فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا
خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا
مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے
میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا
وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع
اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا
مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا
کُھلا وہ شخص، غرض کا سلام کرتا رہا
بہُت کنِیزیں مُیسّر ہیں حرف حلقے میں
بہت سے لفظوں کو اپنا غُلام کرتا رہا
طلب تھی جِس کے لیئے ہر گھڑی مسرّت کی
مِری خُوشی کو وہ غم اِنضمام کرتا رہا
پڑا جو وقت، مُعلّق تھا میں خلاؤں میں
گُمان کو در و دِیوار و بام کرتا رہا
کبِھی جو چین کے لمحے مُجھے نصِیب ھُوئے
یقِین رکھنا وہ سب اُس کے نام کرتا رہا
جو آدمی کی نفِی، اِختلاف اُن سے ہے
جو مُعترِف، سو میں اِحترام کرتا رہا
کہا تھا اُس کو مِرے ساتھ دِن کا کھانا ہے
وہ کھا چُکا، میں یہاں اِہتمام کرتا رہا
رشیدؔ کیسے بلاؤں سے بچ کے نِکلوں گا
جو قید رکھنی تھیں خُود بے لگام کرتا رہا