(Last Updated On: )
فیض احمد فیض نے اپنی شاعری میں مظلوم طبقے کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ۔ جذبوں کی صداقت،تمثالوں کی تازگی ، لفظ کے تخلیقی استعمال اور امیجری کی ندرت فیض کے کلام کے ا متیازی اوصاف ہیں ۔تخلیقی اعتبار سے فیض کا کلام حریت فکر اور جرات اظہار کی اعلیٰ مثال ہے ۔ ان کا نظام فکر انقلابی تصورات سے مزین ہے، ظلم واستبداد کے خلاف ان کی آواز قتدار کے ایوانوں میں لرزہ برپا کر دیتی ۔قید و بند کی صعوبتیں بھی انھیں حق گوئی سے باز نہ رکھ سکیں ۔ اپنے افکار اورجرات اظہا ر کی بدولت فیض کو بین الا قوامی حثیت حاصل ہے ۔ فیض کو بین الاقوامی اہمیت دلانے کا تمام تر انحصار ان کی شاعری پر ہے ۔ ان کی شاعری خلوص ، صداقت اور انصاف کا پرچار کرتی ہے ۔ ظالمانہ استحصالی و استبدادی نظام کے خلاف ان کے خیالات ہمیشہ فکر ونظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوں گے ۔ فیض کی شاعری ملکی اور بین الاقوامی تاریخ کے نشیب وفراز پر محیط ہے ۔ ان کا سیاسی اور سما جی مرتبہ جوکچھ بھی ہو مگر ان کی جرات اظہار ، بے باکی اور ظلم کے خلاف بھرپور احتجاج پر مبنی ان کی شاعری انھیںاردو ادب میں بلند منصب عطا کرتی ہے ۔ فیض کے کلام کی حقیقی اہمیت اور قدروقیمت کا تعین کر نے کے لیے ان کی شاعری کے ادبی محاسن ہی کافی ہیں ۔ وہ حریت فکر کا علم بلند رکھتے ہوئے ظلم کے کریہہ چہرے سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ ادبی اعتبار سے فیض کا یہ اسلوب انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔
برطانوی استبداد کا خاتمے کے بعد توقع تھی کہ پاکستان میں سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ وجود میں آئے گالیکن آزادی کے بعد ہمارے ہاںسماجی اصلاح کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہ ہوسکا ۔ سیاسی نظام مفلوج کردیا گیااور رہی سہی جمہوریت کاگلا گھونٹ دیا گیا ۔ فیض نے اس جبر کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جس کے نتیجے میں انھیں گرفتار کرلیا گیالیکن جوں جوں صعوبتیں بڑھتی گئیں ان کی آواز لہو ترنگ ہوتی گئی۔ فیض نے مظلوموں کی حمایت اور جبر کے خلاف احتجاج کو مطمح نظرٹھہرایا ۔ انھوں نے جو کچھ کہا ڈنکے کی چوٹ پہ کہا ۔ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں فیض کی شاعری حوصلے اور امید کی نقیب ہے ۔ ان کی شاعری جہد مسلسل اور قوت وحرکت کی پیغا م بر ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ فیض کی شاعری میں دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کے ساتھ دلی وابستگی کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔ بقول احمد ندیم قاسمی :
’’ فیض کو سامراج سے نفرت ہے ۔ سرمایہ داری اورجاگیرداری سے نفرت ہے ۔ غلامی اور محکومی سے نفرت ہے ۔ گنے چنے انسانوںکے ہاتھو ں کروڑوں انسانوں کے سفاکانہ استحصال سے نفرت ہے ۔ جبر اور ظلم سے نفرت ہے۔‘‘ (1)
فیض نئی آگہی اور نئی حسیت کے شاعر تھے ۔ وہ ظلم سے نفرت کرتے ہیں اور مظلوم انسانیت سے محبت کرتے ہیں ۔ وہ حق وانصاف کی بالا دستی کے خواہاں ہیں ۔ فیض نے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو اپنے شعری تجربوں کی اساس بنایا ہے ۔ ان کے شعری تجربے میں اپنے عہد کے تمام اہم واقعات شامل ہیں جنھیں بیان کرکے انھوں نے حرف صداقت لکھنے کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ملی حوادث اور قومی مسائل کے بارے میں فیض جو مجموعی تاثر پیش کرتے ہیں وہ ان کے جرات مندانہ اندازِ فکر کا نقیب ہے وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے ۔ جب ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہو اور لب اظہار پر تالے ہوں تو ان لرزہ خیز حالات میں شاعر جو کہ قوم کی دیدہ بیناہوتا ہے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قو م کو فکری رہنمائی فراہم کرے اور حب الوطنی کے جذبات کو مہمیز کرکے قومی بیداری کے سلسلے میںاپنا حقیقی کردار ادا کرے ۔شعر وادب کے حولے سے ادیب کا کیا کردار ہونا چاہیے اس سلسلے میں فیض احمد فیض نے وضاحت کی ہے:
’’ ادیب کا کردار محدود ہوتا ہے کیونکہ وہ حکومت تو چلا تا نہیں ہے ، وہ تو محض عوام کا ترجمان ہو تا ہے اور عوام کی ذہنی اور جذباتی تر بیت کرتا ہے۔‘‘ (2)
فیض نے عالمی سطح پر اپنے انداز فکر کی افادیت کا لوہا منوایا ۔ فیض کے تصوارات اور نظریہ حیات کی اساس انسانیت سے دلی وابستگی ہے ۔ انھوں نے محدود قومیت ، فرقہ پرستی اور ہرقسم کی عصبیت کو ہدف تنقید بنایا ۔ وہ مذہب کے شیدائی تھے ۔ انھوں نے اپنے آبائی گائوں کالا قادر میں ایک بوسیدہ مسجد کو نئے سرے سے اپنی جیب سے تعمیر کرایا لیکن مذہبی جبر کو ہمیشہ ناپسند کیا ۔ اپنے عہد کے پر آشوب ماحول کے بارے میں ان کے اشعار جرات اظہار کی شاندار مثال ہیں ۔ وہ ہمیشہ حکومت کے معتوب رہے۔ صد ر ایوب کے زمانے میں وہ لاہور آرٹس کونسل کے ڈائریکڑتھے ۔ قدر ت اللہ شہاب نے اس زمانے کا ایک واقعہ لکھا ہے :
’’جس زمانے میں فیض صاحب لاہو ر آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر تھے ، جسٹس ایس اے رحمان نے ایک روز مجھ سے فرمایاکہ اگر صدر مملکت اس ادارے کو کسی وقت وزٹ کر لیں تو ممکن ہے اس کے کام میں چند مقا می رکاوٹیںدور ہو جائیں ۔صدر تو بہ خوشی مان گئے لیکن گورنر نواب کالاباغ نے خود آنے سے صاف انکار کر دیا۔انھیں منانے کی کوشش کرنے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے پاس پنجاب پولیس کا ایک نامی گرامی افسر بیٹھا ہوا تھا،نواب صاحب نے دو ٹوک جواب دے دیاکہ وہ ایسے کنجر خانوں میں جانا پسند نہیں کرتے ،صدر صاحب کو بھی وہاں مت لے جائو۔فیض احمد فیض کے متعلق نا پسندیدگی کا اظہار فرمانے کے بعد انھوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے پولیس افسر کی طرف اشارہ کیا ’’ فیض کے لیے میں نے یہ السیشن پال رکھا ہے صدر کے دورے کے بعد اسے چھوڑوں گا‘‘پولیس افسر نے بیٹھے ہی بیٹھے اپنی دم ہلائی اور سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا۔میں نے فیض صاحب کو یہ واقعہ سنایا تو وہ اپنے دستور کے مطابق مسکرا کر چپ ہو رہے اور تھوڑے عرصے بعد وہ نہایت خاموشی سے آرٹس کونسل سے رخصت ہو گئے ‘‘(3)
زندگی کی تلخیوں ،ابتلا اور آزمائش کو فیض احمد فیض نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔وہ عزم و ہمت کی چٹان بن کر آلام روزگار کے مسموم بگولوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے تھے۔اپنی شاعری میںبھی انھوں نے ہمیشہ اسی طرح کا رویہ اپنانے کی تلقین کی ۔زندگی ان کے نزدیک جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کے مانند تھی۔زندگی ،اس کے غیر مختتم مسائل اور کڑی آزمائشوں کے بارے میں وہ کبھی حرف شکایت
لب پر نہ لائے۔ان کے مزاج میں ایک منفرد نوعیت کی شان استغنا تھی جو ہر حال میں ساغر کو نگوں رکھنے پر مائل کرتی اور وہ اس پر قانع رہتے تھے ۔ان کے کلام میںایک جانباز شاعر،ہمدرد انسان،جری تخلیق کار
اور حریت فکر کے مجاہد کے ضمیر کی للکار آج بھی قصر شاہی کے بلند و بالا ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتی ہے ۔انھوں نے نہایت سکون اور ضبط و تحمل سے کام لیتے ہوئے نہ صرف جبر کا ہر انداز مسترد کیا بلکہ اس جانب بھی توجہ دلائی کہ جو ظلم پہ لعنت نہیں کرتا وہ آپ لعین ہے اور جو بھی شخص جبر کا منکر نہیں وہ تو خود دین کی آفاقی تعلیمات کا منکر ہے ۔پرورش لوح و قلم کے دوران جو کچھ ان کے دل پر گزرتی وہ رقم کرتے رہے اور کسی
صورت میں بھی ظالم و سفاک موذی و مکار استحصالی قوتوں کے فسطائی جبر سے ہراساں نہ ہوئے۔انسانیت کی عزت و تکریم ،انسانی حقوق کی بحالی ،معاشرتی انصاف اور سلطانی ء جمہور کے لیے انھوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں پوری دنیا میں ان کا اعتراف کیا گیا۔آمریت کے خلاف ان کی بلند آواز نے سلطانی ء جمہور کے لیے جدو جہد کرنے والوں کے دلوں میں ایک ولولہ ء تازہ پیدا کر دیا۔فیض احمد فیض کی حق گوئی و بے باکی مقتدر حلقوں کو سخت ناگوار گزرتی تھی۔اس لیے وہ اکثر ریاستی جبر کا نشانہ بنتے مگر ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔وہ جانتے تھے کہ کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے قربانیاں ناگزیر ہیں۔فیض احمد فیض کی شاعری میںسیاسی لے نرم لہجے میں بڑی کاٹ کی حامل ہے ؎
آگئی فصل سکوں چاک گریباں والو
سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سلے نہ سلے
دوستو بزم سجائو کہ بہار آئی ہے
کھل گئے زخم ، کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے
فیض احمد فیض نے سیاسی اور معاشرتی زندگی کے ارتعاشات کے بارے میں نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ اپنے جذبات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ۵ جنوری ۱۹۶۵ ء کو صدر ایوب کی کامیابی کی خوشی میں کراچی میں جشن فتح یابی کے نام سے ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا ۔ صدراتی انتخاب میں ڈھاکہ اور کراچی کے رائے دہندگان نے بھاری اکثریت نے صدرایوب کے خلاف حق رائے دہی استعمال کیا ۔ جشن فتح یابی کے موقع پر لیاقت آباد اور چند دوسرے علاقوں میں زبردست چھڑپیں ہوئیں ۔ رات کی تاریکی میں ان بستیوں پر شدید حملے کیے گئے اس قدر جانی اور مالی نقصان ہو ا کہ۱۹۴۷ء کے المناک واقعات کی یاد تازہ ہوگئی ۔ فیض احمد فیض نے صدراتی انتخاب اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر غم وغصے کا اظہار کر تے ہوئے کہا ؎
لہو کا سراغ
ٓ کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن ِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ ِ نوک سناں
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمت ِ شاہاں کہ خوں بہادیتے
نہ دیں کی نذ ر کہ بیعانہ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا ، یتیم لہو
کسی کو بہر ِسماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی ، نہ شہادت ، حساب پاک ہو ا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا ، رزق خاک ہوا
فیـض احمد فیض کی شاعری میں مقامیت کے ساتھ ساتھ عالمگیریت بھی موجود ہے ۔ فیض نے ملکی حالات ، تاریخ ، ثقافت اور معاشرت سے گہرے اثرات قبول کیے ہیںاس کے باوجود فیض کی شاعری آفاقیت کی حدود کو چھو لیتی ہے۔ ان کی شاعری اقتضائے وقت کے مطابق ہر عہد میں اذہان کو مستنیر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوگی ۔ ان کی شاعری میں عصری عوامل حریت فکر کے مظہر ہیں ؎
دیدہ تر پہ وہا ں کون نظر کرتا ہے
کاسہ چشم میں خوں ناب ِ جگر لے کے چلو
اب اگر جائو پئے عرض طلب ان کے حضور
دست وکشکول نہیں کاسہ سر لے کے چلو
فیـض احمد فیض کی شعری عظمت کاثبوت یہ ہے کہ ان کی شاعری نے مشرق کی فضائوں سے نکل کر مغرب میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے ستم رسیدہ انسانو ں کاہمیشہ ساتھ دیا ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلسل استحصال کا شکار اور سماج کے ستائے ہوئے مجبور افراد جب اپنی نجات کا کوئی ذریعہ نہیں پاتے تو باغیانہ خیالات انھیں دبوچ لیتے ہیں۔ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی میں بے اطمینانی،بے
سکونی روز افزوں ہے۔فرد کی عدم شناخت اور بے چہرگی نے ایک گمبھیر مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے ۔فیض احمد فیض کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔زندان نامہ کے مقدمہ میں ’’روداد قفس‘‘ کے
عنوان کے تحت سابق میجر اسحق رقم طراز ہیں :
’’فیض صاحب 9 مارچ1951کو قید ہوئے اور اپریل 1955میں رہا ہوئے۔اس عرصے میں وہ پہلے تین مہینے سرگودھا اور لائل پور کے جیلوں میں قید تنہائی میں رہے اس کے بعدجولائی 1953تک حیدرآباد (سندھ)جیل میں راول پنڈی سازش کیس کے باقی اسیروں کے ساتھ رہے۔حیدرآباد میں دوران مقدمہ کے دن بھی عجیب دن تھے ۔تین مہینوں سے ٹوڈی قسم کے لوگ اخباروں، اشتہاروں، جلسوں،جلوسوں میں ہمیں گولی کا نشانہ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔بعض اخباروں نے ’’ غدار نمبر ‘‘ نکال دیئے تھے ۔کچھ اس قسم کا ما حول پیدا کر دیا گیا کہ ملک میں ہر مرد آزاد یہ سمجھنے لگا تھا کہ اس کو بھی سازش میں دھر لیا جائے گا۔چاروں طرف ایک دہشت اور سرا سیمگی کی فضا تھی اور ہمارے رشتہ داراور دوست ہماری جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ‘‘
لائو تو قتل نامہ مرا
سننے کو بھیڑ ہے سر محشر لگی ہوئی
تہمت تمھارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی
رندوں کے دم سے آتش مے کے بغیر بھی
ہے میکدے میں آگ برابرلگی ہوئی
آباد کرکے شہرِخموشاں ہر ایک سُو
کسِ کھوج میں ہے تیغِ ستم گر لگی ہوئی
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میان ِ قاتل و خنجر لگی ہوئی
لائو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کسِ کسِ کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
جبر کے ماحول میں تو طیور بھی اپنے آشیاں میں دم توڑ دیتے ہیں۔فیض احمد فیض نے ان تمام دشواریوں کے باوجود حوصلے اور استقامت سے حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔مسائل زیست کی یلغار اور مصائب کی بھر مار معا شرتی زندگی کو عدم توازن اور بے اعتدالی کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے ۔اس الم ناک صور ت حال میں استحصالی عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ مجبوروں کے چام کے دام چلاتے ہیں ۔دہشت گردی،بھتہ خوری،منشیات فروشی اور جرائم کا ایک قبیح سلسلہ چل نکلتا ہے جس کے مسموم اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر مرتب ہوتے ہیں۔فیض احمد فیض نے معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد اپنے جذبات،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو نہایت خلوص اور دیانت داری سے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔اس سے ان کے انقلابی اور وجدانی شعور کا سراغ ملتا ہے ۔ ان کا جرات مندانہ اسلوب ہی ان کی پہچان ہے ۔ ان کی آواز اپنے عہد کی حقیقی اور نمائندہ آواز ہے جس نے زندگی اور اس کی مقتضیات کی صحیح ترجمانی کرکے دلوں کو ولولہ تازہ عطا کیا ، انسانوں کو شعور حیات سے آشنا کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے انصاف ، آزادی فکر اور سچائی کی نئی راہوں کی جستجو کو نصب العین بنایا ۔ فیض نے تمام عمر جمہوریت ،آزادی اظہار،تیسری دنیا کے مسائل ، سیاسی آزادی اور معاشرتی اور سماجی انصاف کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات ،تہذ یبی اور ثقافتی اقدار اور عوامی مسائل کے بارے میں ان کے جرات مندانہ خیالات اس بے ساختہ پن سے شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں جس طرح زندگی اپنے نشیب وفراز سے گز ر کر ارتقائی منازل طے کرتی ہے ۔ فیض ایک نظریاتی شاعر تھے ۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے ان کی شاعری کو نئی جہت عطا کی ۔ فیض کی سیاسی شاعری میں بھی حریت فکر کے جذبات سطح فائقہ پر نظر آتے ہیں ؎
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماںسے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کی ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کی مر جانے کو جی چاہتا ہے
فیض احمد فیض نے انسانی اقدار کی سربلند ی کو موضوع سخن بنایا ۔ وہ ہمیشہ جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔فیض احمد فیض کی کی وسعت نظر ی ان کے تخلیقی عمل کو میعار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرتی ہے ۔انھوں نے اپنی شاعری کے معجز نما اثر سے آزادی ،انسانی حقوق ،عدل اور جمہوریت کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں انھوں نے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی مساعی کیں ۔فیض احمد فیض نے جہد للبقا اور حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد میں فرد کی فعال اور بھر پور شرکت کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا۔ان کا خیال تھا کہ جب تک افراد کو معاشرے میں ترقی اور نمو کے مساوی مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ،اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون کا قیام نا ممکن ہے۔معاشرتی زندگی میں تمام خرابیاں نا انصافیوں اور استحصال کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔انھوں نے سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اور عالمی تناظر میں حقائق کا تجزیہ کیا اور شاعرانہ اسلوب کو ازلی اور ابد ی صداقتوں سے ہم آہنگ کر کے ایک منفرد راہ اپنائی۔ان کے نزدیک زندگی کی مثال مفلس کی قبا کی سی ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔متاع لوح و قلم چھن جانے کے بعد بھی وہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر پرورش لوح و قلم کرتے رہے ۔ان کو اس بات کا شدید قلق تھاکہ اجالا داغ داغ اور سحر
شب گزیدہ بنا دی گئی ہے۔ان کا یہ کہنا کس قدر کرب کا مظہر ہے
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
تمام تر تلخیوں کے باوجود وہ پر امید رہنے پر اسرار کرتے ہین ۔ان کو یقین ہے کہ فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم ضرور آئے گا۔وہ کھیتی کے کونے کھدروںمیں اپنے لہو کی کھاد بھرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اگلی رت کی فکر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ان کی یہ نظم اسی جانب اشارہ کرتی ہے
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
فیض احمد فیض نے نئے خیالات ، نئے اسالیب اور متنوع موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ ان کے ہاں عصری آگہی کا عنصر بہت نمایا ں ہے۔یہ عصری آگہی اپنی نوعیت کے اعتبار سے دو مداروں میں سر گرم عمل دکھائی دیتی ہے ۔پہلا مدار معاشرے ، سماج ، وطن اوار اہل وطن کے مسائل پر محیط ہے جب کہ دوسرے مدار میںآفاقی اور کائناتی موضوعات سما گئے ہیں ۔ حیات و کائنات کے جملہ اسرار و رموز اور معاشرتی زندگی کے پیچ و خم اس انداز میں شیر وشکر ہو گئے ہیں کہ قاری دم بہ خود رہ جاتا ہے اور اسے روحانی مسرت کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ شاعری حیات افزا تصورات اور حیات بخش تجربات کی آمیزش سے جام جہاںنما کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔زندگی بسر کرنے ، زندگی کے تلخ حقائق کا احساس وادراک اور حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیا ر کرنے کی تلقین کرنا فیض احمد فیض کی شاعری کا اہم ترین موضو ع قرار دیا جاسکتا ہے۔
جب بھی ظلم واستبداداور استحصالی عناصر کا قبیح کردار زیر بحث آتا ہے تو فیض کا تخلیقی عمل ایک شعلہ جوالا بن جاتا ہے ۔وہ دل فگاروں کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ رخت ِدل باندھ کر آگے بڑھیں اور دست وکشکول کے بجائے کاسہ سر لے کے چلیں اور کسی قربانی سے دریغ نہ کریں ۔ ان کی شاعری میں سرفروشی کے بد لتے ہوئے انداز سامنے آتے ہیں ۔ مقتل شہر میں کوئی گردن میں طوق ڈالے نمودار ہوتا ہے اور کوئی کاندھے پہ دار لادے وارد ہوتا ہے۔
فیض احمد فیض نے استحصالی قوتوں اور آمریت کے بتوں کو پاش پاش کرنے کے سلسلے میں اپنی شاعری کو ایک مو ثر قوت کے طور پر استعمال کیا۔ فیض کا دھیما لہجہ لہو قلب ونظر کو مسخر کرنے پرقادر ہے۔ حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں کے لیے ان کی شاعری میں حوصلے اور امید کا پیغام ہے ۔ معاشرتی ناانصافیوںکی بھینٹ چڑھنے والے مظلوم طبقے کی حمایت میں انھوں نے آواز بلند کی اور جبر واستبداد کے خلاف بھرپور احتجاج کومطمح نظرٹھہرایا ۔ ان کی شاعری پاکستان کی سیاسی تاریخ کے نشیب وفراز کامکمل احاطہ کرتی ہے ۔
ڈھاکہ سے واپسی پر :
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملا قاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوںکے بعد
فیض کی نظریاتی وابستگی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ انھوں نے ا پنے لیے ایک واضح نصب العین کا تعین کیا اور دوسروں کو بھی حق وصداقت کی راہ پر گامزن ہونے کی تلقین کرتے رہے ۔ وہ گریہ وزاری کے بجائے جہد وعمل اور احتجاج پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہ رویہ ان کی شاعری میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔فیض احمد فیض کا نام شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کر چکا ہے ۔
مآخذ
(۱)احمد ندیم قاسمی :فیض کی شاعری کا طلسم،فنون ،لاہور،مئی ،۱۹۸۵، صفحہ ۵۴َ
(۲)طاہر مسعود :فیض احمدفیض سے انٹرویو،جنگ ،کراچی ،۳۰ نومبر ،۱۹۸۴،صفحہ ۱۱۔
(۳)قدرت اللہ شہاب :بیاد فیض ،جنگ ، لاہور،۱۹ نومبر ۱۹۸۳،صفحہ ۷۔