اقبال کے بعد عوامی سطح پر سب سے زیادہ توقیر پانے والے فیض احمد فیض کے بارے میں اگر میں یہ کہہ دوں کہ وہ بہت بڑے تنقید نگار بھی تھے تو خدا لگتی کہوں کہ یہ بات قرین انصاف نہ ہوگی ۔ میں بڑی حد تک خود فیض صاحب کی اُس بات سے متفق ہوں جو انہوں نے ’’ میزان‘‘ کا دیباچہ تحریر کرتے وقت لکھ دی تھی‘ یہی کہ:
’’ ادبی مسائل پر سیر حاصل بحث کے لیے نہ کبھی فرصت میسر تھی نہ دماغ۔ ریڈیو پر اور مختلف محفلوں میں ان مسائل پر باتیں کرنے کے مواقع ملتے رہے ‘ یہ مضامین ان ہی باتوں کا مجموعہ ہیں‘ اس لیے ان میں سخن علماء سے نہیں ‘ عام پڑھنے لکھنے والوں سے ہے۔جو ادب کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ ‘‘
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:’’ بہت سی باتیں جو اس وقت(یعنی جوانی کے دنوں میں)بالکل نئی تھیں اب پامال نظر آتی ہیں اور بہت سے مسائل جو ان دنوں سادہ معلوم ہوتے تھے اب کافی پیچیدہ دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘
یاد رہے فیض نے یہ سب کچھ اپنے مضامین کے مجموعے ’’میزان‘‘ کی پہلی اشاعت کے موقع پر یعنی 1960ء میں لکھا تھا اورلکھتے ہوئے پچیس سال پہلے والی جوانی کو یاد کیا تھا ۔اس بیان کو دیکھیں تو ’’میزان‘‘ میں چھپنے والے بیشتر مضامین کا دورانیہ 1935ء کے آس پاس کا بننا چاہیے ۔ 1911ء میں پیدا ہونے والے فیض 1935ء میں عمر کے چو بیسویں سال میں تھے اور انگریزی کے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے تھے ۔ تب تک وہ جو
کا م کر چکے تھے اسے یوں گنوایا جا سکتا ہے :
٭حفظ قرآن کی کوشش‘ اور مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے عربی ‘فارسی اور اردو کی تعلیم‘ جس نے بقول فتح محمد ملک فیض کی شاعری کا لہجہ مارکسی جدلیات پر ایمان لانے کے باوصف مسلمان رکھا۔
٭شمس العلماء میرحسن ناز سے عربی فارسی میں دست گاہ‘ ایم اے نگریزی کرتے ہوئے ان کے اپنے بیان کے مطابق انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ باقی یورپی ادب اور روس کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ ۔ اور اس قدر ڈوب کر مطالعہ کہ نظروں کے سامنے روس کی پوری دنیا گھوم گئی۔
1935ء ہی وہ سال بنتا ہے جب استاد فیض نے اپنے ایک ساتھی سے کیمونسٹ مینی فیسٹو لے کر پڑھا تھا اور اتنا پسند آیا تھا کہ وہ اسے پلٹ پلٹ کر پڑھتے رہے اور ہزار جان سے اس پر فدا ہوتے رہے ۔’’مہ و سال آشنائی‘‘ میں لکھتے ہیں :’’انسان اور فطرت‘ فرد اور معاشرہ‘ معاشرہ اور طبقات‘ طبقے اور ذرائع پیداوارکی تقسیم‘ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتے ‘ معاشرے کا ارتقاء‘ انسانوں کی دنیا کے پیچ در پیچ اور تہ بہ تہ رشتے ناطے‘ قدریں ‘عقیدے فکروعمل وغیرہ وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے اس پورے خزینہء اسرار کی کنجی ہاتھ میں تھمادی ہے ‘‘
فیض کے ’’مہ و سال آشنائی ‘‘والے اس بیان کو سامنے رکھا جائے تو’’ میزان‘‘ کے دیباچے والی جوانی میں کچھ اور سال جمع کرنے پڑتے ہیں ۔ ’’میزان‘‘ کے بعض مضامین کے آخر میں درج تاریخیں ان اضافی سالوں کا تعین کر دیتی ہیں اس ضمن کا آخری سال 1961بنتا ہے ۔ گویا فیض نے یہ مضامین پچیس سے پچاس سال کے عرصے میں لکھے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ فیض کی شاعری کی جوانی کا یہی دورانیہ بنتا ہے ۔ یاد رہے اس بیچ وہ 1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام میں بھر پور حصہ لے چکے تھے فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کپتان بننے اور میجر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد 1947ء میں مستعفی ہو چکے تھے اور پھر اِن تحریروں سے واضح ہونے والے آخری سال کے قریبی عرصے میں پاکستان آرٹس کونسل لاہور کے سیکرٹری ہو گئے تھے ۔تاہم اسے بھی دھیان میں رکھنا ہو گاکہ اسی دورانئے میں ان کا شعری مجموعہ ’’دست صبا ‘‘ شائع ہو چکا تھا’’مشہور مقدمہ سازش ‘‘ اسیری اوراس کے تذکرے ’’ زنداں نامہ ‘‘کے سبب وہ بہت شہرت بھی پا چکے تھے۔
یہ سارا پس منظر نگاہ میں رکھیں گے تو ان مضامین کی تفہیم بہت سہل ہو جائے گی ۔ سہل ہونے کی بات میں نے فیض کے اپنے شخصی ہیجانات اور ترجیحات کو سمجھنے کے حوالے سے کی ہے ورنہ فیض نے اپنے سارے تنقیدی مضامین اور دیباچوں کو حد درجہ سادہ رہنے دیا ہے ‘ اتنا سادہ کہ انہیں پڑھتے ہوئے تخلیقی عمل کی اِسراریت پر جما جمایا ایمان کہیں کہیں سے اُچٹنے لگتا ہے۔ اسے جملہ معترضہ ہر گز نہ جانیے گا کہ یہ کھٹکا وہاں وہاں ہوتا ہی رہتا ہے جہاں جہاں فیض اس طرح کے بیان دیتے ہیں :’’………… ترقی پسند ادب کا پہلا اور آخری مقصد بنیادی سماجی مسائل کی طرف توجہ دلانا ہے (ان مسائل میں غالبا طبقاتی کشمکش اور دنیوی آسائشوں کی تقسیم سب سے زیادہ اہم ہیں )اور سماج میں ایسے فکری یا عملی رجحانات پیدا کرنا جن سے ان مسائل کا حل نسبتا آسان ہو جائے ‘‘ (ادب کا ترقی پسند نظریہ)
ایک ترقی پسند انہ فکر کے علم بردار کی حیثیت سے فیض کا بیان تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس تخلیقی عمل کے کیا معنی بنتے ہیں جس میں امیجز ٹھوس نہیں رہتے سیال ہو جاتے ہیں ‘نورانی سی لکیریں یا پھرمحض تصویری ہیولا بناتے ہیں۔ اوران علامتوں کا کیا کرنا ہوگا جن کے ابعاد پھیلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اندر ہی اندر ایک پیچیدہ معنیاتی نظام وضح ہونا شروع ہو جاتا ہے جو روح کے ساتھ جڑ کر باہر کے سارے مناظر کو ایسی تصویریں بنا دیتا ہے جن کی کوئی تو جیح ان عمرانی مطالبات سے نہیں جڑتی جن کا فیض صاحب نے مطالبہ کیا ہے تو کیا ایسے میں باطن کے اس ارفع تجربے کی بنیاد پر اپنے قاری کو جمالیاتی فرحت اور باطنی ارتفعاع سے ہمکنار کرنے کا سارا عمل تخلیقی سطح پر مردود ٹھہرے گا ۔
ایسے میں فیض کی کئی خوب صورت نظمیں مجھے متوجہ کرنے لگی ہیں جو ترقی پسندانہ ادب کی فراہم کی گئی تشریح کو لائق اعتنا نہ جانتے ہوئے بھی اپنے قاری کو اُس کی داخلی اور حسی پس ماندگی سے نکال کر ایک ارفع درجے کی جمالیاتی فرحت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ میں ایسی نظموں کو ادب کے اصل وظیفے کی رو سے اس ادب سے زیادہ ترقی پسندانہ سمجھتا ہوں جس میں قاری کو انگیخت کرکے ایک خاص علاقے کی طرف ہانکا جاتا ہے۔ فیض کی نظم ’’شام‘‘ ’’تنہائی ‘‘ اور ’’زنداں کی ایک صبح ‘‘ اس کی عمدہ ترین مثالیں ہیں ۔ ایسی نظموں کے ساتھ ایسی غزلوں کی طرف بھی دھیان جاتا ہے جن کے ذریعے فیض غزل کے کلاسیکی اور رومانوی رنگ کو زندہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں ہر کہیں ان کی شخصیت کے سوز و گدازاور محسوساتی شدت نے تخلیقی عمل کو ایک لطیف جمالیاتی حسیت کا حصہ بنا دیا ہے۔
ادب کی جس تنقیدی تھیوری کا چلن فیض صاحب عام کرنے جا رہے تھے اس نے فراز تک آتے آتے بہت سے شاعروں کو گمراہ کیا اور اس نے خود فیض کی شاعری کو بیک وقت دو متضاد رویوں کے مقابل بھی کردیا ۔ میں دور نہیں جاتا صرف ایک مثال سامنے رکھتا ہوں اور یہ مثال پروفیسر فتح محمد ملک کی ہے جن کے دو مضامین میرے سامنے ہیں۔ ایک میں فیض کی شاعری سے دو آوازیں برآمد کی گئی ہیں اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ فیض مشق سخن کے دور میں ہی اپنی ذات کے بنیادی تقاضوں کو سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو شاعری کے رائج الوقت اشتراکی عقائد کے سانچہ میں ڈھالنا شروع کردیا تھا۔ اور یہ کہ جوش کی طرح فیض کی بھی ایک نہیں دو شخصیتیں ہیں۔ اور بعد ازاں جب یہی بات ’’شام شہر یاراں ‘‘ کی اشاعت پر انیس ناگی نے اپنے مضمون’’بوڑھے شاعر کا المیہ‘‘ میں کہی تو دفع شر کے لیے پروفیسر ملک کا جو مضمون ’’ فیض اوربرہم نوجوان کا المیہ‘‘ سامنے آیا اس میں ان دو آوازوں کو شاعر کی اپنی زندگی اور ذات سے گرہ لگا کر ایک کر دیا گیا ۔
فیض ’’شاعر کی قدریں‘‘ میں کہتے ہیں کہ آرٹ کی قطعی اور واحد قدر صرف جمالیاتی قدر نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ شعر سے جو ہم جمالیاتی فرحت محسوس کرتے ہیں وہ شاعر ی کی دوسری قدروں سے متاثر ہوتی ہے ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاعر کا تجربہ یعنی مضمون اور اس کا پیرائیہ اظہار ایک ہی پہلو کے دو مظہر ہیں ۔فیض کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں ہے تاہم جب وہ جمالیاتی قدر کو سماجی ا قدار کاسا بنا کرافادی فعل جیسا قرار دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس افادیت سے جمالیاتی قیمت بڑھتی ہے تو لامحالہ اختلاف کی گنجائشیں نکل آتی ہیں ۔
’’ادب اور جمہور‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہوئے وہ ادیب کے ذہن کو ایسا آئینہ قرار دیتے ہیں جس میں سماجی حقیقت نگاری اور اس کا معاشرتی ماحول مجموعی طور پر منعکس ہوتا ہے ۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ادب کے بیشتر محرکات خارج میں ہوتے ہیں لیکن وہ اپنا کیمیائی عمل تو انسان کے باطن میں کرتا ہے ایسے میں ادب کا تخلیقی وجود صرف آئینہ نہیں رہتا ۔ فیض کی بات مان لی جائے تو اس دوسری عمل کی نفی ہو جاتی ہے جو خارج کو پہلے تلپٹ کرتا ہے نوچتا کھسوٹتا ہے ‘ گالتا اور پیستا ہے اور پھر اس خام مواد سے ایک نئے منظر نامے کو تخلیق کرتا ہے ۔
’’ہماری تنقیدی اصطلاحات‘‘ میں اپنے تنقیدی مسائل کی نشاندھی کی گئی ہے تشبیہ‘ استعارہ‘سلاست روانی‘بے ساختگی‘شوخی‘ظرافت‘ سوزوگداز‘تصوف‘ مضمون آفرینی ‘معاملہ بندی‘ بندش‘ قافیہ‘ صنائع و بدائع یہ وہ تنقیدی اصطلاحات ہیں جو اس مضمون میں زیر بحث آئی ہیں۔’’فنی تخلیق اور تخیل‘‘ میں فیض نے یہ ثابت کیا ہے کہ تخیل بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے ۔ ’’ خیالات کی شاعری ‘‘ والے مضمون میں وہ اطلاع دیتے ہیں کہ اردو شاعری میں بحیثیت مجموعی خیالات کا عنصر دن بدن زیادہ ہوتا جارہا ہے اور وہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس سے شاعر زیادہ سنجیدہ اور زیادہ ذمہ دار ہو چلے ہیں ۔ انہیں جذبات کی صحت پر اعتماد نہیں رہا ۔ بات جذبات اور خیالات کے متناسب امتزاج تک رہتی تو شاید نہ کھلتی۔ ’’موضوع اور طرز ادا‘‘ کے باب میں وہ لکھتے ہیں کہ اچھے ادب میں موضوع اورطرز ادا ‘ اصل میں ایک ہی شے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور ان میں دوئی کا تصور غلط ہے۔ جس امتزاج کی توقع ’’جذبات اور خیالات‘‘ کے باب میں کی جارہی تھی وہ موضوع اور طرز ادا کے حوالے سے پوری طرح موجود ہے ۔فیض بجا طور پر کہتے ہیں کہ ’’موضوع بغیر خوبیء اظہار کے ناقص اور اظہار خوبی موضوع کے بغیر بے معنی ہے ۔ ‘‘
فیض قومی تہذیب کی تشکیل کو بہت اہم گردانتے ہیں ’’پاکستانی تہذیب کا مسئلہ‘‘ ان کے نزدیک یہی ہے کہ قومی مقام کو پہچاننے میں کوتاہی ہو رہی ہے ۔ ایک اور مضمون میں ہر عہد کے نئے ادب کے بابت وہ کہتے ہیں کہ سماجی عروج وزوال کے ساتھ ساتھ زبان اور ادب کو بھی نشیب وفراز کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ۔ ان کا نقطہ نظر ہے کہ اچھے ادب کی تخلیق کے لیے اور لوازمات کی علاوہ انفرادی اور اجتماعی ہیجان کا وجود لازمی ہے ۔ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے بیشتر نئے شعراء کا بہترین کلام وہی ہے جو ان کے اوائل سخن میں سے ہے۔ یادرہے یہ وہی الزام ہے جو بعد ازاں وزیر آغا نے خو د فیض پر لگا یا تھا انہیں فیض کی ابتدائی شاعری میں تمثالوں کی تازگی ‘الفاظ‘ نیز لفظی تراکیب اور ان کا لہجہ منفرد لگا مگر بعد کی شاعری میں ان کے مطابق فیض نے کلاسیکی غزل کی امیجری اور لفظیات کا کلیشے کی صورت استعمال کیا ۔
فیض کے بارے میں یہ متضاد آراء دراصل ان کی تنقیدی معتقدات کے وسیلے سے مسلسل سامنے لائی جاتی رہی ہیں۔ معاف کیجئے کہ میں ڈاکٹر آفتاب احمد کے اس کہے کو گمراہ کن سمجھتا ہوں کہ فیض کو مکمل سمجھنے کے لیے فیض کی شعری تخلیقات کے ساتھ ساتھ ان کے تنقیدی معتقدات کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے ۔ فی الاصل معاملہ یہ ہے کہ فیض کے یہ تنقیدی مضامین ان کی شاعری کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ وہ اسرارجو خود فیض کی شاعری کو بقول کسے زبان پر تیر جانے والی بادہ ء شیراز بنا دیا تھاوہ تو فیض کے ان مضامین میں کھلتا ہی نہیں ہے تاہم ان کی لفظیات اور تراکیب کو ہی کو سب کچھ سمجھ لینے والے فکری فقروں کی گمرہی کا سامان ان میں سے خوب خوب نکلتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فیض کی شاعری کو پڑھتے ہوئے توان کے دولخت ہونے کا تاثر دھیما دھیما اُبھرتا ہے جب کہ ان کے نظریات اور ان کی تنقید پیش نگاہ ہو تو اس تاثر کو ان کی ساری شاعری پر پھیلا د ینا پڑتا ہے ۔
فیض کا اصل امتیاز اور ان کی بے پناہ مقبولیت کا سبب کچھ لو گوں کے قریب ان کی شخصیت کا گلیمر ہو تو ہو میرے نزدیک یہ ہے کہ فیض نے موضوع اور طرز ادا کا امتزاج تلاش کیا اوراپنے ادب کے ان تخلیقی وسائل کو برو ئے کار لائے جن کا تذکرہ وہ ’’ہماری تنقیدی اصطلاحات‘‘ والے مضمون میں کرتے ہیں ۔ انہوں نے قومی تہذیب کی تشکیل کی سعی بھی کی اور کلاسیکی غزل کی علامات کو اسی تہذیبی تشکیل کے لیے نئی معنویت دی یوں کہ وہ اپنی جڑوں اور روایات کے ساتھ جڑے رہے۔ فیض غالب کے طرف دار رہے اور اقبال کی روایت کو ایک سطح پر اپنایا بھی یوں دونوں کا ایک عجب امتزاج ان کے تخلیقی وجود کا حصہ ہو گیا جسے مارکسیت کا تڑکا بھی میسر تھا ۔ انہوں نے مصرعوں کو کھردرا نہیں ہونے دیا‘ وہ بہاؤ میں خوب رواں رہے اور اثر انگیزی میں انتہائی لطیف ۔ان کے مزاج کے دھیمے پن اور ایک خاص قسم کی نرگسیت نے ان کی ترقی پسندی میں آمیز ہو کر قاری کویوں متوجہ کیا کہ اسے اپنا دکھ اس میں جھلک دینے لگا اور ساتھ ہی ساتھ ایک لذت بھی اسے مسحور کرنے لگی ۔ جہاں کہیں یہ امتزاج نہیں بنا بے شک وہاں دوئی کا احساس بھی ہوا مگر وہاں بھی اسلوبیاتی خصائص نے ان کے معنیاتی رخنوں کو پاٹ دیا اور فیض کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ا نہوں نے خلق خدا کو اپنی شاعری میں یاد رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خلق خدا نے اپنی بے پناہ محبتیں ان پر نچھاور کیں ۔ ٭٭٭
’’فیض نے بچپن میں والدہ سے قرآن شریف پڑھا۔ کچھ حصہ قرآن شریف کاحفظ کیا۔ ایم اے انگریزی کیا۔ ایم اے عربی کیا۔ امرتسر کالج میں پڑھایا۔ برطانوی ہند کی فوج میں بھرتی ہوئے اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم کی منظوری سے پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز کے چیف ایڈیٹر بنے۔ بیباکانہ صحافت کے جرم میں ۱۹۴۸ء میں پہلی بار گرفتار ہوئے، مشہور راولپنڈی سازش کیس میں گرفتارہوئے۔ مجموعی طورپر تین بار گرفتارہوئے۔ فیض نے ادب کا لینن پرائز حاصل کیاجسے ’’یارلوگوں‘‘ نے ان کی شہرت سے زیادہ رسوائی کاموجب بنادیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے اولین دور حکومت میں وزیراعظم کے مشیر برائے تعلیمی و ثقافتی امور بنے۔ اسی دوران بیوروکریسی سے اختلافات کے باعث مشیر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔مارشل لاء کا تیسرا دور آیاتو فیض کچھ عرصہ بعد ملک سے باہر چلے گئے۔بیروت میں فلسطینی کاز کو تقویت پہنچانے کے لئے کام کیا۔ لوٹس کے مدیربنے ۔وطن کی کشش پاکستان واپس لائی لیکن شاید یہ مٹی کا بلاواتھا۔ پاکستان واپسی کے تھوڑے عرصہ بعد ۱۹۸۴ء میں فیض فوت ہوگئے۔(میری محبتیں از حیدر قریشی ص ۱۰۰۔۱۰۱ )