فروری کا آخری ہفتہ چل رہا تھا ۔۔ سورج کی کرنیں ہر سو پھیل رہیں تھیں ۔۔ باد صباء اپنے رخ پر چلتے ہوئے ،پھولوں کی کلیوں سے اٹکھلیاں کرتے ہوئے بہار کے موسم کی خبر دے رہی تھی
زوالقرنیں ہاؤس میں آج گزرے دنو ں سے زیادہ ہلچل تھی ۔۔سمیہ بیگم کی ملازموں کو ہدا یات دیتیں آوازیں ہانیہ کے کمرے تک پہنچ رہیں تھیں
ہانیہ اپنے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے خلا میں دیکھے جا رہی تھی ۔۔آنکھیں ہر جذبے سے اری دکھائی دے رہوں تھیں آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہیں تھا ۔۔
دروازے پر دستک ہوئی تو تو ہانیہ واپس اپنے خیالوں سے واپس آئی ۔۔
"ہانیہ !!بچے جلدی سے آ کر ناشتہ کر لو پھر دس بجے تک ہمیں پارلر کے لئے بھی نکلنا ہے اور وہاں سے شاہ ویلا ہی جانا ہے "۔سمیہ بیگم۔ ہدایات دیتے ہوئے اندر آئیں ۔۔
جی اچھا ہانیہ کہ کر اٹھ بیٹھی ۔سمیہ بیگم اس کی زرد سی شکل دیکھ اس کے پاس آ بیٹھیں
"ہانیہ بچے !!آپ فکر نہ کرو ۔ایک دن سب لڑکیوں نے ہی جانا ہوتا ہے اپنے ماں باپ اپنے گھر آنگن کو چھوڑ کے ایک نئے آنگن کو بسانے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے ہم تمھیں بھول جایئں گے ۔۔”
"جو کبھی زندگی میں کوئی مسلہ ہو یا رہنما ئی لینی ہو تو جب تک اللہ نے زندگی دی ہے تمہاری ماں تمہارے لئے موجود ہو گی ۔”۔سمیہ بیگم نے سمجھانے والے انداز میں کہا
"ماما ابھی تو بس نکاح ہے ۔۔آپ تو یوں باتیں کر رہیں ہیں رخصتی ہو ۔”۔ہانیہ کی آواز بھرا گئی تھی
جس پر سمیہ بیگم نے اس کو ہلکی سی چپت لگائی ۔
"آہستہ آہستہ سمجھاوں گی تو کچھ سمجھو گی ۔”
"اب بستر چھوڑ کر منہ ہاتھ دھو کر پندرہ منٹ میں ڈیننگ ٹیبل پر آؤ ۔”۔سمیہ بیگم کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں
"ماما بابا کیسے ہیں ۔۔اب” ۔اس نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے پوچھا تھا
جس پر سمیہ بیگم واپس بیڈ پر بیٹھ گئیں
"اب بہتر ہیں ۔” انہوں نے نظریں پھیر کر کہا ۔وہ ریاض صاحب کو اپنے گھر ہی لے آئے تھے ۔۔
"ماما ایسا کب تک چلے گا ۔اب تو بابا کو معاف کر دیں” ۔ہانیہ نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
"معاف تو میں کر چکی ہوں ۔۔بس مجھے تھوڑا وقت چاہیے ایک دم سے یہ سب ٹھیک نہیں ہو سکتا ۔کچھ ماہ لگے گے نارمل ہونے کے لئے ۔”۔وہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں
"اب میں جا رہی ہون لیکن پندرہ منٹ وہ ہانیہ کو۔ "تنبہہ کرتی ہوئی باہر چلیں گئیں
وہ زوالقرنین صاحب کے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ بھی تیاری کر رہے تھے ۔
ان کے دروازہ نوک کر کے آنے پر ریاض صاحب تھوڑے رنجیدہ تو ہوئے پر چھپا گئے
"ناشتے کے لئے بلانے آئی ہوں وہ کہتے ہوئے واپس موڑنے لگیں” لیکن ریاض صاحب کی آواز پر روک گئیں
"سمی !!تمھیں لگتا ہے کے میں تم سے یا ہانیہ سے غافل رہا ہوں اس سارے عرصے تو یہ غلط ہے ۔میں بیشک تم لوگوں سے ملا نہ ہوں مجبور تھا پر میں نے برابر خبر رکھی ہے ۔کھ کہیں ہانیہ کو کوئی مسلہ تو نہیں اس نے کونسے اسکول یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے ۔ وہ تمہاری فرینڈ کا بھائی جو تمھیں پاکستان آنے کے بعد تنگ کر رہا تھا ۔ایک دم سے اس نے حرکتیں کیسے روک دیں ۔ "سمیہ بیگم حیرانی سے ان کی باتیں سن رہیں تھیں ۔
"اگر اپنوں سے محبّت ہو تو ان کو بتائے بغیر ان کے مسائل حل کئے جاتے ہیں ۔ احسانوں کے ٹیگ نہیں لگوائے جاتے”
اتنا کہہ کر وہ کمرے سے باہر چل دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویلا میں بھی آج سورج کی روشنی برس رہی تھی ۔باغ میں لگے پھول آج پہلے سے زیادہ ترو تازہ تھے
شاہ ویلا کے مکیں بھی آج صبح صبح اٹھ چکے تھے
وجدان بھی آج خلاف معمول کوئی دسویں دفع آئینے میں خود کو دیکھ چکا تھا ۔
"اف تم اچھے لگ رہے ہو وجدان یوں ٹین ایج لڑکوں کی طرح تیار ہونا بند کرو ۔”۔وجدان نے مسکراتے ہوئے آئینے میں دیکھ کر کہا ۔
"ایک تو وقت کیوں نہیں گزر رہا ” وہ گھڑی پر دس بجتے دیکھ کر بولا ۔۔
اس کے فون کی رینگ بجی تو میگن کا نمبر دیکھ کر اتٹنڈ کر لیا
"ہیلو ۔۔۔”
"ہیلو سر !!! کیسے ہیں ۔دراصل میں آپ کو آج تنگ نہ کرتی سر لیکن بینک کی tansaction میں کچھ غلط لگ رہا ہے اور (cloud) کلاوڈ کمپنی کے statics میں بھی گھاپلے لگ رہے ہیں کوئی چیز ہمارے کیلکو لشن سے میچ نہیں کر رہی "۔۔میگن کی آواز سپیکر پر ابھر ی
وجدان نے اپنی آنکھیں بند کی اور ماتھے کو انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے دباتے ہوۓ بولا
"میگن دیکھیں آج میں کچھ نہیں کر سکتا ۔۔کچھ دن تک میں لندن آ کے دیکھتا ہوں آپ اس اکاؤنٹ سے فلحال کوئی transaction میری اجازت کے بغیر نہ کریں ۔۔ اب بتائیں کے آپ اور میلوڈی آئیں کیوں نہیں میں آپ کو ایک ہفتہ پہلے ہی بتا چکا تھا "۔۔
"سر !!دراصل میلوڈی اور زیک نے شادی کر لی ہے تو ہم لوگ آپ کی شادی اتٹنڈ کریں گے ۔”۔میگن کی بات سن کر اس کا ماتھے کو دباتا ہاتھ روکا
"کیا وقع ہی یہ تو اچھی بات ہے ۔مبارک بات آپ کو بھی ۔پر زیک نے مجھے خبر بھی نہیں ہونے دی ۔اب تو لندن آنا ہی پڑے گا ۔۔کچھ دن میں دیکھتا ہون میں ۔۔اوکے پھر بائے۔”
اس نے کہتے ہوئے فون رکھ دیا ۔۔ اور باہر کا رخ کیا
جبکہ شاہ ویلا کی دوسری منزل کے تیسرے کمرے میں ہونے والا شورو گل نیچے کی منزل تک سنا جا سکتا تھا
"جوتے کدھر ہیں تمہارے ۔”
"۔اور رباب یہ والے جھومکے پہن کر دیکھو ۔۔”
"شیزہ یہ بیوٹیشن نے زیادہ ہی میک اپ نہیں کر دیا ”
"یار میرا دوپٹہ دیکھا ہے کسی نے ۔”
"کومل!!! تم کب تک پہنچو گی "عنایا نے فون پر پوچھا
"بس تھوڑی دیر میں "۔جواب آیا
شیزہ عنایا رباب دعا سب تکریبا ایک ساتھ بول رہیں تھیں ۔
اس ہی طرح گراؤنڈ فلور پر بنے زمان کے کمرے میں بھی شور سنا جا سکتا تھا ۔۔
"یار یہ میرے سسرال والے ابھی تک آئے کیوں نہیں ؟” زمان نے گھڑی کو دیکھا پھر کھڑکی سے باہر دیکھا
"پتا نہیں "زین نے اپنی ہاتھ پر باندھی گھڑی کا ٹائم غلط دیکھ کر تپا ۔۔ہوا بولا
تب ہی اس کی نظر شہروز پر پڑی جوآئینے کے سامنے کھڑا پرفوم لگا رہا تھا ۔۔اور ساتھ گنگانا رہا تھا
"یہ نکاح ہمارا ہے تمھیں کس چیز کی خوشی ہو رہی ہے؟” ؟ زین کے پوچھنے پر شہروز گڑبڑا یا
"ارے بھائی کا نکاح ہے پہلی دفع کوئی ایسی تقریب دیکھ رہا ہون گھر میں ۔ذرا باہر دیکھ کر آتا ہون شاید کوئی کام ہو "۔۔کہتے ہوۓ باہر نکل گیا
باہر زرینہ بیگم اور شازمہ کی آوازیں سنو جا سکتیں تھیں ۔۔
حال سے صوفے تھوڑے پیچھے کر دیے گے تھے تین اطراف میں چھوٹے سے سیٹ سجائے گے تھے ۔۔ہر ایک کے درمیان میں ہلکا ململ کا کپڑا استعمال ہوا تھا جو پردے کی طرح تھا تا کہ نکاح کے وقت ایک سائیڈ پر دولہا اور دوسری سائیڈ پر دلہن ہو ۔
۔اف وائٹ رنگ کے پردے تھے جن کے کناروں اوپری کناروں پر سفید پھول لگائے گئے تھے سیٹ کے کناروں پر گاؤ تکیے لگائے گئے تھے
۔۔۔۔
"شازمہ بیٹا!!! فون کر کے دیکھو گیارہ بج رہے ہیں”۔بی جان بولیں
تب ہی باہر گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی ۔۔
زرینہ بیگم باہر آئیں ان کے پیچھے بی جان اور شازمہ بھی آئیں ۔ہانیہ اور کومل لوگوں کی گاڑیاں آگے پیچھے تھیں
وہ دونوں شاہ ویلا کے اندرونی دروازے کے سامنے رکیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ پہلے کبھی شاہ ویلا نہیں آئی تھی ۔ آج طیبعت عجیب سی ہو رہی تھی ۔جس کو وہ کوئی نام دینے سے قاصر تھی ۔
ہانیہ کو گاڑی سے باہر لایا گیا اس نے چہرے پر پنک رنگ کا کپڑا ڈال رکھا تھا اور پنک کلر ہی پہنا ہوا تھا ۔ کسی کی آنکھوں کی۔ تپش محسوس ہوئی تو اپنی پلکیں چند سیکنڈ کے لئے اٹھائیں پر پھر نیچے کر لیں
ادھر کھڑکی پر کھڑے وجدان نے ایک لمبا سانس خارج کیا اف وائٹ کرتے پر اپنی سندھی شال دروست کی ۔۔
اندر آ کے ہانیہ کو اور کومل کو ان کی۔ جگہ پر بیٹھا دیا گیا ۔۔ کومل سلور رنگ کے شرارہ پہنے ہوۓ تھی ۔
تب ہی عنایا کو بھی دعا اور امبرین لے آئیں باقی فوج بھی ان کے پیچھے آ رہی تھی ۔
تب ہی شایان کے پاؤں پر امبرین کی ہیل آ گئی ۔۔
"اوچ ۔آنکھیں ہیں کے بٹن” ۔۔وہ پاؤں مسلتا سائیڈ پر ہو گیا
"چھپ کرو ۔اتنی بھی نہیں لگا ” شیزہ بولی
آواز پہچاتے ہوئے ہانیہ نے اپنی پلکیں اٹھائیں ۔نظر عنایا لوگوں سے ہوتی ہوئی سیدھا سیڑھیاں اترتے وجدان پر پڑی ۔
ہر چیز فریز ہو گئی ۔یوں محسوس ہوا کے وقت روک گیا ہے ۔ذہن میں جھکڑ چلے ۔کان سائیں سائیں کرنا شروع ہو گئے ۔ ہانیہ ایک دم سے کانپی ۔
"ہانیہ بچے ٹھیک ہو "۔سمیہ اس کو دیکھ کر آگے آئیں
ہانیہ نے صرف سر ہلا نے پر اکتفا کیا ۔
ہانیہ کا غصّہ سے برا حل ہونے لگا ایئر کنڈیشن کمرے ہونے کے باوجود دم گھٹنےلگا ۔دماغ سن ہونے لگا
"ارے!! ۔”شیزہ کی اونچی آواز پر سب نے مڑ کر دیکھا ۔
"ہانیہ!! "۔ساری فوج نے پھر مڑ کر ہانیہ کی سمت دیکھا ۔
"وجی۔ بھائی کی دلہن!!!”۔سب حیرانی سے دیکھا
"میں نے کہا تھا کالے چنے پک رہے ہیں کوئی مانے کو تیار ہی نہ تھا ۔”۔وہ رباب کے کان میں بولی ۔۔
ب”چے تم لوگ جانتے ہو؟ "بی جان جو اس بات سے انجان تھیں تھیں اب وجدان کی گیم سمجھ آئے تو غصے سے گھورا ۔جس پر وجدان مسکرایا
"جی یہ ہمارے گینگ کا پانچواں بندا ہے” شیزہ ہی بولی۔
"پتا نہیں یہ لڑکی کبھی سیدھا جواب دے گی بھی یا میں بے عزت ہی ہوتا رہوں گا” ۔ارسل نے سوچا
سب دولہا دلہن کو ان کی جگہ پر بیٹھا دیا گیا ۔دعا شیزہ ہانیہ سے ملیں ۔مگر ہانیہ کی پوزیشن میں کوئی فرق نہ آیا
نکاح خواہ نے پہلے کومل اور زمان کا نکاح پڑھا رہے تھے اس دوران ہانیہ کو محسوس ہو رہا تھا گویا ٹائم بم ہو جس کی ٹک ٹک ٹائم کے گھٹنے کا پتا دے رہیں ہو ۔۔
وجدان بھی پردے کے اس پار آ بیٹھا ۔مسکراتی نظریں ۔خوشی سے دمکتا چہرہ ۔
ان کے نکاح کی گھڑی آن پہنچی تھی ۔ وجدان کے لئے آج جشن بہاراں تھی ۔چہرے پر نہ ختم ہونے والی مسکراہٹ ۔
آج محبّت کو منزل ملنے والی تھی یا ایک نئے سفر کا آغاز تھا ۔ جو ہمسفر کے سنگ کرنا تھا
ادھر ہانیہ کی حالت غیر ہو رہی تھی دل کر رہا تھا کے پردے کی جگہ کونکریٹ کی دیوار کھڑی کر دے ۔
پہلے وجدان سے پوچھا گیا ۔ تو اس نے پردے کے پار دیکھتے ہوۓ اس نے اثبات میں جواب دیا
اب ہانیہ سے پوچھا جا رہا تھا ۔اس کے جواب نہ دینے پر دوبارہ پوچھا گیا ۔
اس کی پلکیں اٹھیں ۔
اپنے والدین کے خوشی بھرے چہرے پر نظریں جا ٹھریں ۔
ایک آنسو جو آنکھوں کا بند تھوڑ کر نکلا ۔
ایجاب و قبول کے منازل تہ ہوئے ۔
اور چڑیا اپنے بابل کی گلی چھوڑ کر اڑ گئی ۔۔
۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...