ڈاکٹر میری امی کیسی ہیں۔اس نے روتے ہوئے پوچھا۔ایم ریلی سوری ہم نے بہت کوشش مگر ہم انہیں نہیں بچا سکے ڈاکٹر کہتے ساتھ چلے گئے ایسا نہیں ہو سکتا امی مجھے نہیں چھوڑ کر جا سکتی۔لایبہ روتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگی ۔امی آنکھیں کھولیں آپ کی لائبہ آپ کو بلارہی ہے آپ یوں مجھے نہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتی امی اٹھو وہ اونچا چلائی اور پھر ان کے سینے پر سر رکھ کر بہت روئی ۔کافی دیر وہ یوں ہی روتی رہی اور پھر ایمبولینس میں گھر لائی گھڑی نو بجا رہی تھی اور بلکل بت سی بنی رباغہ محترمہ کو دیکھ رہی تھی۔جنازہ اٹھانے کا وقت ہو گیا ہے روبینہ نے کہا۔نہیں نہیں کہیں نہیں جائیں گی میری امی نہیں لے کر جا سکتے آپ انہیں۔وہ چیخی۔ لائبہ صبر کروں یوں تماشا نہ لگاؤ۔ روبینہ غصے سے کہنے لگی تانیہ تم ہی انہیں کہو میری امی کو نہ لے کر جائیں۔ وہ تانیہ کے پاس آئی۔صبر کروں انہیں جانا ہوگا۔تانہی نے اسے گلے لگایا وہ اس کے گلے کر رونے لگی آج رباغہ کو گزرے تین دن ہو گئے تھے اور اس میں کافی حد تک صبر بھی آرہا تھا وہ پیکنگ کررہی تھی جب روبینہ آئی کب تک نکلنا ہے کراچی کے لیے۔ اس نے پوچھا بس آدھے گھنٹے میں۔ لائبہ نے کہتے ساتھ بالوں سے پونی اتارتی اور باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔شکر ہے اس منہوس سے جان چھوٹے گی ۔ روبینہ ناگواری سے اسکی پیٹھ دیکھتی چلی گئی اور پھر کمرے سے چلے گئے
کیا کررہی ہیں دادی۔سمیر اور مہد ندا کے پاس آئے جو ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ آج کیسے میرا خیال آ گیا۔ ندا نے خفگی سے پوچھا اوہ میری پیاری میری کیوٹ دادی جان بزی تھا اور آپ جانتی ہیں میں آپ سے کتنا پیار کرتا ہوں۔سمیر نے انہیں گلے لگایا۔اب اتنی تعریف کردی ہے میں نہیں ہوتی ناراض ۔ندا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سمیر تم شادی کر لو میں تمہارے بچوں کے ساتھ کھیلا کروں گی۔انہوں نے خوشی سے کہا۔نو نیور کبھی نہیںی ںسمیر چوہدری کبھی شادی نہیں کرے گا ۔اس نے صاف انکار کیا۔دادی انکی چھوڑیں میری کروادیں آپ میرے بچوں سے کھیل لیجیے گا۔ مہد نے کہا۔ چپ کر پہلے تمہارے بھائی کی ہوگی پھر تمہاری۔ ندا نے اسکا کان کھینچا۔پھر بھائی کو کہیں جلدی کر لیں۔ مہد پھر بھی بعاز نہ آیا پھر بیٹا بیٹھا رہو تم کیونکہ میں نے تو شادی نہیں کرنی۔سمیر نے بتایا۔ سیم مہد کھانا لگ گیا ہے آجائیں۔سمائیا کی آواز سے وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پر آئے ندا بھی ایل ای ڈی بند کرتی ان دونوں کے ساتھ بیٹھی۔
اللہ حافظ ممانی میں چلتی ہوں۔لائبہ نے کہا۔ ہاں ٹھیک ہے۔روبینہ کہتی کچن کی طرف بڑھ گئی اور وہ خاموشی سے چلی گئی کچھ دیر میں ریلوے اسٹیشن میں موجود تھی ۔بھائی ایک کراچی کی ٹکٹ دے دیں۔وہ ٹکٹ والے سے کہنے لگی۔ اس نے ٹکٹ دی کتنے پیسے لائبہ نے پوچھا۔900 ۔ٹکٹ والے کو پیسے دیے اور پھر ایک بنچ پر بیٹھ کر بس کا انتظار کرنے لگی اسے رباغہ محترمہ کی یاد آئی ۔(جس دن میری بینک میں جاب لگ گئی اس دن دیکھیے گا سب سے پہلا آپ کا علاج کرواؤں گی وہ بھی مہنگے ہسپتال سے۔لائبہ نے بتایا۔ انشاء اللہ اللہ تمہیں کامیاب کرے آمین۔رباغہ نے مسکراتے ہوئے دعا دی ) لائبہ کی آنکھ میں نمی آ گئی تبھی ٹرین پٹری پر آ کر رکی سب لوگ سوار ہوتے گئے وہ بھی سوار ہوئی اس کے ساتھ تین عورتیں بیٹھی تھی وہ خاموشی سے باہر دیکھنے جب سب لوگ سوار ہو گئے ٹرین چلنا شروع ہو گئی۔
ڈیڈ ۔سمیر ان کے پاس آیا بولو۔انہون نے اسے دیکھا۔ کتنے ہیڈسم لگ رہا ہے اور لگ رہا ہے آپ نے سر پر مالش کی جو اتنی چمک رہی ہے۔سمیر بول رہا تھا جب مہد نے بیچ میں آکر مذاق بنایا سمیر اسے غصے سے دیکھنےلگا۔سوری۔ مہد کہتے ساتھ سیدھا کھڑا ہوا۔کیا ہے۔ قیصر صاحب نے پوچھا۔وہ آپ کا کریڈٹ کارڈ چاہیے تھا مہد نے ان کے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا سمیر جیب سے والٹ نکالتا اس میں سے کریڈٹ کارڈ نکالتا بھاگا۔یہ کیا بدتمیزی تھی۔ انہوں نے پوچھا۔بدتمیزی نہیں ہمارا پیار تھا محبت ہےلو یو۔کہتے ساتھ چلے گئے۔یہ کبھی نہیں سدھر سکتے۔وہ نفی میں سر ہلاتے اپنا سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
وہ کراچی کے اسٹیشن میں پہنچ گئی تھی ابھی وہ اتری کی تبھی ایک رکشے والا اسکی طرف آیا باجی کہاں جانا ہے۔اس نے پوچھا۔بھائی مجھے اس پتے پر چھوڑ دیں گے۔ لائبہ نے اسے چٹ دی باجی نام بتائیں۔ رکشے والے نے پوچھا کورنگی ہے کوئی۔ لائبہ نے بتایا۔ باجی یہ تو بہت مشہور علاقہ ہیں آپ بیٹھیں۔ اس رکشے والے نے اسکا سمان اٹھایا وہ بیٹھ گئی کچھ ہی دیر میں اس رکشے والے نے اسے کورنگی اتار دیا وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی جب ایک بچے پر نظر گئی بیٹا بات سنو۔ لائبہ نے بچے کو بلایا۔جی آپا۔بچہ اسکے پاس آیا۔فیاض بلوچ کا گھر کون سا ہے۔ اس نے پوچھا۔ باجی ہی براؤن گیٹ والا بچہ کہتے ساتھ چلا گیا وہ اس گھر کی طرف بھری اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ کون تبھی ایک عورت کی آواز آئی اور اسنے دروازہ کھولا اور نظر اس معصوم لڑکی پر گئی ۔
تم کون ہو۔ شہناز نے پوچھا۔جی یہ فیاض بلوچ کا گھر ہے۔ لائبہ نے سوال کیا۔ جی ۔ انہوں نے بتایا۔کون ہے شہناز۔تبھی فیاض صاحب آئے لائبہ کی نظر ان پر گئی ۔تمہارا پوچھ رہی۔اس نے بتایا۔اچھا تم اندر جاؤ مہوش بلارہی۔ فیاض نے کہا وہ چلی گئی۔جی کون آپ میں نے نہیں پہچانا ۔ فیاض نے پوچھا۔ پہچانے گے بھی کیسے ایک سال کی تھی جب چھوڑ کر چلے گئے مجھے اور میری ماں کو رباغہ یاد تو ہوں گی آپ کو۔ لائبہ غصے سے کہنے لگی
۔ کیا ہوا کون ہے۔ شہناز دوبارہ آئی۔میرے بھائی کی بیٹی ہے یہ۔ فیاض نے جھوٹ کہا لائبہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی تو یہ یہاں کیا کرنے آئی ہے۔ شہناز نے پوچھا ۔ یہ یہاں میرے پاس آئی ہے یہی رہے گی آؤ بیٹا اندر آؤ۔ فیاض نے اسکا سمان اٹھایا اسے اندر لائے ۔اسلام و علیکم مہوش کو دیکھ کر اسنے سلام کیا۔وعلیکم اسلام۔مہوش نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ یہاں کیوں رہے گی۔شہناز نے پوچھا۔ کیونکہ وہ اس شہر میں میرے علاوہ کسی کو نہیں جانتی ۔فیاض نے بتایا ۔ وہ چپ ہو گئی۔ کھانا لگا دیا ہے آجائیں سب۔مہوش نے بولا تو شہناز اور فیاض آٹھ کر میز پر آ گئی
۔ ارے لائبہ باجی آپ بھی آئے۔ اس نے لائبہ کو کہا وہ چپ چاپ آگئی اور کھانا کھانے لگ گئی۔اسے کمرا دیکھا دیں کوئی۔ فیاض نے شہناز سے بولا۔ دیکھو اس گھر میں ہم تین لوگ رہتے ہیں اور دو کمرے ہیں ایک میں میں اور تم اور دوسرے میں مہوش تو اب یا تو یہ اسٹور میں یا یہی صوفے پر سو جائے۔شہناز نے منہ بنا کر جواب دیا۔میں یہی سو جاؤ گی۔لایبہ نے کہا ارے کیوں میرے کمرے میں بیڈ ہے میں ویسے بھی اکیلے سوتے ہوئے ڈرتی ہوں آپ میرے ساتھ رہیں گی میں آپکا سمان اپنے کمرے میں رکھ دیتی ہوں۔ مہوش نے مسکراتے ہوئے سمان اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے آئی شہناز غصے سے چلی گئی فیاض بھی خاموشی سے انکے چلے گئے۔
آج سنڈے ہیں دادی آج پورا دن آپ کا۔ سمیر ان کے پاس آیا۔میرا ہے پھر لڈو کھیلوں تم دونوں لڈو کے بعد پھر ہم لوگ کرکٹ کھیلیں گے پھر مووی دیکھیں گے۔ ندا نے خوشی سے بتایا۔اور کوئی حکم ۔مہد نے پوچھا۔نہیں نہیں بس یہی ۔ ندا نے کہتے لڈو کھولی۔مام آپ بھی آج کوئی کام نہیں کریں گی ہمارے ساتھ انجوائے کریں گے چلیں چلیں کوئی بات نہیں سننی۔ سمیر اسے کھینچ کر لے آیا وہ بولتی رہی مگر سمیر اسکی نہیں سنی
۔وہ سب لڈو کھیلنے لگے قیصر خوشی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ دادی آپکی گوٹ kill ہو گئی ۔سمیر نے کہتے ساتھ ندا کی گوٹ اٹھائی۔نہیں یہ چیٹنگ ہے سیم میری مت مارو۔ندا نے اداسی سے بولا۔کوئی چیٹنگ نہیں کی میں نے گیم از گیم۔سمیر نے ہنستے ہوئے کہا مہد پر نظر رکھیں یہ چیٹنگ کرتا ہے۔سمیر نے ندا کو کہا نہیں میں نے کوئی چیٹنگ نہیں کی میری صرف ایک بچ گئی ہے۔مہد نے معصومیت سے بتایا۔اچھا جی ہماری ایک بھی نہیں لگی اور تمہارے تین پگ گئی رکھوں ایک بھی نہیں لگی تمہاری نو چیٹنگ۔سیم نے بوٹی لے کر اسکے گھر میں رکھی وہ منہ بنا کر کھیلنے لگا۔
صبح اسکی آنکھ کھلی تو اپنی بال کو ٹھیک کرنے لگی تبھی مہوش کپ ہاتھ میں لائی۔یہ لیں آپی چائے۔ اس نے اسکے ہاتھ میں تھمائی۔تمہیں کیسا پتہ میں صبح صبح چائے پیتی ہوں۔لائبہ نے سائڈ ٹیبل پر رکھ کر پوچھا۔ مجھے لگا۔ مہوش مسکراتے ہوئے اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔امی کے بعد ایک تم مجھے اپنی سی لگی ہو۔ لائبہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔مجھے شروع سے تھا میری کوئی بہن کو جس سے میں ہر چیز شئیر کروں اس لیے میں نے جب کل آپ کو دیکھا تو آپ مجھے اچھی لگی۔مہوش نے بتایا وہ مسکرائی۔میں منہ ہاتھ دھو لوں ۔ لائبہ نے کہتے ساتھ بالوں کو پونی اور باتھروم گئی۔ کچھ دیر بعد فریش ہو کر آئی اور چائے پینے لگی۔ تم تو بہت مزے کی چائے بناتی ہو۔ لائبہ نے دل سے تعریف کی۔ شکریہ۔ مہوش مسکراتے ہوئے بولی۔
سیم کہاں جارہے ہو تم۔سمائیا اس سے پوچھنے لگی۔ کہیں نہیں جم جارہا ہوں مہد کے ساتھ۔ اس نے بتایا۔مہد اب تم پڑھائی پر دھیان دوں باقی مہینہ رہ گیا تمہارے پیپرز میں۔سمائیا نے بولا۔مہینہ پڑا ہے آپ کا بیٹا دو دن میں پوری کتاب رٹ کے اتنا لائق ہے۔ مہد نے بتایا۔ جی معلوم ہے اس لیے آئی کام میں صرف پاسنگ نمبر لیے تھے۔سمائیا نے طنز کیا۔ بھائی دیکھیں مام مجھے طعنے مار رہی ہیں۔ مہد نے بتایا۔ تو جواب دے دے۔وہ کہتے ساتھ چلا گیا۔اب دیکھیے گا میں ٹاپ کروں گا وہ الگ بات ہے نیچے سے۔کہتے ساتھ بھاگ گیا سمیر کا قہقہہ چھوٹا۔بس راج کرنا آتا اپنا ندا نیچے آکر کہنے لگی۔میری اولاد ہے میں راج نہ کروں تو کون کرے گا ۔ سمائیا کہاں چپ رہنے والی تھی۔تمہارے سے زیادہ حق میرا دادی ہوں ان کی میں نے تو آج تک کوئی سوال نہیں کیا۔ ندا کہتے ساتھ ٹی وی چلانے لگی۔آپ سے بات کرنا ہی فضول ہے مجھ سے بات مت کیجیے گا آئندہ۔ سمائیا کہتے ساتھ کچن میں چلی گئی اور وہ منہ بنا کر ٹی وی دیکھنے لگی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...