اردو غزل میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس کے واضح نقوش بہت کم شاعروں کے یہاں نظر آتے ہیں۔ اپنے عہد کی ستم ظریفیوں ور عیاریوں کو آئینہ دکھانے کی ہمت ہر شاعر میں نہیں ہوتی۔ اس کام کے لئے صفائے باطن اور شعورِ فن کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت چاہئے۔ فریاد آزر ایک ایسے شاعر ہیں جو ۱۹۸۰ کے بعد کی ادبی نسل میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں فرد کی بے ضمیری اور معاشرے کی بے مروتی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے:
پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزیدوں کے خلاف
پھر مرے سر پہ وہ شمشیر نظر آنے لگی
۔۔ ۔۔ ۔۔
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِطلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
میں اپنی لاش کو تنہا ہی دفن کر لوں گا
کہ تم بھی جاؤ، سبھی لوگ گھر گئے اپنے
فریاد آزرؔ نے رشتوں کے ٹوٹنے اور آدمی کے بکھر جانے کو بھی اپنے شعروں میں پیش کیا شعر ملاحظہ کیجئے:
نہ کوئی دوست نہ ساتھی نہ کوئی رشتہ دار
غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گئے اپنے
۔۔ ۔۔
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
۔۔ ۔۔ ۔۔
فریاد آزر نے غزل کے چہرے سے پردۂ الہام کو چاک کیا ہے۔ وہ صاف گوئی سے کام لیتے ہیں اور معاشرے میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے اس کی نشاندہی کرتے ہیں وہ جدید ذہنوں اور جدید تہذیبی بساط پر کھڑی نئی نسل کو طنز کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ آزر کے فکری ابعاد کی زد میں عہدِ جدید اور عہدِ قدیم دونوں ہیں۔ یہاں ایک ہی غزل کے دو شعر دیکھئے:
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
۔۔ ۔۔ ۔
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
تہذیبی سفاکیت کو آئینہ دکھانے کا کام نئی غزل میں خوب کیا گیا ہے لیکن فریاد آزر کے یہاں یہ رنگ قدرے تیز ہے۔ موضوع اور موقف پر غور کیجئے اور اوپر ذکر کئے گئے انسانی بے بسی کے حوالے سے چند شعر دیکھئے:
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
۔۔ ۔۔
پانوں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
آتا تھا دیر رات کو جاتا علی الصباح
بچے اسے سمجھتے تھے دفتر کا آدمی
انسان کبھی کبھی غفلت شعاری میں اپنی عمر کے قیمتی لمحات گنوا دیتا ہے۔ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ مستقبل کی کامیابی کا راز حال کی محنت اور مشقت میں ہے۔ فریاد آزرؔ نے بڑی خوبصورتی سے اس مضمون کو پیش کیا ہے۔
ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑنے کی زندگی
اسی طرح کبھی انسانی پس و پیش اور کشمکش کے موضوع کو آزرؔ پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی انسان کے لئے ایک لمحہ بھی بھاری پڑتا ہے اور کبھی ذرا سی غفلت سے انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ شعورِ ذات کی کلید احساس لطیف ہے۔ دونوں کی ہم آہنگی سے ہی فکری بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ آزرؔ اس راز سے واقف ہیں۔ زمانے کی ستم ظریفی اور گردشِ ایام پر ان کی گہری نظر ہے۔ جس کے اندر ذرا بھی جھجھک ہے ( بلکہ میں اس جھجھک کو میں تہذیبی رکھ رکھاؤ کہوں گا) وہ زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ فریاد آزر نے اسی بات کو تخلیقیت کے عناصر میں گھلا ملا کر یوں پیش کیا ہے:
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
وہ بے دریغ کئے جا رہا تھا قتل مرا
میں منتظر تھا کہ اس پر عذاب اترے گا
فساد بہت ہی سامنے کا موضوع ہے۔ اس عہد کا شاید ہی کوئی شاعر ہو گا جس نے فساد کے حوالے سے ایک آدھ شعر نہ کہے ہوں۔ اس کو آزرؔ یوں پیش کرتے ہیں۔
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
فریاد آزرؔ اس دور کے شاعر ہیں لہٰذاس عہد کے کرب کو انھوں نے سمجھا ہے، محسوس کیا ہے معاملہ چاہے ذاتی ہو، سماجی ہو یا بین اقوامی، ان کی نگاہ ہر اہم موضوع پر ضرور پڑتی ہے۔ چاہے معاملہ سائنسی ترقیات اور خلائی سیارچوں کا ہو جس کے ذریعہ آج نہیں تو کل اسٹار وار ہونا ہی ہونا ہے، یا پھر زمینی، فضائی یا خلائی آلودگی کا ہو یا بین اقوامی دہشت گردی اور اس کو بہانہ بنا کر پوری دنیا میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی جگہ جگہ نسل کشی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اس کو بغور دیکھ رہا ہے اور اس پر آنسوبہا رہا ہے۔ ایسے اشعار کی تعداد بہت ہے بخوفِ طوالت محض چند اشعار پیش ہیں۔
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
فضائے شہر آلودہ بنا کر
وہ گاؤں پر نظر پھیلا رہا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
کون جائے ذوقؔ اب دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
صبح کی تازہ ہوا لے آئیں گے دوکان سے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
بدن کا صبا کا بھی یکسر دھوئیں میں لپٹا رہا
نسیم بھی لئے گردو غبار گزری ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا، اسی کے خون کا پیاسا لگا
اس قدر آنکھیں کھلی رکھنے والا انسان ہی صحیح معنوں میں شاعری کا حق ادا کر سکتا ہے ورنہ ذاتی مشغلہ کی بنیاد پر اشعار کہنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں موجود رہتی مگر وقت انھیں بھلا دیتا ہے۔ فریاد آزرؔ ایسے شاعر ہیں جنھیں نہ تو غزل کی تاریخ فراموش کر سکتی نہ ہی وقت کا غبار ان کے افکار کو دھندلا کر سکتا ہے۔ بہر حال غزل گوئی میں فریاد آزرؔ کی ریاضت جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی غزلیہ شاعری کے متون میں ان کی زبر دست حصہ داری رہے گی۔
٭٭٭