اسنے شہادت کی انگلی سے اسکا چہرہ اٹھایا اور اسکی آنکھوں میں جھانکتےہوے بولا-کیا اب بھی دماغ کی مانوگی؟اوراس ایک جملے میں کیا کیاکچھ باروا نہ کرواگیاتھاوہ-
پوجاکی نگاہ اسکی نگاہوں سے لمحہ بھر ٹکرای اورساکت رہ گی وہ ساحرہ آنکھوں میںہزارجگنو سمیٹےاسےدیکھ رہاتھا-
ہارسے کیوںخوفزدہ ہو؟
ہارسےنہیںدنیاسےخوفزدہ ہوںوہ سرجھکاکرسچ بولی میرےاورآپ کےدرمیان مذہب کی دیوارکھڑی ہے-
کیامیری مظبوطی پرتمہیں یقیں نہیں؟
کیاآپ مجھےدنیاسےبچاسکیںگے؟اسنے الٹاسوال کردیا
اگرمیں کہوں ہاںتو؟
اگرمگرکی بات چھوڑیے-حتمی بات کیجے اوروہ اسکی بہادری اورذہانت پر جیسے لاجواب ہوکررہ گیا-تم جتنی معصوم نظرآتی ہواتنی واقعی ہو نہیں وہ مسکراکربولا
یہ میری بات کا جواب نہیں وہ اتنے ہی مظبوط اندازمیں بولی-
اتنی سی عمرمیں اتنی گہری اور مظبوط سوچ۔وہ محوحیرت اسے دیکھے گیا-شکل وصورت سے معصومسی بھولی نظر آنے والی کانچ کےپیکروالی لڑکی کی سوچ کس قدرمظبوط تھی یفینا”وہ کوی عام لڑکی نہیں تھی اور یہ بات وہ اسکی گفگتوسےجان گیاتھاگفگتوواقعی انسان کا آینہ ہوتی ہیں اسے اسکی حقیقت پسندی پر حیرت ہوی اوراسکی ذہانت سےمتاثر بھی ہواتھابہرحل ساتھ میں افسوس بھی ہوا کہ اسےاسنے ایک عام شخص جانا-
افسوس کہ تم نےمجھے بہت سطحی انداذکاانسان سمجھا بہرحال تمہاری سوچ حقیقت پرمبنی ہےآج کل واقعی کسی پراعتبارنہیں کیاجاسکتامجھے تمہارایہ انداذبھی پسند آیاوہ دلکشی سے مسکرایا تووہ سرجھکاگی تبھی اسکی نگاہ راسٹ واچ پرگی تووہ اٹھ کھڑی ہوی -
سوری میری کلاس کا وقت ہوگیا ہے وہ جانے لگی تھی جب اسنے اسکی کلای تھام لی-
کیسا یقین چاہتی تم؟
یقین محکم-وہ کتابیں سمیٹنے لگی-شادی کروگی مجھ سے؟وہ اسکا ہاتھ یونہی تھامے تھامے بولاتھااوروہ جیسے ساکت رہ سی رہ گی
ارگردجیسے لاتعدادروشنی بکھرگیں پھوارسی برسنے لگی نغمےگونجنے لگےبہاریںرقص کرنے لگیں
اسےاپنی سماعتوں پر یقین نہین آیاتبھی بے یقینی سے اسے تکتی گی
کیا؟
شادی کروگی مجھ سے؟اعیان نےمسکراتے ہوے اسکی آنکھوں میں جھانکتے اپناسوال دہرایا اور تب واسکی لابنی پلکیں لرزیں اور جھک گیں اسکے ہاتھ سے اپنی کلای کھینچی اور ہوش میں آتی بولی میں ہندوہوں
میں مسلمان کر لوںگا-اعیان اسکا سبزآنچل پکڑتے ہوے بولاتو وہ یکدم چونک کر بڑی عجیب نظروں سے اسے دیکھنے لگی
مجھے سوچنے دو اتنابڑافیصلہ اچانک نہیں کرسکتی میں اپنادھرم چھوڑسکوں گی کہ نہیں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتی پوجا لڑکھڑاتی زبان سے بولی-میں اندازہ لگاچکاہوں کہ اسلام کی طرف تمہارارجحان بہت ذیادہ ہے مجھے امیدہےتم فیصلہ میرےحق میں کرنے میں کامیاب ہو جاوگی اسنے پریقین لہجے میں کہا-
اب میں چلتی ہوں-مجھے موقع دو کہ میں فیصلہ کرسکوں وہ نظریں جھکا کربولی
ایک اور بات،بلکہ دلیل کہہ دوں؟
کہو؟
میں جانتا ہوں کہ اب تم کسی اورسے شادی نہیں کرسکتی خواہ وہ تمہارے دھرم کاہی ہو لہذاتم اسلام قبول کر لو-
پوجاکو اسےاسکے لفظوںپریقیں لاناہی پڑامگروہ تنہا سب کیسے کرسکے گی بابوجی کو راضی کرناممکن نہیں تھامگر انہیں اگاہ کرنا بھی تو قیامت تھا
وہ کٹرہندوہیں کیسے اک غیرمذہب شخص کواپنی بیٹی کےلیے قبول کرسکتےتھےوہ تویقینا”سن کر ہی شایداسے مارڈالتے
پھر؟وہ بواجی کو اعتماد میں لیناچاہتی تھی مگروہ ان دنوں یاتراپرگی تھی پھر اسکی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیاکرے؟دل جہاںخوشی سے بھراتھا وہیں اب نیے حالات کے باعث کچھ الجھ بھی گی اک طرف بابو جی بواجی مذہب تھا اوردوسری طرف دل تھا محبت تھی جزبے تھے ایک مظبوط ہمسفرتھا جس نے اسکی ذمہ داری لی تھی جس نے اسکی ڈھال بننے کاوعدہ کیاتھا جوپہاڑوں سےبھی ذیادہ مظبوط تھا-اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھاکیاکرے دل رکھتی تو رشتے نہ رہتےاور رشتے رکھتی تو محبت سے ہاتھ دھوبیٹھتی فی الحال کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ تقدیر اسکے ساتھ کیاکرنےوالی ہے بہرحال اسنے خودکوتقدیر کہ حوالے ضروکردیاتھا-
وہ ان دنوں بہت سرشارتھی بے حدخوش مگر کہتے ہیں نا کہ اچھے دنوں کی مدت کم ہوتی ہے اگرچہ وہ اس بات سے واقف تھی مگرپرامیدتھی تبھی اس دن جب وہ ملاتو اسکا سنجیدہ انداذ محسوس کرگی تھی بولی کچھ نہ وہ ماہاکی موجودگی میں کبھی اسکو کالج ملنے نہ آتابس دو چار ملاقتیں کالج میں ہوی جب ماہا نہیں آرہی تھی پھر وہ لوگ پارک میں ملنے لگے اگرچہ یہ بولڈاسٹپ تھااگرکوی دیکھ لیتاتو یقینا”پوجا کہ حق میں براہوتا کہتے ہیں نا کہ عشق انسان کو بہادر نڈربنا دیتاسووہ بھی کچھ بہادر ہوتی جارہی تھی ابھی وہ پارک کے اک ایسے گوشے میں تھے جہاں آمدورفت نہیں تھی وہ اسکے سامنےخاموش بیٹھا تھا
وہ اسکا چہرہ پڑھنے کی کوکشش کررہی تھی تبھی وہ یکدم بول پڑا
پوجا میں جارہاہوں واپس-
کیا؟
ہوں بہت کم وقت ہے میرے پاس
لیکن تم نےتوکہاتھاکہ مجھ سے شادی-اسکالہجہ یکدم دم توڑگیا تھا اور تب وہ بغور اسکی سمت دیکھنے لگا-
ایک توتم عورتیں جانے کیوں بہت جلدکوی بات اخذکر جانے کی عادی ہو تی ہو مجھ پر اعتبار نہیں ہے کیاتمہیں؟
جب کہا ہے تو فقط فریب تو نہیں دیا میرے جزبوں کی صداقت پر یقین نہ کر کےتم مجھے میری نظروں میں بے توقیرکررہی ہو-
وہ بے حد خفانظر آرہاتھا–
میرا–میرامطلب یہ نہیں تھا وہ یکدم بول پڑی
بہرحال میں یہی بات تم سے کرناچاہ رہاتھا۔
بہرحال میں تم سےکہنا چاہ رہاتھا کہ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں آج اور ابھی میرادوست اور کزن فرحان ایک قریبی ہوٹل میں گواہوں اور قاضی کے ساتھ ہمارے منتظر ہیں میں تمہیں لینے آیا ہوں دونوں کام اک ساتھ ہوں گے پہلے تم اسلام قبول کروگی بعد میں فورا”نکاح پڑھواوں گا-
بات اتنی غیر متوقع تھی کہ وہ کتنے پل بت بنی اسے تکتی رہی آنکھوںمیں حیرت واضع تھی تبھی اعیان اسےدیکھنے لگا-
پوجا سوچنے کا مرحلہ گزر چکاہے۔۔
مگر میرے بابوجی–بواجی۔۔بہت گٹھی گٹھی آواز حلق سےبرآمد ہوی تھی
میں نے بھی یہ فیصلہ اکیلےکیا پوجا زندگی ہمیں بسر کرنی ہے اور جینے کا حق فقط ہمیں ہے
لیکن میں اتنا بڑاقدم اسقدر اچانک کس طرح اٹھا لوں تنہا میں نے کسی کو راز میں شریک بھی نہیں کیا
پوجا بچوں جیسی باتیں مت کرو اب باقاعدہ اعلان کرنے سےتو رہے ہم
ایسی بات نہیںمگر۔
کیا تم ایسا نہیں چاہتی؟
مگر تم چلے جاوگے اسنے آنسوں کے درمیان میںکہا
واپس بھی تو آوںگا تمہیں لینے لیکن اگر تمہارے گھر والوں نے مجھے قبول نہ کیا تو؟
شادی میںتم سے کررہاہوں میرے گھر والے نہیں-
شادی ایک خاندان کا دوسرےخاندان سے سمبندھ کا نام ہے-
فی الحال ممکن نہیں مگر بعد میں دونوں سب کو کنونس کرلیں گے مگر کس طرح ؟اسکا ذہن قطعی تیار نہ تھا-
تم تیار ہو اس فیصلے پر کہ نہیں؟ وہ جارحانہ انداز میںپوچھنے لگا اور تب وہ خاموشی سے سر جھکا گی اک طرف کنواںتھا دوسری طرف کھای دل رکھتی تو خاندانی وقار نہ رہتااور خاندان کی عزت رکھتی تو دل ہمیشہ ساکت رہ جاتا مردہ دل کے ساتھ بھلا کوی کیسے جی سکتا
اسنے تو ماہا کو بھی شریک راز نہ کیا تھا جواپنا آپ اتنا چھپا کر رکھنے کی عادی تھی ہاری بھی تو کہاںحلانکہ وہ اسکی عزیزترین دوست تھی بہرحال اسے لمحہ بھر میںفیصلہ کرنا تھا اعیان نے اکتاے انداز میں دیکھا اسکی طرف پھر جیسے مایوس ہوکر مڑا اور پوجا کے دل کی ڈھڑکن جیسے ساکت ہوگیں وہ چلا جاتا تو یقینا”تہی داماں رہ جاتی
اسکےلب یکدم کھلے اعیان
وہ رک گیا مگر پلٹا نہیں اور تب وہ جلدی سے بیگ اٹھا کر کھڑی ہوگی اتنا بڑا فیصلہ تنہا کر لیا تھا حالت ایسی تھی چلنا محال تھا قدم لڑکھڑے تھے
اعیان پلیز مجھ سے چلا نہیں جارہا وہ بمشکل بولی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا یکدم رک گیا
کیا بانہوں میںاٹھالوں؟اسکا اندازشریر تھا چہرے پر فتح مندی کا احساس بے حد نمایاں تھا وہ سٹپٹا کر نظریں جھکا گی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکےپیچھے بیٹھ گی اور چہرہ اچھے سے ڈوپٹے سے چھپا لیا اور ڈرتے ڈرتے اسکے شانےپر اپنا ہاتھ رکھا مظبوطی سےپکڑو نہ اسکی سانسیں بے ترتیب ہونے لگی اس شخص کی قربت یوں بھی محال ہوا کرتھی کجا اتنی قربت گرگراگیںتومیرا ذمہ نہیں ہوگاویسے تمہارا ارادہ شادی سے پہلے ہی مجھے رنڈوا کرنےکا ہے وہ مذاق میں بولا اور تب اسے شانے کو مظبوطی سے تھامنا پڑاتھا
اور اسنے اپنا دھرم چھوڑ دیااور اسلام قبول کر چکی تھی اعیان نے اسکا نام سجیلہ رکھا تھا وہ سر جھکاے ملول سی بیٹھی تھی ابھی ابھی اسنے نکاح نامے پر دستخط کیےتھے گواہوں کی موجودگی میں اس شخص کو قبول کیا تھا اسے پنا ذندگی کا اولین سہانا خواب تھا وہ خود سے پرای ہوچکی تھی اپنامذہب سب کچھ کھو چکی تھی دل نظرتن سبکامالک کوی اور بن گیا تھا وہ اپنے دوستوں اورقاضی کو چھوڑکرآیااسےاس طرح افسردہ بیٹھادیکھ کررک گیا پچھتارہی ہووہ سراٹھاکردیکھنےلگی دل یکدم ڈھڑکاوہ اپنایت سے مسکرارہاتھاوہ گھبرا کر نظرجھکاگی اعیان مسکراتے آگےبڑھ آیا سجیلہ کی نظریں اسکےبڑھتے قدموںپرتھی فورا”اٹھ کھڑی ہوی اور لڑکھڑاکررہ گی اعیان نےفورا”آگے بڑھ کراسے اپنی مظبوط پناہ میں لے لیا ہوش کھونے ہمیں چاہیے اورکھوآپ رہیں ہیں ساقی کو اس حالت میں پہلی باردیکھاہے اسکالہجہ مدھرتھا دھیماجزبوںسے دہکتاہوااور اسے دیکھ کر ہوش کھورہی تھی اتنے قریب کےتلعق کا اسنےکبھی سوچانہ تھا اسکے دل کی بس یہی خواہش تھی ک
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں۔۔
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو-
اوراس وجود کی رسای کےمعتلق اسنےخواب میںبھی نہ سوچاتھا وہ فورا”مچل کراسکی مظبوط پناہ سے نکل آی پلیز مجھے گھرچھوڑ آیںاسنے خشک ہونٹوں پر ذبان پھیرتے ہوے کہا نظریں مسلسل جھکی تھی حیا کاباراتنا تھاپھر اسکی نظروں کامقابلہ کرنےکی سکت کس میں تھی وہ پہلے نڈھال تھی دل سے ہاری تھی پھراک نیے محاذپر کیسے جنگ لڑتی وہ اسکے اندازپر مسکرایاوہ سرجھکاے ہونٹ کاٹتی دیوارسے لگی کھڑی تھی وہ چلتا ہوا اسکے سامنے آکھڑاہواکچھ کہے بنااسے تکتاچلاگیا اسکی نظروںکی تپش کو سہنا محال تھا تبھی یکدم وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپاگی کلایوںکی چوڑیاں یکدم چھنک گی اعیان نے اک نظر دیکھااوراپنے مظبوط ہاتھوں میں اسکےنازک ہاتھ تھام لیےاوراسکا چہرہ دیکھنے لگا ایسے انداز مت اپناوکہ میں خودپر قابو نہ رکھ سکو بندہ بشرہوں فرشتہ نہیں بہک بھی سکتاہوں اوراس صورت میں تواوربھی کہ ملکیت کااحساس دوچند ہو اسنے پورے استحاق سے اسکے وجودکواپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اسکے لیے سانس لینامحال ہوگیا-سجیلہ نیی زندگی کی شروعات کررہے ہیں ہم بندھن میں بندھ چکے ہیں تم واقعی نیی زندگی کی ابتداکررہی ہو تمہیں اپنا نام پسند آیا؟
جی بہت ویسے محبت کے بہت نام ہیں–جانم،جاناں جانوں ڈرلنگ
ہوں اسنے بمشکل اثبات میں گردن ہلای اور اسکی طرف دیکھ کربولی پلیز مجھے گھر–تبھی اسنے اسکے ہونٹوںپراپنامظبوط ہاتھ رکھ دیا
آج جانے کی ضدنہ کرو-اسکی ڈھرکنیں تھمنے لگیں اسکا لہجہ اندازسب بے خودخمارآلودبہکا بہکاسا تھا آپ بہک رہے ہیں جانے وہ کیسے کہہ گی وہ پہلے چونکاپھردلکشی سے مسکرادیا
آپ کودیکھ کرکوی ذی روح ہوش میں نہیں رہ سکتااور میںفرشتہ نہیں یہ بات پہلے بارواکرواچکاہوں وہ نظریںجھکا گیں
ہماری آنکھ سے خود کو دیکھ لیتے کبھی
تمہارے ہاتھ سے آینے گر گے ہوتے
بابوجی-انتظار۔۔۔۔
اوں ہوں ذرا جی بھر کے دیکھ تو لینے دو
بابوجی کو آپ جانتے نہیں وہ–
اب آپ ہماری ہیں کوی آپکا کچھ نہیں بیگاڑ سکتا اسے سمجھ میں نہ آیا کہ اسےکیسےقایل کرے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...