وہ ایک لڑکی جس کی سادگی اور پاکدامنی کی گواہی اسے جاننے والا ھر شخص کالی سیاہی سے مھر لگا کر دے سکتا تھا ،
دن با دن مرجھاتی جا رہی تھی ۔۔۔اسکی شوخ ہنسی کی جھلملاتی چمک ماند پڑ رہی تھی
اسکے لبوں کی نرمی نجانے کیسے سخت لہجا پیدا کرتی جا رہی تھی۔۔
“مریم کیا ہوا بیٹا؟”
امی نے کمرے میں آتے ھوئے نھایت الفت بھرا ہاتھ اسکے ماتھے پر رکھا
کہنے لگی
“کچھ نہیں شاید رزلٹ کی الجھن ھے”
“رزلٹ کی الجھن کیسی ؟ جس کے نام پر سارا ا سکول کہتا ہے کہ فرسٹ اسی نے آنا ھے ،اسے بھلا کیسی الجھن؟
ذرا کندھوں پر بیٹھے فرشتوں سے صلاح لو”
امی نے اسکی قابلیت یاد دلاتے ہوئے کہا
“امی اس بار فرسٹ آنے والی لڑکی کے قدم ثابت نہیں نظر آرہے ، یوں لگتا ہے کہ ٹھوکر کے لگنے سے گِر جائے گی، نتیجہ تو ہاتھ میں ھوگا مگر گرنے کے سبب، ہاتھوں سے چھوٹتا ہوا رزلٹ بھی زمین کی نظر ہو جائے گا”
مریم کی آنکھوں میں مایوسی اس قدر تھی جیسے اسے معلوم ہو نتیجہ اس کے حق میں نھیں آنے والا
“خدا سے جس بات کی توقع رکھو گی نصیب تک صرف اسی کی رسائ ہو گی،
اب چاھے وہ تمہارے ہاتھ میں آئے یا زمین کی نظر ہو جائے”
وہ جانتی تھیں کہ مریم پریشان تھی پر وجہ کیا تھی ؟ وہ اس سے انجان تھیں
***** “””””””””””” ***** “””””””””””********”””””””””*********
“بھائ تم آگئے، زیادہ تھکن نہ ھوئ ہو تو ذرا پیٹ پوجا کرنے کو بازار سے بریانی تو پکڑ لاؤ ،دال کھانے کی خواہش آج نھیں ہورہی”
“ابھی تو آیا ھوں مریم ، اچھا پہلے پانی پلاؤ پھر بریانی بھی لے کر آتا ھوں”
مریم کے بھائ نے آج تگ اسکی کوئ فرمایش نھیں ٹالی تھی تو یہ کیسے ٹال دیتا
“بس اتنی سی بات تھی ، ابھی لائ پانی”
وہ خوشی خوشی بھاگی دوڑی پانی سے بھرا گلاس لے آئ تھی اور اب بریانی کا انتظار کر رہی تھی
پیٹ پوجا سے فرصت ملی تو بجھا ہوا چراغ جو کچھ دیر کو روشن ہوا تھا پھر سے بُجھنے لگا۔۔اندر ہی اندر کوئ بات مریم کو رفتہ رفتہ اداس کر رہی تھی مگر شاید وہ اس کا ذکر ابھی کسی سے کرنا مناسب نھیں سمجھتی تھی
“آج تو حسین لوگوں نے پیٹ بھر کر بریانی کے لقمے کھائے ہیں ، میرا تو گمان تھا آج نیند خوب جم کے آئے گی
مگر تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے سارے اندازے غلط ہوتے دکھائ دے رہے ہیں”
امی رات کے ایک بجے مریم کے کمرے میں داخل ہویئں تو اسے جاگتا دیکھ کر اپنی رائے دی
“امی آپ بھی نہ ، ابھی نیند راستے میں ہے آئے گی تو میں اسکے نشے میں ٹُن ہو جاؤں گی”
مریم نے مسکراہٹ کے ساتھ امی کو جواب دیا
“چلو جیسے ہی وہ تشریف لائے اسے کہنا یوں رات دیر تک اپنے آشیانے سے دور رہنا کوئ اچھی بات نہیں ہوتی ، لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں”
امی نصیحت کرتے ہوئے کمرے سے باھر آگی
انکے جانے کے بعد مریم پھر سے اوندھے منھ لیٹ گئ۔۔۔پریشانی تھی یا تنہای کا بوجھ، خدا بھتر جانے۔۔
پر ہر وقت چھکنے والے چہرے کا یوں ایک دم اتنا پھیکا پڑ جانا کوئ آم بات نہیں تھی
بابا جانی مریم چاھتی ہے کہ اسے کھیں گھمانے لے جایا جائے، دن بھر گھر میں بیٹھے بیٹھے دن بھی اب تو گزرتا ہی نہیں”
ناشتے کی میز پر بیٹھے مریم اوراسکے بابا گفتگو میں مصروف تھے
“مریم کے بابا جانی اسے گھمانے تو لے جایئں مگر دیکھو انکے بوس نے ابھی تک انھیں تنخواہ سے نہیں نوازا۔۔
اب گھومنے جایئں اور اپنی بیٹی کو اچھا سا dinner بھی نہ کرا پایئں ،یہ آپکے بابا کو گوارہ نہیں”
بابا جانی نے اپنی ننھی سی جان کو سمجھانا چاھا
“ٹھیک ہے بابا، مریم انتظار کر لے گی”
***””” *** “””””” **** “”” ********** “””””**
“مریم بیٹا ذرا بھائ کو تو ہوش میں لے آؤ ،دن چڑھے ہوئے کتنا وقت بیت گیا ہے۔
کانوں تک اسکے رسائ پہنچا دو کہ بابا کو گئے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے ہیں”
امی نے باورچی خانے سے مریم کو آواز دے کر بھائ کو جگانے کا کہا
مریم بھاگی بھاگی بھائ کے کمرے میں گئ
“بھائ اٹھو کھیں تمھارا بوس بھی تمھاری تنخواہ نہ کاٹ لے
ابو کو بھی دفتر گئے دو گھنٹے بیت چکے ہیں”
اسنے پہلے اپنی اور پھر امی کی بات دہرائ
“کیا ؟؟ مریم پہلے کیوں نھیں جگایا”
مریم کی بات سن کر بھائ یوں اچھلا جیسے اس میں سرخاب کے پر لگ گئے ہوں
“ذرا میری وہ کالی والی shirt استری کر دو تم، میں پہلے ہی لیٹ ہو گیا ھوں ”
مریم گھر کے کاموں میں ماھر بھی تھی ، پھرتیلی بھی۔ حالانکہ ابھی فقط دسویں کے امتھانات سے فراغت ملی تھی۔
لیکن گھر کی ایک ہی بیٹی ہونے کے باعث امی بابا نے اسے ایسے پالا تھا کہ گویا زندگی کے کٹھن مراہل سے گزرتے ہوئے اسے زیادہ تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے
******** “”””””” ***** “””””” ********
یوں ہاتھ جھاڑ کر کیوں بیٹھی ہو محترمہ ؟
گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر امی اسکی طرف متوجہ ہویئں
“کچھ نہیں ، بس یونہی”
مریم نے ذرا بے دلی دِکھائ تو امی نے کہا
“بابا جانی نے تمھارے لئے ایک Surprise کا سوچا ہے، مجھے لگتا ہے تمھاری بے زاری کا ہل ہو انکے پاس جیسے”
انعام، میرے لئے؟
“ھاں انعام ، اور بےشک تمھارے لئے ”
امی ایک بات پوچھوں؟
کچھ لمحوں کے توقف کے بعد مریم نے دوبارہ بات کا جیسے آغاز کیا
ھاں پوچھو۔۔۔
امی نے اجازت دی تو معصومیت بھرے لھجے میں بولی
“امی اللہ جی نے کیا سوچا ہے میرے لئے؟ مجھے اتنا تنہا کیوں رکھا ہے انھوں نے؟ اب دیکھیں نہ نا کوئ بہن ہے، نا کوئ پھوپھی یا خالہ زات, نا ماموں زات اور نا ہی تایا زات؟
سکول میں بھی کوئ دوست نہ بنا پائ،
بچپن بھی ایسے ھی گزرا، کیا یہ زیادتی نہیں میرے ساتھ؟”
مریم کی بات ختم ہوئ تو امی نے ایک بے بس سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے جواب دیا
مریم کچھ فیصلے صرف اللہ کے ہوتے ہیں ، تمھاری سب باتیں ٹھیک تھیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تم سے محبت نہیں کرتا،
یا اسنے تمہیں تنھا چھوڑا ہوا ہے۔ جانتی ہو؟
جن لوگوں کے پاس دنیاوی ھجوم کم سے کم تر ہوتا ہے اسے اللہ اپنے فرشتوں کی محفلیں بخشتا ہے”
“گِلہ مت کرو میری جان! وقت کا انتظار کرو
خدا تمھارے حصے کی محفلیں ترتیب دے رھا ہے، بس تھوڑا وقت ٹھرو اور دیکھتی جاؤ”
امی اور امی کی مثالیں ہی تھیں جو مریم کو لفظوں کا ذخیرہ جمع کرنے میں مدد دیتی تھیں
“آپ بھی نہ امی۔۔اچھا چھوڑیں ان باتوں کو آیئں میں آپکا میک اپ کرتی ہوں”
“اتنا ہی شوق ہے تو اپنا کیوں نہیں کرتی؟ میرا صاف ستھرا چہرا سرخی سے خراب کر دیتی ہو”
امی کو میک اپ کا خاصا شوق نھیں تھا بس مریم کی ضِد پر بیٹھ جاتیں
****** “”””””” ********* “””””” **
“مریم دیکھو ذرا بابا آگئے ہیں تمھارے”
دروازے پر گھنٹی بجی تو امی نے آواز لگائ اور مریم ھمیشہ کی طرح بھاگی گئ
السلام علیکم! بابا کیسے ھیں آپ؟ میرے لئے کیا Surprise ہے؟”
اسکی بے تابی کی انتہا نہ تھی کہ بابا کو اندر بھی نہ آنے دیا تھا
‘مریم انھیں اندر تو آنے دو’
امی نے شور سنا تو آکر کہنے لگیں
سب جمع ہو کر بیٹھے تو بابا جانی نے جیب سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا
“یہ کیا ھے بابا؟”
مریم نے پھر بےتابی کا مظاہرہ کیا
“یہ یو ایس بی ڈیوائس ہے۔ اسے کمپیوٹر میں لگانے سے تمھیں انٹرنیٹ کا access مل جائے گا
اور یہی تمھارا سرپرائز ھے
بھت چیزیں ملیں گی تمھیں اسکی مدد سے ، بس شرط یہ ہے اسکا استعمال دھیان سے کرنا۔”
“مجھے یقین ہے تم اسکا صحیح استعمال کرو گی۔ لو اسے رکھ لو”
مریم اتنا خوش تھی اس دن کہ انتہا نھیں تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...