ہائیٹ واقعہ لکھتے ہیں، “میں ایک ٹیکسی میں تھا۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی عمر امریکہ میں رہنا چاہتا ہے یا پھر واپس اردن چلا جائے گا؟ اس کا دیا گیا جواب مجھے یاد رہے گا۔ اس نے بتایا کہ وہ حال ہی میں باپ بنا ہے اور واپس اردن چلا جائے گا کیونکہ وہ کبھی ایسا نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر اسے گالی دے۔ زیادہ تر امریکی بچے کبھی اپنے والدین کو ایسا نہیں کہتے لیکن کچھ براہِ راست یا بالواسطہ ایسا کرتے بھی ہیں۔ ۔ مختلف کلچرز میں والدین، اساتذہ اور اتھارٹی کے دوسرے کرداروں کے احترام کے درجے میں بڑا فرق ہے”۔
اخلاقیات کا یہ حصہ ہر معاشرے میں ہے۔ صرف یہ کہ یکساں طور پر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درجہ بندی کے ایسے تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ زبانوں پر ان کا اثر نظر آتا ہے۔ اردو میں کسی کو پکارنے کے لئے “آپ”، تم” اور “تو” کے لفظ کا چناوٗ مخاطب کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ فرنچ میں احترام کے لئے vous اور غیررسمی طور پر tu استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں احترام سے مخاطب کرنے کے لئے اس کا آخری نام لیا جاتا ہے اور ساتھ لقب لگایا جاتا ہے (مثلاً، مسز سمتھ یا ڈاکٹر جونز) جبکہ غیررسمی طور پر پہلا نام لیا جاتا ہے۔ اگر آپ کسی دکان پر جائیں اور ایک اجنبی سیلزمین آپ کو “تم” کہہ کر مخاطب کرے تو شاید آپ کے چہرے میں ناگواری کی لہر آ جائے۔ اسی طرح اگر امریکہ میں بڑی عمر کے شخص کو پہلے نام سے پکاریں تو ایسا ردِ عمل ہو گا۔ لیکن کیوں؟
یہاں پر جو اخلاقی ماڈیول متحرک ہوتا ہے یہ احترام اور فرمانبرداری کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیوانات کی دنیا میں گروہوں کی صورت میں رہنے والی انواع میں ورجہ بندی والی (hierarchical) تنظیم نظر آتی ہے۔ مرغ، کتے، چمپینزی جیسے جانوروں میں نچلے درجے کے افراد پہچانے جا سکتے ہیں۔ وہ خود کو چھوٹا اور بے ضرر دکھاتے ہیں۔ اور اگر کسی کے رتبے کو نہ پہنچان سکیں تو اس کا نتیجہ پٹائی کی صورت میں نکلتا ہے۔
یہ طریقہ کوئی “اخلاقی” بنیاد والا تو نہیں لگتا بلکہ طاقتور کی طرف سے کمزور پر ظلم کا لگتا ہے۔ لیکن اتھارٹی اور طاقت کو آپس میں گڈمڈ نہیں کئے جانا چاہیے۔ چمپینزی میں رتبے کا تعلق طاقت اور دوسرے کو مارنے کی صلاحیت سے ہے۔ لیکن بالادست نر کئی ایسے کام کرتے ہیں جو سماجی فائدے کے ہیں۔ مثلا “کنٹرول کا کردار” ادا کرنا۔ الفا میل کا کام جھگڑے نمٹانا بھی ہے اور اگر گروہ میں کوئی واضح طور پر بالاست نر نہ ہو تو نتیجہ گروہ میں ہونے والے پرتشدد تنازعات کی صورت میں نکلتا ہے۔ پرائماٹولوجسٹ ڈی وال کا کہنا ہے کہ “رتبے پر اتفاق اور اتھارٹی کے احترام کے بغیر سماجی اصول کا احترام نہیں کیا جاتا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان چمپینزی کی طرح پرتشدد نوع نہیں اور ان میں احترام کا مطلب صرف طاقت نہیں۔ کنٹرول کا کردار ہمیں ہر انسانی گروہ میں نظر آتا ہے۔ قدیم تہذیبوں میں اور انسانی قبائل میں بھی یہ نمایاں ہے۔ ہمیں جو قدیم قانونی لکھائی ملتی ہے، اس میں بادشاہ کے احترام پر زور ہے۔ اور بادشاہ کا کام انصاف اور نظم قائم رکھنے کا ہے۔
اٹھارہویں صدی قبلِ مسیح میں ہامورابی کی تحتیوں میں بھی سب سے پہلے نکتے میں یہی بتایا گیا ہے۔ “میں خدا سے ڈرنے والا ہامورابی ہوں جس کا کام زمین پر انصاف کو قائم کرنا ہے۔ برائی اور مکاری کا خاتمہ کرنا ہے تا کہ طاقتور کمزور کو نقصان نہ پہنچا سکے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانوں میں اتھارٹی کا مقصد نظم اور انصاف کا قیام ہے۔ ظاہر ہے کہ بالادست اپنے فائدے کے لئے اپنے زیردست کا استحصال کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، وہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ انسانی تہذیبوں نے محض چند ہزار سالوں میں پوری زمین پر کیسے قبضہ کر لیا تو ہمیں احترام اور فرمانبرداری کے کردار کو دیکھنا ہو گا۔ یہ اخلاقی نظم کی بنیاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی جگہوں پر ہائیرارکی، طاقت، استحصال اور evil کو ہم معنی لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تاثر غلط ہے۔
ایلن فسک کی تھیوری چار قسم کے سماجی تعلقات کا بتاتی ہے جس میں ایک “اتھارٹی رینکنگ” ہے۔
“اتھارٹی رینکنگ میں لوگوں کا رتبہ برابر نہیں ہوتا۔ اس میں نیچے والے اپنے سے اوپر والوں کی عزت کرتے ہیں، ان کی بات مانتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر انحصار کرتے ہیں۔ جبکہ اوپر والوں کی ذمہ داری اپنے سے نیچے والوں کی دیکھ بھال ہے۔ اس کی ایک مثال فوج کی ہائیرارکی ہے۔ درجہ بندی کے سخت نظام کے بغیر یہ ادارہ کام نہیں کر سکتا۔
اتھارٹی رینکنگ کی بنیاد جائز assymetry پر ہے، جبری طاقت پر نہیں۔ لازمی نہیں کہ یہ رشتہ استحصال کا ہو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احترام کی یہ اخلاقی بنیاد پیچیدہ ہے۔ کیونکہ یہ ماڈیول بیک وقت اوپر اپنے superior کو اور نیچے اپنے subordinate کو دیکھتا ہے۔ ہم ان آباء کی اولاد ہیں جو اس کھیل کو کامیابی سے کھیلتے رہے ہیں اور گروہی نظم برقرار رکھ کر معاشروں کی تعمیر کرتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں کہ کس کا مقام کہاں پر ہے۔ اور جیسے ہی اس نظم کی خلاف ورزی ہوتی ہے، ہمیں فوری طور پر اس کا احساس ہوتا ہے۔ خواہ اس سے کسی کو براہِ راست کوئی ضرر نہ پہنچے۔ اگر اس کا جزوی مطلب نظم قائم رکھنا اور chaos سے بچنا ہے تو پھر ہر کسی کا مفاد اس میں ہے کہ موجودہ نظام برقرار رہے اور لوگوں کی جوابدہی اپنی پوزیشن کے حساب سے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اخلاقی بنیاد پر احترام، بے عزتی، فرمانبرداری، نافرمانی، تسلیم، بغاوت جیسی چیزیں ہیں۔
اس کے موجودہ ٹرگرز میں روایت، ادارے اور ایسی اقدار ہیں جو معاشرے کو مستحکم رکھتی ہیں۔
وفاداری کی طرح ہی فرمانبرداری کی اخلاقی قدر کنزوریٹو نظریات میں لبرل نظریات کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...