لگ بھگ بیس سال کے بعد فرحت نوازکی ادبی دنیا میں واپسی ہوئی ہے تو ان کی اچھی پذیرائی ہوئی ہے۔عکاس کے شمارہ نمبر ۲۲ میں اس پذیرائی کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔اس دوران ایبٹ آباد سے نازیہ خلیل عباسی نے اصرار کیا ہے کہ فرحت نواز کی شاعری کے ان پہلوؤں کا بھی ذکر کیا جائے جن پر ابھی بات نہیں کی گئی۔
بے شک فرحت کی نظموں اور غزلوں پر کافی بات ہو رہی ہے لیکن ان کی حمد و نعت اوردعائیہ شاعری پر زیادہ بات نہیں ہوئی۔نازیہ خلیل عباسی کے شدید اصرار کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں فرحت نواز کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری سے بات شروع کرتا ہوں۔
فرحت نواز نے اپنے شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘‘کے شروع میں’’میرے پیارے خدا‘‘کے عنوان کے ساتھ ایک حمدیہ نظم پیش کی ہے۔یہ آزاد نظم کے انداز میں لکھی گئی ہے۔حمدِ باری تعالیٰ کے روایتی انداز سے مختلف انداز اور احساس کے ساتھ لکھی گئی اس نظم کا یہ حصہ ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔
’’میرا نامۂ اعمال
روشن نہیں ہے ذرا
میں نے نیکی نہیں کوئی کی
میری نیت میں اخلاص آیا نہیں
ایک سجدہ بھی ایسا ادا نہ ہوا
جس میں میری طلب
صرف تو ہی رہا
تو رگِ جاں سے بے شک ہے نزدیک تر
مجھ کو اتنی مسافت بھی مشکل لگی‘‘
رگِ جاں سے نزدیک رہنے والے کو یہ کہنا کہ مجھے اتنی مسافت بھی مشکل(لمبی) لگ رہی ہے،دراصل بندگی میں احساسِ ندامت کا سچا اظہار ہے۔اپنی ضرورتوں کے لیے دعا ئیں مانگنا تو ہر انسان کی عادت ہے۔بقول حفیظ جالندھری ؎
جب کوئی تازہ مصیبت ٹوٹتی ہے اے حفیظؔ!
ایک عادت ہے خدا کو یاد کرلیتا ہوں میں
لیکن فرحت نواز کے ہاں بوقتِ ضرورت خدا کو یاد کرنے کے باوجوداس امر کا شدید احساس پایا جاتا ہے کہ کبھی خدا کو صرف اسی کے لیے بھی یاد کیا جانا چاہئے۔جب سجدے کا مقصد صرف اسی کی طلب رہی ہو۔
فرحت نواز کے مجموعہ کی دوسری نظم’’دعائیہ‘‘کے عنوان سے ہے۔
کاش میں تیری عبادت
روزو شب کرتی رہوں
ان سطروں کے ساتھ شروع ہونے والی یہ چھوٹی سی نظم،ان سطروں پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
میرا دنیاوی خداؤں کے لیے نہ سر جھکے
کاش اتنی تو میرے ایمان میں حدت رہے!
یہ معاشرتی سطح کی حق گوئی کی بات ہو سکتی ہے اور سیاسی رنگ میں بھی اس حق گوئی کو دیکھا جا سکتا ہے۔فرحت نواز کے یہ ماہیے بھی حمد کے ذیل میں آتے ہیں۔
دل دنیا کا لوبھی ہے
بخش دے تو مولا
میری غلطی جو بھی ہے
رکھ تو ہی بھرم مولا!
اپنے گناہ گِنوں
یا تیرے کرم مولا!
تُو قدرت والا ہے
میری خطاؤں پر
کیا پردہ ڈالا ہے
فرحت نے چار نعتیں کہی ہیں۔ان میں سے تین نعتیں آزاد نظم کی صورت میں نعتیہ۔۱،نعتیہ۔۲، اور نعتیہ۔۳ ہیں۔چوتھی نعت پابند نظم کی صورت میں ہے ۔اس کا پہلا شعر دعا کے رنگ میں حمد کا شعر کہلا سکتا ہے۔
الہٰی دے مجھے توفیق شانِ مصطفی ؐ لکھوں
قلم زم زم سے دھو لوں پھر محمدؐ مجتبیٰ لکھوں
اسی نعت میں یہ شعر آتا ہے۔
مِری اوقات کیا،ان سے محبت کا کروں دعویٰ
ہے رب ان کا محب،ان کوحبیبِ کبریا لکھوں
اس شعر کا خیال اسے حمد اور نعت کے درمیان کی سرحد پر لا کھڑا کرتا ہے۔یہ بڑا نازک مقام ہوتا ہے۔معمولی سی لغزش بے ادبی بلکہ شرک تک لے جا سکتی ہے۔لیکن فرحت نواز نے ایسی صورت حال کو پورے ادب اور آداب کے ساتھ دیکھا ہے اور پھر اسے اتنے ہی ادب کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
نعتیہ کے عنوان سے ان کی تین نظمیں خیال انگیزی کے حوالے سے روایتی نعت کی بجائے ان کی بہت ہی ذاتی کیفیتوں کو بیان کرتی ہیں۔’’نعتیہ۔۲ ‘‘دیکھیں اور فرحت نواز کی ان ذاتی کیفیات کا اندازہ کریں۔
بتاؤ کوئی ایک ایسا محب
جو یہ کہہ دے کہ تم سب
محبت کرو میرے محبوب سے
اور انعام میں
سب کو جنت بھی دے!
یہ فرحت نواز نے بڑے سادہ الفاظ میں اور بڑی ہی سادگی کے ساتھ بڑی گہری بات کہہ دی ہے۔
فرحت نواز کے ماہیوں میں حمدو نعت کی سرحد پراظہارکامضمون زیادہ نمایاں ہے۔روئے سخن کبھی ایک طرف جاتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی دوسری طرف اور کبھی دونوں طرف۔چند ماہیے دیکھیںاور ان ملی جلی کیفیات کا اندازہ کریں۔
دَم میرا گُھٹ جائے
روضہؐ دیکھے بِنا
دنیا نہ چُھٹ جائے
روضۂ رسولؐ دیکھنے کی خواہش ہے،اس لیے نعتیہ بات ہے لیکن خدا سے دعا ہے کہ روضہ کی زیارت نصیب کردے۔
دل کو کچھ ہوتا ہے
حال سنا کر جب
حاجی کوئی روتا ہے
حج کے ارکان میں خدا اور رسولؐ دونوں کا ذکر رہتا ہے۔
محشر میں کھڑے ہوں گے
پَیر گناہوں کی
دلدل میں گڑے ہوں گے
روزِ محشرمیں حاضری تو بارگاہِ خداوندی میں ہو گی لیکن شفاعت کے لیے ساقیٔ کوثرؐ کی طرف بھی دیکھ رہے ہوں گے۔
جی بھر کے رونا ہے
دل کی سیاہی کو
’’زم زم‘‘ سے دھونا ہے
یہاں خدا اور رسولؐ دونوں سے ان کے مقامات کے حساب سے التجائیہ کیفیت ہے۔لیکن ایک ہی بیان میں دونوں کیفیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔حمد اور نعت کی سرحد دراصل اس مقام کا ادراک بھی ہے ،جہاں رسولؐ کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ کہلاتاہے،جہاں رسولؐ کے آگے آگے بے ادبی کے ساتھ چلنا اللہ کے آگے آگے چلنا قرار پاتا ہے۔فرحت جہاں جہاں ایسے مقامات سے گزری ہیں کامیاب گزر گئی ہیں۔
حمد و نعت کے یہ مضامین براہِ راست حمدیہ و نعتیہ کلام سے ہیں۔ان کے علاوہ اپنی بعض نظموں میں بھی فرحت نے ایسے مضامین کو بیان کیا ہے۔اس کی ایک عمدہ مثال ان کی نظم ’’دعا ‘‘ہے۔بظاہر یہ ماں کی محبت میں کہی گئی نظم ہے لیکن اس کا دعائیہ پہلو اسے بارگاہِ الہٰی میںلاکھڑا کرتا ہے۔
سوہنے ربا!
میری ماں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا
میں اس کو اتنا خوش کر دوں
جس سے میرا؍جنت میں جانا
غیر یقینی نہ رہ جائے
مجھے یقیں ہے
جنت کی نہروں میں ہر دَم بہنے والا دودھ
یقیناََ ماں کے دودھ ایسا ہی ہو گا!
اسی طرح فرحت نواز کی ایک اور نظم ہے’’بن باس میں ایک دعا‘‘۔ بظاہریہ نظم ہندوستانی روایت کے مطابق سیتا اور رام چندرجی کے کرداروں کی یاد دلاتی ہے لیکن نظم کے آخری حصہ میں دعائیہ انداز اس نظم کو بھی فرحت نواز کی شاعری کے دعائیہ حصہ میں لے آتا ہے۔
اور خدا سے ایک دعا ہے
میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہوکہ
جسم کے اندر خواہش کا لوبان سلگ کر بجھ جائے
اور پیاس چمک کر مٹ جائے
میرے مالک!
میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہو کہ دنیا مجھ کو
پھر دوبارہ شک سے دیکھے؍پھر ویسا بہتان لگے!
فرحت نواز کی حمدیہ،نعتیہ اور دعائیہ شاعری بہت مختصر سی ہے لیکن مقدار میں کم ہونے کے باوجودیہ شاعری ان کے جذبات اور احساسات کا سچا اظہار ہے۔ہر چند پہلے میرا اس موضوع پر کچھ لکھنے کی طرف دھیان نہیں گیالیکن یہ مضمون لکھا گیا ہے تو اچھا لگ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=1700