٭٭معاصر شاعری میں تازہ کاری اور تازہ دمی کی ایک نمایاں مثال حیدر قریشی اور ان کا کلا م ہے ۔۔۔ غزل گوئی سے تو ان کی بنیادی دلچسپی ہے ہی(ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ ” سلگتے خواب” شائع ہو چکا ہے) لیکن انہوں نے نظمیں بھی بہت اچھی کہی ہیں اور بعض نظموں کو پڑھ کر میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہواکہ وہ غزل کے زیادہ اچھے شاعر ہیں یا نظم کے ۔۔ ادھر انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں ماہیے لکھے ہیں اور ما ہیے کی صنف کی عروضی حیثیت پر مبا حث میں اس طرح حصہ لیا ہے کہ اب ان کی شنا خت ماہیے کے بغیر نا مکمل ہے اور ماہیے کی شنا خت ان کے بغیر۔
حیدر قریشی کے کلا م سے ایک نرم دل جذباتی شخصیت ابھرتی ہے جس کے اندر محبت میں سب کچھ لٹانے اور بہت کچھ پانے کا جذبہ موجزن ہے۔۔۔۔۔حیدر قریشی کی شخصیت محبت کے جذبے کو کسی ایک فرد تک محدود نہیں رکھتی خواہ وہ محبوبہ ہی کیوں نہ ہو! وہ محبت کی ہمہ گیری کے قائل ہیں ، جو ماں ، بیوی ، بہن ، بھائی بلکہ ساری انسانیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ محبت کی یہی وسعت ان کی شخصیت کو توانائی عطا کرتی ہے اور کسی مخصوص مسلک یا عقیدے کے حصار میں مقید ہونے نہیں دیتی۔۔۔۔۔حیدر قریشی انسانوں سے ہی نہیں ، بلکہ فطرت سے بھی اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔
مظہر امام(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭حیدر قریشی اردو غزل کے نئے افق پرایک سپوتنک کی طرح بلند ہونے والے ہمارے چند نوجوان شعراءمیں شامل ہے۔حیدر کا شعر درد مندبھی ہوتا ہے اور خوش آہنگ و خوش رنگ بھی۔وہ اپنی تخلیقی فصل کے کسی خوشے،بالی،ٹانڈے کو دیمک نہیں لگنے دیتا۔اڑتا ہے تو زمین کو ساتھ لے کر اڑتا ہے۔ہماری جدید غزل میں ایسی اجلی اور پھر ایسی” مٹیالی “ شاعری کی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔میرے نزدیک حیدر قریشی شعراءکے اس عمدہ گروہ کے سر پنچوں میں سے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو جدید غزل کی وہ ساکھ نہ ہوتی ،جو ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید ضمیر جعفری(اسلام آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭حیدر قریشی کی شاعری میں بے ساختہ پن اور روانی ہے۔ایک بار پڑھنا شروع کیا تو جی چاہا پڑھتی ہی رہوں۔دوسرا اہم وصف بے باکی اور وارفتگی کا ہے جو حیدر قریشی کی شاعری میں نمایاں ہے۔
ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ(ہائیڈل برگ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔