میرج ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا لڑکیاں فل تیار ہوئی تھی اور آسمان سے اتری ہوئی پریاں لگ رہی تھی۔
لڑکے بھی ہیں کچھ کم نہیں لگ رہے تھے۔
“ریحہ ابھی تک کیوں نہیں پہنچی اسے تو پہنچ جانا چاہیے “بشیر صاحب نے فہمیدہ بیگم سے کہا وہ سب حال پہنچ چکے تھے لیکن ریحا کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں تھا۔
“آتی ہی ہوگی پالر میں تیار ہونے میں ٹائم تو لگتا ہے نا اس کی دو ست حمیرا اور فیملی کی باقی لڑکیاں بھی اس کے ساتھ ہے وہ بھی پارلر سے تیار ہو رہی ہیں میں فون کرتی ہوں پوچھتی ہوں ابھی تک کیوں نہیں پہنچیں وہ لوگ “فہمیدہ بیگم نے اپنا موبائل میں حمیرا کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
“ان کو جلدی پہنچنے بولو براتی والے بھی پہنچنے والے ہوں گے “بشیر صاحب نے پریشانی سے کہا۔
“ہاں ہیلو حمیرا تم لوگ ابھی تک کیوں ہال نہیں پہنچے اتنا ٹائم لگا رہے ہو جلدی پہنچو براتی بھی آنے والے ہونگے “فہمیدہ بیگم نے کال پیک اپ ہوتے ہی جلدی سے کہا۔
“انٹی ہم پہنچ رہے ہیں بس صرف فریحا کا دوپٹہ سیٹ کر رہے ہیں ہم سب بھی تیار ہے ہم ابھی آ جائیں گے١٠، ٢٠ منٹ لگیں گے پہنچنے میں “حمیرا نے کال اٹھاکرکہا۔
وہ بالکل ریڈی تھی۔
“ٹھیک ہے ٹھیک ہے جلدی پہنچو دیر نہیں کرنا “فہمیدہ بیگم نے کہتے ہوئے کال کٹ کی۔
“کیا کہہ رہی ہیں وہ کب تک پہنچیں گے “بشیر صاحب نے فہمیدہ بیگم سے پوچھا۔
“کہہ رہی ہیں دس بیس منٹ لگیں گے”فہمیدہ بیگم نے ان سے کہا۔
“چلو ٹھیک ہے میں ذرا دوستوں کو دیکھ لوں”بشیر صاحب کہتے ہوئے اپنے دوستوں کی طرف چلے گئے۔
“آپا ریحا لوگ ابھی تک کیوں نہیں پہنچے اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے انھیں “فریدہ بیگم نے بھی پریشانی سے پوچھا۔
“ابھی میری ان سے بات ہوئی ہے دس بیس منٹ میں پہنچنے والی ہیں سب “فہمیدہ بیگم نے آہستہ سے کہا۔
“فہمیدہ میں نے سنا ہے تمہاری بیٹی کی شادی شہزاد صاحب کے بیٹے سے ہو رہی ہے بھئی لمبا ہاتھ مارا ہے تم نے تو کافی امیر فیملی میں بیٹی دےرہی ہو “انیلہ میر نے طنزیہ انداز میں فہمیدہ بیگم سے کہا۔
وہ ان کے دور کے رشتہ دار تھیں اور ان کی رکھ رکھاؤ سے جلتی تھیں۔
” سب اللہ کی مرضی ہے نصیبوں کی بات ہے نا میری بیٹی نصیبوں والی تھی اس لیے اس کو اتنا اچھا رشتہ مل گیا “فہمیدہ بیگم نے ہلکے سے مسکراکر کہا۔
“شاید آپ کی بیٹی کی پسند سے ہو رہی ہے اس لیے اتنی جلدی اچانک ؟”انیلا بیگم نے تمخسر سے کہا۔
“جب آپ کو کسی چیز کی جانکاری نہیں ہے تو آپ کیسے کسی کو کے ایسے کہہ سکتی ہیں آپ ہماری مہمان ہیں اور ہم اپنے مہمانوں کی عزت کرتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ انہیں بے عزت کرکے ہال سے نکالا جاۓ “فریدہ بیگم نے گھورتے ہوے مسکرا کر کہا۔
ان کی بات پر انیلا بیگم چپ ہو گئیں وہاں خاندان کی اور بھی خواتین تھیں جن کے سامنے انیلا بیگم یہ سب کہہ رہی تھیں۔
“پاگل ہونیلا ایسے فالتو باتیں سنا رہی ہو اپنی جلن اپنے حد تک رکھو لوگوں کو کیوں دکھا رہی ہو”فرخندہ میر نے دبی دبی آواز میں اپنی بہن کو ڈانٹا۔
“وہ آپا میں تو بس ویسے ہی کہہ رہی تھی “انیلا بیگم جزبز ہو کر بولیں۔
“اب چپ رہو زیادہ نہیں بولو “فرخندہ بیگم نے ڈپٹ کر کہا۔
اور سامنے دیکھا جہاں فہمیدہ بیگم اور فریدا بیگم اپنے مہمانوں کی آؤ بهگت کررہی تھیں۔
***
ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا باراتی بھی آ چکے تھے اور باقی مہمان بھی۔
اتنے میں ریحہ اور آذر کی انٹری ہوئی آضر نے آہستہ سے ریحہ کا ہاتھ پکڑا تھا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا کیمرہ مین بھی مووی بنا رہا تھا رومانٹک سونگ پلے کیا گیا تھا سب ان دونوں کی جوڑی کو دیکھ رہے تھے جو بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
آضر فریحہ کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسٹیج تک پہنچا اور اسے صوفے پر بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گیا۔
“ماشاءاللہ کتنی پیاری جوڑی ہے اللہ نظر بد سے بچائے “فہمیدہ بیگم نے دونوں کی بھلائی لی۔
“چلیں نکاح شروع کرواتے ہیں سب تیار ہے نا نکاح کے لیے “شہزاد صاحب نے سب سے پوچھا۔
“جی جی سب تیار ہیں آپ نے شروع کروائے “بشیر صاحب نے مسکرا کر کہا وہ آج کافی خوش تھے۔
“چلیں مولوی صاحب نکاح شروع کریں “شہزاد صاحب نے مولوی صاحب سے کہا۔
“فریحا بنت محمد بشیر آپ کا نکاح شہزاد شاہ کے فرزند آزر شاہ کے ساتھ دو لاکھ حق مہر مقرر پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے”مولوی صاحب نے نکاح پڑھاتے ہوئے اس سے پوچھا آذر نے چونک کر فریحا کی طرف دیکھا۔
” جی قبول ہے “ریحا نے آہستہ سے جواب دیا۔
تھوڑی دیر میں نکاح مبارک کا شور اٹھا نکاح ہو چکا تھا۔
سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے پھر چھوارے بانٹے گئے۔
“سارہ سنو بیٹا ذرا یہ ریحہ کو دے کر آؤ”فہمیدہ بیگم نے سارا کو آواز دیتے ہوئے اپنے پاس بلایا اور جوس پکڑایا۔
“جی انٹی ابھی دیتی ہوں بیچاری تھک گئی ہوگی بیٹھے بیٹھے “سارا نے کہتے ہوئے جوس لیا اور اسٹیج کی طرف چلی گئی۔
“آپ آج بہت خوبصورت لگ رہی ہو جیسے آسمان سے اتری ہوئی پری “آزر نے اس کے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی اور اس کا ہاتھ تھاما۔
“کیا کر رہے ہیں۔۔۔ آ۔۔۔آپ ہاتھ چھوڑے سب دیکھ رہے ہیں”ریحہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔
“دیکھنے دو ابھی تو آپ میرے نکاح میں آئیں ہیں اس لیے کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے “آزر نے شرارت سے مسکرا کر اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
“ریحا یہ جوس پی لو تھکی تھکی سی لگ رہی ہو طبیعت سیٹ ہو جائے گی “سارا نے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
“شکریہ مجھے اس کی ضرورت تھی “ریحہ نے آزر کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتے ہوئے جوس کی طرف بڑھایا۔
“جوس کی تو ہمیں بھی ضرورت ہے سالی صاحبہ”آزر نے شرارت سے کہا۔
“آپکو جوس نہیں دودھ پلائیگے وہ بھی پچاس ہزار کا”سارہ نے بھی شرارت سے کہا۔
“یہ تو ظلم ہے میرے ساتھ “آزر نے معصومیت سے کہا۔
“ظلم نہیں رسم ہے یہ”سارہ نے ہنستے ہوے کہا۔
“بالکل چلو ندا دودھ لے کر آؤ جو ہم نے الگ سے جیجو کے لیے رکھا تھا “نیہا نے ندا سے کہا۔
دودھ پلائی کی رسم کے لئے خاندان کی ساری لڑکیاں ان کے گرد جمع ہو چکے تھے۔
“یہ لے نیہا آپی “ندا نے دودھ لاکر نیہا کو پکڑایا۔
“یہ دودھ پی لیں “نیہا نے دودھ آزر کی طرف بڑھایا۔
“اس دودھ کے آپ پچاس ہزار لیں گی “آزر نے دودھ پیتے ہوئے حیرانی سے کہا۔
“جی بالکل نکالے 50000 “سارہ حمیرا اور دیگر لڑکیوں نے آزر سے پیسے مانگنا شروع کر دیے تھے بحث چلنے لگی تھی۔
ہر طرف خوشیاں اور شور شرابہ تھا۔
بوڑھے خاموشی سے مسکراتے ہوئے ان کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔
آزر نے جیسے تیسے کرکے تیس ہزار ان کو دیے اور مل بانٹ کر لینے کو کہا۔
“جیجو آپ کا ایک جوتا کہاں پر ہے “سارہ نے معصومیت سے آذر سے پوچھا۔
اس کے پوچھنے پر آزر نے اپنے پیروں میں دیکھا جہاں صرف ایک ہی جوتا تھا۔
“ارے میرا جوتا کہاں گیا “آزر نے پریشانی سے پوچھا۔
“ہمارے پاس “سب لڑکیوں نے ایک آواز میں زور سے کہا۔
“ہاہاہا لوگوں نے آپ کے پیروں سے جوتا کب نکالا “نشاء نے زور سے ہنستے ہوے پوچھا۔
“تم میری بہن ہو کر ہنس رہی ہو تمہارے بھائی کو لوٹا جا رہا ہے “آزر نے نیشا کو گھورتے ہوئے کہا۔
“بھائی یہ تو ایک رسم ہے میں نے مہرین آپی کی شادی میں فراز جیجو کو کیسے لوٹا تھا اب آپ کسی کے جیجو بن گۓ ہیں تو آپکی باری ہے” نشاء نے مسکرا کر کہا۔
“آپ کو یہ جوتا تب ہی ملے گا جب آپ ہمیں مزید بیس ہزار دیں گے اس بار ہم بالکل بھی کم نہیں کریں گے”سارا نے شرارت کرتے ہوئے کہا وہ کافی چلاک ثابت ہوئی تھی آزر کو سمجھ آرہا تھا۔
“نہیں مجھے اس جوتے کی ضرورت نہیں ہے یہ جوتا بھی آپ لوگ رکھ لو”آزر نے کہتے ہوئے اپنا جوتا اتارا اور ان کی طرف بڑھایا۔
سب حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
“فہد ذرا میرا اسپیشل نیا جوتا نکالنا “آزر نے اپنے دوست فہد کو کہا۔
“یہ لے بھائی پہن مبارک ہو تیرے بیس ہزار بچ گۓ “فہد نے ہنستے ہوئے نیا جوتا آزر کی طرف بڑھایا۔
“خیر مبارک “آزر نے اس سے جوتا لے کر پہنتے ہوئے کہا۔
لڑکیاں اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئیں اور خفگی بھرے انداز سے دونوں چلاک دوستوں کو دیکھنے لگیں۔
“دیکھو ریحا جیجو کتنے کنجوس اور چالاک ہیں نئے جوتے پہن لیے ہیں انہوں نے!
تو کہہ نا ان سے ہمیں 20 ہزار دے دیں”حمیرا نے فریحہ کو شکایت کرتے ہوئے کہا۔
“میں کیسے ؟؟”فریحہ نے دبی دبی آواز میں گھبرا کر کہا۔
“بولنا گونگی ہے کیا ہمیں 20 ہزار دینے کو کہو جیجو کو “حمیرا نے گھورتے ہوئے کہا۔
“سنیے آپ ان کو 20 ہذاردے دیں “فریحہ نے آہستہ سے آزر سے کہا۔
“اووو۔۔۔ہوووو۔۔۔۔”فریحہ کے ایسے کہنے پر سب نے شور کیا اور سیٹی بجانے لگے تھے۔
“بھئی میری بیگم کے کہنے پہ دے رہا ہوں ورنہ میں دیتا ہی نہیں”آزر نے 20ہزار لڑکیوں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
“یاہو۔۔۔”سب لڑکیوں نے ایک آواز میں زور سے کہا اور آپس میں پیسے بانٹنے لگ گئیں۔
ایسے ہی خوشیوں میں وقت آہستہ آہستہ بیتنے لگااور رخصتی کا وقت آگیا۔
***
وہ اس وقت حجلہ عروسی میں بیٹھی ہوئی تھی۔
باہر سے نشا اور مہرین کی آوازیں آ رہی تھیں جو شائد آزر کو روم میں جانے نہیں دے رہی تھیں۔
“بھائی پہلے میرا نیگ دو پھر اندر جانے دونگی”نیشا نے اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوے کہا۔
“پہلے میری سالیوں نے مجھے لوٹا اب میری بہنیں مجھے لوٹ رہی ہیں کیسے دن آگئے ہیں مجھے کیا کیا دیکھنا پڑرہاہے “آزر نے بے چارگی سے کہا۔
” اپنی سالیوں پر 50000 لٹا دی ہم دونوں بہنوں کو دس ہزار تک نہیں دے سکتے “مہرین نے افسوس سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
“آپی آپ بھی ؟؟”آضر نے معصوم سے صورت بناتے ہوئے مہرین کی طرف دیکھا۔
“بھائی جب تک کیسے نہیں نکالو گے ہم آپکو روم میں جانے نہیں دیں گے “نشا نے ہنستے ہوئے کہا۔
“یہ لو “ناچار آذر کو دینا پڑا شیلا بیگم مسکراتے ہوئے تینوں بھائی بہنوں کا تماشا دیکھنے لگی تھیں۔
“اب آپ جاسکتے ہو “نشانے خوشی سے پیسے لیتے ہوئے کہا۔ آزر انکو گھورتے ہوئے روم میں چلا گیا۔
” بچو اب چلو یہاں سے “شیلا بیگم نے مسکراتے ہوئے دونوں سے کہا تینوں وہاں سے چلی گئیں۔
“اسّلام علیکم “آزر نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے فریحہ کو سلام کیا۔
“وعلیکم السلام “اس نے ہلکے سے آواز میں سلام کا جواب دیا۔
“وہ دراصل میری بہنیں اندر آنے نہیں دے رہی تھی اس لیے تھوڑا لیٹ ہو گیا اب پیسے دئے ان کو تو انہوں نے مجھے جانے کی اجازت دی”اظہر نے کسیاتے ہوے کہا۔
“کوئی بات نہیں”فریحہ نے ہلکی آواز میں کہا وہ گھبرا رہی تھی اور گھبراتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ مسل رہی تھی۔
“آپ آج بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ کی تعریف میں الفاظ نہیں مل رہے “آزر نے اس کا گھونگٹ پلٹتے ہوے مسکراکر کہا۔
اس کی بات پر فریحہ پھیکی سی ہنستی ہنس دی۔
“یہ آپ کا منہ دکھائی کا تحفہ “آزر میں مسکراتے ہوئے ایک ڈبیہ اسکے سامنے کی۔
اور اسے کھولا جہاں گولڈ کا لاکٹ چین تھا جسکا لاکٹ ہارٹ شیپ میں تھا اندر A لکھا تھا۔
آزر نے وہ لاکٹ چین آہستہ سے اس کے گلے میں پہنایا وہ کسمساکر رہ گئی۔
آزر نے لاکٹ پہنانے کے بعد آہستہ اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی طرف دیکھا۔
“اجازت ہے ؟”آزر نے آہستہ سے فریحہ سے پوچھا۔
فریحہ نے گھبراتے ہوئے نا میں جواب دیا حاضر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
“کیوں کوئی وجہ ہے ؟”اس نے حیران ہو کر پوچھا۔
“دراصل میں ابھی سب کے لیے تیار نہیں ہوں “فریحہ نے گھبراتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
“تو آپنے شادی کیوں کی “آزر نے سیریس ہوکر پوچھا۔
“میں شادی کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی مجھے آگے پڑھنا تھا لیکن بابا ماما کی خوشیوں کے لیے مجھے ماننا پڑا میں ان سب کے لیے ابھی بالکل بھی ریڈی نہیں ہوں “اس نے جلدی سے ایک ہی سانس میں گھبراتے ہوئے کہا۔
“چلیں جیسے آپ کی مرضی جب تک آپ نہیں چاہیں گی میں آپ کے قریب نہیں آؤں گا زبردستی سے کچھ نہیں ہوتا “آزر نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
اس کے بعد پھر فریحہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اس کی مسکراہٹ دیکھ کر وہ بھی ہلکا سا مسکرادی۔
“شکریہ “فریحہ نے تشکر سے مسکرا کر کہا۔
“چلیں آپ فریش ہو جائے وہاں ڈریسنگ روم ہے آپ کپڑے چینج کرلیں”آزر نےمسکرا کر اسے راستہ دکھایا۔
“جی ٹھیک ہے “وہ کہتے ہوئے اٹھی اور ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔
آذر بھی فرش ہونے واشروم چلا گیا۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...