(Last Updated On: )
فقیر ہوں مجھے لٹنے کا ڈر زیادہ نہیں
کہ میرے کیسۂ خواہش میں زر زیادہ نہیں
کرن کی قید میں ہے آئینے کی بینائی
میں اس کو دیکھ تو سکتا ہوں پر زیادہ نہیں
ہمارے دور میں تو واقعہ بھی کرتب ہے
یہ ہم جو دیکھتے ہیں، معتبر زیادہ نہیں
اور ان میں ایک در مے کدہ بھی شامل ہے
غموں سے بچ کے نکلنے کے در زیادہ نہیں
میں اس کی شکل بناتا ہوں، پر نہیں بنتی
قلم کی نوک میں تاب ہنر زیادہ نہیں
میں اہلِ دل کی ثنا خوانیوں میں رہتا ہوں
بلا سے، نام مرا مشتہر زیادہ نہیں
٭٭٭