اُردو زبان غالباً عالمی زبانوں میں وہ سب سے مقبول واسطہ اظہار ہے جس کے نمائندہ شاعروں میں ایک طویل فہرست ایسے مشاق و ممتاز شعرا پر مشتمل ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں لیکن جنھیں اردو میں درجہ افتخار حاصل ہے۔ فیاضؔ وردگ بھی ایک ایسے ہی شاعر ہیں جن کے کلام میں کوئی اجنبیت کا شائبہ نہیں ملتا بلکہ ان کا کلام بہت سے اردو والوں سے زبان و بیان کے معاملے میں بہتر اور صاف تر ہے۔
فیاضؔ کی شاعری بنیادی طور پر ایک ایسے فرد کی شاعری ہے جو دیار غیر میں رہ کر وطن سے صادق اور خالص طور سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ شاعری مسافرت، مہاجرت اور کار جہاں کے دورانیہ میں ہم سفروں سے تعلقات کی آئینہ دار ہے۔ جو وطن میں ہوتے ہوئے واقعات، حادثات اور انقلابات کا درد مند اظہار بھی ہے۔ وطن دوستی فیاضؔ کی شاعری کو ہم عصر زندگی سے قریب تر اور منسلک رکھتی ہے۔ وطن کے بارے میں انھوں نے بالکل صریح طور پر محبت میں ڈوب کر کہا ہے۔ ان کی باتیں بھی سنیں:
لوگ کچھ معصوم سے مارے گئے اس شہر میں
کرنا ہو گا قاتلوں کو سامنا تعزیر کا
کہ اب تو اہل سیاست بھی ہوش مندی سے
نئی امنگ سے معمور اپنی ذات کریں
…
خو کا پشتون ہوں میں دل کا مسلمان جاناں
مجھ کو آتا ہے نبھانا مرا پیماں جاناں
…
یہ چمن سینچا مرے آبا نے اپنے خون سے
اس لیے تازہ گلوں کی بھی ہے صورت دھوپ میں
فیاضؔ راست گفتگو کو اہمیت دیتے ہیں اور ترسیل کو مقصد سخن مانتے ہیں، اس لیے تشبیہ سے استعارہ اور علامت کی جانب رجوع نہیں کرتے۔ ان کے پسندیدہ موضوعات ان کی ذات کی شافیت سے مملو ہیں، وہ اپنی شاعری میں ایک ایسے فرد کی طرح ابھرتے ہیں جو وفا کو اولیت دیتا ہے۔ منافقت اور سیاست کو دوستی کے لیے زہر سمجھتا ہے، رومان میں شدت التفات کے سبب غرق ہو جاتا ہے، ترچھی نگہہ سے بھی رنجیدہ ہو جاتا ہے، اقدار کی پامالی سے ملول بھی ہوتا ہے اور نعرہ حق بلند کرنے سے روگردانی نہیں کرتا۔ حاسدوں سے مبارزت طلبی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ ہم سفری، دوستی، آشنائی اور وفا و رقابت کے تناظر میں یہ اشعار دیکھیں:
میں کہ قابل ہی نہ تھا تیری محبت کے تو پھر
کیا گلہ ہے جو نظر آئے ہو اغیار کے ساتھ
…
میلی آنکھوں سے وہ دیکھے ہمیں، جرات اس کی؟
دیکھنا ہم اسے چنوائیں گے دیوار کے ساتھ
…
ہم نے جس جس کی ہم نوائی کی
اس نے ہم سے ہی بے وفائی کی
…
اپنی زلفوں کی سیاہی کو بڑھا دیجیے گا
روشنی مجھ کو نہیں کوئی گوارا جاناں
گویا شعر ان کے منتخبہ موضوعات اور فکری در و بست کی راست تصویر ہے۔ فیاض نے غزل اور قطعہ دونوں ہی فارم میں شاعری کی اور دونوں ہی میں ان کا ڈکشن اور طرز بیان یکساں ہے، وہی لب و لہجہ وہی لفظیات اور مماثل موضوعات۔ ان کی شاعری ایک ایسے سخن گو کا کلام ہے جو ادبی مزاج دانی میں تربیت یافتہ ہے۔ جس نے باقاعدہ استاد سخن سے تلمذ کیا ہے۔ انھیں بحور، اوزان، ردیف و قافیہ اور سلاست کے التزامات کا ادراک ہے، وہ محتاط رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں سقم تقریباً ناپید ہیں، اسی لیے وہ بہتر راہوں کی طرف رواں دواں ہیں، زودگو ہو کر بھی حدود سے باہر قدم نہیں رکھتے۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ وہ طرحیہ شاعری کی جانب خاص جھکاؤ رکھتے ہیں۔ انھوں نے کئی مروجہ زمینوں میں اچھے خاصے شعر کہے ہیں۔ اسی لیے پرانی زمینوں میں زور سخن دکھاتے ہوئے وہ خوب لگتے ہیں۔ جدید زندگی کے پس منظر میں مثلاً:
میں بات دل کی بتاؤں اگر برا نہ لگے
نہ کوئی حرف چھپاؤں اگر برا نہ لگے
…
بہت کٹھن ہے مگر دور یہ بھی گزرے گا
بس اتنی بات ہے، وعدے سبھی نبھاتے رہو
…
دشت و صحرا چھان کر اور سر پہ مٹی ڈال کر
میں بھی مجنوں ہو گیا ہوں اطلاعاً عرض ہے
…
ہم سوختہ حالت سہی اور چاک گریباں
ہم چادر غربت میں بھی پائندہ رہیں گے
فیاضؔ نے جو بالراست اظہار کا راستہ منتخب کیا ہے وہ اس لیے کٹھن اور آزمائش طلب ہے اور اس سفر میں ترقی کے امکانات روشن ہیں۔
ان کا ایک بے حد مرغوب موضوع مدحتِ اہلِ بیت ہے اور اُس پس منظر میں اُنھوں نے کئی تلمیحاتی شعر کہے ہیں، اُن کی یہ ارادت اور نسبت اُن کی مثبت سوچ کا منبع ہے۔ اس سلسلہ میں چند اشعار نذر ہیں:
کربلا کی دھوپ میں ابن علیؓ نے یہ کہا
آ گئی اللہ کی رحمت شہادت دھوپ میں
…
بھولیں نہ آپ جشن ولا میں غم حسینؓ
اس غم میں بے قرار محمدؐ کی ذات ہے
…
جب بھی کسی یزید نے یاں سر اٹھا لیا
اہلِ ولا نے سر کو سناں پر اٹھا لیا
میں نے محسوس کیا ہے کہ جوشِ بیاں کی روانی میں کبھی اُن کے اشعار میں بحر اور وزن سے لغزش ہوتی نظر آتی ہے اگر وہ کلام کی نظر ثانی کر لیں تو یہ چھوٹی موٹی فروگزاشتیں بھی رفع ہو جائیں۔
فیاضؔ کی شاعری ان کے مثبت نظریہ حیات کا آئینہ ہے اور اس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ امید کہ وہ اس طرح تخلیق سخن کرتے رہیں گے اور ندرت اور نئے اسالیب کی جانب بھی رواں ہوں گے۔
فیاضؔ کی شاعری کو پڑھتے ہوئے بے ساختہ شاذؔ تمکنت کا ایک مصرع یاد آتا ہے:
غزل کہنے سے جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے!
٭٭٭