(Last Updated On: )
ہمارے معاشرے اور سماج میں اس وقت زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔اس وقت معاشرہ جس انتشار اور ابتری کاشکار ہے اس کی اصلاح کے لیے ادب کلیدی کردار ادا کر سکتاہے۔مادی دور کی تخریب کے باعث معاشرتی زندگی ہوس کے مسموم اثرات کے پیش نظر جان کنی کے عالَم میں ہے۔ان تمام حالات سے بے نیاز فرہاد احمد فگارؔ ایسا ادب پرور، تخلیق ادب اور زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کی مشعل جلائے ہوئے ہے۔ادبی مراکزسے دور ہوتے ہوئے بھی ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا خواہاں ہے۔اس کاخیال ہے کہ ایک دیانت دار اور باضمیر تخلیق کار اپنے قلم کی حرمت کو امانت سمجھتے ہوئے تہذیبی،ثقافتی اور تاریخی اقدار کو محفوظ کرکے وہ نہج عطاکرتا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کامینارہ ثابت ہوسکتا ہے۔
تخلیقِ فن اور تحقیقِ فن کے لمحوں میں فرہاد احمد فگارؔ نے جس سادگی،سلاست،اور بے تکلفی کو ملحوظ رکھا ہواہے وہ اس کا امتیازی وصف ہے۔کبھی کبھی مجھے اس شخص پر حیرت ہوتی ہے کہ اس کے اندر ادب پروری کا وفور اتنی زیادہ مقدار میں کیسے درآیا؟وہ ہر صبح فروغِ ادب کی تڑپ سے بھرپور ایک برقی پیغام سیکڑوں موبائل نمبروں پربھیج رہا ہوتا ہے جس میں فنِ شعر کی کوئی گتھی سلجھائی جاتی ہے۔پروفیسر حبیب گوہرؔ نے فرہاد احمد فگارؔ کے اس شغل کو اپنے ایک مضمون میں’’فرہادی گجر‘‘ کا نام دیا ہے۔دن کا آغاز اس کے انتخاب کردہ شعر سے ہوتا ہے تو سارا دن شعر وادب کادھیان کسی نہ کسی صورت ساتھ ساتھ رہتا ہے۔اس طرح اس کا پیغام پانے والے شعر وادب سے جڑے رہتے ہیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ وہ خود بھی شاعر ہے اس کی ذاتی بیاض ایسے بے شمار شعروں سے بھری پڑی ہے۔
پہلے آنکھوں میں ترا عکس اتارا میں نے
اور پھر ان آنکھوں کو شیشے میں سجا کے رکھا
٭٭٭
شمعِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی
وہ لہو مصطفی کے گھرانے کا ہے
٭٭٭
وہ جو مزدور بناتے ہیں مَحل اوروں کے
ان کا اپنا کوئی گھر بار نہیں دیکھا ہے
فرہاد احمد فگارؔ شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری،کالم نگاری،سفرنامہ اور ادبی تحقیق کاکام بھی تن دہی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔تدریس کے ساتھ ساتھ شعبہؔ صحافت سے بھی وابستگی ہے۔۱۶،مارچ،۱۹۸۲ء کو چھتر دومیل،مظفرآباد میں پیدا ہوئے۔والدین نے فرہاد احمد نام رکھا جس میں فگارؔ کا لاحقہ لگا کر اس نے اپنے ہونے کا اعلان کر دیا۔ابتدائی تعلیم علی اکبر اعوان ماڈل ہائی ا سکول،اپر چھتر، مظفرآباد سے،انٹر میرپور بورڈ سے کرنے کے بعد علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے فرسٹ ڈ ویژن میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ایم اے اردو نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد سے فرسٹ ڈ ویژن سے کیا۔ایم اے کا مقالہ بہ عنوان ’’احمد عطااللہ کی غزل گوئی‘‘ تحریر کیا جسے شائع کرنے کا بھی ارادہ ہے۔مذکورہ یونی ورسٹی سے ہی ایم فل کا مقالہ ’’آزاد کشمیر کے غزل گو شعرا،تجزیاتی و تقابلی جائزہ‘‘کے عنوان سے لکھ کر ایم فل کی ڈگری مکمل کی ۔جب کہ اسی ادارے سے ڈاکٹر شفیق انجم کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی اردو کے خریطے کے لیے اردو املا و تلفظ کے حوالے سے مقالہ لکھ رہا ہے۔اس کے علاوہ اقرا یونی ورسٹی اسلام آباد سے کمپیوٹر ڈپلوما کیا ہے۔نمل اور کامسٹ سے انگریزی زبان کا ڈپلوما حاصل کیاِ۔۲۰۱۰ء میں اسلام آبادانٹر نیشنل اکیڈمی سے صحافت کا ڈپلوما حاصل کیا۔شعبہ صحافت ۲۰۱۱ء سے جوائن کر رکھا ہے،ماہ نامہ پرواز (لندن)،ماہ نامہ خاص بات (اسلام آباد)، ماہ نامہ اخبارِ اردو(ادارہ فروغ اردو ،اسلام آباد) ، ممبئی اردو نیوز (ممبئی)،سہ ماہی ارمغان ادب (اسلام آباد)،روزنامہ سیاست،اوصاف،صبح نو،جناح،شمال،جموں کشمیر،خبرنامہ میں اس کی مضمون کثرت سے چھپتے رہتے ہیں۔
مطالعے کا شوق جنون کی حد تک ہے،اس جنون کی تشفی کے لیے گھر میں ہی ایک ضخیم لائبریری قائم کر رکھی ہے جس میں ہزاروں معیاری کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔۲۰۱۳ء سے موبائل میسجز سروس کے ذریعے روزانہ چھے سوسے زائد لوگوں کو تسلسل کے ساتھ فروغ شعر وادب کا ایک مسیج بھیجنا اس کی تو عادت ہے مگر جن لوگوں کو بھیجتا ہے ان کی بھی بن گئی ہے اور اگر کسی دن تاخیر ہوجائے تو ایک دوسرے کو فون کر کے پوچھتے ہیں کہ کیا بات ہے؟ آج فگارؔ کا میسج نہیں آیا۔اس کمنٹ کی مثال دیکھنے میں کم ہی آتی ہے۔اس کے اَساتذہ کرام بھی پہاڑ لوگ ہیں جن میں افتخار عارف،ڈاکٹر عابد سیال،ڈاکٹرشفیق انجم،ڈاکٹرنعیم مظہر،ڈاکٹرفوزیہ اسلم،پروفیسرڈاکٹر روبینہ شہنازاور نذیر حسین اعوان چند نام ہیں۔ان اَساتذہ سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے بعد بندہ دنیا داری کی بات کیسے کر سکتاہے؟اسے وہی کام کرنا ہے جو فرہاد احمد فگاؔ ر کررہا ہے۔
اس کے دوست بھی چنیدہ ہیں خوب صورت،سچے اور کھرے شوکت اقبال مصوؔر،حسن ؔ ظہیر راجا،اور میں ڈاکٹر ماجد ؔ محمود کانام بہت احترام سے لوں گا کہ مجھے فرہاد سے ملانے میں اور اس کے قریب کرنے میں ان کا بڑا کردار ہے۔۲۳/اپریل /۲۰۱۶ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا،شریکِ حیات بھی تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں،شادی کے موقع پر بھی مشاعرے کا انعقاد کر ڈالا جس کی صدارت کراچی سے آئے ہوئے سینئر شاعرمعراج جامیؔ صاحب نے کی،محفل خوب جمی مگر یہاں بھی اپناکلام نہ سنایا،فرہاد شعر سنانے میں حد درجہ محتاط واقع ہوا ہے۔عجیب شاعر ہے خود شعر سننے کے لیے دوردرازمشاعروں میں شرکت کرتا ہے۔نہ کسی ستائش کی تمنا نہ کوئی اور طلب بس ذہن میں فروغ شعروادب کاجنون ہے۔آج کل جامعہ آزادجموں کشمیر مظفرآباد کے شعبہ ٔاردومیں بہ طور جز وقتی لیکچرار خدمات سرانجام دے رہا ہے۔اردو زبان میں تلفظ اور املا کے حوالے سے خصوصی دل چسپی ہے مگر اس کے اس ذوق کی تشفی نہیں ہوپاتی کہ ہمارے ہاں اردو کے استاد سے لے کر قارئین تک کسی کاتلفظ درست نہیں۔فرہاد اس حوالے سے برین واشنگ میں مصروف ہے،دیکھیے کیا بنتا ہے؟
ملک کے بڑے ادیب اور شعرا فرہاد کی فروغ ادب کے لیے کاوشوں کے مدعا بھی ہیں جن میں جدیدغزل کے حوالے سے بڑا نام ظفرؔ اقبال اپنے کالموں میں بارہا نہ صرف ذکر کر چکے ہیں بل کہ اس کے اس کام کو خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔قارئین کو یہ یاد رہے کہ ظفرؔ اقبال کو متاثرکرنا کوئی آسان بات نہیں نہ جانے فرہاد کے پاس کیا جادو ہے کہ وہ ایسا بہت آسانی سے کر جاتا ہے۔فرہاد ان دنوں ڈاکٹر افتخار مغل کے نام مشاہیر کے خطوط یک جا کرنے میں مگن ہے بل کہ یہ کام وہ مکمل کرچکا ہے اس کا خیال ہے کہ وہ ان خطوط کو ’’نامے بہ نام افتخار‘‘کے نام سے مرتب کرے گا۔یہ اس کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا اور آزاد کشمیر کے ادب پر احسان عظیم بھی۔افتخار مغل آزاد کشمیر میں جدید غزل اور نظم کے امام گرادنے جاتے ہیں،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی ادبی خدمات پر کام سرکاری سرپرستی اوراعانت میں ہوتا،ستم یہ کہ ان کی بے شمار کتب شائع ہونے کے انتظار میں نہ جانے کہاں پڑی ہیں؟اس کوتاہی پر ہم سب شرمندہ ہیں اور ہم سب کو فرہاد کی ہر سطح پر مدد کرنا ہو گی تاکہ افتخار مغل کی زندہ تاریخ گرد ہو نے سے بچ سکے۔مجھے یقین ہے کہ یہ کام فرہاد نے کرنا ہے اوروہ ایسا کربھی لے گا۔فرہاد احمد فگارؔ کی شخصیت بھی اس کے فن کی طرح خوب صورت اور مثالی ہے۔بے لوث محبت کے اعجاز سے وہ ایک طرح سے اپنی ذات کے فروغ،پر خلوص جذبات کی تسکین،تزکیہ نفس اور اپنے تجربات واحساسات کے ابلاغ کو یقینی بنانے کی سعی میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔اس کی زندگی شمع کی مانند ہے۔اس کی سیرت کی تشکیل میں اس کے والدین،اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی فطرت کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔
فرہاد احمد فگارؔ کا شخصی منظرنامہ ایک دم واضح ہے جب کہ تخلیقی اور تحقیقی منظرنامہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا جارہا ہے۔یہ ابھی طے ہونا باقی ہے کہ وہ اچھا محقق ہے یا اچھا تخلیق کار،اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔اس کی اضافی خوبی یہ ہے کہ وہ اچھا انسان ہے اور اس کا تعلُق مظفرآبادسے ہے۔یہ وہ مِٹی ہے جس نے میرے استادِ محترم ڈاکٹر افتخارؔ مغل کے جسدِ خاکی کو تخلیق کیا۔اس دھرتی سے میرے دوستوں واحد ؔ اعجاز میر،علی عارفینؔ،اور ظفر اثری کا خمیر بنایا گیا ہے،اگر کبھی آپ میں سے کوئی صدیوں کی رفاقت لمحوں کے حلق انڈیلنا چاہے توضروری ہے کہ میرے احباب کی قربت کے چند لمحے چرا لیں،آپ اس معراج کو پالیں گے کہ میں ان کے نام کی مالا کیوں جھپتا ہوں۔انھی احباب میں سے ایک نام فرہاد احمد فگارؔ بھی ہے جس کا تیشہ لمحوں کی نوکیلی چٹانوں کی تراش خراش میں مصروف عمل ہے۔خدا کرے کہ کارِفرہاد اسی یقین اور اعتمادسے جاری وساری رہے،آخر میں دو شعر اس کی نذر کہ:
دشت آباد کر لیا جائے
چل تجھے یاد کرلیا جائے
رائیگاں ہو سکوں نہ فرقت میں
کارِ فرہاد کر لیا جائے
سید شہبازؔ گردیزی
باغ،آزاد کشمیر
٭نوٹ: یہ مضمون ۲۲/مارچ/۲۰۱۷ء کو آئی بی سی اردو(ویب سائٹ) پر شائع ہوا۔