بھارت کا نواسی ہوں
فضل ترا چاہوں
میں بندۂ عاصی ہوں
غالب بھی ہے قادر بھی
واہ تری قدرت
غائب بھی ہے حاضر بھی
ہر شئے میں تری خوشبو
وقت ترا تابع
دن رات میں تو ہی تو
تو شاہ غنی ہے تو
بندہ ترا سائل
داتا ہے سخی ہے تو
یارب ترا مجرم ہوں
اپنے گناہوں پر
میں واقعی نادم ہوں
کیا کیا نہ صبا لائی
شہرِ مدینہ سے
جب خاکِ شفا لائی
ڈالے ہے حجابوں میں
روز مجھے،آخر
ہے کون حجابوں میں
اب رقصِ جنوں کر لو
ذوقِ محبت کو
کچھ اور فزوں کر لو
انسان کہاں ہوگا
زہر بھری رُت میں
جب بچہ جواں ہوگا
اک نور اترتا ہے
چاند کی کھڑکی سے
دھرتی پہ بکھرتا ہے
لب کھول ذرا بالوؔ
کان ترستے ہیں
کچھ بول ذرا بالوؔ
الطاف کی بارش ہے
بات بجا لیکن
اس میں کوئی سازش ہے
جے پور میں رہتا ہوں
ٹونک وطن میرا
دونوں جگہ اچھا ہوں
پرچھائیں نہ پکڑا کر
اپنے پرایوں کو
برتاؤ سے پرکھا کر
سادھو کی جٹاؤں میں
گیان بھی ہوتا ہے
عاشق کی کتھاؤں میں
کچھ بات تو کر ماہی
میں تری بالوؔ ہوں
دنیا سے نہ ڈر ماہی
دل کچھ نہ سمجھ پایا
راز محبت کا
پوشیدہ نہ رکھ پایا
کس بات کا جھگڑا ہے
دہر میں جو کچھ ہے
تیرا ہے نہ میرا ہے
ہر ایک سمسیّا میں
حل بھی ہے پوشیدہ
سب کچھ ہے تپسیّا میں
کہنے کو محبت ہے
ایک کو دوجے سے
دونوں کی ضرورت ہے
لوگوں کی زبانوں میں
زہر بھی ہوتا ہے
شبدوں کی دُکانوں میں
گوکل میں نراشا ہے
کرشنا ترے غم میں
ویاکل تری رادھا ہے
تاثیر میں شبنم ہوں
نام محبت ہے
ہر زخم کا مرہم ہوں
تنہائی کے گھر میں ہوں
ساتھ مرے سوچیں
لگتا ہے سفر میں ہوں
میں لوحِ جہاں پر ہوں
دیکھ مِری جانب
میں حرفِ مکرر ہوں
یہ آج کے بیوپاری
فرق نہیں کرتے
غلہ ہو کہ نر، ناری
کیا رِیت تھی گاؤں میں
فیصلے ہوتے تھے
پیپل کی چھاؤں میں
انساں کو مقدر سے
بڑھ کے نہیں ملتا
دولت کے سمندر سے
گم سم ہے،حیراں ہے
آج کا ہر انساں
حیراں ہے ،پریشاں ہے
طوفان میں اترو تو
ہوش نہیں کھونا
جب ڈوب کے ابھرو تو
کچھ حق کی بھی بولا کر
برف کے باٹوں سے
اچھائی نہ تولا کر
طوفان میں اترا کر
ڈوبنے والوں کو
ساحل سے نہ دیکھا کر
اے حُسن کے سودا گر!
شہر میں اندھوں کے
آئینے نہ بیچا کر
ہوتا ہے اثر بابا
سانولے رُخ پر بھی
لگتی ہے نظر بابا
پل پل ہے گھٹن بابا
آپسی نفرت سے
جلتا ہے چمن بابا
اچھا ہے جتن بابا
ہو گیا اردو میں
ماہیے کا چلن بابا