ڈاکٹر حامد اشرف(اودگیر)
ڈاکٹر محمد عظیم الدین بخش کے مضا مین کا پہلا مجمو عہ ” فکرِ عظیم” کے زیرِعنوان نومبر ؍ ۲۰۰۷ء میں اکرم پبلی کیشنٗ حیدر آباد سے شا ئع ہو چکا ہے۔اس مجمو عے کو آپ کے فرزندِ دلبند محمد علیم الدین بخش نے مرتب کیا ہے۔ یہ تصنیفٗ دراصل ایک دلِ درد مند کی پر سوز صد ا ہے۔جس کے ہر صفحے سے حق گو ئی و بے با کی ا و رراستبا زی کا بر ملا اظہارہو تا ہے تو ہر سطر سے مصنّف کی سیا سی و سما جیٗ بین الا قوا می و قو میٗ مذہبی ومعا شرتی سوجھ بو جھ کااندا زہ ہو تا ہے۔تصنیفِ ہذا کی اشا عت میں اردو اکیڈمی آندھرا پر دیش کا تعاون بھی شا مل ہے۔
ڈاکٹر محمد عظیم الدین بخش تقریباً(۵۰) بر سوں تک شعبۂ ویٹر نیری و شعبۂ پو لٹری سے و ا بستہ رہے اور اس سلسلے میں آپ کو مختلف ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی ملا زمت بھی کر نی پڑی۔بز نس کوفروغ دینے کی غرض سے زندگی کا بڑا حصہ خلیجی اور یو رو پی مما لک میں بسر ہوا۔مقا مِ حیرت ہے کہ شدیدمصرو فیت کے با وجود آپ کو لکھنے پڑھنے سے ہمیشہ دلچسپی رہی۔را قم السطور کو بلا مبا لغہ یہ اعتراف ہے کہ آپ نے جن مو ضو عات پر قلم اٹھا یا ہےٗ ان کو پو ری وضا حت اور تفہیم کے ساتھ بیان کیا ہے۔مثا لوں اور دلا ئل سے تحریر میں تقریر کا حسن پیدا ہوا ہے اور اس بات کی نفی ہو ئی ہے کہ مذہب اور ادبٗ جن کا اوڑھنا بچھونا ہو تا ہےٗ صرف انہی ہنر مندوں اور دانشوروں کا قلم گلکا ریاں پیش کرتا ہے۔علم و حکمت کو کسی ایک مخصوص قوم یا فرقے کی امانت نہیں کہا جا سکتا۔جو بھی یقین محکم اور عمل پیہم کا مظاہرہ حصولِ علم و حکمت کے ضمن میں کرتا ہےٗعلم و حکمت کا چراغ اسی ذہن میں روشن ہو تا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی تصانیف کی ایک خا صیت یہ ہو ا کر تی تھی کہ ان کے سبھی کرداراسمِ با مسمّیٰ ہو تے تھے۔یعنی کردارکے نام سے ہی قا ری کو کردار کے ظا ہر و با طن سے واقفیت فرا ہم ہوجا تی تھی۔مثلاً ا کبری ( بڑی بہن ) اصغری ( چھو ٹی بہن)مرزا ظا ہر دار بیگ( بظا ہر دولت مند اور اشراف طبقے سے تعلق جو ڑنے والا)ہر یا لی(طوا ئف) وغیرہ۔یہی مثال ہمیں ڈا کٹر عظیم الدین بخش کے ہا ں بھی ملتی ہے۔آپ نے اپنی تصنیف کے ذریعےٗنو (۹) ابواب کے تحت جملہ بیس (۲۰)مضا مینٗ ایک نا ولٹ کی دو اقساط اور ایک تبصرے کی پیش کشی اس طرح کی ہے کہ ہر باب کا عنوان قاری کو خود ہی بتا تا ہے کہ مضمون کا مو ضوع کیا ہے۔
مضمون “بوند ! بوند!”کا مطا لعہ خوا جہ حسن نظا می کے انشا ئیوں کی یاد تا زہ کرتا ہے۔علّا مہ ابنِ خلدون کامقو لہ ہے کہ”اسباب و علل کا قا نون ہر جگہ کام کرتا ہے۔ ’بوند! بوند!‘ ـاسباب و علل کے قا نون کی حقیقی مثال پیش ہے۔ ’بنتِ حوّا ـ‘ میں ساس اور بہو کے معا ملات اور وا قعات کے پسِ پر دہ ایک اہم پیغام یہ ملتا ہے کہ بیشتر گھرا نوں میں عورت کو مرد کے مقا بلے میں بے قیمت اور گھٹیا شئے کی طرح دھتکا را جا تا ہے۔۔۔ ۔حا لا نکہ وہ بیوی بن کر ایک
خا ندان کی بنیاد رکھتی ہے ۔ ماں بن کر بچوں کی کردار سازی کرتی ہے اور بہو بن کر ساسٗ سسر دیور اور نندوں کی ذمہ دا ریاں اٹھا تی ہے۔ اگراسے گھر میں مرد کے برا بر مسا و ی حقوق ملیں تو وہ اپنی بہو ؤں سے بیٹیوں جیسا سلوک کرکے گھر کی چار دیوا ری کو ما نندِ جنّت بنا سکتی ہے لیکنٗ با رہا وہ مردوں کی انا نیت کی بھٹی میں جل کر را کھ ہو جا تی ہے۔ “ثبات ایک تغےّر کو ہے زما نے میں “کی تفسیر و تصویر کشی کا ہنر مضمون ـ’ آؤ ! آؤ ! آؤ !!‘ میں ملتا ہے ۔جس میں ایک کبو تری کو سمبل بنا کر ڈا کٹر صا حب یہ بتا نا چا ہتے ہیں کہ خلو ص و محبت کا بر تا ؤٗ نہ صرف انسانو ں کو بلکہ جا نور ا ور پرندو ں کو بھی رام کر لیتا ہے۔اس مضمون کی ایک خا صیت یہ بھی ہے کہ پرندوں اور پا لتو جانور وں سے یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ وہ جس گھر میں رہتے ہیں وہاں اگر کھا نے کے لیے کبھی کچھ کم بھی پڑ جاتا ہے تو وہ دوسرے گھرکی لا لچ میں اپنا گھرنہیں چھو ڑتےٗ جبکہ آج کا انسان سویلا ئیز ڈ اور کلچرڈ ہو کر بھی بے زبان پرندوں اور جانوروں سے بھی گیا گزرا ہو گیا ہےٗ جس کی بھوک کہیں بھی اور کسی سے بھی مٹتی نظر نہیں آتی۔
راقم السطور کوڈاکٹرعظیم الدین بخش کی بہت سا ری تحریریںٗ جن میں سفر نا مۂ کینڈا ؍امریکہٗ سفر نا مۂ قبرص ؍ سا ئپرسٗ تبصرے ناول اور ڈرا مے پڑھنے کا مو قع ملا ہےٗ جن کے حسن و انداز کا اعتراف نہ کرنا ادبی بد دیا نتی ہو گی۔آپ کی بیشتر تحریروں کاوصفِ خا ص یہ ہے کہ وہ افسا نوی انداز کے حا مل ہیں۔جس طرح افسانوی ٹیکنیک قا ری کو با ندھے رکھتی ہےٗ اسی طرح آپ کے کئی ایک مضا مین بھی اپنے اختتام تک ڈرا ما ئی انداز سے آگے بڑھتے ہیں۔”فکرِ عظیم”میں ایک مضمون “معما رِ قوم “بھی ہےٗ جو ’ سلوا کیہ ‘ کے صدر مقام ــ ـ’برا تسلا واء‘کی ایک شام کی داستان اپنے اندر لیے ہو ئے ہے۔ یہ مضمون بز نس ٹرپ پر مشتمل خوبصورت سفر نا مہ بھی ہے اور ایک شاندار افسانہ بھی۔ ’ برا تسلا واء ‘ کے انٹر نیشنل ایر پو رٹ پر ڈا کٹر صا حب کی ملا قات (۴۰) سا ل کی لگ بھگ عمر والی خوش پو شاک خا تون سے ہو تی ہےٗجو انگلینڈ کی تعلیم یا فتہ ہے اور بہترین انگلش جا نتی ہے۔ شام کا وقتٗ اجنبی ما حولٗ آخری فلا ئٹ ہو نے سے کرنسی بنک بھی بند ہو چکی ہے۔ بارش کی ہلکی بوندا باندی میں موزوں ہو ٹل کی تلاش کا مسئلہ بھی دامن گیر ہے۔سو نے پر سہا گہ یہ کہ ڈا کٹر صا حب کے بیگ کا ہینڈل ٹوٹ گیا ہے اور ان کے ساتھ مزید چار وزنی آئیٹم بھی ہیں۔ایسے میں وہی خوش پوش خا تون اپنی کار کے نہ آنے سے ڈا کٹر صا حب کے ساتھ دو بسوں کو بدل کر سفر کرتی ہے اور برق رفتا ری کے ساتھ ان کا سامان اتارنےٗ چڑھا نے میں بھی ان کی مدد کر تی ہے۔ڈا کٹر صا حب اور خوش پو شاک خا تون کے دورانِ سفرٗ قاری کو U S S Rکے زوال اور ۱۹۹۴ء کے پراگ(Prague) ٗ چیک (Czek) بڈ ھا پسٹ (Buda-pest) ٗ ہنگیری (Hungery)کے سما جی وتہذیبیٗ اقتصا دی و سیا سی حا لات سے تھو ڑی بہت وا قفیت ہو جا تی ہے اورپو لینڈٗ یو کرینٗ اور آسٹریا کی علا قا ئی کشمکش کا مختصر حال بھی قا ری پر کھلتا ہے۔بس کے سفر میں اس ہمدرد خا تون کو ڈا کٹر صا حب اپنا کارو بار ی تعا رف پیش کرتے ہو ئے سلواک ریپبلک میں اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہیں۔وہ اپنی نیک خوا ہشات کا اظہار کرتے ہو ئےٗ ڈا کٹر صا حب کے دورانِ قیام آئندہ بھی مدد کا و عدہ کرتی ہے اور اپنا شنا ختی کا رڈ دیتے ہو ئے اگلے اسٹاپ’Skolska‘ پر اتر جاتی ہے۔کارڈ پر نظر پڑتے ہی ڈاکٹر صا حب کا منہ حیرت سے کھل جاتا ہے ۔اس خاتون کی سادگیٗ سچا ئیٗ اورمقام و مرتبے کا موا زنہ ہندوستان میں اس کے ہم رتبہ لو گوں سے کرتے ہو ئے ڈاکٹر صا حب کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔وہ خا تون “Madam Gabriela kaliska“’برا تسلا واء ‘ کی ایم ۔پیٗ ہو نے کے علا وہ نیشنل کونسل کی ممبر اور پلا ننگ کمیشن و اندسٹریل ڈیولپمنٹ کی ممبر تھی۔
فکرِ عظیم” ٹا ئپنگ کی چند ایک غلطیوں سے صرفِ نظر صالح اور صحت مندوا قعات کے اظہار پر مبنی ڈا کٹر صا حب کی دیدہ زیب تصنیف ہے۔جس میں ’چہرہٗ ’ہما ری جمہو ریت میں الیکشن کے جلوےٗ ’کاروانِ حیات کی حقیقتٗ ’فطرتِ انسا نی اور قا نونِ قدرتٗ ’حیاتِ عبد القادر جیلا نیؒٗ’معمارِ قومٗ ڈرٗ ’پرا نی تہذیبٗ’کیا ابھی وقت نہیں آیاٗ ’انا پرستی ایک نفسیاتی بیما ریٗ’ہا تھوں کی کمائی‘ قا بلِ ذکر مضا مین ہیں ۔جس میں کہیں کہیں طنز و مزاح کا پہلو بھی شا مل ہے اور غیرت و عبرت کا احساس بھی ۔مذکو رہ مضا مین کے کچھ اقتباسات بطورِ ثبوت ملا حظہ ہوں :
’’خونِ جگر پلا پلا کر اور پھر عمر میں آنے پر لڑکے والوں کی منڈی میں سجا ئے رکھنا کہ لو دیکھویہ مال برا ئے فروخت نہیںٗ بلکہ تحفہ میں مع تمام اسبابِ زندگی کے مفت میں پیشِ خد مت ہے۔ساتھ میں زندگی بھر کی غلا می کی سند کے ساتھ !!‘‘( بنتِ حوا ۔ص ۱۵ )
’’اوہ ! شٹ!! سیما ڈارلنگٗ میں نے تو اس کی فیشیل فیچرس ہی دیکھے ہیں فیزیکل فیچرس نہیں دیکھے۔بات دراصل یہ ہے کہ تم تو جا نتی ہو کہ وہاں امریکہ میں ہم لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو ـ’ ’ اچھی طرح ‘‘ دیکھنے کے بعد ہی شا دی کا ڈھونگ رچا تے ہیں ۔اور یہاں ممّی پپّا نے مجھے مجبور کر کر دیا تھا کہ لڑکی ہینڈسم اوراچھی ہے۔اس لیے جلدی میں یہ بے وقو فی کر بیٹھا۔‘‘(پرا نی تہذیب۔۱۰۹)
“وہ ملک ملک گھوم کر ڈالر اور پونڈ اور ریال کما نے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتا رہا۔مگر اس کی غیر مو جودگی میں یہ دینار و درہم وطن میں کیا گل کھلاتے رہے وہ سمجھ ہی نہ سکا اور سمجھنے تک دیر ہو چکی تھی۔بچوں کے نزدیک دوستوں کے مقا بلے میں ماں باپ کی کو ئی اہمیت نہیں تھی۔بیوی کے مشا غل کچھ اور ہی ہو گئے تھے۔‘‘(’بے چارہ‘۔ص۴۳)
علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے سپوت و شا عرٗ ضیا قادری صا حب نے ڈا کٹر محمد عظیم الدین بخش کی مذکو رہ تصنیف پر اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہو ئے بجا طور پر اور فی ا لبدیہہ کہا تھا :
اہلِ دکن کو ناز ہے اردو کلیم ہے فکرِ عظیمٗ اصل میں فکرِ عظیم ہے