاڑی کو سٹارٹ کر کے اور آہستہ آہستہ ریورس کر کے سٹرک پر لے ہی آیا۔ کریم میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ اُس کے ہوتے ہوئے مجھے تسلی تھی کہ جہاں غلطی کا اندیشہ ہو گا وہ مجھے خبردار کر دے گا ۔ میرے پاس بین الاقوامی ڈرائیونگ لائسنس موجود تھا۔ لہذا یہ فکر نہیں تھی کہ فرنچ ٹریفک پولیس بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر جرمانہ کر دے گی۔ شروع کے چند موڑوں پر مجھے گاڑی سڑک کے درست سمت میںرکھنے میں دقت پیش آئی ۔کیونکہ آسٹریلیا میں اتنے عرصے سے مختلف طریقے سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے عادتیں پختہ ہوچکی تھیں۔ اس لئے ہر موڑ، راوٗنڈ اباوٗٹ ، GIVWAYیا سٹاپ سائن کے بعد میری گاڑی سٹرک کے بائیں جانب جانے لگتی۔ کبھی میں خود کو اور کبھی کریم مجھے درست حصے پر چلنے کے لئے کہہ دیتا ۔ آہستہ آہستہ میں رواں ہوتا چلا گیا۔تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد میں فرنچ قوائد و ضوابط کے مطابق ڈرائیونگ کرنے پر قادر ہو گیا۔ اُس کے بعد پیرس کی چمکیلی سڑکوں پر فورڈ بھگاتے ہوئے مزہ آنے لگا۔ راجہ ظہور احمد کے گھر جانے کے لئے ہمیں پیرس کے مرکزی اورمصروف حصے سے گزر کر جانا پڑا۔ اب گاڑی پر میرا پورا کنٹرول تھا ۔اس لیے بآسانی اس مصروف علاقے میں سے ڈرائیو کر تا ہوا دوسری سمت پہنچ گیا۔
پیرس کی سڑکیں بھی لندن کی طرح مصروف رہتی ہیں۔ شہر پُرانا ہونے کی وجہ سے سڑکیں زیادہ کُھلی نہیں ہیں۔ نہ ہی شہر کے اندر زیادہ موٹروے وغیرہ ہیں۔ اس لئے ڈرائیونگ میں بہت زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ زیادہ ترلوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ سڑک پر تل دھرنے کی جگہ بھی نظر نہ آئے ۔پیرس اور لندن کے مقابلے میں سڈنی (جو آسٹریلیا کا سب سے بڑا اور سب سے مصروف شہر ہے) میں ٹریفک بدرجہا بہتر ہے۔ سڑکیں کشادہ ہیں اور کئی موٹروے شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ حالانکہ خود سڈنی کے باسی ٹریفک کے دباوٗ سے پریشان رہتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں لندن ، پیرس، ٹوکیو، بنکاک اور نیویارک جیسے شہر کی ٹریفک دیکھنے کا موقع ملے تو سڈنی کی ٹریفک کو بھو ل جائیں۔ سڈنی اور ملبورن کے علاوہ آسٹریلیا کے باقی شہروں میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کے شہر بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ گنجان آباد نہیں ہیں۔ آبادیاں دُور دُور ہیں۔ سڑکیں کشادہ اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی ہیں۔ اس لئے ایڈیلیڈ ، ہوبارٹ اور برسبین جائیں تو مصروف اوقات میں بھی ٹریفک ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے چھٹی کا دن ہو۔
اس کے تین پاکستانی خاوند تھے
راجہ ظہور احمد کے دوستوں نے میرا پُر تپاک استقبال کیا ۔ مجھے بعد میں علم ہو ا کہ ان میں سے دو کی رات کی شفٹ تھی لیکن انہوں نے میری وجہ سے جاب سے رخصت لے لی تھی۔ ان چاروں کے علاوہ ان کا ایک دوست اپنی فرانسیسی بیوی کے ساتھ وہاں آیا ہوا تھا۔ یہ موٹی فرنچ عورت فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ تھوڑی تھوڑی اُردو بھی جانتی تھی۔ یہ اُردو اس نے اپنے تین پاکستانی خاوندوں سے سیکھی تھی۔ جی ہاں! اس کے تین پاکستانی خاوند تھے۔ اس سے پہلے وہ کئی فرانسیسی خاوندوں کو بھی بھگتا چکی تھی۔ گویا کم ازکم آدھ درجن شادیاں کر چکی تھی۔ (اب چند سال مزید گزر چکے ہیں، ہو سکتا ہے اس نے درجن کا سنگِ میل عبور کر لیا ہو) شین نامی اس فرانسیسی عورت نے آٹھ سال پہلے ایک پاکستانی سے شادی کی۔ اس سے دو بچے پیدا کئے اور خاوند کو فرانس کی شہر یت دلوائی۔ شہریت ملتے ہی ان صاحب نے طلاق دے کر شین کی شادی اپنے بھائی سے کروادی۔ بھائی نے شہریت ملنے تک شین سے دو مزیدبچے پیدا کئے۔ شہریت کا کاغذ ہاتھ میں آتے ہی اس نے دو اپنے اور دو بھائی کے بچوں سمیت شین کو اپنے گھر اور اپنی زندگی سے نکال باہر کیا۔
دونوں بھائی پاکستان چلے گئے جہاں ایک تو پہلے سے شادی شدہ تھا اور دو بچوں کا باپ تھا۔ دوسرے نے وہاں جا کر چچا کی بیٹی سے شادی کی اور اسے لے کر فرانس آگیا۔ اب دونوں بھائی اپنی پاکستانی بیویوں کے ساتھ فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ شین کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی بھول چکے ہیں۔ دو اڑھائی سال حکومت کے خرچ پر بچے پالنے کے بعد شین کو پھرکسی مرد کی رفاقت کی طلب محسوس ہوئی۔ چار بچے پیدا کرنے اور پاکستانی کڑاہی گوشت کھا کھا کر بھینس کی طرح موٹی ہوجانے والی شین کو کسی فرانسیسی مرد نے لفٹ نہیں کروائی۔ اُدھر خان نامی ایک پاکستانی فرانسیسی شہریت حاصل کرنے کے لئے کسی فرانسیسی عورت سے شادی کا خواہش مند تھا۔ ہزار کوشش کے باوجود کسی معقول عورت نے اس سے شادی کرنے کی حامی نہیں بھری۔ ناچار اس نے شین سے نکاح کرلیا جو خان سے دگنی عمر کی تھی۔ خان چھبیس سال کا سمارٹ سا نوجوان تھا جبکہ شین پینتالیسسے کم نہ تھی۔ خان کو اس گوہرِ نایاب بیوی کے ساتھ ساتھ جہیز میں چار بچے بھی ملے۔ اب جب تک اسے شہریت نہیں مل جاتی وہ شین کے نخرے اٹھائے گا ۔اسے گھمانے پھرانے اور کھانا کھلانے لے کر جائے گا۔ درحقیقت اپنی ساری کمائی اس پر لٹاتا رہے گا۔ دو تین سال میں جب تک اسے شہریت نہیںمل جاتی شین سے ایک دو بچے مزید پیدا کر ے گا ۔ شہریت ملتے ہی اسُے طلاق دے کر پاکستان جا کر اپنی کسی کزن کو بیاہ لائے گا۔ یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ میں یہ سلسلہ عام ہے۔ اس کی وجہ سے اگر کوئی پاکستانی واقعی کسی مقامی عورت سے محبت کرتا ہو اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اُسے سخت مشکل درپیش آتی ہے۔ کیونکہ گوریاں ہر پاکستانی کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ یہ صرف شہریت حاصل کرنے کے لئے شادی کرنا چاہتے ہیں اور دل سے انہیں نہیں چاہتے۔ گویا کرے کوئی بھرے کوئی۔
راجہ ظہور احمد کے گھر میں وہ فرانسیسی عورت نہ ہوتی تو ایسے لگتا کہ ہم گوجر خان کے کسی گھر بیٹھے ہیں۔ وہی زبان، وہی کھانا، وہی موسیقی اور وہاں کی باتیں۔میں کافی دنوں سے گوروں کے ساتھ دن رات گزاررہا تھا۔ اس تبدیلی سے خوب لطف اندوز ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میں موجود ہوں۔ یہاں بیٹھ کر مجھے فرحت اور شادمانی کا احساس ہوا۔ کھانے کے بعد خان اور اس کی فرانسیسی بیوی تو گھر چلے گئے۔ جب کہ راجہ ظہور احمد اور اس کے دوست مجھے لے کر ایک انڈین نائٹ کلب چلے آئے۔ نائٹ کلب ایک چھوٹے سے ہال پر مشتمل تھا جس میں تیز بھارتی موسیقی کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں بانہوں میں بانہیں ڈال کر تھرک رہے تھے۔ ہم ڈرنک لے کر ایک میز پر جا بیٹھے۔ ہال میں لڑکے زیادہ اور لڑکیاں کم تھیں۔ یہ لڑکیاں بھی زیادہ تر بھارت سے تعلق رکھتی تھیں۔ کچھ جزیرہ ِفیجی سے بھی تعلق رکھتی تھیں۔ شاید ان میں کوئی پاکستانی لڑکی بھی ہو۔ کچھ فرانسیسی گوریاں بھی مشرقی موسیقی پر مغربی رقص کا پیوند لگانے میں مصروف تھیں۔ کلبوں میں دوسروںکے رقص پر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔ جس کا جس طرح دل چاہتا ہے اچھل کو دکر لیتا ہے۔ لوگ اپنے ساتھی کے ساتھ گپ شپ یا رقص کرتے ہیں۔ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، ناچتے ہیں۔ جب تھک جاتے ہیں بیٹھ کر سستاتے ہیں۔ ڈرنک کی چسکیاں لیتے ہیں اور تازہ دم ہو کر پھررقص کے میدان میں خوشیوں اور مسرتوں کا رس نچوڑنے لگتے ہیں۔ (یا اپنے غموں کو بھلاتے ہیں)۔
راجہ ظہور احمد کے دو ساتھیوں کو گرین سگنل ملا تو وہ سانولی سلونی سی دو لڑکیوں کے ساتھ ڈانسنگ فلور پر جا پہنچے۔ یہ لڑکیاں آپس میں خاصی مشابہت رکھتی تھیں۔ لگتا تھابہنیں ہیں۔ بعد میں میرا یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔ موسیقی کے وقفے میں وہ لڑکیاں ہماری میز پر آبیٹھیں۔ معلوم ہواکہ ان بہنوں کا تعلق فیجی سے ہے ۔ان کے والدین کافی عرصہ پہلے فیجی سے فرانس آبسے تھے۔ اس ہندو فیملی کے لئے یہ کڑا وقت تھا۔ لڑکیاں کلبوں میں جا کر اپنے لئے شریک ِحیات ڈھونڈ رہی تھیں۔ بقول ایک بہن کے، مناسب لڑکا ملنا خاصا مشکل ہے۔ کیونکہ اچھے لڑکے اپنے خاندانوں میں شادیاں کر لیتے ہیں۔ دوسرے ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہوتے ۔کئی پاکستانی اور بھارتی وقتی طور پر ان کی طرف بڑھے۔بعد میں علم ہوا کہ پاکستان یا بھارت میں ان کی پہلے سے بیویاں موجو د ہیں۔ غرضیکہ یہ بیچاریاں کلبوں اور ہوٹلوں میں خود ہی اپنا بر ڈھونڈرہی تھیں۔ نہ جانے اب تک ان کے ہاتھ پیلے ہوئے ہیں یا ہر ویک اینڈ پر نئے نئے لڑکوں کی بانہوں میں سمانے اور بدن سے بدن رگڑ نے کے بعد باقی کا پورا ہفتہ نئے انتظار اور امید و بیم میں گزارتی ہیں۔
فیجی کے بھارتی نژاد باشندے زبان اور خوراک کے معاملے میں تو اب بھی مکمل بھارتی ہیں۔ یعنی گھر میں ہندی( اردو) بولتے ہیں اور ہندوستانی کھانے کھاتے ہیں۔ لیکن ان کی نوجوان نسل مکمل طور پر یورپین کلچر کی دلدادہ ہے۔ کلبوں اور ہوٹلوں میں زندگی کی مسرتیں حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن زندگی کا ساتھی انہیں اپنی زبان، اپنے مذہب اور اپنے کلچر سے متعلق ہی درکار ہوتا ہے۔ یہ تضاد انہیں اکثر سخت مشکلات سے ہمکنا ر کر دیتا ہے۔ کیونکہ مشرق اور مغرب کو بیک وقت اور ایک جگہ جمع کرنا اور دونوں کو ساتھ لے کر چلنا نا ممکن ہے۔ آسٹریلیا میں جزیرہ فیجی کے یہ بھارتی نژاد بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ہندوستانی اور پاکستانی لوگوں سے زبان، خوراک اور مذہب کی مماثلث کے باوجود یہ مختلف لوگ ہیں۔ وقتی خوشیوں اور وقتی رشتوں کے لئے رشتوں کے بندھن آسانی سے توڑ دیتے ہیں۔ یاشاید ہماری طرح منافقت کے رشتے نہیں نبھاتے اور جب محبت ختم ہوتی ہے تو رشتہ بھی دم توڑ دیتا ہے۔
یہاں آسٹریلیا میں جن پاکستانی اور ہندوستانی لڑکوں کو گوریاں لفٹ نہیں کراتیں اکثر وہ کسی فیجین عورت سے شادی کر لیتے ہیں۔ کچھ آسٹریلین شہریت حاصل کرنے کے لئے اور کچھ محض وقتی مسرت حاصل کرنے کے لئے ۔ جب اُنہیں شہریت مل جاتی ہے تو انہیں چھوڑ کر پاکستان جاکر گھر والوں کی مرضی سے شادی کر لیتے ہیں۔ گویا رِند کے رِند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔ دوسروں کا جب دل بھرجاتاہے تو خود ہی اُن سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں یا اُس وقت تک وہ لڑکی کسی اور ڈال پر ڈیرہ ڈال چکی ہوتی ہے۔ ایسی شادیاں کامیابی کی منزل تک بہت کم پہنچ پاتی ہیں۔
تم نے مجھے کیا سمجھا ہوا ہے نوکر یا شوہر؟
رات بارہ بجے راجہ ظہور احمد اور اس کے ساتھیوں نے مجھے ہوٹل ڈراپ کیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے گروپ کے زیادہ تر لوگ ابھی تک نیچے ہال میں بیٹھے پی رہے تھے اور گپیں لگا رہے تھے۔ میں سب کو ہیلو ہائے کرتا جسٹن اور جوزی کے ٹیبل پر جا بیٹھا۔ جولی بھی وہیں بیٹھی جسٹن کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر پی رہی تھی۔ شاید اُس کے ہاتھ میں موجود بیئر کا گلاس بھی اُسی ہنس مکھ جوڑے کی عطا تھا۔ میں سگریٹ نوشی کی مشترک عادت کی وجہ سے اُن کی میز پر آیا تھا۔ ویسے بھی یہ دونوں میاں بیوی بہت خوش مزاج اور دوست نواز تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں کوک لینے کے لئے اٹھا اور ازراہ ِمروت اُن سے بھی استفسار کیا کہ وہ کیا پئیں گے۔ جسٹن اور جوزی کے گلاس تو تقریباً نصف سے زائد بھرے تھے۔ لہذا انہوں نے شکریے کے ساتھ منع کر دیا ۔ تا ہم جولی نے جھومتے ہوئے کہا’’ میرے لئے ایک گلاس فوسٹر بئیر لے آوٗ‘‘
جولی کے لئے بئیر اور اپنے لئے کوک کا گلاس لے کر میز پر پہنچا ۔ میں نے دیکھا کہ جان بھی کہیں سے آکر اسی میز پر آبیٹھا تھا۔ میں نے اشارے سے پوچھا کہ اس فرانسیسی حسینہ کے ساتھ کیا بنا؟ اُس نے بھی اشارے میں جواب دیا کہ بعد میں بتا ئے گا۔ باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ جولی نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ آسٹریلیا سے برطانیہ کیوں منتقل ہوئی اور اس کم عمری میں ہی رشتوں کی کتنی شکست و ریخت سے دوچار ہو چکی ہے۔ اُس نے بتایا ’’ اسکول اور یونیورسٹی کے دور کے کئی کچے پکے اور عارضی تعلقات کے سلسلوں سے گزر کر میرا پہلا با قاعدہ بوائے فرینڈ سڈنی میں میرا ایک آفس کولیگ تھا۔ ڈیڑھ سال تک ہمارے تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے رہے۔ اس دوران دن اور شام کا زیادہ عرصہ ہم اکھٹے ہی گزارتے تھے۔ ہفتے عشرے میں ایک دو راتیں بھی کبھی ہمارے گھر اور کبھی اُس کے گھر اکھٹے گزرتی تھیں۔ پھر ہم نے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر اکھٹے رہنا شروع کر دیا۔ اس اپارٹمنٹ کا بنیادی کنٹریکٹ چھ ماہ کا تھا ۔جب یہ کنٹریکٹ ختم ہوا اس وقت تک ہمارا باہمی کنٹریکٹ بھی ہمارے تنازعوں کے ریلے میںخس و خاشاک کی طرح بہہ چکا تھا۔
کچھ عرصہ میں بالکل اکیلی رہی ۔کیونکہ والدین نے بھی مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی۔ پانچ چھ ماہ کے دوران چند عارضی تعلقات کے علاوہ میرا کسی سے دائمی تعلق نہ بن سکا۔ پھر میر ی ملاقات گراہم سے ہوئی ۔گراہم ایک انگریز تھا اور جاب کنٹریکٹ پر آسٹریلیا میں رہائش پذیر تھا۔ ہم تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے۔ چند ہی ماہ میں میں گراہم کے فلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ تین ماہ بعد گراہم کا آسٹریلیا میں جاب کنٹکریکٹ ختم ہوا تو اس وقت ہمارے درمیان پہلا اختلاف ہوا ۔گراہم لندن واپس جا کر اپنی موجودہ جاب کوجاری رکھنا چاہتا تھا جبکہ میں اُسے آسٹریلیا میں روکنے پر مصر تھی۔ گراہم کو آسٹریلیا بہت پسند تھالیکن اُس سے زیادہ یہ جاب عزیز تھی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ کام اُس کی مرضی اور مزاج کے مطابق تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ایسی کمپنی اور ایسی جاب اُسے مشکل سے ملے گی۔ جبکہ میرا موٗقف یہ تھا کہ تمہیں بھی آسٹریلیا پسند ہے اور خصوصاً میں آسٹریلیا سے باہر نہیں جانا چاہتی۔ تمہیں جاب کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور وہیں رہنا چاہیے۔ ہمارے درمیان کافی دن کشمکش جاری رہی۔ آخر اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں ہار گئی۔ میں اپنے والدین، خاندان، تمام دوست اور اپنا مُلک چھوڑ کر ہزاروں میل دُور لندن میں آبسی جہاں گراہم کے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتی تھی۔
شروع میں تو مجھے آسٹریلیا چھوڑنے کا بہت دُکھ تھا ۔لیکن لندن جیسے دلچسپ اور گہما گہمی سے بھرپور شہر میں آکر یہاں کی عادی ہوتی چلی گئی۔ مجھے یہ شہر اچھا لگنے لگا۔ اس دوران ایک دفعہ چھٹیوں پر آسٹریلیا گئی تو مجھے سڈنی اور دوسرے شہر بو ر سے لگے تھے۔ شاید وہ لندن جیسے مصروف اور بڑے شہر نہیں ہیں اس لئے۔ بہرحال میں لندن میں رچ بس گئی ۔
لیکن ایک دفعہ پھر وہی ہوا جو پہلے ہو چکا تھا۔ میرے اس رشتے کی عُمر بھی دو سال سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ دراصل گراہم بے وفائی کا مرتکب ہو رہا تھا۔ جب اُس کا ٹھوس ثبوت میرے سامنے آیا تو میں گراہم کی بے وفائی کا زخم اپنے سینے پر سجا کر لندن شہر میں پہلی دفعہ اور اپنی زندگی میں دوسری دفعہ اکیلی ہو گئی۔ جاب تو میں پہلے ہی کر رہی تھی۔ میں نے الگ فلیٹ کرائے پر لے لیا اور وہاں رہنے لگی۔ گراہم سے الگ ہونے کے بعد بھی میں لندن جیسے بے وفا شہر کو نہ چھوڑ سکی‘‘
اس دوران جولی کا بیئر کا گلاس ختم ہو چکا تھا۔ اُس کی نظریں پہلے جسٹن اور جوزی پھر جان اور پھر میرے اوپر آٹکیں ۔ اُس کی دکھ بھر کہانی کے صدقے میں جُولی کے لئے ایک گلاس بیئر اور لے آیا ۔اُس نے میرا شکریہ ادا کر کے ٹھنڈی بیئر کا جھاگ بھرا گلاس منہ سے لگایا اور غٹاغٹ آدھا گلاس پی گئی ۔شاید اس طرح وہ اپنے اندر کی تپش کو بجھانا چاہتی تھی۔ دوسری طرف جان جو چٹکلے چھوڑنے کا عادی تھا بولا ’’ طارق! یہ زیادتی ہے۔ بھئی اس محفل میں ہم تین فرد اور بھی موجود ہیں۔ لیکن بیئر صرف جولی کے لئے آئی ہے‘‘
شاید اس طرح وہ محفل میں جمی غم کی فضا کو تحلیل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا ’’ وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم تینوں میں سے جُولی سب سے خوبصورت ہے۔ اب تو یہ بھی پتہ چل گیا کہ اکیلی ہے۔ تمھارے لئے بیئر خرید کر تو رقم ضائع ہوتی۔ لیکن جولی سے شایدکبھی نہ کبھی اورکہیں نہ کہیں وصولی کا بھی مرحلہ آجائے‘‘
جسٹن ، جوزی اور جان ہنسنے لگے۔ جولی غصے سے بولی ’’ اگر تم نے بیئر اس نیت سے خریدی ہے تو میں نہیں پیتی ۔ ویسے بھی ابھی تم لوگوں نے پوری کہانی نہیں سُنی۔ اب میں اکیلی نہیں ہوں۔ بلکہ میرا ایک بوائے فرینڈ بھی ہے‘‘
میں نے ہاتھ بڑھا کر بیئر جولی کے آگے سے اُٹھالی’’پھر تو میں نے خواہ مخواہ پیسہ ضائع کیا ۔یہ رقم کہیں اور کام آسکتی تھی‘‘
جولی نے گلاس میرے ہاتھ سے لے کر پھر منہ سے لگا لیا اور بولی ’’طارق! تم بہت خود غرض ہو‘‘
جُوزی نے کہا ’’بھئی! یہ نوک جھونک بند کریں اور جولی کی باقی کہانی بھی سُن لیں‘‘
ہم پھر ہمہ تن گوش ہو گئے جولی بولی ’’ آگے کی کہانی زیادہ طویل نہیں ہے۔ چند ماہ قبل میری ملاقات ایک جمیکن لڑکے سے ہوئی اور ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے‘‘
جسٹن نے مداخلت کی ۔’’جمیکن یعنی افریقی نیگرو؟ ‘‘
جولی نے جیسے بُرا منا کر درشتی سے کہا ’’ہاں! میرا بوائے فرینڈ افریقی ہے۔ کالا ہے، غریب ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے اور مجھے بہت چاہتا ہے‘‘
جوزی نے سوالیہ نظروں سے جولی کی طرف دیکھ کر کہا ’’ اور تم؟‘‘
’’ میں بھی اُسے چاہتی ہوں‘‘ جولی کا لہجہ اور الفاظ نرم تھے۔ مجھے اس جواب میں کھوکھلا پن محسوس ہوا۔
جان نے کہا’’ تمھار ا بوائے فرینڈ تمھارے ساتھ چھٹیوں پر نہیں آیا؟‘‘
’’ اُس نے یورپ دیکھا ہوا ہے۔ وہ تو پیدا ہی لندن میں ہوا تھا۔ جبکہ میں نے برطانیہ کے علاوہ کوئی اور یورپی مُلک نہیں دیکھا تھا۔ بہت دنوں سے میرے دل میں یہ خواہش کلبلا رہی تھی۔ کافی عرصے سے تھوڑی تھوڑی رقم بھی پس انداز کر رہی تھی۔ اب جا کر اس قابل ہوئی ہوں کہ ٹریفالگر کا یہ پیکج خرید سکوں ۔ویسے بھی میرے اخراجات آپ لوگوں کی نسبت کم ہوئے ہیں۔ آپ لوگ تو آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، امریکہ اور ساوٗتھ افریقہ سے آئے ہیں جبکہ میں لندن سے آپ کے ساتھ شامل ہوئی ہوں۔ وہیں جا کر یہ ٹور ختم بھی ہوتا ہے۔ راستے کے اخراجات کے لئے میرے پاس ضروری رقم تو ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں ہے کہ اُسے فضول خرچ کر سکوں‘‘
میں حیرت سے جولی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ بیس بائیس سال کی تھی۔ لیکن اتنی نازک اور کومل سی تھی کہ اس سے بھی کم عُمر لگتی تھی۔ اس کا دمکتا چہرہ، چمکتی آنکھیں، دہکتے رخسار اور رسیلے ہونٹ اَن چھوئے لگتے تھے۔ لیکن اس کی کہانی سُن کر معلوم ہو اکہ اس چہرے ، ان آنکھوں، ان رخساروں اور ان ہونٹوں نے کئی گرم و سرد دیکھے ہوئے ہیں۔ جان اتنی دیر تک فضا کا بوجھل پن برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ آنکھوں میں شرارت بھر ی مسکراہٹ لا کر بولا ’’جولی ! تم نے یورپ آکر بہت دُکھ اٹھائے۔ آوٗ میرے گلے سے لگ جاوٗ ۔میں تمہیں اپنے وطن واپس لے چلتا ہوں ۔بلکہ اپنی گود میں بٹھا کر لے جاوٗں گا ۔ آخر کو تمہارا ہم وطن ہوں ‘‘
جولی نے کہا ’’شکریہ! مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ ویسے آدھ گھنٹے پہلے تک تمہاری گود میں کوئی اور تھی۔ اُس سے دل نہیں بھرا کہ میرے اوپر ڈورے ڈال رہے ہو‘‘
جان جھینپ سا گیا۔ شاید اُسے علم نہیں تھا کہ گروپ کے کچھ لوگوں نے اُسے فرانسیسی حسینہ کے ساتھ کمرے میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ وہ سنبھل کر بولا ’’وہ ! وہ تو میں اُس سے فرانسیسی سیکھ رہا تھا‘‘
’’ تو مجھ سے کیا سیکھو گے ۔ہم دونوں کی زبان تو ایک ہی ہے‘‘ جولی غبارِ غم کو جھٹک کر اب نارمل ہو گئی تھی۔
جان بولا’’ تم سے سیکھوں گا نہیں بلکہ سکھلاوٗں گا کہ کس طرح اپنے ساتھی کو خوش رکھتے ہیں تا کہ آئندہ تمہیں چھوڑ کر کوئی نہ جائے‘‘
جان نے پھر جولی کی دُکھتی رگ چھیڑدی تھی۔ وہ برہمی سے بولی’’ مجھے سکھانے کے بجائے اپنی زندگی کیوں نہیں سدھار تے ۔تم خود اس عُمر میں کیوں اکیلے ہو؟ ‘‘
جسٹن نے ماحول میں قدرے کشیدگی پیدا ہوتے دیکھی تو کہنے لگا’’ رات کے ڈیڑھ بج چکے ہیں۔ اب چل کر سونا چاہیے۔ صبح سوئٹزرلینڈ کے لئے روانہ ہونا ہے‘‘
جوزی نے آنکھیں نکال کر اُس کی طرف دیکھا ’’تم ہر وقت تھکے کیوں رہتے ہو۔ آج پیرس میں ہماری آخری رات ہے۔ اُسے اچھی طرح منانے تو دو ۔جاوٗ جا کر بیئر لے کر آو‘‘
جسٹن دم دبا کر بیئر لینے چلا گیا۔ جوزی، جولی اور جسٹن کافی دیر سے پی رہے تھے۔ جوزی کی آنکھوں میں سُرخ ڈورے تیر رہے تھے۔ جولی بھی بات بے بات ہنس رہی تھی۔ دوسری میزوں سے ہمارے گروپ کے تقریباً سبھی لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ صرف ایک اور میز پر ہمارے ہی گروپ کے چار سیاح بیٹھے اب تک پی رہے تھے۔ جسٹن اپنے، جوزی اور جولی کے لئے بیئر ، جان کے لئے اسکاچ اور میرے لئے کوک لے آیا۔
جسٹن اور جوزی غریب تھے مگر دل کے اچھے اور فیاض تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں سبھی پسند کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں ہمارے گروپ کے دیگر کئی سیاح بہت پیسے والے تھے۔ کچھ اتنے بوڑھے تھے کہ ان کی ٹانگیں قبر میں تھیں۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر کے مالک ہونے کے باوجود اور زندگی کی سرحد کے بالکل نزدیک ہونے کے باوجود انتہائی کنجوس تھے۔ شاید اسی کنجوسی سے ہی انہوں نے اتنی دولت اکٹھی کی تھی۔ یہ سچ ہے کہ دولت مند ہونا الگ بات ہے اور اُس سے فائدہ اٹھانا بالکل دوسری بات ہے۔ بعض لوگ ساری زندگی مشین بن کر دولت کماتے رہتے ہیں، لیکن ان کی اپنی ذات کو اس دولت کا کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ تا ہم اُن کی دولت سے دوسرے لوگ ضرور فیضیاب ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے ۔ ویسے بھی دولت سے خوشی اور سکون نہیں خریدا جا سکتا۔ یہ دولت خداداد ہے۔ بعض اوقات یہ کسی غریب کی جھونپڑی میں محل سے زیادہ مل سکتی ہے۔
جسٹن اور جوزی کو ،جسٹن کو پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں کچھ رقم ملی تو وہ اُسے خرچ کرنے اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے اُسی وقت گھر سے نکل پڑے۔ انہیں اس بات کی بھی فکر نہیں تھی کہ واپس جا کرپھر انہیں وہی عسرت بھرے رات دن گزارنے پڑیں گے۔ وہ مستقبل کے اندیشوں سے بے نیاز حال کو نہایت خوشگوار انداز میں گزار رہے تھے۔ ایسے لوگ غربت میں بھی خوش اور قانع رہتے ہیں اور ہر حال میں زندگی سے مسرتوں کا رس کشید کرتے رہتے ہیں۔ گپیں لگاتے اور بیئر پیتے صبح کے تین بج گئے۔ میں نے ایک دو دفعہ اٹھنا چاہا تو جوزی نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔ وہ لوگ شام سے پی رہے تھے۔ اب بہکتے جارہے تھے۔ جسٹن تو کرسی پر بیٹھے بیٹھے باقاعدہ خراٹے لینے لگا۔ جان کچھ گانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بھی گانے کے دوران بار بار سو جاتا۔ جبکہ جوزی نے کئی دفعہ اٹھ کر رقص کرنے کی کوشش کی۔ جب کسی نے اُس کا ساتھ نہ دیاتو اپنی کرسی پر آبیٹھی ۔جولی بھی اپنی کرسی پر ڈگمگا رہی تھی ۔ وہ کبھی اپنے پہلے بوائے فرینڈ کو یاد کرتی کبھی دوسرے کو اور پھر اُسے یاد آجاتا کہ اس کا اب ایک نیا بوائے فرینڈ ہے۔ و ہ اس کی تعریف کرنے لگتی۔ تعریف کرتے کرتے پھر بہک جاتی اور کہتی اُس کا بھی کچھ پتا نہیں۔ ہو سکتا ہے میری غیر موجودگی میں کسی اور کے ساتھ گلچھرے اڑا رہا ہو۔ میں نے کہا’’ اس کا حل تمہارے پاس ہے‘‘
’’ وہ کیا‘‘ جولی نے بڑی مشکل سے گردن اٹھاتے ہوئے کہا
’’ تم یہاں میرے ساتھ گلچھرے اڑانے شروع کر دو۔ اس طرح حساب برابر ہو جائے گا۔ ویسے بھی تمہارا پہلا بوائے فرینڈ براعظم آسٹریلیا ،دوسرا یورپ اور تیسرا افریقہ سے ہے ۔اس حساب سے اگلا نمبر ایشیا کا آتا ہے۔ یہ موقع میں تمہیں فراہم کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے جہاں آسٹریلین ، یورپین اور افریقن تمھارے کام نہیں آسکے وہاں ایک ایشیائی آجائے‘‘
جولی ہاتھ نچا کر غصے سے بولی’’ نو وے (سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)‘‘
’’ دیکھ لو! ایسی آفرز روز روز نہیں ملتیں۔ چلو تجرباتی طور پر اس سفر کے دوران مجھے بوائے فرینڈ بنا کر آزما لو۔ پسند آجاوٗں تو تمھارا مستقبل سنور جائے گا۔ نہیں تو یہ چھٹیاں تو اچھی گزر جائیں گی نا‘‘
جسٹن ، جوزی اور جان دلچسپی سے ہماری گفتگو سن رہے تھے۔ جولی کا چہرہ کبھی غصے سے تمتمانے لگتا اور کبھی شیریں سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رینگنے لگتی۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرے اوپر غصے کا اظہار کرے یا مذاق سمجھ کر انجوائے کرے۔ بالآخر وہ نارمل انداز میں بولی ’’طارق! ایک بات بتاوئں ۔آج سے پہلے کسی ایشیائی کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا ۔تم پہلے ایشیائی ہوجسے قریب سے جاننے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں غلطی پر تھی۔ ہر کمیونٹی میں ہر قسم اور ہر مزاج کے لوگ ملتے ہیں۔ پوری کمیونٹی کے لئے ایک ہی سوچ رکھنا اور سب کو یکساں نظر سے دیکھنا، خصوصاً تعصب اور نفرت کی نظر سے دیکھنا بالکل غلط ہے۔ یہ غلطی میں آج تک کرتی رہی ہوں ۔میں نے اپنی زندگی میں آج تک کسی ایشیائی کو دوست نہیں بنایا ۔لیکن آج پہلی دفعہ میں تمہیں اپنا فرینڈ تسلیم کرتی ہوں ’’
میں نے ہنستے ہوئے کہا’’ چلو اتنی تو ترقی ہوئی کہ جولی نے مجھے اپنا فرینڈ تسلیم کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ وقت کے بعد یا ایک دومزید بیئر پینے کے بعد مجھے اپنا بوائے فرینڈ بھی تسلیم کرنے لگے۔ لہذا جان! اب جولی پر غلط نظر ڈالنا چھوڑ دو ۔کیونکہ جولی پر میرے جملہ حقوق محفوظ ہوتے محسوس ہو رہے ہیں‘‘
جولی پھر غصے میں آگئی’’ تمہار ا کیا خیال ہے۔ میں نے نشے میں ایسی بات کی ہے۔ اتنی بلکہ اس سے دوگنی بیئر بھی پی لوں تو بھی میرے ہوش قائم رہتے ہیں۔ اب مجھے مزید غصہ نہیں دلاوٗ۔ نہیں تو رونے لگ جاوٗں گی۔ تمھیں نہیں پتا۔ اگر میں نشے میں رونا شروع کر دوں تو پھر چپ نہیں ہوتی۔‘‘
جوزی نے ہاتھ اٹھا کر کہا ’’ جان اور طارق! تم دونوں جولی کو تنگ کرنا بند کرو۔ اب میرے خیال میں ہمیںچل کر سونا چاہیے۔ اگر جسٹن نے سونے دیا (اس نے پیار سے جسٹن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا) چند گھنٹے کی نیند لے لیں۔ نہیں تو صبح اٹھنا مشکل ہو جائے گا۔ورنہ کل راستے کے قابل دید مناظر دیکھنے کی بجائے بس میں سوتے رہیں گے‘‘
جسٹن اور جوزی ایک دوسرے کو سہارا دے کر اوپر کمرے کی جانب چل پڑے۔ اُن کے پیچھے جان بھی ڈگمگاتا ہوا اور مڑ مڑ کر جولی اور میری طرف دیکھتا ہوا سیڑھیوں میں اوجھل ہو گیا۔ جولی اور میرا کمرہ ایک ہی فلور پر بلکہ ساتھ ساتھ تھا ۔میں اس کے اٹھنے کا منتظر تھا ۔لیکن وہ کسی خیال میں گہرائی تک ڈوبی ہوئی تھی ۔میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے کے لیے کہا ۔ اس نے جیسے چونک کر مجھے دیکھا اور اٹھ کر سیڑھیوں کیجانب چل پڑی۔ دو ہی قدم چلی تھی کہ ڈگمگا کر گرنے لگی۔ میں نے لپک کر اسے سنبھالا۔کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سیدھا کیا۔ جولی نے اپنی ٹانگوں کی بجائے سارا وزن میرے اوپر ڈال دیا ۔اس طرح جولی کوبانہوں میں اٹھا کر میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا تھا۔ اس لیے لفٹ کی جانب بڑھا۔ لفٹ میں بھی وہ اپنے پاوٗں پر نہیں کھڑی ہوئی۔ میرے اوپر سارا وزن ڈالے رہی۔
میں اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتی، مسکراتی اور پھر آنکھیں موندھ لیتی۔ اس خوبصورت بلا کو گلے میں ڈال کر ہانپتا کانپتا اس کے کمرے کے سامنے پہنچا ۔پھر اسے ہو ش میں لانے کی کوشش کرنے لگا جو کہتی تھی بیئر اسے مدہوش نہیں کرتی۔ کافی کوشش کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ جیبیں ٹٹولیں اور جینز کی جیب سے چابی نکال کر مجھے تھما دی۔ میں نے اسی طرح جولی کو بازووٗ ں میں تھامے تھامے دروازہ کھولا اور اسے اٹھا کر اندر داخل ہو گیا۔ اسے جوتوں سمیت بستر پرپٹک کر واپسی کے لئے پلٹا ہی تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ میں نے چونک کر اُسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نشے کی سُرخی کے ساتھ ساتھ شرارت کی چمک بھی نظر آرہی تھی۔ جولی کے ہاتھ کی مضبوطی اور آنکھوں کی چمک صاف ظاہر کر رہی تھی کہ وہ اتنے نشے میں نہیں تھی جتنا ظاہر کر رہی تھی۔ میں نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک کر پوچھا’’ تو تم نشے میں نہیں تھیں ۔پھرکیوں میرے کاندھوں پر سوار ہو کر اوپر آئی ہو‘‘
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی’’ اس لئے کہ میر ا چلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا‘‘
اس کے جواب سے میں مزید بھنا گیا ’’تم نے مجھے کیا سمجھا ہوا ہے نوکر یا شوہر؟ ‘‘
’’دونوں نہیں ! تم شاید بھول گئے ہو۔ ابھی نیچے تم نے خود کو میرا بوائے فرینڈ کہا تھا‘‘
’’ تم اس وقت ہوش میں نہیں ہو۔ آرام سے سو جائو۔ میں چلتا ہوں‘‘
جولی اٹھ کر بالکل میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کے پائوں مضبوطی سے زمین پر جمے تھے۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور میرے کاندھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر کہا’’ میں مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہوں ۔ اب بناوٹی غصہ نہ دکھائو۔ یہ رات اور یہ لمحات دوبارہ لوٹ کر نہیں آئیں گے‘‘
اس نے اپنی بانہیں میرے گلے میں حمائل کر دیں اور اپنا تپتا ہوا چہرہ میرے رخسار پر ٹکا دیا۔ میں اس صورتِ حال کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ نہ ہی کسی کے جذباتی اور وقتی اُبال سے فائدہ اٹھانے کے حق میں تھا۔اس لئے آہستگی سے جولی کو خود سے الگ کیا اور تیزی سے اُس کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آگیا۔ اندر آتے ہی احتیاطاََ دروازہ بھی بند کر دیا۔
میری یہ احتیاط کام آگئی۔ کیونکہ چند لمحوں بعد ہی کوئی میرا دروازہ کھٹکٹا رہا تھا۔ کی ہول سے جھانک کر دیکھا تو حسبِ توقع جولی تھی۔ میں نے دروازہ کھولے بغیر اُسے واپس اپنے کمرے میں جانے کے لیے کہا۔ وہ بولی ’’ دروازہ کھولو!میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں ‘‘
شکر ہے اسے اتنا ہوش ضرور تھا کہ اس نے اپنی آواز دھیمی رکھی تھی۔ صبح کے ساڑھیتینبجے اردگرد کے کمروں میں لوگ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ وہ جاگ جاتے تو مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا۔ قریباً پانچ منٹ تک دھیمے دھیمے اور وقفے وقفے سے جولی دروازہ کھٹکھٹاتی رہی ۔لیکن میں نے دروازہ نہیں کھولا ۔ بالآخر اُس کی آواز آنا بند ہو گئی۔ میں نے سکون کی سانس لی۔ دھیرے دھیرے میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں۔