کچھ روز سے اس کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد وہ ۲۴ منزلہ ناز ہوٹل کے سامنے والے میدان میں بیٹھ جاتا اور مستقل ہوٹل کی بلند عمارت کو اس طرح گھورتا رہتا جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو اس وقت دیکھتا ہے جب وہ جوان ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس کا فخر اور اس کی خوشی اس کی آنکھوں میں سمٹ آتی ہے۔ وہ بھی ہوٹل کو اپنے جوان بیٹے کی طرح شفقت و محبت اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ بیٹھے بیٹھے جب کمر دُکھنے لگتی تو ہاتھ کا تکیہ بنا کر لیٹ جاتا، لیکن مرکز نظر ہوٹل کی بلند عمارت ہی رہتی۔ مستقل اس کے وہاں خاموش بیٹھے رہنے کی وجہ سے کئی لوگ جو روزانہ اس راستے سے گزرتے تھے، اُسے پاگل سمجھنے لگے تھے، سوچتے تھے کہ اس کے ساتھ ضرور کوئی بڑا حادثہ گزرا ہے جس نے اس کی قوت گویائی چھین لی ہے جبکہ وہ چاہتا تھا کہ کوئی اس سے پوچھے کہ تم کیوں اس طرح بیٹھے رہتے ہو؟ اور وہ اپنی خوشیوں کے پیمانے کو چھلکاتے ہوئے جواب دے:
’’تم ناہیں جانت ایں بڑا ہوٹل ہمر سے ہاتھوں سے بنو ہے۔ ہم نے رات دن کھون پسینہ ایک کیؤ ہے تب یہ آسمان تک پہنچو ہے۔ اب ہم اسے دیکھت ہیں اور کھوس ہوت ہیں کہ ہمرے ہاتھوں نے کتنا بڑا کام کیو ہے۔‘‘
لیکن کوئی شخص اس سے کوئی سوال نہیں کرتا تھا۔ ہر راہ گیر اپنی دنیا میں مگن تھا۔ کسے فرصت تھی کہ اس کے قریب آ کر اس کی وجہ خاموشی دریافت کرتا۔ یہی بڑی حیرت کی بات تھی کہ چند لوگ اپنی خود غرض اور مصروف زندگی میں سے چند لمحے نکال کر اس کے بارے میں سوچ لیا کرتے تھے۔
وہ تنہا تھا لیکن اُسے اپنی تنہائی کا احساس ہی نہ تھا۔ ہوٹل کو دیکھنے میں وہ اتنا محو تھا کہ تنہائی کا احساس کرنے کی فرصت ہی نہ ملتی تھی اور اسے تنہائی کا احساس اس لیے بھی نہیں تھا کہ اس کے پاس ہی ایک خارش زدہ کتّا پڑا اپنے بدن کو کھجا تا رہتا تھا۔ کتّا بھی سوچنے لگا تھا کہ شاید یہ بھی میری طرح کسی تکلیف میں مبتلا ہے، جو ہر وقت یہاں پڑا رہتا ہے۔ کبھی کبھی وہ کتّا اپنے جسم کی بچی ہوئی قوّت سے بھونکنے کی کوشش کرتا تو وہ چونک پڑتا اور یہ سمجھ کر کہ کتّا ہوٹل کے بارے میں پوچھ رہا ہے، کہنے لگتا:
’’ہاں، ہاں، ہمرے ہی ہاتھوں سے یہ ہوٹل بنو ہے۔ جا اس کا مالک بہت بھلا آدمی ہے۔ تُہار کھانا دئے گو، وہ ہم کا بہت اچھّی طرح جانت ہے۔ اُو بابو نے ہم کا آکھیر دن پانچ روپیہ مجوری سے جیا دہ دیئے تھے اور کہا تھا، بکسو تم بہت محنتی آدمی ہو، پھر آنا جب ہم دوسرا ہوٹل بنائیں۔‘‘
بکسو کی ان باتوں کو سن کر کتّا پھر بھونکنے لگتا تو وہ کہتا:
’’تو کہت ہے ہم یاں کا ہے پڑے رہت ہیں؟ ہوٹل میں کا ہے ناہیں ٹھہرت۔ ارے پگلے ایسی حالت میں ابھی ہم کیسے ہوٹل میں جاویں، پہلے گاؤں جاویں گے، واں نئے کمیج (قمیض)، پجامہ سلوائیں گے، پھر مستیے کی ماں کے سنگ یہاں آویں گے اور ایک دو دن اس ہوٹل میں ٹھہریں گے۔ مستیے کی ماں کتنی کھوس ہو گی ہوٹل کو دیکھ کے، تُہار مالُم ہے، ایں ہوٹل پانچ ستاروں والا ہوٹل ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر بکسو خاموش ہو جاتا اور ہوٹل کو دیکھنے میں محو ہو جاتا۔ کتّا بھی بکسو کی باتوں پر تصویر حیرت بن جاتا اور اپنی خارش کو بھول کر اپنے منہ کو اگلے پنجوں پر رکھ کر لیٹ جاتا۔ نگاہیں بکسو کی خوش اور حیران آنکھوں کی طرف جما دیتا۔ اور دل ہی دل میں کہتا کہ تم اس جگہ سے آگے نہیں بڑھ سکو گے۔ تمہاری اور میری رہنے کی جگہ ایک ہی ہے۔
ڈیڑھ سال قبل بکسو اس وقت یہاں آیا تھا، جب ہوٹل کی عمارت کی جگہ میدان پڑا ہوا تھا۔ اس نے پہلی بار اپنا گاؤں بسلسلۂ تلاش معاش چھوڑا تھا۔ اس کے گاؤں کے بہت سے لوگ شہر میں رہتے تھے۔ وہ بھی ان ہی کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ ہوٹل کیونکہ قبل از وقت تیار ہونا تھا۔ مالک اسے جلد از جلد تیار کرا دینا چاہتا تھا۔ اس لیے اکثر رات کو بھی کام جاری رہتا۔ تمام مزدوروں نے جو اپنے اپنے گاؤں چھوڑ کر آئے تھے، اپنے رہنے کا انتظام ہوٹل کے پاس ہی کر لیا تھا، اور پھر مزدوروں کے لیے انتظام ہی کیا، ان کے لیے مکان تو نہیں بنتا، کام سے فارغ ہونے کے بعد جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے، میدان کا ہی ایک حصہ بیڈروم بن جاتا ہے۔ بعض مزدوروں کے تو بچّے بھی ان کے ساتھ ہی تھے۔ ان کی عورتیں بھی ان کے ساتھ کام کرتی۔ بکسو تنہا ہی تھا۔ اُسے یہ بات پسند بھی نہیں تھی کہ مستیے کی ماں شہر میں آ کر گارا مٹّی کا کام کرے۔ وہ تو اُسے گھر ہی دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے تو وہ خود شہر آیا تھا۔ گاؤں میں اتنی مزدوری کہاں تھی کہ گھر کا خرچ بآسانی چل سکے۔ فصلوں کی کٹائی یا بوائی کے وقت ہی مزدوری ملتی تھی۔ گاؤں میں روز تو کوئی مکان بنواتا نہیں تھا۔ اور پھر کچّے مکان بنوانے والے خود ہی مزدوری کر لیا کرتے تھے۔ گذشتہ سال جب شہر میں درختوں کی طرح عمارتیں اُگنا شروع ہوئیں تو وہ بھی شہر آ گیا۔ تاکہ جب یہاں سے لوٹ کر جائے، تو اپنے گھر کی دیواروں کو پختہ کر لے۔ صرف ایک گھر ہی تو وہ اپنے بچّوں کو ورثے میں دے سکتا تھا۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں وہ صرف دو بار اپنے گھر گیا تھا۔ ایک بار عید پر، عید پر وہ صرف خوش ہونے کے لیے گیا تھا۔ اور اس عید پر اس کے گھر والوں نے شہر کی مشینوں کی بنی ہوئی باریک سوئیاں بھی کھائی تھیں۔ دوسری مرتبہ تعزیوں کے دنوں میں، تعزیے اُٹھانے سے مزدوری ملنے کے علاوہ ثواب بھی ملتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ میں خود اپنا تعزیہ نہیں بنا سکتا لیکن اپنے کاندھوں پر کسی کے تعزیے کو کربلا تک لے جا کر ثواب تو حاصل کر سکتا ہوں۔ اُسے اس وقت بڑی مسرت ہوتی تھی جب کوئی اس کے تعزیے میں کھیلیں اور بتاشے ڈالتا تھا، یا جب کوئی ثواب کے حصول اور منّت پوری ہو جانے کے لیے اس کے تعزیے کے نیچے سے گزرتا تھا۔ تعزیوں کے روز وہ اپنے بچّوں کے لیے میلے سے مٹھائی بھی لاتا تھا۔
شہر میں آنے کے بعد کچھ روز تو اس پر بڑے سخت گزرے تھے۔ جب وہ میدان میں سونے کے لیے جاتا تو اسے گھر کی یاد بہت آتی۔ گھر اگرچہ مٹّی کی دیواروں پر رکھے ہوئے چھپّر کا نام تھا۔ لیکن گھر تھا، اس کی بیوی بچّے اور ماں بھی تھی۔ اور پھر اپنا گھر ماں کی آغوش ہوتا ہے۔ جس میں پہنچ کر روح اور جسم دونوں کو آرام نصیب ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسے شہر میں رہنے اور ہاتھ کا تکیہ بنا کر سونے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔ ڈیڑھ برس تک وہ ایک ہی ہوٹل کی تعمیر میں لگا رہا اور وہ ہوٹل آسمان کی بلندی کو پہنچ گیا۔ تاج محل کا سا حسن جب اس میں آنے لگا تو اسے بڑی خوشی ہوئی۔ وہ بار بار ہوٹل کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں کو بھی دیکھتا تھا کہ ان ہاتھوں کی مدد سے یہ دیو قامت ہوٹل تیار ہوا ہے۔ پہلی بار اس کے ہاتھوں نے اتنا بڑا کام کیا تھا اور اس بڑے کام کی تکمیل کے بعد وہ اولاد نرینہ کی ولادت پر خوش ہونے والے بادشاہ کی طرح خوشی اور سکون محسوس کر رہا تھا۔
ہوٹل کی تعمیر جب سے پوری ہوئی تھی، اس نے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ وہ مستقل کام کرنے سے تھکا نہیں تھا۔ اور پھر مزدوری کرنے والا اگر تھکان کا احساس کر کے گھر بیٹھ جائے، تو چولہے میں آگ کیسے جلے گی۔ صبح سے شام تک مزدور اپنے چولہے کے لیے ایندھن اکٹھا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ بکسو کے کام نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے پرورش کردہ جوان اور حسین بیٹے کو نگاہوں میں بھر لینا چاہتا تھا۔ کتنی محنت کی تھی اس نے اس کی تعمیر میں ․․․․ اس کی گواہی اس کی ہتھیلیوں کی گانٹھیں اور دھوپ میں سیاہ ہو جانے والا بدن دے رہا تھا۔ کتنے موسموں کی سختیاں بکسو نے اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں برداشت کی تھیں۔ اور پھر موسم سے تو اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے والے وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں، جن کے گھروں میں دھوپ کی تپش نہیں جاتی، جن کے پیروں کے نیچے برسات کے پانی کا کوئی قطرہ نہیں آتا۔ جو لوگ دن بھر اپنے چولہے کے لیے ایندھن اکٹھا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے اندر وہ حس ختم ہو جاتی ہے جو موسم کی تبدیلی کا احساس کرے۔ ٹھنڈ اُسے محسوس ہوتی ہے جس کے پاس لحاف ہوتا ہے۔ دھوپ اس کے بدن کو جھُلساتی ہے جس کے سر پر سایہ رہتا ہے۔ برسات میں اس کا بدن بھیگتا ہے، جس کے جسم پر برساتی چڑھی ہوتی ہے۔
بکسو سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے گاؤں واپس جائے گا، وہاں لوگوں سے خوش ہو کر کہے گا کہ میرے ہاتھوں کی مدد سے آسمان کو چھوتا ہوا ہوٹل تعمیر ہوا ہے۔ سب حیرت سے مجھے دیکھیں گے۔ مستیے کی ماں میرے ہاتھوں کو چوم لے گی۔ میں ضرور اسے ایک بار اس ہوٹل میں لاؤں گا، اتنا اونچا اور خوبصورت ہوٹل دیکھ کر وہ کتنا خوش ہو گی۔
اور جب بکسو نے چوبیس منزلہ عمارت کو اپنی نظروں میں بھر لیا تو گاؤں لوٹ گیا۔ گاؤں واپس جاتے وقت اس نے اپنے سبھی گھر والوں کے لیے سامان خریدا تھا۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی محرم کا مہینہ ماہ عید کی پہلی تاریخ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ کئی روز تک وہ اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کو شہر کی باتیں قصّہ کہانیوں کی طرح سناتا رہا۔ شہر کی باتیں اب بھی گاؤں والوں کے لیے پریوں کی کہانیوں سے کم نہ تھیں۔ ہر وہ شخص جس نے شہر نہیں دیکھا تھا۔ شہر جانے کے لیے اس طرح بے چین ہو جاتا، جیسے کوئی بچہ بار بار اپنی ماں سے چاند پر جانے کی ضد کرتا ہے۔ مستیے کی ماں سے جب بکسو نے کہا کہ میں تجھے شہر لے جاؤں گا اور اس ہوٹل میں ٹھہراؤں گا۔ جس کے لیے ڈیڑھ سال تک میں اپنا پسینہ بہاتا رہا ہوں، تو وہ اتنی خوش ہوئی کہ زندگی میں شاید پہلے کبھی اتنی خوش نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک دن میں کئی بار بکسو سے یہ سوال کر لیتی تھی۔
’’کیوں جی سہر کب چلو گے؟‘‘
بکسو اس کی بے چینی کو محسوس کر کے خوش ہوتا اور کہتا:
’’اتنی آپھت کا ہے کو مچات ہے۔ دو چار دن آرام کر لیں، اور توُ اپنے لیے نئے کپڑا سلوائے لے۔ ان حالوں میں جاوے گی۔ ہوٹل کا بابو سوچے گا کہ بکسو کی گھر والی کیسی گندی رہت ہے۔‘‘
’’کیوں جی، ہوٹل میں رہن کے تائیں گھر بھی ہوت ہے؟‘‘
مستیے کی ماں کی اس معصومیت پر بکسو ہنستے ہوئے کہتا:
’’اری تو تو نری گنوار ہے۔ ہوٹل تو ہوٹل ہوت ہے۔ اس میں رہن کے لیے بڑے بڑے کمرے ہوت ہیں، زمین پر لال لال کالین بچھت ہے۔‘‘
’’تو ہوٹل ماں چار پائی نائیں ہوت کا، پھرس پر سوت ہیں؟‘‘۔ مستیے کی ماں بیچ میں ٹوکتی تو وہ جھنجھلاہٹ میں کہتا:
’’تُہار کچھ مالم نائیں۔ ہوٹل ماں بڑی بڑی مسہریاں بچھت ہیں، واپے یہ موٹے موٹے گدا پڑے ہوت ہیں، جن پر بیٹھن سے آدمی اُچھلت ہے۔ بڑی پیاری پیاری نیند آوت ہے وا پے۔ ۔ تو دیکھے گی تو دنگ رہ جاوے گی۔۔ بالکل جنّت لاگت ہے جنّت۔۔ ذرا سا ہاتھ ہلانے سے سب چیزاں حاجر ہو جات ہیں۔‘‘
جیسے جیسے مستیے کی ماں یہ باتیں سنتی اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ پھر ایک دن جب مستیے کی ماں اور بکسو نے اپنے لیے نئے نئے کپڑے سلوا لیے تو شہر کے سفر پر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ مستیے کی ماں کو گھر چھوڑنے کا افسوس بھی تھا۔ لیکن شہر جانے اور ہوٹل میں ٹھہرنے کی خوشی اس پر غالب آ گئی تھی۔ جب گاؤں کی عورتوں نے اس کو جاتے ہوئے پُر رشک نگاہوں سے دیکھا تو برتری کا احساس، اس کے چہرے پر اُمڈ آیا تھا۔
شہر کے اسٹیشن پر اُتر کر اس نے سیدھا ہوٹل کا راستہ لیا۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں وہ شہر کے تمام راستوں سے اچھی طرح واقف ہو گیا تھا۔ مستیے کی ماں اتنی چوڑی چوڑی سڑکوں اور بھاگتی دوڑتی موٹر گاڑیوں کو دیکھ کر سہمی جا رہی تھی۔ اس مشینی گھوڑوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ وہ راستے میں بکسو سے پوچھنے لگی:
’’کیوں جی، تہار ڈر ناہیں لاگت؟‘‘
’’ارے جامیں ڈرلاگن کی کا بات ہے؟، سہر میں ایں سب ہوت ہی ہے تو ابھی نئی نئی آئی ہے نا، اس لیے ڈر لاگت ہے۔‘‘
بکسو اس طرح لاپرواہی سے کہتا جیسے اس نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ شہر کی سڑکوں پر گزارا ہو، جب مستیے کی ماں نے غیر متوقع طور پر بکسو سے پوچھا:
’’کیوں جی! ہوٹل کا بابو تمہیں پہچانت بھی ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے تیز لہجے میں جواب دیا۔ ’’تُو جب کرے گی اُلٹے سیدھے سوال کرے گی۔ ارے صرپھ پہچانت ہی نائیں، ہم کا اچھی طرح جانت ہے۔ چلت ٹیم اونے ہمرانام لے کر کہت تھا کہ بکسو تم محنتی ہو، پھر آنا۔ اور ہوٹل بھی تو ہمرے ہاتھوں سے بنا ہے۔ پھر کا ہے ہم کا ناہیں پہچانے گا؟‘‘
ہوٹل کے قریب پہنچ کر وہ ٹھہر گیا اور بڑے غور سے ہوٹل کی عمارت کو دیکھنے لگا۔ اس کی غیر موجودگی میں عمارت اور حسین ہو گئی تھی۔ اس نے مستیے کی ماں کو بتایا کہ یہی ہوٹل ہم نے بنایا ہے۔ طویل القامت ہوٹل کو دیکھ کر مستیے کی ماں نہ صرف حیران تھی بلکہ اپنے شوہر کی کارگزاری پر بھی فخر محسوس کر رہی تھی۔ جیسے وہ ہوٹل اس کے شوہر ہی کاہو۔
پھر دونوں نے اپنے نئے کپڑوں کو جھاڑا اور احاطہ کے اندر داخل ہو گئے۔ جب وہ ہوٹل کے گیٹ کے قریب پہنچے تو گیٹ پر با وردی کھڑے ہوئے آدمی نے جھڑکی دیتے ہوئے کہا: ’’ارے کہا جاتے ہو؟ باہر جاؤ باہر‘‘۔
مستیے کی ماں نے حیرت سے بکسو کو دیکھا اور بکسو کو اس طرح غصّہ آنے لگا جیسے اُسے کوئی اپنے گھر میں جانے سے روک رہا ہو۔
’’اے تم کون ہو ہم کا روکن والے؟ مالُم ہے، ایں ہوٹل ہمرے ہاتھوں سے بنا ہے۔ تم کاں سے آئے؟‘‘
’’پاگل ہو گیا۔ کیا بک بک کرتے ہو، کہہ دیا باہر جاؤ۔ چلے آتے ہیں جانے کہاں سے۔‘‘
بکسو کا بدن غصّے سے جھلسنے لگا تھا، اس کا لہجہ بھی تیز ہو گیا۔
’’او پاجی! جبان کو سنبھال کر بات کر ہم تہار منہ ناہیں لگت۔ بابو صاحب کہاں ہیں، ایں ہوٹل کا مالک صاحب۔ ہم کا ان سے ملنا ہے۔ وہ ہم کا اچھی طرح جانت ہیں۔‘‘
گیٹ کیپر بھی جھنجھلا گیا۔
’’کا ہے کو ہمارا مغز کھاتا ہے، اپنا راستہ لے، یہ بڑے لوگوں کا ہوٹل ہے۔ گنواروں کا نہیں۔‘‘
’’ارے ایں ہوٹل پہ ہمرا بھی حق ہے، ہم نے اسے بنایا ہے۔ ہم نے سب اندر سے دیکھو ہے۔ ہم کا مالم ہے اس میں پانچ سو کمرہ ہیں۔ اور نہانے کا تال ہے۔ آخری منجل (منزل) پر بہت بڑا کمرہ ہے، جس میں ناچ گانا ہوت ہے۔ ہم سب جانت ہیں۔ بابو صاحب کاں ہیں۔ ہمرا نام او کو بتائیو۔ اونے ہم کا بلایا تھا، تہار کا مالُم، ایں ہوٹل کی بنیادوں میں ہمرا پسینہ لگا ہے۔ دن رات ہم نے کھون جلا کر اسے بنایا ہے۔ کا اب ہم ایں میں رہ بھی ناہیں سکت؟‘‘
گیٹ کیپر دروازے پر میدان جنگ بنانا نہیں چاہتا تھا، اس لیے اس نے سمجھاتے ہوئے کہا ’’بھیّا یہ ہوٹل بڑے لوگوں کا ہے۔ یہاں اے کلاس کے لوگ آتے ہیں، فورتھ کلاس کے نہیں۔ اس میں ٹھہرنے کا پانچ سو روپے ایک دن کا ہوتا ہے۔
’’تمہارے پاس ہے؟‘‘
’’ہم کا ہے کو روپیہ دیں گے، ہم نے ڈیڑھ سال کے لیے خون پسینہ بہایا ہے، تم ہم کا یہ بتاؤ کہ مالک کہاں رہت ہیں۔‘‘ بکسو کا لہجہ بھی نرم ہو گیا۔ گیٹ کیپر جب لوگوں کی نظروں کا مرکز بننے لگا تو اس نے بکسو کو ٹالا۔
’’مالک ابھی یہاں نہیں ہیں، پانچ بجے آئیں گے جب تک باہر میدان میں بیٹھ جاؤ۔ بکسو بھی حالت سے سمجھوتہ کرتے ہوئے باہر چلا گیا اور مالک کا انتظار کرنے لگا۔ مستیے کی ماں بولی۔
’’سنو جی یاں تو بڑے روکھے لوگ ہیں۔ تم کا ہے اپنی بے اجتی کراتے ہو، چلو کہیں اور چلیں۔‘‘ بکسو نے بیوی کی نظر میں اپنی گرتی ہوئی عزت کو سنبھالا۔
’’ارے ایں آدمی تو چپراسی ہے، نیا آیا ہے۔ ایں ہم کا کا جانے۔ مالک کے آوت ہی اندر چلیں گے۔‘‘
وہ دونوں میدان میں بیٹھے ہوئے ہر کار کو جو ہوٹل کے احاطے میں داخل ہوتی تھی بڑے غور سے دیکھتے تھے۔ پھر اچانک ایک لمبی سی کار میں اس نے ہوٹل کے مالک کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو تیزی سے اُٹھ کر اس کے پیچھے بھاگا۔ مستیے کی ماں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی۔ کار کے رُکتے ہی گیٹ کیپر نے اس کا دروازہ کھولا۔ ایک شخص قیمتی سوٹ پہنے ہوئے کار سے باہر نکلا۔ بکسو تیزی سے آگے پہنچا اور چلّا کر کہنے لگا۔
’’بابو صاحب! بابو صاحب سلام، ہم آ گئے، آپ نے ہم کا بلایا تھا۔‘‘
کار سے اُترتے ہوئے آدمی نے ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ بکسو کی طرف ڈالی۔
بکسو پھر شروع ہو گیا۔
’’بابو صاحب آپ نے ہم کا پہچانا نہیں۔ ہم بکسو ہیں بکسو، یہ ہمری بیوی ہے۔ ہوٹل میں ٹھہرن کے لئے آئے ہیں۔‘‘
’’وہ آدمی گیٹ کیپر سے یہ کہتا ہوا اندر چلا گیا۔ کون ہے یہ، اسے باہر کرو۔‘‘
اس کے اندر چلے جانے کے بعد گیٹ کیپر نے بکسو سے کہا ’’میں نے پہلے ہی منع کیا تھا۔ مانتا نہیں، چل باہر جا۔‘‘
اس بار بکسو نے گیٹ کیپر سے حجّت نہیں کی، بلکہ خاموشی سے باہر چلا آیا۔
اور پھر انتظار میں بیٹھ گیا کہ بابو صاحب لوٹ کر آئیں گے تو ان سے پھر کہے گا۔ وہ اتنی جلدی بھولے نہیں ہوں گے۔ وہ ہم سے ضرور ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے کہیں گے۔ آخر ہم نے ہی تو بنایا ہے۔ ہم نا ہوتے تو کیسے اتنا بڑا ہوٹل بنتا۔ بکسو کی نگاہیں مستقل دروازے پر لگی رہیں۔ دونوں ہی خاموش تھے۔ دو تین گھنٹے بعد جب وہ آدمی ہوٹل سے باہر آیا تو بکسو پھر اس کی طرف دوڑا۔ کار گیٹ کے قریب آئی تو چلّانے لگا۔
’’بابو صاحب! ہم کا ہوٹل کے اندر جانے کی اجازت دئی دیو، ہم اپنے ہاتھوں سے بنے ہوٹل کو دیکھن چاہت ہیں۔ مستیے کی ماں ہوٹل کو دیکھن کے واسطے آئی ہے۔‘‘
لیکن اس کی آواز کار کے اندر نہیں پہنچی۔ کار میں بیٹھے ہوئے آدمی نے پھر بکسو کی طرف دیکھا۔ بکسو نے پھر گڑگڑاتے ہوئے اپنی باتیں دہرائیں۔ لیکن ان باتوں کو اس آدمی کی تیز رفتار کار پیچھے چھوڑتی چلی گئی۔ بکسو کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر ایک پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا:
’’میں بھی کتنا پاگل ہوں۔ میں تو بھول ہی گیا تھا کہ مجھے کام کرنے کی مجوری ملا کرتی تھی۔ ہمرے کھون پسینے کا وہی تو معاوضہ تھا۔ اب ہمرا ایں ہوٹل پہ کا حک (حق) ہے۔ یہ تو اب بڑے لوگن کا ہو گیا۔ ہم تو فورتھ کلاس کے آدمی ہیں۔ چل گاؤں واپس چلت ہیں۔‘‘
․․․․․اور وہ دونوں آہستہ آہستہ واپس لوٹنے لگے۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...