گھونگٹ کے پار سے وہ سامنے دیوار پر لگے آئینے میں اپنا پور پور سجا عکس دیکھ رہی تھی ۔۔۔
مگر دل تھا کہ بھرنے میں نہیں آ رہا تھا ۔۔!
جب ہی اس نے بہت احتیاط سے گھونگٹ اٹھا لیا تھا ۔۔۔
وہ اچھی طرح خود کو نہارنا چاہتی تھی ۔۔۔
لاہور شہر کے اُس چھوٹے سے محلے سے اِس پوش علاقے تک کا سفر اسے ایک خواب سا لگ رہا تھا ۔۔۔۔
قسمت یوں بھی پلٹا کھاتی ہے ۔۔
وہ سرشار کم حیران زیادہ تھی ۔۔
غربت ۔۔ لاچارگی ۔۔ بیمار ماں اور وہ سات بہن بھائی!
ایسے ظالم حالات میں دنیا نے منہ تو موڑنا ہی تھا ۔۔۔۔
اور جب وہ قسمت سے شاکی بلکل نا امید ہو گئی تھی ۔۔ تب فرشتے کی طرح وہ اچانک اس کی زندگی میں چلا آیا تھا ۔۔۔!!
وہ کون تھا؟
اچانک کہاں سے اس کی روکھی پھیکی زندگی میں آ دھمکا تھا ۔۔۔
وہ بس سوچتی رہتی ۔۔ اور حیران ہوتی رہتی ۔۔۔!
خیر ۔۔۔ حالات خوشگوار ہوئے تو لوگ بھی اپنے ہو گئے ۔۔۔
اور وہ ان ہی نام نہاد رشتوں کی دعائوں کے زیر سایہ اس فرشتہ صفت شخص کی سنگت میں اندھیری گلیاں چھوڑ اس سنہرے محل میں چلی آئی تھی ۔۔
وہ دولت کی ہوس کا شکار نہیں تھی مگر جان گئی تھی کہ اس دنیا میں رشتوں کا ساتھ بھی تب ہی حاصل ہوتا ہے جب دولت پاس ہو ۔۔۔
سو اس وقت اس کی گردن میں سریا فٹ تھا ۔۔۔!!!
اپنے سفیدی مائل گندمی چہرے کو محبت سے چھوتی وہ دروازے پر ہونے والی آہٹ پر تیزی سے گھونگٹ گرا کر نظریں ہی نہیں سر بھی جھکا گئی تھی ۔۔۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے لرزتی پلکوں کی جھالر اٹھا کر دیکھا تھا اور اگلے ہی جھٹکے سے گھونگٹ الٹ دیا تھا ۔۔۔۔
پھٹی پھٹی نظروں سے وہ اس سیاہ مہانسوں بھرے ادھیڑ عمر شخص کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔ بلکہ گھور رہی تھی ۔۔۔
جو دانت نکوستا اس کے سامنے نشست سنبھال رہا تھا ۔۔۔!
اس نے اپنی سمٹی ہوئی ٹانگیں سکیڑ کر سینے سے لگا لی تھیں ۔۔۔
اس کا دماغ بلکل سائیں سائیں کر رہا تھا ۔۔۔ یہ کیسا مزاق تھا ۔۔۔۔
شائد وہ غلط سمجھ رہی ہے ۔۔۔
بات کچھ اور ہو ۔۔۔
ہو سکتا ہے یہ پارس کے کوئی رشتے دار ہوں ۔۔ مگر ان کا انداز !!!
“کون ہو تم ؟”
“تمہاری ضرورت !!”
“یہ کیا بکواس ہے ؟؟؟”
وہ بھڑک کر اٹھنے لگی تھی جب اس شخص نے اپنے کھردرے سیاہ آہنی ہاتھ سے اس کا بازو پکڑ کر جھٹکے سے واپس بٹھا لیا تھا ۔۔۔۔
“تمہیں دولت کی ضرورت ہے !
جو میرے پاس بہت ہے ۔۔۔
اور مجھے حسن کی چاہ ہے ۔۔۔۔
جو تمہارے پاس بیش بہا ہے ۔۔۔!
ایک تو سارے جہاں کا قدرتی حسن ان تنگ و تاریک گلیوں میں قید ہوتا ہے ۔۔۔
اور اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ وہیں پر عزت نفس ، اصول ، پابندیوں وغیرہ کا بھی ڈیرا ہوتا ہے ۔۔۔۔!”
“کیا بکواس کر رہے ہو ؟
تم ہو کون ؟
چھوڑو مجھے ۔۔ پارس کہاں ہیں ؟
پارس !! پارس !!!”
حلق کے بل چلاتی وہ مچل کر اس شخص کے بازئوں سے نکلی تھی اور زرق برق شرارا اٹھائے کمرے سے باہر بھاگتی چلی گئی تھی ۔۔۔
پیچھے ہی جناتی قہقہ لگاتا وہ شخص بھی کمرے سے نکل آیا تھا اور ریلنگ پر ہاتھ ٹکائے اس خوبصورت چڑیا کو سونے کے پنجرے میں پھڑپھڑاتے دیکھتا مزہ لینے لگا تھا ۔۔۔
دوازے کھڑکیاں پیٹ پیٹ کر اس کی سرخ کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ گئی تھیں اور کلائیوں پر سرخ دھاریاں بن گئی تھیں جن سے بے پروہ وہ صرف یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔
“یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔ دروازہ کھولو کوئی ۔۔!! پارس
پلیز کوئی دروازہ کھولو ۔۔۔
پارس ۔۔ کہاں ہیں آپ ؟
پارس ۔۔۔!!!”
زرا سی دیر میں وہ اتنا رو پڑی تھی کہ اس کا گلا بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
“بس سویٹ ہارٹ بہت کھیل لیا ۔۔۔
اب آ جائو یہاں شاباش !
سارے سوالوں کے جواب دوں گا میں ۔۔۔ ساری گرہیں سلجھا دوں گا ۔۔ ادھر آ جائو شاباش !”
اس شخص کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر اس کا دل بند ہونے لگا تھا جب یکدم ہی اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا ۔۔۔
قریب ہی رکھا بیش قیمت گملہ اٹھا کر اس نے کھڑکی پر پوری قوت سے اٹھا مارا تھا ۔۔۔۔
شیشے کی کھڑکی ٹوٹ چکی تھی مگر اتنی زیادہ نہیں کہ وہ آرام سے باہر نکل جاتی پھر بھی وہ دیوانہ وار اس ٹوٹی کھڑکی سے نکلنے کی کوشش میں اچھی خاصی زخمی ہو گئی تھی جب وہ آدمی بجلی کی تیزی سے اس کے قریب آیا تھا ۔۔۔۔
“پاگل لڑکی !
ادھر آ ۔۔۔ کیوں اپنے حسن کی دشمن ہو رہی ہے ؟
تیرا تو حسن پوجنے کے لائق ہے ۔۔۔۔
اور ابھی تجھے بہت پجاری ملیں گے ۔۔۔۔
نا نا !! خود کو نقصان نا پہنچا شہزادی !!”
اس شخص کا لہجہ ہلکا پھلکا تھا مگر گرفت اتنی سخت تھی کہ اسے اپنے بازو بے جان ہوتے محسوس ہوئے تھے ۔۔۔۔
زار و قطار روتے ہوئے اس نے مزاحمت کرنی چھوڑ دی تھی اور اس کی ہار محسوس کر کے اس شخص نے بھی کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اس کے بازئوں پر گرفت ڈھیلی کردی تھی اور اسی بات کا فائدہ اٹھا کر اس نے پوری قوت سے اس شخص ک پیچھے دھکیلا تھا ۔۔۔
اب اسے بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی مگر وہ شخص اس دھکے کے لیئے بلکل تیار نہیں تھا اور اسی ٹوٹی کھڑکی میں جا گرا ۔۔۔
اسے کہاں کہاں کانچ لگے تھے جو وہ درد سے بلبلا کر چیخا تھا ۔۔
وہ نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔ وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی ۔۔۔
وہ بس ساکت نظروں سے اس شخص کا سفید لباس سرخ ہوتا دیکھتی رہی پھر یکدم دوسرا گملہ اٹھا کر دوسری کھڑکی پر مارا ۔۔۔
ایک اور گملہ اٹھایا اور پھر سے اس ہی کھڑکی پر مارا اور جب اتنا رستہ بن گیا کہ وہ بآسانی نکل کر دوسری طرف جا سکتی تھی تب وہ دوسری طرف کود گئی ۔۔۔
“سسسس !!”
کئی کانچ پھر سے اس کی ایڑھیوں اور بازئوں میں چبھتے اسے لہو لہان کر گئے تھے مگر اسے ان پر توجہ نہیں دینی تھی ۔۔ ان چوٹوں پر رونے کا ابھی وقت نہیں تھا ۔۔۔ اس وقت سب سے ضروری اس کے لیئے اس کی عزت تھی ۔۔۔!!
پھر کھڑکی پر پڑا وہ شخص بھی ہوش ہواس میں ہی تھا ۔۔۔ اور چلا چلا کراس کا خون خشک کر رہا تھا ۔۔۔۔
جسمانی اذیت تو ایک طرف ۔۔۔
ذہنی اذیت کی انتہائوں کو چھوتی وہ بڑا سا سیاہ گیٹ کھول کر باہر بھاگ نکلی تھی ۔۔۔
سنسان روڈ پر کھڑی وہ خوفزدہ تھی کہ کہیں اس شخص کا کوئی کارندہ کہیں موجود نہ ہو ۔۔۔!!
“کیا کروں کہاں جائو ”
کی گردان کرتا دل دور سے آتی گاڑی دیکھ کر اور بھی سہم گیا تھا ۔۔۔
ذہن بلکل ہی مفلوج ہو رہا تھا ۔۔
سو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر وہ دہشت زدہ سی دل کے الہام پر سیدھے روڈ کی جگہ جنگل کی طرف بھاگی تھی ۔۔۔۔
“میں نے تمہیں فرشتہ سمجھا تھا مگر تم !!
تم شیطان سے بھی بد تر نکلے ۔۔۔ خدا تمہیں غارت کرے ۔۔ خدا تمہیں غارت کرے !!!”
چھلتے ہوئے حلق سے ایک مری مری سی زہر میں ڈوبی بد دعا نکلی تھی ۔۔۔۔۔!
*********
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ یکدم ہی کھلکھلا کر ہنس پڑا تھا ۔۔۔
“بہت پیاری لڑکی تھی یار ۔۔!!
پتا نہیں کس حال میں ہوگی ۔۔۔۔
ایک تو ربانی کی خواہش تھی ۔۔ اسے ان چھوئی کلی چاہیے ۔۔۔ ورنہ ۔۔!!!”
اپنا سرخ ہونٹ دانتوں تلے دبا کر وہ پھر کھلکھلایا تھا ۔۔
“ایک تو یہ غریب لڑکیاں ۔۔۔
دل لبھاتے لفظوں سے سجی کہانیاں پڑھ پڑھ کر دماغ خراب کر لیتی ہیں ۔۔۔۔!
آئے گا ایک کوئی شہزادہ لینڈ کروز میں اور لے جائے گا انہیں ساری دنیا سے چرا کر !
چلو کوئی نہیں ۔۔۔۔ لینڈ کروز والا تو مل گیا نہ محترمہ کو ۔۔۔ کیا ہوا اگر شہزادہ نہیں ۔۔!!”
پھر قہقہ !!
“اوہو !!! یہ مجھے وہ اتنا یاد کیوں آ رہی ہے ؟
شائد اس لیئے کہ حسین بہت تھی !
ناہ !!! حسن تو اس سے زیادہ دیکھا ہے ۔۔۔
اس کے چہرے کی معصومیت !
ہاں معصومیت ! بچوں جیسی روشن آنکھیں ۔۔۔۔
ہائے ۔۔۔۔۔!!!
حسن اور معصومیت ایک ساتھ ہوں تو تباہی مچا دیتے ہیں ۔۔
جیسے میرا دل بھی اس وقت تباہ شدہ لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔”
اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس نے آہستگی سے تھپکا تھا اور پھر سے ہنس دیا ۔۔۔۔
مگر اگلے ہی پل اس کا رنگ اڑ گیا تھا کیونکہ سامنے ہی پولیس کی بھاری نفری موجود تھی ۔۔!
جو شائد اسی کی راہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔
بری طرح ادھم مچاتے دل کے ساتھ اس نے گاڑی کی رفتار بہت آہستہ کر لی تھی ۔۔
“گاڑی آگے بڑھائوں یا راستہ بدل لوں ؟
راستہ بدل لیا تو وہ مشکوک نا ہو جائیں ۔۔۔
اوہو ! کیا کروں ؟”
شش و پنج میں گھرا وہ چنگھاڑتے فون کو فوراً اٹھا کر کان سے لگا چکا تھا ۔۔۔
گاڑی اس نے روک لی تھی اور اب وہ نم ہوتی پیشانی کے ساتھ پولیس والوں کو گنز تانے اپنی طرف بڑھتا دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
“پارس !”
“ہاں بول ؟”
“تو ایئر پورٹ مت جا ۔۔۔
گوگو پولیس کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔۔۔ سب کا پتہ بتا دیا ہے ۔۔۔۔
ایئر پورٹ نا جانا پولیس ۔۔۔۔”
منان ایک ہی سانس میں بے ربط سے انداز میں اور بھی کچھ کہ رہا تھا مگر پارس تیزی سے کال کاٹ کر گاڑی اسٹارٹ کر کے گھما چکا تھا ۔۔۔
اسے موت تو قبول تھی مگر پولیس کے ہاتھ لگنا نہیں ۔۔۔۔!
کئی گولیاں فائر کی گئی تھیں ۔۔
اس کی گاڑی چکرا کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔
مگر وہ اپنے حواس قابو میں رکھے ہوئے تھا جو گاڑی اب بھی پوری رفتار سے چل رہی تھی ۔۔۔
“لگتا ہے کسی کی بد دعا لگ گئی ہے ۔۔۔۔”
گولیوں کی بوچھاڑ میں گاڑی چلاتے ہوئے وہ اونچی آواز میں بڑبڑایا تھا ۔۔۔۔۔!
****************
آنکھوں کے اوپر ہاتھ کا چھجا بنائے وہ سست روی سے اپنے گھر کی راہ پر گامزن تھی ۔۔۔
آج اس کی تنخواہ ملی تھی مگر اس کے چہرے پر کوئی رونق نہیں تھی ۔۔۔
ایک تو گھر بھی کرائے کا ۔۔
مہنگائی کا طوفان ۔۔
سات کھانے والے ۔۔
“نہیں ۔۔ نو !”
اس نے تصیح کی ۔۔۔
وہ کیسے بھول گئی تھی کہ ماتھے پر طلاق کا داغ لیئے اس کی بڑی بہن اپنی ننھی سی بیٹی سمیت چلی آئی تھی ۔۔۔
دستور دنیا بھی عجیب ہے ۔۔
وہی ساشہ جب سسکتی ہوئی ہر دوسرے دن مار پیٹ کے داغ لیئے آتی تھی تو وہ سب کو قبول تھا ۔۔۔
مگر طلاق کا داغ نا قابل قبول تھا ۔۔۔۔
سارے جاننے والوں کا متفقہ فیصلہ تھا
“قصور ساشہ کا ہی ہوگا ۔۔۔
وہ آگے سے جواب کیوں دیتی تھی شوہر کو !”
اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی اپنی بہن کو دیکھتی علیشہ سوچ کر رہ جاتی کیا واقعی ؟
“وہ لڑکی جو بولنا بھول چکی تھی ۔۔۔۔
جس کا جب منہ کھلتا تھا سوائے سسکی کے اور کچھ نا نکلتا تھا وہ زبان چلاتی ہوگی ؟”
“ردا کے اسکول کے خرچہ ۔۔۔۔
ساشہ کو نیا سوٹ دلوانا ہے ۔۔
اس کا دل کچھ ہلکا پھلکا ہو ۔۔۔!”
ایک اچٹتی سی نظر اس نے اپنے ٹوٹے ہوئے سینڈل پر ڈالی تھی ۔۔۔
“جہاں اتنا عرصہ برداشت کیا وہاں تھوڑا اور سہی ۔۔۔”
پیر گھسیٹ کر چلتے ہوئے اس نے خود کو دل میں حوصلہ دیا تھا ۔۔۔
اس کی گلی شروع ہوگئی تھی ۔۔۔
بچے ہر فکر سے آزاد ۔۔۔ مائوں کی ڈانٹ پھٹکار ان سنی کیئے اپنے اسکول کی یونیفارم پہنے پہنے ہی اسٹاپو رسی ٹپہ اور کرکٹ کھیلنے میں مگن تھے ۔۔۔۔
ہر اتوار سے پہلے کا دن اس گلی میں ایسا ہی ہوتا تھا ۔۔۔۔ پورا محلہ اسکول کے پلے گرائونڈ کا منظر پیش کرتا تھا ۔۔
“ارے ہاں ۔۔۔ کل اتوار ہے ۔۔۔!!”
اسے اپنی تھکاوٹ کچھ کم ہوتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
ہلکی سی لپسٹک لگے خشک ہونٹوں پر پل بھر کو مسکراہٹ بکھری تھی مگر اپنے گھر سے نکلتے عباد بھائی کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی تھی ۔۔۔۔
کالر جھٹک کر اس کے پاس سے گزرتے ہوئے انہوں نے ایک زبردست گھوری اس پر بلا وجہ ڈالی تھی ۔۔۔۔
الجھتی ہوئی وہ جب گھر کے اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی سر ہاتھوں میں گرائے ساشہ نظر آئی تھی امی نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا رکھا تھا ۔۔۔
تینوں چھوٹے بھائی بلا پکڑے شائد گلی میں کھیلنے جابے کو تیار تھے مگر اس وقت دیوار کے ساتھ جڑے کھڑے تھے ۔۔۔
چہروں پر ڈر کی پرچھائیاں تھیں ۔۔
“کیا ہوا امی ؟”
پریشان سی وہ ساشہ کے دوسری طرف بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
“آیا تھا وہ منحوس ۔۔۔۔
طلاق سے انکاری ہو رہا تھا ۔۔۔
زبردستی لے جا رہا تھا اسے ۔۔
میں نے شور مچانے کی دھمکی دی تو دھمکیاں دیتا چلا گیا ۔۔۔”
“کیا مطلب ہے طلاق سے انکاری ہو رہے تھے ۔۔۔
اتنے گھٹیا پن پر کیسے اتر سکتے ہیں وہ !!”
میشا کو سوچ کر ہی گھن آنے لگی تھی ۔۔۔
“مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔ وہ سچ مچ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ۔۔۔
میری وجہ سے میرے بہن بھائیوں کا بال بھی بیکا ہوا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔۔”
“تم ڈرو مت ۔۔۔ جتنا ڈرو گی وہ اتنا ڈرائے گا ۔۔۔۔۔ تم نے ڈر ڈر کر اسے شیر کر دیا ہے ۔۔
مگر یہ اس کی غلطی ہے کہ اس نے ہم سب کو بھی تمہاری طرح ڈر پوک سمجھ لیا ہے ۔۔۔
چھو کر دکھائے وہ کسی کو ۔۔
اور کہیں کا لینڈ لارڈ نہیں ہے وہ ۔۔ جو چاہے کر لے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔۔۔۔
اب دوبارہ ایسی کوئی حرکت کی تو سیدھا پولیس اسٹیشن جائیں گے ہم ۔۔۔!”
امی نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔ کچھ کہنا چاہا تھا مگر پھر چپ ہو گئیں ۔۔
اس وقت سب سے ضروری ساشہ کے دل سے خوف نکالنا تھا ۔۔۔
اس کی ہمت بندھانا تھا ۔۔۔
اور یہ کام میشا سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا تھا ۔۔!
**********************
اپنے پیروں کے انگوٹھوں کے لمبے لمبے ناخن دیکھتی وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی تھی جو چائے کے کپ درمیان میں رکھتی اس کے پہلو میں بیٹھ گئی تھی ۔۔
“میری وجہ سے تمہاری پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے نہ ؟”
“پریشانیوں میں نہیں ذمہ داریوں میں ۔۔۔ اور ذمہ داریاں اللہ اپنے اسی بندے کو سونپتا ہے جس میں ذمہ داریاں نبھانے کی صلاحیت دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔!
میں خوش ہوں کہ میرے اللہ نے مجھے ذمہ داری نبھانے کے قابل بنایا ۔۔۔۔!”
ساشہ اس کے اطمینان پر کچھ دیر تک رشک سے اسے دیکھتی رہ گئی تھی ۔۔
“مگر کبھی کبھی تم بہت چڑچڑی ہو جاتی ہو ۔۔!”
انداز چھیڑنے والا تھا ۔۔
“ہاں تو انسان ہی ہوں ۔۔۔
چڑچڑاہٹ جھنجلاہٹ غصہ ۔۔ یہ بھی انسانی فطرت کا حصہ ہیں ۔۔۔!”
“میں ہوتی نا تمہاری جگہ مشی !
تو قسم سے اب تک خودکشی کر چکی ہوتی ۔۔۔!”
ساشہ کے انداز میں عقیدت تھی ۔۔۔
“اسی لیئے تو تم میری جگہ نہیں ہو ۔۔۔
اللہ بہتر جانتا ہے اس کونسا بندہ کتنی آزمائش سہنے کی ہمت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔
وہ برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا ۔۔۔!”
اس نے ٹھنڈی ہوتی چائے ایک بڑے سے گھونٹ میں ختم کر لی تھی ۔۔
سر ہلاتی ساشہ بھی چائے کی طرف متوجہ ہو گئی تھی ۔۔۔۔
کچھ لمحے خاموشی کی نظر ہوئے تھے ۔۔۔
“علیشہ !”
“ہمم ؟”
“امی کی سلائی مشین کہاں ہے ؟”
“عباد بھائی نے امی سے کچھ پیسے مانگے تھے چار مہینے پہلے ۔۔
ظاہر ہے ہمارے پاس خزانہ نہیں رکھا ۔۔۔۔۔
سو سلائی مشین بیچ دی ۔۔!!”
گم صم سی ساشہ کتنی ہی دیر تک کچھ کہ نہیں پائی تھی ۔۔
“ت۔۔۔ تم ۔۔ تم ۔۔ مطلب ۔۔۔ مجھے تو بتا دیتے آپ لوگ ۔۔۔!”
“کیوں بتا دیتے ؟
تاکہ رونے کے لیئے تمہیں ایک اور بہانہ مل جاتا ۔۔۔”
چائے کے دونوں کپ ایک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے دوسرے ہاتھ سے ساشہ کے سر پر چپت رسید کی تھی ۔۔
وہ جھینپ کر رہ گئی ۔۔۔
“پھر بھی میشا !
مجھے کہیں کام وام دلوا دو ۔۔۔
علیشہ بھی تو ٹیوشن لیتی ہے ۔۔
مجھے بھی کچھ کرنا ہے ۔۔۔
کچھ کروں گی تو ذہن بھی بٹے گا اور تم پر ذمہ داریوں کا بوجھ بھی کم ہوگا ۔۔۔۔”
ساشہ کی بات پر وہ جاتے جاتے رک کر مڑی تھی ۔۔
کچھ دیر تک کسی سوچ میں گم رہی پھر یکدم چونکی ۔۔۔
“ارے ہاں ۔۔۔۔ چھوٹی کلاسز کے لیئے ہمارے اسکول کو ٹیچرز درکار ہیں ۔۔
تم اپنا کوئی اچھا سا سوٹ نکالو اور صبح کی تیاری کرو ۔۔۔۔
انشااللہ بات بن جائے گی ۔۔۔!”
میشا کے پر یقین انداز پر ساشہ کی بھی کچھ ہمت بندھ گئی تھی اور اس کا ہیجان کا شکار ہوتا ذہن قدرے پر سکون ہو گیا تھا !
**************
“دیکھا !! سب کتنا آسان تھا ۔۔۔
تم ایویں ای کانپ رہی تھیں ۔۔!”
ساشہ کو گھرکتے ہوئے اس نے کسی احساس سے چونک کر اپنے آس پاس نظریں دوڑائی تھیں ۔۔۔ مگر کچھ قابل توجہ نظر نہیں آیا ۔۔۔۔!
“ہاں ۔۔۔ اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہو گیا ۔۔۔
اور ہیڈ مسٹریس تو مجھ سے یوں بات کر رہی تھیں جیسے میں کوئی ننھی سی بچی ہوں !”
ساشہ کے ہنس کر کہنے پر اس نے ایک خوشگوار نظر اس کے مطمئین چہرے پر ڈالی تھی ۔۔۔۔ پھر ہلکے پھلے انداز میں گویا ہوئی ۔۔
“میں نے انہیں کہا تھا نہ ۔۔۔
کہ میری بڑی بہن بہت روندو ہے۔ ۔۔
آپ اس سے اپنے ازلی خرانٹ انداز میں بات کریں گی تو عین ممکن ہے وہ بھیں بھیں کر کے رونا شروع کر دے ۔۔۔”
“تم نے سچ مچ ان سے ایسا کہا تھا ؟”
اس کا مزاق سمجھے بغیر ساشہ سچ مچ گھبرا گئی تھی ۔۔
نتیجتاً میشا نے اسے زبردست گھوری سے نوازا تھا ۔۔۔!
ساشہ کچھ اور بھی کہنے لگی تھی جب ایگ گاڑی ان کے نزدیک اچانک ہی آ رکی تھی جس میں بیٹھا عباد ریوالر ان کی طرف تان کر ساشہ کو گاڑی میں بیٹھنے کو کہ رہا تھا ۔۔۔
ساشہ کا تو رنگ اڑ چکا تھا ۔۔ وہ زرا بھی جنبش کرنے کے قابل نہیں رہی تھی ۔۔۔ جبکہ میشا غصے اور نفرت کے ملے جلے تاثرات لیئے ساشہ کی ڈھال بن گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
“چلائیں گولی !!!
میں کہتی ہوں چلائیں گولی ۔۔۔۔۔
انسانیت کے معیار سے بلکل ہی گر گئے ہیں آپ ۔۔۔!
کوئی خوف خدا ہے یا نہیں ۔۔۔۔؟؟
رکھنا تھا تو طلاق کیوں دی تھی ؟
بے زبان جانور کی طرح تو ساتھ رہ رہی تھی ۔۔۔۔۔!
کیا بگاڑ رہی تھی اس وقت ؟؟؟
پہلے تو رشتے کا خیال تھا جو سب برداشت کر رہے تھے ۔۔
اب کوئی رشتہ نہیں تو کوئی برداشت نہیں ۔۔!!!!”
لوگ میشا کے چیخنے پر آس پاس جمح ہو گئے تھے ۔۔ اور عباد کو گالیاں دے رہے تھے ۔۔۔ یہ سب دیکھ کر سوکھے سے عباد کی جان نکلنے لگی ۔۔۔۔!!
وہ تو پستول کے ساتھ ٹارزن بن رہا تھا اور سمجھ رہا تھا وہ دونوں بہنیں ڈر جائیں گی مگر !!!
گھبراہٹ میں وہ پستول ڈیش بورڈ پر پھینک کر گاڑی بھگا لے گیا تھا ۔۔ اور میشا کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔۔۔
جتاتی نظروں سے اس نے گم صم سی ساشہ کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔
“اب آئو چلو !”
کسی کا شکریہ ادا کیئے بغیر ۔۔۔ کسی کی طرف دیکھے بغیر وہ ساشہ کو بازئوں کے حلقے میں لیئے آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔
پیچھے لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں ۔۔۔ کن نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔۔ اسے کسی بات میں دلچسپی نہیں تھی ۔۔۔!!!
اور اس کی یہ جرات و بے نیازی دو نظروں میں سما گئی تھی ۔۔۔
**********
“ائے میں پوچھتی ہوں کیا ضرورت تھی پہلوان بننے کی ؟
کوئی نقصان پہنچا دیتا وہ تو ؟”
“کیا نقصان پہنچا دیتا ؟
گولی چلا دیتا نہ زیادہ سے زیادہ ؟؟
تو چلا دیتا ۔۔۔۔ جان عزت سے بڑھ کر تو نہیں ہے !!
اس کی ڈیمانڈ بھی تو سنیں ۔۔۔ ایسے گئے گزرے ہیں ہم ۔۔ جو طلاق کے باوجود صرف ڈر کی وجہ سے ساشہ کو اس کے حوالے کر دیں ۔۔۔؟
میں اس شخص کو اچھی طرح سمجھتی ہوں ۔۔۔ وہ صرف انہیں ڈرا سکتا ہے جو اس سے ڈرتے ہیں ۔۔۔۔
زرا سی ہمت ان جیسے مردوں کی ساری مردانگی باہر نکال دیتی ہے ۔۔۔ یہ ساشہ پہلے ہمت کر لیتی تو نہ طلاق ہوتی۔ ۔۔ اور شوہر بھی قابو میں ہوتا ۔۔۔۔ مگر نہیں ۔۔ انہیں چاہیے تھا بیسٹ مظلوم کا ایوارڈ !!”
جب سے آئی تھی وہ مسلسل بول رہی تھی ۔۔۔ اور اماں کی اس بات پر تو اس کے پتنگے ہی لگ گئے تھے ۔۔۔۔!!!
“مجھے یقین ہے اب وہ پھٹیچر شخص کبھی کوئی اوچھی حرکت نہیں کرے گا ۔۔۔
میری بہن! تمہیں آزادی مبارک !”
سوں سوں کرتی ساشہ کے گال کھینچ کر وہ داخلی دروازے پر ہونے والی دستک پر دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
دروازہ زرا سا کھول کر اس نے سوالیا نظریں اٹھائی تھیں !
جن کی گہرائی میں ڈوب کر ابھرتا وہ بھرپور انداز میں مسکرایا تھا ۔۔۔۔
“اسلام علیکم !
مجھے پارس ہمدانی کہتے ہیں ۔۔۔”
**********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...