(Last Updated On: )
”جی ضرور۔۔۔۔۔۔ سارے کام میں ہی تو کروں گی ارمان بھیا کی منگنی میں۔“ میں اس وقت ضبط کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی ، سو وہی کر رہی تھی۔
”ویسے انعمتہ ہے بڑی پھرتیلی۔۔۔۔۔۔۔ آتے ساتھ ہی گھر چمکا ڈالا۔“
” ہاں۔۔۔۔۔۔۔ نمبر جو بڑھانے تھے۔“ میں کڑھی۔
” ویسے اسے بلانے کا میرا مقصد ایک اور بھی تھا۔“
وہ سرگوشیانہ انداز میں بولیں تو میں غصے میں ہونے کے باوجود چونک گئ۔
” کیا۔۔۔۔۔۔۔؟“
” فرخ کے مزاج کا تو تمہیں پتا ہے۔ اتھرابیل ہے ، نکیل ڈالنے بھی کوئی پاس نہیں جا سکتا اور اس نے تو مجھ سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ دیکھے بغیر ٬ لڑکی کو جانے بغیر وہ شادی نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔ تو اچھا ہے یہ جب تک یہاں ہے ، فرخ بھی اسے جان لے۔ مجھے تو یہ لڑکی شروع سے ہی بہت پسند رہی ہے۔ بس فرخ کو بھی پسند آجاۓ۔“
اتنا کچھ سننے کے بعد بھی میرے وہاں بیٹھے رہنے کا کویٔ جواز بنتا تھا ، بلکل نہیں۔ میں تو حیران اس بات پر تھی کہ میں کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ کیوں نہیں پڑی۔
” بس مامی۔۔۔۔۔۔۔ میرے پانچ منٹ ختم ہوۓ۔“
میرے ضبط کی حد پار ہو چکی تھی۔ میں اٹھ کھڑی ہوئ۔
” اچھا! ٹھیک ہے ، مگر اپنی ماں کو یاد دلا دینا کہ وقت سے پہلے پہنچنا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔۔۔۔ لو دیکھو۔ “ انہوں نے بےاختیار اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ ” میں نے تمہیں بلایا کس لئے تھا ٬ وہ تو سن لو۔“
” بتائیے۔“ کاش! وہ اس وقت میرے دل میں جھانک سکتیں۔
” ہم تو کل وہاں جا رہے ہیں تو تم آکر ان کیلیٔے کھانا بنا دینا۔ ویسے تو میں انہیں ہوٹل سے منگوانے کا کہہ دیتی ، مگر ارمان کو باہر کا کھانا بلکل پسند نہیں اور انعمتہ بھی میرے ساتھ جاۓ گی تو۔۔۔۔۔۔۔۔“
” ٹھیک ہے۔“ میں نے سر ہلایا۔ وہ شاید انعمتہ کو ابھی سے اپنی بہو کی حیثیت سے متعارف کروانا چاہتی تھیں۔ اسی وقت انعمتہ بھی کپ اور تھرماس لئے اوپر چلی آئ۔ وہ بھی میرے پانچ منٹ ختم ہونے کے انتظار میں تھی شاید۔ پھر مامی کے روکنے کے باوجود ہم۔ میں مزید ٹھہرے بنا نیچے آگئ۔ اور ٹھیک اسی وقت جب میں دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی ٬ معید کی تیز آواز نے مجھے اچھلنے پر مجبور کر دیا۔
” نیلی کی بچی! تم نے مجھ سے چاۓ بنانے کا کہا تھا۔ اب کہاں بھاگ رہی ہو چھپتے چھپاتے؟“
” بکواس بند کرو۔“ میں تو جیسے پھٹ ہی پڑی۔ ” میں کویٔ چھپتے چھپاتے نہیں بھاگ رہی تھی۔ سمجھے! اتنا ہی مرے جارہے تھے چاۓ کے پیچھے تو اپنی اس کزن سے کیوں نہیں کہا ٬ جب وہ نیچے آئ تھی؟“ میں نے دانت پیسے تھے اور وہ اپنی آنکھوں میں بےیقینی لئے حق دق سا میری طرف دیکھ رہا تھا۔ ظاہر ہے اتنی چھوٹی سی بات پر میرے اتنے شدید ردعمل کا اس نے کب سوچا ہوگا۔
” بھاڑ میں جاؤ اور خبردار ۔۔۔۔۔۔۔ جو آئندہ مجھ سے چاۓ بنانے کا کہا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔“ میں پیر پٹختی باہر نکل آئ تھی۔ جس غصے کا اظہار میں نے معید کے سامنے کیا تھا ٬ وہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اندر سے تو جیسے میں ابل رہی تھی۔ ویسے اچھا تھا۔ معید کو تو تھوڑا سبق سکھا دیا۔ وہ بھی تو مامی کا ہی بیٹا تھا۔ مامی نہ سہی ٬ ان کا بیٹا ہی سہی۔
________________________________________
” تم جیسی بےوقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔“ میں بستر پر اوندھی پڑی تکیے میں منہ دیے لیٹی تھی اور صبا میرے سامنے صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی سرخ رسیلے تربوز سے ہونٹ سرخ اور گریبان تر کرتے ہوۓ وقتا” فوقتا” مختلف جملے میرے کانوں کی۔ میں انڈیل رہی تھی۔
” کوئی کسی پر اپنی خدمتیں ٬ اپنی خوشامدیں نچھاور کرتا بھی ہے تو اس کے تیور دیکھ کر ٬ مگر تمہاری قسمت تو اس سیلز مین جیسی نکلی جو باچھیں چیر کر بھی ، اپنا کوئی پروڈکٹ بیچے بغیر ہی گاہکوں سے لاتیں کھا کر ہی ان کے گھر سے نکلتا ہے۔ “ ایسی گھٹیا اور دل جلانے والے والی مثالیں صرف صبا ہی دے سکتی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر بےزاری سے اسے دیکھا۔
” سنو ۔۔۔۔۔ تم یہاں سے دفع کیوں نہیں ہو جاتیں؟“ ایک تو پہلے ہی میں جلتے توے پر بیٹھی تھی اور بجاۓ وہ مجھ پر پانی ڈالنے کے مزید آگ بھڑکا رہی تھی۔
” میں تو تم سے ہمدردی کرنے آئ تھی۔ آخر بہن ہو میری۔ تمہارے دکھ پر میں دکھی نہیں ہونگی تو اور کون ہوگا؟“
” میں کویٔ دکھی ووکھی نہیں ہوں ٬ سمجھیں؟ اور اللہ نہ کرے کہ میں کبھی دکھی ہوں بھی۔ میں صرف غصہ ہوں ، شدید غصہ اور یہ غصہ مجھے خود پر آرہا ہے اور ۔۔۔۔۔ اور میرا جی چاہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں خود کو زہر دے دوں۔“ وہ ہنسنے لگی۔
” تم خود کو زہر نہیں دے سکتیں۔ وہ کام میں کرلوں گی ، تم یہ بتاؤ! تربوز کھاؤ گی؟ ٹھنڈا ہے ، تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو جاۓ گا۔“ شاید میری حالت اس وقت کچھ زیادہ ہی قابل رحم ہو رہی تھی ٬ ورنہ صبا سے ایسی فراخی کی امید رکھنا بھی فضول تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر چھیننے کے انداز میں اس سے باؤل لیا۔
” میں نے سوچ لیا ہے۔ آئندہ میں ان کے گھر جھانکوں گی بھی نہیں۔ ان کا کام کرنا تو بڑی بات ہے۔ اور مامی کی باتیں تو سنو۔ کل وہاں جا کر ان کے لاڈلے سپوتوں کیلیٔے کھانا بنا دوں۔ ارمان کو باہر کا کھانا پسند نہیں۔۔۔۔۔ نوکر لگی ہوں نا ان کی۔“ شدید طیش میں ٬ میں تربوزے کے ٹکڑے ایک کے بعد ایک نگل رہی تھی۔ مگر ٹھنڈے میٹھے تربوز سے بھی میرے غصے کا کچھ نہیں بگڑ رہا تھا۔
” تم نے ہی ان کی عادتیں خراب کی ہیں۔ ان کے ایک بلاوے پر جاتی تھیں نا ٬ بھاگ بھاگ کر۔ اب بھگتو۔“
” اب میں نہیں بھگتوں گی۔ اب انہیں بھگتنا پڑے گا۔ نہیں جاؤں گی میں ان کے گھر۔ چاہے ایک بار بلائیں ، چاہے سو بار۔ باؤل خالی ہو گیا تھا۔ میں نے تربوز کے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈبویا۔
” اب انہیں تمہاری ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ ویسے بھی دو ، دو بہوئیں آجائیں گی ان کی تو پھر وہ کہاں گھاس ڈالیں گی تمہیں۔“ صبا نے مجھے آئینہ دکھایا ، بلکہ میری اوقات بتائ۔
” جب تک نہیں آئیں گی ٬ تب تک تو کام پڑے گا نا ۔۔۔۔۔۔ بھول جائیں ٬ اب نیلی کو۔ میں تو اب مر کر بھی ان کا کویٔ کام نہیں کروں گی۔“ میں سلگ سلگ کر دھواں ہوتی جا رہی تھی۔
” مامی سے مجھے اس قدر خودغرضی ۔۔۔۔۔۔۔ بےمروتی اور مفاد پرستی کی امید بلکل نہیں تھی۔ تم بچپن سے ان کے سامنے رہی ہو۔ ان کے کام آئ ہو۔ ان کا گھر سنبھالتی رہی ہو۔ اس کے باوجود انہوں نے ایک بار بھی تمہارے بارے میں نہیں سوچا۔ چلو! ارمان بھائ کیلیٔے انہیں اپنی سہیلی کی بیٹی پسند آ بھی گئ تھی تو کم ازکم فرخ کیلیٔے تو تمہارا سوچتیں۔ مگر انہوں نے تو فرخ کیلیٔے بھی اپنی بھانجی کو یہاں بلوالیا ٬ تاکہ ان کا نور نظر اسے دیکھ سکے۔ اسے انڈرسٹینڈ کر سکے اور تمہیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔ اسی پل فیصل نے اندر جھانکا۔
” نیلی آپی۔۔۔۔۔ آپ کو دادی بلا رہی ہیں۔ کہہ رہی ہیں آکر ان کے پیر دبا دیں۔“
” نہیں۔۔۔۔۔۔۔“ مجھ مجھے یہ سن کر ہی تھکن طاری ہو گئ۔ دادی کو رات سونے سے پہلے یہ عادت میں نے ہی ڈالی تھی۔ مگر آج میرا دل حد سے زیادہ بےزار تھا۔ مجبورا“ صبا سے فریاد کی۔
” صبا۔۔۔۔۔ تم چلی جاؤ پلیز۔۔۔۔۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“
” سوری! مجھ سے تو ہلا بھی نہیں جا رہا اور پھر نیند بھی بہت زوروں کی آ رہی ہے۔ تمہیں بلایا ہے۔ تم ہی جاؤ ، ویسے بھی بزرگوں کی خدمت کو منع نہیں کرتے۔ گناہ ملتا ہے۔“ توتا چشمی میں اس نے مامی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
” ہلا نہیں جا رہا یا پھنس گئ ہو صوفے میں۔۔۔۔ کم کھایا کرو ٬ تاکہ وزن کچھ کم ہو ٬ موٹی!“ غصے اور جھلاہٹ سے کہتے ہوۓ اٹھ کر میں نے سلیپرز میں پیر گھساۓ اور دادی کے کمرے کی طرف چلی آئ۔
امی بھی وہی موجود تھیں اور موضوع گفتگو وہی تھا۔ میری دکھتی بلکہ تڑپتی پھڑکتی رگ۔
” میں کہتی ہوں فاخرہ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے بھائ کو تمہارا ذرا خیال نہ ہوا۔ ذرا شرم نہ آئ۔ جو اپنی سگی بہن چھوڑ کر اپنی پھاپھا کٹنی بیوی کی سہیلی سے رشتہ داری جوڑ لی؟ زن مرید مرد تو بڑے دیکھے ہیں ٬ مگر تیرے بھائ جیسا نہ دیکھا ٬ نہ سنا۔“ دادی کو مامی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں اور اب تو انہیں بولنے کا سنہرا موقع مل گیا تھا۔ امی بےچاری جو ایسے موقعوں پر ہمیشہ کرتی تھیں۔ وہی کر رہی تھیں ، یعنی صرف منمنانے کا کام۔ میں دادی کے نرم نرم بستر پر چڑھی اور ان کے پیر دبانے لگی۔
دادی نے ایک نظر مجھے دیکھا ٬ پھر سے امی کے ساتھ مصروف گفتگو ہو گئیں۔ ایک تو آج ویسے ہی میرا موڈ ٹھیک نہیں تھا۔ طبیعت مکدر تھی اور اس وقت دادی کے نرم بستر پر اےسی کی خنکی میں مجھے کب نیند کی جھپکیاں آنے لگیں۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا اور میں وہیں لڑھک گئ۔
” امی! رات کے کھانے میں کیا بنانا ہے؟“ امی جو اس وقت ہلکے سبز رنگ کے چکن کاٹن کے سوٹ میں بڑی باوقار سی لگ رہی تھیں۔ اپنے سونے کے کڑوں کے کیس کو درازوں میں ڈھونڈتے ہوۓ ایک اچٹتی سی نگاہ مجھ پر ڈال کر بےزاری سے گویا ہوئیں۔
” کچھ بھی بنا لو۔ تمہیں ہی کھانا ہے۔ ہم تو کھا کر آئیں گے۔“
” اچھا امی۔۔۔۔۔۔۔ جا ہی رہی ہیں تو لڑکی کی تصویر لے کر آئیے گا۔ آخر ہم بھی دیکھیں۔ کون ہے مامی کا گوہر مقصود۔“
” کیوں۔۔۔۔۔۔۔ تم نے آمنہ کو نہیں دیکھا؟“ امی ایک دم چونکیں۔
” تو کیا ارمان بھیا ٬ کا رشتہ آمنہ آنٹی سے پکا ہو رہا ہے؟“ میں حیران بھی ہوئ اور مشکوک بھی کہ مامی نے اپنی سہیلی کی بیٹی کا کہا تھا یا اپنی سہیلی۔
” اول فول ہی بکے جانا۔ میرے کہنے کا مطلب تھا کہ آمنہ کی بیٹی بلکل آمنہ پر پڑی ہے۔ وہی ناک نقشہ ، وہی لٹھ مار لہجہ ٬ وہی بامشکل کانوں تک آتے بال۔“
” کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے چھوٹے بال ہیں۔“ میں تو چلا ہی اٹھی۔ ” سچ مچ اتنے چھوٹے۔“
” ہاں۔۔۔۔۔ مگر اس میں قصور اس بیچاری کا بھی نہیں ہے٬ یہ گنج پن کی موروثی بیماری ہے۔ بےحد کھردرے ٬ ہلکے بدرنگ سے بال۔ کٹوائیں نہ تو اور کیا کریں۔“ امی نے وجہ بتائ اور میں بےاختیار اپنی لمبی موٹی چٹیا کی نرماہٹ محسوس کرنے لگی۔
” لیکن امی! بےچارے ارمان بھیا۔۔۔۔۔۔ انہیں تو لمبے بال پسند ہیں۔“ مجھے افسوس ہوا۔
” اس کی پسند کا خیال اس کی ماں کو رکھنا چاہیے تھا۔ تم کیوں فکر کر رہی ہو؟ ویسے بھابھی نے ارمان سے پوچھ کر ہی یہ رشتہ کیا ہوگا۔ اتنا فرماں بردار وہ بھی نہیں ہے کہ ماں کے ایک بار کہنے پر سر جھکا دے۔“ امی کچھ غصے سے بڑبڑاتی باہر نکل گئیں۔
صبا اس وقت کوچنگ سینٹر اور فیصل کہیں آوارہ گردیوں میں مشغول تھا۔ میں اپنے لئے چاۓ بنانے کچن میں چلی گئ۔
” نیلی! کہاں ہو تم؟“
اپنے لئے چاۓ بنا کر کپ ہاتھ میں لئے جب میں اپنے پسندیدہ ناول کے ایک سنسنی خیز موڑ پر تھی۔ آفاق کی آواز نے سارا موڈ غارت کر دیا۔
” اف کہاں چھپوں۔“ میں نے کوفت سے سوچا۔ باہر کا دروازہ میں بند کرنا بھول گئ تھی۔ اسی لئے اب یہ مصیبت تو مجھے جھیلنی ہی تھی۔
” یہ سارا گھر بھائیں بھائیں کیوں کر رہا ہے؟“ وہ اندر آیا اور عین میرے سامنے بیٹھ کر حیرانی سے استفسار کرنے لگا۔
” مجھے تو کوئی آواز نہیں آرہی۔“ میں نے چاۓ کا بڑا سا گھونٹ لیا اور اگلے ہی پل میری زبان بھی جلی اور میرا حلق بھی ٬ دل تو خیر ویسے ہی ان دنوں تپتی بھٹی بنا ہوا تھا۔
” کیا ہوا؟“ میری آنکھوں میں شاید پانی بھر گیا تھا۔ وہ تشویش کا شکار ہوا۔
” کچھ نہیں۔ تم کیوں آۓ ہو ، وہ پھوٹو۔“ اب میں مامی کی فیملی کے کسی بھی فرد کو برداشت کرنے کی روادار نہیں تھی۔ اس کا منہ کچھ حیرت سے کھلا۔ پھر منہ بند ہو گیا۔
” امی کہہ رہی تھیں کہ کھانا تم آکر بناؤ گی۔ اگر تم وہاں آجاتیں تو مجھے پوچھنے کیلیٔے یہاں نہ آنا پڑتا۔“
وہ چوکھٹ سے ٹیک لگاۓ میری طرف دیکھتے ہوۓ بول رہا تھا۔ میرے دل میں ناگواری کی ایک بھرپور لہر دوڑ اٹھی۔ کیا میں ان کی نوکر تھی۔ صبا ٹھیک کہتی ہے ، میں نے ہی ان کی عادتیں خراب کی ہیں۔
” دیکھو! میری بات سنو۔“ میں نے چولہے کی آنچ دھیمی کی اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر روکھے لہجے میں گویا ہوئ۔ ” تم دیکھ رہے ہو ، ہمارے گھر میں بھی کوئی نہیں ہے۔ صبا ابھی ضرور آجاۓ گی ، مگر وہ کوئی کام کرتی نہیں ہے۔ یہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو ، اسی لئے میری طرف سے مشورہ یہی ہے کہ تم لوگ آج باہر سے کھانا منگوالو۔ میں اپنا گھر اکیلا چھوڑ کر تمہارے ہاں تمہارا کھانا بنانے نہیں آسکتی۔“
” تو تم نے یہ بات پہلے ہی امی سے کیوں نہیں کی۔ وہ جاتے ہوۓ کم ازکم ہمارے لئے کھانا تو بنا جاتیں۔“ وہ بوکھلایا۔
” نیلی! ایک کپ چاۓ میرے لئے بھی۔“ اسی وقت صبا پھولی سانسوں اور گلابی چہرے کے ساتھ کچن میں داخل ہوئ۔
” ارے! تم کب آئیں؟“ میں حیران تھی۔
” سال بھر پہلے۔“ وہ تپی۔ ” ظاہر ہے ٬ ابھی آئ ہوں اور یہ تم کیا دروازے میں سیسہ پلائ دیوار بن کر کھڑے ہو ٬ ہٹو سامنے سے۔ اس نے آفاق کو دیکھ کر منہ بنایا۔
” یہ تم پڑھنے گئ تھی یا میراتھن ریس میں حصہ لینے۔“ اس کی اتھل پتھل سانسوں اور تمتماتے چہرے کو دیکھ کر وہ مسکراتے ہوۓ پوچھنے لگا۔
” یہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔۔۔ سب تمہارے بھائ کی وجہ سے۔“ فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوۓ آفاق کے پوچھنے پر وہ یکایک بپھر گئ۔” اس نے۔۔۔۔۔۔۔ نے آج میرا حشر کر رہا۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔“ روہانسے لہجے میں کہہ کر اس نے بوتل منہ سے لگائ اور آدھی بوتل ایک سانس میں ہی خالی کر دی۔
” کیا ہوا۔۔۔۔۔؟ کہیں اس بار اس نے تمہارے پیچھے کتے تو نہیں چھوڑ دیے؟“ چاۓ کا کپ آفاق کو پکڑاتے ہوۓ میں باہر برآمدے میں آگئ۔ گرمی ان دنوں اپنے جوبن پر تھی۔ کچن میں آگ کے سامنے پانچ منٹ کھڑے رہنا بھی پسینے میں شرابور کر دیتا تھا۔ میں نے دوپٹے سے اپنا چہرہ پونچھا۔
” میں آج کچھ لیٹ ہو گئ تھی۔“ وہ بتاتے ہوۓ آکر دھم سے سامنے کرسی پر بیٹھی۔
” اور اس نے تمہیں سزا کے طور پر بھاگتے ہوۓ علاقے کے دو چار راؤنڈ لگانے کا کہہ دیا۔“ آفاق نے اندازہ لگایا۔
” نہیں۔“ صبا نے کچھ غصے سے تردید کی۔ ” جب میں کلاس میں گئ تو وہ جنگلی مجھ سے پہلے موجود تھا اور پڑھانا شروع کر چکا تھا۔“
”حدادب لڑکی! وہ تمہارا استاد ہے۔ کیا استادوں کے ادب و احترام کے پڑھے گئے سارے سبق تم بھول گئ؟“ آفاق نے پھر بیچ میں اسے ٹوکا۔ چند لمحے اس کی بات سننے کے انتظار میں ، میں وہی کھڑی رہی ، پھر کچن میں چلی آئ کہ صبا جتنا اونچا بولتی تھی کہ اس کی آواز سات سمندر پار بھی سنی جا سکتی تھی ، کچن تو پھر بلکل پاس ہی تھا۔ اور وہ چھوٹی سی چھوٹی بات کو بھی بہت لمبا کر دیتی تھی۔ فضول کا سسپینس پھیلاتی ، رک رک کر ڈرامائ توقف کرتی۔ ایک جگہ ٹک کر صبروتحمل سے اس کی الف لیلی داستان سننا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ اور میرے پاس نہ ایسا دل تھا اور نہ ایسا گردہ۔
” پہلے تو اس نے میرے ” مے آئ کم ان سر!“ کے جواب میں میرے لیٹ آنے پر ایک گھنٹا بکواس کی اور جب کھڑے کھڑے میری ٹانگیں سن ہونے لگیں ٬ میری کمر میں درد ہونے لگا اور پسینے سے میرے سر میں شدید کھجلی ہونے لگی تو اس نے مجھے اندر آنے کو کہا۔“ اس نے ایک بار پھر رک کر توقف کیا اور آفاق بےتابی سے پھر بول اٹھا۔
” معید نے تمہیں ایک گھنٹہ کھڑا رکھا؟“
” نہیں۔“ صبا نے اس کی بات کے جواب میں پھر ” نہیں“ کا نعرہ بلند کیا۔ میں اس وقت تھال میں چاول نکال رہی تھی۔ اس نہیں ٬ نہیں کی گردان پر مجھے شدید غصہ آیا۔
” یہ لڑکی ایک ہی بار میں ساری بکواس کیوں نہیں کرلیتی۔“ میں نے تنک کر سوچا۔
” جب میں اپنی سیٹ تک آئ تو اس نے مجھے روک دیا اور دوبارہ واپس دروازے تک جانے کا کہا۔“
” ہائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیوں؟“ آفاق کے ساتھ ساتھ اندر میں بھی حیران ہوئ۔
” بقول اس کے پاؤں گھسیٹ کر چلتی ہوں۔“ اس نے بتاتے ہوۓ دانت پیسے ، گویا معید اس کے دانتوں میں دبا ہو۔ ” چپل گھسیٹنے کی آواز زہنی کوفت کا باعث بنتی ہے۔ دھیان بٹتا ہے اور اسٹوڈنٹ ٹھیک سے پڑھ نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ یہ ایک غیر اخلاقی اور غیر شائستہ حرکت ہے۔ مہزب لوگ اور باتہزیب اسٹوڈنٹ اس قسم کی حرکات سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہ جاہلیت اور گوارپن کے مظاہرے نہ کلاس میں زیب دیتے ہیں اور نہ کسی پبلک پیلس پر۔“ وہ برہمی سے بولتی جا رہی تھی۔
میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئ۔ یہ کام تو معید نے بلکل ٹھیک کیا تھا۔ صبا کی اس عادت سے تو میں بھی عاجز تھی۔ وہ دس کلو میٹر دور بھی ہوتی تو اس کی چپل کی بھیانک چرچراہٹ مجھ تک پہلے پہنچ جاتی اور یہ آواز جس قدر میرے اعصاب پر گراں گزرتی تھی٬ میں بتا نہیں سکتی۔ یوں جیسے سیمنٹ کی دیوار پر کوئی ناخنوں سے کھرونچیں ڈال رہا ہو۔
” اور جانتے ہو ٬ اس نے ایک نہ دو پورے پندرہ٬ بیس بار مجھ سے یہ پریڈ کروائ اور کہنے لگا۔ ” ہمارا آج کا سبق یہی ہے٬ پاؤں گھسیٹ کر چلنے کے کیا نقصانات ہیں۔ آپ کے ایک دن کی پڑھائ برباد ہو سکتی ہے۔ آپ کے پیروں پر ورم آسکتا ہے۔ آپ کو سانس لینے میں دقت ہو سکتی ہے۔“ وہ یہ سب میری حالت دیکھ کر کہہ رہا تھا اور پتا ہے ، سارے اسٹوڈنٹس مجھے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔“ وہ رونے کے قریب ہوئ۔
” اور چھٹی ہونے پر وہ اپنی بائیک چھوڑ کر پیدل میرے ساتھ یہاں تک آیا کہ کہیں میں اپنی چال دوبارہ نہ بدل لوں اور اس کے ڈر سے میں گھر کس طرح پہنچی ہوں٬ یہ صرف میں ہی جانتی ہوں۔“
وہ بتا رہی تھی اور تب ہی مجھے سمجھ میں آیا کہ اس کے گھر پہنچنے تک میں اس کی آمد سے بےخبر کیسے رہی۔ مجھے بےاختیار اپنی چھوٹی بہن پر پیار سا آگیا۔ خیر۔۔۔۔۔۔ دیکھا جاتا تو قصور سارا معید کا بھی نہیں تھا۔ اتنا سبق تو صبا کو ملنا ہی چاہیے تھا۔ وہی پرجوش ہو رہی تھی ٬ اس اکیڈمی میں ایڈمیشن لینے کیلیٔے ٬ کیونکہ معید ماسٹرز کرنے کے بعد وہاں عارضی طور پر فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کو انگلش پڑھانے لگا تھا۔ صبا خوش ہو رہی تھی یہ سوچ کر کہ معید اس کی مدد کرے گا۔ اسے نوٹس بنا کر دے گا۔ ایگزامز میں اس کیلیٔے نقل کے پھرے بھی وہی تیار کرے گا اور کلاس روم میں اس تک پہنچاۓ گا بھی۔ ایک ٹیچر کی کزن ہونے پر جو جو رعائتیں مل سکتی ہیں ٬ وہ سب صبا کے دھیان میں تھیں ٬ مگر سچ تو یہ تھا کہ معید نے اس کا ناک میں دم کر کے رکھ دیا تھا۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا ٬ جب اس کے لبوں پر معید کے خلاف کوئی شکایت نہ ہوتی۔ یوں لگتا تھا کہ کزن ہونے کی وجہ سے معید نے اسے خاص نشانے پر رکھا تھا اور آج تو اس نے حد ہی کر دی۔ میں نے سوچ لیا ٬ معید سے صبا کا بدلہ اب میں لوں گی۔
رات کو ماموں اور مامی بھی ہمارے گھر آگئے۔ یعنی لڑکی والوں کے گھر سے سیدھے ہمارے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ظاہر ہے ان کے ساتھ انعمتہ بھی تھی۔ اس دن کی نسبت سیاہ رنگ کے لباس میں آج وہ کافی اچھی لگ رہی تھی۔ مگر ہمیشہ کی طرح چہرے پر سنجیدگی کی گہری چھاپ لئے۔ صبا اس سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کوشش اس لئے کہ میں نے انعمتہ کے ہونٹ ابھی تک ہلتے ہوۓ نہیں دیکھے تھے اور صبا کی آواز تھی کہ ڈرائنگ روم کے دوسرے کونے پر باتوں میں مصروف دادی اور ماموں بھی ڈسٹرب ہونے لگے تھے۔
میں چاۓ بنانے کیلیٔے کچن میں چلی آئ۔ تھکن تو بہت تھی مگر صبا مر کر بھی نہیں اٹھے گی ٬ یہ مجھے معلوم تھا۔ مامی اور امی برآمدے کی کرسیوں پر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ مامی کو ابھی تک پتا ہی نہیں تھا کہ میں ان کی ہدایت نظرانداز کر چکی ہوں۔ اس لئے انہیں مجھ پر کافی پیار آ رہا تھا۔
” رہنے دو نیلی! چاۓ مت بناؤ ٬ پہلے ہی اتنی تھک گئ ہو۔ ویسے بھی ہم وہاں سے پی کر آرہے ہیں۔“ انہوں نے مجھے کچن کی طرف آتے دیکھ کر کہا تھا۔
” کوئی بات نہیں مامی! دوبارہ پی لیجئے گا۔ آپ کو پسند ہے ناں۔“ میں نے مسکراہتے ہوۓ کہا۔ وہ اثبات میں سر ہلا کر رہ گئیں۔
تھوڑی دیر بعد انہیں چاۓ دے کر میں اپنا کپ لئے اپنے کمرے میں آگئ۔ تھی تو بےمروتی ٬ مگر سچ تو یہ تھا کہ میرا وہاں بیٹھنے کو بلکل دل نہیں چاہ رہا تھا۔ صبا تو موجود تھی ہی انعمتہ کو کمپنی دینے کیلیٔے۔ اسی لئے بھی میں نے زیادہ پرواہ نہیں کی اور اس وقت جب میں اپنی سوچوں میں غرق تھی۔ معید کی آواز بلکل میرے قریب گونجی۔
” ہاۓ۔“ میں بے تحاشا اچھل پڑی اور اس پر نظر پڑتے ہی میرے لب ناگواری سے بھینچ گئے۔
” یہ کیا حرکت ہے؟“
” کیا۔۔۔۔۔۔؟“ اس نے استفہامی انداز میں بھنویں اچکائیں۔ جینز پر براؤن کرتہ پہنے آستین چڑھاۓ اپنے مسلز کی نمائش کرتا ٬ دھیرے سے مسکراتا وہ میرا تاؤ بڑھانے لگا تھا۔ بال ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بکھرے تھے۔ سرمگیں سی گہری آنکھوں میں ہلکی ہلکی سرخی بکھری تھی۔ رنگت تمتما رہی تھی۔ وہ شاید ابھی سو کر اٹھا تھا۔ اس کی بےترتیب شخصیت کی طرح اس کے معمولات بھی بےترتیب اور الٹے پلٹے تھے۔ نہ کھانے کا کوئی وقت مقرر تھا اور نہ سونے جاگنے کا۔
” تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“ میں نے خشک لہجے میں پوچھا۔
” وہی جو تم کر رہی ہو ٬ چاۓ پینے آیا تھا۔ ہوں نا بڑا ڈھیٹ۔ اس دن ایک کپ چاۓ کیلیٔے تم سے اتنی باتیں سننے کے بعد آج تمہارے ہی گھر میں تمہارے ہی ہاتھ کی چاۓ پی رہا ہوں۔“ اس نے اپنا کپ دکھا کر مجھے جتایا۔
” تمہیں اپنی بھابھی کیسی لگی؟“ میں نے اس کا سوال گول کر دیا۔ اس کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو حیرانی ابھری۔ پھر وہ کندھے اچکاتے ہوۓ اپنے مخصوص لاپرواہ انداز میں بولا۔
” ٹھیک ہی ہوگی ٬ وہ ایک بار ہی ہمارے گھر آئ ہے اور تب بھی میں گھر پر نہیں تھا۔“
” تو تمہیں کوئی اشتیاق نہیں ہے اپنی ہونے والی بھابھی کو دیکھنے کا؟“ مجھے اس کے انداز پر حیرت ہوئ۔
” نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اسے آخرکار ہمارے ہی گھر آنا ہے اور مجھے اکثر اسے دیکھتے ہی رہنا ہے تو اشتیاق کیسا؟“ وہ ایسا ہی تھا۔ ٹھس ، بےحس اور بےنیاز۔
” اور تمہاری یہ والی کزن کیسی ہے؟“ میں نے انعمتہ کے بارے میں اس کی راۓ جاننی چاہی۔
” کون انعم؟“ اس نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا اور میں شاکڈ رہ گئ۔