خسرو اپنے دربار میں بیٹھا ہوا اسی کا حاضرین سے تذکرہ کر رہا تھا کہ کئی دن ہو گئے۔ لوگ فرہاد کی تلاش میں گئے ہیں، مگر اب تک نہ کوئی واپس آیا نہ فرہاد کو اپنے ساتھ لایا۔ فرہاد کی محبت کا شہرہ صرف اسی شہر میں نہیں، بلکہ اطراف عالم میں پھیل رہا ہے۔ عموماً ہر خاص و عام کی زبان پر اُس مصیبت زدہ کا تذکرہ ہے۔ میری رسوائی، سلطنت کی کم رعبی ہوتی ہیں۔ دوست رنجیدہ اور دشمن خوش ہوتے ہیں۔ شیریں کے پارسائی کے دامن کو گناہ سے آلودہ جان کر ارمن کے رہنے والوں کو بدنام کرتے ہیں۔ نوشیروان عادل کے خاندان کی ذلت ہو رہی ہے۔ لیکن یہ آسمانی بلا ہے، جس کو آسانی سے دفع کرنا دشوار بلکہ محال ہے۔ افسوس اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا کہ فرہاد کا اس شہر میں آنا یہاں کی رسوائی کا سبب اور اُس غریب کے جنون کا باعث ہوگا تو نہر کھدوانے کے لیے کوئی اور صورت نکالی جاتی مگر ساتھ ہی اس کے اگر انصاف سے دیکھا جائے تو جو کام اُس نے کیا ہے، وہ اس عمدگی اور آسانی سے کوئی اعلی درجہ کا ریاضی دان کر ہی نہیں سکتا۔ اسی کو قسمت کہتے ہیں کہ فرہاد خانہ برباد دفع افلاس کی فکر میں یہاں آیا اور وسواس مول لیا۔ مصیبت عشق میں پھنسا، زخم ہو تو مرہم سے مندمل کیا جائے، کوئی جسمی مرض ہو تو اطبائے حاذق کی چارہ جوئی کام آئے۔ یہ محبت وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا زخم ہے جس کو مرہم سے شفا نہیں۔ تمام حاضرین دربار اپنی اپنی عقل آرائیاں کرتے تھے، لیکن کوئی ایسی صورت کسی کے ذہن میں نہیں آتی تھی جس سے خسرو کی فکر دفع ہو۔ اس اذیت رسان رقابت کرنے والے کا فیصلہ ہو۔ اتنے میں چند لوگ جو فرہاد کی تلاش میں روانہ ہوئے تھے، فرہاد کو اپنے ساتھ لیے ہوئے حاضر دربار ہوئے۔ باادب سلام کر کے یوں کلام کیا: جہاں پناہ کی عمر دراز دولت زیادہ ہو۔ آپ کے اقبال سے فرہاد کو ہم نے حاضر دربار کیا۔ لیکن فرہاد کی یہ حالت تھی کہ اُس کو بادشاہ کا خطر، نہ جان کا ڈر تھا۔ مجنونانہ حرکات کرتا۔ بیہودہ بکتا ہر چہار طرف تکتا ہوا شیریں شیریں پکارتا تھا۔ شاہ نے اُس کو قریب بُلا کر پوچھا: تیرا کیا نام ہے۔ کہا:عاشق ناکام۔ پوچھا: کہاں وطن ہے۔ کہا: وہ ملک عشق جو دار محن ہے، شعر :
نہ پوچھو حال کچھ ہم سے کہ کس مشکل میں رہتے ہیں
قضا کا سامنا ہے کوچۂ قاتل میں رہتے ہیں
پوچھا: وہاں کون بادشاہ ہے۔ کہا: عشق وہاں کا شاہ ہے، پوچھا: تجھے کچھ کام آتا ہے، کہا: ہاں ہر وقت شیریں کا خیال رہتا ہے۔ مشق تصور اپنا کام ہے۔ اس میں گزرتی ہر صبح و شام ہے
غم سے گریاں تو خوشی سے کبھی خنداں ہوں میں
کس قدر اُس کے تصور میں پریشاں ہوں میں
پوچھا: تیرا کیا مذہب ہے۔ کہا
نہ ہندوم نہ مسلمان نہ کافرم نہ یہود
بحیرتم کہ سر انجام من چہ خواہد بود
پوچھا تیرے ملک کا لباس کیا ہے۔ کہا
تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا
اس کے ان جوابوں سے خسرو کو معلوم ہوا کہ جام عشق کے نشہ سے مخمور ہے، محبت میں چور ہے۔ خسرو نے عنان کلام کو نصیحت کی طرف پھیرا اور کہا: محبت کر کے سوا بدنامی اور رسوائی کے حاصل نہیں ہوتا ہے، تو کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑا ہے۔ دیکھ ہوش میں آ۔ اس خیال فاسد کو چھوڑ، شیریں کی محبت سے منہ موڑ۔ ورنہ جان سے ہاتھ دھونا ہوگا، مفت میں رسوائے زمانہ ہوگا۔ تو اُستاد زمانہ، فن ہندسہ و ریاضی میں یگانہ ہے۔ اپنی لیاقت کا خیال کر کے اس بدنامی کے دھبے سے اپنے دامن کو آلودہ نہ کر۔ پھر اُس کے سمجھانے کو یہ مسدس پڑھا۔
مُسدس
کیا میں اس کافر بد کیش کا احوال کہوں
یہی خونخوار پیا کرتا ہے عاشق کا خوں
زار کر دیتا ہے انسان کو یہ اور زبوں
رفتہ رفتہ یہی پہنچاتا ہے نوبت بجنوں
یہی خوں ریز تو خونخوار ہے انسانوں کا
دین کھوتا یہی کافر ہے مسلمانوں کا
یہی کرتا ہے ہر اک شخص کو رسوا ظالم
یہی کرتا ہے ہر اک چشم کو دریا ظالم
کوہ دکھلاتا گاہے گہے صحرا ظالم
کیا بتاؤں تمھیں کرتا ہے یہ کیا کیا ظالم
دربدر خاک بسر چاک گریباں کر کے
جان لیتا ہے یہی بے سر و ساماں کر کے
اس نے مجنوں سے بنائے ہیں بہت دیوانے
اس نے خود رفتگی میں اپنے کیے بیگانے
جو کہ مشہور جہان اس کے ہیں سب افسانے
پر جو اس کام کا مشاق ہو وہ ہی جانے
کبھی معشوق کے پردے میں نہاں ہوتا ہے
کبھی سر چڑھ کے یہ عاشق کے عیاں ہوتا ہے
ناقۂ لیلی مضطر کا شتر بان یہ تھا
نجد میں قیس سے پہلے ہی حُدی خواں یہ تھا
چاہ میں ڈال کے یوسف کا نگہباں یہ تھا
جان ہر شیر کی لینے کو نیستاں یہ تھا
حسن بن جاتا ہے انداز کہیں ناز کہیں
درد دل ہے یہ کہیں سوز کہیں ساز کہیں
اس کے افسانے ہیں دنیا میں بہت طول و طویل
جس کا ہمدم یہ ہوا ہو گیا وہ خوار و ذلیل
اس کا بیمار پڑا رہتا ہے بستر پہ علیل
دھونس دے دے کے بجا دیتا ہے یہ کوس رحیل
رنج ماتم کے سوا اور یہ کیا دیتا ہے
وصل کی شب سحر ہجر دکھا دیتا ہے
یہی اخفا ہے بصد زیب رگِ ہر گل میں
سوز و نالہ یہ اسی کا ہے دل بلبل میں
یہی ہے جُز میں اگر دیکھو یہی ہے کُل میں
گر فرشتہ ہو تو آ جاتا ہے اس کے جُل میں
خون بے جرم زمانے کا بہاتے دیکھا
میل چتون پہ کبھی اُس کے نہ آتے دیکھا
ایک شمہ ہے کہا حال جو میں نے اس کا
جس پہ اس دیو نے الطاف کا سایہ ڈالا
دشت غربت میں وہ آوارہ و سرگشتہ ہوا
دوست بھی چھوٹتے ہیں شہر بھی چھوڑے اپنا
پاس یہ جس کے گیا خلق سے وہ دور ہوا
کون سا شیشۂ دل تھا کہ نہ وہ چور ہوا
فرہاد خسرو کی نصیحت کو سنتا رہا۔ جب اُس کا سلسلۂ کلام ختم ہوا تو یوں گویا ہوا کہ واقعی جو لوگ اس محبت کے کوچہ سے ناواقف ہیں، ان کو اس کی قدر نہیں۔ ورنہ یہی وہ راستہ ہے جس سے خدا ملے دنیا کے تعلقات سے علاقہ باقی نہ رہے۔ تعجب ہے کہ ہر مذہب اور ملت والے دنیا کو بُرا کہتے ہیں اور اُس کے جانب التفات کرنا باعث آفات سمجھتے ہیں۔ مگر ایسی چیز کی ذرا قدر نہیں کرتے جس کا دیوانہ سب سے پہلے اس سرائے فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کے خیال میں رہتا ہے اور فراق یار کی تکلیفیں اور درد ہجر کی اذیتیں پا کر خدا کے عذاب سے ہر وقت پناہ مانگتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی پر غور کر کے ہر وقت یہاں سے کوچ کرنے کو تیار رہتا ہے
ہر وقت انتظار طلب میں ہیں مستعد
رہتا ہے ایک پاؤں ہمارا رکاب میں
اے صورت پرست! ظاہری آراستگی اور آرایش پر فریفتہ ہونے والو! ذرا شرماؤ خجالت سے گردن جھکاؤ کہ تم لوگ وصل کے حاصل ہونے کے لیے کیا کیا اذیتیں معشوق کو دینا پسند نہیں کرتے۔ او خسرو! سچ بتا کہ جب تو نے دربار میں شیریں کی تعریف سُنی اور نادیدہ اُس کا عاشق بنا، تمام شہر میں اپنے کو مریض عشق مشہور کیا، تو کیا پہلا خیال تیرا یہ نہ تھا کہ فوج کشی کر کے شیریں کو شکست دے اور اس کے ملک کو تباہ کر کے اطراف و جوانب میں اس کی رسوائی کرے۔ جب ہر ملک اور ہر مقام کے لوگ اُس کا بدنامی کے ساتھ تذکرہ کرتے تو کیا شیریں کے نازک دل کے لیے اس سے زائد بھی کوئی اذیت ہوتی۔ ملک کا بادشاہ سلطنت کھو کر جب دوسرے کا ماتحت ہوتا ہے تو ایسی زندگی سے جس میں سوائے بدنامی کے کچھ حاصل نہیں موت کو پسند کرتا ہے۔ ہزارہا واقعے تواریخ عالم میں ایسے نظر آتے ہیں کہ بادشاہان جہاں نے جس وقت کہ دشمن سے شکست پائی، زہر کھا کر اپنی جان دے دی اور ذلت میں زندگی بسر کرنے کی خواہش نہ کی۔ او محبت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے! تیری دل میں یہ خیال کیونکر آیا کہ میں شیریں کو شکست دے کر اپنے قبضہ میں لاؤں اور جام وصال سے سیر ہو کر مزے اڑاؤں۔ اُس وقت تیری عقل کہاں تھی، ہوش و حواس کون لے گیا تھا۔ آج ناصح مشفق بن کر مجھے نصیحت کرنے بیٹھا ہے اور پند کر کے مجھ کو اس مصیبت سے چھڑانا چاہتا ہے جس میں تیرے نزدیک میں پھنسا ہوا ہوں۔ میں اپنی اُسی سچی محبت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تمام روئے زمین کی سلطنت میرے قبضہ میں آ جاتی تو بھی مجھے وہ لطف نہ ملتا جو تنہائی میں تصورِ دلدار سے حاصل ہوتا ہے۔ میں وہ ہوں کہ شیریں کی راحت رسانی کے لیے میں نے اپنی جان شیریں کو کوہ کنی میں ہر وقت موت کی تلخی چکھائی۔ دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھا۔ کوہ کو کاہ سمجھ کر سامنے سے ہٹایا۔ اس دشواری کے دور کرنے میں اپنی جان لڑا دی اور کسی نہ کسی طرح چراگاہ سے اُس کے محل تک جوئے شیر بنا دی۔ جو خوشی اس خبر مجھ کو حاصل ہوئی کہ شیریں اس نہر کے تیار ہونے سے خوش ہوئی اور اپنی راحت کی وجہ سے شادمانی ظاہر کی، وہ خوشی مجھے ہرگز دنیا کی کسی راحت سے نہ ہوتی۔ میں اپنی جان اس پر فدا کرنا اپنے لیے فخر جانتا ہوں اور تو اپنے آرام کے لیے اُس کی ایذا رسانی پر آمادہ تھا۔ میری سچی محبت کی خبر تمام عالم میں آفتاب کی دھوپ کی طرح پھیلی ہے۔ تیری اس نصیحت سے جو تو مجھ کو کر رہا ہے ہر عاقل اور ذی ہوش سچا نتیجہ نکال سکتا ہے۔ خیر، تو اپنے کام میں مشغول ہو اور مجھے اپنے خیال میں مست رہنے دے، میں محبت سے باز نہ آؤں گا، تیری نصیحت سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤں گا۔
اشعار رضاؔ لکھنؤ فرنگی محلی
بک بک کے مغز ناصح مشفق نہ کھائے
باز آئیں گے نہ مر کے بھی اس عاشقی سے ہم
آوارہ ہو کے پائیں گے اُس بے نشاں کو
پہنچیں گے سیدھی راہ پر اس گمرہی سے ہم
ہو جائیں اس میں خاک کہ پامال ناصحا
اُٹھیں گے حشر تک نہ کبھی اس گلی سے ہم
چمکے گا داغ عشق ہر اک دم مثال برق
گھبرائیں کیوں لحد کی بھلا تیرگی سے ہم
سائل ہیں جس کریم کے در پر گدا و شاہ
اے حور تجھ کو خلد میں لیں گے اُسی سے ہم
جب خسرو نے دیکھا کہ میری نصیحت آمیز باتیں اثر پذیر نہیں ہوتیں تو یہ خیال کیا کہ اس کو زر و مال، ملک و املاک دینا چاہیے۔ شاید دولت کے خیال میں اس کی محبت دل سے جاتی رہے۔ حکم دیا کہ دُرّ بے بہا اور بیش قیمتی جواہرات جن کو بادشاہ ہفت اقلیم بھی خرید نہ سکیں حاضر دربار کئے جائیں۔ خزانچی نے حکم شاہی کے موافق تمام قیمتی جواہرات اور موتی کا انبار دربار میں لگا دیا۔ یہ حالت تھی کہ اگر کوئی نظر اُٹھا کر دیکھتا تو سوا جواہرات کے جہاں تک نظر جاتی کچھ دکھائی نہ دیتا۔ سوا حاسد کے ہر شخص کا دل دیکھنے ہی سے سیر ہوتا تھا۔ اُس وقت خسرو نے فرہاد سے کہا کہ میں تیری بھلائی کے لیے کہتا ہوں کہ یہ مال لے اور میں اس کے علاوہ اپنی سلطنت میں وہ تمام ملک بھی تجھ کو دوں گا جن کو تو پسند کرے مگر اس عشق کے خیال کو چھوڑ، شیریں کی محبت سے منہ موڑ اور اپنے ملک جا۔ جس طرح شاہانہ طریقہ پر تو چاہتا ہو زندگی بسر کر۔ فرہاد خانماں برباد خسرو کی باتیں سن کر کہنے لگا کہ افسوس ہے کہ میں نے اتنی کتھا کہی لیکن تو کچھ نہ سمجھا۔ میں جانتا ہوں کہ تو بادشاہ ہے، عالیجاہ ہے۔ خزانہ آباد ہے، رعایا خرم و شاد ہے۔ جو جواہرات تیرے پاس ہیں وہ دنیا میں کہیں نہ ہوں گے۔ لاکھوں ملکوں پر قبضہ ہے، ہر طرف تیری ہی حکومت کا چرچا ہے اور میں مفلس محتاج ہوں۔ نہ خزانہ پاس ہے نہ مال و دولت رکھتا ہوں۔ تو اپنی دولت کے غرور میں مست ہے اور مجھے غریب مسافر جان کر احسان کرنا چاہتا ہے لیکن مجھے عشق کی دولت نے تمام دنیا سے بے پروا کر دیا۔ وصال یار کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں۔ اُس کے خیال میں زندگی بسر ہو جائے، اس کے علاوہ اور کوئی مراد نہیں۔ اس کے بعد اضطراب کے حالت میں شیریں شیریں کہتا تمام دربار میں گھومتا اور یہ شعر پڑھتا تھا۔ شعر:
شیریں تمھیں تو کہتے ہیں فرہاد سب مجھے
ہیں پانچ حرف میرے تمھارے خطاب میں
اہل دربار اس کی دیوانگی اور عشق صادق دیکھ کر حیران تھے، سربہ گریبان تھے۔ ہر ایک اُس کو سمجھاتا لیکن وہ کسی کی نہ سُنتا۔ کبھی روتا اور کبھی تصور دلدار میں یہ غزل پڑھتا۔ غزل :
دفن ہو گا اے پری کشتہ جو تیری چال کا
تھرتھرائے گی زمین ہوگا گماں بھونچال کا
ہاتھ میں لے گا اگر وہ نو گل گلزار حسن
بوئے گل پیدا کرے گا پھول ہر اک ڈھال کا
کھا گیا گھر تیری فرقت میں مجھے اے بحر حُسن
کام دروازے کی مچھلی نے کیا گھڑیال کا
یوں پڑے ہیں تیرے کوچے میں ہم اے غفلت شعار
باغ میں جیسے ہو عالم سبزۂ پامال کا
آہ سوزاں سے ہمارے جل رہا ہے اک جہاں
کوکب افلاک پر ہوتا ہے شک تبخال کا
دیدۂ کوکب سے روئے چرخ خون شبنم کی جا
میں بیان اُس سے کروں قصہ جو اپنے حال کا
اس قدر خار مغیلاں دشت غربت میں چبھے
ہو گیا عالم کف پا میں مرے غربال کا
دیکھتا ہوں جھلملاتا ابر میں اختر اگر
یاد آتا ہے چمکنا گیسوؤں میں خال کا
عشق میں اُس بت کے میں طفلی سے دیوانہ رہا
بند سادہ ہی رہا نامہ رضاؔ اعمال کا
جب خسرو کو یقین ہو گیا کہ فرہاد کا جنون عشق حد سے بڑھ چکا، اب اس کو نصیحت کرنا بے سود ہے تب یہ خیال کیا کہ کسی ایسے کام میں اس کو پھنسانا چاہیے کہ خود ہی مصائب اٹھا کر جان دے۔ بے جرم قید کرنا خلاف انصاف تھا۔ شہر بدر کرنے سے یہ خیال تھا کہ تمام عالم میں گھومے گا، ہر طرف شیریں کو بدنام کرے گا۔ تمام اطراف و جوانب کا لحاظ کر کے خسرو نے فرہاد سے کہا کہ او آوارۂ کوئے عاشقی! مجھے کبھی اس بات کا یقین نہیں کہ تو شیریں کا سچا عاشق ہے جب تک امتحان نہ ہو۔ فرہاد نے کہا جو منظور ہو، امتحان ہو جائے۔ خسرو نے کہا: یہ جو راہ میں کوہ بے ستون حائل ہے اگر تو اسے کاٹ کر راستہ بنا دے تو مسافروں پر بھی تیرا احسان ہو اور ہر قافلہ والا بے ضرورت چکر کھا کر جانے سے بچے اور مجھے بھی تیری الفت اور محبت کا یقین ہو جائے۔ جو کچھ اس کے صلہ میں تو مانگے گا، میں دوں گا اور روم و شام بلکہ تمام عالم میں قیامت تک تیرا نام مشہور ہوگا۔ فرہاد نے کہا: بہ دل منظور ہے لیکن جب یہ کام مجھ سے ہو جائے تو اُس کے صلہ میں مجھے شیریں ملے۔ بادشاہ یہ رقابت کا جملہ سُن کر دل میں بے حد کشیدہ ہوا مگر چونکہ جانتا تھا کہ یہ کام ہو نہیں سکتا۔ فرہاد اس تمنا میں اپنی جان دے گا میرا مقصد بر آوے گا۔ فوراً قبول کر لیا کہ اگر کوہ بے ستون کو تراش کر تو نے صاف راہ بنا دی تو میں شیریں کو تیرے حوالہ کروں گا، اس مشقت کے صلہ میں تیرا دامن گوہر مقصود سے بھروں گا۔ کچھ زمانے کی مہلت فرہاد اس کام کے انجام دینے کے لیے حاصل کر کے دیوانہ وار وہاں سے بے ستون کی جانب روانہ ہوا۔