(Last Updated On: )
فسونِ ذات کو تفسیر کر نہیں سکتی
میں اپنے درد کو تحریر کر نہیں سکتی
ذرا سی دیر ملا تھا وہ خواب میں مجھ کو
اس ایک خواب کو تحریرکر نہیں سکتی
بس اک چراغ جلا سکتی ہوں میں آنکھوں میں
شبِ سیاہ کو تنویر کر نہیں سکتی
خیال و خواب میں تجھ کو بسا لیا میں نے
اب اس سے بڑھ کے تو توقیر کر نہیں سکتی
نوا میری ہے اور اُسلوب ہے میرا اپنا
سخن بہ طرز ولیؔ، میرؔ کر نہیں سکتی