ارسطو نے ایک بار کہا تھا کہ، “انسان عقل والا جانور ہے”۔ تاہم اگر آپ کی کبھی کسی سے سیاست یا مذہب کے موضوع پر بحث ہوئی ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ تمام لوگ اپنی رائے کا دفاع کس قدر نامعقول طریقے سے کرتے ہیں۔ لیکن مذاق برطرف، انسانوں کی ایک بہت عجیب خاصیت یہ ہے کہ کئی بار لوگ اپنا ذہن تبدیل کر لیتے ہیں۔ قائل ہو جاتے ہیں۔ اور صرف دلائل کے ذریعے!!۔
دلیل کا استعمال آپ ہر وقت کرتے ہیں۔ گھریلو معاملات میں، دوستوں کے ساتھ، فیس بک پر کمنٹ کرتے ہوئے۔ (شاید آپ اس بارے میں اتنی گہرائی سے نہ سوچتے ہوں جتنا کوئی فلسفی)۔ جب آپ والدین کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آپ کو نئے موبائل فون کی ضرورت ہے یا جب آپ دوستوں کو قائل کر رہے ہیں کہ آج نہاری کھانے چلتے ہیں تو آپ دلیل کا استعمال کر رہے ہیں۔ جب بھی آپ کسی کو کسی کام پر آمادہ کر رہے ہیں یا کسی بات پر یقین کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں یا وضاحت کر رہے ہیں کہ آپ کسی بات پر یقین کیوں رکھتے ہیں یا کوئی کام کیوں کر رہے ہیں تو آپ دلیل استعمال کر رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی بھاری اکثریت دلیل کی اچھی مہارت نہیں رکھتی۔
اچھی دلیل کو بذلہ سنجی اور فقرہ بازی سے لاجواب کر دینے سے کنفیوز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی بات زیادہ زور اور غصے سے دہرانا دلیل کو زیادہ قابلِ قبول نہیں بناتا۔ اپنا کیس منطق کی ٹھوس بنیاد پر پیش کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ لیکن دلیل کا فن سیکھنے سے نہ صرف آپ دوسروں کو قائل کرنا سیکھ سکیں گے بلکہ اپنی منطق میں کمزوریاں بھی ڈھونڈ سکیں گے۔ لوگ آپ کو سننا پسند کریں گے۔ تو ہاں، یہ مہارت آپ کے لئے فائدہ مند ہے خواہ آپ زندگی میں کچھ بھی کرتے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ سے اڑھائی ہزار سال پہلے افلاطون نے کہا تھا کہ عقل کو کام کیسے کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان تین حصوں پر مشتمل روح ہے۔ ایک حصہ عقلی ہے۔ یہ سچ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ فیکٹ اور آرگومنٹ اس کو متاثر کرتے ہیں۔ جب آپ طے کرتے ہیں کہ میٹھا کم کرنا ہے کیونکہ یہ صحت کے لئے اچھا نہیں تو یہ حصہ راہنمائی کر رہا ہے۔ دوسرا جذباتی ہوتا ہے۔ یہ حصہ ہے جو ناانصافی پر برہم ہوتا ہے، آپ کی امنگیں اور خواہشات ہوتی ہیں۔ آپ کی غیرت اور فرض کا جذبہ، ہمدردی اور دوسروں کا احساس بھی اس کے پاس ہے۔ اور تیسرا حصہ وہ ہے جو ہم تمام جانوروں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ بھوک، پیاس تعلق، خطرات سے بچنا جیسی چیزیں اس سے خاص ہیں۔ اگر آپ کھانا ٹھونس رہے ہیں کیونکہ یہ مزیدار ہے۔ تو روح کا یہ حصہ کنٹرول میں ہے۔
افلاطون کا خیال تھا کہ بہترین انسان وہ ہیں جن پر عقل والے حصے کا غلبہ ہو اور وہ جذباتی اور حیوانی حصے کو قابو میں رکھے۔
ظاہر ہے کہ اب ہم تین حصوں والی روح کے تصور پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ جسمانی خواہشات، جذباتیت اور عقل ہم سب کا ہی حصہ ہے۔ اور بہت سے لوگ افلاطون کی اس بات سے بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ ہماری زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر عقل کو ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفانہ بحث چیخ پکار کا مقابلہ نہیں۔ اس کے پیچھے کوئی premise کا ہونا ضروری ہے، جو دلیل کا سٹرکچر بناتے ہیں۔ اور ان کی بنیاد پر آپ اپنے نتیجے تک پہنچتے ہیں۔ آرگومنٹ کی اپنی بہت سی اقسام ہیں۔ سب سے آسان شکل ڈیڈکٹو آرگومنٹ ہے۔ جس کا اصول یہ ہے کہ اگر تمام پریمس درست ہیں تو نتیجہ لازمی درست ہے۔ (اور یہ جاننا کہ کوئی شے واقعی درست ہے بہت ہی نایاب ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بہت آسان مثال اس طرح دی جاتی ہے کہ
۱۔ تمام انسان فانی ہیں۔
۲۔ سقراط انسان ہیں۔
نتیجہ: سقراط فانی ہیں۔
یعنی کہ اگر دونوں پریمسس درست ہیں تو نتیجہ یہی نکلے گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ٹھیک آرگومنٹ ہے۔
اب ایک دوسرا کیس دیکھ لیتے ہیں
۱۔ تمام انسان فانی ہیں
۲۔ سقراط انسان ہیں
نتیجہ: سقراط افلاطون کے استاد ہیں۔
یہ آرگومنٹ غلط ہے کیونکہ دئے گئے پریمسس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا۔ نوٹ کرنے کی چیز یہ ہے کہ نتیجے کی سٹیٹمنٹ درست ہے اور یہ ہمیں ایک اور مسئلے کی طرف لے آتا ہے۔ آرگومنٹ کی درستگی اور نتیجے کی درستگی ایک چیز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلی ایک ممالیہ ہے۔ میں ایک ممالیہ ہوں۔ لہذا، میں بلی ہوں۔ یہاں پر غلطی آرگومنٹ کی ہے۔
ہر انسان کی دم ہوتی ہے۔ میرا بھائی انسان ہے۔ لہذا میرے بھائی کی دم ہے۔ یہاں پر آرگومنٹ بالکل درست ہے لیکن “ہر انسان کی دم ہونے” کا پریمسس غلط ہے اس لئے نتیجہ غلط نکلا ہے۔
فلسفے کے مباحث میں ہم ایسے سٹرکچرز کا تجزیہ کرتے ہیں۔ تا کہ ان میں نقص کم سے کم ہو۔
کئی بار فلسفے میں کہا جاتا ہے کہ ڈیڈکٹو آرگومنٹ بہترین ہیں کہ اس کے ذریعے یقین کے ساتھ نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے تاہم یہ ایک مغالطہ ہے۔ پریمسس بہرحال ڈیڈکٹو نہیں ہو سکتے۔ “درست پریمسس” جیسی چیز نایاب ہے۔ اور اگر ایسے سچ موجود ہوں تو یہ اہم نہیں ہوتے۔ اور ہمیں کسی اہم اور بڑی نئی انفارمیشن کی طرف نہیں لے کر جاتے۔
اس وجہ سے آپ کو سچ اور اپنے پریمسس پر اعتبار کے بارے میں جاننا پڑتا ہے اور اس کے لئے آپ کو آرگومنٹ کی دوسری اقسام کو جاننے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا طریقہ انڈکشن ہے۔ اس میں ماضی کے تجربے کو دیکھ کر مستقبل کی پیشگوئی کی جاتی ہے۔ مثلاً، “ڈسپرین سردرد دور کر دیتی ہے”۔ کیونکہ ماضی میں ایسا کرتی رہی ہے تو ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ اگلی بار بھی یہ ایسا کر دے گی۔
۱۔ قدیم یونان میں زیادہ تر مرد داڑھی رکھتے تھے۔
۲۔ سقراط قدیم یونان میں رہتے تھے۔
نتیجہ: غالباً سقراط کی داڑھی تھی۔
ایک ایسا انڈکٹو آرگومنٹ ہے۔ ایسا استدلال بہت مفید ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل ہمیشہ ماضی کی طرح نہیں ہوتا۔ ہر پیٹرن میں استثنا ہوتے ہیں اس لئے غلط نتائج کا احتمال ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ڈسپرین میرا والا سر کا درد ٹھیک نہ کرے۔ یا ہو سکتا ہے کہ سقراط کی داڑھی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرلاک ہومز نے اپنے ساتھی کو کہا تھا کہ “جب ہم نے تمام ایسی چیزوں کو حذف کر دیا ہے جو ناممکن ہیں تو جو بچا ہے، وہ خواہ کتنا بھی عجیب کیوں نہ ہو، وہی سچ ہے”۔ یہ طریقہ ایبڈکشن کا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ایویڈنس کے مطابق وہ چیز دیکھنا جس کا امکان سب سے زیادہ ہو۔
۱۔ ایک شخص پسینے سے شرابور ہے اور ہانپ رہا ہے
۲۔ اس نے ٹریک سوٹ پہنچا ہوا ہے
نتیجہ: وہ ورزش کر کے آ رہا ہے۔
یعنی ہمارے پاس شواہد ناکافی ہیں لیکن اچھے اعتماد سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔
یا پھر:
۱۔ آپ نے اپنے دوست کے ساتھ کل ریسٹورنٹ میں کڑاہی کھائی تھی۔
۲۔ آج دونوں کا پیٹ خراب ہے
نتیجہ: کڑاہی کے ساتھ کچھ مسئلہ تھا۔
یعنی کہ اگرچہ اس امکان کر رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دونوں کے ساتھ الگ الگ کسی وجہ سے ایسا ہوا ہو لیکن ہم اچھے اعتماد کے ساتھ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اگلی بار اس والے ریسٹورنٹ میں نہیں جائیں گے۔
ایبڈکشن کا طریقہ ڈاکٹر مرض کی تشخیص کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور عدالتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم سب اسے روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ صرف یہ کہ اس بارے میں احتیاط کرنی چاہیے اور اس کی حد کا معلوم ہونے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاہم، سوشل میڈیا کے مباحث کے برعکس فلسفی بحث میں کسی آرگومنٹ کو رد کرنے کی وجہ یہ نہیں دے سکتے کہ انہیں نتیجہ پسند نہیں آ رہا۔ بحث کے شرکاء کو دوسرے سے غیرمتفق ہونے کے لئے وجہ دینی پڑتی ہے۔ یا قائل ہو جائیں یا پھر کاونٹر آرگومنٹ دیں۔
اور اس طریقے سے آئیڈیاز کا تبادلہ مکالمے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ سقراط کا دیا گیا یہ طریقہ معلومات کے تبادلے کا سقراطی طریقہ کہلاتا ہے۔ (اس کا برعکس یکطرفہ انفارمیشن لے لینا ہے)۔ سقراط کے خیال میں مکالمہ سیکھنے کا اور سچ تک پہنچنے کا بہترین طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر نوٹ کرنے کی بات یہ کہ فلسفی سقراطی طریقے کو جیت یا ہار کا طریقہ نہیں سمجھتے۔ یہ ایک مشق ہے جو شرکاء کو سچ کے قریب لانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
فلسفی کا مقصد جیتنا نہیں ہے بلکہ سچ تک پہنچنے کی کوشش ہے۔ اس لئے اس بارے میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اگر کوئی آپ کے آرگومنٹ کے جواب میں ایسا کاونٹر آرگومنٹ دے جس کا آپ جواب نہ دے پائیں۔ اگر ایسا ہو تو ایک اچھا فلسفی ایسا کاونٹر پیش کرنے والے کا شکرگزار ہو گا کہ اس نے کسی غلط خیال کو مسترد کرنے میں مدد کی۔