سعد ابھی اپنے کمرے میں جا ہی رہا تھا کہ اس نے ارشد صاحب اور نور کی باتیں سنی جس میں وہ رانیہ کے آئے ہوئے رشتے کی باتیں کر رہے تھے۔ سعد جلدی سے ثمر کے پاس گیا اور ان سے رانیہ کے بارے میں بات کی، ایسے ثمر اور ان کے شوہر نے رات کو رانیہ اور سعد کے بارے میں بات کی اور بڑوں کی مرضی سے ان کا بھی رشتہ طے ہوگیا اور ان کی بھی منگنی کی تاریخ فارس اور فضاء کے ساتھ رکھی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی میں ایک ہفتہ بھی نہیں تھا اور شاہانہ اور شازیہ، نمرہ کر مایوں بیٹھنے کا بول رہی تھی جبکہ وہ انکار کر رہی تھی اتنے میں عرش اور سعد آئے رانیہ نے سعد سے ٹھیک سے باتیں اس دن کے بعد سے نہیں کی۔ سعد نے آتے ہی رانیہ کو آنکھ ماری جس پر رانیہ نے آنکھیں دکھائی لیکن وہ شرم سے لال بھی ہو رہی تھی۔ ابھی دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں بزی تھی کہ عرش نے سعد کے کان میں بولا ابھی یہ سب کہ لئے بہت وقت ہے تم سیدھا بیٹھو ورنہ سب نے تمہیں جوتوں سے مارنا ہے۔ عرش اور نمرہ بھی بڑوں کے سامنے کم ہی باتیں کرتے اور عرش نے بھی یہی کہا کہ مایوں بیٹھنا چاہئے۔ شروع میں تو نمرہ نے منع کیا لیکن جب عرش نے اسے میسج پر بتایا کہ اس نے اسے مایوں بیٹھے دیکھنا ہے تو وہ راضی ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یار کیوں تم لوگ مجھے یہاں قید کر کے بیٹھے ہو” عرش نے غصے میں کہا۔
“تمہیں ہی تو بڑا شوق تھا اسے مایوں بٹھانے کا” سعد نے کہا۔
“ہاں تو مجھے کیا پتہ تھا کہ مایوں میں یہ سٹوپڈ سی رسمیں ہوتی ہیں” عرش نے کہا۔
“کون سی سٹوپڈ رسمیں”
“یہی کہ دولہن دولہا مل نہیں سکتے”
“تو اس میں ایسے بھڑکنے کی کیا بات ہے” سعد نے کہا۔
“چپ رہو تمہارا وقت آئے گا تو میں پوچھوں گا” عرش نے کہا۔
“یہ سب رسموں کو میں نہیں مانتا میں تو رانیہ کو بھگا کر لے کر جاؤں گا” سعد نے کہا۔
“وہ تو دیکھا جائے گا پہلے تم میرا مسئلہ حل کرو” عرش نے کہا۔
“دیکھو یار صرف آج کا پردہ ہے کل مایوں کی رسم دوپہر میں ہوگی وہ بھی تم دونوں کی ساتھ ہوگی اور شام کو مہندی بھی ہے تو تم ایک دوسرے کو دیکھ سکو گے”
“سچی”
“ہاں تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں”
“نہیں یار تو کیوں جھوٹ بولے گا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن دوپہر کو مایوں کی رسم ہوئی اور رات کو مہندی تھی، خوب شور سے ہوا۔ فضاء بھی آئی تھی اور فارس نے فضاء کو تنگ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ رات کو فضاء کے علاوہ احسن اور حماد بھی یہیں رکے تھے تھکن کی وجہ سے سب بڑے جلدی کمروں میں چلے گئے ابھی شایان، احسن اور انوشے ویڈیو گیم کھیل ہی رہی تھے کہ حماد آیا اور ان کے برابر میں بیٹھ گیا۔
“یار اتنا ویرانی کیوں ہے” حماد نے کہا۔
“کیونکہ سب بڑے سو رہے ہیں” شایان نے جواب دیا۔
“اور باقی سب” حماد نے کہا۔
“سب اپنی کہانیوں میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں” احسن نے کہا۔
“کیا مطلب” حماد نے پوچھا۔
“دیکھو پہلے فارس جس کو سب کا ڈر ہے کمرے میں چھپ کر فون پر فضاء سے باتیں کر رہا ہے” شایان نے کہا۔
“اس کے علاوہ عرش اور نمرہ جنہیں تھورا لحاظ ہے چھپ کر چھت پر ہیں اور ہمارے سعد اور رانیہ جنہیں لحاظ اور تہذیب چھو کر نہیں گزرتی باہر ڈنر کے لئے گئے ہیں”
“واہ سب مصروف ہے اور میں یہاں ایک تنہا بیٹھا ہوں” حماد نے رونی صورت کے ساتھ کہا۔
“ہم بھی آپکے ساتھ ہیں حماد بھائی” انوشے نے کہا۔
“تم لوگ میرے اچھے بھائی بہن ہو آج سے رانیہ، نمرہ اور فارس کا بائیکاٹ تم لوگوں کے ساتھ بیٹھنا شروع” حماد نے کہا۔
“سوری یار میں تو جا رہا ہوں میرے کچھ پرسنل کال آ رہے ہیں” احسن کہتے ہوئے اٹھ گیا۔
” ہاں مجھے بھی کسی سے بات کرنی ہے” شایان کہتے ہوئے چلا گیا۔
“یا اللہ آج کل کے بچے بھی تنہا نہیں ہیں ایک میں ہی یوں بیٹھا ہوں، تمہیں کسی سے تو بات نہیں کرنی” حماد نے پوچھا۔
“نہیں میں تو گیم کھیل رہی ہوں” انوشے نے کہا۔
“چلو پھر مجھے بھی دو اب تو کنوارا ہی مرنا ہے” حماد یہ کہتے ہوئے گیم کی طرف متوجہ ہوا۔
“ایک کام کرو آپ بریانی بنانا سیکھ لو” انوشے نے کہا
“کیوں”
“شان کا ایڈ نہیں دیکھا”
“وہ چائینیز باجی والا” حماد نے کہا
“نہیں وہ لڑکی اور لڑکے والا جس میں لڑکی کے سات بھائی ہوتے ہیں”
“کیوں”
“آپ کو بریانی بنانا آتی ہوگی تو کسی لڑکی کے بھائی آپ سے متاثر ہو کر اپنی بہن کی شادی آپ سے کروا دیں گے”
“آئیڈیا اچھا ہے” یہ کہہ کر وہ پھر سے گیم میں لگ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد رانیہ کو ڈنر کروا کر لایا اور اس نے راستے میں رانیہ کے لئے گجرے لیے اور اسے پہنائے اب گاڑی ایک سنسان سڑک پر کھڑی کر دی اور باہر آیا۔
“تم نے یہاں گاڑی کیوں روکی” رانیہ نے باہر آتے ہوئے کہا۔
“یہ سڑک یاد ہے تمہیں ” سعد نے کہا۔
“نہیں” رانیہ نے کہا۔
“اسی سڑک پر ہم پہلی بار ملے تھے اور خوب لڑے تھے” سعد نے کہا۔
“اور اسی سڑک پر میں نے تم پر گندا پانی اچھالا تھا” رانیہ نے کہا۔
“اور میرا دل کیا کہ تمہیں قتل کرلوں لیکن تم چلی گئی تھی” سعد نے کہا۔
“اس بات کا سدا افسوس رہے گا کہ میں نے تم پر پانی کیوں پھیکا” رانیہ نے کہا۔
“ہاں تو کرنا” سعد نے شوخی سے کہا.
“تمہیں پورا ہی اٹھا کر پھینک دینا تھا” رانیہ نے کہا۔
اس کی بات پر سعد حیران رہ گیا۔
“تم کبھی بدل نہیں سکتی” سعد نے کہا۔
“ہاں تو کیوں بدلوں” رانیہ نے کہا۔
رات کے اس وقت سڑک ویران تھی سعد نے اس کے قریب آتے ہوئے کہا۔
“میرے لئے بھی نہیں” سعد نے کہا۔
“جی نہیں” رانیہ نے جواب دیا۔
“جاؤ مجھے تم سے بات نہیں کرنی” سعد نے کہا اور اپنا رخ موڑ لیا۔”
“اگر میں نہیں بدلتی تو تمہیں اٹھا کر گندے پانی میں نہ پھینک دیتی” رانیہ نے کہا۔
“ہیں سچی” سعد نے اس کے قریب آتے ہوئے کہا۔
رانیہ نے کچھ جواب نہ دیا۔
“رانیہ پتا ہے تم میرے خوابوں میں رہتی ہو اور مجھے نہیں پتہ یہ سب حقیقت کیسے ہو گیا مجھے نہیں پتہ کہ تمہیں میں کب سے پسند کرتا ہوں لیکن احساس جب ہوا جب میں نے اس دن تمہیں کتے سے ڈرایا تھا” سعد نے کہا۔
“اور مجھے اب تک اس بات پر غصہ آتا ہے” رانیہ نے کہا۔
“سوچ رہا ہوں پھر تمہیں ایسے ڈراؤں” سعد نے کہا۔
“غلط فہمی ہے تمہاری اب میں کتے سے نہیں ڈرتی” رانیہ نے کہا۔
“اچھا پھر تمہارے پیچھے کتا ہے اسے بھگاؤ” سعد نے کہا۔
“کیا۔۔۔” رانیہ کہتے ہوئے سعد سے جا لگی اور سعد نے ہنسنا شروع کردیا۔ رانیہ غصے میں آگئی اور گاڑی میں بیٹھ گئی، سعد بھی بیٹھ گیا۔
سعد ڈرائیو کر رہا تھا اور رانیہ چپ چاپ بیٹھی تھی۔
“اچھا یار اب اپنے منگیتر سے کیا ناراضگی موڈ ٹھیک کرو اپنا” سعد نے کہا۔
“کس نے کہا تم میرے منگیتر ہوں” رانیہ نے کہا۔
“ہاں تو دو دن میں بن جاؤں گا”
“ایسے ہی”
“جی ہاں منگنی کی تاریخ پکی ہوگئی”
“اور اگر میں نے منع کر دیا”
“ایسا نہیں ہوگا”
“کیوں، چلو میں جاتے ہی منع کروں گی امی کو” رانیہ نے کہا۔
“تم ایسا کچھ نہیں کروگی”
“میری مرضی”
سعد نے گاڑی روکی
“تم مجھ سے منگنی کروگی کہ نہیں”
“نہیں”
“مجھ سے منگنی کرو گی”
“نہیں”
“مجھ سے منگنی کرو گی”
“نہیں نہیں نہیں” رانیہ نے جواب دیا۔
“اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں” سعد نے غصے میں کہا اور پھر سے ڈرائیو کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر آج شادی کا دن بھی آگیا رانیہ نے نمرہ کو تیار ہونے میں مدد کی۔
“گھونگھٹ تو ٹھیک کرو اس کا” شاہانہ نے کہا۔
“یہ کیا گھونگھٹ نکالا ہے بےچاری سانس کیسے لے گی” رانیہ نے کہا۔
“بیٹا یہ ضروری ہے تمہیں بھی لینا ہوگا آج” شاہانہ نے کہا۔
“میں کیوں میری تو منگنی ہے” رانیہ نے کہا۔
“وہ تمہیں پتہ چل جائے گا لیکن ابھی تم تیار ہوجاؤ تمہیں بھی یہی میک اپ آرٹسٹ تیار کریں گی اور جب تک ہم نہ کہے تم باہر نہ آنا” شاہانہ نے کہا
“منگنی میں اتنی روک ٹوک” رانیہ نے کہا۔
“اب جاؤ تم تیار ہوجاؤ اور یہ والا سوٹ پہننا” شاہانہ نے اسے سوٹ دیا۔
“لیکن میرا اور فضاء کو سوٹ ایک ہی تھا یہ اتنا بھڑا ہوا ہے” رانیہ نے کہا
“تم جا کر تیار ہو اور آپ بھی ان کے ساتھ جائیں” نور نے پالر والی سے کہا۔
وہ اسے دلہن کی طرح تیار کر رہی تھی اور رانیہ حیران تھی زیادہ حیرت تو تب ہوئی جب اس نے فضاء کو دیکھا جو نہ تو گھونگھٹ میں تھی اور نہ ہی بھڑے ہوئے سوٹ میں اتنا تیار تھی۔ نور نے رانیہ کو کچھ بھی بولنے سے منع کیا، رانیہ کو سعد کے برابر میں عرش اور نمرہ کے ساتھ بٹھایا گیا۔ کچھ دیر بعد فارس اور فضاء کی منگنی کی رسم ہوئی لیکن اس کی رسم نہ ہوئی رانیہ کے چہرے پر حیرت نمایاں تھی جبکہ سعد اور باقی سب آرام سے بیٹھے تھے اور کچھ دیر بعد رانیہ سے نکاح کے تین لفظ بلوائے گئے اور نکاح کے پیپرز سائن کروائے گئے اب سب آرام سے بیٹھے تھے۔
“کہا تھا نہ تمہیں سزا دونگا” سعد نے اس کی طرف جھک کر کہا۔
“یہ سب تم نے کیا ہے” رانیہ نے کہا۔
“ہاں تو دیکھو کتنا فرمانبردار شوہر ہوں تم نے منگنی کا منع کیا اور میں نے تمہاری بات مانی”
“تمہیں تو میں مار دونگی” رانیہ نے انگلی دکھاتے ہوئے اسے وارن کیا۔
“مار تو دیا ہے” سعد نے سینے پر ہاتھ رکھا۔
“بدلا تو میں تم سے لوں گی”
“کیوں کیا کرو گی”
“ایسا نہ ہو یہ کہانی جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پر پہنچا دوں”
“ایسا ہو نہیں سکتا”
“تم چیلنج کر رہے ہو”
“جو سمجھو”
“اگر چیلنج پورا کیا”
“تو زندگی بھر تمھاری غلامی کروں گا اور اگر نہیں کیا تو تمہیں رخصت کروا کر ساتھ لے جاؤں گا”
“ایسا کچھ نہیں ہوگا بے فکر رہو”رانیہ نے کہا۔
شادی کا فنکشن ٹھیک سے ہوگیا نمرہ کی رخصتی کی رسم بھی ہوئی لیکن وہ لوگ ولیمے کے بعد میرپور جانے والے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم اتنی صبح مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو” سعد نے پوچھا
“چپ کرو یار کام ہے” فارس نے یہ کہہ کر گاڑی روکی۔
“تم رکو ادھر میں آتا ہوں” فارس یہ کہتا گاڑی سے اتر گیا۔
سعد نے دس منٹ تک انتظار کیا لیکن فارس نہ آیا وہ بھی گاڑی سے اتر آیا۔ سعد نے دیکھا کہ یہ وہی سڑک ہے جہاں رانیہ اور وہ پہلی بار ملے تھے اور لڑے تھے۔ اس وقت بھی گندا پانی وہیں تھا اور یہی وقت ہو رہا تھا جب رانیہ نے اس پر گندا پانی پھینکا تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ پھر سے ایک گاڑی رفتار سے وہاں سے گزری اور سارا گندا پانی سعد کے کپروں پر اڑا اور گاڑی پچھلی بار کی طرح رکی لیکن اس بار کوئی ہاتھ نکلنے کے بجائے خود رانیہ اتری جس کے ساتھ فارس تھا اور دونوں کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
“دیکھا تو ایسی تھی ہماری پہلی ملاقات” رانیہ نے فارس سے کہا۔
“سن سن کر بور ہوگیا تھا شکر ہے آج تم نے براہ راست دکھایا” فارس نے کہا اور دونوں نے سعد کی طرف قدم بڑھائے۔
“کہا تھا جہاں سے کہانی ابتداء ہوئی تھی وہیں پہنچاؤں گی ڈیئر” رانیہ نے سعد سے کہا۔
“واہ مان گیا رانیہ تمہیں” سعد نے کہا۔
“تو اب ساری زندگی غلامی کے لئے تیار رہنا” رانیہ نے کہا
“خوشی سے” سعد نے کہا اور رانیہ کی طرف جھکا لیکن رانیہ پیچھے ہوگئی۔
“یار تم لوگ یہاں رہو میں تو جا رہا ہوں” فارس نے کہا اور گاڑی لے کر چلا گیا۔
“رانیہ آئی لو یو” سعد نے گھٹنوں پر بیٹھ کر کہا اور ہاتھ آگے بڑھایا جو رانیہ نے تھام لیا۔
رانیہ اور سعد بھی دوسری گاڑی لے کر گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمرہ اور عرش کا ولیمہ زوروشور سے ہوا اور دو دن بعد نمرہ، عرش اور پھوپھو کی فیملی میر پور چلی گئی اور سعد اور ان کی فیملی نیویارک چلی گئی لیکن سعد نے رانیہ سے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ آئے گا اور رانیہ کو ساتھ لے کر ہی جائے گا جس پر رانیہ نے اس کا انتظار کرنے کا وعدہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم_شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...