“بی جان آپ نے مجھے بلوایا؟؟”۔ گھر کے کام سے ہاتھ صاف کرتے وہ قدسیہ کے روم میں آ پہنچی۔
“ہاں نین تارا ۔۔۔ بیٹھو”۔ نین تارا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ وارڈ روب کی جانب بڑھیں تھیں۔
گفٹ پیک نکالتے وارڈ روب کا دروازہ بند کیا پھر اس گفٹپیک کے ہمراہ نین تارا کی جانب آئیں۔
“یہ لو نین تارا۔۔۔۔ آج شام کے فنکشن میں تم یہی جوڑا اور جیولری پہنو گی”۔ گفٹپیک اسکی جانب بڑھاتے اسنے تنبیہ کی۔
“مگر بی جان میں یہ نہیں لے سکتی۔۔۔ میرے پاس اتنے سارے جوڑے اور جیولری ہیں میں انہی میں سے کوئی پہن لوں گی”۔ گفٹپیک کو حیرت سے دیکھتے اسنے چہرہ اٹھا کر قدسیہ بیگم کو دیکھا۔
“نینی میری جان۔۔۔ در حقیقت یہ خلوص کسی اور کا ہے میں تو بس ذریعہ بنی ہوں۔۔۔۔۔ اور چھوٹوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ بڑوں کے فیصلے پہ سر تسلیم خم کر دیں نا کہ ان سے ضد لگا بیٹھیں”۔ نین تارا کے چہرے کو ہاتھوں کی اوک میں لیتے اسنے باور کرایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
تبسم کے بیٹے فرحان کی منگنی کی تقریب ہال میں رکھی گئی تھی جو حیثیت کے پیش نظر رینج میں مناسب قیمت پہ بک کیا گیا تھا۔
احتشام نے گرے پینٹ کوٹ اور سفید شرٹ پہن رکھی تھی۔۔۔ افسوں گر کالی آنکھوں کو بلیک سن گلاسز سے مخفی کر رکھا تھا جسکے شیشے مستعطیل تھے۔
“احتشام بیٹا آپ سب سے علیحدہ کیوں کھڑے ہو؟؟”۔ قدسیہ بیگم احتشام کے قریب آ کر پوچھنے لگیں جو سٹیج سے تھوڑا فاصلے پہ کھڑا تھا۔
“بس ایسے ہی بی جان۔۔۔ آپ کہاں جا رہی ہیں سٹیج پہ؟”۔ قدسیہ کی آواز پہ وہ اسکی جانب گھوما۔
“ہاں بیٹا میں نے سوچا ذرا تبسم کو منہ دکھا آوں۔۔۔ تم تو جانتے ہو وہ بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہے”۔
“جی ضرور”۔ اسنے متبسم کہا۔
قدسیہ بیگم بھی سٹیج پہ چڑھ گئیں تھیں۔
“ہیلو”۔ احتشام کو تنہا پاتے سندس بھی اس جانب آئی تھی۔
“ہیلو”۔ احتشام نے ریزرو رہتے جواب دیا۔
“تم یہاں اکیلے کیوں کھڑے ہو؟”۔ اسکی جانب مسکراہٹ اچھالتے سندس نے کہا۔
“اکیلے مطلب؟۔۔۔ یو نو وٹ سندس لٹرلی میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ پنجاب پولیس کو میرے ہمراہ ہال میں قدم با قدم میرے ساتھ ہی رہنا چاہیئے”۔ اسنے گلاسز اتار دیں جس سے اسکے تنے ہوئے نقوش واضح ہوئے۔
“کمال کا سنس آف یومر ہے تمھارا”۔ بولتے ہی وہ قہقہ لگا کر ہنس دی۔
“ویسے پاگل پن تم میں بھی کچھ کم نہیں ہے”۔ احتشام نے مزید تپ کر کہا۔
“جی؟؟”۔ احتشام کی بات پہ اسکا قہقہ رکا۔
“نتھنگ۔۔ اینی وے کونگڑیٹس ٹو یو۔۔۔۔ فرحان کی منگنی ہو گئی”۔ تا ہنوز چہرے پہ سنجیدگی اور لہجے میں سختی۔۔۔۔ اسکے سامنے کھڑا رہنا کسی کے بس کی بات نا تھی۔۔۔ احتشام ایسی شخصیت کا حامل تھا جو اچھے بھلے انسان کو نروس کر دیتی تھی۔
“تھینکس”۔ سندس نے بناوٹی نزاکت کا مظاہرہ کیا۔
“کتنی خوش قسمت ہے سندس۔۔ اسکے پاس سب کچھ ہے ماں،،، باپ،،، بہن،،، بھائی اور تو اور ۔۔۔۔۔۔ احتشام بھی”۔ اپنے نظروں کے عین سامنے ان دونوں کو مد مقابل گفت و شنید کرتا دیکھ نین تارا نے خود سے اندازہ لگایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈریس چینج کرتے وہ واش روم سے نکل کر سیدھا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔ خود کو ایک نظر شیشے میں دیکھتے بیڈ کی جانب گھوما۔
بیڈ پہ بیٹھتے اسنے دونوں پیر اوپر کو کیئے۔۔۔ قدرے پیچھے کو ہوتے بیڈ کے تاج سے پشت ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ طلسم ٹوٹا،،، فون پہ بیپ سے اسکے سکون میں خلل پیدا ہوا۔
سیدھا ہوتے اسنے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر انلاک کیا جہاں سکرین پہ انجان نمبر سے آیا میسج چمک رہا تھا۔
“تو جو مل جائے اور کیا چاہیئے مجھ کو
لوگ تو خزانے کی آرزو کرتے ہیں سدا”
بغیر متحیر ہوئے اسنے سرسری نگاہ میسج پہ ڈالی پھر دوبارہ سے فون انلاک کر کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔۔۔وہ کمبل اوڑھتے لیٹ گیا تھا کیونکہ یہ اسکے لیئے عام بات تھی۔۔۔ اپنے آپ میں رہتے اسنے کبھی کسی کو بے جا جواب نہیں دیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پورے گھر کا گوشہ گوشہ شیشے کی مانند چمکانے کے بعد اب اسکا بدن درد سے چور تھا۔۔۔عرصہ پہلے روہینہ اور ممتاز اس پہ گھر کے تمام امور کا بوجھ ڈالے خود ان سے دست بردار ہو چکی تھیں۔ دن کا کھانا بنانا باقی تھا اور وہ صحن میں بیٹھی اسی سوچ میں گم تھی کہ کیا بنائے بالآخر اٹھ کر کچن کی جانب بڑھی۔
“نین تارا”۔ جونہی وہ کچن میں داخل ہوئی عقب سے آتی آواز اسے اپنی جانب مائل کر گئی۔
“جی تایا ابو؟”۔ ایڑیوں کے بل مڑتے اسکی نظر واجد پہ جا ٹھہری۔
“نین تارا بیٹا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے”۔ قدموں کو حرکت دیتا اب وہ اسکے قریب آ گیا تھا۔
“جی تایا ابو؟؟ کہیئے؟”۔ نین تارا متجسانہ اسے دیکھ رہی تھی۔
الجھتی سانسوں اور تیز رفتار دھڑکنوں کو پرسکون کرتے وہ واجد پہ نظر جمائے ہوئے تھی۔
“نین تارا بیٹا آپکو احتشام کیسا لگتا ہے؟؟”۔ بغیر ٹال مٹول کا سہارا لیئے وہ مدعے پہ آیا تھا۔
“جی؟؟”۔ وہ چونکی۔
“نین تارا بات دراصل یہ ہے کہ میں اور بی جان چاہتے ہیں آپکا اور احتشام کا نکاح اسی سنڈے کر دیا جائے۔۔۔ گرچہ یہ بی جان کی خواہش ہے پھر بھی میں نے سوچا کہ آپ سے ایک بار پوچھ لیا جائے کیونکہ زندگی آپ نے گزارنی ہے”۔
ایک پل کیلیے نین تارا کے حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ گئے تھے اور وہ ٹک ٹکی باندھے واجد کو دیکھ رہی تھی۔
“بیٹا آپکی ہاں یا نا بہت معنی رکھتی ہے۔۔ اگر آپکو یہ رشتہ قبول نہیں تو کوئی زور زبردستی نہیں ہے”۔ نین تارا کی خاموشی کے پیش نظر اسنے مزید کہا۔
“تایا ابو میں کیا کہوں؟؟ جیسا آپکو اور بی جان کو مناسب لگے”۔ لال لالی نے اسکے چہرے کا راستہ ناپا۔۔۔ مارے شرم کے اسنے اپنا چہرہ جھکا لیا تھا۔
“خوش رہو”۔ اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے واجد نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
خاندان کے سبھی بڑے انصاری ہاوس کے صحن میں براجمان تھے۔۔۔ سبھی مضطرب متحیر نگاہیں سامنے کھڑے واجد پہ ساکت کیئے ہوئے تھے۔ ممتاز کے دل میں اٹھتا وبال اسکی زہریلی اور خونخوار آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔ جو بات بی جان، ممتاز، واجد اور نین تارا کے علاوہ سب سے مطبوعہ تھی واجد آج وہ بات سب کے گوش گزار کرنے کا خواہاں تھا۔
“میں نے آپ سب کو ایک ضروری بات کرنے کی غرض سے یہاں بلوایا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ احتشام بھی آ جائے”۔ ہاتھ پشت پہ باندھے واجد نے تمہید باندھی جس سے سب اسکی جانب متوجہ ہوئے۔
تبسم کے دل میں اٹھتی بے چینی اسکے چہرے پہ عیاں تھی اسنے ممتاز کی جانب دیکھا جہاں غصے کے سوا کچھ نا تھا۔
“خیریت تو ہے؟؟ یہ پنچائت کیوں لگائی گئی ہے؟”۔ احتشام جب انٹرنس پار کر آیا تو سب بڑوں کی موجودگی اسے کھٹکی۔
“آو احتشام تمھاری ہی راہ دیکھ رہا تھا”۔ اسے اپنی جانب بلاتے واجد نے کہا۔
احتشام واجد کی بائیں جانب چیئر پہ آ بیٹھا تھا۔
“میں اور بی جان یہ چاہتے ہیں کہ احتشام اور نین تارا کا اسی سنڈے سادہ لوحی سے نکاح کر دیا جائے”۔ واجد نے جیسے فیصلہ سنایا تھا۔
احتشام کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی ۔۔۔ آسمان جیسے تبسم کے سر پہ آ گرا تھا۔
“احتشام مجھے امید ہے کہ آپ میری بات کی لاج رکھتے نین تارا کو ضرور اپنائیں گے؟”۔ احتشام کی جانب منہ موڑے اسنے دھیمے لہجے میں کہا۔
بقیہ افراد کی طرح احتشام بھی سکتے میں تھا۔۔۔ بے یقینی نے اس پہ گہری ضرب لگا کر اسکو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیا تھا۔
“احتشام میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں”۔ جواب نا ملنے پہ واجد نے قدرے سختی سے کہا۔
“یہ کیا بھائی صاحب ۔۔ آپ زبردستی احتشام پہ نین تارا کو مسلط نہیں کر سکتے۔۔ اگر احتشام کا دل اسکے لیئے رضا مند نہیں ہے تو زبردستی کرنے کا کیا فائدہ؟؟؟ ایسے تو احتشام کا دل اچاٹ ہو جائے گا”۔ تبسم نے مداخلت کرتے مخالفت کی۔
“میں اس شادی کیلئے تیار ہوں پاپا۔۔۔ میں نین تارا سے نکاح کروں گا”۔ حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کرتے اسنے نشست چھوڑ دی تھی۔۔ جس سے ممتاز کے بعد تبسم کو دھچکا لگا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
یہ کیا بول رہی ہیں آپ ماما؟؟ ۔۔۔ ایسے کیسے ممکن ہے؟؟۔۔۔ احتشام میرا ہے۔۔۔ وہ میرے علاوہ کیسے کسی اور سے نکاح کر سکتا ہے؟؟”۔ تبسم کی زبان سے درپیش واقعہ کی تفصیل جانتے وہ آپے سے باہر ہوئی۔
“سندس تم خود کو ہلکان مت کرو۔۔۔۔ آپا نے بہت برا کیا ہے۔۔۔ مانا بھائی صاحب اس بات سے سرے سے لاعلم رہے مگر آپا ۔۔۔۔۔۔ آپا کو تو سب معلوم تھا پھر انہوں نے ایسا کیوں ہونے دیا؟؟۔۔ انہیں مجھے پہلے سے آگاہ کر دینا چاہیئے تھا”۔ ممتاز کی خاموشی کی وجہ سے تبسم ابھی تک صدمے میں تھی۔
“ماما اگر یہ نکاح ہو گیا نا تو میں نے جاوں گی”۔ تبسم کے گلے لگتے اسنے بے دریغ رونا شروع کیا۔
“اللہ نا کرے سندس۔۔۔ کیسی باتیں کر رہی ہو؟؟۔۔۔ مریں تمھارے دشمن”۔ ممتاز کے رویے نے تبسم کے دل میں نفرت کا بیج بو دیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“کیا تمھارے بھائی کا نکاح فکس ہو گیا ہے؟”۔ وہ بلال کے ہمراہ یونیورسٹی سے تھوڑا فاصلے پہ بنے پارک میں بینچ پہ بیٹھی تھی جب اسنے بلال کو آگاہ کیا جس سے بلال کی آنکھیں کھلیں۔
“کیا ہوا بلال؟؟ تمھیں خوشی نہیں ہوئی؟؟”۔ بلال کا فق چہرہ اسے مزید پریشان کر گیا۔
“ن۔ ن۔ نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔ خوشی کیوں نہیں ہونی مجھے روہینہ؟ ایک سیڑھی پار ہو گئی ہے ہماری۔۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو گی؟”۔ تاثرات دوبارہ سے نارمل کرتے اسنے مصنوعی خوشی کا اظہار کیا۔
“تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا”۔ روہینہ نے بولتے ہی سر جھکایا۔
“جب تک میں تمھارے ساتھ ہوں روہینہ تمھیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں”۔ اسکے مزید قریب ہوتے بلال نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“تائی جان دن کے کھانے میں کیا بنانا ہے؟؟ آپ مجھے بتا دیں تاکہ میں وہ بنا لوں”۔ ممتاز کے روم کی دہلیز پہ کھڑے ہوتے اسنے کہا۔
“تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے روم میں آکر اپنا نحوست زدہ چہرہ مجھے دکھانے کی”۔ نین تارا کی آواز پہ وہ دروازے کی جانب گھومی۔
“تائی جان وہ۔۔۔”۔ ممتاز کی سرد مہری پہ وہ گھبرا اٹھی۔
“تجھے کیا لگا تو میرے بھولے بھالے اور معصوم بیٹے سے با آسانی بیاہ کر کے اس گھر پہ راج کرے گی؟؟۔۔۔ اسے میرے خلاف استعمال کرے گی”۔ ممتاز نے آگے بڑھتے اسکی سر کی پشت پہ ہاتھ رکھتے اسنے بال انگلیوں کے شکنجے میں لیئے تھے۔
“تائی جان چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے”۔ بے رنگ موتی آنکھوں کی باڑ توڑتے اسکے رخسار پہ بہہ نکلے تھے۔
“یہ اذیت تو کچھ بھی نہیں اگر تو نے میرے بیٹے کا نام اپنے دماغ سے نا نکالا تو میں تیرا وہ حشر کروں گی تو یاد رکھے گی۔۔۔ دفع مر یہاں سے”۔ اسکے بالوں سے گرفت ڈھیلی کرتے اسنے نین تارا کو زمین پہ پٹخا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شالیمار گیسٹ ہاؤس
یہ ایک تنگ گلی تھی جو ماڈل ٹاون سے منسلکہ تھی جہاں سے بمشکل مہران کار ہی گزر سکتی تھی۔ اسنے گیسٹ ہاؤس کے گیٹ کے باہر ہی اپنا بائیک روک دیا تھا۔
“ارے تقی ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟”۔ ویران اور سنسان گلی اسکے دل کی دھڑکنوں کی رفتار دگنی کر گئی۔
“بائیک سے اترو بتاتا ہوں”۔ ہیلمٹ اتارتے اسنے گردن کو جنبش دی۔
تقی کے کہنے پہ وہ بائیک سے اتر گئی تھی۔
بلیو جینز پہ ریڈ شرٹ جو گھٹنوں سے کافی اوپر تھی۔۔۔ ایک کالی شال سے اسنے چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔
اگلے ہی لمحے وہ دونوں گیسٹ ہاؤس داخل ہو گئے تھے۔ انٹرنس کا دروازہ بند تھا تقی نے دروازہ کھولا پھر ناک کی سیدھ پہ بنے کاونٹر کی جانب بڑھا جبکہ تقی کے متعاقب میں لائبہ تھوڑی نروس تھی اور اس مشکوک ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھی۔
دن کے اجالے میں بھی گیسٹ ہاؤس میں روشنی کا گزر بہت کم تھا جو لائبہ کی گھبراہٹ کو مزید بڑھا رہا تھا۔
تقی کے بعد لائبہ پہ نظر دوڑاتے کاونٹر پہ بیٹھے انسان کے چہرے پہ بے ساختہ شیطانی مسکراہٹ پھیلی جسے لائبہ نے بھی نوٹ کیا تھا۔
چند جملوں کے تبادلے کے بعد تقی ہاتھ میں چابی لیئے لائبہ کے قریب آیا تھا۔
“کیا ہوا لائبہ تم تھوڑی پریشان لگ رہی ہو۔۔۔ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟”۔ لائبہ کے چہرے پہ ڈر اور خوف اسنے بھانپ لیا تھا جبی اسنے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔
“ہ۔ ہ۔ ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟”۔ چھٹی حس نے اسے انہونی کے ہونے کا جیسے احساس دلایا تھا۔
اسکے مضطرب دل کی حالت اب اور خراب ہو رہی تھی۔
“لائبہ یار کیا ہوا ہے؟؟ میں ہوں تو تمھارے ساتھ۔۔۔ پھر تمھیں کس بات کی فکر ہے؟؟”۔ اسکا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیتے اسنے اسے دلاسہ دیا۔
پھر وہ لائبہ کے ہمراہ دائیں اور مڑ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کچن میں ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے وہ ترکاری کاٹنے میں لگی تھی۔۔ بظاہر اسکا وجود کچن میں موجود تھا مگر دماغ غیر حاضر تھا جسکا منہ بولتا ثبوت ترکاری کے ہمراہ اسکی انگلیوں سے بہتا خون تھا جسکی بدولت تھال میں کاٹی گئی ترکاری بھی لال ہونے لگی تھی۔
اسی اثنا میں وہ پانی پینے کی غرض سے کچن کی دہلیز پار کرتا دائیں اور رکھے فریج کی جانب مڑ گیا۔۔۔ جونہی فریج سے بوتل نکالتے اسنے چہرہ بائیں اور گھمایا اسکے چہرے کے رنگ اڑ گئے تھے۔
بوتل کو وہیں پھینکتا وہ برق رفتاری سے نین تارا کی جانب لپکا۔
“ارے احتشام آپ؟”۔ جونہی اسنے نین تارا کے ہاتھ سے چاقو پکڑا ہڑبڑاہٹ کے عالم میں اسنے خون میں لتہپت ہاتھ آنسوؤں سے بھیگے رخسار صاف کرنے کی غرض سے چہرے کی جانب بڑھائے جنہیں احتشام نے ہاتھ بڑھاتے تھام لیا تھا۔
“اب کیا اپنا چہرہ بھی لال رنگ سے رنگنا ہے؟؟”۔ کوفت میں بولتا وہ کچن سے نکل گیا تھا۔
چند منٹوں میں فرسٹ ایڈ باکس کیساتھ کچن میں دوبارہ قدم رکھا۔۔۔ احتشام نین تارا کے دائیں ہاتھ پہ رکھی چیئر گھسیٹ کر اس پہ بیٹھ گیا تھا۔
“ادھر لاو”۔ بولتے ہی اسنے ہاتھ آگے بڑھایا۔
“ن۔ ن۔ نہیں احتشام میں خود کر لوں گی”۔ نین تارا نے ہاتھ پیچھے کو کھینچا۔
“کیا سنا نہیں؟؟”۔ احتشام نے مزید چڑ کر کہا جس پہ نین تارا نے خاموشی سے ہاتھ اسکی جانب بڑھا کر سر جھکا لیا۔
“کدھر دھیان تھا تمھارا؟؟ جو یہ اندازہ تک نا ہوا کہ خود کو نقصان پہنچا رہی ہو”۔ نین تارا کا ہاتھ صاف کرتے اسنے مرہم پٹی کرنا شروع کی۔
“کہیں نہیں ۔۔۔۔ یہیں تھا”۔ ٹال مٹول سے کام لیتے اسنے ہنوز سر جھکائے مختصر جواب دیا۔
“وہ تو دکھ رہا ہے۔۔۔۔۔ کیا پاپا اور بی جان کے نکاح والے فیصلے سے ناخوش ہو؟؟”۔ احتشام تا ہنوز سر جھکائے اسکی پٹی کرنے میں لگا تھا جبکہ اس کا سوال نین تارا کے دل کو چھلنی کر آیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“تقی ہم شادی کب کریں گے؟؟”۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے وہ شرٹ کے بٹنز بند کرنے میں لگا تھا جب لائبہ نے اسے مخاطب کرتے پوچھا۔
“وٹ؟؟”۔ لائبہ کے سوال پہ وہ سرعت سے پلٹا تھا۔
لائبہ جو سفید چادر میں لپٹی بیڈ پہ بیٹھی تھی تقی کے رد عمل پہ چونک اٹھی۔ “تمھارا دماغ تو ٹھکانے پہ ہے؟؟”۔ اسکے قریب جاتے وہ بھڑک اٹھا۔
“کیا مطلب تمھارا؟؟ تم نے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ آج شام ہی نکاح کرو گے۔۔۔ پھر یہ سب؟؟”۔ چادر کو مضبوطی سے اپنے گرد کرتے وہ بیڈ سے اٹھ کر اسکے مد مقابل جا کھڑی ہوئی۔
“ہاہاہاہاا۔۔۔۔ کیا کہا تم نے؟؟؟”۔ تقی کا وحشیانہ قہقہ روم میں گونج اٹھا تھا۔ “نکاح کا مطلب بھی پتہ ہے؟؟”۔ بولتے ہی وہ مزید اسکے قریب ہوا جس سے وہ بوکھلا کر قدرے پیچھے کو ہوئی۔
“نکاح ایک با کردار اور باعزت لڑکی کیساتھ با عزت طریقے سے کیا جاتا ہے۔۔۔ رہی بات تمھاری تو۔۔۔ تمھارے پاس نا ہی کردار ہے نا ہی عزت”۔ بولتے ہی وہ لائبہ کی جانب ہلکے قدم اٹھانے لگا جس سے وہ رسوائی اور بے بسی کا مجسمہ بنے اپنے قدم پیچھے کھینچ رہی تھی۔
“تم مجھے جانتے ہو تقی۔۔۔ میں ایک عزت دار فیملی سے تعلق رکھتی ہوں”۔ اسکی آواز آنسوؤں کی آڑ میں دبنے لگی تھی۔
“عزت دار فیملیز کی لڑکیاں یوں نامحرم مردوں کے بستر کی زینت نہیں بنا کرتیں”۔ لائبہ کی پشت دیوار کے ساتھ جا لگی تھی تب تقی نے دیوار پہ اپنا بائیاں ہاتھ رکھا تھا۔ “میری جان گھر کے گلدان میں گرد آلود کیکر نہیں لگایا جاتا وہ تو شفاف اور مہکتے پھول کی جگہ ہے۔۔۔۔ آئی ہوپ یو انڈر سٹینڈ”۔ لائبہ کے کان کے نزدیک سرگوشی کرتے وہ اپنے پیچھے روم کا دروازہ بند کرتے باہر نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“احتشام بیٹا آپ نے مجھے کالز کیں۔۔۔ میرا فون سائلنٹ پہ تھا اس وجہ سے پک نا کر سکا۔۔۔ کوئی ضروری کام تھا؟؟”۔ واجد اسکے روم میں داخل ہوا۔۔۔ وہ بیڈ پہ بیٹھا جھک کر جوتے پہننے میں لگا تھا تب واجد کی آواز اسکی توجہ کا مرکز بنی۔
“جی پاپا ضروری کام تھا”۔ اب وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
“کہو”۔ قدم اٹھاتا وہ احتشام کے قریب آ کر کہنے لگا۔
“پاپا آپ نے نکاح کا فیصلہ سنانے سے بیشتر کیا نین تارا سے اسکی مرضی پوچھی تھی؟؟”۔ بولتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
“کیوں کوئی بات ہوئی ہے؟؟”۔ احتشام کے چہرے پہ امڈتے مضطرب تاثرات اسے چونکا گئے۔
“ہوا کچھ نہیں ہے پاپا لیکن مجھے ڈر ہے کہیں کچھ ہو نا جائے”۔ اسے تشویش ہوئی۔
“احتشام مجھے کھل کر بتاو آخر کو مسئلہ کیا ہے؟۔۔۔ کیا نین تارا نے تم سے کچھ کہا ہے؟؟”۔
“نہیں پاپا نین تارا نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔ اگر وہ مجھے وضاحت کر دیتی تو شاید میں اتنا پریشان نا ہوتا”۔ احتشام نے نفی کرتے دن کو پیش آنے والا سانحہ مکمل طور پر اسکے گوش گزار کر دیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“ممتاز ۔۔۔۔ ممتاز”۔ روم میں داخل ہوتے اسنے ممتاز کا نام بے زارگی کے عالم میں پکارا تھا۔
کیا ہو گیا ہے واجد؟؟ کونسی جنگ کا محاذ کھل گیا ہے؟ جو آپ یوں چلا رہے ہیں”۔ ممتاز جو وارڈ روب کے پاس کھڑی تھی اب وارڈ روب کا دروازہ بند کرتے اس جانب آئی۔
“جنگ کا محاذ کھلا تو نہیں مگر تم نے اپنی حرکتوں کو سدھارا نا تو ممکن ہے ایسا بھی ہو گا”۔ غصے کی تپش اسکے چہرے کی جانب اچھالتے اسنے ممتاز کو باور کرایا۔
“اب کیا کر دیا ہے میں نے؟؟”۔ ممتاز نے چڑ کر کہا۔
“اب اگر تم نے نین تارا سے کچھ بھی کہا تو میں بھول جاوں گا کہ ہمارے مابین کیا رشتہ ہے ۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ اب تم کسی بھی قسم کے مغالطے میں مت رہنا۔۔۔ نا ہی مجھ سے کوئی امید وابستہ رکھنا”۔ غصے میں آگاہ کرتے واجد نے اسے جاتے جاتے تنبیہ کی پھر روم سے نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆