(Last Updated On: )
سامعین گل بڑی توجہ طلب اے اک مشہور سا شعر ہے، شعر عرض کیتا جی
چین سے سو رہا تھا میں اوڑے کفن مزار میں یہاں بھی ستانے آ گئے کس نے پتہ بتا دیا
شکستہ مقبروں پر ٹوٹتی راتوں کو اِک لڑکی لیے ہاتھوں میں بربت جوگ میں کُچھ گنناتی ہے
کہا کرتے ہیں چرواہے کہ جب رُکتے ہیں گیت اُس کے تو اِک تازہ لحد سے چیخ کی آواز آتی ہے
فنا کے بعد بھی مُجھ ستا رہا ہے کوئی نشان بھی قبر کا میری مٹا رہا ہے کوئی
میرے خدا مجھے تھوڑی سی زندگی دے دے اداس میرے جنازے سے جا رہا ہے کوئی
نشان بھی قبر کا
اندھیری رات کے تارو نہ جلملاؤ تم خدائی سو گئی آنسو بہا رہا ہے کوئی
نشان بھی قبر کا
فرشتوں عرش سے لا لا کے پھول برساو قمرؔ کی قبر کو دُلہن بنا رہا ہے کوئی
نشان بھی قبر کا میری مٹا رہا ہے کوئی فنا کے بعد بھی مُجھ ستا رہا ہے کوئی