وہ جاگنگ کرکے ٹریک سے واپس آیا تھا سامنے ہی ٹیبل پر اس کے لئیے فریش جوس ڈھکا رکھا تھا کچن کی لائٹ بند تھی وہ جوس اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا ساتھ ساتھ سویرا کے کمرے کی طرف نظر ڈالی تو دروازہ بند تھا ۔۔۔
” سو گئی ہوگی بیچاری ۔۔۔۔” وہ سوچتا ہوا جوس کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے اپنے جم کی طرف بڑھ گیا ہفتہ کا دن تھا آج کئی مہینوں بعد وہ فری تھا ۔۔۔
عروہ شہریار کو سرپرائز دینے کے لیے صبح آٹھ بجے اس کے گھر کے دروازے کے باہر موجود تھی کلچ میں سے چابی نکالی کر اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا وہ شہریار کے کمرے میں داخل ہوئی وہ بھی خالی تھا لیکن برابر میں شیشے کی دیوار سے وہ جم میں ایکسرسائز کرتا نظر آرہا تھا بنا شرٹ کے اس کا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا مضبوط بازوؤں کے پھولے پھولے مسلز وہ مبہوت سی ہو گئی تھی ۔بنا پلکیں جھپکائے وہ اسے دیکھ رہی تھی اور خود پر فخر سا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
” یہ ہینڈسم اسمارٹ آدمی صرف اور صرف میرا ہے ۔۔۔۔” وہ دھیرے سے جم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور دبے قدموں چلتی ہوئی بنچ کی طرف آئی جس پر شہریار چت لیٹا ویٹ لفٹنگ کر رہا تھا ۔۔۔
” واؤ شیری !! تمہاری باڈی تو بہت زبردست ہے ۔۔۔” وہ جگمگاتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی
شہریار جو ویٹ لفٹنگ میں مصروف تھا عروہ کی آواز سن کر چونک گیا ویٹس کو نیچے رکھتے ہوئے سیدھا ہو کر کھڑا ہوگیا
” تم کب آئیں ؟؟ ” شہریار نے تولیہ اٹھاتے ہوئے پوچھا
” بس ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہیں ڈھونڈتے ہوئے تمہارے کمرے تک آئی پھر وال سے تمہیں ایکسرسائز کرتے دیکھا !! ویری امپریسو شیری ۔۔۔” وہ دھیرے سے پاس آکر اس کے مضبوط بازوؤں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی
” ڈونٹ ٹچ می !! ” وہ تیزی سے اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا
” کم آن شیری !! تم میرے ساتھ ہر بار ایسے ہی کرتے ہو کبھی بھی فزیکل نہیں ہوتے آخر تمہارے ساتھ پرابلم کیا ہے ؟؟ ” عروہ کا موڈ ٹھیک ٹھاک خراب ہوا
” پرابلم ؟؟ سنو عروہ عزت صرف لڑکیوں کی میراث نہیں ہوتی ، مردوں کی بھی ہوتی ہے مجھے شادی سے پہلے کے فضول ریلیشن شپ گناہ سے بڑھ کر کچھ نہیں لگتے ۔۔۔” وہ اپنی شرٹ پہنتے ہوئے بولا
” شیری !! پھر میں کیا ہوں ؟؟ ” عروہ نے سنجیدگی سے پوچھا
” تم میری دوست ہو ۔۔۔۔” وہ لاپرواہی سے بولا
” بس دوست ؟؟ ” عروہ نے افسردگی سے اسے دیکھا
” جب تک کوئی شرعی رشتہ نہیں بن جاتا تب تک صرف دوست ہو اس کے بعد جب میرا تم پر حق ہوگا تو پورے حقوق کی ادائیگی بھی کرونگا اور تمہیں اپنے رنگ میں بھی ڈھال لونگا ۔۔۔” وہ تنقیدی نظروں سے شارٹ اسکرٹ اور سلیولیس بلاؤز میں بالکل باربی ڈول کی طرح چمکتی ہوئی عروہ کو دیکھتے ہوئے بولا
” تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟؟ میں تمہیں صاف صاف بتا رہی ہوں میں تمہاری سو کالڈ دیسی وائف کی طرح کبھی بھی نہیں ہو سکتی تمہارے سامنے کچھ اور اور باہر ۔۔۔۔۔”
” اسٹاپ اٹ عروہ !! تم باہر لاؤنچ میں میرا ویٹ کرو میں شاور لیکر آتا ہوں ۔۔۔” وہ عروہ کی بات کاٹتے ہوئے اپنے روم میں داخل ہوگیا
” اوکے میں ویٹ کرتی ہوں جلدی آنا اب نو تو بج چکے ہیں مجھے ناشتہ کرنا ہے ۔۔۔” وہ اسے تنبیہہ کرتے ہوئے بولی
” میں آتا ہوں تم جب تک ریسٹورنٹ سلیکٹ کرو ۔۔۔”
” اس ٹائم کون سا ریسٹورنٹ کھلا ہوتا ہے ؟؟ ہم کسی اچھے سے کیفے میں چلتے ہیں ۔۔۔” وہ کہتی ہوئی باہر لاؤنچ کی طرف بڑھ گئی
******************
شہریار عروہ کو ویسٹ کے ایک بہت ہی مشہور کیفے وکٹوریہ میں لایا تھا وکٹورین طرز پر بنا یہ کیفے اس وقت صبح کے ناشتے کے لئیے بھرا ہوا تھا وہ ایک میز منتخب کرتے ہوئے اس پر بیٹھ گیا
“شیری تم نے رات کا پلان کیوں کینسل کیا ؟؟ “عروہ نے مینیو اٹھاتے ہوئے پوچھا
” عروہ میں ابھی ایک سال تک کسی بھی چکر میں پڑنا نہیں چاہتا میری شاہ بی بی سے کمٹمنٹ ہے میں ایک سال بعد ہی اس مصیبت رشتے سے چھٹکارا پا کر کوئی اسٹیپ لینا چاہتا ہوں ۔۔۔” ۔
” شیری !! تو اس سب میں میں کدھر ہوں میرے جذبات میری فیلنگ تمہیں ان سب کی کوئی فکر نہیں ۔۔۔” وہ چٹخ گئی
” دیکھو عروہ شادی کی کمٹمنٹ تم سے کی ہے تو اسے نبھاؤں گا بھی ، تم اس لڑکی سے خود کو کمپئیر مت کرو وہ لڑکی میری زندگی میں کہیں نہیں ہے ۔۔۔” وہ رسان سے بولا
” تو پلیز کم سے کم منگنی تو کرلو ، مجھے کچھ تو آسرا دو ۔۔۔”
” اوکے اس ویک اینڈ پر سادگی سے رسم کرتے ہیں شادی دھوم دھام سے کرینگے ۔۔” وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولا
” سر آپ آرڈر کیلیئے تیار ہیں ؟؟ ” ایک سریلی سی آواز ابھری
شہریار اپنے سامنے کھڑی ویٹرس کو دیکھ کر چونک گیا ویٹرس کے مخصوص لباس میں وہ لڑکی اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ اس کی گھبراہٹ صاف محسوس کی جاسکتی تھی
” سر ، مس آپ آرڈر لکھوا دیں ۔۔۔۔”
” مس نہیں میم اوکے ؟؟ اور جاؤ کسی دوسری ویٹرس کو بھیجو ۔۔۔” عروہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے نخوت سے بولی
” اوکے ۔۔ ” وہ سر ہلاتے ہوئے وہاں سے ہٹ گئی
شہریار کی ساری توجہ اب سویرا پر تھی کب دوسری ویٹرس آئی عروہ نے کیا آرڈر کیا اسے کچھ خبر نہیں تھی بس وہ سویرا کو اس طرح ویٹرس کے روپ میں دیکھ کر حیران تھا
” شیری کم آن تمہارا بریک فاسٹ ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔۔ ” عروہ نے اسے سوچوں سے نکالا
” بس کرو اتنی ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لیکر کیوں ہوا کو فریز کررہے ہوں ۔۔۔”
” یار اس ایشین ویٹرس کو دیکھو ہائے سو بیوٹیفل میری تو نظر ہی نہیں ہٹ رہی ہے ۔۔۔”
پیچھے کی میز پر بیٹھے لڑکوں کی آوازیں شہریار کا غصہ بڑھا رہی تھی
” اس کے چہرے پر کتنی معصومیت ہے میں تو بس اب اسے پٹا کر ہی رہونگا ۔ ۔۔”
وہ بہت دیر سے برداشت کررہا تھا لیکن اب
شہریار نے ایک جھٹکے سے کرسی پیچھے کھسکائی اور پلٹ کر اس لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر جھٹکے سے کھینچا
” یہ آپ کیا کررہے ہیں چھوڑیں اسے ۔۔۔” ایک افراتفری سی مچ گئی
شہریار نے اب اسے گھونسے مارنے شروع کر دئیے تھے اس لڑکے کے ساتھی شہریار کو گھیرے میں لے چکے تھے پر شہریار بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح سب کی ٹھکائی لگا رہا تھا کیفے کی مینجمنٹ بھی باہر نکل آئی تھی
” شیری پلیز چھوڑو یہ سب پولیس کیس بن جائیگا چلو یہاں سے ۔۔۔” عروہ نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا
شہریار نے ایک جھٹکے سے اس لڑکے کو اٹھا کر میز پر پٹخا اور اپنے والٹ سے سو سو پاؤنڈ کے کئی نوٹ نکال کر اپنی میز پر رکھتا ہوا کونے پر کھڑی تھر تھر کانپتی ہوئی سویرا کو خون آشام نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا
*******************
عروہ کا موڈ ٹھیک ٹھاک خراب تھا کتنے اچھے موڈ میں وہ اور شہریار اپنی منگنی پلان کررہے تھے سب فائنل ہو گیا تھا اور پھر وہ سویرا بیچ میں آگئی ۔۔وہ ٹہل ٹہل کر اپنا غصہ نکال رہی تھی جب ایک خیال سے اس کی آنکھیں جگمگانے لگی اس نے تیزی سے فون اٹھایا اور نمبر ڈائل کیا
” سنو جونس کیا تم ابھی مجھ سے ملنے آسکتے ہو۔۔” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی
اسے جونس کی اپنے لئیے پسندیدگی کا اچھی طرح اندازہ تھا وہ اب جونس کو اپنا ہمدرد بنا کر سویرا کو نیچا دکھانا چاہتی تھی
جونس جو بڑے آرام سے اپنے پینٹ ہاؤس میں سیٹرڈے منا رہا تھا اپنے فون پر عروہ کی کال اور پھر اس کی بھرائی ہوئی آواز سن کر پریشان ہو گیا اور تیزی سے اپنے سنہرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا اپنی اسپورٹ کار کی چابی اٹھا کر بڑی تیز رفتاری سے عروہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا
بیل بجاتے ہی عروہ نے دروازہ کھولا اور اس کو دیکھتے ہی اس کے شانے پر سر ٹکا کر رونے لگی
” کیا ہوا ہے عروہ ؟؟ پلیز کچھ بتاؤ ، ہنی تم مجھے پریشان کررہی ہو ۔۔۔” جونس نے پریشانی سے کہا
” سوری جونس میں نے تمہیں بھی پریشان کردیا لیکن کیا کروں اس مشکل وقت میں بس مجھے تمہارا ہی خیال آیا ۔۔۔” وہ آنسو پوچھتے ہوئے پیچھے ہٹی
” آخر ہوا کیا ہے ۔۔” وہ الجھا
” اندر تو آؤ ،میں تمہیں سب بتاتی ہوں ۔۔۔” وہ اسے لیکر سیدھی اپنے کمرے میں آئی
” جونس تم نے دعویٰ کیا تھا کہ تم میرے دوست ہو ہمیشہ میرا ساتھ دو گے ۔۔۔” عروہ نے تمہید باندھی
” میں نے اپنی زندگی کے چار سال شہریار کے انتظار میں اس کے ساتھ کی آس میں گزارے ہیں اور اب یہ شہریار کی سو کالڈ کزن ہمارے بیچ میں آرہی ہے وہ میرے شیری کو چھین رہی ہے ۔۔۔۔” عروہ رو رو کر سویرا کے ظلم و ستم نمک مرچ لگا کر بیان کررہی تھی
” آر یو شیور عروہ ؟؟ وہ لڑکی ایسی لگتی نہیں ہے ۔۔۔” جونس الجھا
” وہ ایسی ہی ہے ؟؟ ”
” ٹھیک ہے آج ویسے بھی مجھے شہریار کی طرف جانا ہے میں اس سے بات کرتا ہوں ۔۔۔”
” جونس پلیز میرا نام مت لینا تم نہیں جانتے وہ اس لڑکی کیلیئے ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتا ۔۔۔”وہ آنسو پوچھتے ہوئے بولی
جونس اسے تسلی دیکر جا چکا تھا اب وہ مگن ہو کر میوزک سن رہی تھی اسے اچھی طرح پتا تھا کہ شہریار کبھی بھی اپنے اور سویرا کے رشتے کی حقیقت نہیں بتائے گا الٹا وہ سمجھے گا کہ سویرا نے شاید جونس کے کان بھرے ہیں
*****************
وہ عروہ کو گھر چھوڑ کر کافی دیر ادھر ادھر پھرنے کے بعد اپنے دماغ کو ٹھنڈا کرتے ہوئے گھر آیا ۔دوپہر ڈھل چکی تھی عروہ نے اسے لنچ پر روکنے کی بہت کوشش کی تھی پر اس کا موڈ خراب ہو چکا تھا ۔
” سویرا !!! ” وہ اندر داخل ہوتے ہی پہلی بار اس کا نام لیکر چلایا
وہ جو اندر کمرے میں کتابیں پھیلائے پڑھ رہی تھی اس کی آواز سن کر ، اپنا نام سن کر ایک لمحے کو چونک سی گئی
” سویرا ادھر آؤ ۔۔۔” وہ اسے پکارا رہا تھا اس منھ سے نکلا اپنا اسے اجنبی اجنبی سا لگ رہا تھا وہ تیزی سے دوپٹہ سلیقے سے سر پر لیتی ہوئی لیونگ روم میں آئی
” جی !! ” وہ دہلیز پر کھڑی تھی
” تم نے کس سے پوچھ کر ، کس کی اجازت سے جاب کی ؟؟؟ ” وہ اس کی طرف بڑھا
سویرا کو اس کے لہجہ سے اس کی سرخ آنکھوں سے خوف سا محسوس ہو رہا تھا
” کیا بک رہا ہوں میں ؟؟ تمہیں سنائی نہیں دیتا کیا ۔۔۔” شہریار چپ چاپ سر جھکائے کھڑی سویرا پر چلایا
سویرا کی آنکھوں میں نمی امنڈ نے لگی تھی
لیکن اس وقت اس کو اپنے لئیے اسٹینڈ لینا تھا
“اب نہیں تو کبھی نہیں ۔۔۔”وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی
” میں آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتی ہوں آپ بہت جلد شادی کرنے والے ہیں اور پھر شاید عروہ میم کو میرا یہاں رہنا اچھا نہیں لگے اس لئیے میں میں ۔۔۔” اس کی آواز بھرا گئی
“سنو لڑکی !! ۔۔۔” شہریار نے اس کی بات کاٹی
” تم وہ جاب نہیں کروگی اینڈ دیٹس فائنل ۔۔۔” وہ سختی سے کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا
سویرا کچھ دیر خاموشی سے سر جھکائے کھڑی رہی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے شہریار کا غصہ اس کی جان پر بن آیا تھا تو دوسری طرف عروہ کا رویہ وہ دل برداشتہ سی ہو کر اپنے کمرے میں آئی
بار بار شہریار اور عروہ کی باتیں اس کے ذہن میں گونج رہی تھی پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ سامنے رکھی کتابوں کو گھورتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر گئی ۔۔۔
********************
شہریار اپنے جم میں پنچنگ بیگ پر اپنا غصہ نکال رہا تھا اس کے کانوں میں بار بار ان لڑکوں کی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔
” ڈیم اٹ !! وہ جو کچھ بھی کرے مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔”
” ویسے بھی عروہ اسے یہاں برداشت نہیں کریگی مجھے کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے ۔۔۔”
فون کی گھنٹی نے اس کی سوچوں کو بریک لگایا
بڑی مشکل سے اپنے اشتعال ہر قابو پا کر وہ اندر کمرے میں آیا تو اس کا سیل فون بجے چلا جا رہا تھا ۔۔
” بابا سائیں۔۔۔”وہ نمبر دیکھ کر چونکا اور تیزی سے فون اٹھایا
” اسلام علیکم بابا سائیں کیسے ہیں آپ ۔۔۔” وہ ادب سے بولا
” میں تمہاری ماں اور فرزانہ ٹھیک پندرہ دن بعد لندن آرہے ہیں اپنے بچوں سے ملنے کیلئے ۔۔۔” چند باتوں کے بعد بابا سائیں نے اسے اپنی طرف سے سرپرائز دیا
” جی بابا سائیں!! اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہوگی کہ میرے اپنے میرے گھر آئیں ۔۔۔” وہ سنبھلتے ہوئے بولا
“اچھا شاہو بیٹا ، ذرا سویرا بیٹی سے تو بات کرواؤ میں اپنی بیٹی کو بھی یہ اچھی خبر سنا دوں ۔۔۔” انہوں نے فرمائش کی
” بابا سائیں وہ تو اپنے کمرے میں سو رہی ہے ابھی ادھر رات ہوگئی ہے ۔۔۔” شہریار نے رات آٹھ بجاتی گھڑی کو دیکھتے ہوئے انہیں ٹالنا چاہا
” اپنے کمرے میں ؟؟ شاہو کیا وہ تمہارے ساتھ نہیں رہتی ۔۔۔۔” بابا سائیں نے سرد لہجے میں پوچھا
” ساتھ ہی ہے بابا سائیں میں ابھی گھر سے باہر ہوں اس لئیے ایسا کہا ۔۔۔” اس نے جلدی سے بات بنائی
” چلو خیر ہے بعد میں بات کروا دینا ۔۔” بابا سائیں نے سنجیدگی سے کہا اور فون رکھ دیا
“ڈیم اٹ یہ لڑکی تو دن بہ دن میرے لئیے مصیبت بنتی جا رہی ہے ۔۔۔” اس نے فون بند کرکے بیڈ پر پھینکا اور باہر کچن میں چلا آیا
پورا کچن صاف ستھرا اس کا منھ چڑا رہا تھا ان گزرے چند ماہ میں اسے رات کا کھانا گھر پر کھانے کی عادت ہو گئی تھی کچھ سویرا کے ہاتھ کا ذائقہ بھی اسے گھر کی یاد دلاتا تھا ابھی وہ فرج کھولے کچھ کھانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی
اس نے اکتائے ہوئے انداز میں دروازہ کھولا تو سامنے ہی جونس کھڑا تھا
” ہیلو شہریار ۔۔۔ ” وہ پرتپاک لہجے میں بولتا ہوا اندر داخل ہوا
” تم نے میسج کیا تھا کہ وقت ملے تو ملنا تو میں نے سوچا اپنے دوستوں کے لئیے وقت ملنے کا ویٹ نہیں کرنا چاہئیے بلکہ وقت نکالنا چاہئیے ۔۔۔” جونس خوشدلی سے مسکراتے ہوئے بولا
” اوہ یس !! آؤ بیٹھو پہلے تو یہ بتاؤ کیا کھاؤ گئے میں فوڈ ہی آرڈر کرنے والا تھا ۔۔”
” یار اپنی کزن سے کہو کچھ بنا دے وہ بہت اچھا پکاتی ہے ۔ ۔” جونس نے اسے بغور دیکھتے ہوئے فرمائش کی
“وہ شاید آرام کررہی ہے میں تھائی فوڈ آرڈر کررہا ہوں ۔۔۔” شہریار نے سنجیدگی سے کہا اور فون ملا کر آرڈر پلیس کرنے لگا
“شیری !! سچ بتاؤ سویرا تمہاری کون ہے ؟؟ ”
*****************
وہ گہری نیند میں تھی جب اس کے کانوں میں ڈور بیل کے بجنے کی آواز سنائی دی کچھ دیر وہ غائب دماغی سے بستر پر پڑی رہی پھر دیوار میں نصب گھڑی پر رات کے سوا آٹھ بجے دیکھ کر چونک کر اٹھ بیٹھی
” اللہ اللہ میں نے تو رات کا کھانا بھی نہیں پکایا یہ تو بہت ناراض ہو جائینگے ۔۔۔”وہ تیزی سے اٹھ کر کچن کی جانب بڑھی لیونگ روم کے پاس پہنچی ہی تھی کے اندر سے آتی آوازیں سن کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی
” شیری !! سویرا تمہاری کون ہے ؟؟”
” فرسٹ کزن ہے !! تمہارا تعارف کروایا تو تھا ۔۔” شہریار الجھا
” بس صرف فرسٹ کزن ؟؟” جونس نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوالیہ نظروں سے گھورا
” کیوں !! تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟؟ ” شہریار نے الٹا سوال کیا
” مجھے لگتا ہے تم دونوں کے بیچ کوئی اور بھی رشتہ ہے جو تم مجھ سے اپنے دوست بزنس پارٹنر سے چھپا رہے ہو ورنہ اس طرح تمہارے کلچر میں ایک جوان لڑکے اور ایک جوان لڑکی کا اکیلے ساتھ رہنا بہت نامناسب مانا جاتا ہے ۔۔۔”
” جونس !! وہ میری فرسٹ کزن ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں جہاں تک ساتھ رہنے کی بات ہے تو انسان کا اگر ایمان مضبوط ہو اور نفس پر قابو ہو تو جوان سے جوان اور خوبصورت سے خوبصورت لڑکی بھی اس کے لئیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔۔”وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرتے ہوئے سرد لہجے میں بولا
” اوکے بردار !! میں نے ویسے بھی اس لٹل گرل کو اپنی بہن مانا ہے اگر تم اجازت دو تو اس کے لئیے کوئی رشتہ دیکھوں ؟؟ میرے حلقہ احباب میں بہت مسلم فرینڈز ہیں ۔۔ ” اب کے جونس نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا
اس سے پہلے شہریار اسے کوئی جواب دیتا اس کی نظر دروازے پر کھڑی سویرا پر پڑیں سرخ آنکھیں اونچی پونی سے نکلتی بالوں کی الجھی ہوئی لڑیں جو اس کے چہرے کو چوم رہی تھیں ننگے پاؤں بنا دوپٹے کے وہ دروازے میں استاذہ تھی پہلے ہی جونس کی باتوں نے اس کا دماغ گھوما دیا تھا اس پر سویرا کا بنا دوپٹے کے دعوت دیتا ہوا دلکش سراپا اسے ٹھیک ٹھاک تپا گیا تھا اس سے پہلے جونس کی نظر اسے اس طرح دیکھے وہ تیزی سے اٹھا اور ساکت کھڑی سویرا کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر اسے گھسیٹتے ہوئے اس کے کمرے میں لایا ۔۔۔
” تمہیں کوئی عقل یا سینس ہے کہ نہیں ؟؟ یا لندن آکر ساری شرم و حیا بیچ دی ہے ؟؟ ” وہ غرایا
سویرا نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی وہ جو اس کا ہمسفر تھا لیکن کتنی بے رحمی سے اس کی شادی کی بات سن رہا ۔۔
” آئندہ کبھی بنا دوپٹے کے نظر آئیں تو زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔” وہ کف اڑاتا ہوا اسے بستر پر جھٹکتے ہوئے باہر نکل گیا
وہ ساکت سی اسے باہر جاتا دیکھ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جب وہ اس رشتے کو مانتا ہی نہیں ہے اس کے وجود کو تسلیم تک نہیں کرتا تو پھر اسے لیکر اتنا غصہ کیوں ہو رہا تھا ؟؟ ابھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اس کا فون بج اٹھا اینا کال کررہی تھی
” ہیلو سویرا کیسی ہو ؟؟ اچھا سنو کل اتوار ہے تم بس وغیرہ کے چکر میں مت پڑنا میں تمہیں کیفے ڈراپ کر دونگی ۔۔۔” اینا فون کے اٹھتے ہی شروع ہو گئی
” اینا سنو کیا میں کچھ دنوں بعد کام شروع کر سکتی ہوں ۔۔۔” سویرا نے اٹھتے ہوئے پوچھا
“کیا ہوا سویرا ہنی ؟؟ کیا تمہیں جاب پسند نہیں آئی ؟؟ ” اینا سنجیدہ ہوئی
” نہیں ایسا نہیں ہے میں تو بس ۔۔۔۔” سویرا کی سمجھ نہیں آئی کہ کیا جواب دے
” دیکھو ہنی ہمت کرو ، ایسے موقعے بار بار نہیں ملتے ، تم ادھر اسٹوڈنٹ ویزے پر ہو تمہیں اتنی آسانی سے دوبارہ جاب ملنا مشکل ہے باقی تمہاری مرضی ہے ۔۔۔” اینا نے اسے سمجھایا
” ٹھیک ہے میں صبح تیار رہونگی ۔۔۔” سویرا نے سوچ کر جواب دیا
ویسے بھی جیسے حالات چل رہے تھے اس میں سب سے بہترین حل جلد از جلد اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا ہو کر ہاسٹل شفٹ کرجانا ہی تھا ویسے تو تایا ابو نے اس کے اکاؤنٹ میں ایک خطیر رقم ڈلوائی تھی پر وہ سے اپنی فیس اور پڑھائی کے دیگر اخراجات کے لیے بچا کر رکھنا چاہتی تھی اسے چار سال گزارنے تھے اور بیٹھ کر کھانے سے تو بڑے بڑے خزانے خالی ہو جاتے ہیں یہ تو پھر بھی چند لاکھ روپے تھے
******************
اتوار کا دن شروع ہو رہا تھا ،شہریار کی ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی صبح کے پانچ بج رہے تھے وہ اپنے کمرے میں سگریٹ پر سگریٹ سلگا رہا تھا سویرا کو لیکر اپنے جذبات اپنا اشتعال اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کل جب کیفے میں اسے دیکھا تو برا لگا پھر ان لڑکوں کی سویرا کے حسن کو لیکر واہیات گفتگو اس کو برداشت نہیں ہوئی تھی اور رات جب وہ نیند میں بھری آنکھیں لئیے بنا دوپٹے اسے نظر آئی تو کہیں جونس اس کی دلکشی کو نا دیکھ لے !! یہ سوچ ہی اس کا دماغ گھما گئی تھی۔۔
” تم میری ملکیت ہو اور میری ملکیت کو کوئی اور دیکھے یہ مجھے برداشت نہیں۔۔۔” وہ ایش ٹرے میں سگریٹ مسلتا ہوا بڑبڑایا
وقت آگیا تھا کہ وہ سویرا سے دو ٹوک بات کر کے اسے ہاسٹل شفٹ کردے ورنہ یہ لڑکی اس کے حواسوں پر چھاتی جا رہی تھی lأس رات نیند میں اس کا سسکنا شہریار سے محبت کا اظہار کرنا اپنے بابا سے بات کرنا یہ سب شہریار کو ہلا کر رکھ گیا تھا اور اب نا چاہتے ہوئے بھی وہ اسے سوچے چلا جا رہا تھا اسے دکھ نا پہنچے اسی لئیے اس نے عروہ سے اپنی شادی ایک سال کیلئے ملتوی کردی تھی اسے پوری امید تھی کہ ایک سال بعد سویرا تھوڑی میچیور اور سمجھدار ہو کر آرام سے اس کی زندگی سے نکل جائے گئی لیکن اب وہ خود اسے لے کر پوزیسیو ہو رہا تھا
” شاید وہ میرے چاچا کی بیٹی ہے میرے خاندان کی عزت ہے میرے نام سے منسوب ہے اس لئیے میں اتنا سینسیٹیو ہو رہا ہوں ۔۔۔۔” وہ خود کو تسلی دیتے ہوئے لیٹ گیا
دن کی روشنی اس کے کمرے میں پھیل رہی تھی وہ جاگنگ پر بھی نہیں گیا تھا آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ اپنے معمول سے ہٹ گیا تھا سیل فون اٹھا کر اس نے وقت دیکھا تو دن کے گیارہ بج رہے تھے وہ بستر چھوڑ کر فریش ہو کر باہر آیا ارادہ ناشتہ کرنے کا تھا برابر میں سویرا کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور خالی کمرہ بھائیں بھائیں کررہا تھا وہ چلتا ہوا کچن میں آیا تو سامنے میز پر حسب معمول جوس کا گلاس اور ناشتے کے لوازمات سجے ہوئے تھے پر ان کو بنانے والی کہیں نہیں تھی ۔۔
” سویرا !!! ” اس نے آواز لگائی
” ناٹ اگین !!! یہ تم نے اچھا نہیں کیا !! ” وہ بڑبڑایا اور غصہ سے جوس کا گلاس اٹھا کر فرش پر زور سے مارا پھر بنا سوچے سمجھے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا
وہ غصہ سے لب بھینچے تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کیفے وکٹوریہ جا رہا تھا ۔
کیفے پہنچ کر اس نے گاڑی بالکل مین اینٹرینس پر پارک کی اور تیزی سے چلتا ہوا اندر داخل ہوا اس کے وجیہہ چہرے پر بلا کی کرختگی تھی اندر پہنچ کر اس نے چاروں جانب نظر دوڑائی ۔۔
*********************
سویرا صبح سات بجے کافی شاپ پہنچ چکی تھی ۔۔
” اوکے اینا ۔۔۔۔” وہ بمشکل مسکراتے ہوئے گاڑی سے اتری
” سنو تمہارا آف کتنے بجے ہے ۔۔۔” اینا کھڑکی سے سر نکال کر چلائی
” دو بجے تک ۔۔ کیوں ؟؟ ” سویرا نے پلٹ کر جواب دیا
” مجھے کسی نے کافی پر انوائیٹ کیا ہے ۔۔۔” وہ آنکھ مارتے ہوئے بولی
” اوہ کون ہے وہ ۔۔۔”سویرا نے ٹھٹھک کر پوچھا
” وہی جسے تم نے میرا نمبر دیا تھا لٹل گرل ۔۔۔” اینا کھلکھلا کر ہنس دی
” یعنی تم اور بریڈلی ۔۔۔۔” سویرا نے جلدی سے پوچھا
” جی جناب میں اور بریڈلی اور سنو ہم دونوں بریک فاسٹ ادھر ہی کرینگے اس لئیے زبردست سی سروس دینا ۔۔۔” اینا مسکراتے ہوئے بولی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا کر روانہ ہو گئی
سویرا اپنے دو اچھے دوستوں کو ایک ساتھ تصور کرکے مسکرا اٹھی اس کی ساری پژمردگی کہیں دور جا سوئی تھی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی اندر امپلائی روم میں داخل ہوئی
” گڈ مارننگ کیتھی ۔۔۔” اس نے مسکراتے ہوئے کیتھی کو مارننگ وش کی
اپنا کوٹ اتار کر دروازے پر ٹانگا اور پنک ایپرن نکال کر پہنا بال اس نے آج بھی پونی میں باندھے ہوئے تھے سر پر بلیک کلر کا اسکارف بھی لیا ہوا تھا
” سویرا ڈئیر !! میں نے کل بھی سمجھایا تھا ادھر یہ اسکارف ٹائپ الاؤ نہیں ہے اور نا ہی یہ ہمارے یونیفارم کا حصہ ہے اس لئیے اسے اتار دو ۔۔۔” کیتھی نے سنجیدگی سے اسے ٹوکا
سویرا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسکارف اتارا اور خاموشی سے باہر نکل گئی
بلیک پینٹ بلیک ہالف سلیو ٹی شرٹ پہنے اوپر سے گلابی رنگ کا مخصوص ویٹرس والا ایپرن پہنے وہ کام میں مصروف تھی
کاؤنٹر کے پیچھے وہ کافی میکر سے اپنے کسٹمر کیلیئے کافی تیار کررہی تھی جب کسی نے زور سے کاؤنٹر پر ہاتھ مارا وہ ڈر کے مارے اچھل سی گئی کپ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا وہ آہستگی سے مڑی تو سامنے ہی سرخ آنکھوں سے اسے گھورتا شہریار کھڑا ہوا تھا
” بہت خود مختار ہو گئی ہو تم ؟؟ کس سے پوچھ کر کس کی اجازت سے تم نے یہ جاب جوائن کی ؟؟؟ بولو ” وہ غصے سے چیخ اٹھا
” وہ ممم میں ۔۔۔۔” سویرا کی آواز حلق میں اٹک سی گئی
” اپنا حلیہ دیکھا ہے ؟؟ غیر مردوں کے سامنے خود کو پیش کررہی ہو ؟؟ یہی تمہاری تہذیب ہے ؟؟ ” وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے بولا
“سر پلیز !! آپ ہمارے کیفے کا ماحول خراب کررہے ہیں ۔۔۔۔” مینجر کیتھی شور سن کر تیزی سے باہر آئی
” ٹو ہیل ود یور کیفے !!!! اس لڑکی کو ابھی کے ابھی جاب سے نکالو ۔۔۔۔۔” وہ سرد لہجے میں کیتھی سے بولا
” بٹ سر !!! ایسے کیسے نکال دوں ؟؟ ” کیتھی پریشان ہو گئی سب کسٹمرز تماشائی بنے ہوئے تھے
شہریار نے کک لگا کر وہ چھوٹا سا باڑ نما دروازہ کھولا اور کاؤنٹر کے پیچھے جا کر سویرا کا بازو اپنی سخت گرفت میں لیا
” میں یہاں کوئی سین نہیں کرنا چاہتا شرافت سے ریزائن کرو اور اگر آج کے بعد تم مجھے ادھر ادھر نظر آئی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دونگا ۔۔۔۔” وہ غرایا
” سر آپ ہماری ایمپلائی کو ڈرا رہے ہیں آپ جائیں ورنہ ہم پولیس کال کر رہے ہیں ۔۔۔۔” کیتھی آگے آئی
” تم شوق سے پولیس کال کرو مجھے کوئی فکر نہیں ہے میں اسے یہاں سے لے جا رہا ہوں اور اب یہ واپس ادھر نہیں آئیگی ۔۔۔” وہ سرد لہجے میں بولا
” آپ ایسا نہیں کرسکتے ہم آپ پر ہراسمنٹ اور اغوا کا کیس کر سکتے ہیں ۔۔۔” کیتھی نے اسے ڈرانا چاہا
” اوہ سیریسلی آپ مجھ پر میری اپنی ہی بیوی کو اغوا کرنے کا کیس کرینگی ؟؟ ” وہ استہزاءیہ انداز میں بولا پھر سویرا کو گھسیٹتے ہوئے کاؤنٹر کے پیجھے سے باہر نکالا
” بیوی !! یہ یہ لڑکی آپ کی وائف ہے ؟؟ ” کیتھی نے حیرت سے پوچھا
شہریار نے رک کر اپنے والٹ سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر کاؤنٹر پر رکھا
” آپ کا جو بھی نقصان ہوا ہے اس پتے پر بل بھیج دیجئے گا ۔۔۔” وہ ٹھنڈے لہجے میں بولتا ہوا ایک ہاتھ سے سویرا کو جکڑے ہوئے تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا
**************************
اینا اور بریڈلی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے مسکراتے ہوئے کیفے کے اندر داخل ہوئے
” سویرا تو ہمیں ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو جائیگی اس کا چہرہ بچوں کی طرح پھول جاتا ہے ۔۔۔” بریڈلی ہنسا
” تم فکر مت کرو میں پہلے ہی اسے بتا چکی ہوں کہ ہم ساتھ ادھر ناشتہ کرینگے ۔۔۔” اینا نے اس کے بال بگاڑے
وہ دونوں چلتے ہوئے کاؤنٹر کے عقب میں رکھی ٹیبل پر آبیٹھے
” اینا دیکھو یہ سویرا کی بچی کسی دن مجھ سے ضرور پٹے گی کسٹمرز سے آرڈر کتنا ڈرتے ہوئے لے رہی ہے ذرا بھی کانفیڈینس نہیں ہے اس بدھو میں ۔۔۔”
” بریڈلی خبردار جو میری دوست کو کچھ کہا ۔۔۔” اینا نے اسے گھورا
” چلو نہیں کہتا آؤ میں تمہاری تعریف کرتا ہوں تمہارے لئیے میرے دل میں جو محبت ہے اس پر بات کرتا ہوں ۔۔۔” وہ گھمبیر سے لہجے میں بولتا ہوا اینا کی سمت جھکا
” سیریسلی تم بھی نا ۔۔۔” اینا مسکائی
اس سے پہلے بریڈلی کوئی جواب دیتا کیفے میں ایک شور سا مچ گیا کوئی آدمی کاؤنٹر پر زور سے ہاتھ مار رہا تھا
” او گاڈ یہ آدمی سویرا کو ڈرا رہا ہے میں اسے چھوڑونگا نہیں ۔۔” بریڈلی تیزی سے کھڑا ہوا
اینا نے بھی اس سمت دیکھا اور شاک سے کھڑی ہو گئی سامنے ہی اس کا باس موسٹ وانٹڈ بیچلر شہر کا مشہور بزنس مین شہریار سویرا کا بازو تھامے کھڑا تھا
” بریڈلی رکو !! یہ میرے باس سویرا کے کزن ہیں ۔۔۔” اس نے تیزی سے بریڈلی کے بازو پر ہاتھ رکھا
” کزن ہے تو کیا ہوا ؟؟ اسے کوئی حق نہیں سویرا سے بدتمیزی کرنے کا ۔۔۔” بریڈلی نے اس کا ہاتھ آرام سے ہٹایا اور شہریار کی سمت بڑھا اینا بھی تیزی سے پیچھے آئی اور وہ دونوں اپنی اپنی جگہ شہریار کی آواز سن کر منجمد ہوگئے
“اوہ سیریسلی آپ مجھ پر میری اپنی ہی بیوی کو اغوا کرنے کا کیس کرینگی ؟؟ ”
” سویرا اس کی وائف ہے ؟؟ “بریڈلی نے حیرت سے اینا سے پوچھا کو خود بھی یہ سن کر شاک میں تھی دیکھتے ہی دیکھتے شہریار سویرا کو کیفے سے باہر لیکر جاچکا تھا
*********************