آدمی سوچتا ہے، خدا ہنستا ہے
اپنے یروشلم (Jerosalem) کے خطاب (۱۹۸۵ء) کے دوران ناول کی صنف کی یورپی روایت پر بات کرتے ہوئے ملن کنڈیرا استفسار کرتا ہے، ’’لیکن وہ دانش مندی کیا ہے؟ ناول کیا ہے؟ ایک عمدہ یہودی کہاوت/ محاورہ ہے :آدمی سوچتا ہے، خدا ہنستا ہے۔ فرینکوئس رابیلائس (Francois Rabelais) نے کسی دن خدا تعالیٰ کی ہنسی سنی اور اس طرح یورپ کے پہلے بڑے ناول کے خیال نے جنم لیا۔
یہ سوچ کر مجھے خوش ہوتی ہے کہ ناول کا آرٹ دنیا میں خداے تعالیٰ کی ہنسی کی گونج (صداے بازگشت/ Echo) کی صورت میں آیا۔ پیدائش/ دنیا میں آنے کے اس عقیدے کا موجد ایک ایسا ناول نگار ہے جو ایسے عصر سے متعلق ہے جس کو وہ terminal paradoxes کے عصر کا نام دیتا ہے۔
’’آدمی کا اس عرفان کو عزت اور عقیدت دینا کہ جو کچھ انسانیت سے جڑا ہے وہ فانی ہے۔ ناول بھی فانی ہے اتنا ہی فانی جتنا کہ عصرِ جدید کا مغرب۔‘‘ کنڈیرا کہتا ہے، ’’پاسکل (Pascal) نے کہا کہ آدمی نے کوشش کی کہ وہ فرشتہ بن جائے، لیکن اپنے آپ کو درندہ بنالیا۔‘‘ مسئلہ یہ ہے، کنڈیرا کہتا ہے، آدمی کبھی وہ نہیں رہ سکا (یا بن سکا) جیسا وہ اپنے آپ کو سمجھتا رہا۔
کنڈیرا کے خیال میں رابیلائس نے بھی وہی غلطی کی۔ کنڈیرا کہتا ہے، آدمی نہ تو خدا بن سکا، نہ فرشتہ۔ البتہ ایک دانش مند بیوقوف (wise fool) بن گیا۔
’’میری ولادت یکم اپریل کے دن ہوئی۔ اس کی اپنی ایک ماورائی خصوصیت ہے۔‘‘ کنڈیرا نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران Antonin Liehm کو یہ حقیقت بیان کی (فروری ۱۹۶۷ء)۔ اس طرح اس نے اپنے فلسفی بیوقوف (philosophical fool) کے کردار کو اپنا پیدائشی حق بتایا۔
اس وقت تک وہ دو کتابیں ’’لاف ایبل لوز‘‘ اور ایک ناول ’’زرٹ ؍دی جوک؍مذاق‘‘ لکھا چکا تھا۔
مندرجہ بالا تحریر سے متعلق چند ایک معروضات میری جانب سے ملاحظہ کرلیجیے:
ء ماقبل سقراط دور کے یونانی مفکر اینیکسی مینڈر (Anaximander) کے خیال کے مطابق، تخلیقِ کائنات ایک کائناتی غلطی اور خلافِ عدل ہے۔ اس کا تدراک اور ازالہ اس کی بربادی ہی سے ممکن ہے۔
ء یہودی کہاوت ’’آدمی سوچتا ہے، خدا ہنستا ہے۔‘‘
اس ناول کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس کا نچوڑ یہ بنتا ہے کہ اس ناول کا اسٹرکچر بے حد پیچیدہ ہونے کے باوجود بے حد منضبط ہے۔ اس کے کردار اپنا اپنا علاحدہ مزاج، اپنی اپنی سوچ اور اپنا اپنا منفرد نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کو، ان میں سے ہر ایک کو واحد متکلم ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ اس حیران کن خصوصیت کے باوجود ناول کے پلاٹ میں جھول کا شائبہ تک نہیں ملتا۔
جب قاری اس ناول میں کارفرما تحت موجی تمثالیت سمبولزم (Symbolism) سے آگاہ ہوجاتا ہے تو یہ ناول اپنے اصل روپ میں منکشف ہوتا ہے۔ ناول (زرٹ، دی جوک، مذاق) اپنے نام کے برخلاف ایک گہری معنویت سے معمور المیہ ثابت ہوتا ہے۔
ملن کنڈیرا نے ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھنے سے قبل اپنی چالیس سالہ زندگی میں بہت کچھ کیا تھا، زندگی کو بھگتنے کے ماسوا۔ مثال کے طور پر اس نے پراگ میں فلم کے شعبے میں بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دی تھیں۔ اس کے ناول ’’دی جوک‘‘ میں جگہ جگہ سینمائی انداز جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اصل لطف ناول میں پیش کیے جانے والے ’دی رائڈ اوف دی کنگس‘ کے میلے کی پیش کش پڑھنے کے دوران ملتا ہے۔ سینمائی تصویر کشی ملن کنڈیرا کے طنز و مزاح سے آمیز بیانیے کو ادب کے اعلیٰ معیار سے اِدھر اُدھر ہٹنے نہیں دیتی۔ اس کے علاوہ حقیقی زندگی سے ہم آہنگ بھی کرتی ہے۔
اس ناول ’’مذاق‘‘ کے مطالعے کے سلسلے میں ایک مسئلہ جو سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ ترجمہ کرنے والے کے لیے آسان نہیں ہوتا کہ اس کی اصل روح کو جو عوامی کلچر اور عوامی گیتوں سے جڑی ہے، چیک زبان سے کسی اور زبان میں منتقل کرے۔ اسی طرح اس ناول کے استعارات کو بھی ایک زبان سے دوسری زبان میں لے کر چلنا بے حد دشوار ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہورہا ہے کہ ملن کنڈیرا نے مائیکل ہنری ہیم (Michael Henry Heim) کے ترجموں کو قدرے درست گردانا تھا۔
ملن کنڈیرا کے ناول کو سیاسی ناول قرار دینے کے بجائے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نقاد یہ مؤقف اختیار کریں کہ ملن کنڈیرا نے اس ناول میں انسان کی زندگی کی مختلف النوع صورتوں کا داخلی اور خارجی مطالعہ کیا ہے، ایک ایسے معاشرے کے اندر جو جبر اساسی (Totalitarian) ہو۔ ایسے معاشرے جو جرمنی اور ہٹلر کے نازی ازم کی جبریت سے تشکیل پائے ہوں یا اسٹالن ازم کے تحت۔
’’دی جوک‘‘ کو ذریعہ بنا کر ملن کنڈیرا نے چیکو سلواکیا پر کمیونسٹ تسلط کے خلاف اپنے ردِعمل کو (شخصیت اور سیاست کو آمیز کرکے) فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔
جہاں تک میں نے سوچا، سمجھا اور پڑھا ہے، اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اصل مسئلہ اس ناول کے ٹائٹل سے جڑا ہے۔ ’’مذاق‘‘ کے مفہوم کو ملن کنڈیرا نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ’’مذاق‘‘ کی پیچیدگی اور کثیر الجہتی اگر تہ بہ تہ کھلتی جائے تو قاری پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ناول نگار نے درحقیقت ہماری دنیا اور اس دنیا میں ہمارے مقام سے آگاہی پیدا کی ہے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر اس پوسٹ کارڈ کی تحریر کو پیش کیا جاسکتا جو ناول کے اہم ترین کردار لڈوک نے ساتھی طالبہ مارکٹا کو بھیجا تھا۔ کیا آپ اس تحریر کے مزاح، طنز اور ہمہ جہتی معنویت کو نظر انداز کردیں گے؟
فلپ کلارک (Philip Clark) نے اپنی تصنیف Milan Kundera’s The Jok میں کرسٹوفر ہچنس (Chirstopher Hitchens) کے ایک قول کا حوالہ دیا ہے ’’کسی غیر پابند ذہانت کو ہمیشہ جس کش مکش سے واسطہ پڑتا ہے وہ کش مکش طنزیہ اور لفاظ ذہن کی باہمی کش مکش ہوتی ہے۔ غیر پابند اور آزاد ذہانت کسی پہلے سے تسلیم شدہ خیال، نظریے اور نتیجے کو خاطر میں نہیں لاتی۔
’’مذاق‘‘ (دی جوک) کی کہانی فلپ کلارک کے مطابق، دیگر نقادوں کے مطابق بھی تقسیم شدہ ہے۔ مختلف (اغلباً چار) واحد متکلم بیانیوں میں جن کا آغاز حال میں ہوتا ہے اور جو حال سے ماضی میں رجعت کرکے ایک بار پھر جہاں سے شروع ہوا تھا اسی مقام پر لوٹ آتے ہیں۔
ملن کنڈیرا کے ناول ’’مذاق‘‘ کو اچھا ادب پڑھنے کے شوقین قاریوں نے ایک سے زائد مرتبہ پڑھنے کے لائق کتاب قرار دیا ہے۔
اصطلاح/ مرکب لفظی ’’ٹرمینل پیراڈوکس‘‘ کی تفہیم
جنگِ عظیم اوّل کے فوری بعد کے عصر کو ملن کنڈیرا نے ’’ٹرمینل پیراڈوکس‘‘ کا عہد قرار دیا ہے۔ اس عہد میں فرد معاشرے میں پیرا ڈوکس کی نشان دہی کرنے اور اس کو تنقید کا نشانہ بنانے میں اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ خود کو بھی پیرا ڈوکس کا ہدف بناتا اور خود پر ہنستا ہے۔ اس صورتِ حالات کو ٹرمینل پیراڈوکس سے تعبیر دی جاتی ہے۔ (ملن کنڈیرا کی زبان میں) ملن کنڈیرا نے اس وقت کے یورپ میں ناول کے عروج کو اور عروج کے عہد کو ’’ٹرمینل پیرا ڈوکس‘‘ کا عہد قرار دیا ہے۔
ملن کنڈیرا ان کے بھی خلاف ہے جو اس اصطلاح کے مفہوم/ معانی کو غیر معمولی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور وہ ان کے بھی خلاف ہے جو اس کو مناسب سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
آئیے ہم اور آپ ماقبل سقراط عہد کے ایک ماہرِ منطق فلسفی سے رجوع ہوتے ہیں۔ زمانہ ہے ۴۹۰؍ قبلِ مسیح کا۔ اس فلسفی کو زینو (Zeno of Elea)، ایلیا کا زینو کہا جاتا ہے۔ کسی کسی نے اس کو بوڑھی لومڑی کا لقب بھی دیا ہے۔ ان دنوں فلسفی پارمینی ڈس (Parmenides) کا ’’حرکت کی لاامکانی‘‘ (Impossibility of Motion) کا نظریہ نزاعی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ مفکر زینو نے مذکورہ نظریے کے دفاع میں ایک منطقی طریقۂ کار پیش کیا۔ اسی طریقۂ کار کو استخراج تاحدِ بعید از قیاس (Reduction to Absurdity) کہا جاتا ہے۔
زینو کے مطابق یا زینو کے پیراڈوکسس کے مطابق اگر آپ کو اپنے گھر کے دروازے تک جانا ہو تو پہلے دروازے تک کی نصف مسافت عبور کرنی پڑے گی، اس کو عبور کرنے کے لیے آپ کو اس نصف مسافت کی نصف مسافت عبور کرنی پڑے گی، لیکن اس سے قبل آپ کو اس نصف کی نصف کو عبور کرنا پڑے گا۔ یہ سلسلہ ابد تک جائے گا۔ لہٰذا حرکت ناممکن ہوگی۔ اگر وہ ممکن بھی ہو، فلسفی زینو کی اس منطق کو ہم اور آپ قرین القیاس (مشکل ہی سے) تسلیم کریں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ منطق ریاضی کے اس نظریے سے استخراج کی گئی ہے کہ اعداد کو لامحدود حد تک تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مادّے کو بھی اسی طور سے لامحدود حد تک تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ زینو نے ہم کو مجبور کردیا ہے کہ دونوں میں سے ایک کو قبول کریں۔ ہمارے سامنے ریاضی ہے اور حواس کی مدد سے حاصل شدہ معلومات ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ اکثر اوقات حواس ہمیں دھوکا دے جاتے ہیں، ایسی صورت میں ہم ریاضی کا انتخاب لازماً کریں گے۔ ایسے ہی انتخاب کی اساس پر فلسفی پارمینی ڈس اور فلسفی زینو نے یونانی فکر کو ایک بڑی الجھن میں مبتلا کردیا ہے۔ بہرحال یہ بھی اپنی جگہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ ان دونوں فلسفیوں نے یونانی نظریہ مونوازم (Monoism) واحد عنصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
ملن کنڈیرا کے نظریے ’’ٹرمینل پیراڈوکس‘‘ کو سمجھنے میں پارمینی ڈس اور زینو کے ’’پیراڈوکس‘‘ کو سمجھنے میں پارمینی ڈس اور زینو کے ’’پیراڈوکس‘‘ کے اساسی نظریات معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
امپیریسزم (Empiricism)
علم کا وہ نظریہ جس کے مطابق یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ حصولِ علم کا ذریعہ حواسِ خمسہ ہیں۔ اس کا تعلق اس فلسفیانہ نقطۂ نظر سے ہے جس نے سترھویں اور اٹھارھویں صدیوں میں فروغ پایا۔ اس نظریے کو پیش کرنے میں برطانوی مفکرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سبب سے اس کو برٹش امپیریسزم کا نام دیا گیا۔ اس نظریے پر جن مفکرین نے کام کیا ان میں جان لاک (John Locke)، جارج برکلے (George Berkeley) اور ڈیوڈ ہیوم (David Hume) کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔
اس کا رشتہ اپیسٹی مولوجی (Epistemology) سے ہے۔ ریشنیلزم (Rationalism) اور اسکیپٹی سیزم (Skepticism) کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے۔
امپریسزم کی دو شاخیں ’’ڈوگماس (ز)‘‘ (Dogmas):
(۱) فیمینسٹ (Feminist) امپیریسزم اور (۲) ریڈیکل (Radical) امپیریسزم بھی زیرِ بحث آتی ہیں۔
امپیریسزم اور ریشنلزم کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دونوں نظریات میں قطبین کا فرق ہے۔
امپیریسزم کے مطابق حواس حصولِ علم کا ذریعہ ہیں، جب کہ ریشنلزم کے تحت حواس پر تکیہ نہیں کہا جاسکتا، کیوںکہ حواس دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں۔ ریل کی دونوں پٹڑیاں دور جاکر آپس میں ملتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ چپو پانی کے اندر ٹیڑھا نظر آتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اوپٹی مزم (Optimism): رجائیت
زندگی، دنیا اور داخلی و خارجی معاملات کے بارے میں مثبت انداز میں سوچنے کا رجحان شربت یا دودھ کے گلاس کو آدھا خالی کہنے کے بجائے آدھا بھرا ہوا کہنے کا رجحان۔ کسی اچھے کام کے بارے میں یہ کہنے پر مائل رہنا، یہ کام میں کرسکتا ہوں، بجائے یہ کہنے کے یہ کام میں نہیں کرسکتا۔ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا رویہ، ’’شاعرانہ سچائی‘‘ (Poetic Truth) پر اعتقاد رکھنا۔ نیکی کا صلہ نیک ملنے کی توقع رکھنا، ’’برائی یا کارِبد کرنے والے کو سزا ملے گی۔‘‘ اس نظریے پر یقین رکھنا۔
اوپٹی مزم کا اصطلاح کے طور پر جائزہ لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اس کو لفظ optimum سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں عمدہ (best)۔ سب سے اچھا نفسیات میں اس کا رشتہ Dispositional Optimism سے جڑتا ہے۔ اس میں طبیعت کے رجحان کی رجائیت سے بحث کی جاتی ہے۔
اس کے لیے کچھ سوالات اساسی امتحان کے طور پر وضع کیے گئے ہیں۔ ایسے امتحانات کو LOT (Life Orientation Test) کہا جاتا ہے۔
اٹھارھویں صدی کے وسط میں ادب اور فلسفے میں اوپٹی مزم کے تحت لبنیز (Gottfried Wilheim Leibniz) کا نام لینا پڑے گا اور فرانسیسی تحریک کو بھی پیشِ نظر رکھنا پڑے گا۔
’’لیبنیزین منترا پینگلوس‘‘ (Leibnizian Mantra of Pangloss) کو مندرجہ ذیل فقرے میں لفظایا جاسکتا ہے: ’’سب کچھ بہتر کے لیے ہے‘‘ اور ’’تمام ممکنہ جہانوں میں بہترین‘‘۔ ("All is for the best”, in the "Best of all possible worlds.”) اوپٹی مزم کے نظریے کو عام طور پر گوٹ فرائیڈ ولہم لبنیز سے جوڑا جاتا ہے۔ اس نظریے اور لبنیز کی اہمیت اس طرح بڑھ گئی کہ والٹیئر نے اس کا مضحکہ اڑایا اور اس سلسلے میں والٹیئر کے ناولٹ ’’کینڈائیڈ‘‘ (Candide) کی مثال دی جاتی ہے۔ اس ناولٹ کے کردار پینگلوس (Pangloss) کے عقائد کو جلد ہی ’’پینگلوزیانزم‘‘ کی اصطلاح میں ڈھال دیا گیا۔ ’رجائیت‘ (اوپٹی مزم) اور ’قنوطیت‘ (پیسی مزم) دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور رہیں گے۔ آدمی ایسا جان دار ہے جو اپنے بارے میں، اپنے ماحول کے بارے میں، دنیا کے بارے میں، کائنات کے بارے میں، زندگی کے بارے میں، موت کے بارے، خالقِ کائنات کے بارے میں، جبر و قدر کے بارے میں سوچتا ہے۔ لطف کی بات ہے، آدمی اپنی سوچ کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔
اگر آدمی کی سوچ کو ’’میں، مجھ کو، میرا‘‘ (I, me, mine) تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ بھی سوچنے ہی کا ایک انداز کہلائے گا۔
’میں‘ (I، آئی) کی پہلی دہلیز پر کھڑے ہوکر مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا، ’’من خود را نمی دانم۔‘‘
بھگت کبیر نے کہا، ’’میں کون؟‘‘
بابا بلّھے شاہ بولے، ’’کیہ جاناں میں کون؟‘‘
علامہ اقبال نے ارشاد کیا، ’’اقبال خود اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔‘‘ می، مائن (مجھ کو، میرا) دوسری اور تیسری دہلیز کے بارے میں، میں اور آپ بہم ہوکر بھی کیا سوچ پائیں گے۔
پیسی مزم (Pessimism): قنوطیت
اوپٹی مزم کے برعکس پیسی مزم ایسا ذہنی رویہ اور رجحان ہے جس کے تحت کوئی فرد، گروہ یا معاشرہ کسی معاملے، حالت یا عمل کے ناپسندیدہ نتائج کی توقع کرے اور اچھے نتائج کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرے۔
اوپٹی مزم میں بہترین (best) پر نگاہ رکھی جاتی ہے، جب کہ پیسی مزم میں ’بدترین‘ (worst) پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔
اوپٹی مزم میں ’’آدھا بھرا گلاس‘‘ اور پیسی مزم میں ایسے ہی گلاس کو ’’آدھا خالی گلاس‘‘ کہا جائے گا۔
انسانی تاریخ میں اوپٹی مزم اور پیسی مزم دونوں نوعیت کے افکار کی کارفرمائی کے نمونے بھرے پڑے ہیں۔
پیسی مزم (Pessimism) کی اصطلاح لاطینی لفظ Pessimus سے لی گئی ہے جس کے معنی worst کے ہیں۔
پیسی مزم کو فلسفے سے متعلق کرنا ہی مناسب رویہ ہے۔ اس کے عقب میں بڑے اور اہم فلسفیوں کی فکر کارفرما نظر آتی ہے۔
ماقبل سقراط مفکرین میں انیکسی مینڈر ہیریک لی ٹس (Anaximander Heraclitus) اور پارمی نائڈس (Parmenides) کو کلاسیکی پیسی مزم سے منسلک کیا جاتا ہے۔ قدیم فلسفیوں میں ہجے سیاس (Hegesias) ۲۹۰؍ بی سی ای کو بھی ان میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ تیسری صدی قبلِ مسیح میں اسٹوئے سزم (Stoicism) فکر سامنے آتی ہے۔
بلتاسر گراسیان (Balta sar Gracian, 1601-1658) کا نام بھی لیا جاتا ہے جو ناول نگار بھی تھا۔
یورپ کے مفکرین میں والٹیئر کو پہلا پیسی مسٹ فلسفی کہا جاسکتا ہے۔ اس نے الیگزینڈر پوپ (Alexander Pope) کی اوپٹی مسٹک تحریر ’’این ایسے اون مین‘‘ (An Essay on Man) اور لیبنیز کے خیال ’’ہم ممکنہ حد تک بہترین جہانوں میں زندگی گزارتے ہیں۔‘‘ (We live in the best of all possible worlds.) کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا۔
پیسی مزم کے بڑے علم بردار مفکروں میں پہلا نام جین جیکوئز روسو‘(Jean- Jacques Rousseau) کا آتا ہے۔ اس کا مندرجہ ذیل فقرہ کلیدی مرتبہ حاصل کرچکا ہے۔
Man is born free, and every where he is in chains.
آدمی آزاد پیدا ہوتا ہے، لیکن ہر جگہ وہ زنجیروں میں ہے۔
پیسی مزم سے متعلق انیس ویں صدی کے دو بڑے مفکروں شوپنہار (Scho- penhauer) اور نطشے کے ساتھ گیاکومو لیوپارڈی (Giacomo Leopardi) کا نام بھی آتا ہے، کیوںکہ لیوپارڈی ان مفکروں پر اثر انداز ہوئی تھی۔
البیئر کامیو کو اس لیے نہیں بھلایا جاسکتا، کیوںکہ اس نے دی ابسرڈ (The Absurd) کی اصطلاح کو فروغ دیا۔
انیس ویں صدی سے آج تک اس موضوع پر جو کچھ مباحث اور ان کے نتائج سامنے آئے وہ کسی ایک مرکز پر پہنچنے میں مددگار ثابت ہونے کے بجائے اس کو مزید وسیع اور شاخ شاخ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اوپٹی مزم اور پیسی مزم کی نت نئی اقسام پیدا ہوگئیں۔
کارل مارکس (Karl Marx 1818-1883)
افیون مسکن اور درد کا علاج (دوا)
کارل مارکس کا مندرجہ ذیل فقرہ بہت مشہور ہوا:
’’مذہب عوام کی افیون (افیم Opium) ہے۔‘‘
اس فقرے کو اکثر اوقات اس کے سیاق و سباق سے جدا کرکے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔
مذہب کو افیون اس سبب سے کہا گیا کہ معاشرے کے نچلے اور کچلے ہوئے طبقے کے کسی فرد یا افراد اس میں اپنے دکھ درد کا علاج یا سہارا تلاش کرتے ہیں۔ ہر اتوار گرجا جانے، وہاں اپنے گناہوں یا خطاؤں کا اعتراف کرنے اور گھٹنے ٹیکنے سے وہ اپنا ہر طرح کا غم غلط کرتے ہیں۔
کارل مارکس کے عہد میں افیون درد دور کرنے کے لیے عام طور پر استعمال کی جاتی تھی۔
ٹوٹالی ٹیرینزم (Total-tar-i-an-ism)
ایسا حکومتی نظام یا ریاستی دستور جس کے تحت حکومت میں مرکزیت ہو اور اس کا مزاج آمرانہ ہو اور جس کے تحت شہری مکمل طور پر ریاست کا تابع دار ہو۔
نظریے کے طور پر یہ ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جس میں ریاست کے اختیارات لامحدود مانے جاتے ہیں۔ یہ نظریہ فرد یا افراد کی خارجی (پبلک لائف) اور ذاتی، خانگی زندگی (پرائیوٹ لائف) میں ریاست کے عمل دخل کو جائز ٹھہراتا ہے۔
اس اصطلاح کی وضع کو اطالوی آمر بینیٹو مسولینی (Benito Mussolini) سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کو آٹو کریسی یا اتھاری ٹیرین کی اصطلاحوں سے ہم رشتہ کیا جاسکتا ہے۔
اس سیاسی نظریے کو معاشرتی اساس بھی دی جاتی رہی ہے۔ اس صورت میں ایسے معاشرے یا سماج کو ’’ٹوٹالی ٹیرین‘‘ معاشرہ، سماج یا سوسائٹی کہا جائے گا۔
ٹوٹالی ٹیرینزم کی مثال کے طور پر سوویت یونین میں خانہ جنگی کے فوری بعد قائم ہونے والی جوزف اسٹالن کی حکومت یا طرزِ حکومت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس حکومت کے دوران ہر اُس فرد، افراد یا گروہ کو سخت تعزیر کا نشانہ بنایا گیا جس پر یا جن پر حکومت کے اقدامات کی عدم حمایت کا شبہ ہوا۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین، شمالی کوریا اور عراق میں ٹوٹالی ٹیرین حکومتیں قائم ہوئیں، لیکن زیادہ تر ہٹلر کی نازی جرمنی (۴۵- ۱۹۳۳ء) میں اور جوزف اسٹالن کی سوویت یونین میں قائم ہونے والی حکومتوں (۵۳- ۱۹۲۴ء) کی مثال دی جاتی ہے۔
ادب میں جارج اوروِل (George Orwell) کی تصنیف ’’اینمل فارم‘‘ (Animal Farm, 1945) کا اس سلسلے میں حوالہ دیا جاتا ہے۔
ٹوٹالی ٹیرینزم کی اصطلاح کی ایجاد کا سہرا مسولینی کے سر باندھا جاتا ہے، لیکن یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ اس اصطلاح کو گیووانی امینڈولا (Giovanni Amendola) نے رواج دیا تھا۔
ملن کنڈیرا اور کمیونزم کی فکریات کا ابلاغ، شاعری اور ناولوں میں
اس ناول میں ملن کنڈیرا نے ایک انوکھے انداز میں کمیونزم کی نظریاتی توجیہہ کو سمویا ہے۔ صورتِ حالات کی وضاحت کرنا خاصا دشوار ہے۔ کبھی کمیونزم سطحِ آب پر تو کبھی زیرِ آب اور کبھی تحت موجی حالت اور صورت میں دریافت ہوجاتا ہے۔ سارے ناول کے واقعات اور سارے کرداروں میں کمیونزم کا تانا بانا محسوس کیا، دیکھا اور جانا جاسکتا ہے۔
اور تو اور اس ناول میں ایک کردار عیسائی مذہب میں کس حد تک راسخ العقیدہ ہوتا ہے۔ اس کردار کی وساطت سے عیسائیت اور کمیونزم میں موازنے کی صورت پیدا کی گئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں میں مماثلت کے نکات تلاش کیے گئے اور ان کے حوالے دیے گئے ہیں۔ یہ اس طرح ممکن ہوا کہ اس ناول کا ہر کردار بے حد گنجلک ہے اور اضافی معنویت سے مملو ہے۔ اس بہ ظاہر کمیونزم اساس ناول میں ایسے ٹائپ کردار کم ہیں جو صرف اور صرف کمیونسٹ ہیں۔ کمیونسٹ ہونے کے علاوہ وہ تاریخی، تہذیبی، ثقافتی، قومی اور بین الاقوامی ورثوں کے حامل اور امین، جیتے جاگتے زندہ انسان ہیں۔ کمیونسٹ معاشرے میں ایسے افراد کی بہ ظاہر گنجائش نہیں نکلتی ہے، لیکن ملن کنڈیرا نے اپنے ناول ’’مذاق‘‘ (دی جوک) میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔
یہ اور بات کہ ملن کنڈیرا کے ناول (مذاق، زرٹ، دی جوک) اور دیگر ناولوں میں کمیونزم پسِ پردہ ہے، جب کہ شاعری میں پردے سے باہر ہے۔ ملن کنڈیرا کے قریب قریب ہر تبصرہ نگار اور ناقد نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ اگرچہ اس کی توجیہہ درست طریقے سے نہیں کی گئی۔ شاعری میں پلاٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے اتار چڑھاؤ ہوتے ہیں۔ کردار بھی نہیں ہوتے۔ اس سبب سے شاعری میں کمیونزم واضح صورت میں، پردے سے باہر نظر آتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے کہ ملن کنڈیرا ناولوں میں کمیونزم اور کمیونزم کی فکریات سے شعوری طور پر اغماض کرتا ہے۔
ملن کنڈیرا کی شاعری میں طنزیاتی لہجۂ اظہار و ابلاغ کے عناصر بھی نہیں ملتے، جب کہ ناولوں میں ان کی بھرمار ہے۔
یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ طنزیاتی اسلوب اعلیٰ ادبی معیار کی ضمانت نہیں دے سکتا، لیکن ملن کنڈیرا نے اپنی ادبی تخلیقات کو اعلیٰ ادبی معیار پر قائم رکھا۔ یہی اس کا کمال ہے۔ اس کے سارے اہم کردار ضمیر متکلم (first person) ضمیر غائب (third person) دونوں ضمائر میں قاری کے سامنے آتے ہیں، یعنی قاری ان کو ’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ دونوں ہیئتوں میں دیکھتا اور ان سے آشنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمہ جہتی اظہار و ابلاغ کی متعدد تکنیک کی مدد سے ملن کنڈیرا اپنی سوچوں کے ساتھ ناول کے کرداروں سے خود بھی لپٹا رہتا ہے۔ وہ اپنے ناول کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ملن کنڈیرا ہمہ وقت سوچتا ہے۔ وہ اپنی سوچوںکو بھی سوچتا ہے۔
مارکسزم اور کیتھولک (لڈوک اور کوسٹکا )
مذہب اور مارکسزم میں بادی النظر میں قطبین کا تفاوت ہے۔ کہاں اللہ تعالیٰ اور تخلیقِ کائنات اور قیامت و روزِ قیامت، کہاں الحاد اور پرولتاریت اور بورژوائیت کے مابین کش مکش اور ٹکراؤ کے تسلسل کا نظریہ۔ لکھنے والوں نے دونوں میں مماثلت تلاش کرکے دل چسپ مباحث آغاز کیے۔ ان کی منطق یہ ہے کہ مارکسزم کے نظریات کو وہی تقدس حاصل ہوچکا ہے جو بائبل اور دیگر آسمانی کتابوں پر مشتمل عقائد کو حاصل ہے۔ کمیونسٹ معاشرے میں جو قوانین نافذ ہوئے وہ اوامر و نواہی پر مشتمل تھے۔ اوامر پر عمل نہ کرنے کی سزائیں اور نواہی سے اجتناب نہ کرنے کی سزائیں بھی طے شدہ تھیں۔ عین آسمانی کتابوں میں مندرج اوامر و نواہی کی مانند جن کے مطابق دنیا اور آخرت، سزائیں اور جزائیں طے شدہ ہیں۔
مارکسزم میں پرولتاری طبقے کے مصائب اور مسائل کو فوقیت دی جاتی ہے۔ آسمانی کتابوں کے عقائد کے بہ موجب اہلِ ثروت کے دینی فرائض میں معاشرے کے نچلے طبقے کے افراد (پرولتاری طبقے) کے احتیاجات کو پورا کرنے کے لیے، زکوٰۃ کی ادائی کو شامل کیا گیا ہے۔
ملن کنڈیرا کے ناول ’’زرٹ‘‘ میں کوسٹکا زیرِ غور موضوع کے حوالے سے اہم کردار ہے۔ ناول کا حصہ ششم اس کے نام ہے۔ ناول کے مرکزی کردار لڈوک سے کوسٹکا کی ملاقات پہلے پہل ۱۹۴۷ء میں ہوئی۔ اُتھل پتھل، کش مکش، افراتفری اور کھینچاتانی کا دور تھا۔ کمیونسٹ اقلیت میں تھے۔ کوسٹکا ان کے ساتھ تھا۔ عیسائیوں، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقوں کے عیسائیوں میں ناپسندیدہ تھا، کیوںکہ وہ اسے منکرِ خدا گردانتے تھے۔ کوسٹکا کا یہ مشاہدہ تھا کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جیسس کرائسٹ کی تعلیمات کے مطابق زندگی نہیں گزارتے تھے۔ کوسٹکا کا باپ کیتھولک عیسائی تھا۔ وہ معمولی ورکر (مزدور) تھا۔ گرجا نے اس کی مدد نہیں کی۔ اس کو ڈھنگ کا کام نہ مل سکا۔ وہ بیمار پڑا اور فوت ہوگیا۔ گرجا نے ورکنگ کلاس کو بے سہارا چھوڑا۔ سوشلزم نے اس کو سہارا دیا۔ کوسٹکا کو اس کا افسوس ہے کہ سوشلزم خدا کا منکر ہے۔ یونی ورسٹی میں لیکچرر کے فرائض کی انجام دہی کے دوران کوسٹکا نے چند ایسے طلبہ کو خارج ہونے سے بچایا جن کے والدین کے سیاسی مؤقف پارٹی سے مختلف تھے۔ کمیونسٹوں کی بغاوت کامیاب ہوچکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کا مؤقف بھی درشت ہوچکا تھا۔ یونی ورسٹی کی انتظامیہ کو کوسٹکا کے ایسے اقدامات گراں گزرے۔ انھوں نے کوسٹکا کے خلاف یہ نکتۂ اعتراض اٹھایا کہ کسی راسخ العقیدہ عیسائی سے کمیونسٹ طلبہ کو پڑھوانا مناسب نہیں۔ اسی زمانے میں کوسٹکا کو یہ پتا چلا کہ ایک شخص لڈوک جاہن اس کی حمایت میں یہ دلیل پیش کررہا ہے کہ کوسٹکا نے مشکل وقتوں میں کمیونسٹوں کا ساتھ دیا تھا، ایسے آدمی کے خلاف کچھ کرنا احسان فراموشی کے مترادف ہوگا۔ کوسٹکا نے لڈوک کا پتا چلا کر شکریہ ادا کیا۔ شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہی دونوں میں خاصی طویل بحث بھی ہوئی۔ ڈیکارٹ اور اسپینوزا کی مادّہ پرستانہ فکر بھی موضوع بنی اور بات چیت کا اتمام اس اصول پر ہوا کہ مذہب کسی فرد کا نجی معاملہ ہے۔ اس ملاقات کے تین چار ماہ کے اندر لڈوک جاہن کو یونی ورسٹی اور پارٹی سے نکال دیا گیا۔ کوسٹکا نے اس کے چھہ ماہ کے اندر اندر یونی ورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ اگر وہ کچھ مدت اور گزار لیتا تو پروفیسر کے گریڈ میں اس کی ترقی یقینی تھی۔ ایسا ہونا، اس کے حق میں اس کی بیوی اور بچے اور خود اس کے مستقبل کے حق میں بہتر تھا، لیکن یونی ورسٹی چھوڑ کر وہ جیسس کی آواز پر لبیک کہہ رہا تھا جس نے کہا کہ راہِ حق میں کل کی پروا نہ کرو، کل خود اپنی فکر کرلے گا۔
تاریخ سے متعلق ناول سے ایک اقتباس
لڈوک کو ’’تاریخ کے پہیے‘‘ کے قریب کھڑے ہونے کا احساس تھا۔ ہم حقیقت میں لوگوں کی اور حالات و واقعات کی تقدیروں کے فیصلے کرتے ہیں اور خاص طور پر جامعات میں۔ ان ابتدائی برسوں میں فیکلٹی میں کمیونسٹوں کی تعداد کم تھی۔ طلبہ میں کمیونسٹ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے طلبہ تنظیمیں جامعات کے سارے معاملات چلاتیں اور فیصلے بھی صادر کرتی تھیں۔ اکیڈمک اسٹاف کی کمی بیشی اور تقرری، تدریسی اصطلاحات اور نصابِ تعلیم کے معاملات میں طالبِ علم لیڈر دخیل ہوتے۔ طلبہ میں ان دنوں طاقت کا نشہ سا چڑھا ہوتا۔ ہم نے تاریخ کو جادو جگانے کا موقع دے رکھا تھا۔ ہم نشے میں مبتلا تھے، اس خیال کے نشے میں کہ ہم نے تاریخ کی پیٹھ پر چھلانگ لگا دی ہے۔ ہم محسوس کرتے تھے کہ وہ ہمارے نیچے ہے۔ اس کا اکثر اوقات جو نتیجہ سامنے آتا ہے، وہ طاقت کی مکروہ ہوس ہوتا ہے (یہ ماننا پڑے گا کہ تمام انسانی معاملات مبہم اور غیر واضح ہوتے ہیں)۔ ایک آدرشی خوش فہمی یا وہم لگا رہتا ہے (نوجوانوں کی نسل میں بطور خاص) کہ ہم وہ ہیں جو اُس عہد کا افتتاح کریں گے جس میں آدمی (سب لوگ) زیادہ عرصے تک تاریخ سے باہر نہیں ہوں گے۔ اس کے پیروں کے نیچے نہیں ہوں گے، بلکہ اس کو چلائیں گے اور اس کی تخلیق کریں گے۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...