’’مجھے ایک جگہ پسند آئی ہے ٹوبر موری (Tober Mori) میں فلاور آئی لینڈ (Flower Island) کے نام سے۔ ٹورانٹو سے چار گھنٹے کی ڈرائیو ہے۔ تم بھی دیکھ لو اگر تمھیں بھی پسند آجائے تو ہم اپنی اینی ورسری وہیں منائیں گے۔‘‘ میں نے زین کی طرف کمپیوٹر بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ابھی دو مہینے پہلے ہی تم لوگوں نے اپنی شادی کی سال گرہ دھوم دھام سے منائی ہے، اب اتنی جلدی اینیورسری کہاں سے آگئی؟‘‘ شازیہ بیگم جو اپنی نواسی کو کھانا کھلا رہی تھیں، بول پڑیں۔
’’ماں! وہ ہماری شادی کی سال گرہ تھی۔ یہ جب زین نے مجھے پرپوز کیا تھا، اور یہ تو ہم اس طرح مناتے ہیں جیسے ہم دونوں نے کسی اچھے ریستوران میں ڈنر کر لیا یا پھر کسی تفریحی مقام پر تھوڑا وقت گزار لیا۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پیار سے امی سے کہا۔
’’بہت وقت ہے بھئی لوگوں کے پاس۔ شادیاں آٹھ آٹھ، دس دس دن تک چلتی ہیں اور اب شادی کی سال گرہ بھی ایک نہیں دو دو، تین تین—‘‘ شازیہ بیگم نے ہلکا سا تنقیدی اندازاختیار کرتے ہوئے کہا اور اپنی نواسی کا ہاتھ پکڑ کر اسے سلانے لے گئیں۔
’’جگہ تو اچھی لگ رہی ہے، اگر تمھیں پسند ہے تو سنیچر کی بکنگ کروا لو اور ٹوبر موری میں کروز اسٹیشن کے نزدیک ہی کوئی اچھا ہوٹل بھی دیکھ لو۔ رات ہوٹل میں گزار کر ہم دوسرے دن آرام سے گھر آئیں گے۔‘‘ زین نے مجھے کمپیوٹر واپس کرتے ہوئے کہا۔
سنیچر کی صبح سویرے میں، زین اور بچے ٹوبر موری کے لیے نکلے۔ دس بجے ہم فلاور آئی لینڈ کے آفس پہنچ گئے۔ زین نے آفس کے اندر جاکر ٹکٹ لیے، ہم لوگ باہر گاڑی میں بیٹھے رہے۔ رش نہیں تھا، زین جلد ہی آگئے۔ گاڑی پارک کی اور بس کے انتظار میں لائن میں لگ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں بس آگئی اور اس نے ہمیں فلاور آئی لینڈ کے اسٹیشن پر پہنچا دیا۔ وہاں پہلے سے ہی لوگ موجود تھے۔ سب لوگ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، چہروں پر سکون و اطمینان تحریر تھا۔ زیادہ تر فیملی گروپس دو، تین یا چار لوگوں پر مشتمل تھے۔ چند ایک تنہا مرد اور عورتیں بھی تھیں اپنے کتے، بلی اور توتے کے ساتھ۔ البتہ ایک فیملی ایسی تھی جس میں آٹھ لوگ تھے، یہ مقامی کینیڈین تھے۔ ان میں دو بڑی عمر کے، دو جوان مرد عورت، دو لڑکیاں اور ان کے علاوہ ایک تقریباً نو دس سال کا لڑکا اور چھہ سات برس کی بچی۔ یہ سب خوب انجوائے کر رہے تھے۔ ہنس بول رہے تھے۔ بچے بھی شور مچا رہے تھے۔ جوان جوڑے کی خاتون نے بہت اچھی ڈریسنگ کی ہوئی تھی۔ خاص طور پر گلے میں نیکلس بہت خوب صورت تھا اور قیمتی بھی دکھائی دے رہا تھا۔
کروز ساحل پر لگ چکا تھا۔ ایک خاتون کمرے سے باہر آئیں اور سب کو لائن اَپ ہونے کے لیے کہا اور پھر ایک چھوٹی سی اسٹیمپ جوان کے ہاتھ میں تھی اس سے سب لوگوں کے ہاتھ کے پیچھے کی طرف مہر ثبت کرتی چلی گئیں۔ یعنی اب کروز میں جاسکتے ہیں۔
سب لوگ ایک ایک فیملی کی صورت میں زینے سے نیچے اتر رہے تھے اور کروز پر بیٹھتے جارہے تھے۔ وہاں پر موجود ایک گائیڈ سب کی مدد کر رہا تھا۔ جب ایک فیملی کروز کے اندر چلی جاتی تو لائن تھوڑی آگے بڑھتی۔ میں سیڑھیوں پر کھڑی تھی۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا، جھیل صاف نظر آرہی تھی۔ تاحدِ نظر پانی ہی پانی اور اس پانی پر نیلگوں ڈوبتی ابھرتی ریشمی لہریں، ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتی ہوئی— ہلکی ہلکی گنگناہٹ میں قدرت کے اس حسین نظارے کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی، ’’یہ دنیا کتنی حسین ہے۔‘‘
’’تحریم! چلو۔‘‘ زین نے مجھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
زین کی آواز سے میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ میں نے حانیہ کو گود میں اٹھایا اور سیڑھیاں اترنے لگی۔ میرے آگے زین حسن کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اتر رہے تھے۔
جب سارے لوگ کروز میں بیٹھ گئے تو کروز کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ یہ کروز ایک ہی منزل والا تھا۔ اس کی دیواریں بھی بہت زیادہ اونچی نہیں تھیں۔ کروز کا فرش درمیان میں شیشے کا بنا ہوا تھا۔ آٹھ افراد والی فیملی بالکل ہمارے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس خاتون کا نیکلس روشنی میں اور زیادہ چمک رہا تھا، اور اس کی خوب صورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔
’’میرا نام اسٹیفن ہے۔‘‘ اسٹیفن نے مائیک کو اپنے منہ کے قریب لاتے ہوئے کہا۔ یہ وہی گائیڈ تھا جو کروز میں چڑھنے میں سب کی مدد کر رہا تھا۔ سب کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوگئی۔
’’میں آپ لوگوں کو اس آئی لینڈ کے بارے میں جہاں ہم جارہے ہیں اور اس جھیل کے بارے میں جس پر اس وقت ہمارا کروز ہے، کچھ بتانا چاہتا ہوں۔
یہ جھیل جس پر ہمارا کروز چل رہا ہے۔ یہ ایک بہت ہی صاف شفاف جھیل ہے۔ اس میں کوئی جانور، کوئی پودے وغیرہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ سوائے چند ایک چھوٹی چھوٹی خوب صورت مچھلیوں کے۔ یہ ننھی منی رنگ برنگی مچھلیاں جھیل کی خوب صورتی ہیں۔
جھیل میں بھی اور آئی لینڈ پر بھی کسی قسم کا کوئی بھی کوڑا کرکٹ نہیں پھینکنا ہے۔ کسی قسم کی کوئی گندگی نہیں کرنا ہے۔ صفائی کا بہت خیال رکھنا ہے۔ جھیل اور آئی لینڈ دونوں کی—‘‘ اسٹیفن نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ پھر مخاطب ہوا:
’’اب میں آپ کو فرش پر جو شیشہ لگا ہوا ہے، اس میں کچھ دکھائوں گا۔ آپ دیکھیے— ان شیشوں میں سے جھیل کی تہہ صاف نظر آرہی ہے اور بہت نزدیک بھی، جب کہ یہ نیچے بہت گہرائی میں ہے۔‘‘
سب لوگ باری باری شیشے میں سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور حیران ہو رہے تھے۔ جھیل کی تہہ صاف نظر آرہی تھی اور بہت نزدیک بھی۔
سب لوگ اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ کروز نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور پھر پانی کی اونچی نیچی لہروں کے ساتھ رواں دواں اپنی منزل کی طرف گامزن— کبھی کبھی ہوا کے کسی جھونکے کے ساتھ پانی کی بوندیں سب کو گیلا کر دیتیں، بچے بہت خوش ہوتے، تالیاں بجاتے چیختے، ہنستے اور شور مچاتے، دوسرے لوگ بھی محظوظ ہوتے۔
تھوڑی دور جانے کے بعد کروز کی رفتار دھیمی ہوگئی۔ اسٹیفن نے ہمیں سمندر کی تہہ میں کروز میں نصب شدہ شیشے سے ایک جہاز دکھایا جو ۱۹۳۴ء میں ڈوبا تھا۔ وہ جہاز آج بھی سمندر کی تہہ میں اسی طرح موجود تھا۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے جزیرے آتے گئے، اسٹیفن سب کے متعلق کچھ نہ کچھ بتاتا گیا۔ ایک جزیرے پر بہت بڑا ہوٹل تھا۔ اسٹیفن نے بتایا، لوگ وہاں پر آکر رہتے بھی ہیں۔ کچھ اپنی کشتیوں میں آتے ہیں اور کچھ کروز سے۔
اس نے سب سے آخر میں فلاور آئی لینڈ کے متعلق بتایا کہ اس کا نام فلاور آئی لینڈ اس لیے ہے کہ جزیرے میں سامنے ایک چٹان ہے جو بالکل پھول کی مانند نظر آتی ہے۔ پچاس منٹ میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ کروز نے گھما کر چاروں طرف سے آئی لینڈ کے باہر کی طرف سے سیر کرا دی پھر ساحل سے لگ گیا۔
لوگ اترنے لگے، کچھ لوگ ساحل کی طرف گئے، کچھ اندر آئی لینڈ کی سیر کے لیے گئے، کچھ لوگ سامنے ریستوران میں جاتے نظر آئے۔
ہم لوگ بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے سامنے لکھا ہوا دیکھا ’’پکنک پوائنٹ۔‘‘
’’زین چل کر دیکھتے ہیں، یہ پکنک پوائنٹ کیسا ہے؟‘‘ میں نے زین سے کہا۔
یہ ایک بڑا سا ہال نما کمرہ تھا۔ دو طرف سے کھلا، اوپر چھت، نیچے پکا سیمنٹ کا فرش اور اندر بڑی بڑی بنچیں میز کے ساتھ۔
وہاں پر زیادہ افراد والا خاندان پہلے سے موجود تھا۔ ہم لوگوں نے ہائے، ہیلو کیا۔ بزرگ جوڑا بیٹھا ہوا تھا، لڑکیاں بیگ کھول کر کچھ چیزیں نکال رہی تھیں۔ بڑی عمر کی خاتون نے بتایا، ’’میری بیٹی میریؔ کی آج سال گرہ ہے، ہم لوگ یہاں منانے آئے ہیں۔ ابھی وہ، اس کا شوہر مارک اور دونوں بچے نیچے پانی کی طرف گئے ہیں۔‘‘
میں نے سینڈوچز نکالے، بچوں کو دیے۔ بچے بہت بھوکے ہو رہے تھے۔ ان لوگوں کو بھی پیش کیے۔ لڑکیوں نے ’’تھینکس‘‘ کہہ کر منع کر دیا۔ بزرگ خاتون نے ایک سینڈوچ لیا۔ آدھا خود کھایا آدھا اپنے شوہر کو دیا۔ہم لوگوں نے ناشتے کے بعد سارا سامان ایک کونے میں رکھا۔ ایک بیگ ساتھ لیا جس میں پانی اور کھانے پینے کی بچوں کی چیزیں تھیں۔
’’ہم سب سے پہلے فلاور روک (Flower Rock)کی طرف چلتے ہیں پھر وہیں سے اندر آئی لینڈ میں چلے جائیں گے۔‘‘ زین نے کہا۔
وہاں خاصا ہجوم تھا۔ ہم لوگ ایسی جگہ کھڑے ہوگئے جہاں سے وہ چٹان صاف نظر آرہی تھی۔ پتھر کا پھول پن حیران کن اور دل کش تھا جس کو ایک مرتبہ دیکھنے کے بعد انسان بھول نہیں سکتا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بڑا سا پھول رکھا ہوا ہے۔ اسٹیفن نے بتایا تھا، ’’یہ چٹان پھول کی صورت میں شروع سے ایسی ہی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔‘‘
اچانک چیخ پکار و شور کی آوازیں دور سے آتی ہوئی سنائی دیں۔ کچھ لوگ اس طرف دوڑ کر جا رہے تھے۔ یہ آوازیں وہیں سے آرہی تھیں جہاں سے ہم آئے تھے۔
’’چلیں، دیکھتے ہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ زین نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں تمھارا کیا خیال ہے۔
میں نے سر ہلا کر زین کی تائید کی۔
جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا پکنک پوائنٹس پر لوگ جمع تھے۔ میریؔ بری طرح رو رہی تھی اور باقی سارے افراد، دونوں بزرگ لڑکیاں اور بچے حیران بھی تھے اور غم زدہ بھی— معلوم ہوا کہ میری کا شوہر پانی میں گر گیا ہے۔ وہ سب پانی سے کھیل رہے تھے، ایک دوسرے پر پانی اچھال رہے تھے، اچانک ان کی بیٹی ایمی پانی کی طرف دوڑنے لگی۔ مارک اس کو بچانے کے لیے دوڑا، بچی کو بچا کر میریؔ کی طرف دھکیلا مگر خود اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا۔ فوراً ہی دو آدمی جن کو تیرنا آتا تھا، مارک کو بچانے کے لیے پانی میں کودے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ پولیس، ایمرجنسی اور کروز کے عملے کے لوگ گھر والوں کو تسلی دے رہے تھے۔
’’فکر نہ کریں، ایک کروز اور دو کشتیاں تلاش میں نکل چکی ہیں۔ پانی بالکل صاف ہے وہ بہت جلد مل جائے گا۔ ہم لوگ ان سے رابطے میں ہیں۔‘‘
حسن پانی میں جانے کی ضد کر رہا تھا۔ میں خوف زدہ تھی، میرا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ میں نے حسن کو منع کیا۔
’’تھوڑی دیر کے لیے چلتے ہیں۔ آگے نہیں جائیں گے صرف پائوں گیلے کریں گے۔ اس طرح بچوں کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔‘‘ زین نے کہا۔
بچے پانی سے کھیل رہے تھے، زین بھی ان کے ساتھ تھے۔ میں تھوڑا پیچھے کھڑی ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ اچانک میرے پائوں سے کوئی چیز ٹکرائی، میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے پائوں کے پاس چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سے بہتے ہوئے پانی کے اندر دیکھا، کوئی چیز چمک رہی تھی۔ میں نے اسے جھک کر ڈرتے ڈرتے اٹھایا۔
’’ارے! یہ تو وہی نیکلس ہے جو میریؔ پہنے ہوئے تھی۔‘‘
میں نے نیکلس ہاتھ میں لیتے ہوئے زین کے نزدیک جا کر اس کو بتایا۔
’’ابھی اس کو پرس میں رکھ لو۔ پولیس وغیرہ موجود ہے، معلوم ہوا اس پر انکوائری شروع ہوگئی۔ اگر میریؔ کو دینے کا موقع نہیں ملا تو ہم اسے فلاور آئی لینڈ کے آفس میں جمع کروا دیں گے۔‘‘ زین نے کہا۔
ہم لوگ پکنک پوائنٹ پر پہنچے تو وہ لوگ جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک آفیسر نے بتایا، ’’مارک مل گیا ہے۔ زندہ بھی ہے مگر زخمی اور بے ہوش ہے۔ لہروں نے اسے یاک آئی لینڈ پر پھینک دیا تھا۔ اسے ٹوبر موری اسپتال پہنچا دیا ہے۔ ان لوگوں کو بھی وہیں لے جا رہے ہیں۔‘‘
’’اب میری کو نیکلس دے دو۔‘‘ زین نے مجھے آہستہ سے کہا۔
’’میریؔ ! یہ شاید تمھارا نیکلس ہے، مجھے نیچے پانی میں ملا ہے۔‘‘
اوہ مائی گاڈ! یہ کب گر گیا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔‘‘ میری نے اپنے گلے کو ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے کہا۔
میری نے آگے بڑھ کر مجھے گلے سے لگایا اور بہت شکریہ ادا کیا۔
میریؔ نے بتایا مارک نے آج ہی یہ نیکلس اسے تحفے میں دیا ہے۔
کروز کے عملے نے اعلان کیا کروز واپس روانہ ہو رہا ہے، جو لوگ واپس جانا چاہیں، آجائیں۔
میں نے وقت دیکھا، چار بج رہے تھے۔
’’ہم بھی اسی کروز سے واپس چلتے ہیں، دل بڑا اداس ہوگیا ہے۔‘‘ میں نے زین سے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میرا بھی رکنے کا موڈ نہیں ہو رہا ہے۔ پھر کبھی آئیں گے۔‘‘ زین یہ کہہ کر سامان وغیرہ اٹھانے لگے۔
کروز پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پورا کروز بھر گیا تھا۔
دوسرے لوگ بھی شاید اس واقعے سے متأثر ہوئے تھے۔
کروز میں تمام لوگ خاموش بیٹھے تھے، پچاس منٹ کے اس سفر میں کسی نے کوئی بات نہیں کی۔
کروز اسٹیشن پر اتر کر لوگ ایک ایک کرکے بس میں سوار ہو رہے تھے۔ اس سانحے سے متعلق لوگوں کو پولیس کی گاڑی میں بٹھایا جارہا تھا، ٹوبرموری اسپتال لے جانے کے لیے۔
اچانک پولیس کی ایک اور گاڑی آکر رکی، اس میں سے ایک آفیسر باہر آیا۔
’’میڈم میریؔ!‘‘ اس نے آواز لگائی۔
میں نے اور زین نے میریؔ کو اس آفیسر کی جانب جاتے ہوئے دیکھا۔ جب میریؔ اس آفیسر کے سامنے پہنچی، اس آفیسر نے اپنی ہیٹ اتاری اور میری سے انتہائی ادب سے کچھ کہا۔
میریؔ زمین پر بیٹھ گئی یا شاید گر پڑی۔ اس کی چیخ نے ساری فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ہم لوگ ہوٹل جانے کے بجائے سیدھے گھر چلے گئے۔
گھر پہنچ کر بھی ہم نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی۔ رات ہوچکی تھی، بچے بھی تھکے ہوئے تھے۔ ان کو کھلا پلا کر ان کے کمرے میں بھیج کر دیا۔
ماں کو شب بخیر کہنے گئی تو دیکھا وہ گہری نیند میں خراٹے لے رہی ہیں۔
میں اپنے بیڈ روم کی جانب چلی لیکن میرے قدم میرے جسم کو گھر کے ایک گوشے میں لے گئے جہاں ایک آرام کرسی پڑی تھی اور اس کے ساتھ میز پر ایک چھوٹا سا لیمپ روشن تھا۔ لیمپ کی ہلکی ہلکی روشنی میں آرام کرسی کی آغوش میں گر گئی۔
یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے اس وقت سونا چاہیے۔ یہ وقت یہاں بیٹھنے کا نہیں ہے۔
میں نے محسوس کیا جیسے میرے اندر کچھ بدل گیا ہے۔ میں اب پہلے جیسی تحریم نہیں رہی۔ بڑی ہوگئی ہوں— اپنی عمر سے بھی زیادہ بڑی—
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...