(Last Updated On: )
غلام مُرتضیٰ راہی
فیض جس کا وہ سراسر پیاسا
دھرتی سیراب، سمندر پیاسا
بسکہ موقوف ہے ہنگامے پر
پھر ہوا خون کا خنجر پیاسا
جانے کب جاگے ہمالہ کا نصیب
اوڑھ کر برف کی چادر پیاسا
اتنی چھلکاتے ہیں پینے والے
ساقی رہ جاتا ہے اکثر پیاسا
کیوں اُبال آیا نہ تجھ میں اے فرات!
تیرے در پر رہا گھر بھر پیاسا
بھائی کا خون بھی پی سکتا ہوں
ہے کوئی میرے برابر پیاسا
پار کرتے ہوئے ساگر راہیؔ
مر گیا ایک شناور پیاسا