سید احتشام حسین
آج مجھے بیس سال پہلے کی کچھ باتیں یاد آ رہی رہیں۔ سجاد ظہیر کو میں نے پہلے ’’بنّے بھائی‘‘ ہی کی حیثیت سے جانا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر کوئی بارہ تیرہ سال کی تھی کہ میرے دُور کے لیکن بنّے بھائی کے بعض قریبی رشتہ داروں کے یہاں نہ صرف ان کا بلکہ ان کے دوسرے بھائیوں اور عزیزوں کا ذکر آیا۔ دیہات کی کسی قدر بجھی بجھی اور سست رفتار فضا میں لکھنؤ میں رہنے والے پڑھے لکھے عزیزوں کا ذکر ہوا کے خوش گوار جھونکوں کی طرح فرحت پیدا کرتا تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد یہ ذکر صحیح غلط نئی معلومات کے ساتھ برابر آتا رہتا ۔ کبھی معلوم ہوتا کہ بھائیوں میں سے کوئی ولایت سے پڑھ کر آیا ہے، کوئی تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا ہے، کسی کو بڑی ملازمت مل گئی ہے، کوئی بیرسٹری میں نام پیدا کر رہا ہے۔ کسی کی شادی ہوئی ہے۔ پھر ایک بڑا وقفہ گزرا، اوروں کے ساتھ بنّے بھائی کا ذکر کم ہوتا، تعلیم کی وجہ سے میرا رابطہ بھی دیہات سے کم رہ گیا تھا، اس لئے میں شاید وہاں کے تذکروں سے بے خبر بھی رہنے لگا تھا۔ لیکن پھر جو اُن کا ذکر سنا تو ایک دوسرے ہی انداز میں ۔ وہی عزیز جو’’ بنّے میاں‘‘ کا ذکر محبت اور فخر سے کرتے تھے۔ ناگواری اور نفرت سے کرنے لگے، نئی تعلیم پر جاوبے جا اعتراضوں کے ساتھ اپنے بچوں اور قرابت داروں کو لا مذہبیت اور آزاد خیالی سے محفوظ رہنے اور شریف خاندانوں کی عزّت و غیرت برقرار رہنے کی دعائیں مانگنے لگے۔ معلوم ہوا ہے کہ افسانوں کا کوئی مجموعہ ’’انگارے‘‘ شائع ہوا ہے جس کے روحِ رواں سجّاد ظہیر ہیں اور جس میں مذہب اور اخلاق کی بیخ کنی کی گئی ہے۔
اس وقت میں الہ آ باد میں انٹر میڈیٹ کا طالب علم تھا اور اپنے بہت ہی قدامت پسند ماحول کے باوجود تحریک آزادی سے متاثر اور زندگی کے سمجھنے کا متمنی۔ میرے لئے اس خبر میں گھبراہٹ، خوف اور ایک طرح کے چھپے ہوئے فخر کے جذبات کی آمیزش تھی۔ اس وقت تو یہ کتاب پڑھنے کو نہیں ملی لیکن یہ خیال آزادی کی جد و جہد کے پس منظر میں ذہن میں جم گیا کہ یقینا یہ کوئی ایسی کتاب ہو گی جس سے برطانوی سامراج کے مفاد کو بھی نقصان پہنچتا ہوگا۔ پوشیدہ خوشی اس بات کی تھی کہ کتاب کا تعلق ایک ایسے شخص سے ہے جسے میں نہ جاننے کے باوجود اپنا عزیز کہہ سکتا ہوں، پڑھنے کی فکریوں تھی کہ افسانوں میں ایسی باتیں کس طرح لکھی جاتی ہیں جن کے ممنوع قرار دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ غرض کہ شوقِ مطالعہ اور جذبہ ٔ آزادی کی اُمنگ نے انگارے اور سجاد ظہیر کے لئے ذہن میں ایک جگہ پیدا کر دی۔
یونیورسٹی میں دوسال گزارنے اور ذہنوں کی وسیع تر دنیا میں داخل ہونے کے بعد ایسی کتابیں پڑھنے اور ایسے لوگوں سے ملنے کی خواہش اور تیز ہو گئی جن سے خاص طرح کے لوگ متنفر یا خوفزدہ تھے۔ چنانچہ بہت سا وقت سیاسی جلسوں، جلوسوں ، لائبریریوں اور کتب خانوں میں صرف ہونے لگا اور جب جنگ آزادی شباب پر تھی، معلوم ہوا کہ جو لوگ پنڈت نہرو کے مشیر خاص ہیں وہ سب کے سب اسی الہ آ باد میں موجود ہیں، اس میں ڈاکٹر اشرف، ڈاکٹر احمد، ڈاکٹر لوہیااور سجاد ظہیر کے نام خصوصیت سے لئے گئے۔ اپنی کم آمیزی کی وجہ سے میں فوراَ تونہ مل سکا۔ لیکن ۱۹۳۵ء میں، جب ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی تو ڈاکٹر اعجاز حسین اور پروفیسر رگھوپتی سہائے فراقؔ کے وسیلے سے ان سب سے ملنے کی راہیں کھل گئیں۔
پہلے پہل میں نے بنّے بھائی کو ان کے والد سر وزیر حسن مرحوم (چیف جسٹس ہائی کورٹ الہ آباد) کے ساتھ ہائی کورٹ جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس وقت وہ ایک قیمتی سوٹ میں ملبوس تھے اور ہائی کورٹ کے ایک وکیل معلوم ہوتے تھے۔ لیکن چند ہی دنوں کے بعد ایک سیاسی جلسے میں وہ کھدّر پوش کانگریسی نظر آئے اور پھر میں نے انہیں کبھی وکیل کے روپ میں نہیں دیکھا۔ ادبی جلسوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں، گھر پر ان کی لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور اردو کی بڑی اہم کتابیں نظر آئیں اور باتیں کر کے اندازہ ہوا کہ ان کا مطالعہ بے حد وسیع اور ذوق ادب بے حد لطیف ہے، انہیں ہندوستان ہی نہیں عالمی ادب، تہذیب اور تاریخ سے بھی گہری دلچسپی ہے اور اپنے ادب کا سر اونچا کرنے کی زبردست لگن انہیں بے چین رکھتی ہے۔ ان دنوں کے دو ادبی جلسوں کی یاد آج بھی تازہ ہے۔ ایک جلسے میں پنڈت رام نریش ترپاٹھی نے عوامی تیوہاروں اور لوک گیتوں پر ایک بڑی دلچسپ تقریر کی اور اپنی کتاب کویتا کو مودی کے لئے نظمیں فراہم کرنے میں جن دشواریوں کا سامنا ہوا تھا ان کو بڑے دلکش انداز میں بیان کیا تھا۔ دوسرا جلسہ وہ جس میں سجاد ظہیر نے اپنا ڈرامہ ’’بیمار‘‘ پڑھا تھا۔ یہ ترقی پسند تحریک کا ابتدائی دور تھا۔ اور مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم زندگی کے کسی طلسمی دور میں داخل ہو رہے ہیں، ایک ایسے دَور میں جو سیاسی جد و جہد اور خواب آزادی سے ہم آہنگ ہے اور اس نئی دنیا میں بنے بھائی کی ذات ایک روشنی کے مینار کی سی نظر آتی تھی۔ ۱۹۳۶ء کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔
پنڈت جواہر لال نہرو فیض پور کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اپنی مصروفیتوں کی وجہ سے انہیں اس کا وقت نہیں ملا تھا کہ وہ اپنا خطبۂ صدارت لکھیں۔ صرف چند دن رہ گئے تھے۔ قریب قریب سطروں کے سترہ فل اسکیپ سائز پر ٹائپ کیا ہوا خطبۂ صدارت انگریزی میں چھپنے کے لئے دے دیا گیا اور یہ طے ہوا کہ دو(۲ )دن کے اندر اس کا اردو اور ہندی ترجمہ بھی ہو اور چھپ کر مل بھی جائے تاکہ کوئی شخص اسے وقت پر فیض پور پہنچا دے۔ اردو ترجمے کے لئے ڈاکٹر اشرف مرحوم اور ہندی کے لئے ہمارے موجودہ وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتخاب ہوا جو اس وقت غالباََ لکھنؤ سٹی کانگریس کمیٹی کے سکریٹری تھے۔ ڈاکٹر اشرف کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لئے قرعہ فال سجاد ظہیر کے نام پڑا۔ صرف رات بھر کا وقت تھا، صبح کو ترجمہ چھپنے کے لئے دینا تھا۔ بنّے بھائی کو کسی طرح خیال ہوا کہ مجھے بھی مدد کے لئے ساتھ لیں۔ چنانچہ وہ یونیورسٹی آئے ، مجھ سے ملاقات نہیں ہوئی تو یہ پیغام چھوڑ کر چلے گئے کہ میں جلد سے جلد سے ان کے یہاں پہنچ جاؤں، چنانچہ میں شام کو جب ان کے یہاں پہنچا تو صورت حال کا علم ہوا اور یہ طے ہو ا کہ رات بھر میں ترجمہ ختم کر لیا جائے ۔بنّے بھائی، میں اور نور الحسن (صدر شعبۂ تاریخ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جو اس وقت کالج کے طالب علم تھے) صفحات تقسیم کر کے جم گئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب صبح کا دھندلکا چھا رہا تھا اس وقت ہم نے ترجمے کی آخری سطریں پوری کر لی تھیں۔ اس سلسلے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے شاستری جی قریب ہی دوسرے کمرے میں بیٹھ گئے اور چونکہ وہ اردو سے بھی اچھی طرح واقف تھے اس لئے ہمارے ترجمے کے اوراق سامنے رکھ رکھ کرہندی میں لکھتے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ چند دنوں بعد بنّے بھائی نے بتایا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کو ہم لوگوں کا ترجمہ بہت پسند آیا۔
ان دنوں بنّے بھائی نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی تنظیم کے سلسلے میں بار بار الہ آباد سے باہر سفر کئے۔ لکھنؤ میں پہلی کانفرنس کی جس میں مرحوم پریم چند نے صدارت کی تھی، میں امتحان کی وجہ سے اس میں شریک نہ ہو سکا۔ کچھ ہی دن بعد ۱۹۳۷ء میں شمالی ہند کے ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس الہ آباد میں ہوئی جس میں پنڈت جواہر لال نہرو، اچاریہ نریندر دیو، جوش ملیح آبادی، نرالا جی، جے پرکاش نرائن اور بہت سے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ سب کچھ وہ ایسی لگن اور ایسے تنظیمی انہماک سے کرتے تھے کہ ہم حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ میں طبعاََ کم آمیز ہوں اس لئے میں ایسے مواقع اکثر کھو دیتا تھا، جب ان کے توسط سے ہندی، اردو، انگریزی، بنگلہ اور دوسری زبانوں کے ادیبوں سے ملنے میں آسانیاں پیدا ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ بنے بھائی آہستہ آہستہ اس جدید ادبی تحریک میں ایک مرکزی جگہ کے مالک ہو گئے، اوروہ تمام لکھنے والے جنھیں تھوڑا بہت بھی ادب اور زندگی کے تعلق کا شعور تھا، ان کے قریب آتے گئے، ان تمام باتوں کی تفصیلی روداد ان کی تصنیف ’’روشنائی‘‘ میں بڑے دل کش انداز میں بیان کی گئی ہے، انہیں دہرانا مقصود بھی نہیں ہے، صرف یہ کہنا کہ ان کی ادبی صلاحیتیں ، ان کا سنجیدگی سے سوچ سوچ کر مسائل پر اظہار خیال کرنے کا انداز ان کا دلکش اسلوب نگارش ، ان کا ادب اور سیاست کے رشتے پر زور دینے کے باوجود ادبی نقطۂ نظر، یہ ساری باتیں ایسی تھیں جن سے ان کے وسیع مطالعہ اور بیدار ذہن کا پتہ چلتا تھا جس سے ہم سب کا متاثر ہونا فطری تھا۔
۱۹۳۸ء میں ، میں لکھنؤ پہنچ گیا بنّے بھائی کبھی کبھی وہاں آتے تھے اور وہاں کی ادبی محفلوں میں جان ڈال دیتے تھے۔ ان دنوں وہاں سبھی تھے، ڈاکٹر علیم، پروفیسر احمد علی، ڈاکٹر رشید جہاں، محمود الظفر، مجاز، سردار جعفری، سبط حسن، حیات اللہ، سلمان احمد علی ۔ اس سے لکھنؤ کی ادبی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد بنّے بھائی کی شادی ہوئی اور کچھ زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی اور ہم نے سنا کہ بنّے بھائی اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے جیل بھیج دئیے گئے۔ جس کی یاد گار ان کے خطوط ’’نقوشِ زنداں‘‘ اور چند وہ مضامین ہیں جو انھوں نے ’’نیا ادب‘‘ کے لئے جیل میں سے لکھے۔
اس کے بعد سے کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ کہیں جم کر ایک جگہ رہتے اور جہاں بھی رہے میں ہمیشہ ان جگہوں سے دور رہا، کبھی بھولی بھٹکی ملاقاتیں، کبھی بھولے بھٹکے خط، یہی وہ رشتہ رہ گیا ، لیکن اس زمانے کے علاوہ جب وہ پاکستان میں تھے کوئی وقت ایسا نہیں گزرا کہ ان سے دوری محسوس ہوئی ہو، یہ رابطہ کچھ تو رضیہ آپا کی وجہ سے قائم تھا، اور کچھ ان علمی اور ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے جن میں ان کی عدم موجودگی کے باوجود ان کی روح جھلکتی نظر آتی تھی۔ انہوں نے ہندوستان کے ادبی ارتقاء میں اپنی علمی اور تنظیمی صلاحیتوں سے جو روح پھونکی ہے، اسے ادب اور خاص کر اردو ادب کا کوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ پندرہ سال پہلے میں نے ان پر ایک مضمون لکھتے ہوئے حسب ذیل جملے لکھے تھے، آج بھی ان یادوں کو انہیں جملوں پر ختم کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ ان کی صداقت آج بھی ماند نہیں ہوئی ہے۔میں نے لکھا تھا:
’’ہندوستان اور پاکستان کی ترقی پسند ادب کی تحریک کو جس فردِ واحد کی تنظیمی اور ادبی صلاحیتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ سجاد ظہیر ہیں۔ ظاہر ہے کہ اجتماعی تحریکوں اور اداروں کو بھی افراد کی رہنمائی اور جوش کی ضرورت ہوتی ہے (حالانکہ افراد کو طاقت جماعت ہی سے حاصل ہوتی ہے ) اس لئے ترقی پسند تحریک کی بنیاد ڈالنے ، اس پر مضبوط عمارت کھڑی کرنے، عمارت کو آراستہ کرنے، اس کے بسنے والوں میں اس کی محبت اور حفاظت کا جذبہ پیدا کرنے اور اس کے حدود میں اضافہ کرنے کا کام زبردست تعمیری صلاحیت چاہتا ہے۔ جب اس میں سجاد ظہیر کے دوسرے سیاسی اور علمی کارناموں کو جوڑ لیا جائے تو ان کی شخصیت کا وہ خاکہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے جس سے فکر و عمل کے ایک مخلص رہنما کے خد و خال بنتے ہیں۔‘‘