انسانی فکر کو آغاز ہی سے کائنات اور اس کے متعلقات نے متجسس کیا ہے۔اکیسویں صدی میں اس موضوع پر متعدد انکشافات منظر عام پرآرہے ہیں۔ کائنات اور اس کے سربستہ رازوںسے پردہ اٹھ رہا ہے۔آج کے عہد میں بڑی بڑی دریافتیں اور تہلکہ خیز سائنسی مفروضے سامنے آئے ہیں۔ابن آدم کے دیرینہ خواب اپنی عملی تعبیر کی طرف رواں دواں ہیں۔دنیا کے جدید ممالک کے سائنس دان خلا میں تجربہ گاہوں ،خلائی فیکٹریوں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی خلائی کالونیاں بنانے کے شان دار منصوبے باندھ رہے ہیں۔ادب اورادیب کی معاشرے سے گہری علمی وابستگی اورمستقبل شناسی کے سبب کائناتی شعورکا فلسفیانہ یا سائنسی پہلوئوں سے ادراک حاصل کرنے کا تصور ملتا ہے۔دنیا کی ہر زبان کے ادب میں یہ روایت موجود ہے۔
عالمی ادب میں افلاک کی تصوراتی یا خیالی سیر کی اہم روایت موجود ہے۔ اس موضوع پرمذاہب عالم کے عقاید و تصورات کا گہرا اثر دیکھا جا سکتا ہے ۔ اسلام میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر معراج کے تناظرمیں سرحد افلاک سے بھی پار جانے اورستاروں کو گرد راہ بنانے کا تصور بھی ملتا ہے۔شعرا وادبا کے ہاں بھی خلا، عالم ارواح،بہشت و دوزخ ، یا جہان دیگر کی روحانی یا خیالی سیر موضو ع سخن بنی ہے۔یہاں قدیم یونانی مفکر لیوسین کے خلائی سفر کی داستان (جس میں چند انسان گدھ اور عقاب کے پروں پر بیٹھ کر خلا کا سفرکرتے ہیں)، ورجل (Virjil) کی منظوم داستان Aened ، دانتے الغیری کی دیوائن کامیڈی(Devine Comady) ،ابوالعلا المعری کے رسالہ الغفران ، حکیم سنائی غزنوی کی سیر العباد الی المعاد ،خواجہ فرید الدین عطار کی منطق الطیر،ابن عربی کی فتوحات مکیہ ،خواجہ احمد لطیف کی اعراف کی ایک روح،مولانا محمد حسین آزاد کی نیرنگ خیال ،سجاد علی انصاری کے نامکمل ڈرامے روز جزا کو بہ طور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اردو کے کلاسیکی شعرا کے ہاں مہ و نجوم اوراجرام فلکی کے حوالے سے تقدیر کے جبر،آسمان کا الٹی چال چلنا، چرخ نیلی فام کی بے اعتنائی وغیرہ جیسے مضامین ملتے ہیں۔بیسویں صدی میںعلامہ اقبال نے اس موضوع کو فلسفیانہ تناظر میں دیکھا اور صحیح معنوں میں کائناتی شعور کے ساتھ شاعری میں مضامین نو کے انبار لگا دیے۔ان کی شعری تخلیق جاوید نامہ اس کی عمدہ مثال ہے۔اس کے علاوہ بھی اقبال کے ہاں گنبد فلک کی لا محدود پہنائیوں میں تسلسل کے ساتھ سرگرم عمل رہنے کا تصور ملتا ہے :
مدت سے مری سوچ ہے آوارہ افلاک
کر دے تو اسے چاند کے غاروں میں نظر بند
(۱)
گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں انسان کی چاند تک رسائی نے کائنات کی وسعتوں میں سیر افلاک کے در وا کیے،سائنسی مطالعات میں علم فلکیات کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔کائنات اوراس کے مشاہدات نے متعددنئے سوالات کو جنم دیا۔نئے انسان نے کائنات کی تخلیق ،اس کی ہئیت،حدود اربعہ اور عناصر ترکیبی پر غور و خوص کرنے کے بعد ثابت کر دیا ہے کہ اس کائنات کی وسعت کے بارے میں حتمی راے قائم کرنا آسان نہیں۔انسانی ادراک جیسے جیسے غور و فکر کی منزلیں عبور کرتا جاتا ہے،اسے اپنی بے مایگی کا احساس ہوتا جاتا ہے۔جدید شعرا کے ہاں ضمنی طور پر علم فلکیات کے اثرات کا سراغ بھی ملتا ہے۔
مجید امجد (۱۹۷۴ء ۔ ۱۹۱۴ء ) کی ادبی کائنات کے آفاق خاصے وسیع ہیں۔ان کے شعری اور نثری رجحانات کی سا خت پرداخت میں ان کے مطالعے کی وسعت نے اہم کردار ادا کیا،گورنمنٹ کالج ساہیوال میں مجید امجد سے منسوب پوسٹ گریجوایٹ لائبریری میں ان کی باقی ماندہ کتابوں کے ذخیرے میں متنوع موضوعات پر کتابیں موجودہیں۔ان کے زیرمطالعہ کتب و رسائل میں ادب لطیف، ماہ نو، اوراق، سیپ اور ادبی دنیا کے چند شماروں کے علاوہ مختلف فارسی،ارد و لغات،چند انگریزی کتابیں اور دوستوں کی طرف سے تحفے میں ملنے والے کچھ شعری مجموعے شامل ہیں، ان کتابوں کو دیکھ کر مجید امجدکی مختلف علوم میں گہری دل چسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔مجید امجد کے زیر مطالعہ رہنے والی اکثر کتابوں پر ان کے قلم سے لگے نشانات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اکثر کتابوں پر ان کی نام کی ذاتی مہر بھی ثبت ہے۔
مجید امجد کوعلم فلکیات ( (Astronomyسے خاص شغف تھا۔ان کی شاعری بہ طور خاص نظموں پر اس کے واضح اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔مجید امجد سائنسی شعورکے حامل ادیب تھے، علم فلکیات کے بارے میں رائج قدیم تصورات کے برعکس ان کے ہاں جدید افکار سے انجذاب وقبول کا رجحان نظر آتا ہے۔مجید امجد کی نظموں کے موضوعات میں حیاتی اور کائناتی شعور کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ان کے متنوع شعری موضوعات میں کائنات کی حدوں سے پار نکل جانے کی خواہش ملتی ہے۔ان کی بالیدہ اور زرخیز قوت متخیلہ بھی وسعت کے لحاظ سے ہمہ وقت تغیر پذیری کے عمل سے گزرتی رہتی تھی ۔کائنات کے ظاہر و باطن میں موجودپراسراریت بھی مجید امجد کے شاعرانہ فکر واسلوب کے لیے مہمیز کا کام دیتی تھی۔ان کے ہاں نت نئے امکانات کی تلاش کاعمل کائنات کی لامحدود انتہاوں کو جانچنے کے عمل سے مشابہ ہے۔
فسانہ آدم مجید امجد کا دست نویس مسودہ ہے۔یہ بائیس صفحات پر مشتمل ہے۔اس مسودے کے پہلے صفحے پر نمایاں اور جلی حروف میں موٹے قلم کے ساتھ اس کا عنوان یعنی فسانہ آدم تحریر کیا گیا ہے۔فسانہ آدم میں تحریر کے ساتھ ساتھ مختلف تصویروں کے ذریعے موضوعات کی وضاحت کی گئی ہے۔ ابتدائی صفحے پرموٹے حروف کے ساتھ باب تحریر ہے۔اس کے نیچے زمین (Earth)سے متعلق بنیادی معلومات درج کی گئیں ہیں۔یہاں بیانیہ انداز میں خوب صورت اسلوب کے ساتھ کرہ ارض کی ابتدا اور ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نظام شمسی((Solar System کا عنوان دے کر نیچے چاند(Moon) کے ذیلی عنوان سے بنیادی معلومات درج کی گئیں ہیں۔اسی کے ساتھ ذیلی عنوان سے سورج (Sun) کے بارے میں تفصیلی اندراج ہے۔اسی کے ساتھ بالترتیب مشتری(Jupiter)، زہرہ (Venus)، مریخ(Mars)، عطارد(Mercury)،زحل (Saturn)، ارناوس (Urnaois)، نیپچون(Neptune)اور پلوطو(Ploto)کا ذکر ملتا ہے۔نظام شمسی سے باہر کی دنیا کے نام سے دیے گئے عنوان میں ستارے،سیارچے،دم دار ستارے اور شہاب ثاقب وغیرہ کو موضوع بنے ہیں۔ستاروںکی دیگر اقسام کے ذیلی عنوان سے دو گانہ،سہ گانہ،چہارگانہ ستاروں کے ساتھ گہنائے ہوئے ستاروں،دیر تک بدلتے رہنے والے ستاروں، بے قاعدگی کے ساتھ بدلنے والے ستاروں،مسلسل تبدیلی والے ستاروں،اور عارضی ستاروںکا ذکر ہے۔
اس مسودے کے آخری صفحات میں کہکشاوں اورآغاز اجرام فلکی کے عنوان کے تحت آفرینش سے متعلق علوم فلکیات کے ماہرین کے پانچ نظریات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ آخری صفحے پر انگریزی کی اکیس اصطلاحات درج ہیں، جن میں سے چار اصطلاحات کا ترجمہ کیا ہوا ہے، باقی جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے۔اس صفحے کے اوپر واضح حروف میں” اصطلاحیں جن کے اردو ترجمے مطلوب ہیں” لکھا ہوا ہے۔واضح رہے کہ اس مسودے کے ابتدائی چند صفحات بیانیہ انداز کے ہیں جب کہ بقیہ کی نوعیت مطالب کی ترسیل کی بجائے ،نوٹس لے کر اخذ و استفادہ کرنے کی ہے۔ فسانہ آدم کے ابتدائی صفحوں میں مجید امجد کا نثری اسلوب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ایک اقتباس دیکھییَ:
یہ دنیا،یہ خشکیوں،یہ پانیوں، پہاڑوں، ریگزاروں، درختوں، دریائوں،وادیوں ،چٹانوں کا گہوارہ ،جس میں نسل انسانی جھول رہی ہے۔جس میںہم چلتے پھرتے رہتے سہتے ہیں ،کون جانے کب سے اس مہیب ،لا محدود، ،نیل گوں،فضا کے اندر مصروف گردش و سفر۔اور کتنی عظیم تبدیلیاں اور کتنے زمانوں کے الٹ پھیر کے بعد اس قابل ہوئی ہے کہ نوع انسانی کے اولین افراد اس کی برفیلی غاروں کے اندر اپنے دونوں اگلے پیروں سے اپنا بوجھ ہٹاکر اپنے دونوں پائوں پر استادہ ہوسکیں اور اپنے بھونڈے ہاتھوں سے سے ہڈی اور پتھرسے اپنے بھدے اوزار گھڑ سکیں(۲)
ایک جگہ وہ مزید لکھتے ہیں:
آج ہم جانتے ہیں کہ دنیا،یہ ہمارا کرہ ارض متحرک ہے،گردش میں ہے۔آج ہم مختلف دیگر عالموں پر تاروں اور سیاروںاور زمانوں کے فاصلوںاور فضائوں کی لا محدودیت اور محدود لا محدودیت کے متعلق بہتر اور زیادہ درست واقفیت رکھتے ہیں۔آج ماہرین فلکیات مختلف اجرام آسمانی کی ہئیت،مقام،دوری،رفتار اور ماہیت کے مختلف حیران کردینے والے انکشافات کر چکے ہیں کہ ان کی روشنی میں ساری دنیا کی حیثیت ایک وسیع ومدور خلا کے اندر ایک حقیرسے نقطے سے بھی غیر اہم ہو کر رہ گئی ہے۔سورج بھی لکھوکھا ستاروں کی طرح اس خلائے بسیط میں ایک عام ستارہ ہے(۳)
فسانہ آدم کو مجید امجد کی تحریر ہونے کے سبب اہمیت حاصل ہے۔مجید امجد کی نثری کائنات کا ذکر ہو تو ان کی علوم فلکیات میں خصوصی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے فسانہ آدمکو مجیدامجد کی تخلیق قرار دیا جاتا ہے۔مجید امجد کے شعری کلیات کے مرتب پروفیسرڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے مجید امجدکی دیگر غیر مطبوعہ تحریروں کے ساتھ ان کی علم فلکیات پر لکھی جانے والی کتاب کے مسودے کی عدم دستیابی پر افسردگی کا اظہار کیا ہے۔ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں :
مجید امجد نے کائنات کے بارے میںایک کتاب لکھنی شروع کی تھی۔اگر چہ وہ نامکمل رہ گئی تھی، لیکن وہ اپنی کسی چیز کو ضائع نہیںکرتے تھے۔اس لیے یقین ہے کہ اس کا مسودہ ان کے دوسرے مسودات کی طرح ان لوگوں کے پاس ہوگا جن کے پاس ان کے دوسرے مسودات ہیں(۴)
فسانہ آدم کی اشاعت کے بعد اپنے ایک اور مضمون میں اسی موضوع پر وہ کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیں :
ادبیات کے علاوہ جدیدسائنس اور ٹیکنالوجی،فلسفہ، نفسیات اوردیگر علوم سے بھی اسے بہت شغف تھا۔ اسٹرانومی پر اس نے اردو میںکتاب لکھنی شروع کی تھی جس کا نامکمل مسودہ مل چکا ہے۔کائنات کی وسعتوں اور پیچیدگیوں کا شعور جو اس کی شاعری میںجگہ جگہ ملتا ہے ۔ اس کی وجہ یہی مطالعہ ہے اور یورپ و امریکہ سے آنے والے تازہ پاپولر سائنسی رسائل اس کی نظر سے گزرتے رہتے تھے۔۔۔اس کے ہاں کہکشائیں ، سورج ،سیارے، ہماری دنیا،اس کا کرہ ہوائی، اس کے حیاتیاتی مظاہر، جراثیم،نباتات،چرندے،پرندے اور انسانی ارتقاکی نا مختتم لڑی میں پروئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں (۵)
ان اقتباسات میں جس نامکمل مسودے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مرا د یقینی طور پر فسانہ آدم ہی ہے۔مجید امجد کا تحریر کردہ یہ مسودہ ان دنوں ڈاکٹر عا مر سہیل کی ملکیت ہے۔مجید امجد کے حوالے سے اپنے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے کی تحریر و تسوید کے عمل کے دوران میں یہ مسودہ انھیں گورنمنٹ کالج ساہیوال کے پرنسپل اور مجید امجد کے ساتھی اور معتقد پروفیسر عبدالقیوم صبا مرحوم سے دستیاب ہوا۔(۶)فسانہ آدم کے حوالے سے ڈاکٹر عامر سہیل کا تعارفی مضمون فسانہ آدم:ایک نادرقلمی دستاویز کے عنوان سے نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد کے ری سرچ جرنل دریافت میں شایع ہوا۔فسانہ آدم کو مجید ا مجد کی تخلیق قرار دیتے ہوئے ،اس کے حوالے سے وہ کچھ یوں رقم طراز ہیں:
علم فلکیات کے حوالے سے مجید امجد کی شدید خواہش تھی کہ وہ اس موضوع پرباقاعدہ ایک کتاب تحریر کریں۔انھوں نے اپنے مطالعہ کو بہ رو ئے کار لا کر لکھنے کا کام شروع کیا تھا لیکن بہت جلد انھوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا کہ ان کے خیال میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے(۷)
فسانہ آدمکی تحریر سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک باکمال شاعرہونے کے با وصف مجید امجد علم فلکیات پر لکھی جانے والی انگریزی کتب کے مندرجات سے استفادہ کر کے جدید علوم کی روشنی میں اپنی شعری دنیا کے آفاق کو اور بھی وسیع کرنا چاہتے تھے۔ ان کی نظموں میں ان مطالعات کی صدائے بازگشت واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔اس ضمن میں ان کی نظمیں بس اسٹینڈ پر،۲۹۴۲ء کا ایک جنگی پوسٹر، راتوں میں۔۔۔،نہ کوئی سلطنت غم نہ اقلیم طرب،ایک شام،نیلے تالاب،بھائی کوسیجن اتنی جلدی کیا تھی،مرے خدا مرے دل،خردبینوں پر جھکی،برسوں عرصوں میں،ان سب لاکھوں کروں،صاحب کا فروٹ فارم،درس ایام،امروز، روداد زمانہ اورمشرق و مغرب وغیرہ کو بہ طور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔
راقم کی طالب علمانہ راے ہے کہ فسانہ آدم مجید امجد کی تخلیق نہیں بل کہ علم فلکیات پر لکھی جانے والی مختلف انگریزی کتابوں کا ترجمہ یا ترجمانی ہے۔ ہم نے مجید امجد کے دوستوںسے سنا ہے کہ وہ مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین وغیرہ کو بڑے اہتمام سے اپنی فائل میں رکھتے تھے۔ اس فائل میں جدید سائنسی علوم سے لے کر پھلوں اور سبزیوں کے خواص سمیت نوعیت کے مضامین ہوتے تھے۔ اس زمانے میں فوٹو سٹیٹ مشین کی سہولت نہ ہونے کے سبب اس طرح کے مطالعاتی نوٹس اور اخباروں کے تراشے وغیرہ مجید امجد اپنے استعمال میں رہنے والے واحدچوبی صندوق میںسینت سینت کر رکھا کرتے تھے۔ یہ ان کی درویشانہ طبع کا حصہ تھا۔
اس سلسلے میں وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ کون کون سی کتابیں مجید امجد کے مطالعہ میں رہی ہوں گی البتہ ایک کتاب کا حوالہ دینا ضروری ہے، یہ آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر فلکیات ڈاکٹر مارٹن ڈیوڈسن (Dr Martin Davidson) کی کتابAn Easy outline of Astronomy ہے۔اس کتاب کا ۱۹۴۶ء میں شایع ہونے والا تیسرا ایڈیشن مجید امجد کے زیر مطالعہ رہا۔یہ کتاب راقم کو مجید امجد کے رفیق اورمنٹگمری (ساہیوال) سے شایع ہونے والے رسالے فرداکے مدیر اشرف قدسی مرحوم سے دستیاب ہوئی تھی اورآج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔اس کتاب کے پہلے صفحے پر مجید امجد کے دستخط اور مہر ثبت ہے۔دستخط کے ساتھ ۲۱جنوری ۱۹۵۱ء کی تاریخ درج ہے۔ ایک سو آٹھ صفحات پر مشتمل اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۰۶ کے آخر میںبھی مجید امجد کے دستخط موجود ہیں اور نیچے ۱۱ فروری۱۹۵۱ء اور شہر چیچہ وطنی لکھا ہے۔اس سے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ مجید امجد کے بہ سلسلہ ملازمت چیچہ وطنی میں قیام کے دنوں میں ،یہ کتاب شاید بائیس دن تک ان کے زیر مطالعہ رہی ہو گی اور انھوں نے اس کے مشتملات سے بھر پور استفادہ کیا ہوگا۔فسانہ آدم اور An Easy outline of Astronomy کے متون کا تقابل کیا جائے تو اشتراکات کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں جس سے واضح ہو جا تا ہے کہ مجید امجد اسٹرانومی پر کوئی کتاب لکھنے کی بجائے دراصل اسی کتاب کا ترجمہ کرنا چاہتے تھے لیکن مصروفیت ،عدم دل چسپی یاکسی اور سبب سے اسے مکمل نہیں کر پائے۔فسانہ آدم کا مسودہ اور مذکورہ بالا کتاب طویل عرصہ تک مجید امجد کے پاس موجود رہی اور ازاں بعد فسانہ آدم کا مسودہ پروفیسر عبدالقیوم صبا مرحوم کے پاس اور ڈاکٹر مارٹن ڈیوڈسن (Dr Martin Davidson) کی کتاب اشرف قدسی مرحوم کے پاس جا پہنچی۔زیربحث متون کا موازنہ کریں تو دونوں کے مابین گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر چند اقتباسات دیکھیے:
کہکشاں لمبوترے شکل کی ہے،اس کے ستاروں کے اعداد و شمارحیرت ناک ہیں۔اس کہکشاںکے اندر کوئی ۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ چھوٹے بڑے ستارے ہیں۔ان میں ایک ستارہ سورج ایساہے ،یہ ہمارے لیے اہم ہے۔روشنی کو کہکشاں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے ۱۲۰۰۰۰۰ سال درکارہیں۔سورج ہمارے لیے اہم ہے لیکن کہکشائوں کے اندراس کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔بڑا ظلم ہے (۸)
The glaxy is shaped some what like a bun, but is more flattened than most buns are…in side this bun shaped system there are about at 30000000000 stars. That is 30000 million, which, taken on the average, do not differ very much from one particular star that is important for us -our.sun, Light would require about 1200000 year to cross the glaxy from end to end. We might expect that an important stae like the sun (imortant at least from our point of view)would be near the centre of this vast system but nospecial performance is shown to it.(9)
چاند قریبی ہمسایہ ہے۔(۱۰)
The moon is our nearest neighbour (11
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند میں فضا نہیں(۱۲)
The moon to day has no atmosphere (13)
ْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کے لیے چاند کا سب سے بڑا فائدہ جوار بھاٹا ہے۔(۱۴)
She( moon) is more important for the influence on the seas (15)
ّّ۔۔۔۔۔۔۔
اس سیارے کی سطح مشکل سے نظر آتی ہے کیوں کہ یہ چاد ر ابر میں لپٹا اور گھرا رہتا ہے۔(۱۶)
It is quite impossible to see the surface of the planet because of the layer of cloud which always surrounds her (17)
اس کے علاوہ چند پہلوئوں پر غور کیا جائے تو فسانہ آدم کے ترجمہ ہونے کا خیال اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پر:
ا : فسانہ آدم کے متن میں مجید امجد سے نظام شمسی کے سیارے مشتری اورعطارد کو Jupiter لکھنے کی غلطی سرزد ہوئی ہے۔مطالعے کے دوران مجید امجد نے اس کے مندرجات کو مختلف جگہوں پر نشان زد کیا ہے۔ ڈیوڈ سن ( Davidson )کی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴ اورصفحہ نمبر۴۱ پر مجید امجد کے اپنے قلم سے ان تسامحات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ب: فسانہ آدم اورAn easy outline to Astronomy کی فہرست کے عنوانات کی ترتیب بالکل یکساں ہے اور اس میں کہیں پر معمولی سا فرق بھی محسوس نہیں ہوتا۔
ج:آغاز اجرام فلکی کے چند نظریات کے ذیلی عنوان کے تحت مجید امجد نے نظریہ لیپیس ،چیمر لین اور مولٹن کی تھیوری ،سر جیمز جینز کی تھیوری ،للٹن کی تھیوری اور ملر کی تھیوری (ص۱۷) کا ذکر کیا ہے۔ An easy outline to Astronomyمیں یہ تمام نظریات اسی ترتیب سے موجود ہیں (ص۸۹ تا ص۹۴)،البتہ کسی وجہ سے مجید امجد کے مسودے میں پروفیسر بائیکرٹن (Professor Bickerton)کے تصور کائنات کا ذکر ہونے سے رہ گیا ہے۔
د: فسانہ آدم کے آخری صفحے پر اسٹرانومی سے متعلقہ انگریزی اصطلاحات کی فہرست دی گئی ہے، ان کی تعداد اکیس ہے۔ان میں سے مجید امجد کی طرف سے چار اصطلاحات کے معانی درج کیے گئے ہیں۔اس صفحے کے اوپر نمایاں حروف میں ” اصطلاحیں جن کے اردو ترجمے مطلوب ہیں” تحریر ہے۔یہ اصطلاحات متعلقہ انگریزی کتاب میںeasy outline to Astronomy کے ترجمے کے عمل کے دوران میں،ان اصطلاحات کی اردو میں منتقلی میں دقت پیش آئی ہوگی ،اور ان کا ترجمہ ملتوی ہو گیا ہو گا۔
ہ : مجید امجد نے ادب عالیہ کے جن شعبوں میں بھی حصہ لیا ،اس کا ذکرانھوں نے کہیں نہ کہیں کر دیا ہے۔ اپنی کسی تحریر ،انٹرویو یا خط میں کہیں بھی انھوں نے علم فلکیات پر کوئی کتاب لکھنے کا دعویٰ نہیں کیا،البتہ ان کے مختلف تراجم کا ذکر ملتا ہے،ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مجید امجد نے وکٹر ہیوگو کے ناول کے گم شدہ مسودے کا ذکر کیا ہے۔راقم کی مرتبہ کلیات نثرمجیدامجدمیں ان کے چند تراجم شامل ہیں۔
و: ان شواہد سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ترجمہ نگاری کے عمل سے مجید امجد کو خاص شغف تھا اس لیے محض قیاس کی بنیاد پر فسانہ آدم کو مجید امجد کی تخلیق قرار دینا شاید مناسب نہیں۔
فسانہ آدم کے مجید امجد کی تصنیف ہونے کے حوالے سے اب تک پیش کیے گئے تصورات قیاس پر مبنی ہیں۔ فسانہ آدم کے مسودے کو دیکھ کر جہاں مجید امجد کی علم فلکیات سے دل چسپی کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہوجا تی ہے کہ وہ اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھ رہے تھے بل کہAn easy outline to Astronomy کا ترجمہ کرنا ہی ان کا مقصود نظر تھا،یا وہ اس کتاب کے الفاظ و معانی سے کشید ہونے والی معنویت کو شاعرانہ روپ دے کر اپنی نظموں میں سائنسی استدلالیت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے تھے ۔ ان کی کائناتی شعور کی حامل زیادہ تر نظمیں اس کتاب کے مطالعہ کے سال یعنی ۱۹۵۱ء کے بعد کے چند سالوں کی تخلیق کردہ ہیں ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ محض ڈاکٹر مارٹن ڈیوڈسن (Dr Martin Davidson) کی کتابAn Easy outline of Astronomy ہی کو مجید امجد کی کائناتی فکر اور فلسفے کا ماخذ قرار دینا شاید درست نہ ہو،ظاہر ہے اس موضوع پر اور کتابیں بھی ان کے مطالعے میں رہی ہوں گی۔فسانہ آدم مجید امجد کی تحریر ہے یا ترجمہ،دونوں صورتوں میںیہ ان کی اس موضوع سے گہری دل چسپی کا ثبوت ہے۔
حوالہ جات
۱۔ علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال،اسلام آباد : الحمرا پبلشنگ ،۲۰۰۰ء ،ص۲۳۴
۲۔مجیدامجد،(قلمی مسودہ)،فسانہ آدم،مملوکہ ،ڈاکٹر عامر سہیل،ص۲
۳۔مجید امجد،(قلمی مسودہ)،فسانہ آدم، ص۳
۴۔خواجہ زکریا،ڈاکٹر،مجیدامجدکانظریہ کائنات،مشمولہ،چنداہم جدیدشاعر،لاہور:سنگت پبلشرز،۲۰۰۳،ص۱۵۰
۵۔ خواجہ زکریا،ڈاکٹر،مجیدامجد شاعرحیات و کائنات،مشمولہ،یہ دنیائے امروز میری ہے،مرتبین،ڈاکٹرمحمدکامران،ڈاکٹر ضیا الحسن،ڈاکٹر ناصر عباس نیر، لاہور:شعبہ اردو پنجاب یونی ورسٹی،۲۰۱۵ء،ص۵۰
۶۔عامر سہیل،ڈاکٹر،فسانہ آدم:ایک نادرقلمی دستاویز،مشمولہ،دریافت،اسلام آباد:نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز،جلد،شمارہ،۴۷
۷۔عامر سہیل،ڈاکٹر،فسانہ آدم:ایک نادرقلمی دستاویز،ص۴۷
۸۔مجید امجد،(قلمی مسودہ)،فسانہ آدم،ص۱۳
۹۔ Davidson,Martin,An easy outline to estronomy,London:Watts&co,1946A.D,p14
۱۰۔مجید امجد،(قلمی مسودہ)،فسانہ آدم،ص۴
۱۱۔ Davidson,Martin,An easy outline to estronomy,p17
۱۲۔مجید امجد،(قلمی مسودہ)،فسانہ آدم،ص۴
۱۳۔Davidson,Martin,An easy outline to estronomy,p21
۱۴۔مجید امجد،(قلمی مسودہ)،فسانہ آدم،ص۴
۱۵۔Davidson,Martin,An easy outline to estronomy,p17
۱۶۔مجید امجد،(قلمی مسودہ)،فسانہ آدم،ص۶
۱۷۔Davidson,Martin,An easy outline to estronomy,p36
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...