(Last Updated On: )
یہ فرش و بام یہ دیوار و در سوال کریں
مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے
سمجھ میں آئے اگر شک پہ شک کیا جائے
اگر یقین پہ نہ آئے یقیں تو کیا کیجے
یہی ہے قصد و قضا، وقت کرتا رہتا ہے
نہیں کو ہاں کبھی ہاں کو نہیں تو کیا کیجے
حیران ہوں کرشمۂ خطاط دیکھ کر
یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی
سر پھوڑیے ضرور مگر احتیاط سے
دیوار پر یہی ہے ہدایت لکھی ہوئی
ایام کی کتاب میں مرقوم کچھ نہیں
کیا مقصد وجود ہے معلوم کچھ نہیں
رہ جائے گا سماں وہی میلے کی شام کا
یہ سب ہجوم اور یہ سب دھوم کچھ نہیں
تم ابھی چپ رہو صبر خود بولتا ہے
نشۂ خون میں، جبر خود بولتا ہے
شرط ہے تن پہ اک تازیانہ لگے
زیر زور ہوا ابر خود بولتا ہے
٭٭٭
ماخذ:
تشکر: یاور ماجد جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید