شیریں کا نام اس لیے شیریں مشہور تھا کہ اُس کی غذا شیٖر تھی۔ اتفاقاً ایک دن شِیر کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی، شیریں ملول اور دلگیر ہوئی۔ کنیزوں سے اس کا تذکرہ کیا، بیانِ ماجرا کیا۔ خیال تھا کہ کوئی ایسی صورت ہوتی کہ چراگاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہوتی، ہر وقت شِیر خواری ہوتی۔ اتنے میں شاپور عاقل دستور بھی آیا۔ شیریں کو ملول دیکھ کر بدحواس ہوا، گھبرایا۔ پوچھا: ملکہ! خیر ہے، کیا فکر ہے، کس بات کا خیال ہے، کیوں دل نڈھال ہے؟ شیریں نے کہا: یہاں ہر طرح کی راحت ہے مگر ایک حیرانی ہے۔ شِیر وقت پر نہیں ملتا، یہی پریشانی ہے۔ یہاں سے چراگاہ دور ہے۔ پہاڑ بیچ میں حائل ہے۔ کوئی ایسی تدبیر ہو کہ چراگاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہو تاکہ شِیر ملنے میں مجھے ہر وقت آسانی ہو۔ مجھے غذا نہ ملنے سے دشواری ہوتی ہے۔ شِیر ہی میری غذا ہے۔ اُس کی تاخیر سے حیرانی ہوتی ہے۔ شاپور بصد ادب گویا ہوا: یہ کوئی مشکل نہیں۔ حضور کے حکم کی دیر تھی، نہر جلد تیار کراتا ہوں۔ میرا ایک پیر بھائی فرہاد نامی ہے، اُس کو بلاتا ہوں۔ وہ فن ریاضی میں طاق شہرۂ آفاق ہے۔ رمل، ہندسہ، نجوم خوب جانتا ہے۔ تقدیر یاوری نہیں کرتی اس لیے افلاس میں پھنسا ہے۔ وہ کوہ کو دم بھر میں کاہ کر دے گا۔ دامن گوہرِ مقصود سے بھر دے گا۔ شیریں نے حکم دیا اُس کو جلد بلا کر حاضر کرو۔ شاپور وہاں سے اُٹھا، چین کے ملک میں جہاں فرہاد رہتا تھا، لوگوں کو بھیجا۔ وہ شاہی طلب کو قسمت کی یاوری سمجھ کر فوراً آیا۔ یہ معلوم نہ تھا کہ بدقسمتی سے اور آفت میں پھنسوں گا، تمام عمر کا غم مول لوں گا۔
فرہاد کا آنا اور شیریں پر عاشق ہو کر نہر کھودنا
جس قدر فرہاد کے آنے میں تاخیر ہوتی، شاپور پریشان ہوتا، فکر دامن گیر ہوتی۔ غرض کچھ عرصہ کے بعد فرہاد آیا۔ شاپور سے ملا۔ شاپور اپنے ساتھ لے کر شیریں کے محل کے دروازے پر آیا۔ عشق نے اپنی صورت دکھائی، نئی رنگت جمائی۔ یہ خانہ خراب اپنی فکر میں لگا، فرہاد پر قبضہ کیا۔ سایہ کی طرح ساتھ ہوا، ہاتھ میں ہاتھ ہوا۔ اسی نے زلیخا کو یوسف پر مائل کیا۔ اپنا مطلب حاصل کیا۔ نل دمن کا قصہ مشہور عالم ہے۔ اس کے ہاتھوں دنیا میں ہر ایک مبتلائے غم ہے۔ لیلی مجنوں کو کون نہیں جانتا، درد کی طرح دل میں گھر کرتا ہے۔ دکھلائی نہیں دیتا۔ ہر ایک کو زیر و زبر کرتا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا درد ہے جس سے کسی کو ہوتی شفا نہیں۔ وامق و عذرا کی محبت بلبل و گل کی الفت سب پر عیاں ہے۔
غرض جب شاپور فرہاد کو لے کر در دولت پر حاضر ہوا، عرض بیگی نے ملکہ کو خبر دی۔ خواصوں کو حکم ہوا: جاؤ پس پردہ کرسی پر اُس کو بٹھاؤ۔ اور خود بھی نہایت ناز و ادا سے پردے کے قریب جلوہ فرما ہوئی۔ دہنِ شیریں سے کلام کر کے فرہاد کے عیش کو تلخ کام کیا۔ شریں کے حسنِ عالم افروز کی جھلک دیکھ کر فرہاد دیوانہ تو ہو ہی چکا تھا۔ کلام سُن کر بے ہوش از خود فراموش ہوا۔ چکر کھا کر زمین پر گرا۔ کوہ کن کے بدن میں رعشہ پڑا۔ خواصوں کو ہوش میں لانے کا حکم ہوا۔ خود بھی اس کی خبر گیر ہوئی۔ بدقت ہوش آیا۔ شیریں نے اِدھر اُدھر کے فرح آمیز تذکرے چھیڑ کر نہایت انداز سے دلی مقصد کا اظہار کیا۔ فرہاد کو اور زیادہ بے قرار کیا۔ یوں گویا ہوئی: میں نے سُنا ہے کہ تو سنگ تراشی میں استاد ہے۔ اپنا مثل نہیں رکھتا ہے۔ مجھے ایک نہر بنوانا ہے، جس میں پانی کے بدلے شِیر لہریں مارے۔ چراگاہ سے میرے محل تک آوے۔ اگر یہ کام تجھ سے ہو جائے گا، منہ مانگا انعام پائے گا۔ خوش ہو جائے گا۔ فرہاد نے کہا: جو حکم ہو بسر و چشم بجا لاؤں گا۔ بہت جلد چراگاہ سے یہاں تک نہر پہنچاؤں گا۔ ایک مہینہ کی مہلت ملے۔ اسی میعاد میں نہر تیار کر کے شِیر بہا دوں گا، اس کام میں جان لڑا دوں گا۔ فرہاد یہ وعدہ کر کے وہاں سے چلا اور چراگاہ کا پتا لگا کر وہاں تک پہنچا۔ ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ آسانی سے نہر کھودنے کی ترکیبیں نکالنے لگا۔ کسی طرف فاصلہ زیادہ تھا، کسی جانب پہاڑ اونچا نظر آتا تھا۔ ریاضی کے اصول پر نظر کر کے پیمائش کی، آخر کار ایک سمت ڈوری ڈالی اور تیشہ ہاتھ میں لے کر الا اللہ کہہ کر کوہ پر مارا۔ عشق میں دیوانہ تھا۔ اس کے تیشہ سے کوہ میں لرزہ پڑا۔ جس سنگ پر پڑتا پارہ پارہ کرتا۔ اسی طرح اپنے وعدہ کے اندر اُس نے پہاڑ کو کاٹ کر نہایت عمدگی سے راہ صاف کی اور شیریں کے محل تک نہر پہنچا دی۔ تمام ملک میں خبر ہوئی۔ تماشائیوں کا ہر وقت مجمع ہونے لگا۔ جو دیکھتا حیرت میں رہ جاتا۔ شدہ شدہ شیریں بھی آگاہ ہوئی۔ انیسوں جلیسوں کو ساتھ لے کر دیکھنے آئی۔ نہر دیکھ کر بحرِ حیرت میں ڈوبی۔ فرہاد کی تعریف کی۔ بہت کچھ انعام و اکرام دینے کا حکم دیا، مگر وہ الفت کا دیوانہ تھا، کچھ نہ لیا۔