زوہا کو گھر چھوڑنے کے بعد داور ڈیرے پر چلا گیا تھا۔ اس کا ماتحت خاص اسکے پاس آیا۔
” وہ جی حضور ایک بات کرنی تھی آپ سے۔ ”
اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے اجازت چاہی۔
” ہاں بولو کیا بات کرنی ہے۔ جو کام تمہیں دیا تھا وہ پورا ہوگیا؟ ”
داور نے پوچھا۔
” سائیں پتا تو چل گیا ہے جی پر چھوٹا منہ بڑی بات ہوجائے گی۔ ”
” تم بے فکر ہو کر بتائو کہ کیا خبر ملی ہے تمہیں۔ ”
” وہ سائیں۔ ”
ملازم ہچکچایا۔
” پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہو۔ صاف بات کرو۔ ”
اس بار داور نے سخت لہجہ اپنایا۔
” سائیں فائز کو اور کسی نے نہیں بلکہ بڑے سائیں نے اغوا کروایا تھا۔ ”
” یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔ ہوش میں تو تم۔ پتا بھی ہے تمہیں کہ کیا بول رہے ہو؟ ”
داور غصے سے غضب ناک ہو کر دھاڑا۔
” س۔سائیں معاف کردیں۔ مجھے یہی خبر ملی تھی۔ ”
ملازم نے گھبرا کر ہاتھ جوڑے۔
” پر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ بابا سائیں ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ تم دوبارہ تحقیق کروائو۔ ”
” سائیں خبر پکی ہے۔ میں نے ہر طرح سے تسلی کروائی ہے۔ ”
” سوچ لو۔ ایک بار پھر۔ اگر جو یہ خبر جھوٹ نکلی تو تمہارا وہ حشر کرونگا کہ تم سوچ نہیں سکتے۔ اب کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو میرا جائو یہاں سے۔ ”
داور نے وارن کرنے والے انداز میں کہا۔
” بابا سائیں! اگر آپ نے ایسا کیا ہوگا تو زوہا کو میں کیا منہ دکھائوں گا۔ ”
داور خود کلامی کے انداز میں بولا۔
” زوہا بھی یہی بول رہی تھی کہ فائز کو میں نے اغواء کیا ہے تو اس کا مطلب۔۔۔ نہیں پر کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے مجھے ساری بات جاننی ہوگی اوفر سب کچھ مجھے زوہا ہی بتا سکتی ہے۔ ”
یہ سوچ کر وہ فورا گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا گھر آنے کے بعد گلزار بیگم کو سلام کرکے اپنے کمرے میں آگئی اور تب سے اب تک وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ ابھی وہ رونے میں ہی مصروف تھی کہ یکدم زور سے دروازہ کھلا اور داور اندر داخل ہوا۔
اسے دیکھ زوہا کھڑی ہوگئی اور اس پر ایک زخمی نگاہ ڈال کر وہاں سے جانے لگی۔ داور نے اسکی کلائی تھام کر اسے جانے سے روکا۔
” یہ کیا بدتمیزی ہے ہاتھ چھوڑیں میرا۔ ”
داور بغیر کوئی جواب دیئے اسے کھینچ کر صوفے تک لایا اور اسکے کندھوں پر دبائو ڈالتے ہوئے اسے صوفے پر بٹھایا۔ اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔
” پلیز کچھ دیر کے لیے غصہ چھوڑ کر میری بات غور سے سن لو۔ یہ بات اس وقت کلیئر ہونا بہت ضروری ہے۔ ہماری زندگی جڑی ہے اس سے۔ اس لیے کچھ وقت کے لیے غصہ چھوڑ کر مجھے کچھ باتوں کے جواب دے دو۔ ”
” کن باتوں کے جواب چاہیئے آپ کو مجھ سے؟ ”
زوہا نے پوچھا۔
” تم مجھے ا سے ے تک وہ سارے واقعات معمولی یا غیر معمولی جو ہمارے رشتہ ہونے سے شادی تک ہوئے ہوں مجھے بتائو۔ ”
” آپ ہی نے تو سب کچھ کیا تھا اور اب آپ ہی پوچھ رہے ہیں۔ ”
” اگر میں جانتا ہوتا تو تم سے پوچھتا کیوں۔ ”
داور کو غصہ آگیا پر اس نے غصہ دبا کر دھیمی آواز میں کہا۔
” انجان بننے کی اداکاری تو خوب کررہے۔ ”
وہ اسکے غصے کو خاطر میں لائے بغیر بولی۔
” پاگل ہو تم۔ یہاں میں اپنی بے خبری پر پاگل ہورہا ہوں اور تمہیں اداکاری لگ رہی ہے۔ ”
اب کی بار وہ خود پر قابو ناں رکھ سکا اور چلایا۔
زوہا کی ڈر سے ہچکی نکلی۔
زوہا کو ڈرتے دیکھ کر داور سمجھ گیا کہ نرمی سے وہ کچھ نہیں بتائے گی اس لیے اپنا لہجہ سخت بناتے ہوئے بولا۔
” اب تم ایک بھی فضول سوال پوچھے بغیر مجھے سب سچ بتائو گی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ ”
اس کے بعد زوہا نے روتے روتے اسے سب بتانا شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ سنتا جا رہا تھا اسے لگ رہا تھا جیسے اسکے ارد گرد دھماکے ہورہے ہوں۔
پوری بات بتاتے بتاتے زوہا کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ داور کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے۔ اسکی وجہ سے کسی کہ زندگی میں اتنا بڑا طوفان آگیا تھا اور اسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔
زوہا وہاں سے چلی گئی تھی اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی ہی دیر وہ وہاں سر پکڑ کر بیٹھا رہا۔ پھر اس نے بابا جان سے بات کرنے کا سوچ کر ان کے کمرے میں آیا۔
” اماں سائیں! بابا سائیں کدھر ہیں؟ ”
اس نے گلزار بیگم سے پوچھا۔
” وہ تو ڈیرے کی طرف گئے ہیں۔ سب خیریت تم کیوں اتنے پریشان ہو۔ سب ٹھیک تو ہے۔ ”
آخر ماں تھیں بیٹے کی پریشانی ایک نظر میں بھانپ گئیں۔
” نہیں سب خیریت ہے۔ کچھ کاروبار کے متعلق بات کرنی تھی۔ میں وہیں مل لیتا ہوں ان سے جاکر۔ ”
یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔
ڈیرے پر پہنچ کر وہ سیدھا صفدر صاحب کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے گاوں والوں کے مسائل سن رہے تھے۔
” بابا سائیں مجھے آپ سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔ ”
” ہاں آئو۔ بولو کیا بات ہے۔ ”
انہوں نے وہاں بیٹھے لوگوں اور اپنے ملازمین کو جانے کا اشارہ کیا اور داور سے پوچھا۔
” بابا سائیں آپ نے اظہار صاحب کو زوہا کی مجھ سے شادی کے لئے کیسے منایا تھا۔ ”
داور نے اپنے لہجے کو سرسری رکھتے ہوئے استفسار کیا۔
صفدر صاحب اسکی بات سن کر چونکے پر ظاہر کیے بغیر بولے۔
” منانا کیا تھا۔ اپنے جس بھتیجے سے وہ زوہا کا نکاح کروا رہے تھے وہ عین نکاح والے دن گھر سے بھاگ گیا تھا تو انہوں نے خود مجھسے تمہاری اور زوہا کی شادی کی بات کی تھی۔ ”
” فائز بھاگا تھا یا آپ نے اسے اغواء کروایا تھا۔ ”
صفدر صاحب اسکی بات سن کر حیران رہ گئے پر پھر اپنے لہجے کو سخت بناتے ہوئے بولے۔
” تم اپنے باپ پر الزام لگا رہے ہو۔ ”
” بابا سائیں! بس اب اور نہیں۔ مجھے سچ جاننا ہے۔ ورنہ میں پاگل ہو جائونگا۔ ”
وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے بولا۔
” ہاں میں نے ہی کروایا تھا اغواء۔ کیونکہ میں اپنے جوان بیٹے کو تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ بیٹا جس کو میں نے خراش تک نہیں آنے دی تھی اسے یوں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ ”
” پر بابا سائیں آپ نے اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے کتنی زندگیاں برباد کی پر پھر بھی آپ کا بیٹا خوش نہیں ہے۔ زوہا نفرت کرتی ہے مجھسے۔ اس سب کا ذمہ دار مجھے سمجھتی ہے۔ ”
داور ہارے ہوئے لہجے میں بول کر نیچے بیٹھ گیا۔
صفدر صاحب اسکی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھے۔
” میرے بیٹے تو پریشان مت ہو میں ثابت کرونگا تیری بے گناہی۔ میں زوہا کو سب بتادوںگا۔ ”
وہ اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے ہوئے بولے۔
” نہیں اب آپ کچھ نہیں کریں گے۔ اب جو کروں گا وہ میں کروں گا۔ کھائیں میری قسم آپ کسی کو کچھ نہیں کہیں گے زوہا سے یا کسی سے بھی۔ ”
وہ انکا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے بولا۔
” پر داور۔ ”
” نہیں اب کچھ نہیں۔ اگر اپنے بیٹے کی زندگی چاہتے ہیں تو کھائیں قسم۔ ”
داور قطعی انداز میں بولا۔
” ٹھیک ہے۔ تمہاری قسم میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔ ”
صفدر صاحب ہار مانتے ہوئے بولے۔
” ٹھیک ہے اب آپ جائیں یہاں سے۔ ”
” تم بھی چلو ساتھ۔ ”
” پلیز بابا سائیں! آپ جائیں۔ میں اسوقت کسی کا بھی سامنا کرنے کی حالت میں نہیں ہوں۔ میرے اعصاب تھک چکے ہیں۔ میں کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ جب کچھ سنبھل جاوں گا تو آجائوں گا گھر۔ اور پلیز یہاں کوئی نہیں آئے سارے ملازمین کو منع کرکے جائیگا۔ ”
صفدر صاحب اسے نا مانتے دیکھ کر وہاں سے چلے گئے۔ وہ پوری رات داور نے وہاں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر گزاری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا کی صبح فجر کی اذان سن کر آنکھ کھلی تو اس نے صوفے کی طرف دیکھا تو داور کو نا پا کر خود کلامی کے انداز میں بولی۔
” یہ کیا پوری رات گھر نہیں آئے۔ خیر مجھے کیا ان جاگیر داروں کے لیے راتیں باہر گزارنا تو عام سی بات ہے۔ ”
پھر وہ وضو کے لئے واشروم کی جانب چل دی۔
ابھی وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ داور کمرے عجلت میں داخل ہوا اور بولا۔
” جلدی سے تیار ہو جائو۔ ہمیں کہیں جانا ہے۔ ”
” مجھے کہیں نہیں جانا آپ کے ساتھ۔ ”
” بے فکر ہوجائو۔ یہ آخری بار تمہیں کہیں لے کر جارہا ہوں۔ اسکے بعد کبھی پریشان نہیں کرونگا۔ اسی لیے بغیر کوئی سوال کئے تیار ہوجائو۔ ”
زوہا اسکی بات سن کر حیرانگی سے اس کو دیکھنے لگی۔ پھر کچھ سوچ کر تیار ہونے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور پورے راستے خاموشی سے ایک ہاتھ کی مٹھی بناکر منہ پہ رکھے ڈرائیو کررہا تھا۔ زوہا نے بھی کوئی بات نہیں کی۔
وہ اپنے خیالوں میں مگن تھی کہ گاڑی اس کے گھر کے سامنے رکی۔ اس نے چونک کر داور کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ابھی وہ کچھ بولنا ہی چاہتی تھی کہ داور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور دوسری طرف آکر زوہا کی طرف کا دروازہ کھولا۔
” اترو۔ ”
یہ ایک لفظ بول کر وہ اسکے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔
زوہا نا سمجھی سے اسکی طرف دیکھتی گاڑی سے اتری۔ پھر آگے پیچھے دونوں گھر میں داخل ہوئے۔
اظہار صاحب جو آفس جانے کے لیے نکل رہے تھے ان دونوں کی اتنی صبح دیکھ کر حیران رہ گئے۔
” خیریت تم لوگ اتنی صبح۔ ”
انہوں نے داور سے ملتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں کچھ ضروری بات کرنی تھی آپ سے۔ ”
” ایسی کیا بات ہے جسے کرنے کے لیے تمہیں اتنی صبح آنا پڑا۔ سب ٹھیک تو ہے ناں۔ ”
” جی سب ٹھیک ہے آپ آنٹی اور انوار انکل کی فیملی کو بھی بلالیں۔ ”
” ٹھیک ہے داور تم ڈرائنگ روم میں بیٹھو میں انوار بھائی کو بلاتا ہوں۔ زوہا تم اپنی ماں کو بلا لو۔ ”
تھوڑی دیر بعد سب کمرے میں موجود تھے اور داور کے بولنے کے منتظر تھے۔
” میں آج آپ لوگوں کے سامنے کچھ رازوں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ ”
پھر وہ ساری بات سچ بتاتا گیا خود کو بے گناہ ثابت کیے بنا۔ اس نے کل کی پوری رات سوچا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ اپنے باپ کو شرمندہ نہیں کروائے گا اور اس نے سارا الزام اپنے سر لے لیا کہ صفدر صاحب نے اس کے مجبور کرنے پر ہی یہ سب کچھ کیا تھا۔
پر اس نے اپنی محبت کا حق ادا کردیا تھا اس نے زوہا کو بے گناہ ثابت کردیا تھا۔
اظہار صاحب بالکل خاموش بیٹھے تھے وہ داور کو کیا کہتے جب انہوں نے ہی اپنے خون پر اعتبار نہیں کیا تھا۔ فائز کا بھی سر جھکا ہوا تھا۔
” اب اگلا فیصلہ زوہا کا ہوگا۔ وہ جب چاہے گی میں اسے آزاد کر دونگا۔ ”
داور نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ اپنے منہ سے نکالے اور یہ کہہ کر وہ رکا نہیں اور اٹھ کر چلا گیا۔
” بابا اب تو آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں ناں۔ ”
زوہا اظہار صاحب سے بولی۔
اظہار صاحب نے اسکو گلے لگا لیا اور بولے۔
” ناراض کیا ہونا بلکہ میں تو تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ بیٹیاں باپ سے صرف اعتبار ہی تو چاہتی ہیں اور میں تو اپنی بیٹی کو اعتبار بھی نہ دے سکا۔ مجھے معاف کردے۔ ”
” نہیں بابا آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں۔ اس وقت جیسے حالات تھے آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا وہ یہی کرتا۔ ”
آخر کو تھی تو وہ ایک بیٹی ہی ناں اور بیٹی کب اپنے باپ کو شرمندہ دیکھ سکتی ہے۔
اظہار صاحب نے اسکا ماتھا چوم لیا۔
انوار صاحب اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلے گئے۔
عائلہ بیگم مارے شرمندگی کے کچھ ناں بول پائی اور اٹھ کر چلی گئیں۔
فائز بولا تو فقط اتنا۔
” زوہا ہو سکے تو مجھے معاف کردینا۔ ”
پھر وہ بھی چلاگیا۔
پیچھے وہ تینوں رہ گئے۔ زوہا نے جب اپنے باپ کو شرمندہ دیکھا تو بولی۔
” بس اب پرانی باتوں کو کوئی یاد نہیں کریگا۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔ سب کچھ ایک برا خواب سمجھ کر بھول جائیں۔ اور بابا آج آپ آفس نہیں جائیں گے بلکہ آج پورا دن میرے ساتھ گزاریں گے۔ اور اذان کالج سے آجائے تو ہم سب باہر چلیں گے۔ کیوں مماں۔ ”
وہ نسرین بیگم کے گلے میں بانہیں ڈالتی ہوئی بولی۔
” ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ”
وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی بولیں۔
” ہاں آج کا پورا دن میں اپنی بیٹی کے ساتھ گزاروں گا۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور ٹوٹی بکھری ہوئی حالت میں گھر میں داخل ہوا۔ گلزار بیگم کو جب سے ملازمہ نے داور اور زوہا کے جانے کا بتایا تھا وہ پریشان سی ٹہل کر انکا انتظار کررہی تھیں۔ داور کو دیکھ کر اسکی جانب بڑھی۔ اسکی حد درجہ سرخ آنکھیں دیکھ کر دہل گئیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔
” داور سب ٹھیک تو ہے میرے بچے۔ اور زوہا کو کہاں چھوڑ آئے؟ ”
” اماں سائیں۔ بس اتنا جان لیں اپنی محبت کا حق ادا کرکے آیا ہوں اسے سب کی نظروں میں سرخرو کرکے آیا ہوں۔ اور اپنی زندگی ہار آیا ہوں۔ ”
وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔
” داور کھل کر بتائو کیا بول رہے ہو۔ میرا دل پھٹ جائے گا۔ ”
” اماں سائیں! ابھی کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دیں۔ مت پوچھیں مجھ سے کچھ ورنہ میں ٹوٹ جائوں گا۔ مجھے سنبھلنے دیں۔ ”
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
وہ صفدر صاحب کو بتانے کے ارادے سے اندر کی جانب بڑھ گئیں۔
” پلیز داور کو دیکھیں ناں اسے کیا ہوگیا ہے وہ زوہا کو بھی کہیں چھوڑ آیا ہے۔ ”
” کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ چھوڑ کر آیا ہوگا اسکے میکے۔ تم پریشان مت ہو۔ ”
” پر صفدر صاحب۔ ”
” کچھ نہیں ہے تم بلاوجہ پریشان ہو رہی ہو۔ جائو میرے لیے ناشتہ بنوائو۔ ”
پریشان تو وہ بھی ہوگئے تھے۔ پر انہوں نے اپنے پریشانی ظاہر نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور کمرے میں لیٹا ہوا تھا کہ دروازہ بجا۔
” کون ہے۔ ”
داور نے لیٹے لیٹے ہی پوچھا۔
” وہ چھوٹے سائیں! بیگم سائیں آپ کو کھانے پر بلا رہی ہیں۔ ”
” ٹھیک ہے آرہا ہوں۔ ”
تھوڑی دیرکے بعد داور کھانے کی میز پر آیا۔
” مجھے آپ لوگوں سے کچھ بات کرنی ہے۔ ”
” پہلے کھانا کھا لو پھر کرتے ہیں بات۔ ”
صفدر صاحب کے کہنے پر سب کھانے میں مشغول ہوگئے۔
” داور بیٹا ٹھیک سے کھائو ناں۔ ”
گلزار بیگم نے داور کو کھانا بے دلی سے کھاتے دیکھ کر ٹوکا۔
” بس اماں سائیں مجھے کچھ خاص بھوک نہیں۔ ”
” داور کیا بات ہے؟ ”
گلزار بیگم نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھ کر پوچھا۔
” بابا سائیں! اماں سائیں! میں نے ملک سے باہر جانے کا سوچ لیا ہے۔ اگلے ہفتے تک میں ملک سے باہر چلا جائونگا۔ ”
داور نے وہاں موجود سب افراد کے سروں پر دھماکہ کیا۔
” داور یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔ اسطرح تم ہمیں چھوڑ کر کیسے جاسکتے ہو۔ ”
گلزار بیگم نے روتے ہوئے کہا۔
” اماں سائیں میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا رہا بلکہ مجھے وہاں ایک اچھی جاب کی آفر ہوئی ہے۔ ”
” ایسا کیا ہے اس نوکری میں جو تم چند پیسوں کے لئے اپنا سارا عیش و عشرت چھوڑ کر جارہے ہو۔ تمہیں کیا ضرورت ہے نوکری کی۔ منع کردو تم کہیں نہیں جارہے ہو۔ ”
صفدر صاحب جانتے تھے کہ وہ کس وجہ سے جارہا ہے۔ پر انہوں نے گلزار بیگم اور مشعل پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔
” بابا سائیں معاف کیجیئے گا۔ پر میں فیصلہ کر چکا ہوں اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے جسے میں نہیں بدلوں گا۔”
داور نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
” پر بھائی ہم کیسے رہیں گے آپ کے بنا۔ آپ تو جانتے ہیں ہمیں آپ کے بغیر رہنے کی عادت نہیں۔ ”
مشعل نے بھی روتے ہوئے اس کے فیصلے سے باز رکھنا چاہا۔
پر داور فیصلہ کر چکا تھا۔
” ارے تو تمہیں جب میری یاد آئے مجھے فون کرلینا۔ بلکہ میں خود اپنی گڑیا بہن کو روز فون کرونگا۔ ”
وہ اسے خود سے لگاتے ہوئے بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا بہت خوش تھی اپنے گھر واپس آکر، اپنے ماں باپ کا پیار دوبارہ سے حاصل کرکے۔
” زوہا پھر تم نے کیا سوچا ہے داور کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں۔ ”
وہ سب ساتھ بیٹھے باتوں میں مشغول تھے جب نسرین بیگم نے زوہا سے پوچھا۔
” مماں میں اس انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جسے میری عزت کی پرواہ ناں ہو۔ جو اپنی ضد پوری کرنے کے لیے کسے بھی حد تک جاسکتا ہے۔ مجھے بدنام کرسکتا ہے مجھے میرے ماں باپ کی نظروں سے گرا سکتا ہے۔ ”
” پر زوہا کچھ بھی ہو جائے اب شوہر ہے تمہارا۔ ایک موقع دے کر دیکھ لو اسے۔ ”
نسرین بیگم جانتی تھی کہ ایک طلاق یافتہ عورت کا معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے۔
بھلے ہی داور نے اسے بےگناہ ثابت کردیا تھا۔ پر دنیا میں جو بدنامی ہو چکی تھی اس کے بعد اگر طلاق ہو جائے گی تو زوہا کا جینا اور مشکل کردیں گے لوگ۔
” بس بیگم اب آپ کچھ نہیں کہیں زوہا جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہوگا۔ ”
اظہار صاحب نے زوہا کی طرف داری کی۔
” آپ تو سمجھدار ہیں۔ آپ بھی اسکے ساتھ مل کر بچوں جیسی باتیں کررہے ہیں۔ ”
نسرین بیگم ناراضی سے گویا ہوئیں۔
” بس اب اور کوئی بات نہیں۔ اب وہی ہوگا جو میری بیٹی چاہے گی۔ پہلے ہی ہم اسکے ساتھ بہت برا کر چکے ہیں۔ اب مزید نہیں۔ ”
اظہار صاحب نسرین بیگم کی ناراضگی کو خاطر میں لائے بغیر بولے۔
نسرین بیگم نا چاہتے ہوئے بھی خاموش رہنے پر مجبور تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور کے جانے کی ساری تیاریاں مکمل ہوگئی تھیں۔ آج شام پانچ بجے کی اسکی امریکہ کی فلائٹ تھی۔ ابھی دن کو بارہ بج رہے تھے کہ صفدر صاحب اسکے کمرے میں آئے۔
” داور میں ایک بار پھر بولتا ہوں مت جائو۔ ”
وہ شکستہ سے لہجے میں بولے۔
ان کے انداز پر داور کو افسوس تو ہوا پر وہ اگر یہاں رکتا تو زوہا سے دور نہیں رہ پاتا۔ اسی لیے وہ دل کو مضبوط کرکے بولا۔
” بابا سائیں مجھے معاف کر دیجیئے گا۔ پر آپکی یہ بات ماننا میرے بس میں نہیں۔ ”
” معافی تو مجھے تم سے مانگنی چاہیئے۔ میں تمہاری زندگی سنوارنے کے لئے غلط راستہ اپناتا تمہاری زندگی برباد کر گیا۔ ”
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔
داور نے تڑپ کے انکے بندھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور انہیں چومتے ہوئے بولا۔
” بابا سائیں کیوں آپ ایسا کرکے مجھے گنہگار کر رہے ہیں۔ مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں۔ آپ نے جو کیا میری محبت میں کیا۔ یہ تو میری قسمت ہی خراب تھی۔ اس میں آپ کا
کوئی قصور نہیں۔ ”
صفدر صاحب نے اس کی بات سن کر اسے زور سے خود میں بھینچ لیا۔
کافی دیر گلے لگے رہنے کے بعد داور ان سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔
” زوہا کی طرف سے پیپرز آئے تو وہ مجھے بھجوا دیجئے گا۔ ”
داور نظریں چراتا ہوا بولا۔
” میں ایک بار پھر کہوں گا کہ سوچ لو۔ ”
” بابا سائیں اب سوچنے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔ ”
” چلیں۔ اماں سائیں کے پاس چلیں۔ میرا بھی جانے کا ٹائم ہورہا ہے۔ ”
وہ بیگ اٹھاتا ہوا بولا اور باہر نکل گیا۔
اسکے پیچھے صفدر صاحب بھی شکستہ قدموں سے اسکے پیچھے چل دیئے۔
کھانا کھانے کے بعد داور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
” اچھا اب مجھے اجازت۔ ”
وہ گلزار بیگم کے سامنے جھکتا ہوا بولا۔
وہ جو اتنی دیر سے آنسوئوں کو پینے کی کوشش کرنے میں لگی تھیں ایک دم سے روپڑیں۔
” داور مت چھوڑ کر جائو میرے بچے۔ کس بات کی سزا دے رہے ہو تم ہمیں۔ ”
” اماں سائیں کیسی باتیں کررہیں ہیں۔ سزا کس بات کی دونگا میں آپ کو۔ چھوڑ کر نہیں جارہا۔ میں فون پر بات کرونگا آپ سے۔ ”
وہ انہیں بہلاتے ہوئے بولا۔
” اچھا اب میں چلتا ہوں۔ شہر میں ٹریفک بہت ہوتی ہے۔ اور تم گڑیا اماں سائیں اور بابا سائیں کا دیہان رکھنا۔ میں روز فون کرکے پوچھوں گا۔ ”
وہ مشعل کو گلے لگاتا ہوا بولا۔
پھر صفدر صاحب سے ملا۔
ملازم اسکا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھ چکا تھا۔
سب سے مل کر وہ باہر کی طرف چل دیا۔ چند قدم چل کر رکا اور پیچھے مڑ کر ایک الوداعی نگاہ ان پر ڈالی اور پھر تیزی سے نکلتا چلا گیا۔
وہ ایئرپورٹ بھی کسی کو ساتھ لے کر نہیں جارہا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی ساتھ ہوا تو اسکا جانا اور مشکل ہو جائے گا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی جو وہ خود پر کب سےضبط کررہا تھا اس کے آنسو بہہ نکلے۔
آخر اپنے خونی رشتوں کو چھوڑ کر جانا آسان تھوڑی ہوتا ہے۔ جن رشتوں سے وہ کبھی کچھ دن سے زیادہ دور رہا تھا۔ پتا نہیں اب انہیں کبھی دیکھ بھی پائے گا یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...