فراز نے آگے بڑھ کر دروازہ پیٹ ڈالا۔۔۔۔
شہلا نے ہی دروازہ کھولا تھا۔۔۔۔صبح ہی تو وہ فراز کی ذلالت کا شکار ہو کر آئی تھی اور وہ بے صبر ا شام کو ہی آن پہنچا تھا ۔۔۔اُسے کیا پتہ تھا شہلا کتنی شدت سے منتظر تھی اُن لوگوں کی۔۔۔۔
شہلا کی نظر جیسے ہی فراز پر پڑی صبح والا ہر منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔۔۔۔کیسے وہ اُسے کھینچتا ہوا لے گیا تھا اُس نے تو نظر بھر کر رپلیکا بھی نہیں دیکھے تھے۔۔۔نہ ہی بیگز والے کے سامنے رکنے کا موقع دیا اور چنا چاٹ کی آدھی پلیٹ یاد آتے ہی اُس کا چہرہ غصے سے لال نیلا پیلا ہو گیا۔۔۔۔
آئیے نہ دروازے پر کیوں کھڑے ہیں آپ لوگ۔۔۔میں تو شدت سے منتظر تھی آپ لوگوں کی۔۔۔۔شہلا نے جما جما کر کہا۔۔۔۔
فراز نے محبت سے اُسے دیکھا ۔۔۔۔ شمس بیگم کو بھی وہ پہلی ہی نظر میں اچھی لگی ۔۔دبلی پتلی اسٹائلش ہیئر کٹنگ گورا رنگ بلکل اکشرا کی جھلک نظر آئی اُنھیں۔۔۔۔شمس بیگم کو سٹار پلس کی اکشرا جیسی بہو ہی تو چاہیے تھی۔۔۔حسنہ تو اُن کی نظر میں گوپی گنوار تھی۔۔۔
امّاں نہیں ہیں کیا آپ کی۔۔۔شمس بیگم نے
مٹھائی کا شاپر شہلا کے ہاتھ میں دیتے ہوئے پوچھا۔۔
بنا ڈبّے کے شاپر میں پڑی مٹھائی چیخ چیخ کر اپنے ٹھیلے کے ہونے كا عندیہ دے رہی تھی۔۔۔۔
مٹھائی کہاں سے لی آپ نے فراز۔۔۔۔بہت معصومیت سے فراز سے پوچھا۔۔۔۔
وہ لمحوں میں گڑ برا گیا۔۔۔۔۔یہیں ایٹی نائن سے۔۔۔۔اُس نے قریب کی ہی ایک جگہ کا نام بتایا۔۔۔دکان کا نام گول کر گیا۔۔۔۔
ہممم۔۔۔حاجی صاحب کے ٹھیلے کے لگ رہے ہیں وُہ دو سو روپے کلو والے۔۔۔شہلا اب اپنی بے عزتی کا بدلہ لیے بنا چھوڑنے والی نہیں تھی۔۔۔
ہاں ہاں وہیں کے ہیں۔تمھیں پسند ہیں۔۔۔فراز کو لگا شاید شہلا کو پسند ہیں وہاں کے جبهی فورا ہاں کہہ دیا۔۔۔
نہیں۔۔۔ایک دفعہ امّاں لائیں تھیں بلکل یہی بدبو آ رہی تھی اس لیے پہچان گئی۔۔۔میں نے امّاں کو اُسی دِن کہہ دیا تھا آئندہ پیسے بچانے کی چکر میں پیسے ضائع نہ کرنا۔۔۔۔حد ہے کنجوسی کی۔۔۔۔شہلا نخوت سے کہتی مسکرائی۔۔۔۔
فراز کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔۔وہیں شمس بیگم نے بھی پہلو بدلا۔۔۔۔
شہلا کی امّاں اندر آئی تھیں اُن لوگوں سے ملنے کے بعد وہ شہلا کے برابر آ بیٹھیں۔۔۔۔
فراز کے لیے رشتوں کی تو کوئی کمی نہیں لیکن میرے بیٹے کو شہلا پسند ہے اس لیے میں یہاں آئی ہوں۔۔۔شمس بیگم نے اپنا رعب جما نے کی کوشش کی۔۔۔۔
یوں تو میری شہلا کے لیے روز ہی ایک سے بڑھ کر ایک رشتا آتا ہے لیکن یونہی کسی کو تھوڑی میں اپنی بیٹی دے دوں گی۔۔۔شہلا کی امّاں بھی کم نہیں تھیں۔۔۔
کیا ہے آپ کے بیٹے کے پاس جو میں آپ کو شہلا جیسا ہیرا دے دوں۔۔۔۔۔اب کے انہوں نے فراز کو گهورا۔۔۔۔
سرکاری افسر ہے میرا بیٹا۔۔۔۔شمس بیگم نے فخر سے کہا۔۔۔
اچھا فائلیں اِدھر اُدھر کرتے ہو نہ تم ۔۔۔شہلا نے فرض کو دیکھا۔۔۔۔تو افسر نہیں کلرک ہو تم۔۔۔ہے نہ۔۔۔۔پہلی بار کسی نے فراز کو کلرک کہا تھا اس کی انا کو دھچکا لگا۔۔۔۔
جیب میں کتنے پیسے ہیں تمہاری۔۔۔۔شہلا کی امّاں کے سوال پر فراز نے حیرت سے اُنہیں دیکھا۔۔۔
بتاؤ نہ۔۔۔۔سنا ہے دو دو مہینے تنخواہ نہیں ملتی سرکاری ملازمین کو۔۔۔۔ایک نیا تیر پھینکا گیا۔۔۔۔
شمس بیگم ایک فٹ اچھلیں۔۔۔بہن یہ کس طرح کی باتیں پوچھ رہی ہیں آپ۔۔۔۔
بیٹی مانگنے آئی ہیں نہ آپ ۔۔۔اتنا پوچھنے کا تو حق بنتا ہے میرا۔۔۔۔۔
فراز میاں اس کٹھارا بائک کے علاوہ کوئی گاڑی ہے آپ کے پاس۔۔۔۔میرا مطلب کار وار۔۔۔۔۔۔آج تو فراز کو ڈوبا ڈوبا کے مارنے کا ارادہ تھا۔۔۔اس کی ساری اکڑ یہیں خاک میں ملا نی تھی۔۔۔
نہیں گاڑی نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔فرض کی صورت رونے والے ہو گئی۔۔۔آج تک وہ خاندان بھر کے آگے اکڑ کر چلتا رہا تھا سب اسے سر آنکھوں پر بیٹھا تے ۔۔آج پہلی دفعہ اسے آئینہ دیکھنے کو ملا۔۔۔۔
بہن میری بیٹی کے رشتے تو امریکہ سے تک آئے ہیں میں فراز جیسے سے کیوں کر بیاہ دوں۔۔۔ہے ہی کیا آپ کے پاس۔۔۔۔شہلا کی امّاں نے اُنہیں عجیب نظروں سے دیکھا۔۔۔
میرے بیٹے کو بھی رشتوں کی کمی نہیں۔۔۔وہ تو آپ کی بیٹی نے پھانس لیا۔۔تو میں عزت سے رشتا لئے چلی آئی۔۔۔شمس بیگم کا صبر جواب دے گیا تھا۔۔۔۔
میری بیٹی کو پھانسنے کے لیے یہی لنگور ملا تھا کیا۔۔۔دونوں امّاں بیٹی تمسخر اڑاتے زور زور سے ہنسنے لگی۔۔
شہلا کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔فراز نے مزاحمت کی۔۔۔
آدھی پلیٹ چنا چاٹ کہا کر بد ہضمی ہو گئی ہے مجھے۔۔۔شہلا نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
فراز کے منہ کو تالا لگ گیا۔۔۔۔شمس بیگم بات سمجھ نہ سکیں۔۔۔۔
چلیں امّاں وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
یہ لو اپنی مٹھائی لیتے جاؤ۔۔۔۔شہلا نے تھیلی واپس فراز کو تھمائی۔۔۔۔
اور بات سنو۔۔۔۔۔جا کر چلوبھر پانی میں ڈوب مرو ۔۔۔۔تم تو حسنہ کے بھی لائق نہیں ہو۔۔۔۔نفرت سے کہتی شہلا نے دروازہ پٹخ سے بند کیا تھا۔۔۔۔اس کے دل کو تھوڑا سکون آیا تھا۔۔۔۔
باہر کھڑے دونوں ماں بیٹے کی شکل پر بارہ بج گئے تھے۔۔۔۔شمس بیگم نے مٹھائی کی تھیلی کھول کر سونگھی تو واقعی ایک عجیب سی بدبو نتھنوں سے ٹکرائی۔۔۔
چل اس کو شمع کے گھر ٹھکانے لگاتے چلتے ہیں۔۔۔۔شمس بیگم نے بیٹے کی اُتری ہوئی شکل دیکھ کر کہا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں شمع بیگم اور حسنہ واپس گھر کے لیے نکلے۔۔۔تھوڑی دیر ہی وہ اپنی دونوں بھابیوں کے پاس بیٹھی تھیں۔۔۔تعویذ گاڑ دیے گئے تھے سو اُن کا کام ہو گیا تھا۔۔۔۔
گھر پہنچتے ہی شمع بیگم کی نظر شمس آپا پر پڑی تو انہوں نے حیرت سے حسنہ کو دیکھا۔۔۔۔۔
کیسی ہے حسنہ میری بچی۔۔۔۔شہلا سے جوتے کھا کر انہیں حسنہ پر پیار آیا۔۔۔
حسنہ حیران پریشان سی کھڑی تھی خالہ کا لہجہ بالکل ہی الگ تھا۔۔۔
یہ مٹھائی لائی تھی میں ۔۔۔۔سوچا کچھ لیتی چلوں اپنی بہن کے لیے۔۔۔۔انہوں نے شمع بیگم کی طرف تھیلی بڑھائی۔۔۔۔شمع بیگم بس چکرا کر گرنے کو تھیں۔۔۔۔تعویذ دبائے ابھی گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے ۔۔۔نور بیبی کی کرامات کی وہ قائل ہو گئیں۔۔۔۔واقعی اُن کے تعویذ نے تو کمال ہی کر دیا تھا۔۔۔۔
یہ شمع پھوپو بُہت جلدی میں تھیں آج ۔۔۔یوں آئی یوں گئیں۔۔۔مومنہ کو اُن کا آنا سمجھ نہیں آیا۔۔۔
اچھا ہے نہ تمہیں کیا کرنا اُن سے ۔۔۔جاتی ہیں تو جائیں۔۔۔حسنہ کو دیکھ کر تو غصّہ ہی آ گیا ریحان اُسے بھابی بنا کر ہمارے سر پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔آمنہ دوپٹہ اوڑھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔مومنہ نے اُسے دوپٹہ اوڑھتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
دودھ لینے ۔۔ختم ہو گیا تھا صبح ۔۔۔میں منگوانا بھول گئی بھائی سے۔۔۔وہ جواب دیتی باہر کو نکل گئی۔۔۔سیڑھیاں اترتے ہوئے اُس نے احتیاط سے نیچے دیکھا ۔۔۔تائی امّاں اور عطیہ سامنے نہیں تھیں وہ تیزی سے باہر نکلتی چلی گئی۔۔۔
ایاز۔۔۔دکان پر پہُںچ کر اُس نے ایاز کو پکارا۔۔۔۔
آمنہ ۔۔۔۔ایاز لپک کر آیا۔۔۔۔
ایاز رشتا بھیجو اب۔۔۔ورنہ امّاں اُس فراز کے چکر میں دو دو ڈائن ہم پر مسلط کر دیں گی۔۔۔وہ دبی دبی آواز میں بولی۔۔۔۔
امّاں تو آنے کو تیار ہیں آمنہ مگر۔۔۔۔ایاز کے لبوں پر بات آ کر اٹک گئی۔۔۔۔
کیا مگر ایاز۔۔۔آمنہ کا دل ڈوبا۔۔۔
باجی نہیں مان رہی۔۔۔۔وہ نظریں جھکائے بولا۔۔۔
تو محبت کرنے سے پہلے کیوں نہیں پوچھا تھا باجی سے۔۔۔آمنہ کو غصّہ آیا۔۔۔۔
بولو۔۔۔وعدے کرتے وقت باجی یاد نہ آئی تھی تمھیں ۔۔۔وہ دکان پر لگی گرل کو جھٹکے دینے لگی۔۔۔
کیا کر رہی ہو آمنہ ۔۔۔لوگ دیکھ رھے ھیں۔۔۔ایاز نے دوسرے گاہکوں کو دیکھا۔۔۔۔
دیکھو ایاز مجھے ٹھیک طرح بتاؤ ۔۔۔تمھاری امّاں آئیں گی یا نہیں۔۔۔وہ دو ٹوک لہجے میں بولی۔۔۔
ہاں میں بھیجتا ہوں آمنہ۔۔۔ایاز کی گوری رنگت پر شرمندگی سے لالی چھا گئی۔۔۔۔
اُس نے دودھ کی تھیلی باندھ کر آمنہ کو تھمائی۔۔۔۔
باجی سے کہو اپنے گھر کو دیکھے۔۔۔ائی بڑی منع کرنے والی۔۔۔آمنہ نے پیسے کاؤنٹر پر پٹخ دیئے۔۔۔اور واپسی کے لیے مڑ گئی۔۔۔۔
ذیشان کو کِسی بھی صورت عطیہ کے لیے امّاں کو ماننا تھا اور فراز ہی وہ کارڈ تھا جسے کھیل کر عطیہ اُس کی ہو جاتی۔۔۔۔مگر تائی امّاں بھی اتنی آسانی سے عطیہ کو اُس کا نہیں ہونے دینے والی تھیں۔۔۔۔
جاوید اور نوید صاحب کا گھر کے کسی بھی معاملے میں عمل دخل نہیں تھا وہ دونوں سارا دِن ہی گھر سے باہر گزار آتے۔۔۔۔
عطیہ ۔۔۔ نچلے حصے میں پہُںچ کر ذیشان نے عطیہ کو آواز لگائی۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔ذیشان کی آواز پر وہ دوڑ کر آئی۔۔۔
میری جان ۔۔امّاں سے اپنے تعلقات میں بہتری لاؤ نہ۔۔۔وہ عطیہ کو سمجھا نے لگا۔۔۔
چچی جان کو زہر لگتی ہوں میں۔۔۔اور امّاں سے تو انہیں اللّٰہ واسطے کا بیر ہے۔۔۔عطیہ نے چٹخ کر جواب دیا۔۔۔
بس یہ۔۔۔یہ جو تمہارا انداز ہے نہ ۔۔۔اسی سے امّاں کو نفرت ہے۔۔۔ہمیشہ تلوار بنی رہنا۔۔۔۔۔ذیشان کو غصّہ آنے لگا۔۔۔
اچھا نہ۔۔غصّہ نہ کرو ۔۔۔میں کرتی ہوں کچھ۔۔۔۔عطیہ کو اُس کے غصے سے خوف آنے لگا۔۔۔۔
کون ہے عطیہ۔۔۔۔پیچھے سے امّاں کی آواز سن کر عطیہ واپس اندر کو دوڑی۔۔۔۔
کوئی نہیں امّاں ذیشان تھا آپ کا پوچھ رہا تھا۔۔سلام بھی کہا۔۔۔عطیہ نے جھوٹ سے کام چلایا۔۔۔
رہنے دے ۔۔آیا بڑا سلام کرنے والا۔۔۔کبھی جھانک کر نہیں پوچھا تائ امی کوئی کام ہے تو بتاؤ۔۔۔۔فراز کو دیکھو۔۔۔۔۔عطیہ نے سر پیٹ لیا ۔۔فراز کی تعریفوں کا پل بندھنا شروع ہو چکا تھا اب یہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہونے والا تھا وہ چپکے سے امّاں کے پاس سے کھسک لی۔۔۔
شمس آپا اور فراز جا چکے تھے۔۔۔شمع بیگم عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھیں۔۔۔حسنہ کا دل خوشی سے دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔۔اور اوپر کھڑی زرینہ کو بھی شوکڈ لگا تھا۔۔۔شمس بیگم اور مٹھائی کے ساتھ ۔۔۔اُن کی کنجوسی پر تو آنے والے وقتوں میں کتابیں شائع ہونے والی تھیں پھر آج یہ کیا ماجرا ہو گیا۔۔۔۔
میں کہتی ہوں امّاں نور بیبی تو بہت پہنچی ھوئی ہستی ہیں۔۔۔حسنہ مٹھائی منہ میں بھر کر بولی۔۔۔۔
بس عطیہ سے جان چھوٹ جائے کسی طرح۔۔۔شمع بیگم کو عطیہ کی فکر ستائی ۔۔۔
بھروسہ رکھو امّاں تعویذ پر۔۔۔۔دیکھنا اب تم کیسے فراز کا رشتا ڈالتی ہیں خالہ۔۔۔حسنہ خوشی میں ساتویں آسمان کو بھی کراس کر چکی تھی۔۔۔۔۔
آج پارٹی تھی۔۔۔سارہ کے گھر۔۔۔ماڈل کولونی میں۔۔۔اُس کی ادائیں اتراہٹيں سب عروج پر تھیں۔۔۔
زرینہ سارہ اور حسنہ تینوں گھر میں موجود تھیں بس شمع بیگم نہیں آئیں تھی یہ اُن کی شان کے خلاف تھا کے وہ زرینہ کے گھر میں قدم رکھتیں۔۔۔۔
سارہ نے زرینہ کی ماما کو ہی ماما بنا لیا ویسے بھی وہ ہائی فائی سوسائٹی کے مینرز سے واقف تھیں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر اُن کی انگریزی بھی کمال کی تھی۔۔۔شمع بیگم کو وہ با خوشی گھر چھوڑ آئی تھی۔۔۔
زرینہ نے ساڑھی باندھ کر جوڑا لپیٹا بلا شبہ وہ بہت حسین تھی۔۔۔۔سارہ کو اُس کی تیاری دیکھ کر غصّہ آنے لگا۔۔۔۔زرینہ تیار ہو کر سارہ اور حسنہ کو مات دے جاتی۔۔۔۔
سب مہمان آ چکے تھے احسن احمد بھی موجود تھا سارہ کی ماما سے وہ بُہت متاثر ہوا تھا۔۔۔زرینہ کی بھی اُس نے کھلے دل سے تعریف کی سارا کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی تھی ۔۔۔حسنہ خاموش ہی بیٹھی رہی تھی۔۔۔۔۔
سب کچھ بہت اچھا جا رہا تھا۔۔۔بس ایک گھنٹہ ہونے کو تھا زرینہ نے سارہ کو آنکھیں دکھائیں۔۔۔۔
سب لوگ آرام سے خوش گپیوں میں مصروف تھے اُن کو واپس جانے کا کیسے کہتی۔۔۔۔۔
سارہ مشکل میں آ پھنسی کِسی کا بھی اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔اُس نے مدد طلب نظروں سے حسنہ کو دیکھا۔۔۔۔
مجھے لائبریری جانا ہے ایگزیم ہونے والے ہیں نہ۔۔۔۔حسنہ نے سب کو مخاطب کیا۔۔۔۔
اکیلی مت جانا حسنہ میں ساتھ چلوں گی ۔۔۔سارہ نے لقمہ دیا۔۔۔
زرینہ واپس کمرے میں آئی تھی ۔۔۔ایک گھنٹہ پورا ہوا۔۔۔اُس نے زور سے اعلان کیا۔۔۔۔
سب نے حیرت سے زرینہ کو دیکھا وہ کونسے گھنٹے کی بات کر رہی تھی پتہ نہیں۔۔۔
حسنہ اور سارہ جو طریقے سے بات کرنے والے تھے گڑ بڑ ا گئے۔۔۔
جی بھابی ۔۔۔آپ چلیں میں آتیں ہوں۔۔۔سارہ نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
زرینہ دھیرے سے مسکراتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔
کیا ہوا سارہ ۔۔۔۔کیسا گھنٹہ پورا ہو گیا۔۔۔۔احسن نے سارہ کو حیرت سے دیکھا۔۔۔۔
سارہ کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا۔۔۔۔
وہ اصل میں ہر ایک گھنٹے بعد ماما کو میڈیسن دینی ہوتی ہے نہ بھابی وہی یاد دلاتی ہیں ۔۔۔بہت پیار کرتی ہیں نہ ماما سے۔۔۔۔سارہ نے مسکرانے کی بھر پور کوشش کی۔۔۔۔سارہ کی بات پر حسنہ کا قہقہ لبوں پر ہی دم توڑ گیا سارہ نے اُسے بری طرح گھورا تھا۔۔۔۔
اچھا چلو ہم نکلتے ہیں جلد ہی پھر آئیں گے بُہت اچھا لگا تمھاری ماما سے مل کر ۔۔۔۔سارہ کو گہری نظروں سے دیکھتا احسن اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔اُس کے پیچھے سب ہی اٹھ گئے۔۔۔۔سارہ کی جان میں جان آئی۔۔۔آج عزت بچ گئی تھی ورنہ زرینہ بھابی تو وہیں ذلیل کر دیتیں۔۔۔۔۔
دروازے کی آواز آئی تو عطیہ نے کپڑا سائڈ میں پھینک کر اٹھ کر دروازہ کھولا۔۔۔۔
سامنے ہی دودھ والا ایاز کھڑا تھا ۔۔۔۔
بولو۔۔۔عطیہ نے حیرت سے اُس کے پیچھے کھڑی دو عورتوں کو دیکھا۔۔۔۔
جی وہ میں ایاز۔۔۔۔ایاز کو سمجھ نہ آیا کیسے تعارف کروائے۔۔۔۔
ہاں ہاں دودھ والے ہو نہ ۔۔۔جانتی ہوں میں ۔۔۔یہاں کیوں آئے ہو۔۔۔۔۔عطیہ کو ابھی بھی اُس کا آنا سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔
رشتا لے کر آئے ہیں بیبی۔۔۔۔اندر بلانے کا رواج نہیں ہے کیا تمھارے یہاں۔۔۔
اُس کے پیچھے کھڑی ایک عورت زہر بھرے لہجے میں بولی۔۔۔۔
رشتا۔۔۔۔عطیہ کو لگا اُس نے غلط سنا ہے۔۔۔۔
ہاں آمنہ کا رشتا۔۔۔ایاز نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔۔
عطیہ کی آنکھیں پھٹ گئیں۔۔۔۔۔پل۔بھر لگے اُسے ماجرہ سمجھنے میں۔۔۔۔آمنہ کا دِن میں پانچ بار دودھ لینے جانا اب سمجھ آیا اُسے۔۔۔۔۔۔
آئیں نہ جی آئیں ۔۔۔اوپر رہتے ہیں وہ لوگ چلے جائیں آپ۔۔۔عطیہ نے اُنہیں سیڑھیوں کا راستہ دکھایا۔۔۔۔
اُن کے اوپر جاتے ہی وہ امّاں کے پاس بھاگی پھر کیا تھا تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں پیچھے گیلری میں پہُںچ گئیں ۔۔۔آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔۔۔۔۔
ابھی تعارف چل رہا تھا۔۔۔۔آنے والوں نے آنے کا مقصد بیان نہیں کیا تھا۔۔۔۔عطیہ کے کان پوری طرح اوپر لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔آج تو فری میں شو سننے کو ملنا تھا۔۔۔۔۔
شہلا کی یاد میں فراز کا حال مجنوں جیسا تھا۔۔۔۔کتنی بیزتی کی تھی شہلا نے۔۔۔۔کیسا سلوک کیا گیا تھا اُس کے ساتھ۔۔۔۔
دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوا تھا۔۔۔۔وہ کمرے میں گانے لگانے بیٹھا تھا۔۔۔۔
شیشہ ہو یا دل ہو آخر
ٹوٹ جاتا ہے ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔
فراز کو شہلا کی شکل چار سو دکھائی دے رہی تھی۔۔۔وہیں شمس بیگم کو مٹھائی کے پیسے ضائع ہو جانے کا دکھ تھا۔۔۔۔فضول میں شمع کو مٹھائی دے آئیں تھی۔۔۔مگر جو بھی تھا حسنہ نے ہمیشہ بہت عزت دی تھی اُنھیں ۔۔۔۔ فراز کے لیے عطیہ اور حسنہ میں سے ہی کِسی کا انتخاب کرنا ٹھیک لگا اُنھیں۔۔۔۔
فراز اب اُس شہلا کو بھول جاؤ بیٹا اور یہ بتاؤ عطیہ یہ حسنہ میں سے کسے بہو بنا کے لے آؤں۔۔۔۔وہ بیٹے کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔۔۔۔۔
امّاں کیوں دل جلاتی ہو میرا۔۔۔۔۔فراز تپ گیا۔۔۔
بیٹا پورے بتیس برس کا ہو رہا ہے بتا کون لڑکی دے گا تجھے۔۔۔۔آجکل تو لڑکی والوں کی ڈیمانڈ ہی زیادہ ہے۔۔۔۔شمس بیگم کو ایک ہی ٹھوکر کھا کر عقل آ گئی تھی۔۔۔۔
فراز نے ناراض نظروں سے ماں کو دیکھا۔۔۔۔۔
بیٹا دیکھ سچ کہوں تو عطیہ اور حسنہ دونوں ہی اچھی ہیں۔۔۔۔
امّاں حسنہ کا موٹاپا دیکھا ہے۔۔۔۔نہ پہننے کا ڈھنگ نہ چلنے کا سلیقہ۔۔۔۔فراز کو حسنہ کا سراپا یاد آیا۔۔۔۔
اور عطیہ ہر وقت بس کپڑوں اور سلائی میں چپکی رہتی ہے اور ٹوہ لینے کی تو بیماری ہے اُسے۔۔۔۔۔فراز نے بڑا غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کیا۔۔۔۔۔
سوچ لو فراز ۔۔۔۔ایسا نہ ہو کے سب کچھ ختم ہو جائے۔۔۔۔اب تو تمھارے چہرے پر گڈے پڑ رہے ہیں جگہ جگہ۔۔۔۔اُنہوں نے بیٹے کو آئینہ دکھایا۔۔۔۔
فراز سوچوں میں ڈوب گیا۔۔۔عطیہ ۔۔حسنہ ۔۔۔۔حسنہ ۔۔عطیہ۔۔۔۔دل و دماغ جنگ لڑ رہے تھے۔۔۔اُسے دونوں ہی پسند نہیں تھیں۔۔۔۔
رشتا لائے ہیں ہم آمنہ کے لیے ایاز کا۔۔۔۔ایاز کی بہن نے چبھتے ہی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
آمنہ جہاں شرم سے لال ہوئی وہیں امّاں غصے سے لال ہو گئیں۔۔۔۔
کیا کہا آپ نے۔۔۔۔اس دودھ والے کا رشتا ۔۔۔میری آمنہ کے لیے۔۔۔۔اُن کا بس نہیں چلا ایاز کا منہ نوچ لیں۔۔۔۔
ہمیں بھی کوئی شوق نہیں آپ کی بیٹی کو بیاہنے کا۔۔۔۔ایاز کی بہن تو ویسے ہی نا خوش تھی۔۔۔۔
یہ تو آپ کی بیٹی نے پھنسا لیا میرے اکلوتے بھائ کو۔۔۔ہے وقت چھت پر کھڑی نین مٹکّے کرتی ہے۔۔۔ذرا شرم نہیں۔۔۔۔انہوں نے دل کی بھڑاس نکالی۔۔۔۔
نیچے کھڑی عطیہ اور اس کی امّاں کی بتیسی نکل آئی۔۔۔
باجی خدا کے لیے چپ کرو۔۔۔ایاز نے ہاتھ جوڑے۔۔۔۔
اٹھو اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔میری بیٹی پر الزام لگاتے شرم نہیں آئی۔۔۔۔آمنہ میری سیدھی سادہی بچی ہے۔۔۔کبھی کسی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا اس نے۔۔۔۔امّاں کو اپنی بیٹی ہی نیک نظر آئی۔۔۔۔۔
جی ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔نظر اٹھا کرنہیں دیکھا دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھا ہے اس نے۔۔۔۔سیدھی تو اتنی ہے کہ گھر کے سیدھ میں ہی دکان والے کو پھنسا لیا۔۔۔۔ایاز کی بہن رشتا جوڑنے نہیں ہمیشہ کے لیے قصہ مکانے آئی تھیں۔۔۔
آمنہ کی آنکھیں برس پڑیں۔۔۔۔وہیں ایاز بھی اس صورتحال سے نمٹنے کی کوششں کر رہا تھا مگر باجی چپ ھونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔
دیکھا امّاں کیسا گل کھلایا آمنا نے۔۔۔عطیہ نے سر گوشی کی۔۔۔۔
ہممم۔۔۔ٹھیک کہا ۔۔۔۔مومنہ بھی فرحان کے آگے پیچھے پھرتی ہے نظر رکھنا پڑے گی ہمیں۔۔۔۔اُن کو فرحان کی فکر ستائی۔۔۔۔
عطیہ کو اپنا اور ذیشان کا رشتہ کھٹائی میں پرتا نظر آیا۔۔۔
باجی چپ کر جاؤ خدا کا واسطہ۔۔۔ایاز کی شکل پر بارہ نہیں چوبیس بج رہے تھے۔۔۔۔
نہیں نہیں ایاز بولنے دو۔۔۔بولنے دو باجی کو اپنی۔۔۔آمنہ سے اپنی توہین برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔
میں کہتی ہوں کے بیٹی کو اچھی تربیت دی آپ نے ۔۔۔پیسے والا لڑکا دیکھا نہیں رال ٹپک گئی وہیں۔۔۔۔۔باجی تو کسی سینٹر سے ٹریننگ لے کر آئی تھیں شاید۔۔۔۔
پیسے والا۔۔۔۔دودھ والا ہے تمہارا بھائی۔۔۔۔آمنہ کی امّاں کو آگ لگی۔۔۔۔
باڑے ہیں اپنے۔۔۔ دو سو بھینسیں ہیں اپنی۔۔۔۔پورے شہر میں ہمارا کام چلتا ہے۔۔۔۔باجی نے امیری کا رعب جھاڑ ا۔۔۔وہیں آمنہ کی امّاں چونکی تھیں۔۔۔۔۔
باجی خدا کا واسطہ بھی دے چکا میں تمھیں ۔۔۔اب تو بس کر دو۔۔۔۔
وہ جو ان لوگوں کو دھکّے مار کے نکالنے والی تھیں اب خاموش کھڑی تھیں دماغ نے ایک اور ایک گیارہ کا حساب نکال لیا تھا۔۔۔۔
فراز سے کہیں زیادہ خوش شکل اور پیسے والا تھا ایاز۔۔۔تووہ گھاٹے کا سودا کیوں کرتیں جب کے آمنہ بھی یہی چاہتی تھی۔۔۔۔۔
بیٹھ کر بات کرو بہن ۔۔۔۔ اُن کا لہجہ ہی بدل گیا ایاز اور آمنہ نے حیرت سے اُنھیں دیکھا۔۔۔۔
ایاز کی امی نے اپنی بیٹی کو زبردستی بٹھایا۔۔۔۔
بہن آئے تو رشتا لے کر تھے ایاز کا۔۔۔مگر لگتا ہے آپ کو ایاز کا دودھ والا ہونا پسند نہیں۔۔۔۔ایاز کی امی کچھ سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔۔۔۔
ارے نہیں بہن۔۔۔کام کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔۔۔ایاز تو بہت محنتی بچہ ہے۔۔۔۔مجھے تو بہت پسند ہے۔۔۔۔۔آمنہ پانی تو لا مہمانوں کے لیے۔۔۔۔اچانک ہی اُن کے لہجے میں شہد جیسی مٹھاس در آئی۔۔۔۔
آمنہ دوڑ کر پانی لے آئی۔۔۔۔مومنہ بھی خاموشی سے کونے میں کھڑی تھی۔۔۔۔
اور گیلری میں نیچے وہ دونوں سانس روکے کھڑی تھیں۔۔۔۔آمنہ نے کیا ہاتھ مارا ہے امّاں۔۔۔۔عطیہ کو جلن سی محسوس ہوئی۔۔۔۔
ہاں ٹھیک کہا تم نے۔۔۔۔یہ ایاز تو بُہت پیسے والا ہے بھئی۔۔۔بیٹی کی بات پر وہ سو فیصد متفق ہوئی تھیں۔۔۔۔
احسن سارہ کے کیبن میں ہی چلا آیا۔۔۔۔سارہ بھی اسی کی طرف متوجہ تھی۔۔۔۔بُہت نائس ہے آپ کی فیملی۔۔۔۔وہ مسکرایا تھا۔۔۔۔
مجھے آپ جیسی ہی لائف پارٹنر چاہیے تھی سارہ۔۔۔۔پڑھے لکھے لوگ سمجھ بوجھ رکھنے والے۔۔۔۔اور کلاسی۔۔۔۔وہ سارہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بات کرتا ہوا اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔
سارہ کو اپنا سانس اٹکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔وہ اُس کے اور قریب ہوا۔۔۔۔۔سارہ۔۔۔۔شادی کرو گی مجھ سے۔۔۔۔احسن احمد نے سارہ کے دل کے تاروں کو چھوا تھا۔۔۔۔
وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔۔احسن نے پیار سے اُس کے بالوں کو کندھے سے پیچھے دھکیلا۔۔۔۔
تھینکس سارہ۔۔۔۔۔ماما کو کب بھیجوں۔۔۔۔وہ ڈائریکٹ رشتا بھیجنا چاہ رہا تھا ۔۔۔سارہ کے طوطے اڑ گئے۔۔۔۔جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے سارہ۔۔۔۔اُسے امّاں کا جملہ یاد آیا۔۔۔۔
زرینہ بھابی اب کوئی فیور نہیں دینے والی تھیں۔۔۔۔۔۔
میں آمنہ کے ابّا سے بات کر کے آپ کو کل ہی جواب دیتی ہوں۔۔۔۔۔وہ راضی تھیں۔۔۔۔
بہن مجھے بُہت بیماریاں لگی ہوئی ہیں بس آج کل کی مہمان ہوں اس لیے فوری شادی کرنا چاہتے ہیں ہم لوگ۔۔۔
اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو اسی جمعے کو سادگی سے شادی کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔ایاز کی امی نے سیدھے سادے لفظوں میں بات مکمل کی۔۔۔۔
ابھی بیٹے کا سہرا دیکھنے کی جلدی ہے پھر پوتے پوتیاں گود میں کھلانے کی جلدی ہو گی۔۔۔۔۔یہ جو اس طرح کہہ کر شادیاں نمٹائ جاتی ہیں یہ لوگ کبھی نہیں مرتے لکھ لو میری بات۔۔تمھیں موت آ جائے گی ان کی تب بھی کوئی خواہش ادھوری ہو گی ۔۔مومنہ نے سرگوشی کی تھی آمنہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔
ایاز کی امّاں نے آمنہ کو گھورا تھا۔۔۔اُس نے جلدی سے دانت اندر کیے۔۔۔۔
مومنہ منہ بند رکھ اپنا۔۔۔وہ دبی دبی آواز میں بولی۔۔۔
ذیشان سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جب عطیہ پر نظر پڑی ۔۔۔۔اُس نے مسکرا کر عطیہ کو دیکھا۔۔۔۔رکشے کی چابیاں ہاتھ میں گھوما تا عطیہ کی طرف چلا آیا۔۔۔۔
کیا بات ہے کچھ کہنا ہے۔۔۔۔عطیہ کی خاموش نظریں اُس پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔
سب کی محبت امر ہو جائے گی بس میں سلائی کرتے ہی رہ جاؤں گی اور تم رکشا ہی چلاتے رہنا۔۔۔۔عطیہ نے جلے دل سے کہا۔۔۔۔
کیا ہوا میری رانی۔۔۔۔غصّہ کیس بات کا ہے پھر کچھ غلط سل گیا کیا۔۔۔۔آجاؤ رکشے میں بیٹھا کر گھما لاؤں۔۔۔وہ مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
قسمت غلط سل گئی تمھارے ساتھ ذیشان۔۔۔۔تم کبھی شادی نہیں کرو گے مجھ سے۔۔۔بس رکشے میںہیگھماتےرہو گے۔۔۔۔دو آنسو اُس کے رخسار بھگو گئے۔۔۔۔
ہوا کیا ہے کیوں سٹار پلس بن گئی ہو۔۔۔اُس کے آنسو ذیشان کے دل پر نہیں دماغ پر گرے تھے وُہ غصے کا اتنا ہی تیز تھا۔۔۔۔
عطیہ نے ایاز کے رشتے والا سارا قصہ سنا ڈالا۔۔۔ذیشان غصے میں بھڑکتا ہوا تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔۔۔عطیہ اُسے آوازیں ہی دیتی رہ گی۔۔۔۔۔
امّاں۔۔۔ امّاں ۔۔ وہ بہت غصے میں گھسا تھا۔۔۔
کیا ہوا بیٹا۔۔۔۔امّاں نے بیٹے کے تیور دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔۔۔۔
اپنی بیٹی سے پوچھو کیا ہوا۔۔۔اب یہاں دودھ والوں کے رشتے آئیں گے۔۔۔۔اسے سارا غصہ ایاز کے دودھ کے کام کی وجہ سے آیا تھا۔۔۔۔
تم تو کوئی وزیر لگے ہوئے نہ بھائی۔۔۔۔آمنا تپ کے بولی۔۔۔
شرم نہیں آتی بھائی سے زبان چلاتی ہے۔۔۔ذیشان نے امّاں کو شکایتی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
بات سن بیٹا۔۔۔اس کا دودھ کا کام ہے تو تُو بھی رکشا چلاتا ہے کل کو کوئی یہی کہہ کر تجھیے بھی بیٹی نہیں دے گا۔۔۔امّاں نے صاف لفظوں میں اسے آئینہ دکھایا۔۔۔۔
امّاں ۔۔مطلب تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ذیشان حیران ہوا۔۔کل تک تو تم فراز کے لیے مر رہی تھیں نہ۔۔۔۔
بیٹا فراز کے پاس سرکاری نوکری کے علاوہ ہے ہی کیا۔۔۔ایازکا پورا کاروبار ہے دودھ کا۔۔۔۔پسند بھی کرتا ہے اپنی آمنہ کو۔۔۔فراز کے مزاج تو سات آسمان بھی پار کر چکے ہیں عمر بھی زیادہ ہے اس کی آمنہ سے۔۔۔۔وہ مکمل طور پر راضی تھیں۔۔۔ایاز کے کاروبار نے اُنہیں فراز کی ساری خامیاں دکھا دیں تھیں جو انہیں آج تک نظر نہیں آئی تھیں۔۔۔۔
بس اس جمّے کو سادگی سے شادی ہے۔۔۔میں نے ہاں کر دی ہے اب کوئی کچھ نہیں بولے گا تمہارے ابّا بھی راضی ہیں۔۔۔یہ کہہ کر انہوں نے ذیشان کا منہ بند کر دیا۔۔۔
چھوٹی مامی کا فون آیا تھا۔۔۔شمع بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا جہاں حسنہ اور سارہ بیٹھی ٹی وی پر بگ باس دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔آمنہ کی اس جمعے شادی ہے۔۔۔انہوں نے دونوں کے سر پر پٹاخہ پھوڈا۔۔۔۔۔
کیا آمنہ کی شادی ۔۔۔۔تعویذ تو عطیہ کے لیے گارّا تھا نہ۔۔۔حسنہ کو بات حضم نہیں ہوئی۔۔۔۔۔
تعویذ کے بنا کسی کا رشتہ نہیں ہو سکتا کیا۔۔۔موٹی عقل کی۔۔۔سارہ نے حسنہ کے سر پر چپت لگائی ۔۔۔حسنہ سر سہلانے لگی۔۔۔۔
پتہ نہیں کس راہ چلتے سے رشتا کر ڈالا بھابی نے۔۔۔اب یہ تو جا کے ہی پتہ چلے گا۔۔۔شادی بھی اتنی جلدی رکھی ہے پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔شمع بیگم کو کھلبلی لگ گئی۔۔۔۔اسی اثناء میں اُن کا فون بجا تھا۔۔۔شمس آپا لکھا دیکھ کر فون اٹھایا۔۔۔
جی آپا۔۔۔ہاں آئی ہے شادی کی دعوت۔۔۔فون پر ۔۔۔پھوپو ہیں ہم کوئی صلاح مشورے کی ضرورت تک نہ سمجھی بھابی نے۔۔۔غیروں کی طرح فون پر دعوت دے ڈالی۔۔۔۔اب وہ دوسری طرف کی بات سن رہی تھیں۔۔۔
جی ٹھیک کہا آپ نے آپا میں بھی ڈھائی سو کا لفافہ رکھ آؤں گی جب غیروں کی طرح بلایا ہے تو ہم کیوں سگے بنیں۔۔۔۔اب جا کے پتہ چلے گا کون سا ہیرا مل گیا بھابی کو۔۔۔۔آمنا کا چکر پکڑا گیا ہوگا اس دودھ والے سے۔۔۔اس لیے جلد بازی میں کسی سے رشتا کر ڈالا ہوگا بھابی نے۔۔۔شمع بیگم نے تکا مارا۔۔۔
چلیں جمّے کو ملتے ہیں ۔۔۔اللّٰہ حافظ۔۔۔۔فون بند کر کے وہ وہیں بیٹھ گئیں۔۔۔
امّاں میں شہلا سے کپڑے مانگ لاؤں شادی میں پہننے کے لئے۔۔۔۔حسنہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کمبخت ماری۔۔۔مانگ کے پہننے کی عادت نہیں جائے گی تیری۔۔۔الماری بھری پڑی ہے مگر نہیں۔۔۔ابھی کھول الماری۔۔۔آٹھ بارہ جوڑے تو یونہی قدموں میں آ کے سلامی دیں گے۔۔۔شمع بیگم نے اسے اچھے سے سنا ڈالیں۔۔۔۔
آمنہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔۔۔محلے کے ایک پارلر سے اُسے تیار کروایا گیا تھا ۔۔۔اس کی خوبصورتی کو چار داغ لگ گئے تھے۔۔۔۔
اچھی بھلی لڑکی کو لال بھوتنی بنا کر بھیج دیا۔۔۔۔مومنہ غصے میں اسے بار بار منہ دھونے کا کہہ رہی تھی۔۔۔۔
برات آنے والی ہے مومنہ۔۔۔فضول کے مشورے مت دے۔۔۔۔امّاں نے اسے جھاڑا۔۔۔۔
گھر کے باہر ہی ایک چھوٹا ٹینٹ لگا کر گلی بند کی گئی تھی۔۔انتظام گلی میں ہی کیا گیا تھا۔۔۔۔۔عطیہ کا دل جلا جا رہا تھا وہ آمنہ سے پورے دو ماہ بڑی تھی پھر بھی پہلے شادی اس کی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔
شمع پھوپو اور شمس پھوپو تشریف لے آئیں تھی حسنہ اور سارہ بھی خوب پینٹ کر کے آئیں تھی زرینہ اور مصدق بھی ساتھ آئے تھے زرینہ لال ساڑھی باندھے نخوت سے ایک کونے کی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔کوئی بینکوائٹ نہیں ملا تھا تمہاری مامی کو ۔۔۔یہاں اونچی نیچی زمین پر کرسیاں رکھ دیں۔۔۔بالوں کو جھٹکا مارتی وہ سب کی نظروں کا مرکز تھی۔۔۔۔۔
تمہاری شادی بھی گلی سے ہی کی تھی تمہارے ابّا نے۔۔۔مصدق کا دل جلا۔۔۔۔زری نے اسے گھو ر کر دیکھا۔۔۔۔
چل ہم آمنہ کےپاس اندر چلتے ہیں۔۔۔۔حسنہ سارہ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوئی۔۔۔سامنے سے آتے فراز کو دیکھ کر اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں تھیں۔۔۔۔