رئیس فروغ اپنے عہد اور اس کی علامتوں کے ساتھ چلنے والا شاعر ہے۔ اپنے گردو پیش اور جغرافیے سے باخبر اور اپنے لوگوں سے وابستہ۔ اس کی شاعری کسی رواجی یا روائتی اسلوب کو نہیں دہراتی بلکہ اس کی اپنی ذات اور اس سے وابستہ اس کا عہد اس کی شاعری کی اساس ہے۔ اپنے جغرافیے، اپنے عہد اور اس کی علامتوں سے یہی وابستگی اس کے ہاں گہرے حسّیاتی روابط کو متعارف کراتی ہے۔ اور یہ وہ حسّیاتی روابط ہیں جنہیں میں آج کی شاعری کی پہچان سمجھتا ہوں اور جس کی وجہ سے میں رئیس فروغ کو اپنے عہد اور اس کی علامتوں کے ساتھ چلنے والا شاعر قرار دیتا ہوں۔ یہ حسیاتی روابط کیا ہیں۔ اور جدید شاعری میں اس کی اساسی اہمیت کیونکر ہے۔ یہ دو ایسے بنیادی سوالات ہیں۔ جن کو سمجھے بغیر ہم شاعری کی عصری روح تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی جدید شاعری کے جدید رجحانات کا چٹکارہ لے سکتے ہیں۔
ہمارا عہد اپنے ارتقائی چکر کی تکمیل کے بعد ایک واضح اور تبدیل شدہ فارم میں آچکا ہے۔ اور یہ تبدیل شدہ فارم یہ ہے کہ ہماری حسیات نے ایک طرف تو مشینوں اور بے جان اشیاء کو نہ صرف قبول کر لیا بلکہ ان میں ایک تجریدی معنویت بھی تلاش کر لی ہے۔ اور کہیں کہیں تو یہ معنویت غیر تجریدی یا نہایت سادہ اور واضح حالت میں بھی سامنے آتی ہے۔ تہذیبی پہئیے کے ایک چکر کی تکمیل پر اشیاء اپنی معنویت اور حسیاتی حیثیت بدل رہی ہیں۔ لہٰذا ہمارے گرداگرد مصروف کرینیں، بسیں، کاریں، ہائی جہاز، گھر، سوئمنگ پول، یہ سب چیزیں اپنی صفات کے اعتبار سے ہمارے احساس کی کسی نہ کسی صفت کو چھوتی ہیں یا دوسرے لفاظ میں ہم مشینوں کو ہانپتے کانپتے، اونگھتے، سوتے، جاگتے، دیکھتے ہیں۔ ادب کے ایک ذہین قاری کے لئے کسی بس کا صوفے کے ساتھ ٹوئسٹ کرنا، سورج کے پہئیے کا پھسل جانا، احساس کی سیکل سے گرنا یا غصے کے لدے ٹرک کا ہونا اچنبھا نہیں اور نہ ہی ان تراکیب میں بے معنویت یا ابہام ہے بلکہ اس سے وابستہ کوئی بھی شخص اپنے روز و شب کے مشاہدات اور تجربات سے اس قدر تربیت حاصل کر چکا ہے کہ شاعری میں ان علامتوں کو پڑھ کر وہ اس انٹر پری ٹیشن کی تائید کرتا ہے۔
ان سب علامتوں کا جواز وہ تخیل ہے جو ان مشینوں اور اشیاء کی صورت مین ہمارے کسی نہ کسی صفتی احساس سے ہم آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا شاعر کبھی اشیاء اور مشینوں میں مقلوب ہو کر اپنی حیات کا اظہار کرتا ہے تو کبھی اشیاء اور مشینوں کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ حسیاتی روابط کے اسی رجحان نے رئیس فروغ کے اسلوب میں ایک علامتی استعارے کو تخلیق کیا اور یہ علامتی استعارہ جو ایک گہرے شعور اور شاعرانہ قدرت سے وجود پاتا ہے۔ انسان اور اشیاء کے صفتی احساس کو نہایت نزاکت سے چھوتا ہے۔ اور شاعری کو کبھی مصوری اور کبھی لمس کے قریب کر دیتا ہے۔ رئیس فروغ کی غزلوں میں اس قسم کے علامتی استعارے ایک ندرت اور بعض اوقات تحیر پیدا کر دیتے ہیں۔ یہاں میں رئیس فروغ کے اس خوبصورت شعر کو ضرور سامنے لاؤں گا::
کلف کے کالر پہننے والا اک آدمی قتل ہو رہا ہے
اس طرح رئیس فروغ کی شاعری کی صورت یوں بنتی ہے کہ اس کی شاعری حسیاتی روابط سے شروع ہو کر انسان اور اشیاء کی صفاتی مماثلت تلاش کرتی ہوئی علامتی استعارے تک پہنچتی ہے اور یہاں سے لمس اور مصوری کے حساس پہلوؤں کو چھو کر شاعری میں ایک تحیر پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس پورے عمل میں شاعر کا اپنا لب و لہجہ ہی اس کی شاعری کو متوازن رکھتا ہے۔ جن لوگوں نے رئیس فروغ کو شعر پڑھتے سنا ہے وہ رئیس فروغ کی شاعری میں اس کے لہجے کے اتار چڑھاؤ تک کو پالیں گے۔
کسی بھی جینوئین شاعر کی طرح فروغؔ چیزوں کو ان کی طے شدہ حدود اور معنویتوں میں نہیں دیکھتا بلکہ اپنی شاعری مین اشیاء کو نئی معنویتوں اور حوالوں سے متعارف کراتا ہے۔ اس کی یہ توڑ پھوڑ شعری ضرورت اور شعوری برتاؤ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں شاعر انہ سلیقہ ہوتا ہے۔ جو اسے ایک ’’اسلوب‘‘ کے طور پر تسلیم کرالیتا ہے۔ مثلاً بارہ خواب سے دوری یا ساحل جیسی عمر کی تراکیب وغیرہ۔
’’رات بہت ہوا چلی‘‘ رئیس فروغ کی طویل ریاضت کا حاصل ہے۔ ایک طویل عرصے کا شعری سفر نامہ ہے، لہٰذا مجموعے کا ایک مزاج نہیں بن پاتا، لیکن ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ رئیس فروغ بہت سے تجربات کے بعد اس شعری رویے تک پہنچے ہیں۔ جہاں ان کی غزلیں اور ان کی ذات ان کی وابستگی، ان کی محبت اور نفرت سے لے کر ان کے لہجے کا اتار چڑھاؤ تک اپنے اندر سمو لیتی ہیں۔ لیکن غزل ایک روایتی عہد اور معاشرے کی صنف ہونے کی حیثیت سے شاعر کے پورے فکری اور شعری قدکو فوکس میں لینے سے قاصر ہے کیونکہ اب شاعری کا کینوس ہی بدل گیا ہے۔ یہ عہد اپنی ضرورتوں مجبوریوں اور تقاضوں کے لحاظ سے نئے فکری رجحانات، اسالیب اور استعاروں کا متلاشی ہے۔ انسانی بھوک کی نئی شکلیں دریافت ہو چکی ہیں۔ ذات کا تصور نئی معنویتوں اور نئی حدود کے ساتھ منکشف ہوا ہے۔ مجرد اور بے معنی خواب تعبیروں سے زیادہ بامعنی ہی نہیں بلکہ سچائی کا استعارہ بن گئے ہیں اور انسانی شعور اس حیرت کدے میں اپنی نفی اور اپنے اثبات کے ضرب تقسیم میں محو تماشہ ہے۔ لہٰذا غزل ہمارے عہد کے قدم بہ قدم چلنے سے قاصر ہے کیونکہ عصری فکر اپنی جولانی طبع اور طوفانی بہاؤ اور شدت کے باعث کسی اضافی ترنم کی آمیزش برداشت نہیں کرتی نہ کسی قافیہ بندی کی پھس پھسی زینت یا ردیف سے پیدا شدہ کمزور اور بے جواز خیال کو قبول کرتی ہے۔ نہ ہی یہ عصری فکر لفاظی اور معاملہ بندی کی ضعیف الفکری کو مانتی ہے، لہٰذا یہ عہد لفظوں کے کم سے کم استعمال اور اشیاء کے صفاتی تشخص سے حسیاتی روابط پیدا کرنے اور اس سے شاعری بنانے کا عہد ہے۔ لہٰذا جوں جوں ہم اصناف شاعری کی کمر سے قافیہ، ردیف، وزن کا بوجھ اتارتے ہیں شاعری کا معکوسی جھکاؤ کم ہوتا جاتا ہے اور شاعری اپنے متناسب جسم اور نپے تلے خد و خال کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ اس بات کی شہادتیں ہمیں رئیس فروغ کی شاعری میں مل جاتی ہیں۔ رئیس فروغ نے اپنی غزلوں میں بعض جگہ نئے تجربوں کی کوشش کی ہے لیکن سوائے چند اتفاقی بن جانے والے شعروں کے، سب تجربے پوری طرح شاعری نہیں بن پاتے ہیں۔ یہاں ان کی دو غزلوں کا حوالہ دوں گا۔
اک اپنے سلسلے میں تو اہل یقیں ہوں میں
چھ فیٹ تک ہوں اس کے علاوہ نہیں ہوں میں
راتوں کو دن سپنے دیکھوں دن کو بتاؤں سونے میں
میرے لیے کوئی فرق نہیں ہے ہونے اور نہ ہونے میں
لیکن جوں جوں رئیس فروغ نظم کی طرف بڑھتے ہین ان کی بات واضح، لہجہ متعین، فکر گہری اور اسلوب بھرپور سامنے آتا ہے۔ ان کی چند ایک آزاد نظمیں بھی اچھی ہیں مثلاً انکوائری، کمرہ، ائیرپورٹ، وغیرہ۔ لیکن جب وہ نثری نظم میں اپنی بات کہتے ہیں تو رئیس فروغ نا تو پیچیدہ رہتے ہیں، نہ سطحی بلکہ ان کی شاعری میں گہرا شعور، عصری فکر اور وابستگی کی باریکیاں سامنے آتی ہیں جو اپنے اظہار میں سادہ اور شستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شعری شخصیت کو وسیع کرتی ہیں اور صنف تا حال دریافت نہیں ہوئی اور نہ تو اس میں کوئی کھوٹا سکہ چل سکتا ہے اور نہ محض موسیقی اور ردم کی بیساکھیوں سے شاعری قدم بڑھا سکتی ہے۔
رئیس فروغ کی نظمیں آج لکھی جانے والی ساری نثری شاعری سے علیحدہ ایک آہنگ اور اسلوب لیے ہوئے ہیں۔ اپنی بُنت کے اعتبار سے یہ نظمیں شاعر کے پورے تشخص کو واضح کرتی ہیں۔ ان میں انسانی تعلقات کی باریکیاں اور حسن و عشق کے رویوں کے ساتھ ساتھ ایک مزاحمت بھی ہے۔ فطرت کی کمزور پڑتی قوتوں کی مزاحمت، جو بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری ساری معیشت پر چھا جاتی ہے۔ رئیس فروغ کی آزاد نظم انکوائری، فطرت کی کمزور پڑتی قوتوں کی پورے طور پر مزاحمت کرتی نظر آتی ہے۔
رئیس فروغ اپنی نظموں میں جو استعارے پیش کرتا ہے یا جن حوالوں سے بات کرتا ہے اس سے ادب کا قاری ابھی پورے طور پر مانوس نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بات واضح اور صاف چلتی ہوئی کہیں دھندلا جاتی ہے اور شاعر پینترا بدل کر اپنا کوئی تجربہ، احساس یا کوئی حوالہ سامنے لاتا ہے، لیکن ہم اس پر بے معنویت یا ابہام کا الزام نہیں لگا سکتے۔ اس لیے کہ شاعری ایک اجتماعی احساس ہوتے ہوئے بھی اپنے اظہار کے لیے کسی ذاتی روئیے کی محتاج ہے۔ اجتماعی احساس متحرک نہ ہونے کی وجہ سے کسی گنتی میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا تخلیق رویے اور اسلوب کی بات ہوئی۔ جب ایک شاعر اپنے رویے کو اسلوب میں ڈھالتا ہے تو اس کے روئیے تک پہنچنے کیلیے ہمیں اس کے اسلوب، حوالوں اور استعاروں کے دروازے کھولنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ تخلیق کار اپنے تخلیقی لمحوں میں خود ایک خاص قسم کی لاعلمی اور تحیر میں مبتلا ہوتا ہے، لہٰذا ابلاغ کے معاملے میں کسی بھی رکاوٹ کا ذمہ دار نہیں ہوتا اور بعض اوقات تو اس کی شاعری خود اس کے لیے اتنی ہی پیچیدہ ہو جاتی ہے جتنی کسی بھی عام قاری کے لیے ہو سکتی ہے۔
آدھا سفر ہم نے خیالوں میں طے کیا، بنچ، چرس نوش، ڈاکٹر فانچو، سگ ہم سفر اور اسفنج کی اندھی سیڑھیوں پر وہ نظمیں ہیں جو رئیس فروغ کے اسلوب اور رویوں کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ فطرت کی خاموش اور متحرک قوتوں کا احساس، بے جان اشیاء کا بیدار ہوتا ہوا شخص لوگوں سے وابستگی اور جہانِ توہمات اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ ان کی تراشی ہوئی نفیس تراکیب اور پر تخیل استعاروں سے آراستہ اسلوب، جس میں ایک طرف تو شاعر اپنے لفظی برتاؤ میں باغی، محتاط اور چابکدست ہے تو دوسری طرف اشیاء کو ان کی سادہ شکل میں دیکھنے کا متوازن رویہ رکھتا ہے۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے رئیس فروغ اپنے شعری روئیے، اسلوب کے اعتبار سے نئے عہد کے شعری ادب کو نئے خطوط اور نئے رویوں کی طرف لے جاتا ہے اور شاعری کو اپنے عہد کے مسائل اور تقاضوں سے آنکھ ملانے کے قابل بناتا ہے۔ رئیس فروغ کی شاعری ایک عہد اور تجربہ ہے اگر آپ اس سے آنکھ چراتے ہیں تو آپ محض شاعری سے انحراف نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے عہد سے اور اپنے آپ سے بھی منکر ہیں کہ آپ کی ذات اپنے عہد سے علیحدہ کوئی چیز نہیں اور رئیس فروغ آپ سے اور آپ کے عہد سے مخاطب ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...