“یہ فاطمہ آنٹی کون ہے؟” راحلہ کی سوئی فاطمہ آنٹی پر آکر اٹک گئی لیکن نظریں اب بھی ھود پر ہی تھی-
“میں نے بتایا تھا نہ فاطمہ آنٹی امی کی دور کی کزن ہیں ہمارے گھر سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر انکا گھر ہے -ہر عید و بقرعید پر آتی ہیں ہمارے گھر اور مجھے ڈھیر ساری عیدی بھی دیتی ہیں -بہت اچھی اور کیوٹ سی ہیں وہ” مائشہ فاطمہ آنٹی کے قصیدے پڑھنے لگی –
” ہاں ہاں اچھی تو ہوں گی ہی عیدی جو ملتی ہے تمہیں “راحلہ نے شرارت سے چھیڑا –
” بس اپنا فٹے منہ بند رکھو تو ہی بہتر ہے، تم سے کچھ کہنا ہی فضول ہے “مائشہ یہ کہنے کے لیے جوں ہی راحلہ کے قریب جھکی کہ اسی اثناء میں ھود رضا کی آواز ان کے سماعت سے ٹکرا ئی –
“یہ آپ دونوں خواتین کتنی دیر سے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف ہیں -میں نے دیکھ کر اگنور کر دیا کہ شاید تھوڑی دیر بعد آپ لوگوں کو خیال آجائے. کیا میری باتوں سے زیادہ امپورٹنٹ ہے آپ دونوں کی باتیں، اور اگر ہے تو پلیز دروازہ کھلا ہوا ہے آپ دونوں باآسانی باہر جاسکتی ہیں “-
آف! مارے شرمندگی کے راحلہ سے سر ہی نہیں اٹھایا گیا جبکہ لفظ خواتین پر مائشہ تلملا کر رہ گئی –
“مائشہ کی بچی اب کلاس روم میں مجھ سے کبھی بات مت کر نا “-ھود رضا کے کلاس روم سے باہر جا تے ہی راحلہ نے غصے سے کہا-
“سوال پر سوال تو تم کر رہی تھیں ورنہ میں نے تو صرف تعارف ہی کرایا تھا “-مائشہ نے اپنا دفع کیا –
“اور دیکھا نہیں پہلی ہی کلاس میں سر نے کتنی بری طرح سے ڈانٹا “- راحلہ اپنی عزت افزائی پر رو دینے کو تھی –
“اور انکی ہمت کیسے ہوئی ہمیں خواتین کہنے کی -ہم کو ئی خواتین لگتی ہیں بھلا “- مائشہ کی سوئی اب بھی لفظ خواتین پر ہی اٹکی ہوئی تھی –
“تم دونوں جب بھی ساتھ ہوتی ہو کچھ نہ کچھ کارنامہ ضرور انجام دیتی ہو -میں نے خود کئ بار دیکھا تم لوگوں کو بات کر تے ہوئے -میں نے اشارے سے منع کرنے کی کوشش بھی کی پر تم دونوں کو فرصت ملے اپنی باتوں سے تو دیکھو نہ “ماریہ نے دونوں کےقریب پہنچتے ہوئے لتاڑا –
“لو تمھاری ہی کمی تھی آگئی جلے پر نمک چھڑکنے -مائشہ چڑ ہی تو گئ -”
” اچھا یہ سب چھوڑو اور بتا وء کہ ھود سر نے تمھیں پہنچا نا نہیں؟ “راحلہ کو یہ بات بڑی دیر سے کھٹک رہی تھی اسلے پو چھے بنا رہ نہ سکی-
“نھیں ھود بھائی مجھے نھیں پہنچانتے ہے ”
“تو پھر تم کیسے پہنچا نتی ہو سر کو “راحلہ نے حیرت سے پوچھا –
“ھود بھائی نے ہمیشہ ہاسٹل سے پڑھائی کی ہے اور بعد میں ڈگری کے لیے باہر ملک چلےگئے اسلئے ہمارا کبھی آ منا سامنا نہیں ہوا، میں نے صرف انکی فو ٹو دیکھی تھی فاطمہ آ نٹی کے گھر پر “مائشہ نے پوری بات تفصیل سے سنا دی-
“ہوں تو یہ بات ہے “دونوں نے ساتھ ہی ہنکار بھرا -“اچھا چھوڑ ں ان باتوں کو چلو لائبریری چلتے ہے مجھے lytic cycle پر کچھ نوٹس تیا ر کرنے ہیں” ماریہ عرف کتابی کیڑا نے دونوں کو لائبریری چلنے کا اشا ر ہ کیا مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہیں بھی ماریہ کے ہمراہ جانا پڑا –
تینوں جیسے ہی کوریڈور سے گزریں تو سامنے سے ھود رضا آتا ہوا دکھائی دیا -مائشہ اور راحلہ سرعت سے دیوار کی پچھلی سائیڈ پر چھپکلی کی طرح چپک گئی مبادا ان دونوں پر ھود کی نظر نہ پڑ جائے -کیا کرے بے عزتی تازہ تازہ ہوئی تھی اسلئے سامنا کرنے سے بچ رہی تھیں جبکہ ماریہ وہیں کھڑی رہ گئ- ھود کے آنے کی ہی دیر تھی کہ کلاس کی ساری لڑکیاں جو کوریڈور سے گزر رہی تھی جھوم جھوم کر اسے سلام کرنے لگی جسے ھود نے بڑے ہی مودبانہ انداز میں مسکرا کے جواب دیتے ہوئے آگے بڑھ گیا –
“ان کمینی لڑکیوں کو تو دیکھو کیسے لہک لہک کر سلام کر رہی تھیں مانوں کتنی برسوں پرانی پہچان ہے انکی” مائشہ نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر ماریہ اور راحلہ کا قہقہہ بے ساختہ تھا –
“تم دونوں کیوں دانت دکھا رہی ہو “الٹا وہ ان دونوں پر الٹ پڑی –
“تم اتنا کیوں غصہ ہو رہی ہو میری بھولی سہیلی “-ماریہ نے مائشہ کی ٹھوڑی چھوکر پیار سے ہلایا –
“سر نے پوری کلاس کے سامنے ہماری کتنی بے عزتی کی ہے” مائشہ سے بےعزتی بھولی نہیں جا رہی تھی –
“لیکن غلطی ہماری تھی ہمیں اسطرح کلاس کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے -اسلئے مجھے لگتا ہے سر حق بجانب تھے “-راحلہ حقیقت پسند تھی اسلئے اپنی غلطی مان لی جبکہ ماریہ بھی راحلہ کی ہم خیال تھی اسلئے مائشہ کو رسان سے سمجھانے لگی –
جو بھی ہو اب وہ مجھے زہر لگنے لگے ہیں -مائشہ نے تنفر سے ناک پھنکارا –
“ایک تو آدھے جہاں کے لوگ بغیر کسی وجہ کے تمھیں زہر لگنے لگتے ہیں -مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ – “ماریہ کو اسکی زہر لگنے والی عادت ہی زہر لگنے لگی تھی –
اچھا مٹی ڈالوں ان باتوں پہ، اب ہم اس بارے میں ڈسکس نہیں کریں گے اور چلو لائبریری چلتے ہیں -راحلہ نے بات کو سمیٹا اور تھوڑی دیر بعد تینوں لائبریری کی طرف رواں دواں تھیں-
☆☆☆☆☆☆
کالیج کا اسٹاف بہت ہی اچھا تھا اور کچھ ھود کی ملنسار طبیعت کے باعث ھود کی سب ہی ٹیچر سے بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی -اور اب تو ھود کو پڑھا تے ہوئے کافی عرصہ بھی ہوگیا تھا -وہ ایک بہت ہی ملنسار اور بااخلاق ٹیچر ثابت ہو ا تھا -مائشہ اور راحلہ کی سوچ کے برعکس نرم دل اور خوش مزاج بھی واقع ہوا تھا –
ھود آج کلاس میں lac operon پر ڈکٹیشن کر وارہا تھا اس ٹاپک کو کل وہ بہت اچھے طریقے سے کلاس میں ڈسکس کر چکا تھا -بقول ھود کے امپورٹنٹ ٹاپک سمجھ لینے کے بعد لکھ لینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور طلبہ کو ایگزام کے دوران دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے -ابھی وہ کلاس میں ڈکٹیٹ کر وا ہی رہا تھا کہ اسی اثناء میں احتشام آگیا اور ھود کی پرمیشن لئے بغیر کلاس روم میں داخل ہو کر اپنی سیٹ سنبھال لی تھی- (احتشام، بقول پوری کلاس کے اس سے ذیادہ موڈی اور فری بندہ آج تک نظروں سے نہیں گزرا)
تم کب آئے؟ احتشام کا بغیر پرمیشن کے کلاس روم میں داخل ہو نا ھود کو نا گوار گزرا –
“سر 20 سال پہلے “-احتشام نے ذومعنی لہجے میں جواب دیا –
اس جواب پر سارے لڑکے کھی کھی کرنے لگے وہیں پر لڑکیاں جھینپی جھینپی سی نظر آنے لگیں جبکہ اس بےہودہ جواب پر ھود کو تو پتنگے ہی لگ گئے بڑے ہی کروفر سے پوچھا ” اچھا تو یہ بھی بتادوں کہ کونسے ہاسپٹل میں؟”
“جی سر Alexis hospital میں “بڑی سعا دت مندی سے جواب آیا، سامنے والے نے بھی شاید ڈھٹائ میں p. H. D کر رکھی تھی-
“کونسے بیڈ پی یہ بھی بتادو، ہو سکے تو ٹا ئم بھی بتادو کہ کونسے وہ قیمتی لمحات تھے جب آ پ ا س دنیا میں ظہور پزیر ہو ئے تھے” ھود نے بڑی کا ٹ دار انداز میں سامنے والے کو اپنی نظروں میں سموتے ہو ئے ایسے پوچھا جیسے کچا چبا نے کا ارداہ ہو – اس عزت افزائی پر بس وہ کھسیا کر رہ گیا اور ایک بار پھر پوری کلاس دانتوں کی نما ئش میں لگ گئی –
“بس خا مو ش ہو جا و سب ” ھود کی کڑک دار آ واز آ ئ اور پو ری کلاس نے چپی سادھ لی –
“کیا ہوا بس اتنی ہمت تھی تمہارے اندر، اور کچھ نہیں کہنا ہےآ پ نے، ” ھود نے بڑے ہی تمسخر ا نہ انداز میں احتشام کو مخاطب کیا پھر اسکی طرف انگلی اٹھا کر وارن کرنے والے انداز میں کہا
“اس قسم کی بد تمیزی میں اپنی کلاس میں بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتا اور ہاں اگلی بار میری کلاس شرافت سے اٹینڈ کرنا ورنہ نہیں کرنا یہ تمھارے اور میرے دونوں کے حق میں اچھا ہوگا اور سب میری بات غور سے سنیں، اب ھود کلاس کی طرف متوجہ تھا، “جو بھی اس قسم کی حرکت کرے گا اسے پنیش کیا جائے گا یہ پہلی بار تھا اس لئے رعایت برت رہا ہوں “کہہ کر وہ ڑکٹیشن کی طرف متوجہ ہو گیا –
لیکچر کے بعد ھود کے باہر جاتے ہی سب ہی کے زباں پر بس احتشام والا قصہ تھا –
“مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ احتشام ایسی چیپ باتیں بھی کر سکتا ہے اور وہ بھی سر کے سامنے “-ماریہ نے تاسف سے کہا –
“احتشام تو ایسا ہی ہے لیکن ہمارے ھود سر بھی کسی سے کم نہیں کیسے کھٹیا کھڑی کر دی اس کی، بےچارے کو منہ چھپانے کے لیے جگہ بھی نہیں ملی ہوگی” -راحلہ دونوں کی باتیں یاد کر کے ایک بار پھر ہنس پڑی –
“لیکن سر نے بھی کتنے چیپ طریقے سے باتیں کی -کسی بھی ٹیچر کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی ہے “-مائشہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا –
“جی نہیں اسے چیپ نہیں کہتے ہیں بلکہ جیسے کو تیسا کہتے ہیں -بس اسی کے انداذ میں سر نے اسے جواب دیا ہے “-ماریہ اور راحلہ نے ھود کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا –
اچھا چھوڑو ان باتوں کو کینٹین چلتے ہیں بہت دن ہو گئے ہیں گرما گرم سموسے نہیں کھائے ہیں -مائشہ کو بھوک کا احساس ہوا تو دونوں کو لےکر کینٹین کی طرف چل پڑی –
☆☆☆☆☆☆
Every night in my dreams I sea you, I feel you, there is how I know you۔۔۔
ٹائیٹانک مووی کاگانا لہک لہک کر گاتے ہوئے مائشہ تیزی سے کچن کی صفائی میں مصروف تھی تبھی پیچھے سے مریم بیگم کی اڑتی ہو ئ چپال اسکے سر کے اوپر ی سرے کو مس کر تے ہوئے سامنے والے دیوار پر جا گری –
“کیا ہوا امی؟ ” مائشہ اپنا سر سہلاتے ہوئے حیرانی سے مریم بیگم کو دیکھنے لگی کہ کس جرم کی پا داش میں اس پر چپل برسائے جا رہے ہیں –
“کیا ہوا !! میں پو چھتی ہو ں اتنی زور زور سے گانے کی کیا تک بنتی ہے بھلا، اگر اتنا ہی شوق ہے گانے کا تو اپنے تک ہی محدود رکھو، تمھارے گانے کی آ آوازیں ڈرا ئنگ روم تک پہنچ رہی ہے، فاطمہ باجی کی پوری فیملی بر اجمان ہیں ڈرائنگ روم میں، کیا سوچیں گی فاطمہ باجی اور ظہور بھائی کے ایسی تر بیت کی ہے میں نے اپنی اولاد کی”مریم بیگم غصے سے گو یا ہو ئیں –
” ہا ئیں -پر وہ لو گ کب آ ئے “مائشہ نے حیرت سے پو چھا –
“ابھی پانچ منٹ ہو ئے ہیں آ ئے ہو ئےہم مزید باتیں کرتے کہ تم نے راگ الا پنا شروع کر دیا مجبو ر ا مجھے آٹھ کر آ نا ہی پڑا – سدھر جاؤ ابھی بھی وقت ہے – ” مریم بیگم نے غصے سے لتاڑا –
” کیا ہوا آ نٹی کیوں ڈانٹ رہی ہے آ پ اسے-” پیچھے کا دروازہ کھول کر راحلہ بھی کچن میں آ چکی تھی –
“تم ہی سمجھائو اسے کجھ تو عقل کے ناخن لے میں عاجز آ چکی ہو اس کی بچکا نی حرکتوں سے “بڑ بڑ ا تے ہوئے مریم بیگم کچن سے باہر جا نے لگے پر کچھ یاد آ نے پر مہمانوں کے لے چائے لانے کا کہہ کر باہر چلی گئی –
“تم ہی بتا دو، آ نٹی کیوں نا رض ہو رہی تھی تم پر اب کیا کر دیا تم نے “- آ نٹی کے جاتے ہی راحلہ پوچھ بیٹھی –
” کچھ نھیں گا نا گاتے ہوئے آ واز تییز ہوگئ اسلے ڈانٹ پڑی “مائشہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا –
“اچھا کوئی نھیں یہ بتاؤ کو ئ مہمان آ یا ہے کیا ڈرائنگ روم سے آ وازے آ رہی ہے ” راحلہ نے فطری تجسس سے پوچھا –
“فاطمہ آنٹی کی پوری فیملی تشریف لائے ہیں –
” یہ وہی فاطمہ آنٹی ہے نہ جن کے بیٹے سر ھود ہے “راحلہ نے خوشی و مسر ت سے تصدیق چا ہی –
“ہاں لیکن تم کیوں خوش نظر آ رہی ہو اتنا “- مائشہ نے چائے کا پا نی چڑھاتے ھوئے حیرانی سے پوچھا –
“تو ھود سر بھی ساتھ میں ہو نگے “- راحلہ نے اندازا” پوچھا –
ہاں شاید ہو بھی سکتےہیں -مائشہ نے کندھے اچکائے -“واو مزہ آئے گا-چلو مائشہ جلدی سے چائے بنا کے ڈرائنگ روم میں چلتے ہیں -ھود سر سے بھی ملیں گے -بھئ انہیں بھی تو پتہ چلے کہ ہم انکے رشتہ دار لگتے ہیں ہوسکتا ہے اسی بہانے کلاس روم میں ہمیں جو آئے دن بات کر نے کی وجہ سے ڈانٹ پڑتی ہے کچھ رعایت ہی برت دیں –
“نہ بابا مجھے تو کوئی شوق نہیں ہے سر سے ملاقات کرنے کی روز ہی کلاس میں ملتے ہیں کیا وہ کم ہے، تمہیں جانا ہے تو شوق سے جاوءپر ہاں چائے بھی ساتھ میں لیتی جانا” -مائشہ نے جلدی جلدی کپوںمیں چائے انڈیلی پلیٹ میں کچھ نمکین رکھے اور صبح کا بچا ہوا کباب تل کےپلیٹ میں رکھ دیا اور ٹرالی راحلہ کے ہاتھوں میں تھماتےہوئے بولی –
“جی نہیں میڈم آپ بھی ہمارے ہمارے ساتھ ہی جائیں گی ورنہ یہ چائے یہیں رکھے رکھے ٹھنڈی ہو جائے گی میں تو اکیلے جانے سے رہی “-راحلہ سکون سے ٹیبل پر بیٹھتے ہوئی بولی –
تم مجھے دھمکا رہی ہو؟ -مائشہ نے کمر پر ہاتھ رکھے بےیقینی سے پوچھا –
جی نہیں ہماری کہاں مجال کہ ہم آپ کو دھمکائیں میں تو بس آپ کو مریم آنٹی کے غضب سے بچانا چاہتی ہوں پتہ ہے نہ آنٹی نے جلدی سے چائے لانے کو کہا ہے اور اگر خود آگئیں نہ بلانے تو تمھاری خیر نہیں “-راحلہ نے ایک بار پھر آنٹی کا خوف دلایا اور اگلے دو منٹ میں دونوں ڈرائنگ روم کی طرف جاتے ہوئے نظر آئیں-
ڈرائیونگ روم میں داخل ہوتے ہی دونوں نے کورس میں سلام کیا اور ایک کونے میں ٹک کر بیٹھ گیئں –
“ارے آپ دونوں خواتین یہاں؟ ” ثاقب صاحب سے بات کرتے ہوئے جیسے ہی ھود کی نظر ان دونوں پر پڑی تو ایک خوشگوار حیرت نے آن گھیرا -ھود نے دونوں کو مخاطب کیا –
“کیا آپ ہم سے مخاطب ہیں سر “-مائشہ نے اپنی طرف انگلی سے اشارہ کیا –
“ہاں غالبا” میں آپ دونوں سے ہی مخاطب ہوں -”
“اوہ! اچھا ہمیں لگا شاید آپ کسی خواتین سے مخاطب ہیں ہم تو لڑکیاں ہیں “اس کے اس احمقانہ جواب پر مریم بیگم نے اپنا ماتھا پیٹ لیا جبکہ راحلہ اور فاطمہ نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور ھود کا حال بھی کچھ جد ا نہ تھا، ظہیر اور ثاقب صاحب چونکہ بہت دنوں بعد ملے تھے اسلئے اردگرد سے بے خبر ایک دوسرے کی با تو میں مصروف تھے –
“ھود بیٹا یہ مائشہ ہے میری بیٹی اور یہ راحلہ ہے اسکے بچپن کی دوست، پڑوس میں ہی رہتی ہے” مریم بیگم نے تعارف کروایا –
“ویسے کافی باتیں کرتی ہے یہ دونو کلاس روم میں -ھود نے مسکراتے ہوئے دونوں کی ٹانگ کھینچی – جبکہ مائشہ اور راحلہ اپنی جگہ خفیف سی ہوگئی –
“بس بیٹا اب کیا بتائوں پتہ نہیں دنیا جہاں کی کونسی باتیں ہو تی ہیں ان کی جو کبھی ختم ہو نے کا نام نہیں لیتی”- مریم بیگم ویسے بھی لتا ڑنے کا اک بھی موقع ہا تھ سے ضائع نہیں ہو نے دیتی تھی –
“یہ ہم سے کتنا خا ر کھا تے ہیں کلاس میں تو ڑانٹتے ہی رہتے ہیں گھر پر بھی چین نہیں اسلئے میں نھیں آ نا چا رہی تھیں ” مائشہ نے راحلہ کے کانمیں چپکے سے کہا –
دیکھا آ نٹی ایسے ہی دونوں کلاس میں بھی ایکدوسر کے کان میں پتہ نہیں کیا کیا کھتے رہتی ہیں – خود کا تو لو س کرتی ہی ہیں اور کلاس بھی ڈسٹرب کرتی ہیں “ھود کی نظر یں اب بھی دونوں پر ہی تھیں پر مخاطب آ نٹی سے تھا…
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...