(Last Updated On: )
بچوں کے بے قرار مجمعے کو اس نے پُر اَسرار ڈھنگ سے مخاطب کیا۔
’’آج کی کہانی میں تم ایک تماشا دیکھو گے۔ ‘‘
’’کیسا تماشا انکل؟‘‘
’’سانپ اور نیولے کی لڑائی کا تماشا۔‘‘
’’انکل وہی تماشا، جس میں نیولا سانپ کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اور ٹکڑوں کو جوڑ کر پھر سے سانپ کو زندہ کر دیتا ہے۔‘‘
’’ہاں، وہی تماشا! کیا تم نے دیکھا ہے؟‘‘ وہ بچوں کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔
’’نہیں، سنا ہے۔‘‘
’’آج تم اس تماشے کو دیکھو گے۔‘‘
’’سچ انکل؟…جلدی دکھائیے نا۔‘‘
ایک شہر کے نکّڑ پر ڈگڈگی بج رہی تھی۔ ڈُگڈگی کی آواز سن کر لوگ چاروں طرف سے دَوڑ رہے تھے اور ایک ایک کر کے ڈگڈگی بجانے والے کے آس پاس جمع ہوتے جا رہے تھے۔ اُن میں بچے تو تھے ہی، جوان اور بوڑھے بھی تھے۔
ڈُگڈگی والا ایک لمبا چوڑا اور موٹا تگڑا آدمی تھا۔ سر سے پیر تک اس کا حُلیہ انوکھا اور دلچسپ تھا۔ اس کے سر کے بال کندھوں تک بڑھے ہوئے تھے۔ داڑھی بھی کافی لمبی تھی۔ اس نے سر سے پیر تک سفید رنگ کا ایک ڈھیلا ڈھالا لمبا سا چوغہ پہن رکھا تھا۔ اس کے گلے میں رنگ برنگ کے گول گول پتھروں سے بنی ایک لمبی مالا اس کے گھڑے جیسے پیٹ کے نیچے تک لٹک رہی تھی۔ گلے میں کالے دھاگوں سے بندھے چاندی اور تانبے کے کئی تعویذ بھی پڑے ہوئے تھے۔ اس کے دونوں ہاتھ کی تقریباً سبھی انگلیوں میں سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں تھیں جن میں لال، ہرے، نیلے، پیلے، کالے اور سفید رنگ کے پتھروں کے نگینے دمک رہے تھے۔
اس کے ایک ہاتھ میں چاندی کے پتروں اور پیتل کی کیلوں سے جیسی ایک خوبصورت اور دلکش ڈگڈگی تھی جو لگاتار ڈول رہی تھی اور اس میں سے ڈگ ڈگ ڈگ کی آواز نکل رہی تھی۔
اس کے دوسرے ہاتھ میں پیتل کی ایک چمچماتی ہوئی پیاری سی بانسری تھی جس کے منہ کے پاس والے سوراخ کے ذرا نیچے لال رنگ کے پھندے لٹک رہے تھے۔
ڈگڈگی والے کے چاروں طرف گول دائرے کی شکل میں لوگوں کا مجمع بڑھتا جا رہا تھا۔
مجمع میں جگہ جگہ دھکم پیل ہو رہی تھی۔ لوگ اُچک اُچک کر ڈگڈگی بجانے والے کو دیکھ رہے تھے۔ پیچھے والے آگے والوں کو ڈھکیل رہے تھے اور آگے والے پوری طاقت سے پیچھے والوں کو پیچھے ہی روک دینا چاہتے تھے۔
مجمع کے ایک کونے میں ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو دھیرے سے ہٹاتے ہوئے کہا:
’’یار! ذرا مجھے بھی دیکھنے دو۔‘‘
دوسرا اسے روکتے ہوئے بولا ’’ابھی کیا ہے جو اتنے اتاولے ہو رہے ہو۔‘‘
دوسرے کونے میں پیچھے والا آگے والے سے پوچھ رہا تھا ’’کیا کھیل شروع ہو گیا بھائی؟‘‘
دوسرا ’’ نہیں، نہیں‘‘ کہہ کر اپنی پوزیشن درست کر رہا تھا تاکہ پوچھنے والا اِدھر اُدھر سے نہ دھکّا دے کر آگے نہ بڑھ جائے۔
ڈگڈگی والے نے ایک جھٹکے کے ساتھ ڈگڈگی بند کی اور جھک کر سلام کرتے ہوئے مجمع کو مخاطب کیا۔
’’ہاں تو صاحبان! قدر دان! مہربان! آپ نے سانپ اور نیولے کی لڑائی کے بارے میں بہت کچھ کانوں سے سنا ہو گا مگر آج ہم آپ کو آنکھوں سے دکھائے گا کہ سانپ اور نیولے کی لڑائی کیسی ہوتی ہے؟ نیولا کس طرح سانپ کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ ٹکڑوں کو کس طرح جوڑتا ہے اور ٹکڑوں میں بنٹا ہوا سانپ پھن پھیلا کر کس طرح پھر سے لہرانے لگتا ہے۔ قدر دان! یہ انوکھی لڑائی ہم آپ کو دکھائے گا اور ضرور دکھائے گا۔‘‘
ڈگڈگی والے نے رکی ہوئی ڈگڈگی کو پھر سے بجانا شروع کیا۔ ڈگڈگی پہلے زور سے بجی۔ پھر آہستہ آہستہ کھنک کھنک کر ڈگ ڈگ کرتی ہوئی چپ ہو گئی۔
ڈگڈگی کے چپ ہوتے ہی ڈگڈگی والا بول پڑا۔
’’صاحبان! لڑائی ہم آپ کو ضرور دکھائے گا مگر لڑائی دکھانے سے پہلے ہم آپ سے کچھ مانگنا چاہتا ہے۔ گھبرائیے نہیں صاحبان! ہم آپ سے کوئی سونا چاندی یا دھن دولت نہیں مانگنے والا۔ قدر دان! ہم آپ سے صرف آپ کا دھیان مانگتا ہے۔ آپ کی توجہ چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کے بِنا نہ کھیل دیکھنے میں مزا آئے گا اور نہ دکھانے میں۔ اس لیے ہم اپنے ہندو بھائی سے پرارتھنا کرتا ہے کہ وہ ایک بار پریم سے بولیں:
’’شنکر بھگوان کی جئے۔‘‘
جئے کی آواز آس پاس کے ماحول میں گونج گئی۔
’’اور اپنے مسلمان بھائی سے گزارش کرتا ہے کہ وہ دل سے نعرہ لگائیں:
’’نعرۂ تکبیر! اَللہ اکبر۔‘‘
اللہ اکبر کی صدائیں چاروں طرف پھیل گئیں۔
جے اور اللہ اکبر کی آواز سن کر بھیڑ دُگنی ہو گئی۔ مجمع میں نئے آنے والے ایک دوسرے سے تماشے کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے لگے۔ ایک کونے میں ایک نے دوسرے کو کہنی مارتے ہوئے پوچھا:
’’بھائی صاحب! آج کون سا تماشا ہو گا؟‘‘
دوسرے نے اپنی نگاہیں ڈگڈگی والے کی طرف جمائے ہوئے جواب دیا۔
’’وہی سانپ اور نیولے کا تماشا۔‘‘
جواب سُن کر پوچھنے والے کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ وہ اُچھلتے ہوئے بولا:
’’پھر تو بہت مزا آئے گا۔‘‘
ان کے پاس میں کھڑے ایک تیسرے آدمی نے مزے کی بات کرنے والے سے پوچھا: ’’کیا آپ نے یہ تماشا پہلے بھی دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں، پہلی بار موقع ملا ہے۔‘‘
ڈگڈگی والے نے بانسری کو منہ سے لگا لیا اور ڈگڈگی اور بانسری کی طرف دیکھنے لگے۔
ڈگڈگی کے ساتھ بانسری بھی بجنے لگی۔ ڈگڈگی والا ڈگڈگی اور بانسری ایک ساتھ دونوں کو بجاتے ہوئے ایک طرف بڑھا اور ایک کونے میں زمین پر رکھی ہوئی ایک ہرے رنگ کی پٹائی کا پھیرا لگانے لگا۔ چند پھیروں کے بعد بانسری کی آواز بند ہو گئی۔ ڈگڈگی بجتی رہی پھر ڈگڈگی بھی کھنک کھنک کر خاموش ہو گئی۔
ڈگڈگی والے نے مجمع کو پھر مخاطب کیا:
’’دیکھیے قدر دان! ہوشیار ہو جائیے اور اپنی اپنی آنکھیں کھول کر تیار ہو جائیے۔ اب ہم سانپ کو نکالے گا اور اسے پٹاری سے باہر اچھالے گا۔‘‘ ڈگڈگی زمین پر رکھ کر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پٹاری کے ڈھکن کی طرف بڑھا دیا، مجمع کے اندر دھکّم دھکّا شروع ہو گیا۔
ایک بولا ’’ یار! ذرا ہٹو، مجھے بھی تو دیکھنے دو۔‘‘
دوسرا بولا ’’میں کدھر جاؤ؟ مجھے بھی تو دیکھنا ہے۔‘‘
پہلے نے نرمی سے کام لیتے ہوئے کہا۔
’’پلیز تھوڑی سی جگہ دے دو۔‘‘
پاس میں کھڑا کوئی تیسرا بولا:
’’بھائی صاحب! کیوں تنگ کر رہے ہیں؟ کسی اور جگہ کیوں نہیں چلے جاتے۔ جائیے جلدی کیجیے۔ ہمارا بھی کھیل خراب کر رہے ہیں۔‘‘
ڈگڈگی والے نے پٹاری کا ڈھکن ذرا سا اوپر اٹھا دیا۔
مجمع میں ہونے والی نرم نرم باتیں رک گئیں۔ تماش بینوں کی گردنیں آگے کو جھُک گئیں۔ لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔
ڈگڈگی والا پٹاری کے ڈھکن کو اپنی انگلیوں پر اٹھائے ہوئے مجمع سے مخاطب ہوا۔
ہاں، تو قدر دان! جو سانپ ہم آپ کو دکھانے جا رہا ہے، یہ سانپ وہ نہیں، جسے آپ آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ سانپ سائبیریا کے جنگل میں رہتا ہے۔ یہ ایک وی چِتر سانپ ہے۔ اس کے کئی منہ اور کئی سر ہیں۔ ایک سر کے اوپر تو تاج بھی ہے۔ یہ سانپ سچ مچ بہت ہی انوکھا سانپ ہے۔ یہ کنگارو کا دودھ پیتا ہے۔ چھپکلی کے انڈے سیتا ہے۔ اچھا تو لیجیے، اب ہم ڈھکّن کو اٹھاتا ہے۔‘‘
اس نے ڈھکّن کو ذرا اور اوپر اٹھا کر اپنی آنکھیں پٹاری کے اندر ڈال دیں۔ لوگوں کی گردنیں اور آگے کو جھک گئیں۔ پیچھے والے آگے والوں پر چڑھ بیٹھے۔ کئی لوگوں میں تو اس بات پر تو تو مَیں مَیں اور ہاتھا پائی بھی ہو گئی۔
ڈگڈگی والا پٹاری کے اندر جھانکتے ہوئے بولا:
’’کیا…؟ ابھی نہیں! …صاحبان! سانپ راج کا کہنا ہے کہ وہ ابھی موڈ میں نہیں ہیں۔ بچہ لوگ ذرا زور سے تالی بجاؤ کہ سانپ راج مست ہو کر موڈ میں آ جائیں۔‘‘ اس نے ڈھکّن کو گرا دیا۔ تالی کا نام سنتے ہی مجمع میں گڑگڑاہٹیں شروع ہو گئیں۔ آسمان دہلنے لگا۔
ڈگڈگی والا پٹاری کے پاس سے اٹھ کر سر ہلاتے ہوئے بولا:
’’اوں ہوں، کچھ خاص مزا نہیں آیا۔ ذرا زور سے بجائیے۔‘‘
تالی اور زور سے بجی۔ اس بار زیادہ زور دار گڑگڑاہٹ ہوئی۔ بھیڑ اور بڑھ گئی۔
ڈگڈگی والا بانسری بجاتا ہوا ایک خانہ کی رنگ کے تھیلے کے پاس پہنچ گیا۔ تھیلے کے پاس بیٹھ کر اس نے بانسری کو منہ سے الگ کر دیا اور ڈگڈگی والے ہاتھ کو تھوڑا تھوڑا وقفہ دے کر تین بار ایک خاص انداز سے جھٹکا دیا۔ تینوں بار ڈگڈگی
ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ
ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ
ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ
کی آواز نکال کر چپ ہو گئی۔
اس نے ڈگڈگی زمین پر رکھ کر خاکی رنگ کے تھیلے کا منہ سرکایا اور اس کے اندر اپنا داہنا ہاتھ ڈال دیا۔
یہ دیکھتے ہی دیکھنے والوں کے سروں پر سسپنس چڑھ کر بولنے لگا۔ کہیں پر یہ آواز گونجی:
’’دیکھو! دیکھو! اب وہ جادو کے تھیلے میں ہاتھ ڈال رہا ہے۔‘‘
کسی کے منہ سے نکلا:
’’لو اس نے تھیلے سے کچھ نکال لیا۔‘‘
کسی نے کسی کو دھکا دیا۔
’’ہٹو! مجھے بھی دیکھنے دو۔‘‘
کوئی بولا:
’’کیا دیکھو گے، مٹھّی تو بند ہے۔‘‘
کسی زبان سے حیرت میں ڈوبی آواز ابھری۔
’’ارے! اس نے اوپر کی طرف کیا اچھال دیا؟‘‘
رنگین پتھروں کے کئی چوکور ٹکڑے اوپر اچھل کر زمین پر آگرے۔ پتھروں کے زمین پر گرنے کی آواز سن کر لوگوں کے منہ بند ہو گئے۔ آنکھیں کالے رنگ کے چوکور ٹکڑوں کو گھورنے لگیں۔
ڈگڈگی والا ان پتھروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:
’’قدر دان! آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ یہ آپ کو پتھر معلوم ہو رہا ہو گا لیکن قدر دان! یہ پتھر نہیں، ایک بیش قیمت چیز ہے۔ یہ ایک بَہومولیہ وستو ہے۔ اس میں اَن گنت خوبیاں ہیں۔ سیکڑوں گنڑ ہیں۔ اس کے بہت سا رے فائدے ہیں۔ صاحبان! آپ ضرور جاننا چاہیں گے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس میں کیا کیا خوبیاں ہیں؟ تو قدر دان! ہم آپ کو بتائے گا اور اس کا فائدہ بھی دکھائے گا مگر ابھی نہیں۔ پہلے ہم آپ کو سر پر تاج والے سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھائے گا۔‘‘
اس نے ڈگڈگی کو پھر اسی خاص اسٹائل سے جھٹکا دیا اور آہستہ آہستہ ہاتھ ہلاتا ہوا نیولے کے پاس پہنچ گیا۔ اور جھُک کر نیولے کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا:
’’ہاں تو پیارے نیولے راجا! آپ کا کیا ارادہ ہے؟ لڑائی شروع ہو جائے؟ کیا…؟ نہیں؟… لیجیے صاحبان! یہ شری مان بھی منع کر رہے ہیں۔ کیوں جناب! آپ کیوں منع کر رہے ہیں؟ …کیا؟ لوگ کم ہیں؟ لیجیے صاحبان! ان کو شکایت ہے کہ ابھی مجمع چھوٹا ہے ……ٹھیک ہے۔ ہم ابھی اسے بڑا کیے دیتے ہیں۔ بچہ لوگ ذرا ایک بار اور شور کے ساتھ تالی بجا دو اور نیولے راجا کو جوش میں لا دو۔‘‘
تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے پھر آس پاس کا ماحول دہل اٹھا، مجمع سچ مچ اور بڑا ہو گیا۔
ڈگڈگی والے کی ڈگڈگی تالیوں میں بند ہو جانے کے بعد بھی بجتی رہی۔ ڈگڈگی والے نے ڈگڈگی والے ہاتھ کو پھر زور سے جھٹکا دیا اور ڈگ ڈگ کرتی ہوئی ڈگڈگی۔ ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ ڈگ کرنے لگی۔ تین جھٹکوں کے بعد ڈگڈگی بند ہو گئی اور ڈگڈگی والے کی بند زبان کھل گئی۔
’’قدر دان! گھبرائیے نہیں، بس چند ہی منٹ بعد ہم آپ کو سانپ اور نیولے کی وہ یادگار اور مزے دار لڑائی دکھائے گا جس کے انتظار میں آپ بے چین و بے قرار ہیں۔‘‘
اس نے بانسری کو منہ لگا لیا۔ بانسری سے ’’سپیرا بین بجا، بین بجا ناچوں گی‘‘ کی مدھر دھن نکلنے لگی۔
ڈگڈگی والا مجمع میں کھڑے ایک صاحب کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولا:
’’جی ہاں، صاحب! اِس پتھر کے بارے میں بھی بتائے گا اور اس کا فائدہ بھی دکھائے گا۔ ہاں، ہاں! ابھی بتائے گا۔‘‘
اُس نے اس کالے رنگ کے ایک چوکور پتھر کو اوپر اچھال کر ہتھیلی پر روک لیا اور بولا:
’’قدر دان! ہم نے بتایا تھا کہ یہ پتھر نہیں ایک بیش قیمت چیز ہے۔ ایک بہومولیہ وَستو ہے۔ اِس میں ان گنت گُنڑ چھپے ہوئے ہیں۔ لیجیے ہم آپ کو اِس کا گُنڑ بتاتا ہے۔
گُنڑ نمبر ایک اگر کسی کو زہریلے سے زہریلے سانپ نے کاٹ لیا ہو، یہ پتھر سانپ کے زہر کو نکال باہر کرے گا۔ جس جگہ سانپ نے کاٹا ہو آپ اس پتھر کو پانی میں ڈبو کر وہاں رکھ دیجیے، یہ چپک جائے گا اور اس وقت تک چپکا رہے گا جب تک جسم سے زہر باہر نہیں نکل جاتا۔
گُنڑ نمبر دو کسی آدمی کو بچھو نے ڈنک مار دیا ہو اور وہ آدمی زمین پر دہاڑیں مار مار کر لوٹ رہا ہو اور پچھاڑیں کھا رہا ہو، آپ کسی پتھر یا سِل پر رگڑ کر اس جگہ پر اسے چپکا دیجئے۔ سارا زہر منٹوں میں غائب اور لوٹ پوٹ آن کی آن میں اُڑن چھو۔‘‘
گُنڑ نمبر تین
مجمع سے اِکّے دُکّے لوگ نکل کر جانے لگے تو ڈگڈگی والے نے انھیں روکتے ہوئے کہا:
اے مسافر جانے والو دیکھ لو منہ پھیر کر
ہم مسافر کس لیے بیٹھا ہے یہ رستہ گھیر کر
’’مہربان! جائیے نہیں، ابھی کھیل دِکھائے گا۔ آپ کھیل دیکھ کر جائیے۔ آپ کو بہت مزا آئے گا۔ لیجیے، ہم ابھی دکھاتا ہے۔‘‘
ڈگڈگی بجاتا ہوا وہ نیولے کے پاس پہنچ گیا۔ ڈگڈگی والا ہاتھ نیولے کے سر کے اوپر گھمانے لگا۔ ڈگڈگی کی آواز پر نیولا جھومنے لگا۔ کچھ دیر بعد ڈگڈگی والے نے نیولے کی رسّی ڈھیلی کر دی۔ نیولا سانپ کی پٹاری کے پاس پہنچ گیا اور اس کے چاروں طرف چکّر کاٹنے لگا۔
ڈگڈگی والا پٹاری کے پاس آ گیا۔ اس کے ہاتھ کی ڈگڈگی پٹاری کے تھوڑا اوپر جا کر خوب زوروں سے کھنکی اور خاموش ہو گئی۔ ڈگڈگی والے نے پٹاری کا ڈھکن اٹھا کر پٹاری کے اندر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔
مجمع میں پھر دھکا پیل شروع ہو گئی۔ کھیل دیکھنے کی خواہش جوش میں آ کر بولنے لگی:
’’ارے! وہ دیکھو! اس کے ہاتھ میں سانپ کی دم! کیسے بل کھا رہی ہے۔‘‘
’’ارے! اس کا رنگ بھی انوکھا ہے۔‘‘
’’ڈگڈگی والے! ذرا سانپ کو اور اوپر تو کرو!‘‘
ڈگڈگی والے نے سانپ کی لہراتی ہوئی دم کو دکھاتے ہوئے لوگوں سے کہا:
’’ صاحبان! یہ سانپ خطرناک بھی بہت ہے۔ اس کا کاٹا ہوا آدمی مشکل سے بچتا ہے، اور وہ بھی اسے صرف ایک چیز بچا سکتی ہے اور وہ ہے یہ فقیری سنگ ریزہ! اجی ہاں، یہ کالا پتھر! جس کسی بھائی کو شک و شبہ ہو اور آزمانا چاہتے ہوں تو ہمارے پاس آ جائیں۔ ہم اِس سانپ سے اُن کو کٹوائے گا۔ چند سکنڈ کے لیے وہ ضرور لوٹ پوٹ جائیں گے مگر اس فقیری سنگ ریزے کی مدد سے وہ جلد ہی ہنسنے لگیں گے۔ ہے کوئی ہمت والا! ہے کوئی جواں مرد! ہے کوئی شیر دل تو مجمع سے نکل کر سامنے آئے اور اس فقیری سنگ ریزے کو آزما کر دیکھے کوئی نہیں! خیر کوئی بات نہیں۔ ہم ابھی آپ کو اس کا ایک نمونہ دکھاتا ہے۔‘‘
وہ سانپ کی دم چھوڑ کر خاکی رنگ کے تھیلے کے پاس پہنچا اور تھیلے کے اندر سے ایک لال رنگ کی ٹکیہ نکال کر لوگوں کو دکھاتے ہوئے بولا:
’’صاحبان! یہ ٹکیہ دیکھ رہے ہیں۔ اس کو اب ہم پانی میں ڈالتا ہے۔ قدر دان! یہ دیکھیے، ٹکیہ کے پڑتے ہی پانی کا رنگ خون کی طرح لال ہو گیا۔ اب خون سے بھرے اس گلاس کو ہم اس پٹاری کے اندر رکھے گا اور سانپ اپنا زہر اس گلاس میں چھوڑے گا، پھر دیکھیے گا اس لال رنگ کے پانی کا رنگ کیسا ہو جاتا ہے؟‘‘
اس نے لال رنگ کے پانی والے گلاس کو پٹاری کے اندر رکھ دیا، اور پٹاری کے چاروں طرف گھوم گھوم کر ڈگڈگی اور بانسری دونوں کو ایک ساتھ بجانے لگا۔
مجمع کے ایک کونے سے آوازیں نکلنے لگیں۔
’’بیٹے موہن! چلو دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’تھوڑی دیر اور رُک جائیے باپو۔‘‘
’’نہیں بیٹے! بہت دیر ہو جائے گی۔‘‘
’’اچھا آپ چلے جائیے! میں کھیل دیکھ کر آؤں گا۔‘‘
ڈگڈگی والا اچانک رک گیا۔ اس کے ساتھ ہی ڈگڈگی اور بانسری کی آوازیں بھی رک گئیں۔ وہ پٹاری کی طرف جھکا اور پٹاری کے اندر سے اس نے گلاس کو باہر نکال لیا۔
گلاس کے پانی کا لال رنگ کالا پڑ چکا تھا۔
ڈگڈگی والا لوگوں کو گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:
’’قدر دان! دیکھا آپ نے گلاس کے پانی کا لال رنگ بالکل کالا ہو گیا۔
’’صاحبان! جس آدمی کو یہ سانپ کاٹ لیتا ہے اس کے خون کا رنگ بھی اسی طرح کالا پڑ جاتا ہے اب ہم آپ کو اِس فقیری سنگ ریزے کا کمال دکھائے گا۔ غور سے دیکھیے گا۔‘‘
اس نے ایک چوکور کالے رنگ کا پتھر اٹھا کر گلاس میں ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گلاس کے پانی کا کالا رنگ پھر سے خون جیسے لال رنگ میں بدل گیا۔
یہ دیکھ کر مجمع کے اندر سے تالیوں کی گڑگڑاہٹ پھوٹ پڑی۔
تالیوں کی گڑگڑاہٹ سن کر ڈگڈگی والا بولا:
’’شکریہ مہربان! عنایت قدر دان! صاحبان! دیکھا اس فقیری سنگ ریزے کا کمال! یہ تو اس کا صرف ایک کمال ہے۔ ایسے ایسے تو ان گنت کمالات اس میں بند ہیں۔ اس کے چند اور فائدے ہم آپ کو بتاتا ہے۔ کسی کو مرگی کا دورہ پڑ گیا ہو۔ اِسے اُس آدمی کی ناک کے پاس لے جائیے۔ فوراً ہوش میں آ جائے گا اور مرگی کا مریض اسے اپنے پاس رکھتا ہے تو اسے کبھی دورہ نہیں پڑے گا۔ اسی طرح کسی کو پرانی سے پرانی بواسیر ہو اور لا علاج ہو چکی ہو، آپ اس پتھر سے صرف ایک ہفتے تک سنکائی کیجیے گل کر راکھ ہو جائے گا۔ قدر دان! اس پتھر کے اور بہت سے فائدے ہیں جن کا ذکر اس پمفلٹ میں چھپا ہے۔‘‘
اس نے پمفلٹ اٹھا کر ایک ایک کر کے لوگوں کے ہاتھوں میں پکڑانا شروع کر دیا۔
مجمع کے اندر سے پھر آوازیں نکلنے لگیں۔
ایک نے دوسرے سے کہا:
’’چلیے بھائی صاحب! چلیں۔‘‘
دوسرا بولا:
’’کیوں! تماشا نہیں دیکھیں گے کیا؟‘‘
پہلے نے جواب دیا
’’مجھے تو نہیں لگتا کہ تماشا ہو گا۔‘‘
دوسرے نے یقین بھرے لہجے میں کہا
’’ہو گا کیسے نہیں؟ ضرور ہو گا۔‘‘
پمفلٹ بانٹتے ہوئے ڈگڈگی والے نے مجمع کو پھر مخاطب کیا:
’’قدر دان! اتنے سارے کمالات، اتنے سارے گُنڑ اور اتی ساری خوبیاں اس فقیری سنگ ریزے میں موجود ہیں تو آپ سوچتے ہوں گے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی ہاں، قدر دان! قیمت تو واقعی بہت زیادہ ہے مگر دام! دام کچھ بھی نہیں بالکل مفت فقیر کی دی ہوئی چیز ہے۔ اس کا دام کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں اپنے پیر فقیر بابا ملنگ صاحب کی نیاز کے لیے ایک معمولی سی رقم بطور نذرانہ ضرور لیتا ہوں اور وہ معمولی سی حقیر رقم ہے ایک روپیہ! صرف ایک روپیہ! ایک روپیہ! ایک روپیہ! ایک روپیہ! جس کسی صاحب کو ضرورت ہو آواز دے کر مانگ سکتے ہیں۔
مجمع کے اندر سے ٹکیے کی فرمائش ہونے لگی۔
’’ایک ٹکیہ مجھے!‘‘
’’ایک مجھے!‘‘
’’ایک مجھے بھی‘‘
ڈگڈگی والے نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے خوشی سے بھرے لہجے میں کہا:
’’ابھی دیا! ابھی دیتا ہے قدر دان! ابھی آیا مہربان! آپ کو بھی دیا صاحبان! اُدھر بھی آیا شری مان!
اِدھر مجمع میں کھُسر پھُسر ہونے لگی۔
’’اب چلو بھی یار!‘‘
’’کیوں تماشا؟‘‘
’’ہو تو گیا تماشا‘‘
’’کیسی بات کر رہے ہیں جناب! تماشا تو اب شروع ہو گا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے، آپ لوگ دیکھیے، میں چلتا ہوں۔‘‘
’’کیا سچ مچ تماشا نہیں ہو گا؟‘‘
’’لگتا تو ایسا ہی ہے۔‘‘
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ اس نے وعدہ کیا ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو گھیر رکھا ہے، دکھائے گا نہیں تو جائیے گا کہا؟‘‘
’’ہا ہا ہا خوب کہا، جائے گا کہاں؟ ارے صاحب! وہیں جائے گا جہاں سے آیا ہے۔ میں تو چلا۔‘‘
ایک کونے پرا یک نوجوان لڑکے نے موہن کو مخاطب کیا۔ وہی موہن جو اپنے باپو کے ساتھ سانپ اور نیولے کا تماشا دیکھنے آیا تھا اور جس کے باپو بیچ سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
’’ارے موہن تم اکیلے آئے ہو؟‘‘
’’نہیں اشرف! باپو کے ساتھ آیا تھا۔ اُن کو دیر ہو رہی تھی اس لیے وہ کھیل دیکھے بِنا ہی چلے گئے یار! کیا بات ہے؟ دھیرے دھیرے سبھی لوگ چلے جا رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ تماشا نہیں دیکھیں گے؟‘‘
اشرف نے جواب دیا۔
’’کیا پتہ؟ آؤ کسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘
ان دونوں نے ایک ادھیڑ عمر کے آدمی کو مخاطب کیا۔
’’انکل! انکل! کھیل نہیں ہو گا کیا؟‘‘
انکل نے جواب دیا
’’کیا معلوم؟‘‘
’’انکل آپ کیوں جا رہے ہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ سب جا رہے ہیں‘‘ انکل جواب دے کر آگے بڑھ گئے۔
موہن اور اشرف کچھ اور نوجوان لڑکوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ڈگڈگی والے کی طرف دیکھنے لگے۔
ڈگڈگی والے نے روپیوں کو گنتے ہوئے لڑکوں سے پوچھا:
’’تم لوگ کس لیے کھڑے ہو؟‘‘
ایک لڑکے نے جواب دیا
’’تماشا دیکھنے کے لیے‘‘
ڈگڈگی والے نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
تماشا! کیسا تماشا؟ ارے ہاں، یاد آیا سانپ اور نیولے کا تماشا‘‘ ’’دکھاؤ گے نا؟‘‘ ایک نے پوچھا، ’’ہاں، ہاں، ضرور دکھاؤں گا، ہاہاہا…‘‘
اس کے ہونٹوں سے قہقہوں کا فوّارہ پھوٹ پڑا۔
ڈگڈگی والے کے منہ سے نکلتے ہوئے لگاتار قہقہوں کو سن کر ڈرتے ہوئے موہن نے اشرف سے کہا۔
’’ہاں اشرف! اس کی ہنسی تو بھیانک ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ چلو جلدی سے کھسک لو۔‘‘
موہن کی بات سن کر اشرف بولا:
’’کھیل دیکھے بنا ہی؟‘‘
گھبراتے ہوئے موہن نے کہا:
’’یار! کھیل ویل کو مارو گولی اور نکل چلو یہاں سے جلدی ورنہ سنا ہے کہ مداری لوگ جادو بھی جانتے ہیں۔ جادو سے منہ بند کر دیتے ہیں۔ منتر سے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتے ہیں۔
’’سچ! ڈرتے ہوئے اشرف نے پوچھا
’’ہاں، بالکل سچ، میرے باپو کہتے ہیں‘‘
اشرف کے اندر ڈر پوری طرح سما گیا۔ وہ گھبراتے ہوئے بولا:
’’تو بھیا، جلدی سے پھوٹ لو۔‘‘
موہن اور اشرف دونوں ڈگڈگی والے کے پاس سے نکل آئے۔ کچھ دور چلنے کے بعد اشرف نے موہن سے کہا:
’’یار موہن! ہم بے کار میں ڈر کر آ گئے۔ ہو سکتا ہے ڈگڈگی والا کھیل دکھائے۔ آخر وہاں جو لوگ رکے ہوئے ہیں وہ یوں ہی تو نہیں رکے ہیں۔‘‘
اشرف کی بات سن کر موہن بولا:
’’لیکن کھیل ہونا ہوتا تو وہ لوگ بھی رُک جاتے جو چلے گئے۔ تم بے کار پچھتا رہے ہو۔‘‘
اس پر اشرف اپنے دل کی بات بتاتے ہوئے بولا:
’’یار میری بڑی خواہش تھی یہ تماشا دیکھنے کی۔ وہ سانپ کیسا ہو گا جس کے ایک سے زیادہ منہ ہیں۔ جس کے ایک سر کے اوپر تاج بھی ہے! وہ لڑائی کیسی ہو گی جس میں نیولا سانپ کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہو گا اور ٹکڑوں میں بنٹا ہوا سانپ پھر سے زندہ ہو جاتا ہو گا۔ ہے نا یہ انوکھا کھیل! خیر پھر کبھی دیکھیں گے۔ اُدھر کیا ہو رہا ہے موہن؟‘‘
سامنے ایک پیڑ کے نیچے لگی بھیڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اشرف نے موہن سے پوچھا۔ موہن نے جواب دیا۔
’’شاید اُدھر بھی کوئی تماشا ہو رہا ہے چلو چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘
موہن اور اشرف اس بھیڑ کی طرف دوڑ پڑے۔
اتنا سنا کر کہانی انکل چُپ ہو گیا۔
’’اس طرف کا تماشا کیسا تھا انکل؟‘‘ ایک بچے تے تجسس ظاہر کرتے ہوئے پوچھا:
’’معلوم نہ ہو سکا۔‘‘
’’اور اِدھر کے تماشے کا کیا رہا؟ ڈگڈگی والے نے سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھائی یا نہیں؟‘‘
’’نہیں دکھائی۔ روپے گننے کے بعد اُس نے اپنے بکھرے ہوئے سامان کو سمیٹا۔ انھیں تھیلے میں رکھا اور نیولے کی رسّی کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے دوسرے موڑ کی طرف بڑھ گیا۔ تماشے کے انتظار میں کھڑے بہت سے نوجوان اور کچھ بڑے بھی ڈگڈگی والے کو دور تک دیکھتے رہے۔
’’انکل! آپ نے سب چوپٹ کر دیا۔‘‘ ایک بچہ مایوسی کے لہجے میں بول پڑا۔ ’’کیا مطلب؟‘‘ کہانی انکل نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ آپ نے اس کہانی میں اتنا سسپنس پیدا کیا کہ ہم دَم سادھے بیٹھے رہے۔ چاہتے ہوئے بھی کہانی کے بیچ میں سوال نہ کر سکے اور جب ہمارا سسپنس انجام جاننے کے لیے بے چین ہوا تو آپ نے کہانی کا اَینڈ بتایا ہی نہیں۔ اصل تماشا ہمیں دکھایا نہیں۔‘‘
بچے کی بات سن کر کہانی انکل بولا:
’’گھر جا کر موہن نے بھی اپنے پاپا سے یہی کہا تھا، جانتے ہو موہن کے پاپا نے کیا جواب دیا تھا؟‘‘
’’کیا جواب دیا تھا انکل؟‘‘
’’انھوں نے یہ جواب دیا تھا کہ بیٹے! اصل تماشا وہی تھا جسے تم دیکھ کے آ رہے ہو۔‘‘
’’انکل! یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘
’’موہن کی سمجھ میں بھی اس وقت نہیں آئی تھی مگر جب موہن کچھ بڑا ہوا تو یہ بات اُس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔
’’انکل! ہم بھی جب بڑے ہو جائیں گے تو یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے گی نا؟‘‘’ ضرور آ جائے گی۔ اچھا، اب تم لوگ جاؤ! مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’اصل تماشا وہی تھا جسے تم دیکھ کر آ رہے ہو۔‘‘ یہ جملہ بچوں کے ذہنوں میں کانٹے کی طرح چُبھ گیا تھا۔ ان کا دماغ اِس کانٹے کو نکالنے کی جتنی کوشش کر رہا تھا اتنا ہی کانٹا اندر کی طرف گھستا چلا جا رہا تھا۔ بچے اپنے بڑے ہونے کی دعائیں مانگتے جا رہے تھے۔
ادھر اُس کی آنکھ میں تماشا پھر سمٹ آیا۔
اَن گنت آنکھیں اس کی آنکھوں میں کھُل گئیں
دھیرے دھیرے ساری آنکھیں جلنے لگیں
جلتی ہوئی آنکھوں میں سپنے جھلسنے لگے
خواہشیں راکھ ہونے لگیں
چہرے بجھنے لگے۔
٭٭٭