فرحت نواز نے اپنے شعری مجموعے کی ابتدا روایت کی پاسداری کرتے ہوئے حمدیہ اور نعتیہ کلام سے کی۔فرحت نواز حمدیہ کلام میں پورے خلوص، عاجزی اور والہانہ سپردگی کے ساتھ خالقِ حقیقی کی بارگاہ میں سر بسجود نظر آتی ہیں۔ اُن کے کلام میں اُس با برکت اور لائقِ توصیف ذات کی بڑائی اور کبریائی کا اعتراف بھی ملتا ہے اور شاعرہ اپنے دامنِ تر کا تذکرہ نہایت ندامت اور عاجزی سے کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تر دامنی کا احساس اُن کے حمدیہ کلام میں اِک دُعا کا سا اثر پیدا کرتا ہے جس میں فرحت نواز گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اُس ذاتِ باری سے مغفرت کے ساتھ ساتھ اپنی نیت کا اخلاص بھی طلب کرتی ہیں۔
نہایت عاجزی اور انکساری سے اپنی لغزشوں کا اعتراف کرتے ہوئے شاعرہ نیکی کی راہ اور خدا کی رضا کی متلاشی ہیں۔ اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا احساس شاعرہ کے ضمیر کو کچوکے بھی لگاتا ہے لیکن نیکی کی کشش اور چمک کسی طور ماند نہیں پڑتی اور شاعرہ بندگی کے سلیقے ، نیکی کے اجالے اور کذب و دروغ سے دُوری کی تمنائی نظر آتی ہیں۔فرحت نواز کے مجموعہ کلام ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ میں شامل پہلی نظم ’’ میرے پیارے خُدا‘‘ میں تو شاعرہ پورے شدتِ اخلاص سے خالقِ حقیقی سے مخاطب ہیں۔ نظم کا کچھ حصّہ پیشِ خدمت ہے:
ایک سجدہ بھی ایسا ادا نہ ہُوا
جس میں میری طلب
صرف تو ہی رہا
تو رگِ جاں سے بے شک ہے نزدیک تر
مجھ کو اتنی مسافت بھی مشکل لگی
ایک سچے مسلمان کے دل پر گزرنے والی کیفیات کا اظہار فرحت نواز کی شاعری کو ایک خوب صورت رنگ عطا کرتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُن کی نیت کے خلوص اور صداقت کا اظہار بھی ملتا ہے جو دعا کو قبولیت اور ندامت کے آنسوؤں کو بار گاہِ الٰہی میں مغفرت سے نوازنے کی بنیادی شرط ہے۔ فرحت نواز بہ حیثیت مخلوق کے اپنے خالق کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اپنے نامۂ اعمال میں ایسے اعمال کی کمی کا اعتراف کرتی ہیں جو اُن کی مغفرت اور خدا کی رضا کا موجب بن سکیں۔ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کے فضل کی امیدوار ہیں اور اﷲ سے اُس کے خاص کرم کی طلب گار ہیں۔
نظم کے اِس حصّے میں فرحت نواز بندگی کے مقام پر اپنی کوتاہیوں، لغزشوں کا بھرپور اعتراف کرتی نظر آتی ہیں۔ قاری جب فرحت نواز کے اِس اعتراف کو دیکھتا ہے کہ وہ ایک بھی ایسا سجدہ بارگاہِ حق میں کرنے سے قاصر رہیں جس میں اُن کی طلب صرف خدا کی ذات رہی تو بے اختیار کچھ دیر کے لیے فرحت نواز کو فراموش کر کے خود کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ چند مصرعے اِک نام نہاد مسلمان کے مقامِ بندگی پر سوالیہ نشان ثابت ہوتے ہیں۔ قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ہماری عبادتیں اور سجود معبودِ حقیقی کی طلب اور چاہت سے زیادہ اپنی خواہشوں، چاہتوں اور طلب کے اسیر ہیں۔ یہی فرحت نواز کے حمدیہ کلام کی عظمت ہے کہ وہ جس احساس میں خود مبتلا ہیں پڑھنے والا بھی اِسی احساسِ ندامت میں مبتلا ہونے لگتا ہے۔ نظم میں فرحت نواز نے روایتی انداز میںصرف باری تعالیٰ کی حمد و توصیف سے کام نہیں لیا اور نہ ہی خالقِ کائنات کی تعریف میں مختلف تشبیہات و استعارات سے کام لے کر اﷲ تعالیٰ کی قدرت کے نظاروں کی منظر کشی کی بلکہ شاعرہ نے معبود اور بندے کے تعلق میں موجود کمی اور کوتاہی کا اعتراف کیا ہے اور ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ کی ذات کی کبریائی کو نظم کے دوسرے حصّے میں دُعائیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ حیدر قریشی فرحت نواز کی اِس نظم کے پہلے حصّے کے حوالے سے کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’ فرحت نواز نے اپنے شعری مجموعہ ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ کے شروع میں ’’ میرے پیارے خدا‘‘ کے عنوان کے ساتھ ایک حمدیہ نظم پیش کی ہے۔ یہ آزادنظم کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ حمد باری تعالیٰ کے روایتی انداز سے مختلف انداز اور احساس کے ساتھ لکھی گئی اِس نظم کا یہ حصہ ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘
اِس نظم کے دوسرے حصّے میں شاعرہ نہایت پُر خلوص انداز میں خالقِ دو جہاں کے سامنے دستِ سوال کچھ یوں دراز کرتی ہیں،نظم کا دوسرا اور آخری حصّہ ملاحظہ ہو:
خدا
سُن میری التجا
مجھ کو اپنا بنا
بندگی کا مجھے بھی سلیقہ سکھا
کر ہدایت عطا
مجھ میں نیکی جگا
میرے پیارے خدا !!
نسیم انجم اِس ضمن میں فرحت نواز کی مذکورہ نظم کے حوالے سے لکھتی ہیں:
’’ فرحت نواز کی شاعری کی ابتدا حمد ’’ میرے پیارے خدا ‘‘ سے ہوتی ہے ۔ دِل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز التجا کی صورت اختیار کر گئی ہے، رب سے مانگنے کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔‘‘
فرحت نواز کے مجموعۂ کلام میں شامل دوسری حمدیہ نظم میں بھی شاعرہ دُعائیہ انداز میں گناہوں سے دوری اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی تمنائی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنی ذات کی کمی اور کوتاہیوں سے دوری اختیار کر کے سچ اور حق کی راہ پر چلنے کی خواہاں ہیں وہ جانتی ہیں کہ انسان کو نیکی اور اصلاح کی توفیق بھی اُس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک مشیت ایزدی حاصل نہ ہو اور خدا کی رضا حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ خدا کے سامنے دُعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرحت نواز نے بھی اِس نظم میں دُعائیہ انداز میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے دستِ سوال دراز کیا ہے۔ نظم کا عنوان ’’ دُعائیہ‘‘ ہے، نظم کے چند مصرعے حاضرِ خدمت ہیں:
کاش میں تیری عبادت
روزوشب کرتی رہوں
کاش ایسا ہو گناہوں سے مجھے نفرت رہے
کاش اپنے من کو بھی اُجلا رکھوں تن کی طرح
فرحت نواز صرف اﷲ تعالیٰ کے فضل کی تمنائی نہیں بلکہ مسلسل دعا سے اپنے اعمال میں بہتری کی بھی خواہاں ہیں۔ ایک مسلمان جب مسلسل اپنی ذات ، صفات اور اعمال میں کمی کا احساس لیے ہر قدم پر اصلاح کا طلب گار ہوتا ہے تو راستے اُس کے لیے صحیح اور درست سمت کا تعین کرتے ہیں۔ اپنے عمل میں بہتری لائے بغیر صرف اﷲ تعالیٰ کے فضل کا طلب گار بنے رہنا ایک با عمل مسلمان کا شیوہ نہیں۔ بالکل اِسی طرح فرحت نواز بھی دعا کے ساتھ ساتھ روحانی دوا کے لیے بھی سعی کرتی نظر آتی ہیںاور ہر اُس عمل کو اپنانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں جو رضائے الٰہی کو حاصل کرنے کا موجب بنیں۔فرحت نواز کی اِس نظم میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایمان میں حدت عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر انسان بے عمل ہے، ظاہرو باطن میں تضاد ہے تو ایمان کی حدت سے بھی محروم ہے، انسان کی کوشش اور نیکی پر چلنے کی خواہش سے یہ خزانہ حاصل ہو سکتا ہے لیکن اِس کے لیے اﷲ تعالیٰ سے عمل کی توفیق کی دُعا مانگنا بھی ہمارے ایمان کا حصّہ ہے کیونکہ ہدایت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے اور ایک مسلمان کو بارگاہِ الٰہی میں اِس کی طلب کرتے رہنا چاہیے۔حیدر قریشی اِس نظم کے حوالے سے یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’ فرحت نواز کے مجموعہ کی دوسری نظم ’’ دعائیہ‘‘ کے عنوان سے ہے:
کاش میں تیری عبادت
روزوشب کرتی رہوں
اِ ن سطروں کے ساتھ شروع ہونے والی یہ چھوٹی سی نظم، اِن سطروں پر اختتام پذیر ہوتی ہے:
میرا دنیاوی خدائوں کے لیے نہ سر جھکے
کاش اتنی تو میرے ایمان میں حدت رہے!
یہ معاشرتی سطح کی حق گوئی کی بات ہو سکتی ہے اور سیاسی رنگ میں بھی اِس حق گوئی کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘
فرحت نواز کے مجموعۂ کلام ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ میں چار نعتیہ نظمیں شامل ہیں۔ فرحت نواز نے اپنے نعتیہ کلام میں محبوبِ خدا کا ذکر بھی اِس انداز میں کرتی ہیں کہ ذکرِ محبوبِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم میں بھی عاشقِ محبوب یعنی خدائے بزرگ و برتر کی عظمت و کبریائی بھی بیان ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ فرحت نواز کے نعتیہ کلام کو نہ تو نعتیہ کلام کے زمرے میں شامل کر کے تخصیص کی جا سکتی ہے تو نہ ہی بطورحمدیہ کلام۔ جہاںمحبوب خدا کا تذکرہ ہے وہاں خود خدائے بزرگ و برتر کا ذکرِ پاک بھی موجود ہے۔ تیسرا اہم پہلو اِس نظم کا یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے امتی کا محبوبِ خدا سے محبت کرنا بھی اﷲ تعالیٰ کے لیے کیا مقام رکھتا ہے گویا یہ مختصر نظم محبت کی ایک تکون ہے جس میں اﷲ تعالیٰ محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور اُمتِ محمدی ؐباہم محبت کے رشتے سے جُڑے ہیں۔ لہٰذا یہ مختصر نظم اﷲ تعالیٰ سے اس کی محبوب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے تعلق کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ایک امتی کے فرائض کی بھی نشاندہی کرتی ہے جس کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ نظم ملاحظہ ہو:
بتائوکوئی ایسا محب
جو یہ کہہ دے کہ تم سب
محبت کرو میرے محبوب سے
اور انعام میں
سب کو جنت بھی دے
شہناز خانم عابدی لکھتی ہیں:
’’ فرحت نواز عصرِ جدید کی شاعرہ ہیں لیکن اِن کے خیال میں روایات سے مکمل انحراف جدت پسندی کے لوازمات میں نہیں آتا چنانچہ اِن کا یہ شعری مجموعہ ہماری تہذیبی روایت کے مطابق حمدیہ اور نعتیہ کلام سے شروع ہوتا ہے، ہونا بھی چاہیے۔ عقیدت کے اِس کلام کو پڑھتے وقت میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ فرحت نواز نے اِس اصول کو نظر انداز نہیں کیا ’’ باخُدا دیوانہ باش و با محمد ﷺ ہوشیار ‘‘۔ اِن کی نعتوں میں سرشاری کی کیفیت ہے۔‘‘
درِ رسول ﷺ پر حاضری ہر عاشقِ رسولؐ کی اولین خواہش ہے۔ بہت سے نعت گو شعرا نے اپنے نعتیہ کلام میں اِس خواہش کا اظہار کیا ہے اور جِن خوش بخت لوگوں کو یہ سعادت حاصل ہو گئی انہوں نے اِس خوشگوار تجربے اور اِس کی کیفیات کو ایمانی جذبے کی شدت کے ساتھ نعتیہ کلام کا حصّہ بنایا ہے لیکن فرحت نواز درجِ ذیل میں سبز گنبد کی خواب میں زیارت کی سعادت اور اِس کے بعد کی کیفیات کا ذکر نہایت خوب صورتی سے کرتی ہیں۔ نظم پیشِ خدمت ہے:
سبز گنبد دکھائی دیا خواب میں
آنکھ کھلتے ہی پھر
ایسی رحمت کی بارش ہوئی مجھ گناہگار پر
کوئی غم، کوئی خدشہ نہ باقی رہا
پل میں ساری
پریشانیاں دُھل گئیں !
فرحت نواز کے نعتیہ کلام کا ایک منفرد انداز یہ بھی ہے کہ وہ براہِ راست حضرت محمد ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کرنے کی بجائے دوسرے مظاہرِ فطرت سے مخاطب ہو کر حبیبِ خدا ﷺ کی عظمت بیان کرتی ہیں۔ فرحت نواز کے مجموعۂ کلام میں شامل نظم ’’ نعتیہ۔۳‘‘ اِس حوالے سے اہم نظم ہے جس میںتلمیحی اشارہ بھی موجود ہے اور واقعۂ معراج کے حوالے سے آسمان کو مخاطب کر کے شاعرہ آسمان کے رتبے کو اِس حوالے سے اعلیٰ و ارفع قرار دیتی ہیں کہ معراج کی رات حضرت محمد ﷺ نے اپنے قدم مبارک آسمان پر رکھے۔ نظم ملاحظہ ہو:
آسماں
تیرا احسان ہے
اپنے سائے میں رکھا ہے تو نے مجھے
میری اوقات کیا
تیری رتبے میں کیا شان ہے
تجھ پہ معراج کی شب
محمدؐ نے رکھے تھے
اپنے مبارک قدم!
فرحت نواز کی اگلی نظم ’’ نعت‘‘ پابند نظم کی صورت میں لکھی گئی ہے جس میں شاعرہ عاجزی، انکساری اور ندامت کے ساتھ اپنی لغزشوں کا اقرار کرتی ہیں۔ شانِ مصطفی ؐ بیان کرتی ہیںاور خواب میں زیارتِ نبی ؐ سے بہرہ مند ہونے کا اقرار بھی کرتی ہیں۔ نظم میں شاعرہ نے مرکبات کا استعمال بھی نہایت خوب صورتی سے کیا ہے۔ مرکب اضافی اور مرکب عطفی کے استعمال نے اِس نعت کو ایک نغمگی اور شعریت کی خوبی سے نوازا ہے۔ فرحت نواز کی اِس نعت کے حوالے سے حیدر قریشی اپنے تاثرات اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’ فرحت نے چار نعتیں کہی ہیں۔ اِن میں سے تین نعتیں آزاد نظم کی صورت میں نعتیہ۔۱ ، نعتیہ۔۲ اور نعتیہ۔۳ ہیں۔ چوتھی نعت پابند نظم کی صورت میں ہے۔ اِس کا پہلا شعر دُعا کے رنگ میں حمد کا شعر کہلا سکتا ہے:
الٰہی دے مجھے توفیق شانِ مصطفی ؐ لکھوں
قلم زم زم سے دھو لوں پھر محمد ؐ مجتبیٰ لکھوں
اِس نعت میں یہ شعر آتا ہے:
مری اوقات کیا، ان سے محبت کا کروں دعویٰ
ہے رب اِن کا محب، ان کو حبیب کبریا لکھوں
اِس شعر کا خیال اسے حمد اور نعت کے درمیان کی سرحد پر لا کھڑا کرتا ہے، یہ بڑا نازک مقام ہوتا ہے، معمولی سی لغزش بے ادبی بلکہ شرک تک لے جا سکتی ہے لیکن فرحت نواز نے ایسی صورتحال کو پورے ادب اور آداب کے ساتھ دیکھا ہے اور پھر اسے اتنے ہی ادب کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...