(Last Updated On: )
وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے مقالہ’’ فرحت نواز کی ادبی خدمات‘‘کا پہلا باب
٭ پیدائش اورمختصر خاندانی پس منظر :
فرحت نواز ۱۲ اگست ۱۹۵۷ ء میںڈیرہ نواب صاحب ضلع بہاو ل پور میں پیدا ہوئیں ۔اُن کے والدمحمد نواز پیشے کے اعتبار سے وٹرنری ڈاکٹر تھے۔ والدہ رشیدہ بیگم ایک گھریلو خاتون تھیں۔ نانا ڈاکٹر مہر علی بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں انچارج میڈیکل آفیسر تھے اس وقت ریاست بہاولپور پرنواب صادق محمد خان عباسی پنجم کی حکومت تھی۔فرحت نواز کے والد کو بچپن ہی میں داغ یتیمی کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا لیکن انہیں فرحت نواز کے نانا نے اپنے سایۂ عاطفت میںلیا تو انہوں نے ان کی پرورش کی، انہیں پڑھایا اور ان کی بالغ عمری پر ان کو اپنی فرزندی میں بھی لے لیا۔ فرحت نواز کل چار بہنیں اور تین بھائی ہیں جن میں سے فرحت نواز کا دوسرا نمبر ہے ۔ فرحت نواز کے آبائو اجداد ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کے ایک گائوں سے تعلق رکھتے تھے۔
٭ تعلیمی سلسلہ
فرحت نواز نے پرائمری تک تعلیم صادق آباد ضلع رحیم یار خان سے حاصل کی۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول تحصیل خان پور کٹورہ سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔مزید تعلیمی سلسلے کی تفصیل کچھ یوں ہے:
’’ اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے فرحت نواز نے ۷۳۔۱۹۷۲ ء میں سائنس مضامین میں میٹرک کا امتحان ملتان بورڈ سے پاس کیا۔ ۷۷۔۱۹۷۶ء میں پری میڈیکل گروپ میں ملتان بورڈ سے ایف۔ ایس۔ سی کا امتحان پاس کیا۔ سن ۸۰۔۱۹۷۹ میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ملحقہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔اگست ۱۹۸۳ء اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم۔اے انگریزی کا امتحان جب کہ جولائی۱۹۸۴ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ہی ایم ۔اے معاشیات کا امتحان پاس کیا۔‘‘ ۱؎
٭ فرحت نواز کی کتب کا تعارف:
فرحت نواز نے اپنی تخلیقی سرگرمیوں کا آغاز اکتوبر ۱۹۷۸ ء سے کیا۔ وہ ’’ جدید ادب‘‘ خانپور کے پہلے شمارے سے لے کر ۱۹۸۶ء میں آنے والے آخری شمارے تک بطور معاون مدیر اپنی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔تاہم بہت سے ادبی رسائل میں بھی ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ بعد میں ان کی کچھ کتب منظر عام پرآئیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
’’ ستمبر ۱۹۸۰ء میں فرحت نواز کی پہلی مرتب کردہ کتاب ’’ ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں‘‘ شائع ہوئی۔ اِس کتاب کو فرحت نواز نے نہ صرف مرتب کیا بلکہ اِس میں شامل وزیر آغا کی چند نظموں کا سرائیکی ترجمہ بھی کیا جب کہ باقی نظموں کا ترجمہ دیگر مترجمین نے کیا۔ فرحت نواز کی دوسری کتاب ’’ منزلاں تے پندھیڑے‘‘ بھی ستمبر ۱۹۸۰ ء میں شائع ہوئی ۔ اِس کتاب میں فرحت نواز نے مختلف افسانہ نگاروں کے افسانوں کا سرائیکی ترجمہ کیا۔ فرحت نواز کی تیسری کتاب ’’ ۸۰ کے بہترین افسانے‘‘ اپریل ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں فرحت نواز نے اَسّی کی دہائی میں لکھے جانے والے پاکستانی افسانہ نگاروں کے افسانوں کو مرتب کیا۔فرحت نواز کی چوتھی کتاب
“The Day shall Dawn” اکبر حمیدی کی اُردو غزلوں کا انگریزی ترجمہ ہے ۔ اِس کتاب میں دیگر دو مترجمین کے علاوہ فرحت نواز نے اکبر حمیدی کی اُردو غزلوں کا انگریزی ترجمہ نہایت کامیابی سے کیا۔ فرحت نواز کے شاعری کا پہلا مجموعہ ’’استعارہ مری ذات کا‘‘ ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا۔ اِس مجموعے میں فرحت نواز کی نظمیں، غزلیں اور ماہیے شامل ہیں۔‘‘ ۲؎
٭ ملازمت
فرحت نواز نے اپنے مزاج اور ادبی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے شعبۂ تعلیم کو اپنایا۔ اس حوالے سے ان کی ملازمت کے مختلف ادوار کی تفصیل کچھ یوں ہے:
’’ فرحت نواز ۱۸۹۴ء میںشعبہ تعلیم سے منسلک ہوئیں اور بطور انگریزی لیکچرار اپنی درسی و تدریسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ۲۰۰۱ء میں آپ کو بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ترقی ملی۔ سن ۲۰۱۴ ء میںآپ کو ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ترقی ملی۔ اپنی ملازمت کو نہایت احسن طریقے سے کرنے کے بعد آپ ۱۱ اگست ۲۰۱۷ء کو اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہو گئیں۔ ‘‘ ۳؎
٭ خان پور اور رحیم یار خا ن کا ادبی ماحول :
فرحت نواز کے ادبی سفر کے تذکرے سے قابل مناسب ہو گا کہ فرحت نواز نے جس تہذیب و معاشرت میں اپنی زندگی بسر کی اس کے پس منظر اور پیش منظر میں موجود ادبی ماحول کا اجمالی طور پر جائزہ لے لیا جائے۔ اس ضمن میں پروفیسر سعید احمد سعید رحیم یار خان میں سرائیکی زبان کی ابتدا ء اور ارتقا کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ سندھی اقوام نے اپنی تہذیب و ثقافت ، سیاست اور معاشرت اور زبان و ادب کے اثرات وقتاً فوقتاً اس خطے پر بھی چھوڑے ان مختلف تہذیبوں کے امتزاج کو جو اسلامی تہذیب و ثقافت نے اپنے مخصوص رنگ میں رنگ لیا اور ان مختلف زبانوں کے امتزاج کو جو عربی و فارسی نے متاثر کیا تو اس خطے میں سرائیکی ثقافت اور سرائیکی زبان معرض وجود میں آئی۔‘‘ ۴؎
فرحت نواز کی مادری زبان سرائیکی ہے مگر انہوں نے اپنی تخلیقات کے لیے سرائیکی کے ساتھ اُردو زبان کابھی انتخاب کیا۔ ان کے ارد گرد مقبولِ عام شاعری میں سرائیکی ادبا و شعرا کی بہت گونج تھی تو ایسے ماحول میں فرحت نواز کا اُردو زبان کا انتخا ب انوکھی بات نہیں تھا کیوںکہ وہاں ایسے شعرا بھی موجود تھے جو اُردو میں نہ صرف شاعری کر رہے تھے بلکہ خاصا نام بھی کما چکے تھے تا ہم پھر بھی ایک خاتون ہونے کے ناتے فرحت نواز کا یہ فیصلہ ادبی اجتہاد سے کم نہ تھا۔ فرحت نواز کا ادبی سفر اس وقت سے شروع ہوا جب وہ ساتویں جماعت کی طالبہ تھیں۔خان پور سے ایک اخبار ’’ صدائے عوام ‘‘ نیا نیا شائع ہوا۔ فرحت نواز نے اس کے بچوں کے صفحے میں لکھنے سے ابتداء کی ۔بچوں کے لیے ایک نظم لکھی گویا کچی عمر سے ہی شروع کیا جانے والا شعری سفر طویل پڑائو کے بعد پکی عمر کی کاوش ان کے اوّلین شعری مجموعے بہ عنوان ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔
٭ فرحت نواز اور جدید ادب خان پور:
فرحت نواز ’’ جدید ادب‘‘ خان پور کے پہلے شمارہ اکتوبر ۱۹۷۸ء سے لے کر ۱۹۸۶ء میں آنے والے آخری شمارے تک بطور معاون مدیر منسلک رہیں۔ سعید شباب اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’وہ جدید ادب خان پور کا ابتدائی دور تھا۔ تب ہی ’’ عکاس‘‘ کا اجراء ہو رہا تھا۔ خان پور اور رحیم یار خان کے محدود ادبی دائرے میں فرحت نواز کا نام بار بار سننے میں آرہا تھا۔ فرحت نواز جدید ادب کی ادارت میں شامل تھیں تو عکاس کی ادبی بحثوں میں بھی شریک تھیں۔ بلکہ لگ بھگ انہیں برسوں میں وہ ’’اوراق‘‘ کے صفحات پر بھی کافی کھل کر لکھتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کی تحریروں اور ادبی شخصیت میں ہم جیسے نئے لکھنے والوں کے لیے ایک کشش تھی ۔ ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی گفتگو اور رکھ رکھائو سے ان کی ا دبی اہمیت کا مزید اندازہ ہوا۔ جدید ادب کی ادارت کا کام تو معمول کی بات تھی ، شعر کہنا تو ان کی سرشت میں شامل تھا۔ انہوں نے بہاولپور کی ادبی تقریبات میں حصّہ لیا۔ اکیڈمی آف لیٹرز کی سالانہ کانفرنسوں میں اپنے علاقے کی نمائندگی کی ۔ریڈیو بہاولپورکے ادبی پروگراموں میں حصہ لیا۔ٹیلی وژن کے ایک دو ادبی پروگراموں میں بھی شرکت کی۔ادب کو سمجھنے کے انداز میں انھوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔یہ مضامین اور جدید ادب عکاس کے ساتھ بعض اخبارات میں بھی شائع ہوئے ۔روزنامہ امروز اور روزنامہ نوائے وقت ملتان میں تب فرحت نواز کا ذکر خیر یا ان کی تخلیقات پڑھنے کو ملا کرتی تھیں۔ـ‘‘ ۵؎
جدید ادب کے اجراء کا مقصد یہ تھا کہ بڑے شہروں کے ذرائع ابلاغ پر قابض ادیب چھوٹے شہروں کے ادبا کی تخلیقی صلاحیتوں اور کاوشوں کو نظر انداز کیے جانے کے رویے کا مقابلہ کیا جا سکے، اس حقیقت کے پیش نظر حیدر قریشی نے اپنی ادارت میں اِس رسالے کا اجراء کیا۔ فرحت نواز کو معاون مدیر کی حیثیت سے اپنے ساتھ ملا کر اس رویے کے خلاف موثر کردار ادا کیا۔ڈاکٹر انور سدید اسی تناظر میں کچھ یوں رقم طرازہیں:
’’جناب حیدر قریشی کا ذکر آیا ہے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ بہت عرصے پہلے انہوں نے خان پور جیسے دور افتادہ مقام سے نئے ادب کا ایک معیاری رسالہ جاری کیا تو اس میں جن مقامی ذہانتوں کو اہمیت دی ان میں فرحت نواز بھی شامل ہیں ۔ حیدر قریشی نے ہی ان کے باطن سے ایک معصوم فکر اور تازہ کار شاعرہ بازیافت کی۔ جس نے شاعری میں اپنی انفرادیت بہت جلد تسلیم کروالی۔اکادمی ادبیات پاکستان نے اسلام آ باد میں اہل قلم کا نفرنس منعقد کی تو جنوبی پنجاب کی نمائندگی کے لیے فرحت نوازکو مدعو کیا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ حیدر قریشی جدید ادب کی اشاعت معطل کر کے سیاحت جہاں پر نکل کھڑے ہوئے اور فر حت نواز نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدمحکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی اور پھر والدین نے ان کی شادی کردی اور وہ اپنی نئی ذمّہ داریاں سنبھالنے لگیں تو شاعری قصۂ پا رینہ بن گئی۔ حیدر قریشی صاحب نے جرمنی سے ’’جدید ادب‘‘کی اشاعت کی تجدید کی تو فرحت نواز کو بھی دوبارہ ادب میں لے آئے ۔لیکن ادب سے بیس برس کی غیر حاضری نے ان کو زندگی کے نئے اور انوکھے تجربات سے متعارف کرا دیا تھا۔‘‘ ۶؎
جدید ادب خانپور کے حوالے سے بھی فرحت نواز کی ادبی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔ یہ رسالہ ثقہ ادبا و شعرا کی نگارشات سے مزین تو ہوا ہی کرتا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ نئے لکھنے والوں کے لیے ایک ادبی پلیٹ فارم کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ادب کی دنیا میں ہونے والے نئے نئے تجربات اور نت نئی ادبی تحریکوں کو اس رسالے کی وساطت سے متعارف کرایا گیا۔ خاص طور پر خانپور کے لکھنے والوں کو آگے بڑھنے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو منوانے کا پورا موقع فراہم کیا گیا۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر انور سدید کی درج ذیل رائے نہ صرف بہت وقیع ہے بلکہ ایک استناد کی حیثیت رکھتی ہے:
’’ ماہنامہ جدید ادب کے نام سے ایک دور افتادہ شہر خانپور سے حیدر قریشی نے ایک فعال اورا دبی لحاظ سے سرگرم جریدہ جاری کیا تو اہلِ ادب نے اس پرچے کی طرف حیرت سے دیکھا اور بہت تھوڑے عرصے میں جدید ادب کو اہمیت کا مقام مل گیا۔ صفدر صدیق رضی اور فرحت نواز جدید ادب کے مرتبین میں شامل تھے اور یہ ادب کی ایک ایسی نئی جماعت تھی جس کے خلوص و خدمت نے اپنے لیے نئی راہیں تراش لیں۔جدید ادب نے ادب کے تازہ مسائل کو اہمیت دی۔ نیا افسانہ ، نئی نظم، ہائیکو، آزاد غزل کے مو ضوعات پر معنی خیز مباحث پیدا کیے۔ پاکستانی ادب اور تہذیب کے موضوع پر ڈاکٹر سیّد عبد اﷲ، شمیم احمد اور وزیر آغا کے مضامین پیش کیے۔ ’’فن اور شخصیت‘‘ اس کا ایک مخصوص حصہ تھا جس کے تحت ممتاز مفتی، جیلانی کامران، مظہر امام، شمیم احمد، جمیل جالبی اور متعدد دوسرے ادیبوں پر گوشے پیش کیے گئے۔ ممتاز افسانہ نگار جوگندر پال پر ایک خصوصی اشاعت چھاپی گئی۔ خصوصی مطالعے کے تحت احمد ظفر، اظہرادیب، مناظر عاشق ہرگانوی، فرحت نواز، ثمینہ راجہ اور متعدد دوسرے شعراء اور شاعرات کی پانچ یا چھ غزلیں اور نظمیں اور ان پر تعارفی مضامین پیش کئے گئے۔ جدید ادب کا رجحان واضح طور پر وزیر آغا کے دبستان سرگودھا کی طرف تھا اس لیے اس نے طغیان فکرو نظر پیدا کیا اور اس کی صدائے با زگشت پورے بر صغیر میں سنی گئی۔ حیدر قریشی نے خان پور چھوڑا تو یہ پرچہ بھی بند ہو گیا۔‘‘ ۷؎
٭ فرحت نواز اورحیدر قریشی:
حیدر قریشی فرحت نواز کی شاعری کا جائزہ یوں لیتے ہیں:
’’ اور اب کچھ ذکر فرحت نواز کا۔ خانپور میں جدید ادب کے سات آٹھ برس ہم نے مل کر رسالہ نکالا تھا۔ فرحت کی شاعری میں ایک انوکھی چمک تھی۔ میرا خیال ہے شعر کہنے کے لیے جس انسپائریشن کی ضرور ہوتی ہے، ہم ایک دوسرے کے لیے ویسی انسپائریشن رہے ہیں۔ اس کا اندازہ پہلی بار تب ہوا جب ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے ہم دنوں کے ساتھ ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ ہمیں باری باری بلایا جا رہا تھا۔ میں کچھ غزلیں سنا کر جاتا، پھر فرحت سے کچھ سناجاتا۔ دو تین بار ایسا ہوا تو لگا کچھ سوال و جواب جیسی صورت خوا ہ مخوا بن رہی ہے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب فرحت نے میرے بعد آتے ہی اپنی نظم شروع کردی ، ’’ مجھ کو اوور ٹیک نہ کرنا‘‘ اور ان کی نظم کے بعدڈاکٹر انوار احمد نے کچھ دلچسپ سے جملے کہہ دیے۔‘‘ ۸؎
حیدر قریشی کی درج بالا روداد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فرحت نواز نے شعوری اور غیر شعوری طور پر حیدر قریشی سے متاثر ہوئیں اور حیدر قریشی کی تحریک پر ہی وہ ادبی دنیا سے کٹ جانے اور اک لمبے وقفے کے بعد پھر سے اس دنیا میں قدم رکھنے پر آمادہ ہوئیں اور اُن کی لکھی گئیں تحریریں کتابی صورت میں قارئین کے سامنے آئیں۔ اِس ابتدائی دور کے بعد جو دونوں ادبا کے درمیان رابطہ منقطع ہوا اُسے حیدر قریشی مزید یوں بیان کرتے ہیں:
’’فرحت نواز کے ساتھ تب تک رابطہ رہا جب تک ’’ادب ‘‘جاری رہا اور میں خانپور میں رہا۔ جب رسالہ بند ہوا تو میں خانپورکو چھوڑ کر گوجرانوالہ، ربوہ، لاہور اور ایبٹ آباد تک بھٹکتا پھرا۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔تب تک وہ ایم ۔اے اکنامکس اور ایم۔ اے انگریزی کرنے کے بعد انگریزی کی لیکچرر ہو گئی تھیں۔ پھر ایک بار پتہ چلا کہ انہوں نے شادی کر لی ہے اور اپنی شادی کی تصویریں میرے لیے بھیجی ہیں۔افسوس میں ان کی انڈونیشین نژادسہیلی ایڈا (سعیدہ) تک دیرسے پہنچا۔ وہ کافی انتظار کے بعد فرحت کو ان کی البم واپس بھیج چکی تھیں جو میرے لیے بھیجی گئی تھی۔اس کے بعد وہ اپنی لیکچرر شپ اور ازدواجی زندگی میں مصروف ہو گئیںاورادب پسِ پشت چلا گیا۔ کبھی کبھار اِدھراُ دھر سے خبر مل جاتی کہ اب وہ ایک بچے کی ماں بن گئی ہیں، اب دو بچوں کی ماں بن گئی ہیں۔‘‘ ۹؎
چند سالوں کے دوران جب فرحت نواز کی اپنی ذاتی مصروفیات اور حیدر قریشی کے مختلف شہروں میں یکے بعد دیگرے سفر اور سکونت کے باعث اور خاص طور پر ’’ جدید ادب‘‘ کے بند ہو جانے کے بعد فرحت نواز اور حیدر قریشی میں رابطہ ختم ہو گیا لیکن جب ایک مقالہ نگار نے حیدر قریشی کی ادبی خدمات پر تحقیقی کام کے حوالے سے بہ حیثیت ہم عصر شاعرہ اور دوست فرحت نواز سے رابطہ کیا تو یہ رابطہ بحال ہو گیا،جسے حیدر قریشی اِن الفاظ میں تحریر کرتے ہیں:
’’ اسی دوران جب بہاولپور یونیورسٹی میں میرے بارے تحقیقی کام شروع کیا گیا تو مقالہ نگار نے میرے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے سوالنامہ تیار کیا اس کو کہیں فرحت کو بھی پہنچایا گیا۔ تیرہ دوستوں اور عزیزوں میں سے فرحت کے جواب سب سے پہلے مقالہ نگار کو موصول ہوئے۔ فرحت نے نہ صرف بڑے خلوص کے ساتھ سوالات کے جواب دیے بلکہ میری حیثیت سے کہیں زیادہ مجھے عزت دی۔ یوں ہمارا رابطہ پھر سے بحال ہو گیا۔ میرا بڑا بیٹا شعیب اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان گیا تو فرحت کے گھر بھی گیا اور ان کی ساری فیملی سے مل کر آیا۔پھر طارق پاکستان گیا تو وہ بھی ان سب سے مل کر آیا۔ میری خواہش تھی کہ فرحت پھر سے تخلیقی طور پر متحرک ہوں، وہ بھی ایسا چاہنے لگی تھیں لیکن غالباًگھریلو اور تدریسی مصروفیات انہیں مہلت نہیں دے رہی ہیں۔ ‘‘ ۱۰؎
فرحت نواز اور حیدر قریشی کا تعلق خلوص اور صداقت کے ساتھ ساتھ جس بے غرضی اور پاکیزگی پر مبنی تھا اُس کی واضح دلیل فرحت نواز کی تحریروں کا ادب کے شائقین کے سامنے آنا ہے جس کے پسِ منظر میں بلا شبہ حیدر قریشی کی کاوشوں کا ہاتھ ہے۔ حیدر قریشی کی درج ذیل تحریر سے حیدرقریشی کے ساتھ ساتھ فرحت نواز کی شخصیت کے چند پہلو نمایاں ہوتے ہیں:
’’ فرحت نواز کے ساتھ میرے روابط میں لاگ اور لگائو دونوںتھے لیکن ان کے ساتھ سب سے اہم چیز ہمارا ایک دوسرے پر گہرا اعتماد اور رشتوں کے تقدّس کا احترام تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم دونوں نے اپنے رشتوںکی پاکیزگی کو بھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ان کے ساتھ رابطہ رہے یا نہ رہے لیکن ایک انسپائریشن اور ایک اعتماد کبھی کم نہیں ہوئے۔ فرحت نواز، پروین عزیز اور ثمینہ راجہ تینوں میرے آبائی علاقہ کی شاعرات تھیں۔ فرحت کو جتنے مواقع میسر آئے انہوں نے عمدہ ادبی کام کیا ۔‘‘ ۱۱؎
٭ فرحت نواز کی ادبی دنیا میں واپسی :
فرحت نواز نے شادی کے بعد گھر ہستی کی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانے کے لیے خود کو ادبی دنیا سے دور کر لیا۔ بیس سال کے طویل عرصے کے بعد فرحت نواز نے ادبی دنیا میں دوبارہ قدم رکھا۔اگرچہ بظاہر فرحت نوازنے ادبی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی مگر ایک حساس شاعرہ کا دل زندگی کے مختلف رنگوں کو کشید کرنے اور فکر و خیا ل میں ڈھالنے کے عمل سے غیر شعوری طور پر جڑا رہا۔یہی وجہ ہے کہ بیس سال کے طویل عرصے کے بعد فرحت نواز نے جب دوبارہ فکر و خیال کے ان حسیں رنگوں کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا تو ان کی تحریر یں بیس سال کے تجربات ،مشاہدات اور افکار کے پختہ رنگوں سے سج کر سانے آئیں ۔شہناز خانم عابدی اس ضمن میں ر قم طراز ہیں :
’’فرحت نواز اُردو شعر و ادب کے آسمان پر چمکنے والا ایسا ستارہ ہے، جو طلوع ہوا، دیکھنے والوں کو اپنی نئی نویلی ،نو وارد چمک دمک سے متوجہ ہی نہیں بلکہ متاثر بھی کیا اور ٹوٹے بغیر بیس برسوں پر محیط عزلت کے دھندلکوں میں رو پوش رہ کر پھر نمودار ہوا،اپنے وجود کی پوری درخشانی کے ساتھ۔ دو دہائیوں کی پردہ پوشی کا خیا ل کیا جائے اور فرحت نواز کی اس کتاب کو پڑھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سچی شاعری کے سوتے کو وقت اور حالات کے سنگلاخ سے سنگلاخ پتھر بھی لا محدود مدت تک بند نہیں کر سکتے ۔سچا اور توانا تخلیقی تموج پتھروں کو تو کیا پہاڑوں کو بھی تسخیر کر لیتا ہے۔‘‘ ۱۲؎
فرحت نواز ایک ایسی شاعرہ ہیں جنہیں گردش حالات نے ادب سے بظاہر کچھ دور کر دیا مگر احساسات زندہ رہے۔چنانچہ طویل عرصے کے وقفے کے بعد جب دوبارہ وہ اس کاروانِ ادب میں شامل ہوئیں تو جدید رجحانات سے بہر طور واقف تھیں کیونکہ اُن کی کسی تحریر سے یہ احساس نہیں چھلکتا کہ بیس سال پیچھے رہ جانے والی شاعرہ ابھی بھی پیچھے ہی ہیں ۔ ان کا دور حاضرکے جدید ادبی رجحانات کے قدم بہ قدم چلنے کا سفر غیر شعوری طور پر جاری و ساری رہا ۔اس حوالے سے نسیم انجم ادب کی دنیا میں بیس سال بعد اپنی موجو دگی کا احساس دلانے والی فرحت نواز کے بارے میں کچھ یوں گویا ہیں :
’’تقریبا بیس سال بعد انہوں نے گلستان شاعری میں دوبارہ قدم رکھا ہے۔ اس اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ وہ اب تخلیق سے رشتہ جوڑے رکھیں گی۔ اور یہ اعتماد اس لیے پیدا ہوا کہ حیدر قریشی نے انٹر نیٹ پر انہیں دوبارہ دریافت کر لیا تو یقینا فرحت کی حوصلہ افزائی ہوئی ،امید کی شمع روشن ہوئی اور تخلیقی صلاحیتیں کاغذ پر اپنا رنگ جمانے کے لیے بے چین ہو گئیں ۔‘‘ ۱۳؎
بسا اوقات کچھ فطری صلاحیتوں کے بہتر اور مسلسل اظہا ر کے لیے عمر کے ہر حصّے میںتحریک دیے جانے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔فر حت نواز کسی ستائش کی تمنا اور صلے کی توقع کے بغیر اپنی ڈگر پر چلنے والی ادیبہ ہیں ۔ فرحت نواز نے گھریلو ذمہ داریوں میں کھو کر بیس سال اپنی آواز کو سمیٹے رکھا لیکن حیدر قریشی کی طرف سے ملنے والی تحریک پر فر حت نواز کی صدا ادبی دنیا کی لطیف آوازوں میں اک خوشگواراضافہ ثابت ہوئی۔زاہد نوید اس قدر طویل خود ساختہ جلا وطنی کے باوجود فرحت نواز کی تخلیقی توانائی کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’یہ زندگی کا جبر ہے کہ کروڑوں خواتین گھرہستی کی تنہا ئیوں اور پنہائیوں میں گم گشتہ ہو جاتی ہیں اور اپنی تخلیقی توانائی بھی گھر کی نذر کر دیتی ہیں لیکن فرحت نوازایک فنکار بھی ہے اس لیے بقو ل اس کے مُلکِ ادب سے بیس سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے باوجود گم ہونے سے صاف بچ گئیں اور اس میں فعال کردار برادرم حیدر قریشی کا ہے۔جنہوں نے گھرگرہستی کے مرچ مصالحے ،غیر شاعرانہ ماحول سے ایک شاعرہ کو ڈھونڈ نکالا۔‘‘ ۱۴؎
فرحت نواز اس بیس سالہ وقفے سے پہلے اور بعد کے سفر کو کچی عمر سے پکی عمر کے سفر سے تعبیر کرتی ہیں ۔ بیس سالہ اس دورانیے میں اور کچی عمر کی نزاکتوں سے لے کر پکی عمر کے تجربوں تک نہایت ہی متوازن انداز میں اس طرح لے کرچلتی ہیں کہ یہ رنگ اک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے بلکہ قوس قزح کے حسیں رنگوں کی طرح ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ۔اس بات کا احساس نہ صرف خود فرحت نواز کوبھی ہے بلکہ جان عالم نے تو اس کی نشاندہی درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
’’فرحت نواز کا شعری مجموعہ ، استعارہ مری ذات کا‘‘منظر عام پر آیا۔ شروع کے صفحات سے معلوم ہوا کہ شاعرہ نے عرصہ بیس سال تک شاعری سے کنارہ کشی کی اور انہیں معروف شاعر جناب حیدر قریشی نے تحریک دے کر دوبارہ شعری فضا ء میں لائے۔شاعرہ نے اس کا اعتراف کتاب کے آغاز میں کیا ہے اور کسی بڑے دعوے کی بجائے انکساری سے سچ بولتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اپنی کچی عمر سے شروع کی گئی شاعری سے لے کر اس پختگی کی عمر تک لکھا ہوا جو کچھ مجھے مل سکا، وہ سب ملا جلا اور کچا پکا اس کتاب میں شامل ہے۔کتاب کے مطالعے سے شاعرہ کا اعتراف سچ دکھائی دیتا ہے۔ کچی عمر کا بے ساختہ پن نظر آتا ہے تو کہیں پختہ عمر کا گہرا رنگ۔‘‘ ۱۵؎
ادبی دنیا میں فرحت نواز کی اس طویل عرصے بعد واپسی کو مختلف ادبی شخصیات اور ناقدین نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھا اور بعد میں آنے والی ادبی کاوشوں پر اس طویل وقفے کے اثرات کو بھی اپنے اپنے انداز میں جانچا اور پھر اس پر اپنی آرا کا اظہار بھی کیا ۔عبداللہ جاوید کہتے ہیں:
’’وقت نے نظریں بدل لیں اور فرحت نواز گھرہستی ، شوہر،سسرال اور بچوں کے چھوٹے بڑے حصاروں میں گھر کر رہ گئیں ۔ یہ حصار اپنی مجبوریاں ہی نہیں ، وابستگیاں بھی رکھتے تھے۔یہ بلا جواز بھی نہیں تھے ۔ ان حصارو ں سے فرائض منصبی کی ادائیگی بھی جڑی ہوئی تھی۔وقت اور مقام نے فرحت نواز کو یہ احساس دلایا تھایا زمان و مکان نے اسے یہ گیان دیا تھاکہ وہ ایک نہیں بلکہ اس کا وجود ، اس کی ہستی، اس کا جسم،اس کی روح ، اس کا دل اور اس کا ذہن و دماغ تقسیم ہو چکے ہیں۔ وہ ٹکڑوں میں بانٹ دی گئی ہے۔ اس کے وجود کے ہر ٹکڑے کو مطلوبہ فرائض سر انجام دینے ہیںخوا ہ وہ فرائض پسندیدہ ہوں یا نا پسندیدہ ، اختیاری ہو ں کہ جبری۔۔۔۔چھوٹے بڑے حصاروں میں گھری ہوئی زندگی گزارتے ہوئے اور خود کو ٹوٹتے پھوٹتے اور ٹکڑوں میںبٹتے ہوئے دیکھتے اور برداشت کرتے ہوئے فرحت نواز نے کوئی بیس برس نمٹا دیے ۔ ان بیس برسوں کی شعر و ادب سے لا تعلقی کے دوران اس کے اندر کی شخصیت جس کو ذات سے منسوب کیا جا سکتا ہے، چھوٹے بڑے سب حصاروں سے آزاد اور شخصیت کی قطع برید سے محفوظ ، لا شعور اور تحت الشعور کے نہاں خانوں میں مستور رہی۔‘‘ ۱۶؎
ڈاکٹر نذر خلیق نے فرحت نواز کی شخصیت اورادبی مصروفیات سے متعلق اپنے مضمون میں لکھا ہے جس میں ان کی مختلف ادبی حیثیتوں کے ساتھ ساتھ دوسری جہتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اتنے طویل عرصے کے بعد ان کی ادبی جہان میں واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے وہ کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’ فرحت نواز میرے جنوبی پنجاب سے نمایاں ہونے والی اہم شاعرہ ہیں۔ ایم اے اکنامکس اور ایم اے انگریزی کرنے کے بعد ایک گورنمنٹ کالج میں انگریزی کی لیکچرر ہو گئیں۔ اب گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین رحیم یار خان میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انگریزی کے شعبہ کی سربراہ ہیں اور کالج کی وائس پرنسپل بھی ہیں۔ فرحت نواز ۱۹۷۸ء میں ادبی دنیا میں وارد ہوئی تھیں۔ ۱۹۹۰ء کے عرصہ تک وہ شعروادب کی دنیا میں متحرک رہیں لیکن شادی کے بعد ان کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں اور انہوں نے پوری توجہ اپنے گھر پر مرکوز کر دی۔ اب ایک وقفہ کے بعد ادبی دنیا میں آئی ہیں اور اپنا شعری مجموعہ پیش کر کے اپنی واپسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ان کے شعری مجموعے ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ کو ادبی دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔ بہت سارے ادیبوں نے فرحت کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ‘‘ ۱۷؎
اگرچہ ادبی دنیا سے وابستہ متعدد ادبا و شعرا نے اپنے اپنے انداز میں فرحت نواز کے کام اور شخصیت پر روشنی ڈالی ہے جس کا کچھ تذکرہ درج بلا سطور میں کیا جا چکا ہے تاہم خود فرحت نواز اس بارے میں کیا کہتی ہیں اس کا حوالہ یہاں اگر دے دیا جائے تو بہت مناسب ہو گا:
’’ لگ بھگ دو دہائی پہلے ملک ادب سے خود اختیا ری جلا وطنی کا فیصلہ کرتے وقت مجھے بالکل خیال نہ آیا تھاکہ جن لفظوں سے میں آنکھ چرا کر بھاگ رہی ہوں وہ پیچھے سے مجھے بلا تے رہیں گے ان کی آ واز پر میں کئی بار پتھر ہوئی اور ان کی محبت کے جادو نے مجھے کئی بار زندہ کیا ۔ اس خود اختیاری جلا وطنی کے دوران اس آواز سے میں اپنا تعلق نہیں توڑ سکی۔شادی کے بعد گھر ، شوہر اور بچوں کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ان ذمہ داریوں کو بھی شعری لطافتوں کا اک روپ سمجھا ۔زندگی کے روایتی رویوں میں انہیں لطافتوں نے مجھے شعر و ادب سے یکسر دور نہیں جانے دیا۔ان لطافتوں سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے، تب کا جب شوخ عمر میں دھڑکن کی تا ل پر جذبوں کی دھمال شروع ہوئی ۔ اس مستی کو میں نے بین السطور لکھا تو حیدر قریشی صاحب سے رہنمائی لی انھوں نے نہ صرف مجھے مفید مشورے دیے بلکہ ’’جدید ادب ‘‘خانپورکی ادارت میں شریک کیا اور پھر میری شاعری سے زیادہ’’ جدید ادب‘‘ ادبی دنیا سے میرے تعارف کا مضبوط حوالہ بنا۔‘‘ ۱۸؎
ادبی دنیا میں نہ صرف واپسی بلکہ حیدر قریشی کی طرف سے دی جانے والی تسلی اور اعتماد کا تذکرہ کرنے میں اور اِس حوصلہ افزائی کا سہرا حیدر قریشی کے سر باندھنے میں فرحت نواز نے بالکل توقف نہیں کیا۔ فرحت نواز کے معاملے میں اُن کی کامیابی کے پیچھے کوئی عورت نہیں بلکہ ایک مخلص اور بے لوث دوست کی حیثیت سے حیدر قریشی رہے۔ فرحت نواز مزید رقم طراز ہیں:
’’برسوں بعد حال ہی میں حیدر قریشی صاحب نے جب مجھے انٹرنیٹ پر دوسری بار دریافت کیا اور نئے سرے سے اعتماد دیا کہ ادب قبیلے میں مجھے پہچان لیا جائے گا تو واپسی کا فیصلہ مجھے آسان لگا۔میں ادب سے دوری کے بیس سال یہ دیکھتی رہی کہ نئے لکھنے والے زیادہ تازگی کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔ایک تو نئی نسل کے ہاں نیا طرزِ احساس اپنی تما م زندگی کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے، دوسرے میں نے اپنا تخلیقی سفر وہیں سے شروع کیا ہے جہا ں سے اسے چھوڑ دیا تھا۔‘‘ ۱۹؎
فرحت نواز نہ صرف خوبصورت سوچ کی حامل شخصیت ہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی شخصیت کو باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کی خوبصورتی سے بھی نوازا ہے۔ گویا ان کا ظاہران کے باطن کی بھی جھلک دکھاتا ہے۔ اگر چہ یہ کوئی لازمی شرط نہیں کیونکہ دونوں صفات ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتیں لیکن کچھ ایسی شخصیات بھی اپنا وجود رکھتی ہیں جو باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کی خوبصورتی سے مالا مال ہوتی ہیں اورخوش قسمتی سے فرحت نواز کے حصّے میں بھی یہ دولت آئی ہے ۔ میرزا ادیب کے خاکے میں حیدر قریشی میرزا ادیب سے لاہور میں ہونے والی ایک ملاقات کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں جس سے نہ صرف میرزا ادیب کے جمال پسند ہونے کا بلکہ فرحت نواز کی شخصیت کے اس وصف کا بھی پتہ چلتا ہے۔حیدر قریشی اس واقعے کویوں لکھتے ہیں:
’’ رومانیت کے اثرات میرزا ادیب کی تمام اصناف میں ہی نہیںان کی شخصیت میں بھی موجود ہیں۔ ایک دفعہ ایک ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں میرا اور فرحت نواز کا لاہور آنا ہوا۔ فرحت نواز کی ایک عزیز سہیلی بھی ساتھ تھی۔ ہم میرزا ادیب کے پاس پہنچے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان دو بیبیوں میں ایک فرحت نواز ہے اور ایک اس کی سہیلی ہے۔ بوجھیے کون سی فرحت نواز ہے؟ میرزا ادیب شش و پنج میں پڑ گئے۔ دونوں چہروں کو کافی غور و خوض سے دیکھنے کے بعد انہوں نے فرحت کی سہیلی کو فرحت نواز قرار دے دیا۔ شاید انہوں نے اپنے طور پر یہ سوچا کہ مَرد ادیبوں کی طرح شاعرات بھی بہت زیادہ خوبصورت نہیں ہو سکتیں۔ لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا ہے تو بہت خوش ہوئے اور اسی خوشی میں دیر تک فرحت کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے رہے۔ تب مجھے شدت سے یہ خواہش ہونے لگی کہ کاش میں بھی میرزا ادیب کا ہم عمر ہوتا۔ میرزا ادیب اُٹھے اور اپنی تازہ کتاب ’’ مٹی کا دیا‘‘ لے آئے اس پر فرحت کا نام لکھا اور مجھے کہا! ’’ اوئے حیدر قریشی! اس وقت ایک نسخہ ہے اس لیے فرحت کو دے رہا ہوں ۔ یہ پہلی بار میرے ہاں آئی ہے۔ تمہارا کیا ہے تم توآتے ہی رہتے ہو، بعد میں لے لینا۔‘‘ ۲۰؎
٭ فرحت نواز اپنے عزیز و اقارب کی نظر میں:
(۱) پروین عزیز (پرانی ہم جماعت سہیلی)
پروین عزیز فرحت نواز کی بچپن کی ہم جماعت سہیلی ہیں۔ پروین عزیز کو عمر کے مختلف حصوں میں فرحت نواز کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ فرحت نواز کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو پروین عزیز اِن الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
’’ اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
فرحت نواز کا اور میرا ساتھ بہت پرانا ہے۔ میٹرک سے ایم۔ اے تک ہم دونوں ہم جماعت، سہیلیاں، ہمدرد اور ایک دوسرے کی قدم قدم کی ساتھی رہیں۔ ہم دونوں نے بے شمار روز و شب اکٹھے گزارے، اکٹھے پڑھا، اکٹھے امتحان دیے، اکٹھے ملازمت کی ، لکھنا بھی ایک ساتھ شروع کیا۔ ایم۔ اے کے دوران ہی اس نے ’’ جدید ادب‘‘ کی ادارت شروع کی، اس کی دو کتابیں ’’ڈاکٹر وزیر آغا دیاںچونڑویاں نظماں‘‘ (جو وزیر آغا کی اُردو نظموں کا سرائیکی ترجمہ تھا) اور دوسری کتاب ’’ منزلاں تے پنڈھیرے‘‘ (جوکرشن چندر سے لے کر رشید امجد کے افسانوں تک کا سرائیکی ترجمہ ہے) منظر عام پر آئیں۔ فرحت بچپن ہی سے کم گو اور تنہائی پسند تھی۔ وہ بڑی معصوم اور بھولی بھالی لڑکی تھی۔ بہت اچھی طبیعت کی مالک تھی۔ (فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ اچھی طبیعت کی مالک خاتون کی شکل اختیار کر چکی ہے)۔ اسے سمجھنا آسان نہیں ہے، بعض اوقات تو اتنی پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ اگلا بندہ پیچ در پیچ الجھتا چلا جاتا ہے، بوکھلا کر رہ جاتا ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں لیکن بعض اوقات اتنی سادہ کہ ساری گرہیں خود بخود کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ‘‘ ۲۱؎
پروین عزیز پرانی یادوں کے تناظر میں فرحت نواز کی سنجیدہ طبیعت اور خاموش طبع ہونے کا تذکرہ کچھ یوں کرتی ہیں:
’’ جب میری اس سے دوستی ہوئی تھی تو وہ بہت خاموش طبع تھی۔ تقریبات میں اور پارٹیوں میں جا کر کچھ نہیں کھاتی پیتی تھی۔ بہت ہی شرمیلی اور کم گو تھی ۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ بولے۔ پارٹیوں میں جا کر باقی لوگوں کی طرح کھائے پیے۔ میں اکثر پلیٹ بنا کر اس کے پاس لے آتی کہ وہ کچھ کھا لے۔ میں اس کے ساتھ بہت باتیں کرتی تھی۔ جب مجھے جواب نہیں ملتا تھاتو میں آخر کہہ اٹھتی تھی کہ تم بھی کوئی بات کرو تو مسکرا کر جواب دیتی میرے پاس تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بس تم بولتی رہو۔ بہت سنجیدہ سی یہ لڑکی بعض اوقات میری باتوں پر بے ساختہ ہنس پڑتی اور میں دل ہی دل میں اپنی اس فتح پر خوش ہوتی رہتی۔‘‘ ۲۲؎
فرحت نواز کے والدین کا نہایت مختصر تعارف اور اُن کی شخصیت کے وہ عمدہ پہلو جو فرحت نواز کی تربیت کا حصہ بن کر اُن کو ورثے میں ملے اِن کا تذکرہ نہایت خلوص کے ساتھ پروین عزیز کچھ یوں کرتی ہیں:
’’فرحت کے ابا جی ویٹرنری کے ڈاکٹر تھے۔ بہت بارُعب اور اصول پسند انسان تھے۔ ان کا دسمبر ۱۹۹۸ء میں انتقال ہوا۔ امّی جان ماشاء اﷲ حیات ہیں(اﷲ انہیں تا دیر سلامت رکھے) اور اسلام آباد میں اپنے بیٹوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ فرحت کی سرشت میں اپنی امی جان جیسی ٹھنڈک اور ابّا جی جیسی تپش موجود ہے۔ لیکن وہ ساری کی ساری نہ امی جان جیسی ہے نہ ابّا جان جیسی۔ اس کی اپنی منفرد سوچ ہے۔ بسا اوقات وہ بہت زیادہ Straight forwardبات کہہ جاتی ہے جو اکثر دوسروں کو ناگوارگزرتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اس کا خمیر محبت سے اٹھا ہے اور اس کی سوچ محبت سے شروع ہو کر محبت پر ختم ہوتی ہے۔‘‘ ۲۳؎
فرحت نواز کی شخصیت کے اُن رنگوں کا تذکرہ جب پروین عزیز اور فرحت نواز ہاسٹل میں ساتھ رہتے تھے اور ایک ہم جماعت سے زیادہ ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اُن تجربات کو پروین عزیز ذیل میں بیان کرتی ہیں اور اِس میں سب سے زیادہ نمایاں پہلو فرحت نواز کی طبیعت میں فطری طور پر پایا جانے والا جذبہ محبت اور دوسروں کا حد درجہ خیال رکھنا ہے۔ پروین عزیز لکھتی ہیں:
’’ ایم اے کے دوران ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہماری صلح کم اور لڑائی زیادہ چلتی رہتی تھی۔ وہ یونیورسٹی میں بہت مشہور تھی۔ میں سمجھتی ہوں یونیورسٹی کا دور اس کے عروج کا دور تھا۔ میں اکثر اسے ڈھونڈتی رہتی اور پتہ یہ چلتا کہ کچھ ہم جماعت طلبا اور دوسرے طلبا اسے کینٹین لے گئے ہیں اور یہ وہاں اپنا ’’ کلام‘‘ سنا رہی ہے۔ جب یہ مجھے بتائے بغیر اولڈ کیمپس چلی جاتی تو یہ بات اکثر لڑائی کی وجہ بنتی لیکن یہ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہماری محبت کے قد سے اپنا قد اونچا نہ کر سکیں۔ جن دنوں ہماری بول چال بند ہوتی تو فرحت صبح سویرے اٹھ کر اپنے برش کے ساتھ میرے برش پر پیسٹ لگانا نہ بھولتی۔ ( یہ اس کے روز کے معمولات میں شامل تھا)۔ بات چیت بند ہوتی لیکن ہم دونوں ایک ساتھ کمرے سے نکلتیں۔ اکٹھے یونیورسٹی جاتیں اور اکٹھے ہاسٹل واپس آتیں۔ گویا ناراضی میں بھی ساتھ نہیں چھوٹتا تھا۔ یونیورسٹی میں مجھے احساس ہوا کہ فرحت تھوڑی ترقی پسند اور میں قدامت پسند تھی۔لیکن ہم دونوں کے درمیان یہ نظریاتی اختلاف ہماری دوستی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ یہ دوستی اور الفت کارشتہ الحمد ﷲ آج بھی برقرار ہے کہ سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا۔ بہ حیثیت ایک دیرینہ دوست کے، فرحت کے لیے میرا یہی کہنا ہے کہ وہ دل کی بری نہیں ہے۔ وہ دل سے کسی کا برا نہیںچاہتی ہے اور معاف کرنے کا جذبہ بھی بدرجہ اتم رکھتی ہے۔وہ تلخ بھی ہو جائے تو اس کی تلخی ایسے درخت کی دھوپ کی طرح ہوتی ہے جس میں کہیں کہیں چھائوں بھی جھانک رہی ہوتی ہے۔ وہ غصے میں بھی اپنی آنکھوں سے نکلتی محبت کی شعاعوں پر قابو نہیں پا سکتی۔ وہ اختلاف کو بڑی جلدی بھلا دیتی ہے۔‘‘ ۲۴؎
فرحت نواز اور پروین عزیز نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو محبت اور دوستی کا یہ رشتہ اسی چاہت اور بے تکلفی کے ساتھ قائم رہا جس کا تذکرہ پروین عزیز دعائیہ کلمات کے ساتھ کچھ یوں کرتی ہیں:
’’ میری اور فرحت کی ترقی بھی ایک ساتھ ہوئی۔ میں نے اسے مبارک باد کا فون کیا۔ اس نے بھی مجھے مبارک باد دی۔ میں نے اسے کہا ’’ میرے لیے اچھا سا کپڑوں کا جوڑا خریدنا‘‘ اس نے بھی مجھے یہ کہا کہ ’’میرے لیے بہت عمدہ جوڑا لینا‘‘ ۔ بہت دلچسپ مکالمہ کرنے کے بعد آخر میں میں نے تجویز دی کہ اگر میں تمہارے لیے جوڑا لوں اور تمہیں پسند نہ آئے اورجو تم خریدو تو وہ مجھے اچھا نہ لگے تو بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں اپنی اپنی پسند کا جوڑا خرید کے پہن لیتی ہیں اور یہی سمجھیں گی کہ ہم نے ایک دوسرے کو دیا ہوا جوڑا پہن رکھا ہے۔ اﷲ اﷲ خیر صلّا۔ مسئلہ ختم۔ فرحت میری بہت پیاری اورپکی سہیلی ہے۔ میری دُکھ سُکھ کی ساتھی ہے۔ مجھے بہت عزیز ہے۔ اﷲ اسے صحت کاملہ عطا کریں اور اس کا گھر خوشیوں کا گہوارہ بنا رہے۔ (آمین)۔ ‘‘ ۲۵؎
(۲) شیخ ممتاز ۔ (شوہر)
شیخ ممتاز فرحت نواز کے شوہر ہیں۔ اس بندھن سے ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔کسی بھی مشہور خاتون ادبی شخصیت کو اس کے گھر والے کس مقام سے نوزاتے ہیں اس بات کو جاننا کسی بھی تحقیق میں خاصا اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے جب شیخ ممتاز صاحب سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا کچھ یوں تھا:
’’ شادی کے بعد فرحت نے بڑی سمجھداری سے خود کو نئے ماحول میں ڈھالا اور سسرال میں بہت جلدی اور سہولت کے ساتھ نمایاں جگہ بنا لی۔ میری والدہ کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ دوستانہ رہا۔ والدہ کو ان کا سلیقہ اور گھریلو امور میں ان کی دلچسپی بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ ان کے پکائے ہوئے روایتی کھانوں کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں۔ فرحت کی خوش لباسی، ملنساری اور انکساری میری والدہ کو بہت پسند تھی۔ فرحت میری زندگی کی سچی ساتھی ہیں۔ بے لوث محبت کرتی ہیں۔ ذہین ، ہمدرد، حساس اور نرم دل ہیں۔ خود غرض اور لالچی نہیں ہیں۔ بچوں کی اچھی تربیت کا ۷۵ فی صد کریڈٹ فرحت کو جاتا ہے جبکہ یہی بات یہ مجھ سے کہتی ہیں۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ بے شک اﷲ پاک نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا ہے۔ ‘‘ ۲۶؎
(۳) غزنہ ممتاز۔ (بیٹی)
فرحت نواز کی شاعری میں گھریلو زندگی اور مختلف رشتوں کی جھلک ملتی ہے۔ اُن کی بیٹی غزنہ ممتازکا تذکرہ اُن کے بہت سے اشعار میں ہوا۔ بلکہ غزنہ کے نام سے ایک مکمل نظم بھی اُن کے مجموعۂ کلام میں شامل ہے۔ غزنہ سے لیے جانے والے تحریری انٹرویو میں غزنہ اپنی والدہ کی شخصیت کو یوں بیان کرتی ہیں:
’’ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنی والدہ صاحبہ کو بہت مصروف دیکھا ہے۔ کالج ،گھر داری، رشتہ داری، دوست احباب ہر سطح پر میری والدہ ذمہ داری نبھانے کو اولیت دیتی ہیں جب کہ ہم دونوں بہن بھائی کو ان سب معاملات پر فوقیت دیتی ہیں۔ ہماری تعلیم، ہماری تفریح، ہماری صحت، ہمارا آرام، ہماری چھوٹی چھوٹی ضروریات و خواہشات کا خیال رکھنا، ہماری ضد اور لاڈ کا خیال رکھنا ،ہماری پسند ناپسندکا خیال رکھنا، اگر کسی ایک جگہ پر ان سے کمی ہو جائے تو دوسری جگہ پر اس کی خوبصورت تلافی کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ میری والدہ گھر اور کالج کی ہر ذمہ داری کو ہمیشہ بہت عمدہ ادا کرتی ہیں، اپنے حلقۂ احباب میں بہت متحرک، نمایاں اور کامیاب ہیں۔ پر وقار اور بارُعب شخصیت کی مالک ہیں۔ بہت اچھی استاد ہیں۔ میں نے ان کی شاگردوں کو ان سے بہت عقیدت اور محبت کرتے دیکھا ہے اور مجھے تو سمجھ نہیں آتی میں اپنی والدہ سے اپنی محبت کا اظہار کیسے کروں۔ جتنا اظہار کرتی ہوں کم لگتا ہے۔ میری امی بہت اچھی منتظم ، ہمدرد، مددگار، محبت کرنے والی، سادہ، نفیس، حساس، صاف گو،سچائی پسند اور نرم دل ہیں۔ ان کی طبیعت میں سختی بھی ہے لیکن بلا وجہ اور بلا ضرورت سختی نہیں کرتیں۔وہ بظاہر بہت ملنسار لیکن در حقیقت تنہائی پسند ہیں ۔ میری اور میری والدہ صاحبہ کی بہت دوستی ہے۔ میں ان سے ہر بات کا اظہارکر لیتی ہوں۔ وہ ہمیشہ نصیحت کرتی ہیں کہ اﷲ کو راضی رکھو، اسی میں کامیابی ہے۔اُن کا خمیر سادہ دلی ، محبت ، وفا، اور دعا ہے۔ اﷲ ان کو دیر تک سلامت رکھے۔ آمین۔ ‘‘ ۲۷؎
(۴) ارم رائو ۔ (شناسا)
ارم رائو فرحت نواز کے کالج میں نئی نئی آنے والی لیکچرر ہیں۔ ان کا فرحت نواز کے بارے میں بہت مختصر عرصے میں جو تعلق پیدا ہوا ہے۔فرحت نواز کی خوبصورت شخصیت ، ملنسار طبیعت اور صلا حیتوں کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو تحریری انٹرویو میں وہ فرحت نواز کی گوناں گوں صفات کے حوالے سے یوں لکھتی ہیں:
’’ محبت ، ملنساری، خوش گفتاری اور خوش مزاجی جس شخصیت کا حصّہ ہیں وہ ہماری بہت پیاری فرحت نواز صاحبہ ہیں۔ جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے نواز رکھا ہے۔ ان کی ذات میں فرحت بخش احساس بھی ہے اور دوستانہ خلوص بھی۔ فرحت نواز صاحبہ سے شناسائی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تا ہم میں اُن کے دوستانہ اور خوش مزاج رویے کی معترف ان چند ماہ میں ہی ہو گئی ہوں۔ اس رفاقت میں ہی ان کے شعر و ادب سے لگائو اور شعر کہنے کی صلاحیت و ذوق سے بھی آگاہی حاصل ہوئی تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو کر اُن کی کتاب ’’ استعارہ مری ذات کا ‘‘ کالج کی لائبریری سے مطالعے کے لیے لی۔جب انہیں بتایا تو انہوں نے کمال شفقت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے اپنی کتاب اپنے خوبصورت آٹو گراف کے ساتھ دی۔ اتنی محبت اور خلوص کا قرض تو میں اتار ہی نہیں سکتی تا ہم ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ پر چند اچھے الفاظ تحریر کر کے خلوص کا تھوڑا سا قرض ضرور اتار سکتی ہوں۔فرحت نوازنے اپنی شاعری میںنہایت خوبصورت الفاظ میں اپنی وفا کی استقامت کی بات کتنی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔ اسی طرح اور بہت سی نظموں اوراشعار میں محترمہ فرحت نواز صاحبہ کے کمال سخن کا محض عکس دیکھتے ہی آپ داد و تحسین دینے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ جیسا کہ یہ شعر:
دِل آنگن میں پیڑ گھنا اُمیدوں کا تھا
سُکھ موسم نے آنے میں کیوں دیر لگائی ۲۸؎
ارم رائو نے اِس تحریری انٹرویو میں نہ صرف فرحت نواز کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ اُن کی شاعری کی خصوصیات کو بھی اِس طرح بیان کیا ہے کہ اُن کی شاعری کے موضوعات کو اُن کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں سے جوڑا ہے گویا اُن کی شاعری اور اُن کی عادات اور اوصاف کی جھلک کو اُن کی شاعری میں اُجاگر کیا ہے، اِس حوالے سے وہ مزید لکھتی ہیں:
’’ اسی طرح ان کی ایک نظم ڈائلما(Dilemma)مکمل نظم بند کہانی ہے۔ بعینہٖ ان کی ویمن ڈے پر لکھی گئی دونوں نظمیں بہت ہی عمدہ احساس بیان کی حامل ہیں ۔ جس میں دِل کا درد بھی ہے اور عورت کی کہانی بھی۔ فرحت صاحبہ کی شاعری محبت کے حقیقی تجربوں کا عکس ہے۔دُکھ ہر محبت کی بنیاد میں چھپے ہوتے ہیں جس کا ایک ہلکا سا عکس اشکوں میں جھلکتا ہے۔ غم دل کے دامن میں پڑے سسک رہے ہوتے ہیں۔ مسکراہٹ سامنے آنے کا کوئی چور دروازہ ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔خوشی ہر موڑ پر بند دریچوں پہ دستک دیتی سنائی دیتی ہے۔ غرض یہ کہ فرحت صاحبہ کی شاعری میں دُکھ سُکھ، محبت، پیار، یقین، اعتبار اور بابل سے پیار اور بچھڑجانے کا احساس سمیت ہر فطری جذبہ موجود ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ محترمہ فرحت نواز صاحبہ کو اﷲ تعالیٰ نے شعر کہنے کے خاص اسلوب سے نوازا ہے وہ شعر و سخن کے باب میں ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ لیے ہوئے داخل ہوئی ہیں جو اقلیمِ سخن میں خوشبو کے ایک خوشگوار جھونکے کی مانند ثابت ہوگا۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ان کو اسی طرح مزید کامیابیوں سے نوازے اور ان کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے۔ آمین! ‘‘ ۲۹؎
(۵) سباس گُل (پرانی شاگردہ)
سباس گُل فرحت نواز کی ایک پرانی شاگردہ ہیں۔اب تو خیر سے وہ خود بھی ایک افسانہ نگار بن چکی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے تین ناول بھی اب تک منظر عام پر آچکے ہیں۔ وہ خواتین کے ایک معروف ڈائجسٹ آنچل میں بہت باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔ وہ فرحت نواز کو ایک نظم کے ذریعے کچھ یوں خراج تحسین پیش کرتی ہیں:
’’ وہ لفظ سونا، وہ حرف چاندی
جو ایک لڑکی نے
اپنے دل کی روشنائی سے
لکھے ہوئے ہیں
وہ لفظ امرت، وہ لفظ قاتل
وہ لفظ آنسو، وہ لفظ خوشبو
جو اُڑ کے تمام عالم میں کہہ گئے ہیں
وہ داستاں جو کہی گئی نہ زباں سے اس کی
وہ داستانِ غم و الم بھی
وہ داستانِ متاعِ جاں بھی
وہ پیار، الفت کے سارے جذبے
اپنے احساس میں بھگو کر
اپنے اطراف میں برس گئی ہے
وہ لڑکی برسوں سے چُپ کھڑی تھی
بالآخر لفظوں کی ڈھال لے کر
چہار سُو وہ برس گئی ہے
سبھی کو حیران کر گئی ہے
بات اگر فرحت بخش احساس کی ہو تو فرحت نواز کے دوست احباب انہیں یقیناً یاد کرتے ہیں۔ محترمہ فرحت نواز صاحبہ ایک نام ،کئی حوالے، کئی رشتے، کئی استعارے اور اپنے بہت پیار کے باعث جانی جاتی ہیں۔ پرانے تعلق کو کس طرح تروتازہ کیا جاتا ہے یہ وقت طے کرتا ہے۔ تعریف ہو کہ عزت، پیار ، احساس، شفقت اور محبت ہو سب خلوص و و فا کے ایسے دھارے ہیں جن کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے۔ ہم بھی شاید برسوں پہلے کی گئی اپنی تعریف کا ادھار چکانے کی سعی کر رہے ہیں۔‘‘ ۳۰؎
سباس گُل فرحت نواز کی شخصیت کو اُس وقت دیکھ پائی ہیں جب فرحت نواز بہ حیثیت اُستاد اپنے فرائض منصبی ادا کر رہی تھیں۔ سباس گل ایک شاگردہ کی حیثیت سے اُن کی شخصیت کے اُن پہلوئوں کی نشاندہی کرتی ہیں جو فرحت نواز کے ہم عمر یا ہم منصب لوگوں کے مقابلے میں اِن کے ماتحت یا شاگرد زیادہ بہتر طور پر مشاہدہ کر سکتے تھے۔ سباس گُل بہ حیثیت اُستاد فرحت نواز کی شخصیت کے اُن پہلوئوں کویوں بیان کرتی ہیں:
’’ اُستاد اپنے شاگردکے لیے یا اپنے ادارے کے کسی ہونہار طالب علم کے لیے مدح و توصیف کے کلمات ادا کرتے تو دکھائی دیتے ہیں لیکن کوئی طالب علم اپنے ادارے کے اُستاد کے علم و فن کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرے ایسا کم کم ہی سننے میں آیا ہے۔ محترمہ فرحت نواز صاحبہ ہمارے کالج میں انگلش کی اُستاد کی حیثیت سے ہمارے حافظے میں آج تک محفوظ ہیں۔ ہم نے ان کی سرپرستی میں کالج کی مختلف ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس دوران ان کو قریب سے دیکھنے ،سننے اور جاننے کا موقع بھی ملا۔محترمہ فرحت نواز صاحبہ اپنے کام کے معاملے میں بہت سرگرم، پر جوش اور ذمے دار شخصیت ہیں۔ کب، کہاں، کیسے ،کیا کام کرنا ہوتا تھا یہ سب ہم ان کی ہدایات کے مطابق کیا کرتے تھے۔ خوش اخلاقی اور خوش مزاجی تو ان کی شخصیت کا حصّہ تھی۔‘‘ ۳۱؎
فرحت نواز کے مجموعۂ کلام کے حوالے سے سباس گل اپنی رائے اور نیک تمنائوں کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں:
’’ جب کالج لائبریری سے ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ ایک دوست کے ذریعے میرے ہاتھوں کی زینت بنی تو محترمہ فرحت نواز کا نام اور اس نام سے جڑی ساری یادوں کے پیڑ بڑے ہو گئے۔ کیا کمال بیان ہے مزاج کا، ماحول کا، بے بسی کاشکوہ بھی ہے، اطلاع بھی ہے کرب کا بیان بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ فرحت نواز صاحبہ کا شعری سفر جاری و ساری رہے گا اور بہت جلد ان کے مداح ان کے دوسری شعری مجموعے سے لطف اندوز ہو پائیں گے۔ ‘‘ ۳۲؎
(۶) جمیلہ طیب (پرانی شاگردہ)
جمیلہ طیب کا رشتہ فرحت نواز سے ایک استاد اور شاگرد کا ہے اور فرحت نواز سے جمیلہ طیب نے جس محبت اور نرم رویے کو پایا اور اس کا تذکرہ جمیلہ کچھ یوں کرتی ہیں:
’’فرحت نواز سے میرا رشتہ ایک استاد اور شاگرد کا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ رشتہ محبت اور احترام میں بدلتا گیا ۔ ۱۹۹۶ء تک میں ان کی شاگردی میں رہی۔ ان چار سالوں میں میں نے کبھی بھی کسی لڑکی یا استاد سے ان کے بارے کچھ غلط نہیں سنا۔ پورے کالج کی ہر دلعزیز استاد تھیں۔ ان کے ساتھ میری پہلی ہی ملاقات میرے دل میں گھر کر گئی۔ ان کا میٹھا لہجہ اور بات کرنے کا خوبصورت انداز مجھے بے حد متاثر کر گیا ۔ان کی شخصیت کا سب سے منفرد پہلو میرے خیال میں یہی ہے کہ ان کے بولنے کا انداز اور دھیما لب و لہجہ ان کو سب سے منفرد بنا دیتا ہے۔ ان کی شاعری کی کتاب ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ ان کی شخصیت کے پر تو پر بھر پور روشنی ڈالتی ہے۔ اس شعری مجموعے میں زندگی کے ہر پہلو کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔‘‘ ۳۳؎
فرحت نواز کی عادات اور شخصیت کے خوبصورت پہلوئوں کے تذکرے کے علاوہ جمیلہ طیب نے فرحت نواز کی شاعری کی خصوصیات کو اُن کے شخصی اوصاف کے پسِ منظر میں کچھ یوں بیان کیا ہے:
’’ میری محبت کی کھیتیاں تو ہری رہیں گی
تم اپنی چاہت کے موسموں کا خیال رکھنا
یہ وہ شعر ہے جو کسی بھی رشتے کی مضبوطی کو بڑی خوشگواریت سے بیان کرتا ہے۔ انہوں نے اپنا ہر رشتہ بہت خوبصورتی اور ایمان داری سے نبھایا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ایک کامیاب زندگی گزار رہی ہیں ۔ میں یہ سمجھتی ہوںکہ محترم شیخ ممتاز صاحب بہت خوش قسمت انسان ہیں کہ ان کو ایسا جیون ساتھی ملا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی جوڑی کو سلامت رکھے اور خوشیوں سے نوازے۔ میرا اور فرحت کا خوبصورت تعلق، میری شادی کے ۱۴ سال گزر جانے کے باوجود بھی، آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے جیسے کہ سالوں پہلے ہوا کرتا تھا۔ اس کی وجہ ان کی شخصیت سے میرا لگائو اور ان کا میرے ساتھ محبت اور شفقت کا برتائو ہے۔ مجھے جب کبھی بھی ان کی ضرورت کسی بھی معاملے میں محسوس ہوئی ہے انہوں نے بہت اچھے انداز میں نہ صرف میری رہنمائی کی بلکہ ہر ممکن طور پر مدد بھی فرمائی۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو ہمیشہ شاد رکھے۔ آمین! ‘‘ ۳۴؎
باب کا جائزہ:
باب اول میںفرحت نواز کی سوانح اور شخصیت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔پیدائش سے لے کر خاندانی پسِ منظر اور اس کے ساتھ تعلیمی سلسلے کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ فرحت نواز نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور جس طرح کے ادبی ماحول نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر ہونے میں مدد دی ، نہ صرف اِس کا تذکرہ موجود ہے بلکہ وہ شخصیات جن کی حوصلہ افزائی اور اور راہ نمائی نے اُن کو ادبی دنیا میں قدم رکھنے اور پھر ایک طویل خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پھر سے تخلیق کی راہوں پر سرگرمِ عمل کیا، اِس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
فرحت نواز اپنے قریبی رشتوں کے علاوہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کی نظر میں کیا مقام رکھتی ہیں اِس کا جائزہ بھی ان شخصیات سے تحریری انٹرویو کی مدد سے پیش کیا گیا ہے۔ بلا شبہ یہ انٹر ویو فرحت نواز کی شخصیت کے اُن مخفی پہلوئوں کو بھی بیان کرتے ہیں جن سے ہر کوئی واقف نہیں۔ فرحت نواز شعبہ درس و تدریس سے وابستہ رہیں اور ایک طویل عرصے تک شعبۂ تعلیم میں اپنے فرائض منصبی نہایت احسن طریقے سے سر انجام دے کر سبکدوش ہوئیں۔ اِس حوالے سے فرحت نواز ایک نہایت ذمہ دار اور معاشرے کی سرگرم اور مفید شہری کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ اِس باب میں فرحت نواز کی تخلیق کردہ اور مرتب شدہ کتب کا مختصر تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ بہ حیثیت ایک خاتون شاعرہ کے فرحت نواز ادبی حلقوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ انہوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنے تخلیقی جوہر دکھائے۔ فرحت نواز کے اس ادبی وصف کا جائزہ اگلے باب میں نہایت مفصل طور پر لیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ دیکھیے ضمیمہ نمبر:۱
۲۔ دیکھیے ضمیمہ نمبر:۲
۳۔ دیکھیے ضمیمہ نمبر ۳
۴۔ سعید احمد سعید، پروفیسر،تاریخ و تعارف ضلع رحیم یار خان، مصنف و ناشر ، پروفیسر سعید احمد سعید، شعبہ اسلامیات، خواجہ فرید گورنمنٹ کالج رحیم یار خان، ۱۹۸۱ء، ص:۴۷۱۔۴۷۰
۵۔ سعید شباب، فرحت نواز کی ادبی دنیا میں واپسی (مضمون) مشمولہ، عکاس، شمارہ ۲۲، عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز،اسلام آباد، فروری ۲۰۱۶ء، ص:۷۱
۶۔ انور سدید ، ڈاکٹر، استعارہ میری ذات کا( مضمون) مشمولہ، سنڈے میگزین ،روز نامہ نوائے وقت ، لاہور، ۱۲ جولائی ۲۰۱۵ء
۷۔ انور سدید، ڈاکٹر، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، جنوری ۱۹۹۲ء، ص: ۲۴۰
۸۔ حیدر قریشی، کھٹی میٹھی یادیں،عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز ،اسلام آباد ، ۲۰۱۳ء ، ص:۱۴۷
۹۔ ایضاً، ص:۱۴۷
۱۰۔ ایضاً، ص:۱۴۸۔۱۴۷
۱۱۔ ایضاً، ص:۱۴۸
۱۲۔ شہناز خانم عابدی ، نسائی زند گی کی جبریت کی عکاس شاعرہ فرحت نواز(مضمون) مشمولہ،عکاس شمارہ ۲۱، عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز ،اسلام آباد، ستمبر ۲۰۱۵ء ، ص: ۱۴۴
۱۳۔ نسیم انجم ، استعارہ میری ذات کا(مضمون) مشمولہ ،روزنامہ ایکسپریس کراچی ، ۲۶ اپریل ۲۰۱۵ء
۱۴۔ زاہد نوید ،حرف نا تمام : کچی عمر سے پکی عمر کا سفر (مضمون)مشمولہ ،روزنامہ نوائے وقت ، راولپنڈی، ۲۹ مارچ ۲۰۱۵ء
۱۵۔ جان عالم ،استعارہ مری ذات کا(مضمون) مشمولہ، عکاس ،شمارہ۲۲، عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز ،اسلام آباد، فروری۲۰۱۶ء، ص:۶۴
۱۶۔ عبداللہ جاوید (پیش لفظ) مشمولہ،استعارہ میری ذات کا ،فرحت نواز ،عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۱۵ء، ص:۱۴،۱۳
۱۷۔ نذر خلیق،ڈاکٹر، فرحت نواز کے فن اور شخصیت کی مختلف جہات (مضمون) مشمولہ، عکاس،شمارہ ۲۳، عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز ، اسلام آباد، جون۲۰۱۶ء،ص: ۱۳۵
۱۸۔ فرحت نواز ، استعارہ مری ذات کا(چند باتیں) ، عکاس،شمارہ ۲۳، عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز ، اسلام آباد، ۲۰۱۵ء، ص:۱۱
۱۹۔ ایضاً، ص:۱۲،۱۱
۲۰۔ حیدر قریشی، اردو ادب کے نوبل پرائز(خاکہ)مشمولہ،عمرِ لا حاصل کا حاصل،میرزا ادیب ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔۶، ۲۰۰۹ء،ص: ۳۳۰، ۳۲۹
۲۱۔ پروین عزیز سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۱۰ جون، ۲۰۱۶ء
۲۲۔ پروین عزیز سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۱۰ جون، ۲۰۱۶ء
۲۳۔ پروین عزیز سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۱۰ جون، ۲۰۱۶ء
۲۴۔ پروین عزیز سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۱۰ جون، ۲۰۱۶ء
۲۵۔ پروین عزیز سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۱۰ جون، ۲۰۱۶ء
۲۶۔ شیخ ممتاز سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۱۱ جولائی ۲۰۱۶ء
۲۷۔ غزنہ ممتاز سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۱۳ جولائی ۲۰۱۶ء
۲۸۔ اِرم رائوسے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۲۲ جولائی ۲۰۱۶ء
۲۹۔ اِرم رائوسے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۲۲ جولائی ۲۰۱۶ء
۳۰۔ سباس گل سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۲ مئی ۲۰۱۶ء
۳۱۔ سباس گل سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۲مئی ۲۰۱۶ء
۳۲۔ سباس گل سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۲مئی ۲۰۱۶ء
۳۳۔ جمیلہ طیب سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۲۴ اپریل، ۲۰۱۶ء
۳۴۔ جمیلہ طیب سے تحریری انٹرویو، از مقالہ نگار بہ سلسلہ سوال نامہ، مرقومہ ۲۴ اپریل، ۲۰۱۶ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔