فرحت نواز نے شاعری اور تنقید کے علاوہ تراجم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ شاعری کا ترجمہ نہ صرف ایک مشکل بلکہ تخفیفی نوعیت کا کام ہے۔ سرائیکی فرحت نواز کی ماں بولی ہے اور انگریزی زبان وا دب پر بہ حیثیت ایک استاد فرحت نواز کو مکمل دسترس و عبور حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری اور نثر دونوں کے تراجم کے لیے فرحت نواز نے سرائیکی اور انگریزی زبان کا انتخاب کیا۔
٭ فرحت نواز کی کتب کابہ حیثیت مترجم و مرتب مختصر تعارف
’’ڈاکٹر وزیر آغادیاںچونڑویاں نظماں‘‘ فرحت نواز کی پہلی کتاب ہے جس کو فرحت نواز نے سرائیکی ترجمے کے ساتھ ساتھ مرتب بھی کیا۔انہوں نے کتاب کے آخر میں ڈاکٹر وزیر آغاکے شعری مجموعے ’’ نردبان‘‘میں سے چار منتخب نظموں کا سرائیکی ترجمہ کیا۔اس کتاب میں کُل تیس منظومات شامل ہیں جن کو نقوی احمد پوری، مظہر مسعود، حیدر قریشی،اظہر ادیب، صدیق طاہر، قیس فریدی، صفدر صدیق رضی،رفیق احمد پوری،پروین عزیز ، ارشدخالداور ایوب ندیم نے سرائیکی میں ترجمہ کیا۔
فرحت نواز نے اکبر حمیدی کی اردو غزلوں کا انگریزی زبان میں منظوم ترجمہ بھی کیاہے۔ کتاب کا عنوان The Day Shall Dawn ہے، اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے حصے میں شامل غزلیات کو حامد بر گی دوسرے حصّے میں شامل غزلیات کو جمیل آذر جب کہ آخری حصے میں شامل غزلیات اور اشعار کو فر حت نواز نے اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔
فرحت نواز کی ایک اور کتاب ’’ منزلاں تے پندھیڑے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں فرحت نواز نے کُل بائیس افسانے شامل کیے ہیں۔ یہ افسانے نامور افسانہ نگاروں کے افسانے ہیں جن میں کرشن چندر،سعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، ممتاز مفتی، خواجہ احمد عباس،میرزا ادیب،احمد ندیم قاسمی، قراۃ العین حیدر، انتظار حسین اور حیدر قریشی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔فرحت نواز نے ان افسانوں کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کیا۔
فرحت نواز نے مرتب کی حیثیت سے ’’۸۰کے بہترین افسانے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی۔ کتاب کی ابتدامیں گفتگو کے عنوان سے کتاب اور اس میں موجود افسانوں کے انتخاب کے حوالے سے فرحت نواز کا ایک مضمون بھی شامل ہے جس کو پڑھ کر فرحت نواز کے تنقیدی شعور کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔اس کتاب میں بھی اردو زبان کے اٹھائیس افسانے شامل ہیں۔ یہ تمام افسانے اسّی کی دہائی میں منظر عام پر آئے اور تمام کہانیاں ہمارے معاشرے کے کی سماجی ، سیاسی یا کسی بھی اور المیے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ترجمہ ایک نہایت محنت طلب اور پیچیدہ عمل ہے۔ ترجمہ صرف ایک لفظ کے بدلے متبادل زبان کے لفظ کو رکھ دینے کا عمل نہیں، اس کے لیے ترجمہ نگارکو تحقیقی دیانت، تنقیدی بصیرت اور تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ دونوں زبانوں کی تکنیک، اسلوب، ہیئت ،موضوع اور مواد سے مکمل طور پر آشنا ہونا ضروری ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور ترجمہ کرتے ہوئے اُس زبان کے مزاج کوبرقرار رکھنابھی ایک نہایت ضروری امر ہے ۔
٭ سرائیکی زبان وادب کی مختصر تاریخ
فرحت نواز نے بہ حیثیت مترجم زیادہ کا م سرائیکی زبان میں کیا۔ یعنی انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی منتخب نظموں اور مختلف افسانہ نگاروں کے افسانوں کو سرائیکی میں ترجمہ کیا۔ اس لحاظ سے یہ سرائیکی زبان کی ایک بہت بڑی خدمت ہے کیونکہ ترجمے کے ذریعے سے زبان تقویت حاصل کرتی ہے اور پھلتی پھولتی ہے۔ فرحت نواز کی خدمات ترجمے کے میدان میں جاننے سے قبل ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ سرائیکی زبان کا آغا زکس خطہ سرزمین پر ہوا اس حوالے سے ابن کلیم احسن نظامی لکھتے ہیں:
’’ آج سے تین ہزار سال پہلے اس خطہ قدیم ’’ملتان ‘‘میں آسور قوم کی حکومت تھی ، یہ دور قبل ازمسیح کہلاتاہے زمانے کے حالات وتغیرات کے ساتھ ساتھ اس خطے اور اس کی ’’ بولی‘‘ کا نام بھی بدلتا رہا۔ اِن تبدیل پذیر ناموں میں سے یہاں کی قدیم بولی کا نام ’’آسور کی ‘‘بعد میں ’’آسر کی ‘‘پھر ’’ شراواکی‘‘ اور آخر میں موجودہ نام ’’ سرائیکی‘‘ ہوا۔ اسی طرح دنیا کے اس قدیم خطے کا نام بھی ملیتھان ، مولتان اور پھر ’’ملتان ‘‘زبان زد ِعام ہوا۔‘‘ ۱؎
سرائیکی زبان کی جائے پیدائش ملتان ہے اور ہر زبان کی طرح یہ زبان بھی ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے بہت سی تبد یلیوں اور اضافوں سے دوچار ہوئی اور جب یہ قدرے مستحکم ہوگئی تواس میں اضافے کیے جانے لگے اور چونکہ اس سرزمین پر ۹۳ہجری میں محمد بن قاسم کی لڑائی کے بعد علم وادب کا مرکز اور ماخذ مذہب اسلام تھا۔ اس حوالے سے نامور صوفیاء، اولیا کرام اورعلمائے کرام نے اپنا کردار اداکیا۔ اس دور کے حوالے سے ابن کلیم احسن نظامی لکھتے ہیں:
’’سر زمین ملتان کی قدیم لائبریریوں، کتب خانوں اور بعض علم دوست گھرانوں کی ذاتی ملکیت میں قرآن پاک کے عربی متن کے ساتھ سرائیکی ترجمے موجود تھے ۔ دیگر قیمتی قلمی کتب ہزاروں کی تعداد میں موجود تھیں جن میں سرائیکی زبان کی انشاپر دازی اور اس کی گرائمرکے بارے میں مستندلغات (ڈکشنریاں )آج سے دو صدی قبل موجود تھیں۔‘‘ ۲؎
سرائیکی علم وادب کو شدید نقصان اس وقت پہنچایا گیا جب یہ علاقہ غیر مسلم اقوام کے زیر تسلط آگیا اور ماضی کے بہت سے حملہ آوروں کی طرح اس بار بھی سب سے زیادہ لوٹ مار اور قتل وغارت کے علاوہ کتب خانوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔یوں سرائیکی زبان میں جو علمی خزانے موجود تھے ان کا نام ونشان بھی مٹادیا گیا جس کی تفصیل ابن کلیم احسن نظامی یوںبیان کرتے ہیں:
’’پریشان کن صورتحال سرائیکی خطہ،اس کے لوگوں اور سرائیکی لسانیات وادب کے ساتھ اس وقت پیش آئی جب ۱۸۱۸ء میں سرزمین ملتان کے سکون کو سکھ شاہی دورنے تاراج کیا۔ ملتان کے آخری مقامی معزز فرمانروا نواب مظفر خان شہیدؒ کو پورے خانوادے سمیت تہہ تیغ کر دیا گیااور اعلان عام کر دیا گیا کہ مساجد کو اصطبل بنادیا جائے اور مسلمانوں کے علم وفن کو یکسر تباہ کر دیا جائے ۔ پھر کیا تھاسکھوں، ہندوئوں اور ان کے گماشتوں ، لوٹ مار کرنے والے خونخوار لوگوں نے سرائیکی خطے کے امن کو تہہ وبالا کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی دھرتی اور اسلامی اقدار سے والہانہ پیا ر کر نے والوں کو تہہ تیغ کرکے خون کی ندیا ں بہادی گئیں تو دوسری طرف کتب خانوں میں نادر کتابوں قیمتی لسانیاتی تحقیقی مواد غرض کہ قرآن پاک کے قلمی نسخوں تک کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا جو صلیبی جنگوں کے دوران ماضی میں مسلمانوں کے عظیم علمی وتحقیقی مرکز سپین کے ساتھ رونما ہوا تھا۔ اس وقت بھی مسلمانوں کے تما م علمی ، ادبی اور لسانی آثار وکتب خانے جلادیے گئے تھے اسی طرح سکھ شاہی دور میں اس سرائیکی خطہ کو اکتیس ’۳۱‘برس تک تاراج کیاگیا ، اس کی ثقا فت اور لسانی تشخص کو بگاڑنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے۔ ‘‘ ۳؎
تباہی وبربادی کی یہ داستان تھمی نہیں بلکہ جب ہندوئوں اور سکھوں کے بعد انگریزوںنے اس خطہ سر زمین پر حملہ کیا تو رہی سہی کسر انہوں نے پوری کر دی گویا سرائیکی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس زبان کو مستحکم ہونے سے پہلے ہی اس کے تحریری خزانوں کو آنے والی نسلوں میں منتقل ہونے سے پہلے چھین کر مٹادیا گیا۔ اسی طرح کئی سو سال کا سفر کر کے اس مقام تک پہنچنے والی زبان پھر سے تہی دامن رہ گئی ۔ اس قیامت اور ہولناکی کو ابن کلیم احسن نظامی یوں بیان کرتے ہیں:
’’۱۸۴۹ء میں جب انگریزوں نے اس خطے پر چڑھائی کی تو رہی سہی کسر انہوں نے نکال دی۔ عید گاہ میں تو پیں نصب کرکے گولے پھینکے گئے تو قلعہ ملتان تباہ ہوکر کھنڈر بن گیا۔ تقریبا ایک سو سال تک بدیسی حکمرانوں نے ہمارے کلچر ، زبان حتیٰ کہ ہماری آزادی کو جی بھرکے پائمال کیا۔ تمام سرائیکی علاقوںکا مرکز قدیم زمانہ سے ہی ملتان رہاہے۔ ڈیرہ غازی خان جھنگ یا بہاولپور وغیرہ اس کے گردونواح شمارہوتے تھے تو ظاہر ہے کہ زمانہ کی چیرہ دستیوں سے مجموعی طور پر مغموم اور یتیم ہوکر رہ گیا۔ ‘‘ ۴؎
ان حالات میں سرائیکی زبان کو علمی اور تحریر ی میدان میں نئے سرے سے سفر کرنا پڑا ۔ اور ہر دور میں آنے والے علماء شعرا، ادبا نے اپنا اپنا کردار نبھایا اور پھر ترجمہ نگاری سے اس زبان کو دوسری بڑی زبانوں کی چاشنی اور آہنگ سے متعارف کروانے کی سعی کی جاتی رہی اور یوںسرائیکی زبان کو تقویت دی جانے لگی۔
٭ ترجمہ کی ضرورت :
سرائیکی زبان وادب کی مختصر تاریخ کے بیان کا مقصدیہ واضح کرنا تھا۔ کہ اس زبان کو کس طرح ماضی میں نقصان پہنچایا گیا اوراس کے تحریری خزانے کو کس طرح صفحۂ ہستی سے مٹایا گیا۔ ایسے میں حالات ساز گار ہوجانے کے بعد اس زبان سے محبت رکھنے والوں نے اپنے اپنے دور میں اپنے شعبے اور صنف ادب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس زبان میں نہ صرف خود تخلیق کے جو ہر دکھائے بلکہ اس زبان کے دامن کو وسیع کرنے کے لیے سرائیکی زبان میں ترجمے کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا ۔ ترجمے کا عمل کسی زبان اور اس کے بولنے والوں کو بلا واسطہ اور بالواسطہ طور متاثر کرتاہے۔ جب سوچ کے دہارے خشک ہونے لگیں ، تخلیقی عمل سست روی یا یکسانیت کا شکار ہوتو دوسری ترقی یا فتہ زبانوںسے ترقی پذیر زبانوں کوسہارا ملتاہے سوچ اور الفاظ کی وسعت عطاہوتی ہے۔ سرائیکی زبان میں مذہبی کتابوں کی صورت میں بہت کم ذخیرہ رہ گیا تھا لیکن ادبی حوالے سے سرائیکی زبان میں سرمایہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس زبان کو جتنے طویل عرصے تک نقصان پہنچایا گیا اس قدر ہی اب اس کو تقویت پہنچانے کی ضرورت تھی۔ترجمے کا عمل کسی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے اسالیب کو وسعت بخشتاہے اور پڑھنے والے بھی دوسری زبان کے بنیادی مزاج اور تہذیب سے واقف ہونے لگتے ہیں اس کے علاوہ نئی اصناف سخن کو متعارف کروانے کی راہیں کھل جاتی ہیں ۔ترجمے کے عمل کے مثبت اثرات کسی بھی ترقی پذیر زبان کو ترقی کی راہوں میں تیز قدم ہونے میں مد د دیتے ہیں۔ ان اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر جیلانی کا مران لکھتے ہیں:
’’ترجمہ جہاں الفاظ کے ذریعے انسانی علوم میں اضافہ کرتاہے اور ذہن کی سرحدوں کو کشادہ کرنے میں مد د دیتاہے اور اس میں ترجمے کی تمدنی اور ثقافتی ضرورت بھی مضمر ہوتی ہے وہاں ترجمے کا عمل زبان کی ساخت کو بھی متاثر کرتاہے خیالات اور جذبات کو بیان کرنے کے لیے نئے نئے اسلوب مل جاتے ہیں ۔ نئے الفاظ وضع کرنا پڑتے ہیں۔ پرانے الفاظ کو دوبارہ استعمال کرنے سے ان میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ نئے محاورے اور نئے محرکات دستیاب ہوتے ہیں اور نئے علوم سے آشنائی ہوتی ہے علاوہ ازیں نئی نئی اصناف کے ساتھ ذہن کا تعارف ہوتاہے اور فکر اور تحقیق کے لیے نئے سانچے اور نئے اسالیب مل جاتے ہیں۔‘‘ (۵)
ہر زبان کو اپنے ابتدائی دور میں علمی وادبی طور پر مستحکم ہونے کے لیے ترجمے کی ضرورت رہی ہے۔ ترجمے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ایک سے زائد زبانوں کے وجود میں آنے اور مختلف اقوام او ر تہذیبوں کے ایک دوسرے سے معاشرتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے کی ہے۔ اور پھر ترجمے کا عمل بھی وقت اور ضرورت کے مطابق ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے علمی وادبی شعبوں میں اپنے اثرات دکھانے لگا، یوں صرف ایک زبان دوسری زبان کے مزاج وآہنگ اور تہذیبی موضوعات اور اصناف سخن سے آشنا نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں آباد اور ایک ہی ملک میں مختلف بولیاں بولنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے ذہنی ، تہذیبی اور علمی سطح پر قریب لانے کا سبب بنی ۔پروفیسرجیلانی کامران اس حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’ترجمے کی ضرورت تہذیبی نشوونما کے لیے بھی لازمی ہے کیوں کہ تہذیب ایک عرصے کے بعد اپنے سر چشموں کو خشک کر دیتی ہیں اور اپنے آپ میں سے پھر کوئی نئی شے پید ا نہیں کر سکتیں ۔اس طر ح وہ ذہنی علیحدگی اور یک طرفہ تہذیبی تعصب کا شکا ر ہوجاتی ہیںاور اس بیماری کو ترجمے کا عمل دور کرتا ہے۔ قومیں اور تہذیبیں مسافت اور جغرافیے کی دقتوں کے باوجود ایک دوسرے سے آشنا ہوتی ہیں اور انسانوں کے گروہ، مختلف دوسرے گروہوں کو پہنچاننے لگتے ہیں اور انسانی برادری کا چہرہ نظر آنے لگتاہے جس کی جانب انسان ہمیشہ سے سفرکررہا ہے، کئی ایک دوسری سرگرمیوں کی طرح ترجمے کا عمل بھی انسان کو انسان کے قریب تر لاتاہے اور ذہن کی سرحد یں پھیلاتے ہوئے کہتاہے۔ زبانیں مختلف سہی ، مگر انسان ایک غیر منقسم صداقت ہے ۔‘‘ ۶؎
تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر زبان میں نثری، شعری اورہر طرح کے تخلیقی ادب سے پہلے تراجم کے عمل نے کسی نئی زبان کو سہارا دیا۔ خاص طور پراُردو زبان اور اس کے بعد پاکستان کی علاقائی زبانوں سندھی، پنجابی اور سرائیکی کی تاریخ یہی حقیقت بتاتی ہے ۔ بعد ازاں ادباء تراجم شدہ ادب سے متاثر ہو کر تخلیق کی راہیںڈھونڈنے لگتے ہیں گویا ترجمے کا عمل کسی غیر مستحکم زبان کے ادبا ء کے لیے تحریک ثابت ہوتا ہے ۔ ترجمے کا عمل نہ صرف زبان کوبلکہ اس زبان کے ادباء کے لیے بھی سودمند ہے۔ جب ادباء کو ترجمہ شدہ ادب میں الفاظ کی وسعت اور خیال کی منتقلی کی گنجائش نظر آتی ہے تو وہ بھی ان راہوں پر چل کر خود سے نیا ادب تخلیق کرنے کے لیے آمادہ ہونے لگتے ہیں اور کسی زبان کو تقویت دینے کے لیے اُس زبان کے ادباء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ترجمے کے عمل سے اپنا کردار ادا کریں۔انیس ناگی اس نکتے کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’جب شعر وادب ایسی نزاعی موقعیت میں الجھاہوکہ زبان بالیدگی فکر کی متحمل نہ ہو تو اس وقت تمام شاعروں اور ادیبوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ من حیث المجموع شعروادب اور زبان میں مختلف ذرائع سے توانائی پیدا کر یں ، اس کے مزاج ، رنگ وآہنگ اور ذرائع کے امکانات کا جائزہ لیں ۔ ‘‘ ۷؎
کوئی زبان جب ارتقا کے ابتدائی مراحل میں ہوتی ہے تو بلا شبہ ترجمے کا عمل اس زبان کو سہارا دیتاہے لیکن اس حقیقت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہر گز درست نہیں کہ ترجمہ صرف کسی زبان کے ابتدائی مراحل میں اسے تقویت دیتاہے بلکہ ترجمے کا عمل ایک ترقی یافتہ اور مستحکم زبان کے لیے بھی بہت سود مند ثابت ہوتاہے اور ترجمے کی ضرورت ہر دور میں اور زبان کے ہر مرحلے میں ضروری ہے کیوں کہ دنیا میں ہر طرح کے دور اور تیزی سے بدلتی ہوئی روایات واقدار ادب پر اثرانداز ہوتی ہیں اور دنیا میں اپنے مختلف اقوام اور مختلف تہذیبوں کو اپنے اپنے مقام پررہتے ہوئے متعارف کروانے کے لیے سب سے بہترین اور موثر عمل ترجمے کا عمل ہے۔ ڈاکٹر غلام علی الانا لکھتے ہیں:
’’ہر زبان کے نثری ادب میں تخلیقی اور شعری ادب میںپہلے تراجم کا عمل شروع ہوتاہے ہماری زبانوں خصوصا اُردو، سندھی اور پنجابی وغیرہ میں ایساہی ہوا ہے ۔نثری ادب کا دور بیشتر تراجم سے شروع ہوتاہے ہمارے ادیبوں نے ترجمہ شدہ شہ پاروں سے متاثر ہوکر تخلیقی کا م شروع کیا گویا تراجم کے دور ادب کا تخلیقی دور شروع ہوتاہے یعنی تخلیقی ادب کا انحصار بڑی حد تک ترجمہ شدہ پاروں پر ہے ۔ ‘‘ ۸؎
٭ بہ حیثیت مترجم فرحت نواز کی خدما ت کا جائز ہ :
(۱) ڈاکٹر وزیر آغا کی اُردو نظموں کا سرائیکی ترجمہ
’’ ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں‘‘
اس کتاب کے مطالعے سے فرحت نواز کی ادبی خدمات کی دو جہات سامنے آتی ہیں۔ پہلی جہت بہ حیثیت مرتب ہے۔ ن ۔م۔ راشد اور میرا جی نے اُردو شاعری میں جس نئی نظم کی بنیادڈالی اور اسی ڈگر پر چلتے ہوئے جو ڈاکٹر وزیر آغا نے نظمیں تخلیق کیں تو ترجمے کے عمل سے ان نظموں اور ان کے نئے انداز، اسلوب اور موضوعات کو سرائیکی ادب سے متعارف کروانے کا کام فرحت نواز نے کیا۔ اگرچہ اس کتاب میںشامل کل تیس نظموں میں سے چار نظموں کا ترجمہ خود فرحت نواز نے کیا جب کہ باقی نظموں کا ترجمہ دوسرے ترجمہ نگاروں نے کیا جن کاذکر پہلے کیا جا چکا ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم ’’ازل سے ابد تک ‘‘کو فرحت نوازنے ’’ازل توںابدتئیں ‘‘کے عنوان سے ترجمہ کیا ذیل میں نظم کا آخری حصہ پیش خدمت ہے جو وزیر آغا کی نظموں کے مجموعے ’’نر دبان ‘‘میں شامل ہے ۔ نظم دیکھیے:
میں تار نظر ہوں
میں سیال سارا بطہ ہوں
مقدرمیں میرے لکھا ہے کہ میںسانس بن کر
اک اک تن میں اتروں ، اک اک تن سے باہر کو آئوں
زمانوں کو تازہ لہو کی حرارت مہیا کروں
ہست کو نیست ہونے سے ہر دم بچائوں
مگر اپنی خاطر کوئی جسم ہر گز نہ مانگوں
کسی ایک منزل پر رکنے نہ پائوں
عجب فیصلہ ہے
عجب یہ سزا ہے
ازل اور ابدکی مسافت میں جھونکے کی صورت میںاڑتا پھروں
اپنی صورت کو تر ساکروں
اپنی تجرید میں خوش رہوں
اور زندہ رہوں
اور زندہ رہوں ۹؎
مصنف سے زیادہ مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں کسی صنف ادب کا ترجمہ کر رہا ہے اس سے پوری طرح واقف ہو اور اس صنفِ نثر یا صنفِ نظم کی خوبیوں اور خامیوں اور ان کے اندر ممکنہ تبد یلیوں سے واقفیت ہونا بھی ضروری ہے۔ فرحت نواز کا بہ حیثیت شاعرہ مختلف اصناف نظم میں تخلیقی کام شائع ہوچکاہے اور ان کا شمار رحیم یار خان کی جانی پہچانی شاعرات میں ہوتاہے اس لحاظ سے وہ فنِ شعر اور اس کی باریکیوںسے بھی واقفیت رکھتی ہیں۔ ترجمہ ایک دشوار فن ہے اس فن میںبھی ترجمہ نگار کومصنف کے پائے سے بلند یا کم ازکم علم وقابلیت کے لحاظ سے برابر ہونا چاہیے بالکل جس طرح ایک نقاد کو میدان نقد میں اتر نے سے پہلے یہ یقین پوری غیر جانب داری کے ساتھ کرلینا چاہیے کہ وہ جس مصنف یا ادب پارے پر تنقید کرنے جارہا ہے اس میدان میں اس کا تجربہ ، علم اور قابلیت مد مقابل سے زیادہ نہیں تو کم کسی طور نہ ہو۔ فرحت نواز ڈاکٹر وزیر آغا کی تصا نیف کی مستقل اور مسلسل قاریہ رہی ہیں ان کے تنقیدی مضامین اس حوالے سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا بہ حیثیت شاعرہ انہوں نے وزیر آغا کی اردو شاعری کو سرائیکی زبان سے محبت رکھنے والوں کے لیے اور سرائیکی زبان کو آزاد نظموں کا ذائقہ بخشنے کے لیے ان منظومات کو سرائیکی میں ترجمہ کیا۔نظم ملاحظہ ہو:
میں اکھیں دی تار آں
میں ونہدا ہویا رابطہ ہاں
مقد ر میڈے وچ اے لکھیائے جو
میں ساہ بن تے ہک ہک دے سینے وچ اتراں
میں ہک ہک دے سینے توں باہر ڈوآواں
زمانے کوں تازے لہودی میں گرمی پچاواں
اتے ’’ہست ‘‘کوں’’ نیست‘‘ ہوون توں ہر دم بچاواں
پر آپ اپنی خاطر کئی جسم ہر گزنہ منگاں
کہیں ہک منز ل دے اتے نہ رکاں
عجب فیصلہ ہے
عجب اے سزا ہے
ازل تے ابد دے پندھیڑ یں وچ پینگھے وانگوں
میں اڈراں ودا
اپنی صورت کوں سکّاں
اتے اپنی تجرید وچ خوش رہاں
اتے جیند ارہواں ۱۰؎
کوئی ادب پارہ جب ترجمے کے عمل سے گزرتاہے تو وہ نہ صرف کسی دوسری زبان میں منتقل ہوکر اس زبان کو تقویت دیتاہے بلکہ مترجم کو مصنف کے تجربات سے بھی واسطہ پڑتاہے ۔ مترجم صرف الفاظ کے ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن میں اتر کر درست الفاظ کے انتخاب کی سعی کرتاہے اور اس جستجو میں مفہوم کی کھوج میں مترجم کی حیثیت سے ایک ذمہ داری نبھانے کا تجربہ حاصل کرلیتا ہے تو اس کے بعد آنے والی تصانیف میں شعوری اور غیر شعوری دونوں لحاظ سے مزید بہتری آتی ہے ۔لیکن ضروری نہیں کہ ایک نقاد یا ایک مترجم خود بھی ایک تخلیق کار ہو لیکن اگر وہ تخلیق کار ہے تو ترجمے کا عمل اس کی تربیت میںبھی اہم کردار اداکرتاہے۔ فرحت نواز نے وزیر آغا کی ایسی نظموں کا انتخاب کیا جس میں اُردوکے بہت سے الفاظ جو سرائیکی میں مستعمل نہیں ہیں نہایت غیر محسوس طریقے سے سرائیکی ترجمے میں پرودیے ہیں۔ وزیر آغا کی دوسری نظم ’’عجیب ہے یہ سلسلہ ‘‘ ہے جس کوفرحت نوازنے ترجمے کے لیے منتخب کیا۔ نظم کا ابتدائی حصہ ملاحظہ ہو:
عجیب ہے یہ سلسلہ
یہ سلسلہ عجیب ہے
ہوا چلے —تو کھیتوں میں دھوم چہچہوںکی ہے
ہوارُکے —تو مردنی ہے
مُردنی کی راکھ کا نزول ہے
کہاں ہے تُو——-کہاں ہے تُو؟
کہاں نہیں ہے تُو——بتا
ابھی تھا تیرے گرتے اڑتے آنچلوں کا سلسلہ
اور اب افق پر دُور تک
گئے دنوں کی دُھول ہے
گئے دنوں کی دُھول کا یہ سلسلہ فضول ہے
میں رو سکوں
تو کیا یہ گدلی کائنات دُھل سکے گی
میرے آنسوئوں کے جھاگ سے؟ ۱۱؎
جس طرح ہر بولی بڑی زبان سے اثرات قبول کرتی ہے اِس طرح سرائیکی زبان نے بھی اُردو زبان کے بہت سے الفاظ کو اپنے دامن میں جگہ دی ۔ اس حوالے سے ترجمہ نگاروں پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بولی کو بڑی زبان سے تقویت دیں۔ ترجمہ ایک مشکل فن ہے کیوں کہ ایک زبان کو اپنے آہنگ کے ساتھ دوسری زبان میں منتقل کرنا آسان نہیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مترجم دونوں زبانوں کی لغات پر قدرت کے ساتھ ساتھ دونوں زبانوں کے مزاج، آہنگ، اسلوب سے بھی اس حد تک واقفیت رکھتا ہو کہ جب وہ کسی نثر پارے یا تخلیق کو ترجمے کے عمل سے گزارے تو زبان کی سلاست اور روانی میں ابہام کی خامی نہ رہ جائے۔ یعنی کامیاب ابلاغ کا ہونا ہی کامیاب ترجمے کے لیے ضروری ہے۔فرحت نواز چونکہ دونوں زبانوں کے مزاج اورآہنگ سے واقف ہیں اس لیے انہوں نے اُردو سے سرائیکی میں منظوم ترجموں کے کامیاب تجربے کیے ہیں جس میں ابہام کا نقص باقی نہیں رہا۔ درج ذیل نظم مثال کے طور پر حاضرِ خدمت ہے:
عجیب ہے اے سلسلہ
اے سلسلہ عجیب ہے
ہوا گھلّے تاں پکھی کھیتاں وچ مچاون آن دُھم
ہوا رُکے —–تاں مُردنی ہے
مُردنی دی کیری کِردی پئی اے ہن
کِتھاں ہیں توں— کتھاں ہیں توں؟
کِتھاں تو کائنی وی—ڈسا؟
ہنڑیں ہا تیڈے ڈھیندے اُڈ دے پوچھنیں دا سلسلہ
اتے ہن آسمان اُتے کتنی پرے پرے تئیں
گئے ڈینہاں دی دُھوڑ ہے
گئے ڈینہاں دی دُھوڑ، اے سلسلہ فضول ہے
میں روسکاں
تاں میل بھریا اے جہاں
کیا دُھیج ویسی میڈے ہنجواں دی جھگ نال؟ ۱۲؎
سیّد غفران الجیلی لکھتے ہیں:
’’ ایک اچھا ترجمہ تخلیقی ہوتا ہے اِس لیے کہ ترجمہ سے متبادل اور مترادف الفاظ کی تلاش کرنا نہیں بلکہ اِن افراد کی رہنمائی مقصودہوتی ہے جو دوسری زبان کو نہیں جانتے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے افراد کے لیے غیر زبان کے مفاہیم کو ان کی اپنی زبان اور اسلوب بیان میں بتانا پڑتا ہے اور یہ ایک اعتبار سے بازیافت کا عمل ہے اصل کو پڑھ کر اسے ترجمے کی زبان میں اس کے روز مرہ اور محاورے کے مطابق بیان کرنا کسی تخلیق سے کم نہیں ہوتا۔ ‘‘ ۱۳؎
فرحت نواز نے ڈاکٹر وزیر آغا کی جن نظموں کا سرائیکی میں ترجمہ کیا اُن پر طبع زاد ہونے کا گماں ہوتا ہے۔اصل نظم کو پڑھے بغیر مفہوم اور شعریت کا ابلاغ ہوتا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فرحت نواز خود بھی شاعرہ ہیں وہ ایک مترجم کے ساتھ ساتھ بہ حیثیت شاعرہ آزاد نظموں کے مزاج سے پوری طرح واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی نظموں کو اپنے بھرپور تاثر کے ساتھ سرائیکی زبان میں منتقل کیا ہے۔ مثال کے طور پر وزیر آغا کی نظم ’’ حادثہ‘‘ کا آخری حصّہ ملاحظہ ہو:
ہر بچے کو
اُڑتی تتلی سرگوشی میں بتلاتی ہے
ماں تیری ، ندیا کے اندر
دُودھ کا اِک مشکیزہ لے کر
تیرا رستہ دیکھ رہی ہے!
کون بتائے ان بچوں کو
ماں ندیا کے اندر کب ہے!
ماں تو خود اک تیز ندی ہے
ماں—اِک دودھ بھری ندی ہے ۱۴؎
درج بالا نظم کو فرحت نواز نے نہایت عمدگی اور تاثر کے ساتھ اُردو سے سرائیکی میں منتقل کیا ہے۔ فرحت نواز نے اُردو جیسی بڑی اور مستحکم زبان کے سامنے سرائیکی زبان کو پورے قد اور پوری حلاوت کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے۔ فرحت نواز کے کیے جانے والے ترجموں میں جہاں فنِ ترجمہ کے باقی اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ہے وہاں سرائیکی زبان کی چاشنی اور حلاوت کو بھی برقرا رکھا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو:
ہر ہِک بال کُوں
اُڈدی پوپٹ کَن وچ آن تے ہولے نال اکھیندی اے
تیڈی ماء—نہر دے اندروں
مِٹھے کِھیر دی مَشک بھرتے
تیڈی تانگھ تکیندی پئی اے
کون انہاں بالاں کُوں ڈسّے
ماء نہر دے اندرکِتھ اے
ماء تاں خود ہِک تیز نہر ہے
کِھیر دی بھری–مٹھی مٹھی ۱۵؎
اس نظم میں سرائیکی زبان کی چاشنی اور حلاوت مکمل طور پر ابھر کے سامنے آئی ہے اور نظم کا ترجمہ نظم کے مرکزی خیال کا بھرپور تاثر کے ساتھ ترجمانی کرتا ہے۔شہبازحسین لکھتے ہیں:
’’ ترجمہ محض ایک زبان کے خیالات کو دوسری زبان میںپلٹ دینے کا نام نہیں ہے بلکہ خیالات اور جذبات کو اِس ترتیب کے ساتھ منتقل کرنے کا نام ہے کہ مصنف نے کس جگہ پر زور دیا ہے۔ کہاں پر طنز ہے، کہاں پر محاورہ یا روز مرّہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ صحیح ہے کہ ترجمے میںاصل ساری خوبیاں نہیں پیدا کی جا سکتیں لیکن بہت سے خوبیاں ضرور سموئی جا سکتی ہیں۔‘‘ ۱۶؎
فرحت نواز نے خیالات اور جذبات کو بھی نہایت مرتب انداز میں اپنے تراجم میں منتقل کیا ہے۔ خاص طور پر شاعری تو نام ہی جذبات و احساسات کے اظہار کا ہے۔ اگر ایک مترجم صرف زبان کے الفاظ کو دوسری زبان میں پلٹ دے تو وہ کامیاب مترجم نہیں کہلا سکتا۔ شاعری کے حُسن، نزاکت کو برقرار رکھنا بھی ایک کامیاب مترجم کی ذمّہ داری ہے ورنہ ترجمہ اپنا تاثر اور حسن کھو بیٹھے گا۔ اس حوالے سے فرحت نواز نے اپنی ذمّہ داری کس خوبی سے نبھائی ہے اس کے لیے ڈاکٹروزیر آغا کی اصل نظم کا مطالعہ ضروری ہے۔ نظم ’’ دعا‘‘ کا ابتدائی حصّہ ملاحظہ ہو:
بیاضِ شب وروز پر دستخط تیرے قدموں کے ہوں
بدن کے پسینے سے قرنوں کے اوراق مہکیں
صبا تیرے رستے سے کنکر ہٹائے
فلک پر گرجتا ہوا گرم بادل
ترے تن کی قوس و قزح کا
لرزتا ، دمکتا ہوا کوئی منظر دکھائے
تجھے ہر قدم پر ملیں منزلیں
ہوا کے ایک باریک سے تیز چابک کی صورت
تری مُٹھی میں دبکی رہے
سدا تجھ کو حیرت سے دیکھے زمانہ
تو بہتے ہوئے تیز دھاروں کی منزل بنے
بادباں سارے تیری ہی جانب کُھلیں
اور افق کی منڈیروں پہ کُوزوں کی لمبی قطاریں
تری منتظر ہوں ۱۷؎
وزیر آغاکی درج بالا نظم اپنے موضوع، اسلوب اور تراکیب و الفاظ کے حوالے سے ایک سنجیدہ نظم ہے۔ اگرچہ اس نظم کا ابلاغ تو باذوق قاری کے لیے ممکن ہے لیکن ایک مترجم کے لیے ایسے موضوع ،اسلوب اور پیرائے اظہار کو اسی نزاکت، لطافت اور ابلاغ کے ساتھ ترجمے میں منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن فرحت نواز نے اس مرحلے کو بھی نہایت کامیابی سے سر کیا۔ جس قدر لطف کا احساس اصل نظم کو پڑھ کر ہوتا ہے ترجمے کو پڑھ کر بھی وہی تاثر ابھرتا ہے اور سرائیکی زبان کی خوبصورتی اور وسعت کا اندازہ زیادہ بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ نظم ’’ دعا‘‘ کا سرائیکی ترجمہ پیش خدمت ہے:
جیہاڑیںدے پنّیں تے دسخط تیڈے سوہنے پیریں دے ہوون
تے تیڈے پسیین دی خوشبوں توں صدیاں دے ورقے مہکن
اے ٹھڈڑی ہوا تیڈے رستے توں روڑے ہٹاوے
تے آسماں تے گجدا و جدا جھڑ
تیڈے تن دے رنگیں دی کھلدی ہوئی پینگھ وے
جیویں ڈکدے، چمکدے ہوئے کتنے منظر ڈکھا وے
تیکوں ہر قدم تے مِلن منزلاں
ہوا ہِک پتلے تے تِکھے چھانٹے دے وانگوں
ہمیشہ تیڈی مٹھی وِچ بند رہے
ہمیشہ تیکوں ویڑا تھی تھی تے دیکھے زمانہ
توں وہندے ہوئے تکھے دھاریاں دی منزل بنیں
تے سِڑھ کشتیاں دے سبھے تیڈے پاسے کُھلن
پر ے آسمانیں تے کوزیں دیاں لمبیاں قطاراں
تیڈی راہ ڈیکھن ۱۸؎
فرحت نواز نے ڈاکٹر وزیر آغا کا مطالعہ مختلف اصناف ِ ادب میں کیا ہے جس کا ذکر وہ اپنے تنقیدی مضامین میں کر چکی ہیں۔ وہ ڈاکٹروزیر آغا کے اسلوب اور مزاج سے اچھی طرح آشنا ہیں اور ایک شاعرہ کی حیثیت سے بھی انہوں نے خود وزیر آغا سے شعوری اور غیر شعوری طور پر بہت کچھ سیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی نظموں کے تراجم کرتے وقت صرف الفاظ کو ہی دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا بلکہ سرائیکی زبان کے بنیادی مزاج اور آہنگ کو برقرار رکھتے ہوئے ڈاکٹروزیر آغا کے اسلوب، احساسات اور جذبات کو بھی اِن نظموں میں منتقل کیا ہے اور بہ حیثیت ترجمہ نگار یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
(۲) اکبر حمید ی کی اُردو غزلوں کا انگریزی ترجمہ:
The Day shall Dawn
فرحت نواز نے اکبر حمیدی کی اُردو غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ شعبۂ درس و تدریس میں فرحت نواز کی پہچان انگریزی زبان وا دب رہی۔ وہ انگریزی زبان وا دب کا وسیع مطالعہ رکھتی ہیں۔ اُردو ادباء کے ساتھ ساتھ انگریزی ادبا کے مطالعہ نے ان کی نظر ،سوچ اور تجربے کو وسعت بخشی۔ فرحت نواز نے اکبر حمیدی کے انشائیوں ، ریڈیو کالموں اور شاعری کا مطالعہ کیا اور اس پر تنقیدی مضامین بھی لکھے لہٰذا مصنف سے واقفیت نے اور طبعی مماثلت نے بہ حیثیت ترجمہ نگار فرحت نواز کو کامیابی عطا کی ۔ اپنے مضمون ’’ فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث‘‘ میں مظفر علی سیّد لکھتے ہیں:
’’ فن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ محض تعلیم و تعلّم سے نہیں آتا اگرچہ اس میں بھی ایک عنصر ہنر کا ضرور ہوتا ہے جو ماہرانہ تربیت سے نکھر سکتا ہے لیکن ترجمے کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دوہری تہری صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ متن کی زبان اور اپنی زبان تو خیر آنی ہی چاہیے ، اس موضوع سے بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے، مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی طبعی مماثلت لازمی ہے اور اس صنف ادب یا شاخِ علم سے بھی، جس سے متن پیوست ہے۔ مترجم کو پیوستگی ہو، تب شاید ترجمہ چالو معیار سے اوپر اُٹھ سکے۔‘‘ ۱۹؎
اکبر حمیدی کی غزلوں کا ترجمہ”The Day shall Dawn”کے نام سے ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا جس میں شامل بارہ غزلیات کا ترجمہ فرحت نواز نے کیا۔ نثر کو نثر میں ترجمہ کرتے ہوئے ایک ترجمہ نگار کو اُس نوعیت کے مسائل کا سامنا نہیں ہوتا جتنا کہ شاعری کو ترجمہ کرنے کی صورت میں ایک مترجم کو درپیش ہوتا ہے۔ شاعری چونکہ جذبات و احساسات کی براہ راست خالص ترجمانی کانام ہے اور ہر زبان کا مزاج بھی دوسری زبان کے مزاج سے مختلف ہوتا ہے اگر اردو اور انگریزی کا موازنہ کیا جائے تو بہت سے نثر پارے انگریزی سے اُردو میں ترجمے کے عمل سے گزر کر سامنے آئے لیکن فرحت نواز نے اکبر حمیدی کی اردو غزلوں کو تمام تر فنی نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انگریزی میں منتقل کیا۔ مثال کے طور پر درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
’’ صبا کا ہاتھ لے ہاتھوں میں چل آہستہ آہستہ
کھلے گا تیرے دل کا بھی کنول آہستہ آہستہ
یہ کانٹے پھول بن جائیں گے تیرے پائوں کوچھو کر
تو اپنے پھول سے قدموں پہ چل آہستہ آہستہ
بھڑک اٹھنے سے سرمائی سیہ راتیں نہ گزریں گی
چراغِ زندگی طاقوں میں جل آہستہ آہستہ ۲۰؎
جب ایک مترجم ترجمے کے عمل سے گزرتا ہے تو وہ فکری سطح پر ایک تخلیق کار کی طرح آزاد نہیں ہوتا بلکہ وہ اصل فن پارے کے ساتھ بندھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مترجم اصل لفظ کی جگہ متبادل زبان کا لفظ رکھ کر اپنا فرض ادا کرتا ہے تو اسے ہم لفظی یا مشینی ترجمہ کہہ سکتے ہیں تخلیقی یا ادبی غایت کا ترجمہ نہیں کہہ سکتے اس کے لیے ضروری ہے کہ اصل شاعری جس کا ترجمہ کرنا مقصود ہو وہ مترجم کے ذہن میں اس طرح رچ بس جائے کہ وہ پھر سے اُسے تخلیق کرے۔ یوں اس شاعری کی ادبی قدروقیمت بر قرار رہے گی اور اس کی تاثیر بھی قائم رہے گی۔ فرحت نواز نے اکبر حمیدی کی غزلوں کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا اور اکبر حمیدی کی درج بالا غزل کے منتخب کردہ اشعار کو بھرپور تاثر اور شعریت کے ساتھ انگریزی میں منتقل کیا ترجمہ پیش خدمت ہے:
Walk softly, hand in hand with cool breeze,
Slowly will bloom your lily for you to please
These thorns will become flowers under your feet,
Tread tenderly, dear friend, to you I entreat
Your glaring will not brignten the cold dark night,
out of your shelf, O lamp of life, gently give light. ۲۱؎
ترجمہ کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں اس کے بہت سے تقاضے ہیں جس سے ایک ترجمہ نگار کو گزرنا پڑتا ہے ،دو مختلف زبانوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے ایک زبان میں سے دوسری زبان میں مفہوم کو کچھ اس طرح سے منتقل کرنا کہ تحریر ابہام کا شکار نہ ہوایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اکبر حمیدی کی اُردو غزلیات کو انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے فرحت نواز نے اس تقاضے کو احسن طریقے سے پورا کیا ہے۔ ڈاکٹر نوازش علی لکھتے ہیں:
’’ در اصل ترجمہ ایک مشکل فن ہے ،ترجمہ کرتے ہوئے مترجم کو اسی تخلیقی سطح پر آنا پڑتا ہے جس پر اصل فن پارے کی تخلیق ہو ئی۔ اس کام میں چند در چند مشکلات حائل ہوتی ہے اول تو یہ ضروری نہیں کہ دو فن کاروں کی تخلیقی صلاحیتیں ایک ہی سطح کی ہوں اور اگر ایسا ہو بھی تو کسی کے تجربے کو اپنانا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے ہر تخلیقی فنکار کا اپنا تجربہ ہوتا ہے جو مترجم کا تجربہ نہیں بن سکتا۔ ‘‘ ۲۲؎
فرحت نواز کے ترجموں میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے وہ اصل فن پارے کی تخلیقی سطح پر پہنچ کر اسے ترجمے کے عمل سے گزارتی ہیں۔ اگرچہ مصنف اور مترجم کے تجربے اور احساسات و جذبات کی شدت میں فرق ہو سکتا ہے لیکن فرحت نواز نے اصل تخلیق کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اسے ترجمے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ثبوت کے طور پر ذیل میں موجود اُردو میں لکھے گئے اکبر حمیدی کے اشعار اور پھر ان کا انگریزی ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
’’ ذرے کو خورشید قطرے کو سمندر دیکھنا
سب کی قسمت میں کہاں گردن سے اوپر دیکھنا
خواب ہے لیکن یہ کتنا خوبصورت خواب ہے
فاختہ کی چونچ میں شہباز کا پر دیکھنا
ایک عالم کو بلانا گھر میں اچھا ہے مگر
خود بھی کیا موجود ہے تُو گھر کے اندر دیکھنا ‘‘ ۲۳؎
اب ان اشعار کا انگریزی ترجمہ بھی دیکھیے۔ دونوں فن پاروں میں سے اصل اور ترجمہ شدہ فن پارے کی تخصیص کرنا مشکل ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو:
” See the sun in a ray, ocean in a drop,
None is so lucky to see above him top
It’s dream, but how rosy how sleek,
To see a falcon’s feather in a dove’s beak
Tis good to invite all to your arbour
Are you there you must discover.” ۲۴؎
اچھے ترجمے کے لیے موزوں الفاظ کا چنائو کرنا نہایت ضروری ہے، انگریزی ایک وسیع زبان ہے جس میں ایک لفظ کے کئی مترادفات ہیں لیکن مزاج اور تاثر جدا جدا ہیں۔ ایسے میں موزوں ترین لفظ کا انتخاب ہی ترجمے میں اُس تاثر کو منتقل کر سکتا ہے جو اصل تخلیق پارے میں ادا ہوا ہو۔ فرحت نواز نے اپنے انگریزی تراجم میں اس بات کا پورا خیال رکھا ہے اور موزوں ترین الفاظ کو چنا ہے اس کے باوجود کہ انگریزی اور اُردو دونوں زبانیں اپنی تراکیبِ نحوی کے اعتبار سے قدرے مختلف ہیں جس کے بارے میں شان الحق حقی لکھتے ہیں:
’’ در اصل تراجم کے ذریعے ادب کا تبادلہ سب سے زیادہ اطمینان بخش طور پر ہماری پاکستانی زبانوں کے درمیان ہو سکتا ہے جو آپس میں ہم رشتہ ہیں اور مشترک لغات و محاورات و امثال کے علاوہ ان کی تراکیبِ نحوی بھی بڑی حد تک مماثل یا مشترک ہے۔ اس کے برخلاف انگریزی میں ترکیب نحوی الٹ جاتی ہے، سبجیکٹ اور پریڈیکیٹ کہیں کے کہیں جا پڑتے ہیں صوتیات اور عروضی نظام الگ ہے۔ ان دشواریوں کی بنا پر بعض مصنف ترجمے کی نئی تشکیل adaptationکا طریقہ اختیار کرتے ہیں جن میں کردار ماحول جزئیات بدل جاتی ہیں مگر ترجمہ کی غایت علمی ہو یا ادبی، اسے گمراہ کن نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ترجمہ ہے یا صرف اخذ و اکتساب۔‘‘ ۲۵؎
اُردو ایک لشکری زبان ہے اس میں بہت سی زبانوںکے ذائقے گھل مل گئے ہیں اور ارتقا کی مختلف منازل طے کرتے کرتے یہ نہایت شائستہ زبان بن کرابھری جس میں لوچ، گھلاوٹ اور صفائی پیدا ہوئی۔ ذیل میں اکبر حمیدی کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں اور اس کے بعدان اشعار کا انگریزی ترجمہ جس میں فرحت نواز نے ایک کامیاب مترجم ہونے کا ثبوت دیا ہے:
’’ اچھے موسم جب آئیں گے
بادل امرت برسائیں گے
دھرتی ماں سونا بخشے گی
سب محنت کاپھل پائیں گے
سچائی، انصاف،محبت
سپنے سچّے ہو جائیں گے
ٹوٹیں گی کالی دیواریں
پھر ہم تم کو یاد آئیں گے ‘‘ ۲۶؎
درج بالاا شعار کو فرحت نواز نے کمال تاثر اور نغمگی کے ساتھ انگریزی زبان میں منتقل کیا ہے، ترجمہ ملاحظہ ہو:
” Sure the good days will come,
clouds will shower antidote.
The mother earth will render gold
Every one will get his reward.
Truth, justice and love,
Dreams will come true.
Black barriers will be shattered,
Then you will remember me a lot.” ۲۷؎
فرحت نواز نے حامد برگی کی کُل بارہ غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ فرحت نواز نے وجدانی تحریک کے ساتھ اصل نظم یا اشعار کو ذہن میں بسا کر اور اِس کو اپنا کر اپنے الفاظ میں نئے سرے سے تخلیق کیا ہے اور یہی کامیاب ترجمے کی اہم شرط ہے۔فرحت نواز کے تراجم کو ہم اصل کا چربہ نہیں کہہ سکتے بلکہ فرحت نواز شاعری کے تراجم کرتے ہوئے تخلیق کے مشکل عمل سے اس طرح گزری ہیں کہ فکر کو اصل کے ساتھ جوڑے رکھا ہے کیوں کہ ایک مترجم فکری طور پر آزاد نہیں ہوتا ، اُسے بہر حال اصل تخلیق کے دائرے میں ہی رہ کر اپنے تخلیقی جوہر دکھانے پڑتے ہیں اور اِس حوالے سے فرحت نواز کو ایک کامیاب مترجم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اِس لحاظ سے فرحت نواز کے تراجم کوعلمی و ادبی لحاظ سے مفید قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ فرحت نواز نے لفظ کی جگہ لفظ کا انتخاب نہیں کیا وہ اپنے خالص ادبی مقصد سے غافل نہیں ہوئیں اور اکبر حمیدی کی غزلوں کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے وہ ادبی تراجم کے مقاصد سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ شان الحق حقی لکھتے ہیں:
’’ ادبی تراجم کے سلسلے میں پہلا مسئلہ، جسے مترجمین نے اکثر ملحوظ نہیں رکھا، مقصد کا تعین ہے۔ ترجمے کی غایت دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ ایک علمی یا مکتبی (Academic)اور خالص ادبی۔ پہلی قسم کا ترجمہ آپ کو اصل ادب پارے کے موضوع و مفہوم، ہیئت مفاہیم، افکار و تخیلات سے متعارف کر سکتا ہے اور اس کی بابت بہت کچھ بتا سکتا ہے لیکن بجائے خود ادب پارہ شمار نہیں ہو سکتا اور وہ ادب پارہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرے گا۔ دوسری غایت ادبی ہو سکتی ہے یعنی ادب میں اصل ادب پارے کا جواب پیدا کرنا جو بجائے خود ایک اور ادب پارہ اور اس زبان کے ادب میں ایک اضافہ سمجھا جائے جس میں ترجمہ کیا گیا۔‘‘ ۲۸؎
(۳) اُردو افسانوں کا سرائیکی ترجمہ ’’ منزلاں تے پندھیڑے‘‘
ترجمہ نگاری کے حوالے سے فرحت نواز کی ایک اہم تصنیف ’’ منزلاں تے پندھیڑے‘‘ ہے ۔ اِس کتاب میں فرحت نواز نے بائیس اہم افسانہ نگاروں کے افسانوں کو سرائیکی میں ترجمہ کیا ہے۔ ان تراجم کو کرتے ہوئے فرحت نواز نے اُردو زبان کے افسانوں کو اُردو زبان کی وسعت اور گرفت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو نہایت احسن طریقے سے سرائیکی زبان کی حلاوت اور مٹھاس کو برقرار رکھتے ہوئے سرائیکی میں منتقل کیا ہے۔ اگر دونوں زبانوں پر دسترس رکھنے والے، دونوں زبانوں کے افسانوں کو الگ الگ پڑھیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جائے گا کہ ان دونوں میں سے اصل افسانہ کون سا ہے اور ترجمہ شدہ افسانہ کو ن سا۔ فرحت نواز افسانے کے مزاج اور روح سے واقف ہیں اور وہ خود بھی ایک تخلیق کار ہیں اس کے علاوہ اُردو اور انگریزی زبانوں کے ادب پاروں اورمختلف اصنافِ نظم و نثر سے وہ بخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے خیالات کے ساتھ ساتھ تخلیقی تجربہ بھی وسیع ہے اور اس کو ایک ترجمہ نگار کی بنیادی خوبی قرار دیا جاتا ہے اس حوالے سے خالد محمود خان لکھتے ہیں:
’’ فن ترجمہ نگاری محض ’’ لغاتDictionary‘‘ کے مشینی استعمال کا نام نہیں ہے۔ ترجمہ نگار جس فن پارے یا علمی تحریر کا ترجمہ کر رہا ہوتاہے وہ اس کی روح کو سمجھتا ہے اور گہرائی تک دسترس پیدا کرتا ہے۔ اس عمل میں ترجمہ نگار کی تخلیقی، فنی اور فکری صلاحیتیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اچھا ترجمہ نگار بہت اچھا طالب علم بھی ہوتا ہے وہ اصل تحریر اور ترجمہ کے علاوہ بہت چیزوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہے ،مختلف ذارئع سے حاصل کیے ہوئے خیالات اور معنی اس کی سمجھ بوجھ کو بہت زرخیز اور توانا کر دیتے ہیں۔ کسی تحریر کا ترجمہ کرتے ہوئے وہ اپنی صلاحیتوں کا شعوری اور غیر شعوری استعمال کرتا ہے۔ ترجمہ نگار کی بنیادی صلاحیتوں میں طلبِ علم، ذہانت، تلاش، تجزیہ اور دریافت کی صلاحیت بہت اہمیت رکھتی ہے‘‘ ۔ ۲۹؎
فرحت نواز اِن صلاحیتوں کی حامل ہیں جن کا ذکر خالد محمود خان نے درج بالا اقتباس میں کیا ہے۔ فرحت نواز نے اپنی ادبی سرگرمیوں کے آغاز میں خود بھی افسانے لکھے البتہ وہ افسانے تعداد میں بہت کم تھے لیکن معیار کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئے لکھنے والوں میں افسانہ نگاری کے مقابلے میں فرحت نواز کا افسانہ اول انعام کا مستحق ٹھہرا تا ہم یہ افسانہ کسی نا معلوم ادبی رسالے میں شائع بھی ہوا اور اب دستیاب نہیں لیکن افسانہ نگاری سے فرحت نواز کی دلچسپی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یکے بعد دیگرے فرحت نواز کی دو تصانیف شائع ہوئیں۔ اوّل ’’ منزلاں تے پندھیڑے‘‘ جس میں فرحت نواز نے بہ حیثیت مترجم اُردو افسانوں کے سرائیکی تراجم کیے اور دوم ’’ ۸۰ کے بہترین افسانے ‘‘ جس میں فرحت نواز نے اَسّی کی دہائی کے بہترین افسانوں کو مرتب کیا۔ خالد محمود خان لکھتے ہیں:
’’ ترجمہ محض ایک زبان کا وہ لباس نہیں ہے جسے دوسری زبان کو پہنا دیا جائے بلکہ وہ رُوح اور روشنی ہے جو ایک تحریر سے دوسری زبان میں منتقل کی جاتی ہے۔ اچھے ترجمہ نگار کثیر المطالعہ، ذکی الحس، فہیم، محنتی اور تجربہ کار ہوتے ہیں۔‘‘ ۳۰؎
فرحت نواز ذکی الحس، فہیم، محنتی اور تجربہ کار ترجمہ نگار ہیں۔وہ ترجمہ نگاری کی تاریخ سے پوری طرح واقف ہیں۔ اُردو کے نامور افسانہ نگاروں نے نہ صرف خود لازوال افسانے تخلیق کر کے اُردو افسانوی ادب کے دامن کو مالا مال کیا بلکہ غیر ملکی اور بدیسی زبانوں میں لکھے جانے والے افسانوں کو اُردو میں ترجمہ کرنے کی بے مثال خدمت بھی سر انجام دی۔ جس سے نہ صرف اُردو افسانوی ادب کو وسعت ملی بلکہ اہم بدیسی افسانہ نگاروں کی طرزِ تحریر کو اُردو میں ایک پہچان اور تعارف بھی حاصل ہوا جس کو بعد میں لکھنے والے افسانہ نگاروں نے شعوری اور غیر شعوری طورپر اپنایا۔ مرزا حامد بیگ اِس حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’ افسانے کی صنف میں تین نام بہت ترجمہ ہوئے یعنی چیخوف، موپاساں اور رابندر ناتھ ٹیگور۔ ٹیگور کو انگریزی کی معرفت اُردو میں متعارف کروانے میں پریم چند پیش پیش تھے اور یہ سلسلہ منٹو تک چلا آیا۔ منٹو نے چیخوف اور موپاساں کو نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ ان کے طرز تحریر کو عام کرنے میں حصّہ لیا۔ اِسی طرح ٹالسٹائی اور گور کی بھی منٹو کی معرفت اُردو میں متعارف ہوئے۔‘‘ ۳۱؎
افسانوی ادب میں ترجمے کی اِس تاریخ اور مقاصد کے پیش نظر فرحت نواز نے بھی اِس روایت کو آگے بڑھایا۔ فرحت نواز نے اِس کے لیے اُردو اور سرائیکی زبان کا انتخاب کیا اور اُردوکے لازوال اور خوب صورت افسانوں کو بھر پور تاثر اور تکنیکی خوبیوں کے ساتھ سرائیکی میں منتقل کیا۔ قرأۃ العین حیدر افسانوی ادب کے حوالے سے ایک اہم اور جانا پہچانا نام ہے۔ فرحت نواز نے اُن کے افسانے ’’ فوٹو گرافر‘‘ کا انتخاب کیا اور اِس افسانے کا سرائیکی ترجمہ کیا۔ ذیل میں مذکورہ افسانے کا ایک چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں افسانہ نگار نے منظر کشی کی ہے۔ بعد میں اِس اقتباس کے سرائیکی ترجمے سے ہم فرحت نواز کی بہ حیثیت ترجمہ نگار کامیابی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اُردو اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ موسم بہار کے پھولوں سے گھِرا بے حد نظر فریب گیسٹ ہائوس ہرے بھرے ٹیلے کی چوٹی پر دُور سے نظر آجاتا ہے۔ ٹیلے کے عین نیچے پہاڑی جھیل ہے۔ ایک بل کھاتی سڑک جھیل کے کنارے کنارے گیسٹ ہائوس کے پھاٹک تک پہنچتی ہے ،پھاٹک کے نزدیک والرس کی ایسی مونچھوں والا ایک فوٹو گرافر اپنا ساز و سامان پھیلائے ایک ٹین کی کرسی پر چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔‘‘ ۳۲؎
فرحت نواز نے اِس افسانے کا ترجمہ اپنے بھر پور تاثر کو برقرار رکھتے ہوئے کیا۔ اِس افسانے کا مرکزی خیال اور تاثر دوسری زبان میں منتقلی کے باوجود کسی مقام پر کم نہیں ہوا۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فرحت نواز اصل مصنف کے فلسفۂ حیات ،طرزِ احساس، علمی لیاقت، نفسیاتی کیفیت اور اِس کے فنی طریقہ کار سے پوری طرح واقف ہیں۔ افسانہ فوٹو گرافر کے درج بالا منتخب اُردو اقتباس کا سرائیکی ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’ موسم بہار دے پُھلاں نال گھر یا بے حد دلفریب گیسٹ ہائوس آباد ٹِبّے دی چوٹی تے پرے کنوں نظر آویندے۔ ٹِبّے دے عین تلے پہاڑی ڈھنڈھ ہے۔ ہِک وَل کھمدی سڑک ڈھنڈھ دے کنارے کنارے لنگھدی گیسٹ ہائوس دے پھاٹک تئیں پُجدی ہے۔ پھاٹک دے نزدیک والرس دی کار مُچھیں آلا ہِک فوٹو گرافر اپنا سامان کھنڈراں ہِک ٹین دی کرسی تیں چپ چاپ بیٹھا رہندا اے۔‘‘ ۳۳؎
فرحت نواز قرأۃ العین حیدر کی شخصیت کے ساتھ اِن کے عہد کی روایات ، تحریکات، اقدار اور سماجی پسِ منظر سے آگاہ ہیں۔ فرحت نواز وسیع معلومات کے ساتھ ساتھ وسیع دماغ بھی رکھتی ہیں۔ فرحت نواز نے جن افسانوں کو ترجمے کے لیے چُنا اُن کے موضوعات اور اُن موضوعات سے متعلق ثانوی چیزوں کا مکمل علم رکھتی ہیں اسی وجہ سے فرحت نواز کے ترجمہ شدہ افسانوں میں مصنف کے اصل خیال کا ابلاغ ممکن ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ فرحت نواز کے ترجمہ شدہ افسانوں میں ہمیں ابلاغ کا مسئلہ نظر نہیں آتا۔ ایک مترجم کی بڑی کامیابی صرف لفظ کے بدلے متبادل لفظ رکھنا نہیں بلکہ ایک کامیاب ابلاغ بھی ہے۔ افسانے ’’ فوٹو گرافر‘‘ کا اِک اور اُردو اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ میں اسٹیج سے ریٹائر ہو چکی ہیں اب میری تصویریں کون کھینچے گا بھلا، میں اپنے وطن واپس جاتے ہوئے رات کی رات یہاں ٹھہر گئی تھی۔ نئی ہوائی سروس شروع ہوگئی ہے۔ یہ جگہ راستے میں پڑتی ہے۔ اور ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ آپ کے ساتھی؟ فوٹوگرافر نے آہستہ سے پوچھا۔ کوچ نے ہارن بجا یا، آپ نے کہا تھا نا کہ کار زارِ حیات میں گھمسان کا رن پڑا ہے اِسی گھمسان میں وہ کہیں کھو گئے۔‘‘ ۳۴؎
درج بالا اقتباس میں قرأۃ العین حیدر نے مکالماتی انداز اپنایا ہے۔ فرحت نواز نے اپنے ترجمہ شدہ افسانوں میں مکالموں کی ادائیگی میں کرداروں کی ذات، مرتبہ، سماجی حیثیت کو نہایت کامیابی سے برقرار رکھا ہے۔ متبادل الفاظ کا پسِ منظر، الفاظ کا لہجہ، ادائیگی، تلفظ اور جملوں کی ساخت ہر کردار کی سماجی حیثیت کو واضح کرتی ہے۔یوں ترجمہ اپنے اصل سے قریب تر ہونے کی خوبی کا حامل ٹھہرتا ہے۔ درج بالا اُردو اقتباس کا سرائیکی ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’ میں اسٹیج توں ریٹائر تھی چکی آں ہن میڈیاں تصویراں کون چھکیسی بھلا؟ میں اپنے وطن واپس ویندے ہوئے رات دی رات اتھاں رُک گئی ہم۔ نویں ہوائی سروس شروع تھی گئی ہے نا۔ اے جاء راہ اچ پجدی اے۔ اتے ۔۔۔اتے۔۔۔۔ تہاڈے ساتھی؟ فوٹوگرافرنے ہولے نال پچھیا۔ کوچ نے ہارن وجایا۔ تساں آکھیا ہئی نا۔ جو زندگی بہوں گنجڑیج گئی اے۔ ایں بھیڑ اچ او کتھئیںگم تھی گن۔‘‘ ۳۵؎
افسانوں اور ناولوں میں موجود کئی کرداروں کی زبان میں مختلف زبانیں چھپی ہوتی ہیں۔ ہر کردار اپنی سماجی حیثیت کے مطابق الفاظ کا چنائو کرتا ہے۔ ایک موچی، درزی یا مالی کی زبان ایک پروفیسر ، چودھری یا مولوی سے الگ ہو گی۔ڈاکٹر ظؔ انصاری اِس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ اگر ترجمہ کرنے والا ایک زبان کے اندر کئی زبانوں کے راز سے ناواقف ہے تو وہ لفظ بہ لفظ لغوی ترجمہ کرتا چلا جائے گا اور جو مفہوم اور اشارے ان الفاظ کی پشت سے جھانک رہے ہیں ترجمے میں غائب ہو جائیں گے۔ ‘‘ ۳۶؎
فرحت نواز کے ترجمہ شدہ افسانے اِس نقص سے پاک ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات کے افسانوں کو ترجمے کے لیے چنا جن کے نہ صرف خالق الگ الگ ہیں بلکہ ہر افسانہ مزاج اور سیاسی، سماجی پس منظر کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے الگ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فرحت نواز نے ترجمہ کرتے ہوئے ہر طرح کے کردار کی زبان کو سمجھتے ہوئے اس کو نہایت کامیابی سے ترجمے میں منتقل کیا۔ مثال کے طور پر سعادت حسن منٹو کے افسانے ’’ مسٹر معین الدین‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ جب ہار زہرہ کے گلے میں پہنا دیے گئے تو بوجہ مجبوری مسٹر معین کو اپنے دوست مسٹر احسن کی ہاں میں ہاں ملانی پڑی کہ بحیرہ عرب کے پانیوں میں سیپیوں نے اِن ہاروں کے موتی خاص طور پر زہرہ کے لیے ہی پیدا کیے تھے۔ ایش ٹرے میں رکھا ہوا سگار آہستہ آہستہ سُلگ کر نصف کے قریب خاکستر اور سفید راکھ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ‘‘ ۳۷؎
فرحت نواز نے سعادت حسن منٹو کے مذکورہ بالا افسانے کا انتخاب کیا اور سرائیکی میں اس کا کامیاب ترجمہ کیا۔ سعادت حسن منٹو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک ممتاز اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔منٹو کے موضوعات اور افسانے میں استعمال کی جانے والی تکنیک قدرے مختلف ہوتی ہیں۔ فرحت نوازنے اِس افسانے کا بھی نہایت کامیابی کے ساتھ سرائیکی ترجمہ کیا۔ترجمہ پیش خدمت ہے:
’’ جڈّاں ہار زہرہ دے گل اچ پوا ڈتے گئے تاں مجبور تھی تے مسٹر معین کوں اپنے دوست احسن دی ہا اچ ہا ملاونی پئی جو بحیرہ عرب دے پانئیں اچ سپیاں نیں انہاں ہاراں دے موتی خاص طور تیں زہرہ کیتے ای پیدا کیتے ہین۔ ایش ٹرے اچ رکھیا ہویا سگار ہولے ہولے سُلگدا پیا ہا۔ ‘‘ ۳۸؎
فرحت نواز نے مشہور افسانہ نگاروں کے علاوہ ایسے افسانہ نگاروں کے افسانوں کا بھی انتخاب کیا جن کا شمار نئے لکھنے والوں میں ہوتا تھا لیکن اِن کے لکھے گئے افسانے اپنے معیار اور تکنیک کے اعتبار سے بلند مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
’’ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مترجم میں کام کرنے کا محرک یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے دماغ پر زور ڈالے بغیر کسی دوسرے کے پھلوں کو اپنی زبان کے خوان میں رکھ کر پیش کر دے۔ اگر کتاب کا مصنف مشہور ہوا تو اِس کے سہارے مترجم کو بھی شہرت کے پر لگ گئے حالانکہ دیکھا جائے تو معاملہ اس کے بر عکس ہوتاہے ایک طرف تو مترجم کی ذات مصنف کی ذات سے ہمیشہ کم تر رہتی ہے۔ بر خلاف اس کے مصنف کی شخصیت ترجمے کے ذریعے پھیل کر اور بڑی ہو جاتی ہے۔ اپنی بات ہو تو آدمی جس طرح چاہے اظہار کر دے لیکن ترجمہ میں آدمی بندھ کر رہ جاتا ہے۔‘‘ ۳۹؎
اگر چہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک مترجم کی باگ دوڑ مصنف کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگر مترجم اس گرفت سے نکلنے کی سعی کرتا ہے تو اصل فن پارے سے دور ہونے لگتاہے اور مِن و عن اصل فن پارے کی نقل کرنے سے بیان میں اجنبیت کا نقص پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ اِن حالات اور نقائص سے بچنے کے لیے ایک مترجم کو کون سی راہ اپنانی چاہیے اِس حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی مزید لکھتے ہیں:
’’ ایسے میںمترجم کا کام یہ ہے کہ دوسری زبان کے اظہار کو اپنی زبان کے اظہار سے قریب تر لائے اور مصنف کے لہجے اور طرزِ ادا سے اپنی زبان میں ایک نئے اسلوب کے لیے راہ ہموار کرے۔‘‘ ۴۰؎
فرحت نواز نے بہ حیثیت مترجم اپنے ترجموں کو ان نقائص سے بچائے رکھا۔ انہوں نے افسانہ نگاری کی دنیا سے قد آور شخصیات کا انتخاب کیا اور اِن کے لہجے اور طرزِ ادا سے اپنی زبان میں ایک نئے اسلوب کے لیے راہ ہموار کرنے کی سعی کی جو سرائیکی زبان میں لکھنے والوں کے لیے ایک مثال اور محرک ثابت ہوئی اور تراجم کے حوالے سے فرحت نواز کی ایک الگ ادبی شناخت بنی۔فرحت نواز نے کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، خواجہ احمد عباس، میرزا ادیب،غلام الثقلین نقوی، جوگندر پال، انور سجاد، انتظار حسین، اسد محمد خان، رشید امجد، ذکا ء الرحمن، پروین عاطف، مرزا حامد بیگ، عذرا اصغر، محمد منشا یاد، احمد دائود، حیدر قریشی اور روشن آرا نزہت کے افسانوں کا بھی انتخاب کیا۔ ذیل میں احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’’ زلیخا‘‘ کی ابتدائی سطور پیش خدمت ہیں جس میں احمد ندیم قاسمی کا بیانیہ انداز جس خوبصورتی اور بھرپور تاثر کے ساتھ اُردو زبان میں ادا ہوا ہے اسی بھر پور تاثر کے ساتھ فرحت نواز نے اُسے سرائیکی زبان کے لبادے میں پیش کیا ہے۔ اصل متن پیش خدمت ہے:
’’ درختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر کر رہ گئی ہیں۔ہو اچلتی ہے تو شاید ان کی رگوں میں اتری ہوئی برف جھڑ جاتی مگر ہوا بھی جیسے درختوں کے اس جھنڈ میں کہیں ٹھٹری پڑی ہے چاندنی میں کفن کی سی سفیدی ہے۔‘‘ ۴۱؎
اب اس افسانے کی ابتدائی سطور کا سرائیکی ترجمہ کچھ یوںہے:
’’ درختیں دیاںٹہنیاں رات دی ٹھڈ اچ ٹھرتیں رہ گیاں ہن، ہوا گھلدی تاں شاید انہاں دیاں رگاں وچ لتھی ہوئی برف چھنڈ کیج ویندی پر ہوا وی جیویں درختیں دے ایں جھنڈ اچ کتھائیں ٹھری پئی اے۔ چاننی اچ کفن جئی سفیدی اے۔‘‘ ۴۲؎
فرحت نواز نے سرائیکی زبان میں اُردو افسانوں کے ترجمے سے سرائیکی زبان کو تقویت دی اور اس کوشش میں وہ کامیاب ہوئیں۔ اگر چہ ہم کسی ترجمے کو حتمی ترجمہ قرار نہیںدے سکتے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فرحت نواز کے کیے گئے سرائیکی تراجم سرائیکی زبان میں موجود وسعت کے اعتبار سے نہایت اہم اور مکمل ہیں۔ اس نکتے کو مظفر علی سیّد اپنے مضمون ’’ فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث‘‘ میں یوں واضح کرتے ہیں:
’’ مختلف ادوارِ ادب میں ایک ہی کلاسیکی کارنامے سے بار بار نئے ترجمے نمودار ہوتے ہیں بلکہ کلاسیک تو کہتے ہیں اس کارنامے کو ہیںجس کے ترجمے کی بار بار ضرورت پڑے اور جیسے کوئی بھی شہاب ثاقب حتمی اور آخری نہیںہوتا ، اس طرح کسی بھی ترجمے کو حرف آخر نہیںکہا جا سکتا، ان ترجموں کو بھی نہیں جن کو اپنے زمانے میں تخلیق تک سے بہتر کیا گیاہو۔‘‘ ۴۳؎
(۴) ۸۰ کے بہترین افسانے:
فرحت نواز کی ایک اورا دبی جہت بہ حیثیت مرتب بھی ہے۔ فرحت نواز کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک قابل ذکر خدمت ان کی مرتب کردہ کتاب ’’ ۸۰ کے بہترین افسانے‘‘ ہے۔ اِس کتاب میں فرحت نواز نے اَسّی کی دَہائی میں تخلیق کیے جانے والے افسانوں کو مختلف ادبی جرائد سے اِس کتاب میں شامل کیا۔ یہ کتاب ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔ فرحت نواز نے ان افسانوں کا انتخاب اوراق، سیپ، ماہِ نو، افکار، خیابان، تخلیقی ادب، جدید ادب اور مفاہیم نامی ادبی جرائد سے کیا۔ اس کتاب میں مختلف افسانہ نگاروں کے کل اٹھائیس افسانوں کو شامل کیا گیا۔ اِن افسانہ نگاروں میں احمد جاوید،احمد دائود، اعجاز راہی، افسر آذر، انوارا حمد، انور سجاد، حیدر قریشی، خالدہ حسین، رحمن شریف، رشید امجد، رضیہ فصیح احمد، روشن آرا نزہت، زاہدہ حنا، سمیع آہوجہ، طاہر نقوی، عذراا صغر، علی حیدر ملک، غلام الثقلین نقوی، محمد منشا یاد، محمود احمد قاضی، مرزا حامد بیگ، مستنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، مشتاق قمر، مظہر الاسلام، ممتاز مفتی، میرزا ادیب اور نیلوفر اقبال شامل ہیں۔فرحت نواز اس کتاب کے پیش لفظ جس کا عنوان ’’ گفتگو‘‘ ہے میں اس کتاب کو مرتب کرنے اور افسانہ نگاری میں اپنی دلچسپی کے بڑھنے کی وجہ کو خود بیان کرتی ہیں۔ فرحت نواز لکھتی ہیں:
’’ میری جدید افسانے سے دلچسپی گزشتہ برس تب ہوئی جب میں نے اُردو کے بعض اہم افسانہ نگاروں کے افسانوں کے تراجم کیے۔ ترجمے کے دوران مجھے اِن افسانوں کے لفظوں کی بالائی سطح سے اُتر کر اِن کے داخل تک (اپنی ذہنی اپروچ کی حد تک) رسائی کا موقع ملا اور تب میں نے پہلی دفعہ جدید افسانے میں ایک عجیب سی لذت محسوس کی۔ یہ کیفیت میرے لیے ذہنی طور پر سرور انگیز تھی۔ تب میں نے گزشتہ برس کے تقریباً تمام افسانے پڑھ ڈالے اور اِن سے اپنی ذاتی پسند کا انتخاب ترتیب دیا۔‘‘ ۴۴؎
فرحت نواز نہ صرف افسانہ نگاری میں بڑھتے ہوئے جدید رجحانات اور جدید افسانوں پر اِس کے اثرات سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ وہ اُردو افسانہ نگاری کے ارتقائی مراحل اور کلاسیکیت سے لے کر جدیدیت تک کے سفر بدلتے ہوئے موضوعات، تکنیک اور انداز سے آگاہ ہیں اور اِن افسانوں کا انتخاب کرتے ہوئے اِن پر موجود کلاسیکی روایت کی تقلید کے حوالے سے لکھتی ہیں:
’’ کلاسیکی روایت کے تحت لکھنے والے اہم افسانہ نگاروں کے افسانے بھی اِس انتخاب میں شامل ہیں اس لیے کہ اُردو افسانہ ابھی تک اپنی کلاسیکی روایت سے انقطاع نہیں کر سکا۔‘‘ ۴۵؎
فرحت نواز نے اِن افسانوں کے انتخاب میں اِن موضوعات پر خاص توجہ دی۔ فرحت نواز نے اَسّی کی دہائی میں لکھے جانے والے افسانوں میں سے ایسے افسانوں کا انتخاب کیا جو ہمارے معاشرے میں موجود کسی نہ کسی المیے اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کرب اور نفسیاتی عوامل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ خود فرحت نواز نے اِس موضوعاتی مماثلت کی نشان دہی کتاب کے پیش لفظ میں اِن الفاظ میں کی:
’’ مذکورہ کہانیاں جو ہمارے معاشرے کے کسی سماجی، سیاسی یا کسی بھی اور المیے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اپنے اندر ایک عجیب سا روحانی کرب رکھتی ہیں۔ ‘‘ ۴۶؎
بہ حیثیت مرتب فرحت نواز نے اپنی ذاتی پسند کے مطابق نہایت سنجیدگی سے اَسّی کی دہائی میں لکھے جانے والے ایسے افسانوں کا انتخاب کیا جو اپنے پسِ منظر کو بیان کرتے ہیں خواہ یہ اظہار علامتی پیرائے میں کیاگیا یا براہ راست لیکن اِن افسانوں کو پڑھنے کے بعد اس دہائی اور اِس کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چوں کہ ادیب اپنے معاشرے کا حساس ترین فرد ہونے کی وجہ سے اپنی تخلیقات میں اِن حالات و واقعات کا شعوری اور غیر شعوری طور پر اظہار کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ فرحت نواز نے بھی ایسے ہی افسانوں کا انتخاب کیا جو پاکستانی افسانہ نگاروں کی تخلیق تھے۔ فرحت نواز نے دانستاً بھارتی افسانہ نگاروںکے افسانوں کو اِس کتاب میںشامل نہیں کیا جس کی بنیادی وجہ اَسّی کی دَہائی میں لکھے جانے والے اُن افسانوں کا انتخاب ہیں جو ایک جیسے سیاسی اور سماجی پسِ منظر رکھنے والے افسانہ نگاروں کی تخلیق ہیں۔اِن افسانوں میں اگر چہ کسی نہ کسی المیے کی طرف اشارہ ضرور ملتا ہے لیکن تمام افسانوں میں کسی ایک مقام پر اُمید اور آس کا وجود بھی ہمارے اجتماعی شعور کے رجائی ہونے کی دلیل بن کر ابھرتا ہے۔گویا اِن افسانوں کا انتخاب پڑھنے والوں کو مایوسی کے اندھیرے میں کھونے نہیں دیتا علاوہ ازیں اس دَہائی کی سیاسی اور سماجی حالات کی مکمل نمائندگی بھی کرتا ہے اور بہ حیثیت مرتب یہ فرحت نواز کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
باب کا جائزہ:
فرحت نوازنے بہ حیثیت مترجم ومرتب بھی اپنی خدمات سے ادب کے دامن کو مزید وسعت بخشی ہے۔ فرحت نواز نے نہ صرف خود ڈاکٹر وزیر آغا کی نظموں کا سرائیکی ترجمہ کیا بلکہ دوسرے تخلیق کاروں کے لیے بھی محرک ثابت ہوئیں اور یہی وجہ ہے کہ فرحت نواز نے ’’ ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی جس میں اُردو سے سرائیکی زبان میں ترجمہ کی ہوئی چار نظمیں شامل ہیں جب کہ بقایا چھبیس منظومات دیگر تخلیق کاروں کی ہیں۔ بلا شبہ یہ سرائیکی زبان کی ایک بہت بڑی خدمت ہے۔ علاوہ ازیں فرحت نواز نے “The Day shall Dawn”کے عنوان سے بھی اکبر حمیدی کی اُردو غزلوں کا انگریزی ترجمہ کیا ۔ اِس کتاب کو بھی فرحت نواز نے مرتب کیا اور فرحت نواز کے علاوہ دیگر دو مترجمین کے تراجم بھی شامل ہیں۔
ترجمے کے میدان میں فرحت نواز کی ایک اور نہایت اہم خدمت اُن کی کتاب ’’ منزلاں تے پندھیڑے‘‘ ہے اِس کتاب میں فرحت نواز نے نامور افسانہ نگاروں کے افسانوں کا سرائیکی ترجمہ کیا ہے۔اِس طرح سے فرحت نواز سرائیکی تراجم کے ذریعے سرائیکی زبان کے ادب میں اضافے کا موجب بنیں۔ فرحت نواز نے بہ حیثیت مرتب ’’۸۰کے بہترین افسانے‘‘کے عنوان سے بھی ایک کتاب مرتب کی اور اِس میں بھی اَسّی کی دہائی میں لکھے جانے والے پاکستانی افسانہ نگاروں کے افسانوں کو شامل کیا۔ بہ حیثیت مرتب فرحت نواز نے صنفِ نثر میں افسانے کا انتخاب کیا جب کہ شاعری کا سرائیکی اور انگریزی ترجمہ کر کے دونوں زبانوں میں اپنی مہارت اور فنکارانہ چابکدستی کا ثبوت دیا جس نے فرحت نواز کو ادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام سے نوازا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ ابنِ کلیم احسن نظامی، سرائیکی زبان کی خصوصیت و اہمیت اور پڑھنے کا طریقہ (مضمون)
https://incubator.m.wikimedia.org
۲۔ ایضاً
۳۔ ایضاً
۴۔ ایضاً
۵۔ جیلانی کامران، پروفیسر،ترجمے کی ضرورت (مضمون) مشمولہ ، تراجم کے مباحث، مرتب ،محمد ابوبکر فاروقی، سٹی بک پوائنٹ،کراچی، ۲۰۱۶ء،ص:۱۴
۶۔ ایضاً،ص:۱۷
۷۔ انیس ناگی، ترجمے کی ضرورت (مضمون) مشمولہ، تراجم کے مباحث، مرتب ،محمد ابوبکر فاروقی، ص:۲۰
۸۔ غلام علی الانا، ڈاکٹر، ادب میں تراجم کی اہمیت (مضمون) مشمولہ ،اُردو زبان میں ترجمے کے مسائل،
مرتبہ، اعجاز راہی ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۶ء، ص:۲۴
۹۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، نردبان، مکتبہ اُردو زبان، ریلوے روڈ، سرگودھا، جنوری ۱۹۷۹ء ،ص:۲۴،۲۳
۱۰۔ فرحت نواز (مرتب) ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں،جدید ادب پبلی کیشنز، خان پور،ستمبر ۱۹۸۰ء، ص:۶۴،۶۳
۱۱۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، نردبان، ص:۳۳،۳۲
۱۲۔ فرحت نواز (مرتب) ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں، ص:۶۵
۱۳۔ سیّد غفران الجیلی، فن ترجمہ کے اصول و مبادیات (مضمون) مشمولہ ،تراجم کے مباحث، مرتب ،
محمد ابو بکر فاروقی، ص: ۶۴،۶۳
۱۴۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، نردبان، ص:۹۴
۱۵۔ فرحت نواز (مرتب) ڈاکٹروزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں، ص:۶۹
۱۶۔ شہباز حسین، ترجمہ کی اہمیت (مضمون) مشمولہ، تراجم کے مباحث، مرتب، محمد ابو بکر فاروقی،ص: ۳۲،۳۱
۱۷۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، نردبان، ص:۱۸،۱۷
۱۸۔ فرحت نواز (مرتب) ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں، ص:۷۰
۱۹۔ مظفر علی سیّد، فن ترجمہ کی اصولی مباحث (مضمون) مشمولہ ، اُردو زبان میں ترجمہ کے مسائل،
مرتبہ، اعجاز راہی ، ص:۳۸
۲۰۔ Akbar Hamidi, The Day shall Dawn, Translated by, Professors: Jamil Azar,
Hamid Briggi, Farhat Nawaz, Botter Publishers, Islamabad, 1998, Page:48
۲۱۔ As above, page :49
۲۲۔ نوازش علی، ڈاکٹر، فراق گورکھپوری شخصیت اور فن، نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۱ء، ص:۵۱۴
۲۳۔ Akbar Hamidi, The Day shall Dawn, Translated by, Professors: Jamil Azar,
Hamid Briggi, Farhat Nawaz, Botter Publishers, Islamabad, 1998, Page:50
۲۴۔ As above, page :51
۲۵۔ شان الحق حقی، ادبی تراجم کے مسائل (مضمون) مشمولہ، اُردو زبان میں ترجمہ کے مسائل، مرتبہ، اعجاز راہی، ص:۲۲۰
۲۶۔ Akbar Hamidi, The Day shall Dawn, Translated by, Professors: Jamil Azar,
Hamid Briggi, Farhat Nawaz, Botter Publishers, Islamabad, 1998, Page:54
۲۷۔ As above, page :55
۲۸۔ شان الحق حقی، ادبی تراجم کے مسائل (مضمون) مشمولہ، اُردو زبان میں ترجمہ کے مسائل، مرتبہ، اعجاز راہی، ص:۲۱۷
۲۹۔ خالد محمود خان، ترجمہ کا تصور (مضمون) مشمولہ، تراجم کے مباحث، مرتب ،محمد ابوبکر فاروقی، ص:۳۴
۳۰۔ ایضاً
۳۱۔ مرزا حامد بیگ، اُردو زبان میں ادبی تراجم کا جائزہ (مضمون) مشمولہ ، اُردو زبان میں ترجمے کے مسائل، مرتبہ، اعجاز راہی، ص:۸۹
۳۲۔ قرأۃ العین حیدر، فوٹو گرافر(افسانہ )qurratulainhyder stories.blogspot.com
۳۳۔ فرحت نواز(مترجم) فوٹو گرافر (افسانہ) مشمولہ ،منزلاں تے پندھیڑے،قرأۃ العین حیدر،
جدید ادب پبلی کیشنز، خان پور، ستمبر ۱۹۸۰ء ،ص:۷۹
۳۴۔ قرأۃ العین حیدر، فوٹو گرافر(افسانہ )qurratulainhyder stories.blogspot.com
۳۵۔ فرحت نواز(مترجم) فوٹو گرافر (افسانہ) مشمولہ ،منزلاں تے پندھیڑے، قرأۃ العین حیدر،ص:۷۹
۳۶۔ ظ ؔ انصاری، ڈاکٹر، ترجمہ کے بنیادی مسائل (مضمون) مشمولہ ،تراجم کے مباحث، مرتب، محمد ابوبکر فاروقی، ص:۱۸۶
۳۷۔ سعادت حسن منٹو،مسٹر معین الدین (افسانہ) https://adabnama.com>afsana manto
۳۸۔ فرحت نواز(مترجم) مسٹر معین الدین (افسانہ)مشمولہ ،منزلاں تے پندھیڑے، سعادت حسن منٹو ،ص:۲۱
۳۹۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، ترجمے کے مسائل (مضمون) مشمولہ ،تراجم کے مباحث، مرتب، محمد ابوبکر فاروقی، ص:۲۲۲
۴۰۔ ایضاً
۴۱۔ احمد ندیم قاسمی، زلیخا (افسانہ) مشمولہ ،بازارِ حیات، مکتبہ اساطیرA-45، مزنگ روڈ،لاہور، ۱۹۹۵ء،ص:۷۵
۴۲۔ فرحت نواز(مترجم)زلیخا (افسانہ)مشمولہ، منزلاں تے پندھیڑے،احمد ندیم قاسمی ،ص:۷۱
۴۳۔ مظفر علی سیّد، فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث (مضمون) مشمولہ، اُردو زبان میں ترجمے کے مسائل، مرتبہ، اعجاز راہی،ص:۳۵
۴۴۔ فرحت نواز ، پیش لفظ (گفتگو) مشمولہ، ۸۰ کے بہترین افسانے، جدید اُردو ادب پبلی کیشنز،خان پور،
اپریل ۱۹۸۱ء، ص:۵۹
۴۵۔ ایضاً
۴۶۔ ایضاً، ص:۱۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’فرحت نواز کی ادبی خدمات‘‘
کے موضوع پر لکھے جانے والے نازیہ خلیل عباسی کے ایم فل کے مقالے کا ایک باب)