(Last Updated On: )
مرے اشعارِ بے معیار جیسے بھی ہیں اچھے ہیں
نہیں محتاج میں آزرؔ فصاحت کا، بلاغت کا
فریاد آزرؔ کا یہ شعر کس حد تک ان کے غزلیہ کلام کی تعریف و شناخت کے لئے موزوں یا نا موزوں ہے اس کا اندازہ تو زیر نظر مضمون کے مطالعہ کے بعد ہی شاید ممکن ہو۔ فی الحال تو اتنا کہنے میں ہرج نہیں ہے کہ ایک سرسری نگاہ ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ آزرؔ کے کلام کو بے معیار کہنا سراسر زیادتی ہے۔ بے معیار تو کیا اُسے تو کم معیار بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایک قابل اور ماہر شاعر ہیں۔ معلوم نہیں موصوف کو یہ خیال کیسے آیا کہ ان کا کلام نہ صرف بے معیار ہے بلکہ اپنی معنی آفرینی کے لئے وہ فصاحت و بلاغت کا بھی محتاج نہیں ہے۔ اس شعر کو مضمون کی پیشانی پر لکھنے کا مقصد اس کے پس منظر میں آزرؔ کی غزل کا تجزیہ کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ موصوف اپنی شاعری کے حوالے سے خود ہی کچھ مشکوک نظر آتے ہیں ورنہ وہ بھی مرزا غالبؔ کی تقلید میں ستائش اور صلہ سے بے نیازی کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہتے کہ:
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلہ کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی
بہر کیف یہ ممکن ہے کہ اُن کی غزل کے مطالعہ اور تجزیہ کے نتیجہ میں آزرؔ کے اس احساس کا کوئی سبب سامنے آئے۔
فریاد آزرؔ کی غزلیہ شاعری کا یہ جائزہ موصوف کی غزلیات کی جن کتابوں پر مبنی ہے ان کے نام انہوں نے خدا جانے کیوں ’’کچھ دن گلوبل گاؤں میں‘‘ اور ’’ایلین‘‘ (Alien) رکھے ہیں۔ اُردو غزلوں کے کسی مجموعہ کا انگریزی نام رکھنا ایک جدت تو ضرور ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں شاعر موصوف کی کوئی مصلحت شامل ہو البتہ ایسی جدت کو بدعت کے مترادف سمجھنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کوئی ماہر نفسیات ہی اُن کی اِس جدّت (بدعت؟) کا نفسیاتی تجزیہ کر کے شاید یہ بتا سکے کہ انہوں نے اپنی اُردو کتابوں کے لئے انگریزی کے یہ عجیب اور بے لطف و غیر مانوس نام کیوں تجویز کئے ہیں۔ کیا اُردو ایسی گئی گزری زبان ہے کہ اس میں موصوف کے منتخب کئے ہوئے انگریزی الفاظ کے متبادل الفاظ دستیاب نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو اُردو کے بجائے انگریزی میں ہی شاعری کیوں نہ کی جائے؟ اُن کا انگریزی کی اس خود ساختہ بیساکھی کا سہارا لینا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ آزرؔ انگریزی سے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہیں ورنہ انہیں یہ خیال ضرور آتا کہ اُردو کا عام قاری یہ نام دیکھ کر سوچے گا کہ شاعر موصوف کی کتابوں کے ان ناموں سے اُن کے کلام کا کیا تعلق ہے؟ بہرحال ان ناموں کی وجہ سے اور کچھ ہو یا نہ ہو، آزرؔ کی غزلوں کا مطالعہ اور تجزیہ زیادہ دلچسپ اور محنت کا طلب گار ضرور ہو گیا ہے۔
آزرؔ کی غزل پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ایک دردمند اور انسان دوست شاعر ہیں۔ روایتی غزل میں حزن و ملال اور آزردگی و دل گرفتگی کا عنصر تو یقیناً زیادہ ہوتا ہے لیکن اس میں ایسے مضامین کی بھی کمی نہیں ہوتی جن سے طبیعت میں تازگی اور شادابی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن آزرؔ کی غزل میں مایوسی، اُداسی اور محرومی کا عنصر بہت غالب ہے اور مسرت، اُمید یا شگفتہ خیالی اپنے فقدان کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ وہ دُنیا اور اس کے تمام متعلقات کو شکایت، اضطراب اور رنج و محن کے محدب شیشے سے دیکھنے کے عادی ہیں چنانچہ ان کی غزل میں تلخی، اُداسی اور ترشی اس طرح سے رَچ بس گئی ہے کہ اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ کہیں زمانہ اور زندگی کا شکوہ ہے تو کہیں مغربی تہذیب کی یلغارسے رو بہ تنزل مشرقی روایات و اقدار کا نوحہ ہے، کہیں صنعتی ترقی کے نام پر ماحول کی آلودگی کا ماتم ہے تو کہیں معاشرہ کے اہل اقتدار کے ہاتھوں کمزوروں اور بے کسوں کے استحصال پر اپنی بے بسی کا اظہار ہے۔ وہ مغربی ممالک کی سیاست اور چال بازیوں سے نالاں ہیں اور ان کا دل ہر اس ملک اور قوم کی ہمدردی میں نوحہ خواں ہے جو ان ممالک کی دست درازیوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔ عام انسان سے ان کی ہمدردی ہمارے دل کو چھوتی ہے، اسے احتجاج اور جہادی کوشش کے لئے اکساتی ہے اور بار بار ان حالات کا احساس دلاتی ہے جو خود ہم نے اپنے آپ پر برپا کر لئے ہیں یا جو دوسروں نے ہماری بے ہمتی، سہل نگاری اور کم سوادی سے فائدہ اٹھا کر ہم پر جاری کئے ہیں۔ لیکن ان کا یہ احتجاج کسی انقلاب کی دعوت دیتا ہوا نظر نہیں آتا ہے، اس میں گھن گرج اور للکار نہیں ہے، کسی آنے والے اچھے وقت کی نوید نہیں ہے بلکہ یہ احتجاج بالعموم ایک جھنجھلاہٹ اور غصہ کی شکل میں ہی نظر آتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ احتجاج ان کی بے بسی اور لا چاری کے اعتراف و احساس سے زیادہ اور کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ قاری کو آزرؔسے ہمدردی تو یقیناً ہوتی ہے لیکن وہ اُس کو اپنی آواز سے ملا کر آواز بلند کرنے پر آمادہ نہیں کر سکے ہیں۔
اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ فریاد آزرؔ ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔ ان کی سوچ کا انداز اور پھر اس سوچ کو اظہار کے نئے سانچوں میں ڈھالنے کی مہارت قابل تحسین وستائش ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج کل بھی غزل اس کثرت سے کہی جا رہی ہے کہ غزل گوئی میں اپنا رنگ اور لب و لہجہ دوسروں سے اس طرح مختلف رکھنا کہ شاعر کی آواز الگ پہچانی جائے نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ آزرؔ نے یہ کام بہت آسان کر دکھایا ہے۔ اُن کی غزل بہ یک نظر قاری کا دامن اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ان کی زبان و بیان دونوں نہ صرف عام غزل گو شاعروں سے ممتاز ہیں بلکہ ان کی سوچ بھی قاری کو دعوت فکر دیتی ہے۔ ان کے یہاں روایتی غزل کی خوبصورتی اور معنی آفرینی تو نظر نہیں آتی لیکن اگر ان کی غزل کی جدید فکری صورت سے آسودہ ہو کر اور اسے قبول کر کے اس کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے یہاں جا بجا دلکش اور خوش رنگ اشعار نظر آ جاتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھئے:
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً
اور یوں قد میرا اُن کے درمیاں چھوٹا لگا
یاس، محرومی، محبت، کرب، خوش فہمی، انا
اتنے ساماں تھے، مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
ایک اک لمحے کا جب مانگا گیا مجھ سے حساب
جانے کیوں ذہنِ شہنشاہِ زماں چھوٹا لگا
غموں کی قید بھی کتنی عجیب ہے جس سے
فرار ہوتے ہیں قیدی، بری نہیں ہوتے
انہیں گناہوں کی اکثر سزا بھگتتے ہیں
جو ہم شریفوں سے سرزد کبھی نہیں ہوتے
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
وہ جس طرف بھی خصوصی نگاہ کرنے لگا
قبول جرم ہر اک بے گناہ کرنے لگا
تمام عمر ہمیں منزلیں نہیں ملتیں
ہم اہل درد سدا راستے میں رہتے ہیں
کسی کو ایک ہی سجدہ میں جنت مل گئی ہے
مگر کچھ لوگ صدیوں سے عبادت کر رہے ہیں
یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی جس سے
رہائی مل تو جاتی ہے، سزا پوری نہیں ہوتی
سر اٹھا کر کوئی جینے نہیں دیتا آزرؔ
اور مرنا بھی نہیں چاہے انا بیچاری
ایسی خوشیاں تو کتابوں میں ملیں گی شاید
ختم اب گھر کا تصور ہے، مکاں باقی ہے
روایتی غزل کی متعدد خصوصیات و محاسن میں تغزل اور شعریت کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن کوآسان اور عام فہم انداز میں بیان کرنا جتنا مشکل ہے اتنا ہی ان کو محسوس کرنا آسان ہے کیونکہ دونوں کو انسانی جذبات کی صورت گری میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ آزرؔ کی غزل کا مطالعہ کیجئے تو جو بات سب سے پہلے سامنے آتی ہے وہ اس میں تغزل اور شعریت کی کمی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غزل کہنے سے ان کا مقصد قاری تک فقط ایک پیغام پہچانا ہے یعنی یہ کہ زندگی کی ہر سطح پر عام انسان کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا جا رہا ہے۔ کہیں اس پر مالی اور معاشی بوجھ ہے تو کہیں اس کے آس پاس کا ماحول صنعتی آلودگیوں سے تباہ کیا جا رہا ہے اور کہیں مغربی اقدار اُس کی بیش بہا مشرقی تہذیب اور تاریخ کو تاراج کر رہی ہیں۔ اس ملال اور احساس نے ان کی فکر کی ہر سطح کو زخمی کر دیا ہے چنانچہ ان کی غزل اپنی روایتی اور بنیادی شناخت سے دور ہو کر ایک چیخ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ان کے یہاں ایسا کوئی شعر نہیں ہے جس کو تغزل یا شعریت کے حوالے سے درج ذیل اشعار کے مقابل رکھا جا سکے۔
جب نام ترا لیجے تب چشم بھر آوے
اِس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
(میر تقی میرؔ)
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دُور دَراز
(مرزا غالبؔ)
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
(مومنؔ دہلوی)
لے اُڑی تجھ کو نگاہ شوق کیا جانے کہاں
تیری صورت پر بھی اب تیرا گماں ہوتا نہیں
(فراق گورکھپوری)
جدید غزل کا شاعر ہونے کی حیثیت سے آزرؔ کا لب و لہجہ روایتی غزل کا لب و لہجہ نہیں ہے بلکہ ان کے لہجہ میں غزل کی نرمی، شگفتگی اور گھلاوٹ کی جگہ تلخی ہے، خفگی کی درشتگی اور کڑواہٹ ہے، ذہنی الجھن کا احساس ہے جیسے شاعر کی سمجھ میں زندگی کے بیشتر زاویے اور تقاضے نہیں آ رہے ہیں اور اگر آ بھی رہے ہیں تو وہ اُن سے آسودہ اور مطمئن نہیں ہے۔ وہ کہیں خود سے خفا اور غیر مطمئن دکھائی دیتے ہیں تو کبھی اپنے ماحول اور اس ماحول کے باسیوں سے اکھڑے اُکھڑے معلوم ہوتے ہیں۔ کہیں وہ مغرب کی لائی ہوئی روایات و اقدار سے بدگمان و پریشان نظر آتے ہیں تو کہیں وہ دُنیا کے ارباب اقتدار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کسی سے خوش نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ خود سے بھی خوش نظر نہیں آتے ہیں شاید اس لئے کہ جن حالات پر وہ گریہ کناں ہیں ان کا مداوا اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ الجھن اور بے بسی کے اس ہجوم میں اس بات کا تعین ممکن نہیں ہے کہ وہ کس سے زیادہ ناخوش ہیں البتہ ان کی اس عالم گیر بیزاری اور نا خوشی نے ان کی آواز کے تاثر کو کم ضرور کر دیا ہے۔
غزل اپنے کئی تلازمات کے باعث فوراً پہچان لی جاتی ہے۔ ردیف، قافیے، وزن اور بحر کے علاوہ غزل کے مضامین، موضوعات، زبان اور انداز بیان اتنے سکہ بند اور عام فہم ہو چکے ہیں کہ ہر شخص بیک نظر اسے پہچان لیتا ہے۔ غزل کے لغوی معنی ’’اپنے محبوب سے بات چیت کرنا‘‘ ہیں۔ اس حوالے سے غزل منسوب ہے معاملات عشق و محبت سے، اس کی مجبوریوں، محرومیوں اور کامرانیوں سے، ہجر و وصال کی دلکش اور بعض اوقات دل شکن داستان سے اور ہراُس بات سے جو انسان کی اس فطری ضرورت یعنی محبت کی کسی نہ کسی شکل میں صورت گری کرتی ہے۔ چنانچہ غزل کے سارے ایسے مضامین اِس فہرست میں شامل کئے جا سکتے ہیں جن کو جدید غزل کا شاعر فرسودہ، مصنوعی اور انسانی زندگی کی حقیقتوں سے دور کہہ کر اپنے دفتر شعر گوئی سے خارج کر دیتا ہے۔ شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا کی دلچسپ اور دردناک داستانیں، گل و بلبل، قفس و صیاد کی روداد، بہار و خزاں کی کہانی، اپنوں کی بے رخی اور پرایوں کے ظلم، دُنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی بے اعتباری، غم روزگار، غم دُنیا، غم زندگی، غم آرزو مختصر یہ کہ ہر وہ خیال اور جذبہ جو انسانی زندگی میں اچھے یا برے رنگ بھرتا ہے اور ہمارے اوپر اثر انداز ہوتا ہے غزل کے ہار میں پرویا نظر آتا ہے۔ ان موضوعات سے کنارہ کش ہو کر جدید غزل گو ایک عظیم سرمایۂ مضامین سے محروم ہو جاتا ہے اور ندرت فکر اور تنوع بیان کا میدان اپنے اوپر تنگ کر لیتا ہے۔ نتیجہ میں اس کے پاس کہنے کے لئے گنی چنی چند باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔ اس کی غزل گھٹن کا شکار ہو جاتی ہے اور یہی صورت حال آزرؔ کو بھی پیش آئی ہے۔
جدید غزل گو شعرا نے روایتی انداز فکر اور طرز نگارش سے بغاوت کر کے غزل میں انسانی زندگی کے ان مسائل کو باندھنے کی کوشش کی ہے جو اُن کے نزدیک عشق و محبت سے زیادہ ضروری ہی نہیں ہیں بلکہ ہر انسان کی زندگی کا نا گزیر حصہ بھی ہیں۔ چنانچہ جدید غزل روایتی غزل کے مقابلہ میں زیادہ ’’زمینی‘‘ نظر آتی ہے کیونکہ وہ اپنے مقتضیات و تلازمات میں ایک عام انسان کی روزمرہ کی زندگی سے زیادہ قریب ہے۔ البتہ اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے زمینی اور غیر رومانی معاملات سے یہی قربت جدید غزل سے اس کی وہ دلکشی اور جاذبیت چھین لیتی ہے جو غزل کی پہچان اور جان ہے۔ جدید غزل وقتی طور پر ہمیں اپنے روزمرہ کی زندگی سے کتنی ہی قریب کیوں نہ لے جائے وہ بہر حال روایتی غزل کی مقبولیت اور دلآویزی کے مقابلہ میں کمزور اور بے جان دکھائی دیتی ہے۔ اسی لئے فریاد آزرؔ کی غزل کا مطالعہ روایتی غزل کے تناظر میں کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جدید غزل کا خمیر روایتی غزل سے ہی اٹھا ہے۔ ردیف، قافیہ، وزن اور بحر سب روایتی غزل سے ہی مستعار ہیں۔ جدید غزل کے موضوع سخن میں البتہ جدت فکر و بیان کی کوشش کارفرما ہے۔ جدید غزل کے مضامین کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اورجس طرح جدید غزل گو نے اپنے لئے میدان فکر تنگ کر لیا ہے اس پر بھی اظہار خیال کیا جا چکا ہے۔ یہاں آزرؔ کی جدید غزل کی چند خصوصیات پر خیال آرائی کی جائے گی۔ غزل کی ایک شناخت اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر شعر ایک اکائی ہوتا ہے یعنی وہ اپنا مطلب مکمل طور سے ادا کرتا ہے اور افہام و تفہیم کے لئے کسی دوسرے شعر کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح غزل کا ایک شعر اگر تصوف پر مبنی ہو تو دوسرا عشقیہ مضمون باندھ سکتا ہے جب کہ تیسرا آلام روزگار کا شکوہ کر سکتا ہے۔ یہ غزل کا عام انداز ہے۔ دو صورتیں ایسی ہیں جب اس خصوصیت سے غزل مستثنیٰ ہو جاتی ہے، ایک تو جب غزل کے چند اشعار قطعہ بند کی شکل میں نظم کئے گئے ہوں اور دوسری جب غزل کے سب اشعار ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو بیان کر رہے ہوں یعنی وہ غزلِ مسلسل ہو۔ آزرؔ کے یہاں غزلِ مسلسل کی صرف ایک مثال ملتی ہے جس میں انہوں نے اپنی محبوبہ کا ذکر بہت اہتمام سے کیا ہے۔ چونکہ ان کی اس غزل میں نسبتاً شعریت، تغزل اور معنی آفرینی کی جھلک ملتی ہے اس کے چند اشعار یہاں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تمام دن وہ مرا انتظار کرتی ہے
پھر ایک سانس میں باتیں ہزار کرتی ہے
نہیں وجود ہے اس کا کوئی جداگانہ
وہ اپنے آپ میں مجھ کو شمار کرتی ہے
اسی کے ذکر سے سب لوگ جانتے ہیں مجھے
وہی غزل کو مری شاہکار کرتی ہے
اسی کے حسن سے خود کو نکھارتی ہے غزل
اسی سے نظم بھی اپنا سنگھار کرتی ہے
میں اس کے عشق میں دنیا کو بھول جاؤں اگر
وہ اہتمام غمِ روزگار کرتی ہے
جہاں بھی جائے وہ راہوں میں پھول کھلنے لگیں
سو انتظار ہر اک رہ گزار کرتی ہے
یہ آزرؔ کی واحد غزل ہے جس میں روایتی غزل کا رنگ جھلکتا ہے ورنہ ان کی غزل کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر انہوں نے کہیں قطعہ بند کہا ہے تو متعلقہ غزل میں اس کی مناسب نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ موصوف کی بیشتر غزلوں میں اشعار کے اکائی ہونے کی مذکورہ بالا خصوصیت نظر نہیں آتی ہے اور جا بجا اشعار اپنے پہلے یا بعد میں آنے والے اشعار سے مربوط اور متعلق ہو کر سرگوشی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ آزرؔ کی غزلوں میں غزل مسلسل کا یہ ادھورا رنگ عام ہے جیسے وہ متواتر اشعار میں ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہوں اور اچانک درمیان میں ایک آدھ ایسا شعر آ جائے جو اس تسلسل کو توڑ کر موضوع سخن کو خلط ملط کر دے اور قاری حیران و پریشان کھڑا رہ جائے۔ ایک غزل مثال کے طور پر دی جاتی ہے:
خوبصورت سا بھرم توڑ گیا تھا کوئی
دور رہتی تھی کہیں چاند پہ بڑھیا کوئی
لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں
کوئی دروازہ، نہ آنگن نہ دریچہ کوئی
وہ فراعین ہیں کہ روحِ زمیں کانپتی ہے
اور اس عہد میں آیا نہیں موسا کوئی
میں بھی روتا ہی رہا نرگسِ بے نور کے ساتھ
دیکھ پایا نہ مجھے دیدۂ بینا کوئی
دفن کر دیتے ہیں خوابوں کو یوں ہی آنکھوں میں
شاید آ جائے نظر تجھ سا مسیحا کوئی
آج سیرت نہیں، صورت کو نظر ڈھونڈتی ہے
عمر ڈھل جاتی ہے، آتا نہیں رشتہ کوئی
اب فرشتوں سے ملاقات کہاں ممکن ہے
کاش انساں ہی زمیں پر نظر آتا کوئی
پھر نہ چھا جائے اندھیرا مری آنکھوں میں کہیں
پھر دکھاتا ہے مجھے خواب سنہرا کوئی
عمرِ نو سے ہی مسائل مرے محبوب رہے
میرے خوابوں میں نہ رضیہ ہے نہ رادھا کوئی
جو نئی نسل کو آفات کا حل بتلاتا
کیا بچا ہی نہیں اس شہر میں بوڑھا کوئی
چاند کے دھندلے اور ٹیڑھے میڑھے نقوش میں چرخہ کاتتی ہوئی بڑھیا ہمارے فرسودہ عقیدہ یا تصور کا قصور تو ہو سکتی ہے مگر وہ آزرؔ کا ’’بھرم‘‘ کس طرح ہو سکتی ہے جس کو توڑنے پر ایک انجانا ’’کوئی‘‘ قادر بھی ہے؟ ابھی قاری اس بھول بھلیاں سے فارغ نہیں ہو پاتا ہے کہ اس کا سامنا اگلے دو اشعار سے ہوتا ہے جو معاشرہ کے کمزور طبقہ کی اچھی تصویر کشی کرتے ہیں لیکن چوتھا شعر نرگس بے نور کا معمہ پیش کر دیتا ہے جسے قاری غیر شعوری طور پر علامہ اقبالؔ کے اس مشہور شعر کے تناظر میں حل کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس کے فوراً بعد کم صورت لڑکیوں کے رشتے کا مسئلہ دَر آتا ہے اور اس تگ و دَو میں جو کسر رہ گئی تھی وہ غزل کا آخری شعر پوری کر دیتا ہے۔ اس منزل پر قاری یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ اس نے کیا پڑھا ہے اور اس سے اسے کیا حاصل ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔
آزرؔ کی الجھن اور پریشانی کی وجوہ میں ایک معاشرہ کا وہ انتشار بھی ہے جو مغربی اقدار کی یورش نے پیدا کر دیا ہے۔ ہماری پرانی اور عزیز تہذیب و روایات، اخلاق و آداب، رہن سہن، معاشرہ اور تمدن، چھوٹوں اور بڑوں کا فرق و تمیز، زبان و اَدب غرضیکہ زندگی کا ہر شعبہ مغربی تعلیم و معاشرت سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور مسلسل تنزل اور ابتری کا شکار ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میں اچھے برے کی تمیز اٹھ گئی ہے اور ہم مغرب سے آئی ہوئی ہر قدر کو آنکھیں بند کر کے صرف اس مفروضہ کی بنا پر گلے لگا رہے ہیں کہ وہ مغرب کی دین ہے اس لئے اُس کا بہتر اور سودمند ہونا یقینی ہے۔ دوسروں کی اچھی باتوں کو قبول کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی ہرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ہر منطقی اصول کی رُو سے جائز اورمناسب ہے۔ بصورت دیگر ہماری تہذیب اور معاشرت پر برا اثر پڑنا لازمی ہے۔ آزرؔ کے کلام میں ان کی شکایات اور الجھنیں آپس میں ایسی خلط ملط ہو گئی ہیں کہ قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کا کوئی خاص موقف ہے بھی یا وہ ہر ایسی چیز کے یکساں خلاف ہیں جو اُن کی اقدار سے متصادم ہے۔ درج ذیل اشعار دیکھئے کہ موضوع سخن کس طرح ایک جگہ قرار نہیں پاتا ہے بلکہ جا بجا بھٹکتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا ان اشعار کو غزل کے اشعار کہا جا سکتا ہے؟ اگر قاری کو یہ نہ بتایا جائے کہ یہ اشعار آزرؔ کی غزل کے ہیں تو وہ یقیناً انہیں غزلیہ شاعری کے خانے میں رکھنے میں تامل کرے گا۔
عجیب مغربی قانون ہے، جو مشرق کے
محبتوں سے بھرے گھر تباہ کرنے لگا
جنھوں نے دیکھ لیا حملۂ شب بغداد
کبھی نہ دیکھا ان آنکھوں کو بند ہوتے ہوئے
شادی و مرگ پہ مل پاتے ہیں باہم اب تو
ورنہ بچپن میں سبھی بھائی بہن تھے یکجا
منتشر ہو گئے سب لوگ شکم کی خاطر
کیا زمانہ تھا کہ احبابِ وطن تھے یکجا
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں رخصت آزرؔ
ہائے کیا دور تھا اعضائے بدن تھے یکجا
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
ابھی فرصت نہیں مرنے کی تیاری کی ہم کو
ابھی ہم لوگ جینے کی حماقت کر رہے ہیں
حقیقت اس قدر سنگین ہوتی جا رہی ہے
نگاہوں سے سنہرے خواب ہجرت کر رہے ہیں
نہیں مرغوب مردہ بھائیوں کا گوشت کھانا
تو ہم پھر کس لئے غیبت پہ غیبت کر رہے ہیں
بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزرؔ
سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں
آزرؔ کی شکایت کا ایک اور سبب معاشرہ کے طاقت ور طبقہ کی کمزوروں پر حکومت بالجبر ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر دَور میں طاقت ور قوتوں نے کمزوروں کا استحصال کیا ہے اور ان سے ہر طرح سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ کلیہ زندگی کی ہر سطح پر عائد ہوتا ہے چنانچہ طاقتور انسان کمزورانسانوں کو دَباتے ہیں اور طاقتور حکومتیں کمزور حکومتوں پر ظلم کرتی ہیں۔ مغربی اقوام نے جس طرح مشرقی اقوام کا استحصال کیا ہے اور آج بھی کر رہی ہیں وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ایک حساس شاعر کی حیثیت سے آزرؔ کا اِس صورت حال سے متاثر ہونا اور اشعار میں اپنی آزردگی، غصہ اور بے بسی کا اظہار کرنا عین اقتضائے فطرت ہے۔ بہت سے دوسرے شاعروں نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اپنے اپنے طور پر احتجاج کیا ہے۔ علی سردار جعفری، جوشؔ ملیح آبادی، علامہ اقبالؔ اور دوسرے شعرا اِس معرکہ میں پیش پیش رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جہاں دوسروں نے نظم کو اپنے خیالات اور پیغام کا ذریعۂ اظہار بنایا ہے وہاں آزرؔ نے جدید غزل سے یہ کام لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اپنے جوش و خروش میں وہ بھول گئے کہ غزل اس مقصد کے لئے غیر موثر اور نا مناسب ہے۔ قاری جب بھی غزل پڑھتا ہے تو وہ ہر شعر کو الگ الگ دیکھتا ہے اور یہ توقع رکھتا ہے کہ ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہو گا۔ آزرؔ کی غزل اسی لئے اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ ان کے خیالات اور انقلابی پیام کی صداقت سے انکار نہیں ہے اور نہ ہی ان کا غم و غصہ مصنوعی یا سیاسی ہے لیکن غزل کے پیرائے میں یہ خیالات اور یہ غصہ بے رنگ اور بے اثر ہو کر رہ گیا ہے۔ آزرؔ کو اس کام کے لئے نظم کا انتخاب کرنا چاہئے تھا۔ وضاحت کے لئے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا!
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
جو تھے مخصوص کبھی اور ہی قوموں کے لئے
کچھ عذاب ایسے بھی امت پہ اتر آئے ہیں
کم نہیں ہے یہ سیاست کسی محبوبہ سے
دل کو ہر آن رلانے کا عجب ڈھنگ کیا
تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے
اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا
بڑا خود دار تھا کچھ مانگنے میں شرم آتی تھی
لہٰذا وہ چرا لاتا تھا ہر ساماں ضرورت کا
مرے حقوق کو پامال کرنے والا بھی
قصور سب مری تقدیر کا بتاتا ہے
جہاں قیامتِ صغرا گزرتی ہے ہم پر
زمانہ عدل جہاں گیر کا بتاتا ہے
دورِ حاضر میں زلیخائے سیاست کے عوض
کون یوسف ہے جو بے وجہ گرفتار نہیں
لغزشیں کچھ رشی منیوں سے بھی ہو جاتی تھیں
اور ہم عام سے انسان ہیں، اوتار نہیں
ان کے انداز سے لگتا تو یہی ہے شاید
لوگ حق دار ہیں جنت کے، طلبگار نہیں
ظاہر ہے کہ ایک شاعر صرف آواز ہی بلند کر سکتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کسی قسم کا اقتدار یا اختیار نہیں ہے اور اس پر مستزاد ہمارے عوام بھی ان معاملات سے بے خبر ہیں یا بے خبر رکھے گئے ہیں۔ حالات نے ان کو بے عمل بھی بنا کر رکھ دیا ہے اور انھیں اپنی عافیت اسی میں نظر آتی ہے وہ خاموش رہیں۔ جب آزرؔ کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے تووہ بے بسی سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
میں صرف سچ ہی نہ ہوتا تو کیا بگڑ جاتا
بلا ہی لیتا ہے جب تب ستونِ دار مجھے
یہ کیسا دور ہے، کیسی سیاستیں اس کی
گناہ خود وہ کرے اور سنگسار مجھے
میں تھک چکا بھی ہوں اور آخری صدا میری
انہیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے
میں اس کے ظلم کا اس کو حساب دکھلاؤں
نہیں ہے خود پہ اب اتنا بھی اختیار مجھے
صنعتی دَور کی ترقی اور پیش رفت کی دین ماحول کی وہ آلودگی بھی ہے جس نے ہماری زندگی کو بے شمارمسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ کارخانوں اور فیکٹریوں کی تمام گندگی اور آلائش جس طرح ہماری ندیوں، جھیلوں اور تالابوں کو زہریلا کر رہی ہیں اور جتنی تیزی سے ہوا دھویں، خاک دھول اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے کوئلے کی راکھ کے علاوہ دوسری متعدد معدنی ذرات سے زہریلی ہوتی جا رہی ہے وہ نہایت تشویشناک ہے۔ اس صنعتی ترقی کے نتائج کئی ممالک میں اپنی انتہائی بھیانک شکل میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر چین کی تقریباً ساری ندیاں اس صنعتی غلاظت سے اس درجہ آلودہ ہو چکی ہیں کہ ان کا پانی نہ تو انسان کی ضروریات زندگی کے لئے ہی قابل استعمال رہ گیا ہے، نہ مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور ہی اس پانی میں زندہ رہ سکتے ہیں، نہ پرندے اور دوسرے جاندار اُس سے سیراب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی وہ کھیتوں اور درختوں کی سنچائی کے کام آ سکتا ہے۔ ماحول میں ’’اسماگ‘‘ (smog) یعنی دھویں سے بھرا ہوا کہرا اتنی بری طرح سرایت کر گیا ہے کہ بعض مقامات پر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے اور انسان گھر سے باہر نکل کر سانس لینے کے لئے چہرہ پر نقاب (mask) لگانے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں بے تحاشہ پھیل رہی ہیں اور ہر طرح کا سرطان یعنی کینسر (cancer) عام ہو گیا ہے۔
ماحول کی اس آلودگی کے خلاف آزرؔ کا وہی موقف ہے جو ہر صاحب عقل کا ہونا چاہئے یعنی اگر ہم اسی طرح غیر ذمہ دارانہ طور پر اپنا ماحول اور فطرت کے ودیعت کئے ہوئے انعام برباد کرتے رہیں گے تو اس کا نتیجہ مختلف امراض کی وَباؤں اور زندگی کو صحت مند طریقہ سے گزارنے کی سہولتوں کے فقدان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ آخر کار ہونا یہ ہے کہ انسان اپنی حرکتوں کی وجہ سے بربادی، تہذیب و تمدن کی تباہی اور عبرتناک موت اپنے اوپر نافذ کر لے گا۔ آزرؔ نے بہت دردمندی سے انسان کی اس بے حسی اور خود غرضی کی نشاندہی کی ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کی ہے لیکن اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے کہ کوئی ان جیسے لوگوں کی آواز پر دھیان دے گا اور اس صورت حال کا علاج کرے گا۔ انسان اپنی خود غرضی میں انسانیت کو بھول چکا ہے اوراس کا انجام ظاہر ہے۔ آزرؔ کے چند اشعار سنئے اور غور کیجئے:
بدن صبا کا بھی یکسر دھوئیں میں لپٹا ملا
نسیم بھی لئے گرد و غبار گزری ہے
اسے حالات نے کچھ کہہ دیا کیا؟
وہ آنکھیں کھول کر سونے لگا ہے
جہاں کو اس میں بھی سازش مری نظر آئی
بہار اب کے جو بے برگ و بار گزری ہے
اس قدر سبز درختوں کو نہ کاٹو کہ کہیں
سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری
کیسے آلودہ فضاؤں سے بچے بادِ نسیم
کیسے مسموم نہ ہو جائے صبا بے چاری
سبب تھی فطرتِ انساں خراب موسم کا
فرشتے جھیل رہے ہیں عذاب موسم کا
وہ تشنہ لب بھی فریبِ نظر میں آئے گا
اسے بھی ڈھونڈ ہی لے گا سراب موسم کا
درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
میں جس میں رہ نہ سکا جی حضوریوں کے سبب
یہ آدمی ہے اسی کامیاب موسم کا
جدید غزل کے شاعرسے یہ توقع تو ہوتی ہے کہ وہ موجودہ مادی اور صنعتی دَور سے نالاں ہو اور اس کی شاعری میں اس کے پروردہ حالات پر احتجاج بھی ہو لیکن جب اس کی شاعری آج کے نوجوانوں کے اخلاق اور کردار پر بھی انگلی اٹھاتی ہے تو حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوتی ہے۔ آزرؔ آج کے نوجوانوں کی نماز جیسی بنیادی عبادت سے بے توجہی اور خوف الٰہی سے بے نیازی پر شاکی ہیں، ان کی جھوٹ بولنے کی عادت پر اُن کوافسوس و حیرت ہے اور دُنیا کی ہوس پرست قوتوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک سے آپ کو پریشانی اور وحشت ہے۔ وہ اپنی غزل میں اس افسوسناک صورت حال کا ذکر بہت دلسوزی سے کرتے ہیں۔ شاعر اپنے دَور کا نباض ہوتا ہے اور اس کے ہر نشیب و فراز سے اس کا حساس دل متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بس میں صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنے دَور کی تاریخ دیانت داری سے قلم بند کرتا رہے۔ وہ تاریخ کا رُخ اُسی وقت موڑ سکتا ہے جب اس کے ساتھ ہم آواز ادبا اور شعرا کا ایک کثیر ہجوم ہو اور عوام و خواص ان کی آواز سے ہم آہنگ ہونے اور اس بغاوت کے تکلیف دہ نتائج برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ افسوس کہ ہمارے ملک اور قوم میں وہ فضا ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے جو ایسی انقلابی آواز کے لئے ہمہ تن گوش ہو۔ بہر کیف دیکھئے کہ آزرؔ اپنے کرب کا اظہار کس طرح کرتے ہیں۔
تجھے یہ سانس غنیمت نہیں، تعجب ہے
نماز کے لئے فرصت نہیں، تعجب ہے
تمام عمر گناہوں میں کاٹ دی تو نے
اور اپنے آپ سے وحشت نہیں، تعجب ہے
جسے بھی دیکھئے دو روزہ زندگی میں ہے گم
کسی بھی سر پہ قیامت نہیں، تعجب ہے
وہ شخص سچ کی روانی سے جھوٹ بولتا ہے
ذرا بھی لہجہ میں لکنت نہیں، تعجب ہے
درندگانِ ہوس نے کھلائے گل کیا کیا
اور اس جہان کو حیرت نہیں، تعجب ہے
ہے ماں کے پاؤں میں جنت، یہ جانتے ہوئے بھی
کسی کو خواہشِ جنت نہیں، تعجب ہے
کیا بزرگوں میں بھی کچھ خامیاں پائی گئی ہیں؟
آج کیوں بچے نصیحت پہ اتر آئے ہیں؟
عرش کیوں ہلنے لگا ہے، کہیں ایسا تو نہیں!
کچھ گنہگار عبادت پہ اتر آئے ہیں
کیا مرا نامۂ اعمال ہی کافی نہیں تھا؟
میرے اعضا بھی شکایت پہ اتر آئے ہیں
بے حسی دیکھ کے انسانوں کی اکثر شبِ غم
درد خود اپنی عیادت پہ اتر آئے ہیں
یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آزرؔ اپنی شاعری میں محبت ایسے خوبصورت انسانی جذبہ سے غافل نہیں رہے ہیں۔ محبت وہ انسانی جذبہ ہے جس کے بغیر صرف شاعری ہی نہیں بلکہ خود زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ ہر زبان کی شاعری اور ادب میں محبت کو طرح طرح سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اُردو غزل پر محبت اور اس سے متعلقہ مضامین کا ایسا گہرا اثر رہا ہے کہ اس کے بغیر غزل کا تصور ہی نا ممکن ہو کر رہ گیا ہے اور اگر زندگی یا شاعری سے محبت کی طلسماتی دُنیا چھین لی جائے تو دونوں کا لطف ہی جاتا رہتا ہے۔ آزرؔ کی غزلوں میں گاہے گاہے ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں محبت کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھئے:
میں سمجھ پایا نہیں بالکل مگر
اس کے سمجھانے کا ڈھب اچھا لگا
چاند کیا مریخ تک ہم عصر جا پہنچے مگر
ہم تجھے پانے، تجھے کھونے کا غم کرتے رہے
وصالِ یار ہی سب کچھ نہیں محبت میں
جو دشتِ ہجرسے گزرا نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہے جس کا نام زمانہ میں عشق، یہ دل بھی
مرید خود کو اسی پیر کا بتاتا ہے
دلِ عزیز پہ دعوا ہے آج بھی اس کا
اسے وہ مسئلہ کشمیر کا بتاتا ہے
میں جب بھی درد کو لفظوں کا روپ دیتا ہوں
زمانہ شعر اسے میرؔ کا بتاتا ہے
لو پھر نظارۂ حسن و جمال کر رہے ہیں
ہم آج دل کی حکومت بحال کر رہے ہیں
وہ صرف ایک نظر ڈال کر چلا بھی گیا
ہم اس کے بارے میں کیا کیا خیال کر رہے ہیں
تمھارا حسن، تمھارا خیال رکھ دل میں
ہم اپنے آپ کو اب مالا مال کر رہے ہیں
ان اشعار میں بھی محبت کا وہ رنگ اور رُوپ نہیں ملتا ہے جس سے آزرؔ بھی بخوبی واقف ہوں گے۔ ان کے یہاں جدیدیت کی یورش نے محبت کی شکل بھی بدل دی ہے۔ اِس اُلجھن میں آزرؔ کو حقیقی محبت کہیں ملتی ہے تو وہ ماں کی آغوش میں ملتی ہے۔ یہ نکتہ بھی بہت دلچسپ اور قابل غور ہے کہ جدید غزل کہتے کہتے جس میں روایتی غزل کی ’’مجازی محبت‘‘ کا دور دور تک شائبہ بھی نظر نہیں آتا ہے انہیں اچانک ماں کی مامتا یاد
آ جاتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔
وہ سیاست نے دئے ہوں کہ محبت نے تری
زخم اس دل کو ضرورت سے زیادہ ہی ملا
لوگ جنت کے طلب گار ہیں لیکن اے ماں
تیری آغوش میں جنت سے زیادہ ہی ملا
ہے ماں کے پاؤں میں جنت، یہ جانتے ہوئے بھی
کسی کو خواہشِ جنت نہیں، تعجب ہے
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزرؔ جدیدیت سے غیر شعوری طور پر بیزار ہو کر ایک لمحہ کے لئے اُس دُنیا میں پہنچ گئے جہاں انہیں اچانک رسول اللہﷺ کی وہ حدیث یاد آ گئی جس میں آپ نے ماں کے پیروں کے نیچے جنت بتائی ہے۔ آزرؔ کو اس کا احساس تو یقیناً ہے کہ ان کا کلام حسن اور عشق کی رنگین داستان سے خالی ہے اور اس میں زندگی کی وہ شادابی اور تازگی نہیں ہے جو غزل کا طرۂ امتیاز ہے۔ وہ خود ہی اس احساس کے اعتراف میں شعر میں کہتے ہیں کہ
نغمگی سے مرے اشعار ہیں خالی آزرؔ
میرے افکار میں پازیب کی جھنکار نہیں
: ’’پازیب کی جھنکار‘‘ کی یہی کمی ہے جو ان کی غزل کو روکھی اور پھیکی مقصدیت تو دیتی ہے لیکن اس کے پیام کو سوز و ساز و گداز سے بیگانہ رکھتی ہے۔ وہ اپنے حق کے لئے بھی صرف طاقت پر بھروسہ کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے یہاں دعا نام کی کوئی چیز معتبر نہیں ہے جب کہ ایسی غزل جو دل کے تاروں کو چھیڑ جائے کسی دعا سے کم نہیں ہوتی ہے۔ بایں ہمہ وہ خود کو ایسے اہل درد میں شمار کرتے ہیں جو اندھیروں کو سحر پر ترجیح دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:
یہ کام بے ہنروں کو ہی زیب دیتا ہے
ہنر رسیدہ کو عرضِ ہنر سے کیا لینا
اگر یہ حق ہے تو حق چھیننے سے ملتا ہے
فقط دعا ہے تو اس کو اثر سے کیا لینا
گلے اندھیروں سے جی بھر کے مل کے روتے ہیں
ہم اہل درد ہیں ہم کو سحر سے کیا لینا
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آزرؔ کا اصل روپ کیا ہے۔ کبھی وہ ایک انقلابی کی شکل میں نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی وہ دل تھامے اپنی پرانی اقدار کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں، کہیں وہ ماحول کی آلودگی سے پریشان و ہراساں گریہ کناں دکھائی دیتے ہیں اور کہیں وہ کمزور ممالک کے مغربی طاقتوں کے ہاتھوں بربادی اور استحصال کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں ایسا کوئی پیغام یا فلسفہ نہیں ملتا ہے جسے ان کی شاعری کی اساس کہا جا سکے۔ اکثر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ ایک اضطرابی کیفیت میں زندگی اور دُنیا کے اس بیکراں سمندر میں ہاتھ پیر تو مار رہے ہیں لیکن اپنی منزل سے نا آشنا ہیں۔ ان کو اپنے تئیں دعویٰ ہے کہ وہ اہل وفا میں سے ہیں لیکن اس پر پورا یقین خود ان کو بھی نہیں معلوم ہوتا ہے۔ ایک شعر ان کے اس تذبذب کی جانب اشارہ کرتا ہے:
سبھی کو علم ہے پتلا وفا کا ہے آزرؔ
مگر وہ شخص اداکار بھی ہو سکتا ہے
یہاں اتمام حجت کے لئے شاعری میں ابہام کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے خصوصاً اس لئے کہ آزرؔ کی غزل میں اس کا کافی استعمال کیا گیا ہے۔ ابہام یعنی شعر کا مبہم ہونا اس کی دلکشی اور معنی آفرینی میں اضافہ کا باعث ہو سکتا ہے۔ ابہام کی ایک صورت وہ ہے جس سے شعر معمہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اوراس کے معنی سمجھنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو سکتا ہے۔ درجِ ذیل معروف شعر اس کی اچھی مثال ہے:
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
ایسے ابہام سے گریز ہی بہتر ہے۔ ابہام کی دوسری شکل وہ ہے جو شعر کی معنی آفرینی میں اضافہ کرتی ہے۔ شعر میں ایسے اشارے چھوڑ دینا کہ تھوڑے سے فکر و تدبر سے شعر کے معنی واضح ہو جائیں ایک ایسا فن ہے جو مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ مومنؔ دہلوی کا نیچے دیا ہوا شعر ایسے ابہام کی اچھی مثال ہے کیوں کہ اس میں جو اشارہ کیا گیا ہے وہ نہایت لطیف ہے لیکن ایسا مشکل نہیں ہے کہ شعر کے معنی خبط ہو کر رہ جائیں۔
مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی
آخر کو دُشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
مومنؔ کے اس شعر کے ابہام نے اس کی نزاکت خیال کو بڑھا دیا ہے اور شعر بہت خوبصورت ہو گیا ہے۔ آزرؔ نے اپنی غزلوں میں جا بجا ابہام کا سہارا لیا ہے البتہ وہ اس کوشش میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ ان کی جدید غزلیں اپنے انقلابی اور احتجاجی پیغام کی موجودگی میں کسی قسم کی نزاکت خیال کی متحمل نہیں رہ گئی ہیں۔ انقلابی پیغام اور احتجاج جب تک بلند آواز سے نہ کیا جائے کوئی اثر نہیں رکھتا۔ بلند آواز سے کلام میں ایک قسم کی کرختگی اور کڑواہٹ کا پیدا ہو جانا لازمی ہے جس کی وجہ سے غزل کے لطف اور شعریت کا غائب ہو جانا لازمی ہے۔ اس طرح اشعار اپنی ہیئت میں تو غزل کے ہی ہوتے ہیں لیکن اپنے آہنگ اور لب و لہجہ میں وہ غزل میں تکلف کے ساتھ ہی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آزرؔ اپنے اشعار میں جس طرح کا ابہام، علامات اور کنائے استعمال کرتے ہیں اس سے غزل کا عام قاری نا واقف ہے چنانچہ موصوف کے بہت سے اشعار اس کے لئے کم سے کم جزوی طور پر ایک معمہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اس اجمال کی وضاحت کے لئے چند اشعار پیش کئے جا تے ہیں۔
سفید ہونے کا نقصان اس قدر تھا اسے
وہ اپنے بچوں کی شکلیں سیاہ کرنے لگا
کوئی پرندہ سمجھ لے ہمیں بعید نہیں
مکاں کے نام پہ جس گھونسلے میں رہتے ہیں
شاخ ہلنے پہ بھی کوئی نہ اُڑا پیڑوں سے
وہ پرندوں سے ملاقات کے ڈھب جانتا ہے
خواب کی راہوں میں حائل تھیں ہوا کی سرحدیں
راستے لیکن خلاؤں کے وسیلے ہو گئے
ایک چنگاری فضاؤں کو خلا کر دے گی
خشک ہونے کو ہے پانی بھی ہَوا جھیلوں کا
میں اپنی قبر میں محوِ عذاب تھا لیکن
زمانہ خوش ہوا دیواروں پر سجا کے مجھے
جو کلکتے سے پیشاور کا رشتہ جوڑ آئی ہے
وہ جی ٹی روڈ ہو جاتی ہے کیوں سوری نہیں ہوتی
یہ بچہ جانے کیوں ماں باپ سے خوش رہ نہیں پاتا
کبھی دادی سے ملتا ہے، کبھی نانی سے ملتا ہے
راکشس کی جان طوطے میں تھی اور ہم جیسے لوگ
ہر گھڑی اگ آنے والا سر قلم کرتے رہے
آزرؔ کو ان کے لب و لہجہ کی تلخی و برہمی کے پیش نظرAngry Young Man of New Ghazal یعنی ’’نئی غزل کا جوانِ برہم‘‘ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ ان کی غزل کے عام مضامین اور ان کے مخصوص تلخ و ترش اظہار کو دیکھتے ہوئے اُن کے لئے یہ لقب ایک حد تک یقینامناسب تھا۔ ’’ایک حد تک‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ آزرؔ کا لہجہ اور زبان و بیان صرف تلخ ہی نہیں بلکہ پریشان اور پراگندہ یعنی confused بھی ہیں۔ اکثر غصہ اور جھنجلاہٹ میں ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح اپنا موقف بیان کیا جائے۔ وہ الفاظ کی بھول بھلیاں میں گم ہو جاتے ہیں۔ اشعار کا مطلب کہیں ’’در بطن شاعر‘‘ رہ جاتا ہے اور کہیں قاری کو اِس فکر میں چھوڑ جاتا ہے کہ آزرؔ یہاں کیا کہنا چاہتے ہیں اور جو اشارے، کنائے، تشبیہات و استعارات انہوں نے استعمال کئے ہیں ان سے کیا مطلب لیا جائے؟ اوپر لکھے ہوئے اشعار روایتی غزل کے اشعار سے بہت دُور ہیں۔ پہلا، ساتواں اور آخری شعر خاص طور سے غزل کے رنگ و آہنگ سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور اپنے مطلب کے لئے شاعر کے وضاحتی نوٹ کے محتاج ہیں۔ سب اشعار میں شعریت اور معنی آفرینی کا فقدان ہے۔ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ یہ اشعار پھیکے اور بے اثر ہیں اور انہیں غزل کے اشعار کہنا ممکن نہیں ہے۔ لب و لہجہ کی اِس ترشی اور پراگندہ خیالی کی مناسبت سے اگر آزرؔ کو ’’جدید غزل کا جوانِ برہم و پراگندہ خیال‘‘ یعنی Angry and Confused Man of New Ghazal کہا جائے تو نامناسب نہیں ہو گا۔
فریاد آزرؔ کی غزل کا یہ مطالعہ اور تجزیہ مختلف ہو سکتا تھا اگر جدید غزل کے شوق میں وہ یہ نہ بھول گئے ہوتے کہ یہ صنف سخن ان کے انقلابی مقاصد کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ان کا پیغام نظم کے ذریعہ دوسروں تک آسانی سے پہنچایا جا سکتا تھا جیسا کہ اب تک ہر انقلابی شاعر کرتا رہا ہے۔ غزل کا قاری اس کے ہر شعر کو ایک اکائی کی صورت میں دیکھنے کا عادی ہے۔ جدید غزل کی کوئی کوشش بھی اس کی اس عادت کو ختم نہیں کر سکتی ہے۔ آزرؔ صاحب سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ راقم الحروف کی رائے میں جدید غزل کو غزل کہنا بھی مناسب نہیں ہے۔ صرف ردیف، قافیہ، وزن اور بحر سے غزل کی تشکیل نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مزاج، اس کی تہذیب، اس کے مضامین اور ان کو ادا کرنے کا اسلوب جب تک اپنی مخصوص صورت میں مرتب نہ کئے جائیں اس وقت تک غزل وجود میں نہیں آتی ہے۔ خود آزرؔ بھی جدید غزل سے آسودہ خاطر نہیں ہیں ورنہ وہ اپنے ایک شعر میں کیوں کہتے کہ:
لاکھ آزرؔ رہیں تجدید غزل سے لپٹے
آج بھی میرؔ کا اندازِ بیاں باقی ہے
٭٭٭