فشارِ خون بلند اور مضمحل مرا دل
کمال یہ کہ دھڑکتا ہے مستقل مرا دل
یہ کس مقام پہ لے آیا زعمِ خودداری
اُدھر زمانہ اِدھر اک ذرا سا تِل مرا دل
کسی کے ناخنِ انکار سے چھلا ہوا ہے
فقط رفو سے نہیں ہو گا مندمل مرا دل
چراغ بن کے چمکنے کا دیکھ خمیازہ
پڑا ہے پہلو میں عبرت نشاں،خجل مرا دل
اِسے تو آتا ہے موقف پہ اپنے ڈٹ جانا
نہیں ہے اہلِ تذبذب سے یعنی دل مرا دل
اب اِس طرح سے تعلق تو نبھنے والا نہیں
وہ معذرت پہ مُصر اور انا کی سل مرا دل
سفید و سرخ کا انبوہ دیکھتا ہی رہا
اُڑا کے لے گیا اک سُرمئی سا تِل مرا دل
غموں کی نشوونما ہر کسی کے بس میں نہیں
یہ وہ گلاب ہیں جن پر ہے مشتمل مرا دل
یہ رکھ رکھاؤ یہ چاؤ یہ نظم و ضبط یہ ربط
گئے دنوں میں نہ تھا ایسا معتدل مرا دل
یہ استقامتِ پیہم کا معجزہ ہے کہ اب
نہ مضطرب مری آنکھیں ، نہ مشتعل مرا دل
ہزار عشوہ و انداز نو بہ نو غمزے
گلی گلی یہی شیون کہ ہائے دل مرا دل !
کسی کی یاد کا چلّہ نہ کھنچ سکا اس سے
اب اپنے آپ سے رہتا ہے منفعل مرا دل
یہ بات بات پہ طوفانِ بد تمیزی کیوں؟
تمہی کہو کوئی سِل ہے کہ کاہ و گِل مرا دل
قبول و رد کا تسلسل ہے زندگی کاشر
جہاں دماغ کی رغبت وہیں مُخِل مرا دل