میں جان گیا تھا کہ صبا اسماعیل ایک فیک آئی ڈی ہے لیکن میں اسے ان فرینڈ تک کرنے کو تیار نہیں تھا چہ جائیکہ بلاک کرتا۔ کچھ نشے اپنا جواز بھی ساتھ ہی لاتے ہیں اور ہوتے ہوتے جواز کے مرہون منت ہی نہیں رہتے۔
صبا کی فرینڈز ریکوئیسٹ آنے پر میں نے کئی مشترک دوستوں کے فہرست میں ہونے کی وجہ سے اسے ایڈ کر لیا۔ اونٹ اور خیمہ کا قصہ یہاں منطبق نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بدو اونٹ اور خیمہ سب خلط ملط ہو گیا۔ ہم قریب اور پھر قریب سے قریب تر آتے چلے گئے۔
مجھے شروع ہی سے شک تھا کہ وہ فیک ہے لیکن اس کی باتیں انتہائی پر مغز، دلچسپ اور دلفریب ہوتی تھیں۔ میں عموماً ان باکس گپ شپ کرنا پسند نہیں کرتا۔ نچلے درمیانہ طبقہ کا فرد ہونے کے باعث مجھے اپنے خاندان کو ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے سر توڑ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اپنے سب شغل میلوں کے باوجود میں ایک ذمہ دار انسان ہوں۔ میری شخصیت میں یہ تضاد نہیں، تنوع ہے۔ جیسے ایک بوگن ویلیا کو پیوند لگا کر آپ چار رنگ کے پھول کھلاسکتے ہیں۔ اس سے نہ تو اس پودے کی اصلیت میں کوئی فرق آتا ہے اور نہ ماہیت میں۔ بس تنوع آ جاتا ہے جو خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔ میرے بیوی بچوں کو میرے شوق گراں نہیں گزرتے کیونکہ میں اپنے شوق اپنی ذمہ داریاں قربان کر کے پورا نہیں کرتا۔ میں ایک ذمہ دار شوہر، باپ، بیٹا، دوست اور پھر بھی من موجی اور خوش باش انسان ہوں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی کہ میں عموماً ان باکس گپیں نہیں ہانکتا۔ خود تو میں لوگوں کے پیچھے جاتا ہی نہیں اور اگر کوئی ان باکس آ جائے تو بہت ضروری اور سنجیدہ جواب دے کر فارغ ہو جاتا ہوں۔ خواتین کے سلسلے میں اور بھی زیادہ محتاط ہوں۔ میں زندگی بھر لڑکیوں کے پیچھے خوار نہیں ہوا اور اکثر میرا رویہ بے نیازی جیسا رہا ہے۔ بہرحال میں نا شائستہ اور نا خوشگوار بھی کبھی نہیں رہا۔ یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ مجھے غیر سنجیدہ انسان نہ سمجھ لیا جائے۔
صبا کے ساتھ میرا رویہ اور معاملہ شروع ہی سے ایک منفرد رنگ اختیار کر گیا۔ وہ عام نہیں تھی، کچھ مختلف سی تھی۔ صبا ان باکس، کئی اور لوگوں کی طرح، میرے اشعار کی تعریف کرتی ہوئی آئی تھی لیکن اس کی تعریف میں ناپختگی اور کچا پن نہیں تھا۔ وہ میرے کلام کی روح تک پہنچ کر اس تکنیکی یا معنوی خوبی کی تعریف کرتی جو بالکل حقیقی ہوتی۔ صبا میرے شعر کے مماثل اساتذہ یا معاصر شعرا کا کلام لا رکھتی تو میں اندر ہی اندر اس کی وسعت مطالعہ اور سخن شناسی کا مداح ہو جاتا۔ کسی بھی تخلیق کار کے لیے سب سے بڑا خراجِ عقیدت اس کی بات کو پوری گہرائی سے سمجھ لینا ہوتا ہے اور اگر اس فہم و ادراک کو مناسب بیانیہ بھی مل جائے تو اور کیا چاہیے۔ یہاں تو سونے پر سہاگا یہ کہ سمجھنے، بتانے والی ہستی بظاہر خاتون بھی تھی اور میں بہرحال ایک مرد تھا۔
مجھے تسلیم کرنا ہو گا کہ صبا کی تعریف مجھے بہت مطمئن اور مسرور کرتی۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ صبا نہ صرف تعریف کرتی بلکہ میرے کلام پر تنقید بھی کرتی اور اصلاحی تجاویز بھی دیتی۔ ہم ہر موضوع اور ہر مسئلہ پر بات کر لیتے۔ آہستہ آہستہ یہ موضوعات پھیلتے چلے گئے۔ سنا ہے لوگ ان باکس جنس پر باتیں کرتے ہیں جو “سیکس چیٹ” کہلاتی ہیں۔ ہم جنس پر بات کرنے سے کبھی نہیں کترائے لیکن یہ بات سنجیدہ اور پر مغز ہوتی۔ مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ اس گفتگو کا مقصد سستا تلذذ ہے۔ بس دو ذمہ دار اور باعلم افراد سنجیدگی سے گفتگو کر رہے ہوتے۔ کبھی کبھار اس موضوع پر شستہ اور شگفتہ ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ بھی ہو جاتی جو بھلی لگتی۔
نہ کبھی صبا نے مجھ سے “میری دوستوں” کے بارے میں سوال کیے نہ میں نے اس “کے دوستوں” کے بارے میں پوچھا۔ یہ بہرحال طے تھا کہ ہم معمولی اور عام انسان ہیں سو بشری تقاضے اور کوتاہیاں ہو سکتی ہیں اور ان کی اہمیت بس اتنی ہی ہونی چاہیے۔
کئی بار میں نے سوچا کہ اسے کہہ دوں کہ وہ فیک ہے لیکن پھر سوچا مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کی باتیں نسوانیت کے وہ سر بستہ راز بے نقاب کرتی ہیں جو صد فی صد حقیقی ہیں۔ وہ نسوانی محسوسات اور کیفیات نفیس ترین اور حساس ترین نزاکتوں کے ساتھ بیان کرتی۔ میری زندگی مجرد تو نہیں گزری نا، سو میں صنف نازک کے بہت سے حساس اور نازک معاملات سے آگاہ ہوں۔ صبا کے ساتھ گفتگو میں جب بھی ایسا کوئی موضوع یا مسئلہ زیر بحث آیا (میں اس کے لیے تانیثی صیغہ ہی استعمال کروں گا کیونکہ مجھے یہی اچھا لگتا ہے) صبا اس بحث اور بیانیہ کو ان بلندیوں اور گہرائیوں تک لے گئی جو میرے تب تک کے مطالعہ اور مشاہدہ سے کہیں آگے تھیں۔ میں نے بھی اسے کچھ نہ کچھ سکھایا ہو گا لیکن اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔
میں نے بارہا سوچا کہ وہ اپنے خاتون ہونے پر کیوں بضد ہے اور کیوں میرے ساتھ ایک مرد بن کر، کھُل کر، سامنے آ کر بات نہیں کرتی لیکن کوئی حتمی توجیہہ سامنے نہ آ سکی۔ بعض اوقات میرا یہ یقین کہ وہ خاتون نہیں مرد ہے متزلزل ہو جاتا لیکن پھر میری چھٹی حس اور میرا فہمی ادراک مجھے متنبہ کرتے کہ صبا مرد ہی ہے، عورت ہو ہی نہیں سکتی۔ اب میرے پاس کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیں تھا بس میرا دل، میرا دماغ اس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ صبا کوئی مرد ہے عورت نہیں۔
میں نے متعدد بار فون پر بات کرنے یا کھانے، چائے پر مل بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن اڑھائی سال کے تعلق میں صبا نے کبھی اس معاملہ میں ذرا سی بھی لچک نہیں دکھائی اور ہمیشہ مجھے شروع دنوں کا معاہدہ یاد دلایا کہ ہم کبھی بھی ٹیلی فون پر بات یا بالمشافہ ملاقات پر اصرار نہیں کریں گے۔ اس سارے عرصے میں لکھی ہوئی مکالمہ بازی میں ایک بار بھی صبا سے اپنے لیے مذکر صیغہ استعمال کرنے کی غلطی نہیں ہوئی۔ پھر بھی میرا دل یہ کبھی نہیں مانا کہ صبا کوئی عورت ہے۔
چند دن قبل میرے ایک عالم فاضل دوست نے معمول کے مباحثہ میں، زور دے کر، یہ بات پھر کہی کہ ہر مرد میں ایک عورت اور ہر عورت میں ایک مرد موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد چاہے کتنا بھی مضبوط، کھردرا اور وحشی کیوں نہ ہو اس کا ایک حصہ، کہیں نہ کہیں، چھپا ہوا، دبا ہوا، اوجھل نسوانیت کی نمائندگی کرتا ہوا ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت چاہے کیسی بھی نازک اندام اور چھوئی موئی فطرت کی مالک کیوں نہ ہو اپنے اندر کہیں نہ کہیں ایک مرد چھپا کر بیٹھی ہوتی ہے۔
اس بات نے مجھے پھر گہرے تدبر اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں نے اس موضوع پر گھنٹوں سوچا ہے اور اپنے اندر دور تک جھانکنے کی کوشش کی ہے۔
مجھے یہ بات بڑی دلچسپ، معنی خیز اور پیچیدہ لگی ہے۔ میں اس بیانیہ کو ہر ممکن حد تک ذاتی تجربہ بنا کر کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنا چاہتا ہوں۔
میں نے اپنی فیک آئی ڈی کا نام سیمیں شہاب رکھا ہے۔
٭٭٭